انسائیکلو پیڈیا آف قرآن!

تذکیر قصص القرآن:

(ف) قرآن مجید میں مخلوقات کے عجائب کا علم ،ملکوت ارض وسماوات کا علم،اس چیز کا علم جو آسمان وتحت الثریٰ میں ہے۔خلق کے آغاذ کا علم،مشاہیرانبیاءؑ ورسلؑ اور ملائکہ کا نام اور گزشتہ امتوں کے احوال کا ذکر موجود ہے۔مثلا ً حضرت آدمؑ کاابلیس کے ساتھ جنت سے نکلنا،اولاد کا نام عبدالحارث رکھنا،حضرت ادریسؑ کا آسمان پر اٹھایا جانا۔نوح ؑ کی قوم کا غرق ہونا۔عاد اولیٰ وثانیہ کا ہلا ک ہونا۔تبع کا واقعہ۔حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ۔اصحاب کہف والرقیم کا واقعہ۔اصحاب الرس کا واقعہ۔ثمود اور اونٹنی کا قصہ۔قوم لوطؑ اور قوم شعیبؑ اور اُنکا دوبار مرسل ہونا۔موسیٰؑ کی ولادت دریا میں پھینکنے ،قبطی کو قتل کرنے۔پھر مدین جانے پھر حضرت شعیبؑ کی بیٹی سے نکاح کرنے پھر کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے،فرعون کے پاس واپس آنے،اُن کے مصر سے (خراج) فرعون ک ڈوبنے۔بچھڑے کی پُوجا۔قوم پر بجلی گرنے۔بنی اسرائیل کے مقتول اور گائے کو ذبح کرنے۔حبارین کا قتل۔حضرت خضرؑ کے ساتھ حضرت موسیٰ ؑ کی مصابحت۔اورسفر ۔سرنگ ک راستے قوم کے چین جانے کاذکر۔طالوت اور داؤد کا جالوت کے ساتھ قصہ۔حضرت سلیمانؑ کا واقعہ بلکہ سباء بلقیس کے ساتھ،اُس قوم کا ذکر جو طاعون کے ڈ ر سے بھاگ نکلی۔۔اللہ نے اُن کو مار کر پھر زندہ کیا۔حضرت ابراہیم ؑ کا اپنی قوم سے مجادلہ اورنمرود مردود کے ساتھ مناظرہ۔حاجرہ واسماعیل ؑ کو مکہ چھوڑ آنے کا واقعہ۔تعمیر خانہ کعبہ،حضرت اسماعیلؑ ذبیح کا واقعہ،حضرت یوسفؑ کا قصہ بڑی شروح وبسط سے مذکور ہے۔جس میں عشق ونسق کی مذمت اور تقویٰ وطہارت کی مدح ہے۔حضرت مریمؑ اور عیسیٰؑ کی ولادت کا ذکر اور اُن کے رفع ونزول آسمان کا ذکر۔حضرت ذکریا علیہ السلام کا قصہ۔حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قصہ۔حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ۔زی الکفل ،ذوالقرنین کا ذکر،اُن کا طلوع وغروب آفتاب کے مقام تک پہنچنا۔ یاجوج اور ماجوج کے سامنے سد سکندری بنانا۔بُخت نصر کاقصہ۔اُن دو شخصوں کا ذکر جن میں ایک صاحب باغ تھا۔اصحاب کہف کا واقعہ قصہ مومن آل یاسین کا۔اصحاب فیل کا قصہ اس جبار کا قصہ جس نے آسمان پر چڑھنے کا ارادہ کیا تھا۔یہ سب قصص قرآن مجید میں بیان ہوئے اور ہر قصے میں اس قدر مواعظ ونصیحت اور حکمتیں بیان ہوئی ہیں جن کی تفصیل کے لئے یہ صفحات ناکافی ہیں۔


سیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القرآن:

(ف) قرآن مجید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ،ہجرت،دعوت ابراہیمیؑ اوربشارت عیسیٰؑ کا ذکر ہے۔منجملہ غزوات کے سورہ انفال میں غزوہ بدر کا ذکر ہے۔سورہ آل عمران میں غزوہ اُحد کا ذ کر ہے۔ سورہ احزاب میں غزوہ خندق کا ذکر ہے۔سورہ حشر میں بنو نضیر کا ذکر ہے۔سورہ فتح میں حدیبیہ کا ذکر ہے۔پھر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت جحش کے ساتھ نکاح ۔تحریم بریہ۔ازواج مطہرات کے ساتھ ظہار۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ واقعہ افک۔شب معراج کا قصہ۔انشقاق قمر اور یہودیوں کے جادو کا قصہ۔قرآن مجید میں تفصیلاً یا مجملا جیسا اور جس جگہ مناسب اورضروری تھا۔نازل کیا ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کی قسم کھائی۔

﴿لَعَمرُكَ إِنَّهُم لَفى سَكرَتِهِم يَعمَهونَ ﴿٧٢﴾... سورةالحجر

"(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تمھاری جان کی قسم وہ ا پنی بے ہوشی اور مدہوش ہورہے تھے۔"

اسلامی سیرت کی تمام کتب انھیں حالات وواقعات کی تشریح اور ان مقالات کی تفصیل ہیں۔

احوال قیامت:

(ف) انسان کا حال آغاز تخلیق سے موت تک مع کیفیت موت وقبض روح ذکر کیا ہے۔پھر یہ بیان کیا ہے کہ روح کے آسمان کی طرف لوٹنے کے بعد کیا ہوتا ہے۔مومنین کے لئے دروازے کھولے جاتے ہیں۔اورکفار کو اُوپر سے نیچے گردیتے ہیں عذاب قبر،سوال قبر،مقبر ارواح اور اشراط ساعت کبریٰ کا الگ کا ذکر ہے۔یہ دس علامتیں ہیں۔نزول عیسیٰؑ خروج دجال ظہور یا جوج ماجوج سیردابۃ الارض۔دخان۔(دھواں) رفع قرآن ظہور شمس از غرب۔توبہ کا دروازہ بند ہونا۔خسف(زمین میں دھنس جانا) اوراحوال بعث جیسے پہلی دفعہ فزع (بے چینی۔پریشانی) صعق(کڑک) کے لئے صور کا پھونکنا۔صور کا دوسری دفعہ بعث۔حشر اور نشر کے لئے پھونکنا۔خوف الٰہی کی وجہ سے قیامت کے دن کھڑا نہ ہوسکنا۔آفتاب کی حرارت کی شدت ۔عرش کا سایہ۔پُل صراط۔میزان۔حوض کوثر۔حساب۔ایک قوم کا بے حساب ہونا۔دوسری قوم کوعذاب دیا جانا۔اعضاء کی گواہی نامہ اعمال کادائیں یا بائیں ہاتھ میں دیا جانا۔یاپشت سے۔ شفاعت اور جنت کا ذکر۔ اور جو کچھ جنت میں ہوگا۔ جیسے جنت کے آٹھ دروازے۔نہریں باغات ۔اثمار۔زیورات۔ظروف(سونے چاندی کے برتن)مختلف درجات۔رویت الٰہی۔آگ کا ذکر اور جوکچھ آگ میں ہے۔مختلف وادیاں (جہنم کی) عذاب کی مختلف اقسام جیسے زقوم حمیم اورغسلین ان سب کا حال اگر تفصیل سے لکھاجائے۔تو کئی جلدوں کی ضرورت ہے۔جتنی کتابیں ثقہ ائمہ اسلام نے اس بارہ میں لکھی ہیں۔وہ سب کتابیں گویا قرآن کی تفسیر ہیں۔ان اُمور کے لئے جن کو انھوں نے سُنت صحیحہ وآثار قویہ سے صراحتاً یا اشارتاً اجمالاً یا تفصیلاً سمجھا ہے۔

حدیث قرآن مجید کی تفسیر ہے:

(ف) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے سارے اسماء حسنیٰ موجود ہیں۔جس طرح حدیث صحیح میں آیا ہے۔کہ اللہ تعالیٰ کے نناوے نام ہیں۔جو کوئی انھیں یاد کرے گا جنت میں جائے گا۔ان اسماء حسنہ کے علاوہ اللہ کے دیگر اسماء وصفات تقریباً ایک ہزار ہیں۔اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے نام اس میں ہیں۔

قرآن مجید کی تفہیم علم سنت پر موقوف ہے:

ایمان کے ستر سے اوپر کچھ شعبوں کا بھی ذکر ہے۔شرائع (قوانین) اسلام تین سو پندرہ آئے ہیں۔کبیر گناہوں کی اقسام کا ذکر الگ کیا گیا ہے۔اور صغیرہ گناہوں کی اقسام کا ذکر جدا بتایا گیا ہے۔ہر حدیث نبوی کی تصدیق علیحدہ کی گئی ہے۔سو جب سارا علم حدیث مع تمام سنت مطہرہ کے قرآن مجید کی تفسیر اور تشریح ٹھہرا تو یہ سمجھو کہ قرآن مجید کی تفہیم علم سنت پر موقوف ہے۔پس جس کو علم حدیث نہیں ہے۔وہ عالم قرآن بھی نہیں ہے۔اسی طرح جب کوئی حامل سنت نہیں ہے۔وہ عامل قرآن بھی نہیں ہوسکتا۔گو زبانی دعویٰ فہم یا عمل بالکتاب کا کیوں نہ کرے جس طرح کہ اہل رائے وغیرہ اصحاب بدعت کیا کرتے ہیں۔

﴿تِلكَ أَمانِيُّهُم...﴿١١١﴾ سورة البقرة

"یہ آرزوئیں باندھ لی ہیں انھوں نے"

ہنوز ولی دوراست۔

غرض یہ کہ قول مجمل بیان میں فضائل کتاب اللہ کے یہ ہے جو اس جگہ بطور نمونہ ذکرکیا گیا ہے۔

جس علم وفن قرآنی کو دیکھو خواہ صریح ہو یا بطور اشارہ محبوب دلکشی رکھتا ہے۔

محذرات سرپردہ ہائے قرآنی
چہ دلبرند کہ دل می برند پنہانی!


قرآن وحدیث کی لذت وہی شخص پاسکتا ہے۔جس کو علم نافع کے ساتھ ساتھ اخلاص دل کے زریعے عمل صالح کی توفیق بھی حاصل ہو۔ورنہ اکثر اہل زمانہ کی وہی مثل ہے۔ع۔کہ نکتہ واں نشو وکرم گر کتاب خورد!

احکام قرآن واستنباط مسائل:

انواع علوم قرآن میں بہت لوگوں نے کتابیں تصنیف وتالیف کی ہیں کسی نے اسباب نزول میں کسی نے معرب ومبہات میں کسی نے مواطن نزول میں سب سے زیادہ جامع کتاب سیوطی ؒ کی "الاتقاق" ہے۔ان کا احسان ساری اُمت کی گردن پر ثابت ہے۔پھر انھوں نے مختصر طور پر کتاب اللہ کی بعض آیات کے سسلسلے میں اہل علم کے اچھے اچھے استنباط "کتاب المحلل"میں دیتے ہیں۔جن کے دیکھنے سمجھنے سے سنجیدہ عالم دین اور عاقل مرد کے دل میں کتاب اللہ کی قد ر بڑھتی ہے۔امام غزالی ؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ احکام کی آیات تعداد میں پانچ سو ہیں۔بعض نے کہا ایک سو پچاس ہیں۔شاید ان اصحاب کی مراد یہ ہوگی کہ صریح احکام اتنی ہی آیات میں ہیں۔ورنہ آیت قصص وامثال وغیرہ سے بہت سے احکام مل سکتے ہیں۔

حافظ ابن الوزیہ نے لکھا کہ جن آیات واحکام کا حفظ رکھنا ایک مجتہد مطلق کے لئے ضروری ہے وہ ایک سو تیتینس ہیں۔پس میں ان آیات کی تفسیر عربی میں لکھی ہے۔اس کا نام "نیل المرام" ہے۔

شیخ عزالدین بن عبدالسلام نے"کتاب الامام" میں لکھا ہے کہ:

"اللہ نے قرآن مجید میں جو امثال زکر کی ہیں۔ان کامطلب تزکیر وموعظت ہے۔اسلئے کہ ان میں سے بعض بیان تفاوت ومراتب ثواب وحبط عمل یا مدح وذم افعال مشتمل ہیں۔سو یہ سب امثالی احکام پر دلیل ہیں پھر یہ کیا ہے کہ معظم آیات قرآن احکام سے خالی نہیں ہیں۔کچھ ابواب حسنہ اور اخلاق جمیلہ پر مشتمل ہیں۔کسی آیت سے کوئی حکم صراحتا ً نکلتا ہے۔کسی آیت سے بطور استنباط حاصل ہوتا ہے۔خواہ دوسری آیات سے ملا کر نکالا جائے۔یا بغیر ملانے کے۔

جیسے"استنباط تحریم،"استمنا بالید"اس آیت سے نکالا گیا ہے:

﴿إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ مَلومينَ ﴿٦﴾ فَمَنِ ابتَغىٰ وَراءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورة المؤمنون

"مگراپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (اُن سے مباشرت کرنے سے) انھیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (اللہ کی مقرر کی ہوتی) حد سے نکل جانے والے ہیں۔

اور کفار کے نکاح کا صحیح ہونا اس قول سے استنباط کیا گیا ہے:

﴿وَامرَأَتُهُ حَمّالَةَ الحَطَبِ ﴿٤﴾... سورة اللهب

"اور اس کی جورو بھی ایندھن سر پر اٹھائے پھرتی ہے۔

اور جنبی کے روزے کے صحیح ہونے کا اس آیت سے استنباط کیا گیا ہے:

﴿فَالـٔـٰنَ بـٰشِروهُنَّ وَابتَغوا ما كَتَبَ اللَّهُ لَكُم وَكُلوا وَاشرَبوا حَتّىٰ يَتَبَيَّنَ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة

"اب(تم کو اختیار ہے کہ) اُن سے مباشرت کرو۔۔۔حتیٰ کہ واضح ہو۔

یہ سب کسی دوسری آیت ملائے بغیر استنباط کی مثالیں ہیں۔دوسری آیت کے ساتھ ملاکر استنباط کرنے کی مثال یہ ہے۔چھ مہینے کے حمل کا استنباط اس آیت سے ہے:

﴿وحمله وفصاله ثلاثون شهرا﴾(الاحقاف:15)

"اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا اڑھائی برس میں ہوتا ہے۔"(الاحقاف۔15)

اور ﴿وفصاله فى عامين﴾(لقمان:14)

"اور (آخر کار) دو برس میں اُس کادودھ چھڑانا ہوتا ہے۔(لقمان ۔14)

پھر کبھی یہ استدلال احکام پر کس صیغے سے ہوتا ہے۔کبھی اخبار سے جیسے:

﴿احل لكم﴾۔۔۔﴿حرمت عليكم﴾۔۔۔﴿كتب عليكم﴾ کبھی اس خیر وشر نفع و ضرر سے جو جلد یا بدیر مرتب ہوتا ہے۔پھر اس کی اقسام ہیں۔جیسے ترغیب وترہیب عباد۔تقریب الی الافہام۔سو جو کام ایسا ہے۔کہ جسے شارع نے معظم رکھا ہے یا اُس کی مدح کی ہے۔یا اُس کے فاعل کو ممدوح کہا ہے یا اس کو یا اس کے فاعل کو محبوب ٹھہرایا ہے۔یا س سے یا اس کے فاعل سے رضا مندی ظاہر کی ہے۔یا اُس کو موصوف باستقامت یا برکت یا طیب فرمایا ہے یااُس کی یا اُس کے فاعل کی قسم کھائی ہے۔جیسے قسم۔"شفع ودتر" خیل مجاہدین نفس لوامہ یا اس کو ذکر ومحبت کا سبب یا جلد یا بدیر ثواب کا باعث یا شکر یا ہدایت کا سبب یا مغفرت گناہ یا تکفیر سیات یا قبول یا نصرت فاعل یا بشارت کا سبب ٹھرایا ہے۔ یا کسی کرنے والے کو معروف کہا یا اس کے فاعل سے حزن یا خوف کی نفی فرمائی یا اس کو امن کا وعدہ دیا یا اسے اپنی ولایت اور قرب کا سبب جانا یا اس کی تعریف کی جیسے حیات یا نور شفا یا رحمت تو یہ ساری اقسام ان کی مشروعیت پر دلیل ہیں۔خواہ وہ واجب ہوں یا مستحب۔اور جس کام کا ترک کرنا شارع کا مطلوب ہو یا اُس کے فاعل کو مذموم کہا یا اُس پر عتاب کیا یا اس کو د شمن رکھا یا اُپر پر لعنت کی یا اُس پر محبت کی نفی فرمائی۔یا س کو امن کا وعدہ دیا یا اسے اپنی ولایت اور قرب کا سبب جانا یا اس کی تعریف کی جیسے حیات یا نور یا شفا یا رحمت تو یہ ساری اقسام ان کی مشروعیت پر دلیل ہیں۔خواہ وہ واجب ہوں یا مستحب۔اور جس کام کا ترک کرنا شارع کا مطلوب ہو یا اُس کے فاعل کو مذموم کہا یا اُس پر عتاب کیا یا اس کو دشمن رکھا یا اُس پر لعنت کی یا اُس سے محبت کی نفی فرمائی یا اُس کے فاعل کو چوپائیوں کے مشابہ ٹھرایا یا شیطان کے مصداق کہا یا ہدایت اور قبولیت کا مانع بتایا یا بُرائی اور کراہت کےساتھ ا ُسے مصنف کیا یا اسے صلاح وفلاح یا عذاب جلد یا بدیر کا سبب ٹھہرایا یا اُسے ذم ولوم یا ضلالت یا معصیت یا اُسے خبث رجس فسق گناہ سبب گناہ لعنت غضب زوال نعمت یا حدوث نعمت کا سبب جانا۔یااُسے حدود میں سے کسی حد یا قسوۃ(سختی) خزی یاذلت نفس یا اللہ کی عداوت یا محاربہ یا استہزاء یا سخریہ یا سبب نسیان فاعل بنایا ہے۔یا اپنے نفس کا وصف بابت صبریا حلم یا عفو ودرگزر گزر بیان کیا ہے۔یا اس فعل سے توبہ کرنے کی طرف بلایاہے۔یا اس کے فاعل کو حقارت اور ذلت سے متصف کیا ہے یا ا ُس کے عمل کو شیطان کے عمل سے نسبت دی ہے یا ا ُسے تزئین ابلیس یا ولایت ابلیس کہا ہے۔یا اُسے کسی برائی کی صفت کا مجرم گرداناہے۔جیسے ظلم یا بغی یا عدوان یا مرض یا انبیاء کا اس کام سے بیزار ہونا یا اُس کے فاعل سے یا انبیاءؑ کا اللہ کی طرف ایسےآدمی کی نسبت شاکی ہونا یا اُس کے فاعل کوخائب دخاسر کہا یا اُسے جنت سے محروم ہونے کی وعیدسنائی یا اس کے فاعل کو"عدو اللہ ،یا اللہ کو اس کا دشمن ٹھہرایا۔یا فاعل کو خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محارب یا حامل اثم غیر کہا۔یا اُس کو ان الفاظ« لاينبغى، لايكون» سے یاد کیا۔یا «ليس من الله فى شئي»یا«ليس من الرسول واصحابه» فرمایا یا اسے مسلمانوں کے درمیان بغض اور عداوت اور عدم فلاح کا موجب ٹھرایا یا اُس کے حق میں «فهل انت منتهم، قاتله الله» یا اس جیسے الفاظ سے یاد کیا یا یہ فرمایا کہ اللہ قیامت کے دن اس کے فاعل سے بات نہ کرے گا نہ اُس کی طرف دیکھے گا۔نہ اُس کے عمل کو درست جانے گا۔یا اُس کے مکر کو چلنے نہ دے گا۔یا اُس پر کوئی شیطان گماشتہ مقرر کیا یا وہ کام دل کی کجی کا سبب ہے۔سو یہ ساری اقسام اس عمل مذکور پر منع کرنے کی دلیل ہیں۔ اور یہ ان کی صرف کراہت کی بجائے تحریم خالص پر دلالت کرتی ہیں۔جہاں تک اباحت کا تعلق ہے۔سو لفظ احلال ۔نفی جناح نفی حرج واثم اور مواخذہ یا اذن سے یا عفو سے یامنت رکھنے سے یا سقوط کرنے سے تحریم کے بیان سے یا کسی شے کے حرام ہونے سے انکار کرنے سے یا یوں کہنے سے«خلق او جعل يا فعل من قبلنا» سے یا پھر کسی کراہت کے اباحت ہوتی ہے۔پھر یہ دلالت خواہ ان الفاظ کے کسی چیز کی مشروعیت پر ہو خواہ وہ وجوباًہو یا استحباباً ۔واللہ اعلم۔

(ف) اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے۔وہ اس کی طرف سے خوشخبری لائے اور لوگوں کی ڈراتے بھی رہے۔یہ بات اس لئے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ پر لوگوں کی کوئی حجت باقی نہ رہے۔سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔اُمی صلی اللہ علیہ وسلم۔عربی صلی اللہ علیہ وسلم۔مکی صلی اللہ علیہ وسلم اور مدنی کو بھیجا۔جب سے وہ آئے سارے جن وانس کے لئے قیامت تک رسول ٹھہرے۔اللہ نے فرمایا:

﴿فامنوا بالله ورسوله النبى الاميى﴾(الاعراف:158)

"تو خدا پر اور اُس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پیغمبر اُمی پر ایمان لاؤ۔")(الاعراف ۔158)

اسی ایت میں فرمایا:

﴿اني رسول الله اليكم جميعا﴾(الاعراف:158)

""لوگو! میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا ہوں۔"(الاعراف۔158)

دوسری جگہ فرمایا:

﴿لانذركم به ومن بلغ﴾(الانعام:19)

"کہ تم کو اور جس شخص تک وہ پہنچ سکے آگاہ کردُوں۔"(الانعام۔19)

سو جسے یہ قرآن پہنچ گیا۔عرب ہو یا عجن کالا ہو یاگورا انس ہو یا جن۔اس کے لئے یہ کتاب نزیر ہے۔

تیسری جگہ فرمایا:

﴿ومن يكفر به من الاحزاب فالنار موعده﴾(هود:17)

"اور جو کوئی اور فرقوں میں سے اُس سے منکر ہوا تو اس کاٹھکانہ آگ ہے۔"(ھود۔17)

معلوام ہوا قرآن کا منکر اور فرقان کاانکاری جو بھی ہو دوزخ میں جائےگا۔قرآن کاانکار ایک تو یوں ہوتا ہے کہ سرے سے اُس کواللہ کا کلام ہی نہ سمجھے۔اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اعتقاد رکھے۔جس طرح یہود ونصاریٰ وغیر ہما کا عقیدہ ہے۔

دوسری شکل یہ ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تو مانے مگر کلام اللہ کومخلوق جانے ۔یہ بھی کفر ہے جیسے متعزلہ کا عیقدہ ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ قرآن اور پیغمبر دونوں پر ایمان لائے مگر قرآن کے بعض حکم نہ مانے۔جیسے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ہم سود کی حرمت وراثت کی تقسیم۔ اور اطلاق کی صحت نہیں مانتے یہ بھی کفر صریح ہے۔چوتھی صورت یہ ہے کہ قرآن کا اقرار کرے مگر قرآن پر کسی امام یا عالم یا مجتہد کی بات کو غالب رکھے یہ بھی در حقیقت قرآن کاانکارہے۔تقلیدی مذاہب کی یہی روش رہی ہے۔اسی طرح سنت صحیحہ پر کسی کے قول یا رائے یا قیاس یا اجتہاد کو مقدم کرنا۔گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہوناہے۔جب یہ کام دیدہ دانستہ کیاجاتا ہے تو ایمان باقی نہیں رہتا۔پانچویں جگہ فرمایا:

﴿فذرنى ومن يكذب بهذا الحديث سنستدرجهم من حيث لا يعلمون﴾(القلم:44)

"تو مجھ کو اس کلام کے جھٹلانے والوں سے سمجھ لینے دو۔ہم اُن کو آہستہ آہستہ ایسے طریق سے پکڑیں گے کہ اُن کو خبر بھی نہ ہوگی۔(القلم ۔44)

حدیث میں آیا ہے۔کہ"میں ہر گورے اور کالے کی طرف بھیجا گیا ہوں(حضرت مجاہد ؒ نے فرمایا) اس سے مراد جن وانس ہیں۔غرض یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی ثقلین ہیں۔جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن میں اُن پر وحی کی ہے۔وہ اس کو اللہ کی طرف سے سارے انس وجن کو پہنچانے واے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿افلا يتدبرون القرآن ولو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافا كثيرا﴾ النساء:82

"بھلا یہ قرآن میں غو ر کیوں نہیں کرتے اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔(النساء۔82)

دوسری جگہ فرمایا:

﴿كتاب انزلناه اليك مبارك ليدبروا اياته وليتذكر اولو الالباب﴾(ص:29)

"(یہ ) کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے۔بابرکت ہے۔تا کہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں۔اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں۔"(ص۔29)

تیسری جگہ فرمایا:

﴿افلا يتدبرون القرآن ام على قلوب اقفالها﴾(محمد:24)

"بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (اُن کے) دلوں پر قفل لگ رہے ہیں۔"(محمد۔24)

معلوم ہوا کہ قرآن کا نزول صرف ناظرہ تلاوت کے لئے ہی نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ پڑھ کر اس کا مطلب سمجھیں اور اس مطلب کے مطابق عمل کریں۔یہ بات ہر پڑھے اور ان پڑھے پر واجب ہے پڑھے پر اس دلیل سے کہ اللہ نےفرمایا:

﴿واذ اخذ الله ميثاق الذين اوتوا لكتاب لتبيننه للناس ولا تكتمونه﴾(آل عمران:187)

"اور جب خدا نے اُن لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گی تھی اقرار لیا کہ(اس میں جو کچھ لکھا ہے) اُسے صاف صاف بیان کرتے۔رہنا اور اس (کسی کی بات ) کو نہ چھپانا۔"(آل عمران۔187)

اس لئے علماء نے قرآن کی تفسریں لکھیں اپنی ذمہ داری کو پورا کیا۔اب کوئی ان کی بات سنے یا نہ سنے وہ تو اپ نے حق سے بری ہوگئے۔پھر جن لوگوں نے اس عہد کو تھوڑے داموں پر بیچ دیا۔اللہ نے اُن کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں رکھا۔بلکہ قیامت کے دن اُن سے بات بھی نہیں کرے گا۔ نہ اُن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے گا۔نہ اُن کو گناہ سے پاک کرے گا۔اُن کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔جیسے فرمایا:

﴿ان الذين يشترون بعهد الله........... ولهم عذاب اليم﴾آل عمران:77)

"جو لوگو خدا کے اقراروں اور اپنی قسموں (کو بیچ ڈالتے ہیں اور اُن) کے عوض تھوڑی سی قیمت حاصل کرتے ہیں۔اُن کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔اُن سے خدا نہ تو کلام کرے گا نہ قیامت کے روز اُن کی طرف دیکھے گا اور نہ اُن کو پاک کرے گا۔اور نہ اُن کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔(آل عمران۔77)

اس آیت میں اہل کتاب کی مذمت ہے جو ہم سے پہلے تھے کہ انھوں نے اللہ کی اس کتاب کو چھوڑ دیا جو ان پرنازل ہوئی تھی۔دنیا جمع کرنے پراُمنڈ پڑے۔کتاب کی تو پیروی نہ کی کچھ اور ہی دھندے میں لگے رہے۔

ان پڑھ پر قرآن میں غور کرنا اس دلیل سے واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿الم يأن للذين امنوا ان تخشع قلوبهم...... وكثيرمنهم فاسقون﴾(الحديد:16)

"کیا ابھی تک مومنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا۔کہ خدا کی یاد کرنے کے وقت اور (قرآن) جو (خدائے) برحق کی طرف سے نازل ہوا ہے۔اُس کےسننے کے وقت اُن کے دل نرم ہوجائیں اور وہ اُن لوگوں کی طرف نہ ہوجائیں جن کو (اُن سے) کتابیں دی گئی تھیں۔پھر اُن پر زمانہ طویل گزر گیا تو اُن کے دل سخت ہوگئے۔اور اُن میں سے اکثر نافرمان ہیں۔"(الحدید۔16)

یہاں اللہ کے ذکر اور حق سے مراد یہی اللہ کی کتاب ہے۔جس نے اس کتاب کو پڑھا اُس نے اللہ کو یادکیا۔جس نے اس کو سمجھا اُس نے حق جانا۔اور جو کوئی اسے پڑھتے پڑھتے سمجھتے سمجھتے تھک کر بیٹھ رہا گھبرا گیا کہ کہاں تک اس کو پڑھا کروں ۔کب تک اس پر چلوں تو سمجھو کہ اس کا دل سخت ہوگیا۔وہ نافرمان ہوا۔ ورنہ یہ قرآن ایسی چیز ہے۔کہ ایمان والا جتنا اس کو پڑھے گا اتنا ہی اس کا ایمان قوی ہوتا جائےگا۔اُس کے عمل کو قبولیت حاصل ہوگی۔اس آیت کے بعد فرمایا:

﴿اعلموا ان الله يحى الارض بعد موتها...... لعلكم تعقلون﴾الحديد:17)

"جن رکھو کہ خدا ہی زمین کو اُس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ہم نے اپنی نشانیاں تم سے کھول کھول کر بیان کردی ہیں تاکہ تم سمجھو۔(الحدید 17)

معلوم ہوا کہ جس طرح زمین مرکر بھی اٹھتی ہے اسی طرح جو دل گناہ سے سخت ہوجاتے ہیں وہ ایمان وہدایت کی بدولت ملائم اور نرم پڑ جاتے ہیں۔اور کوئی ایمان وہدایت اس قرآن مجید کے بیان سے بہتر نہیں ہے۔اسی کو ہر مسلمان پڑھتا رہے۔اسی کو ہرمومن سمجھتا رہے اس کتاب میں جتنا کوئی شخص غور کرے گا۔ علم ورحمت اور برکت کے دروازے اُس پر اتنے ہی کھلتے رہیں گے۔جتنا کوئی آدمی اس سے دور بھاگے گا۔اتنا ہی اس کا دل سخت اور سیاہ ہوتا جائے گا۔ایمان وہدایت سے دور ہوتا جائے گا۔

﴿ربنا لا تزغ قلوبنا..... انك انت الوهاب﴾ آل عمران:8)

"اے پروردیگار ! جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے۔تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ پیدا کر دیجیو اور ہمیں اپنے ہاں سے نعمت عطا فرما۔توتو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔(آل عمران:8)

علم تفسیر:

قرآن کی تفسیر یوں ہوتی ہے کہ پہلے قرآن کو قرآن ہی سے بیان کرے۔اسی لئے کہ جو بات ایک جگہ قرآن مجید میں مجمل آئی ہے۔وہ دوسری جگہ تفصیل سے بیان کی گئی ہے اسی طرح جو تفسیر قرآن مجید کی ر سول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ وہ ہر چیز پر مقدم ہے بلکہ وہی تفسیر ساری اُمت کے لئے حجت ہے۔اس کی ہرگز خلاف ورزی نہ کرنی چاہیے۔اس کی پیروی سب پر واجب ہے۔امام شافعی ؒ نےفرمایا:"رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم دیا ہے۔ وہ قرآن سے سمجھ کر دیا ہے۔اللہ نے فرمایا:

﴿انا انزلنا اليك الكتاب بالحق...... للخائنين خصيما﴾ النساء:105

"(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ خدا کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات فیصل کرواور (دیکھو) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔"(النساء۔105)

دوسری جگہ فرمایا:

﴿وما انزلنا عليك الكتاب الا لتبين لهم...... لقوم يؤمنون﴾ النحل:64

"اور ہم نے جو کتاب تم پر نازل کی ہے تو اس لئے کہ جس امر میں ان لوگوں کو اختلاف ہے۔تم ا س کا فیصلہ کردو اور یہ مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔(النحل۔64)

معلوم ہواکہ آپس کے سب اختلاف اس قرآن سے دور ہوجاتے ہیں۔جب دو آدمیوں کے درمیان کسی عقیدہ وعمل کی بابت جھگڑا ہوجائے تو چاہیے کہ قرآن سے اس کا فیصلہ کرلیں۔جو لوگ ا س قرآن کو رحمت اور ہداہت نہیں جانتے اُن کا ایمان درست نہیں۔

تیسری جگہ فرمایا ہے:

﴿وانزلنا اليك الذكر لتبين..... لعلهم يتفكرون﴾ النحل:44

"اور ہم نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو(ارشادات) لوگوں پر نازل ہوتے ہیں۔وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں۔"(النحل۔44)

معلوم ہوا کہ قرآن مجید دو مقاصد کے لئے آیا ہے۔ایک ذکر کے لئے جس کو تلاوت۔تزکیر۔وعظ کہتے ہیں۔اور دوسرے غور وفکر کے لئے تاکہ اس کا مطلب مدعا سمجھ لیا جائے۔پھر اس کے موافق عمل کیا جائے۔یہ بات نہیں ہے کہ یہ قرآن صرف ذکر ہی کے لئے اتارا گیا ہو۔فکر سے اس کا کچھ واسطہ نہ ہو۔ بلکہ ذکر وفکر دونوں مقصود ومطلوب شرح ہیں۔حدیث میں ہے:

«الا انى اوتيت القرآن ومثله معه»

"مجھے قرآن دیا گیا ہے اور قرآن جیسی ایک دوسری چیز بھی۔"

یعنی حجت ہونے میں قرآن کی مانند ہے۔مثل سے مرا دیہاں سنت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

حافظ ابن کثیر ؒ نے فرمایا:سنت کا نزول بھی اسی طرح وحی سے ہوا ہے۔جس طرح قرآن مجید کا نزول بات صرف اتنی ہے کہ سنت کی تلاوت قرآن پاک کی طرح نہیں ہوتی۔امام شافعی ؒ وغیرہ ائمہ کرام ؒ نے اس سلسلے میں بہت سی دلیلیں ذکر کی ہیں۔جن کا یہاں لکھنا بوجہ طوالت محال ہے۔

غرض یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر اگر قرآن میں نہ ملے تو پھر سنت مطہرہ میں ڈھونڈے۔جس طرح معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یمن روانہ ہوتے وقت کہاتھا۔کہ میں قرآن مجید کے حکم کے مطابق حکم دوں گا۔اگر قرآن میں نہ ملے توسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمطابق فیصلہ کروں گا۔اگرسنت میں بھی نہ ملے تو اجتہاد کروں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے سینے پر ہاتھ مار کرفرمایا۔اللہ کاشکر ہے جس نے میرے ایلچی کو میری مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کی توفیق دی۔اس حدیث کی سند جید ہے۔

سو جب قرآن کی تفسیر قرآن وحدیث سے نہ ملے تو پھر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اقوال سے اخذ کرنی چاہیے اس لئے کہ انھوں نے اس دورکے احوال وقرائن دیکھے بھالے ہیں۔ اور وہ نزول قرآن کے وقت حاضر وموجودہوتے تھے۔فم تام علم صحیح ااور عمل صالح کے پابند تھے۔یہ بات بعید از قیاس ہے۔کہ وہ قرآن کی تفسیر بیان کریں اور انھوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہی نہ ہو۔اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تفسیر نہیں سنی تو پھر بھی وہ اُن عربوں میں سے ہیں جو عربی زبان سے مکمل طور پر واقف تھے۔بال کی کھال نکالتے تھے خصوصاً جو اُن میں بڑے عالم تھے۔جیسے چاروں خلفائے راشدہ رضوان اللہ عنھم اجمعین عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہم۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اللہ کی قسم! قرآن مجید کی کوئی آیت ایسی نہیں اتری کہ مجھے اس کا علم ہے کس کس کے حق میں اُتری اور کہاں اُتری۔"اگر مجھے علم ہوجائے کہ کوئی مجھ سے زیادہ قرآن جانتا ہے۔تو میں ضرور اُس کے پاس پہنچوں۔"پھر فرمایا کہ" ہم میں سے جو آدمی قرآن پا ک کی دس آیتیں سیکھ لیتا تھا۔تو جب تک اُس کے معنی نہ جان لیتا اور اُس پر عمل نہ کرلیتا آگے نہ پڑھتاتھا۔

«عن ابن مسعود انه قال: كان الرجل من اذا تعلم عشرايات لم يجاوزهن حتى يعرف معانيهن والعمل بهن ، وعن مسرور قال قال ابن مسعود: والذى لا اله غيره ما نزلت اية من كتاب الله الا انااعلم فيما نزلت واين نزلت ، ولو اعلم مكان احد اعلم بكتاب الله منى تناله المطايا لا تيته. اسدالغابة ج3ص65.260»

یہ مضمون کئی روایتوں میں آیا ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ د عا دی تھی کہ"اے اللہ ان کو دین کی سمجھ عطا فرما ۔قرآن مجید کے معانی سکھا دے۔

«اللهم علمه الكتاب والحكمة. اللهم فقهه فى الدين وعلمه التاويل قال ابن عمر ابن عباس اعلم امة محمد بما نزل على محمد. اسدالغابة ج3ص95.192»

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔یہ(عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) ترجمان القرآن ہیں۔"

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال 32ہجری میں ہوا۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے بعد چھتیس برس تک زندہ رہے اس مدت میں کیا کچھ علم ان کو حاصل نہ ہواہوگا۔ ہاں جو بات ان دونوں اصحاب نے اہل کتاب سے بیان کی ہے وہ لائق استشہاد ہوسکتی ہے۔اعتقاد کے لائق نہیں ہوسکتی۔(یعنی اس کی نفی نہیں کی جاسکتی) کیونکہ اس کی تین قسمیں ہیں ۔ایک وہ بات ہے۔جس کی صحت ہم کو معلوم ہے وہ بات صحیح ہے۔دوسری وہ بات ہے جس کا کذب ہمیں معلوم ہے۔اور ہمارے دین کے خلاف ہے۔تیسری بات وہ ہے جس کے بارے میں ہمارا دین خاموش ہے۔تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس پر ایمان لائٰیں۔اور نہ اسے جھوٹ کہیں اگرچہ اس کا بیان کرناجائز ہو۔لیکن غالب خیال یہ ہے کہ اس قسم کی بات ذکر کرنے کا بھی دین میں کچھ فائدہ نہیں۔مثال کے طور پر اصحاب کہف کے نام کیاتھے؟اُن کی تعداد کیا تھی؟کتے کا رنگ کیا تھا؟حضرت موسیٰ ؑ کا اعصاء کس لکڑی کا بنا تھا؟اُن پرندوں کے کیا نام تھے جنھیں حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کے حکم سے زندہ کیا ۔بنی اسرائیل کی گائے کے گوشت کا وہ کونسا عضو تھا جو بنی اسرائیل کے مقتول کو مارا گیا؟جس درخت کے پاس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کی وہ کونسا درخت تھا؟۔۔۔ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے(قرآن مجید میں مبہم رکھا ہے ان کے تعین میں نہ دین کا کوئی فائدہ ہے نہ دنیا کا ہاں اختلاف کا بیان منع نہیں۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اختلاف کو بیان فرمایا ہے:

﴿سيقولون ثلاثة رابعهم كلبهم ويقولون............ ولا تستف فيهم منهم احدا﴾ الكهف:22

"(بعض لوگ) اٹکل پچو سے کہں گے کہ وہ تین تھے(اور) چوتھا ان کا کتا تھا۔اور بعض کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کاکتا تھا۔اوبعض کہیں کے وہسات تھے۔اورآٹھواں اُن کاکتا تھا۔کہہ دو کہ میرا پروردیگار ہی ان سے خوب واقف ہے۔اُن کو جانتے بھی ہیں تو تھوڑے لوگ (جانتے ہیں) تو تم اُن (کے معاملے) میں گفتگو نہ کرنا مگر سرسری سی گفتگو ۔اور نہ اُن کے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ دریافت ہی کرنا۔(الکہف ۔22)

اس آیت نے ہمیں ایک ادب سکھایا اور تعلیم دی۔اللہ نے تین قول نقل کئے ہیں۔دواقوال کوضعیف ٹھہرایا۔تیسرے قول سے سکوت فرمایا۔معلوم ہوا کہ شاید یہی قول صحیح ہو۔اگرباطل ہوتاتو پہلے دو اقوال کی طرح اس کو بھی ردفرمادیتا ۔پھر یہ فرمایا کہ ان کی گنتی سے مطلع ہونے میں کچھ فائدہ نہیں۔اللہ ہی کو علم ہے ۔یا جس کو اللہ نے بتادیا ۔پھر فرمایا کہ اپنے نفس کو ایسی مشقت میں مت ڈال جس میں کچھ فائدہ نہیں۔نہ اُن سے گنتی کے بارے میں پوچھ کیوں کہ سوائے گپ لگانے اور بڑ مارنے کے ان کو اس کا خاک بھی علم نہیں وہ جوکچھ کہتے ہیں رجماً بالغیب ہے۔غرض یہ قاعدہ اختلاف بیان کرنے کا اچھا ہے۔مختلف اقوال کو جمع کرکے صحیح قول بتادیا جائے۔باطل امر کا بطلان کردیا جائے۔جس طرح تفسیر فتح القدیر اور تفسیر فتح البیان وغیرہ میں کہا گیا ہے۔

(ف) جب قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید سنت صحیحہ یا قول صحابی میں نہ ملے تو اکثر علماء کا یہ خیال ہے کہ تابعین ؒ کے قول کواختیا رکرلیں مگر جس شخص کو صحیح علم نہیں ہوتا وہ تابعین کےمختلف اقوال اور عبارت کو ایک دوسرے سے مختلف ٹھہرا دیتا ہے۔حالانکہ یہ بات سرے سے اس طرح نہیں ہوتی اس لئے کہ کوئی تابعی ان میں سے لازم شے سے تفسیرکرتا ہے۔کوئی نظیر شے سے کوئی بعینہ کسی چیز پر نص کرتا ہے۔سو ان سب اقسام کے غالباً ایک ہی معنی ہوتے ہیں۔اور عقلمند آدمی اکثر مقامات پر اس کو معلوم کرلیتا ہے۔اہل علم کی ایک دوسری جماعت نے کہا ہے کہ تابعین کے اقوال فروعات میں حجت نہیں ہیں تو تفسیر میں کیونکر حجت ہوسکتے ہیں۔

حافظ ابن کثیر ؒ نے فرمایا ہے کہ یہ بات اپنی جگہ پر درست سہی لیکن جب یہ سب کے سب تابعین کسی بات پر اجماع کرلیں گے تو اُس کے حجت ہونے میں کوئی عذر نہیں۔اس میں کچھ بھی شک نہیں ہوگا۔اگر ان کےاقوال میں اختلاف ہوگا۔ تو پھر ایک کا قول دوسرے کے لئے اور بعد والوں کے لئے حجت نہیں ہوگا۔بلکہ اس وقت لغت قرآن یا سنت مطہرہ یا اقوال صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین یا عموم لغت عرب کی طرف رجوع کیاجائے گا۔

پھر فرمایا قرآن مجید کی صرف اپنی رائے سے تفسیر کرنا حرام ہے۔حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے:

"جس نے اپنی رائے یا عقل وقیاس سے یا وہ بات جو وہ نہیں جانتا قرآن کی تفسیر کی تو وہ شخص دوزخ میں اپنی جگہ بنائے۔"( ترمذی ۔ابواب تفسیر القرآنص364)

اس کو ترمذی نے حسن کہا ہے۔نسائی ؒ اور ابو داؤد ؒ نے بھی روایت کیا ہے بلکہ دوسری روایت میں یوں آیا ہے:

"جس نے قرآن مجید کی اپنی رائے سے تفسیر کی اور ٹھیک کی تو وہ شخص چوک گیا اُس نے خطا کی۔"( ابواب تفسیر القرآن ص363۔)

معلوم ہوا کہ جب قرآن کی تفسیر کرے تو حتیٰ الامکان اولاً قرآن پاک سے ہی کرے پھر سنت مطہرہ سے پھر اقوال صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے پھر اجماع تابعین ؒ سے پھر لغت عرب سے۔یہ پانچ مرتبے ہوئے اپنی طرف سے ہر گز کوئی بات نہ کہے اگرچہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔کیونکہ اپنی ر ائے سے تفسیر کرنے والے کے لئے جہنم کی وعید ہے۔حدیث:

«فليتبوأ مقعده من النار»

"نیچریہ کے لئے ایک بہت بڑی وعید ہے۔جنھوں نے سارے قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے یا تدبیر سے گھڑی ہے۔

جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا شخص یہ کہے کہ اگر میں بے جانے کتاب اللہ میں تجھے کچھ کہوں گا تو کونسی زمین مجھے اٹھائے گی اور کونسا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہوگا۔"تو پھر کسی اور شخص کا کیا مقام ہے۔کہ اپنے دل سے قرآن کے معنی بنائے۔

کسی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب سے ممبر پر پوچھاتھا کہ﴿فاكهة وابا﴾ کے کیا معنی ہیں؟ذرا سوچ کرکہا کہ"اے عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) یہ تو تکلف ہے یعنی اپنے جی سے معنی گھڑ کر نہ بتانا۔"مراد یہ تھی کہ لفظ"اب" کی کیفیت او ر اس کا علم کھول کر بیان کرنا چاہیے۔ورنہ یہ بات تو واضح تھی کہ "اب"ایک گھاس ہے جس کو اُردو میں"دوب"کہتے ہیں۔(دو ب :پنجابی میں اسے"دُب" کہتے ہیں جس سے مسجد کی صفیں تیار ہوتی ہیں)

اس طرح ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھاکہ ایک ہزاربرس کا دن کیسا ہوگا؟اُنھوں نے سائل سے کہا:"تم بتاؤ کہ پچاس ہزار برس کا دن کیسا ہوگا؟سائل نے عرض کیا میں آپ سے پوچھتا ہوں۔"عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اللہ نے ان دونوں دنوں کا زکر اپنی کتاب میں فرمایا ہے ،اللہ ہی بہتر جانے۔"

مُراد اس سے یہ ہے کہ بغیر جانے بوجھے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن مجید کے معنی بتانے کو ناپسند کیا۔

حاصل کلام یہ ہےکہ سلف صالحین قرآن مجید کی تفسیر میں بہت احتیاط کرتے اور ڈرتے تھے۔

فضائل قرآن:

(ف) قرآن مجید کے فضائل بہت سی احادیث میں آئے ہیں۔اگر قرآن خواں چاہے کہ اسے پورا اجر ملے تو اس کے بغیر ممکن نہیں کہ وہ قرآن مجید کے سارے معانی کو سمجھ لے۔اس لئے کہ قرآن مجید پڑھنے کا یہ نتیجہ ہے۔پھر جو شخص قرآن کے معنی کو سمجھ لےگا۔ تو اس پر عمل بھی کرے گا۔کیونکہ معانی سمجھے بغیر عمل نہیں ہوسکتا۔بڑی شرم کی بات ہے کہ سارا قرآن تو نوک زبان پر حفظ ہو۔طوطے کی طرح رات دن اس کو رٹے مگر اس کے معنی معلوم نہ ہو۔ نہ حرام کی خبر ہو نہ حلال کی۔نہ محکم کی پہچان ہو نہ متشابہ کی نہ مجمل کی شناخت ہونہ مفصل کی۔نہ ترغیب کو جانے نہ ترہیب کو پہچانے فقط عبارت کا پڑھنا الفاظ کا منہ سے نکالنا آتا ہو۔سو جوشخص قرآن کے الفاظ یا دکرلیتا ہے۔مگر معنی نہیں سمجھتا وہ بلاشبہ اس اجر وثواب گراں مایہ سے محروم ہے جو احادیث میں آیا ہے۔اگرچہ مجرد تلاوت یا قرآت کے کسی قدر اجر سے محروم نہ ہوگا مگر عالم کا اجر بلا شبہ محض قاری سے دوگنا تین گنا سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ علم کی وسعت اور عمل کے اخلاص سے ہوتا ہے۔

ع۔بقدر بحرباشد وسعت آغوش ساحل ہا

"ساحل کی آغوش کی وسعت سمندر کی وُسعت کے مطابق ہونی چاہیے۔"

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جس نے قرآن مجید کا علم سیکھا اور دوسروں کوسکھایا۔"(بخاری شریف جلد9ص66)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہی روایت مرفوعاً یوں ہے:"جو شخص قرآن مجید کا ماہر ہے وہ ان فرشتوں کے ہمراہ ہوگا جو بزرگ اور نیک اور کاتب اعمال واحوال ہیں۔"اور جو شخص قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہے۔اور قرآن کا پڑھنا اس کے لئے مشکل ہے۔تو اس کو دوہرا اجر ہے۔"( متفق علیہ بخاری 877۔ص532 مسلم 798)

معلوم ہوا قرآن مجید کو صرف معنی سمجھے بغیر پڑھنا اجر سے خالی نہیں ہے۔بلکہ جس کی زبان نہیں چلتی اُس کو صاف پڑھنے والے کی نسبت دوگنا ثواب واجر ملے گا۔

عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں مرفوعاً آیا ہے کہ"اللہ تعالیٰ اس کتاب کی بنیاد پر (بعض قوموں کو) عروج اور ترقی عطا فرماتا ہے۔اور بعض قوموں کو اس کتاب(کے پس پُشت ڈالنے) کی وجہ سے ذلیل ورُسوا کرتا ہے"( مسلم شریف حدیث 817)

اللہ ترقی اور عروج ان قوموں کوعطا فرماتا ہے۔جو اس کے معنی جہاں تک ہوسکتا ہے سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔اُن قوموں کی ذلیل ورسوا کرتا ہے جو اس پر عمل نہیں کرتے اور اس کے حلال وحرام کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔

ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ یوں ہیں:

"تم قرآن مجید پڑھا کرو۔یہ قیامت کے دن اپنے چاہنے والوں کا شفیع ہوگا۔"(مسلم شریف:804)

قرآن کے چاہنے والے وہی لوگ ہیں جو قرآن کو پڑھتے پڑھاتے سیکھتے اور رواج دیتے رہتے ہیں۔رات دن اسی کام کاج میں بسر کرتے ہیں۔جان ومال سے قرآن کے پھیلانے میں کوشش بجا لاتے ہیں۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے:جس آدمی کے پاس قرآن کا کچھ حصہ بھی نہیں وہ ویران اوراجڑے گھر کی مانند ہے۔(ترمذی. ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے حدیث 2914۔مسنداحمد بن حنبل ؒ 1947)

ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس انسان کو قرآن نے میرے ذکر وسوال سے باز رکھا ،میں اُس کو سوال کرنے والوں سے بھی زیادہ دوں گا۔اللہ تعالیٰ کے کلام کی فضیلت سب کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت ساری مخلوق پر۔"(ترمذی ؒ اور دارمی ؒ نے اسے روایت کیا ہے۔ ترمذی باب فضائل قرآن ص352)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً روایت ہے:"جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کو ایک نیکی ملی اور ہر نیکی دس گنا ہوتی ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ"الف،لام۔میم۔ایک حرف ہے۔بلکہ"الف"ایک حرف ہے،"لام دوسرا حرف ہے،"میم"تیسرا حرف ہے۔"(ترمذی نے اس کو صحیح کہا دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔ ترمذی نمبر2912 دارمی ج2 ص429۔)

حدیث علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے:"جس نے قرآن کو حفظ کیا پھر ا ُس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانا۔تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔وہ اپنے درس افراد خانہ کا شفیع ہوگا جن کے لئے دوزخ واجب ہوچکی ہوگی۔(احمد۔ترمذی۔ابن ماجہ. ترمذی"فضائل قرآن ص243۔)

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے"تم قرآن کی حفاظت کرو! اللہ کی قسم اتنی جلدی ا ُونٹ (اپنے بندھن سے) نہیں نکلتا جتنی جلدی یہ قرآن نکل جاتا ہے۔(متفق علیہ) بخاری۔9ص73۔مسلم نمبر 791۔

اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب تک کوئی آدمی روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کرتارہتا ہے۔تلاوت کا پابند رہتا ہے۔اُس وقت تک قرآن قابو میں رہتا ہے۔جہاں غفلت اور سستی سے دو چار دن اس کی تلاوت چھوڑ دی پھر قرآن مجید کی تلاوت کی مہینوں تک نوبت نہیں آتی۔اس لئے اس کی حفاظت کا حکم آیا ہے۔حدیث میں "صیغہ امر" کا استعمال کیا گیا ہے۔جس سے اس کام کا واجب ہونا ثابت ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حافظ قرآن سے کہا جائے گا کہ تو قرآن مجید کی تلاوت کرتا چلا جا اور درجات کی طرف بڑھتا چلاجا قرآن کو اسی طرح اچھی طرح پڑھ جس طرح تودنیا میں پڑھا کرتا تھا۔"(جنت میں تیری منزل اس آخری آیت کے پاس ہوگی جو تو تلاوت کرے گا)احمد۔ترمذی۔نسائی۔ابو داؤد۔ ابو داؤد ص1464۔ترمذی 2915۔مسند احمد ج.2. 192۔

معلوم ہوگا کہ جس شخص کو جتنا قرآن یاد ہوگا ایک سورت سے لے کر ایک پارے تک یا ایک پارے سے لے کر آخر قرآن تک جنت میں اس کی ترقی کے درجات اسی حد تک ہوں گے۔اس حدیث میں اس شخص کے لئے بڑی بشارت ہے جس سارا قرآن حفظ ہے۔وہ جب قرآن مجید کو بسم اللہ کی"ب" سے لے کر والناس کی سین تک پڑھے گا۔تو قرآن مجید کی آیات کے برابر درجات کی ترقی پائے گا۔

حافظ ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کی چھ ہزار آیتیں ہیں۔اہل علم نے اس تعداد سے اختلاف کیا ہے۔کسی نے کہا دو سوچار آیتیں اس پر زیادہ ہیں۔بعض نے چودہ آیتیں زیادہ بتائیں۔بعض نے دو سو انتیس زیادہ بتائیں۔کسی نے اس پر دو سو پچیس یا دو سو چھتیس کا اضافہ کیا۔جہاں تک کلمات کی تعداد کا تعلق ہے۔عطاء بن یسار ؒ نے فرمایا:ستر ہزار چار سو انتالیس ہیں۔حضرت مجاہد ؒ نے فرمایا:قرآن کے حروف کی تعداد تین لاکھ اکیس ہزار ایک سو اسی ہے۔عطا ء بن یسار ؒ نے حروف کی تعداد تین لاکھ تئیس ہزار پندرہ کی بتائی ہے۔

حجاج بن یوسف نے حافظوں اور قاریوں سے قرآن مجید کے حروف کی تعداد پوچھی۔سب نے گنتی کے بعد اتفاق کیا۔تین لاکھ چالیس ہزار سات سو چالیس حروف ہیں۔حجاج نے پوچھا نصف قرآن کس حد تک ہے۔ انھوں نے بتایا سورہ کہف کے لفظ ﴿وليتلطف﴾ کی فاء"تک۔جہاں تک قرآن کی پہلی ایک تہائی اور دو تہائی کا تعلق ہے۔تفسیر ابن کثیر ؒ میں اس کا بھی ذکر موجود ہے۔مگر اس میں بھی اختلاف بیا ن کیاگیا ہے۔

بہرحال جب تک قرآن کے ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔تو حروف کی تعداد کو دس گنا کرکے حساب کرو کے ایک قرآن مجید کے ایک دفعہ ختم کرنے پر کتنی نیکیاں بن جاتی ہیں۔یہ محض اللہ کا فضل ہے۔ورنہ کسی بندے کی یہ طاقت کہاں کہ تمام عمر میں اتنی نیکیاں اکھٹی کرسکے۔

حافظ قرآن کو چھ ہزار منزلوں سے کچھ زیادہ ہی منزلوں کا امکان جنت میں نصیب ہوگا۔اس نعمت ودولت کا کیا ٹھکانہ ہے۔اگر کسی کو کم ہمتی سے قرآن حفظ قرآن نصیب نہیں ہوا۔تو قرآن مجید کےحروف ناظرہ کو پڑھ کر اجر حاصل کرنا لازم ہے۔اگر اس اجر سے بھی محروم رہا تو سمجھ لیجئے کہ سخت بدنصیبی نے اُس کا دامن پکڑا۔تین دن یا سات دن یا ایک ماہ میں اگر لگاتار قرآن مجید ختم نہیں کرسکتا۔تو کم از کم ایک دو رکوع ہی ہر روز پڑھ لیا کرے اور ا س کے ترجمے پر غو رکرے اس سے اتنا تو ہوگا کہ قرآن خوانوں میں شمار ہوگا۔اس کے لئے ہر دن میں قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب لکھا جائے گا۔جتنے حروف پڑھے ہیں اُن حروف سے دس گنا نیکیاں نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی۔وبااللہ التوفیق۔(جاری ہے)