...جواب آں ہزل
ماہنامہ "محدث" کی مئی 89ء کی اشاعت میں ہم نے حدیث:
«اوتيت القرآن ومثله معه»
کی صحت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ منکرین حدیث نے اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرکے اُس کی جگہ عملی طور پر ایسی چیزوں کو"«مثله معه»" یعنی قرآن کی مثل بنا لیا ہے۔جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اس کے منافی ہیں۔اور جنھیں قرآنی تفسیر میں اختیار کرنے سے حقیقی مسلمان کی روح تک کانپ اٹھتی ہے ۔اسی لئے اہل اسلام قرآنی مطالب متعین کرنے کے لئے شروع سے لے کر آج تک صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وہدایات(حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف رجوع کرتے رہے کیونکہ کلام الٰہی(یعنی قرآن کریم) سے مراد الٰہی کاتعین کرنے والی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے۔جو اللہ تعالیٰ کی وحی ہونے میں قرآن کی مثل ہے۔اگرچہ وحی کی دوسری قسم یعنی وحی غیر متلو کے قبیل سے ہے۔جس کا وجود قرآن مجید ہی سے ثابت ہے۔جبکہ قرآن کریم میں وحی کی متعدد صورتیں بیان کی گئی ہیں۔جن کے ذریعے انبیاء ورسل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایات ملتی تھیں۔جیسا کہ سورۃ شوریٰ میں ہے۔
﴿وَما كانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلّا وَحيًا أَو مِن وَرائِ حِجابٍ أَو يُرسِلَ رَسولًا فَيوحِىَ بِإِذنِهِ ما يَشاءُ إِنَّهُ عَلِىٌّ حَكيمٌ ﴿٥١﴾... سورة الشورىٰ
"یعنی کسی بشر کے لئے یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُس سے گفتگو کرے مگر وحی سے یا پردے کے پیچھے سے یا اس طرح کے ایک قاصد بھیجے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وحی کرے۔جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہتا ہو۔وہ بلند حکمت والا ہے۔
اس قرآنی آیت میں کسی بشر پراحکام وہدایات نازل ہونے کی تین صورتین بتائی گئی ہیں۔ایک یہ کہ براہ راست وحی کی جائے۔ دوسری یہ کہ پردے کے پیچھے سے گفتگو کی جائے۔تیسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ بھیج کر وحی کی جائے۔جبکہ قرآنی وحی صرف تیسری قسم میں داخل ہے۔لہذا اس آیت کے پیش نظر وحی الٰہی کی دو اور صورتیں بھی تھیں جن کے ذریعے سے انبیاء ورسل کو ہدایات ملتی رہیں۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی اس کی تائید کرتا ہے:
«اوتيت القرىن ومثله معه»۔الحدیث ۔سنن ابی داؤد)
یعنی "جیسے مجھے قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی دیا گیا ہے۔ویسے ہی اس کی مثل حکمت(حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم) بھی مجھے اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے ہی عطا کی گئی ہے۔"اور معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی بھی جان سکتا ہے۔کہ اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ قرآن وحدیث دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کئے گئے ہیں۔کسی جن یا انسان کا اس میں کوئی دخل نہیں مگر یہ آسان سی بات"طلوع اسلام" والوں کو سمجھ نہیں آرہی۔اور وہ حدیث«مثله معه» کو قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت کے معارض قرار دے رہے ہیں:
﴿قُل لَئِنِ اجتَمَعَتِ الإِنسُ وَالجِنُّ عَلىٰ أَن يَأتوا بِمِثلِ هـٰذَا القُرءانِ لا يَأتونَ بِمِثلِهِ...﴿٨٨﴾... سورة الإسراء
"یعنی اے رسول کریم(صلی اللہ علیہ وسلم)آپ لوگوں کو بتادیں کہ اگر تمام جن وانس اس قرآن جیسی کتاب لانے پر جمع ہوجائیں۔تو وہ اس کی مثل نہیں لاسکتے۔"
اس قرآنی آیت اور مذکورہ حدیث میں واضح فرق تک فرقہ طلوع اسلام کی رسائی نہ ہوسکی۔لہذا ا ُس نے یہ لکھا کہ:
"جب اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے انسانوں اورجنوں کو چیلنج دیا ہے کہ تم تمام مل کر بھی اس قرآن کی مثل نہیں لاسکتے۔تو آپ لوگ کونسے خدا سے قرآن کیلئے قرآن کی مثل قرآن کے ساتھ«مثله معه»لانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔"(طلوع اسلام:مارچ واپریل 89ء)
اگرچہ ان حضرات کے اس اعتراض کا جواب ان کے ا پنے اسی سوال میں موجود ہے۔جسے فہم وفراست کے حامل لوگ باآسانی سمجھ سکتے ہیں۔پھر بھی ہم نے اس اشکال کا ازالہ یوں کردیا تھا:
"احادیث،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال وافعال ہیں۔جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کے بیان اور تعبیر ۔وتشریح کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کئے گئے تھے۔حدیث«اوتيت القرىن ومثله معه»سے یہی مقصود ہے کہ صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن اور اس کی مثل حکمت (حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم) دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کئے گئے ہیں۔جبکہ سورۃ اسراء کی مذکورہ آیت میں قرآن کو مثل لانے کی جونفی کی گئی ہے اس کا تعلق جن وانس سے ہے۔"(محدث :مئی 89ء)
حدیث مذکور ک خلاف فرقہ طلوع اسلام کے اعتراض کی تردید میں ہماری اس وضاحت کے ہوتے ہوئے بھی انھوں نے اپنے حواریوں کو اندھیرے میں رکھنے کے لئے یہ دعویٰ کردیا کہ:
"ہمارے سوال کا کہیں جواب نہیں دیا گیا غیر متعلقہ باتوں سے 15 صفحے کالے کردیئے گئے ہیں۔"(طلوع اسلام:جون 89ء)
ان حضرات کی جانب سے یہ دعویٰ بھی اندھا دھند ہی کیا گیا ہے اوراس سے ان قرآنی آیات اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مستثنیٰ نہیں کیاگیا۔جو ہماری تحریر میں پیش کی گئی تھیں۔اگرآیات واحادیث پر مشمتل مضمون کو"طلوع اسلام" میں دینے سے اس کے صفحات کالے ہوئے ہیں۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ فرقہ طلوع اسلام کے ہاں قرآنی آیات اوراحادیث مبارکہ ۔۔۔معاذاللہ۔۔۔کالک کا باعث ہیں۔اور اُن کے مجلہ کے صفحات قرآن وحدیث سے بھی قیمتی سمجھے جارہے ہیں۔اوراس کے باوجود یہ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلاہیں کہ وہ منکرین حدیث نہیں بلکہ قرآنی نظام کے علم بردار(یعنی ٹھیکیدار) ہیں۔
دراصل کالک کا باعث وہ تحریر نہیں جو قرآنی آیات واحادیث پر مشتمل ہے۔بلکہ اس کا سبب وہ سیاہ اقتباسات ہیں۔ جنھیں مسٹر پرویز ک لٹریچر سے نقل کیا گیا تھا کیونکہ وہ خلاف اسلام تھے۔رہا آپ کا یہ کہنا کہ آ پ کو اپنے سوال کاجواب نہیں ملا۔تو آپ کے اس دعوے میں اُس تاثر کو مزید تقویت ملتی ہے۔جو عوام وخاص میں مشہور ہے کہ منکرین حدیث میں بات سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔لہذا اگر آپ وضۃ الاطفال کی گفتگو سمجھنے کے ہی عادی ہیں۔تو ہم دوبارہ عرض کئے دیتے ہیں کہ حدیث «اوتيت القرىن ومثله معه»سے مراد یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن اور اس کی مثل حدیث دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے ہیں۔کسی جن وانس کی طرف سے نہیں جبکہ سورہ اسراء کی آیت میں قرآن کی مثل لانے کی جو نفی کی گئی ہے۔اُس کا تعلق جنوں اور انسانوں سے ہے۔اللہ تعالیٰ سے نہیں ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن کی مثل بلکہ اس سے بھی بہتر لانے پر قادر ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ما نَنسَخ مِن ءايَةٍ أَو نُنسِها نَأتِ بِخَيرٍ مِنها أَو مِثلِها أَلَم تَعلَم أَنَّ اللَّهَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿١٠٦﴾... سورة البقرة
"ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا اُسے بھلا دیتے ہیں اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں۔یا پھر اس کی مثل۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔"
اگرچہ یہ نسخ کا ذکر ہورہا ہے۔تاہم اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی مثل لانے کی نفی صرف جن وانس سے ہے۔اللہ تعالیٰ سے نہیں اور اس آیت پرغور کرنے سے حدیث(عربی کی قرآن کریم کے ساتھ مطابقت بھی واضح ہوجاتی ہے۔لیکن اس کے باوجود منکرین حدیث اس کا انکار کرتے ہیں۔اور اس پر اصرار کے باوجود اپنے لئے منکرین حدیث کے لقب کے استعمال کو پسند نہیں کرتے بلکہ اسے گالی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"یہ حضرات طلوع اسلام اور پرویز صاحب کو منکرین حدیث کی گالی دے کر اپنے تئیں خوش ہوجاتے ہیں کہ ہم نے ایک بہت بڑا دینی فریضہ ادا کردیا ہے۔"(طلوع اسلام)
حالانکہ خود مسٹر پرویز کےلٹریچر سے بیسیوں ایسی عبارتیں پیش کی جاسکتی ہیں،جو اُ ن کے منکر حدیث ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔اوراُن کے مخالف حدیث ہونے کے بارہ میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتیں۔مثال کے طور پر وہ لکھتے ہیں:
"حدیث کا صحیح مقام دینی تاریخ کا ہے۔اس سے تاریخی فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔لیکن دین میں حجت کے طور پر وہ نہیں پیش کی جاسکتی۔اس (حدیث) کو دین بنالینے سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ قرآن کریم جوسراسر زندگی ہے حجاب میں آگیا ہے۔"(مقام حدیث از پرویز ص157)
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان دہ کہنے والے کو معلوم ہونا چاہیے تھا۔کہ اس سے وہ قرآن کریم حجاب میں نہیں آیا جسے صاحب قرآن نے پیش کیا ہے ہاں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسٹر پرویز کی مفہوم القرآن یا مطالب الفرقان جیسی کتابیں ضرور زمین میں دفن ہوکررہ جاتی ہیں۔جن میں خلاف اسلام افکار کی بھرتی کی گئی ہے۔اور ان میں مسٹر پرویز کااپنا ذہن ان کے قلم کی وساطت سے یوں ٹپکتا رہا۔جیسے پیپ سے بھرے ہوئے زخم سے فاسد مواد بہتا رہتا ہے۔درحقیقت مسٹر پرویز امت مسلمہ کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے برگشتہ کرکے اس سے اپنے اس لٹریچر کی اتباع کروانا چاہتے تھے جسے انھوں نے قرآن کے نام پروضع کیاتھا لیکن انھیں اس بات کا احساس نہیں ہواکہ جس امت نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آنے والے نام نہاد مفکروں کو اپنے جوتے کی نوک سے ٹھکرادیا ہے۔وہ امت بیچارے پرویز کو کیا جانے کیونکہ ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ دین اسلام کے عطا کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں۔اور اللہ رب العزت سے اس کی تعبیر وتشریح کے حق پانے والے حضرت محمد اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔لہذا قرآنی تعبیر وتشریح اس مقدس ہستی کی معتبر ہوگی جسے اللہ تعالیٰ نے یہ حق دیا ہو ۔ا س سے روگردانی کرکے اگر کوئی شخص قرآنی تعبیرات پیش کرتا ہے تو یہ دین شیطان تو ہے دین رحمان ہرگز نہیں۔
ایک دوسرے مقام پر وہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم خداوندی سے خارج کرتے ہوئے اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذہنی اختراع سمجھتے ہوئے رقم طراز ہیں:
"حقیقی تعلیم خداوندی اب صرف قرآن کےاند ر ہے۔"(قرآنی فیصلے :3/3)
اگر صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآنی تعبیرات تعلیم خداوندی سے خارج ہیں۔تو پرویزی ذہن کی خرافات کو وحی الٰہی کا درجہ کیونکر دیا جاسکتا ہے؟اور ان کی تعمیل پر لوگوں کو اکسانے کی وجہ کیا ہے؟
اپنے بارہ میں مسٹر پرویز کی ان تصریحات کوجھٹلاتے ہوئے ان کے مقلد انھیں عاشق حدیث باور کرانا چاہتے ہیں اور لکھتے ہیں:
"مفکر قرآن کی سیرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم پر بے نظیر علمی کاوش "معراج انسانیت" اس ناقابل تردید حقیقت پرشاہد ہے۔کہ وہ ہرگز ہرگز منکر حدیث نہ تھے۔کیونکہ اس عظیم تصنیف میں جس کے الفاظ میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جگماتے ہیروں کی طرح وجہ شادابی قلب ونگاہ بنتی ہے بے شمار احادیث نقل کی ہیں کیونکہ وہ قرآنی تعلیمات کے مطابق ہیں۔اوریقیناً اقوال رسول ہیں۔مفکر قرآن بلاشبہ ایسی احادیث منسوب الی الرسول کو جن سے ارشادات ربانی کے خلاف معراج انسانیت پر فائز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت داغدار ہوکرسامنے آتی ہے۔اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماننے سے انکار کرتے ہیں۔"(طلوع اسلام:جون 89ء)
فرقہ طلوع اسلام کی طرف سے دئے گئے اس اقتباس میں جن چیزوں کو باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔وہ بالااختصار حسب ذیل ہیں:
1۔مسٹر پرویز نے اپنی کتابوں میں بے شمار احادیث درج کی ہیں جو ان کے منکر حدیث ہونے کی نفی کرتی ہیں۔
2۔مسٹر پرویز ایسی حدیث کا انکار نہیں کرتے۔جو قرآنی تعلیمات وتصریحات کے مطابق ہو۔
3۔چونکہ انھوں نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر"معراج انسانیت"نامی کتاب لکھی ہے۔جس میں انھوں نے بہت سی احادیث درج کی ہیں۔اس لئے انھیں منکر حدیث یامنکر شان رسالت نہیں کہاجاسکتا۔
ان حضرات کے پہلے دونوں اشکالات کی تفصیلی تردید ہم ماہنامہ محدث نومبر 87ء کے شمارہ میں کرچکے ہیں۔جس میں ہم نے غلامان پرویز سے سوال کیا تھا کہ:
"وہ احادیث جنھیں مسٹر پرویز بقول شمار صحیح مانتے تھے اور انھیں اپنی کتابوں میں درج کرتے تھے ان کے متعلق ہمارا استفسار یہ ہےکہ ایسی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی آراء تھیں۔یا آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے ملی تھیں۔اگر وہ آپ کی ذاتی آراء ہیں۔جن کا وحی سے کوئی تعلق نہیں۔تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلو ق میں سے کسی کی رائے کو ماننا پرویز صاحب کے ہاں شرک باللہ کے مترادف ہے۔تو کیا وہ ان احادیث کو جو آپ کی ذاتی صوابدید پر مبنی تھیں۔تسلیم کرکے شرک کا ارتکاب کرتے رہے ہیں؟اور اگر وہ احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی ملی ہیں تو بتایا جائے کہ وہ قرآنی وحی کی قبیل سے ہیں یا اس کے علاوہ وحی کی کسی دوسری قسم سے؟اگر وہ پہلی قسم سے ہیں تو وحی کی یہ قسم من وعن قرآن کریم کے اندر محفوظ ہے ۔لہذا ایسی احادیث کے الفاظ کو قرآن مجید میں موجود ہونا چاہیے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے تو لامحالہ ایسی احادیث وحی کی دوسری قسم سے متعلقک ہوں گی۔جسے وحی غیر متلو کہا جاتا ہےلیکن مسٹر پرویز وحی کی اس قسم کو ہی غلط قرار دے چکے ہیں۔جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مستشرق پرویز کلیۃً منکرحدیث تھے۔اور اُن کی طرف سے قرآنی مطابقت کادعویٰ یا بعض احادیث کو اپنی کتابوں میں درج کرنا صرف ان سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے چنگل میں پھانسنے کے لئے تھا جو کہ تعبیر قرآن میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کو دل وجان سے قبول کرنے کی شیدائی ہیں۔(محدث:نومبر 87ء)
مسٹر پرویز کے کلیۃً منکر حدیث ہونے کی یہ ایسی عقل دلیل ہے کہ فرقہ طلوع اسلام کے مذہبی پیشوا اسے رواجی کہہ کر تو آگے بڑھ سکتے ہیں۔لیکن اس کا جواب نہیں دے سکتے۔اوراگر ان حضرات نے اس کا جواب لکھنے کی کوشش کی بھی تو ایسی صورت ہی اختیار کریں گے جس سے مسڑ پرویز کا مشرک ہونا لازم آئے۔اور کسی شخص سے دفاع کرتے کرتے اسے شرک کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے سے بہتر یہ ہے کہ خاموش ہی رہا جائے۔رہااُن کا یہ دعویٰ کہ مسٹر پرویز صرف انہی احادیث کو صحیح مانتے ہیں۔جو قرآنی تعلیمات کے مطابق ہوں اور جو اس ک ےموافق نہ ہوں۔اُنھیں وہ صحیح تسلیم نہیں کرتے۔
پردہ اٹھتا ہے:
تو صحت حدیث کے لئے یہ اصول بھی مسٹر پرویز کا اپنا نہیں بلکہ مرزا قادیانی سے چرایا ہوا ہے جسے ہم پرویز کے لٹریچر سے ہی نقل کررہے ہیں اور انھوں نے اس قاعدہ کو مرزائی کتاب"اعجاز احمدی ص30" سے لیا ہے۔لہذا قادیانی کذاب کے ہاں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے(الفاظ مٹے ہوئے ہیں)کا معیار ذکر کرتے ہوئے خود مسٹر پرویزنے لکھا ہے کہ:
"میرے(قادیانی کے) اس دعویٰ کی بنیاد حدیث نہیں بلکہ قرآن اوروحی ہے جومیرے پر نازل ہوئی۔ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں۔جوقرآن شریف کے مطابق ہیں۔اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔"(ختم نبوت از پرویز ص23)
مرزا قادیانی کے اس اصول حدیث کو مستشرق پرویز نے اپنے لئے اختیار کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔بلکہ بڑی فراخدلی سے اُسے قبول کیا۔اوراُس پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی جائے،چنانچہ وہ خود اپنی اسی کتاب میں چند ہی صفحات کے بعد اس قادیانی معیار کو اپنے فرقے میں در آمد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"میرے نزدیک دین میں سند اور حجت خدا کی کتاب (قرآن کریم) ہے ۔اور احادیث کے پرکھنے کا میعار یہ کہ جو حدیث قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف نہیں جاتی اُسے حضور کا ارشاد تسلیم کیاجاسکتاہے۔"(ختم نبوت ص26)
حالانکہ مستشرق مذکور کے اختیار کردہ اس اصول کے بودہ پن کو ماہنامہ محدث نے اپنی نومبر 87ء کی اشاعت میں"مستشرق ہندی کا مکمل انکارحدیث" کے عنوان سے بایں الفاظ ظاہر کردیا تھا کہ:
"ایسی حدیث کو تسلیم کرنے کا دعویٰ کرنا جو قرآنی تعلیمات کے مطابق ہو۔مہمل اور لا یعنی دعویٰ ہے۔جسے ان لوگوں نے اہل اسلام کے اعتراض سے بچنے کے لئے ایک آڑ کے طور پر وضع کیا ہے۔چنانچہ ان کےاس لفظی گورکھ دھندے کومنکرین حدیث کے نیاض مولانا محمد اسماعیل السفی ؒ کافی عرصہ پہلے بے نقاب کرچکے ہیں۔آپ فرماتے ہیں۔"سوچئے کہ اگر ایک حکم قرآن وسنت میں بصراحت موجود ہو۔اور آپ اسے مان لیں تو آپ نے سنت پر کیا احسان کیا۔وہ تو قرآن ہے اس کا انکار کیسے ممکن تھا۔"(حجیت حدیث ص18)
چنانچہ جس حکم پر حدیث مشتمل ہے ۔اگر وہی حکم قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔اب اس حکم کو صرف قرآن کریم کی وجہ سے مانا جائے۔یا اس کے ساتھ اس کی تعمیل میں حدیث کو بھی ملا لیا جائے۔دونوں صورتوں میں وہی حکم زیر عمل آئے گا جوجوقرآن کریم میں ہے جبکہ اطاعت رسول میں صداقت کا رازتو اس وقت کھلے گا جب کسی ایسے حکم کی تعمیل کی جائے گی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی تعبیر کے طور پر دیا ہے۔اگرچہ وہ قرآن مجید میں بصراحت موجود نہ ہو۔"
بہرحال مستشرق پرویز نے صحت حدیث کو جانچنے کا اصول در اصل مرزا قادیانی سے لیا ہوا ہے۔اور ان کے اس طرز عمل سے یہ بات نکھر کرسامنے آجاتی ہے کہ جہاں قادیانی کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر تیشہ چلانے کے لئے تیار کیاگیا۔
وہاں مسٹر پرویز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الرسل ہونے کے منصب پر کلہاڑہ چلانے پرآمادہ کیاگیا اور ان دونوں غلامان احمد کے فرقہ بندوں کا انداز بھی ان کی آپس میں یگانگت پر دلالت کرتا ہے۔جیسا کہ ہم نے "محدث کے گزشتہ شمارہ میں فتنہ تجدید نبوت اورتجدید رسالت کی قدر مشترک" کے عنوان کےتحت لکھا تھا کہ:
"فرقہ طلوع اسلام کا اپنے مخالفوں کو﴿والسلام على من اتبع الهدى﴾ کے الفاظ سے یاد کرنا مخصوص قادیانی ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔کیونکہ مرزا قادیانی کی یہ عادت تھی کہ و ہ اپنی جعلی نبوت کی دھاک بٹھانے کے لئے اپنے مخالفین کو ایسے ہی جملوں سے یاد کیا کرتا تھا ۔"
لیکن طلوع اسلام والوں نے ہماری اس تنبیہ پر توجہ دینے کی بجائے اپنی اس غلط روش کو یوں تحفظ دینے کی کوشش کی کہ:"
"ماہنامہ محدث نے ہمارے مضمون کے آخری الفاظ﴿والسلام على من اتبع الهدى﴾ کا جو وحی الٰہی کے الفاظ ہیں۔اور سورہ طہٰ کی آیت نمبر 47 کا حصہ جس بھونڈے طریقے سے مذاق اڑایا ہے۔وہ ان جیسے ہی قرآن کو ماننے والوں کاخاصہ ہوسکتا ہے۔اللہ کی نازل کردہ وحی کے الفاظ کو مرزاقادیانی کے اس انداز کے جملے کہنے کی جرائت یہ حضرات کرسکتے ہیں۔ہماری تو ایسی بات کرنے سے پہلے روح تک کانپ اٹھتی ہے۔(طلوع اسلام :جون 89ء)
ان حضرات کا یہ جواب بھی سادہ لوح لوگوں کو پھانسنے کے لئے شکاری کے جال کی حیثیت رکھتا ہے۔کیونکہ ان قرآنی الفاظ کولکھنے سے اگر طلوع اسلام والے قرآنی نظام کے علمبردار بن سکتے ہیں تو بتایئے اس بارہ میں قادیانی کذاب کا جرم کیا رہا؟وہ بھی تو اپنے مخالفوں کےلئے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کے یہی الفاظ استعمال کرتا تھا۔جوسورۃ طہٰ کی آیت 47 کا حصہ ہیں۔علاوہ ازیں ان الفاظ کے قرآنی ہون کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں سیاق وسباق سے کاٹ کر بے موقع استعمال کرنا شروع کردیا جائے۔اور پھر ان کے قرآنی ہونے کا راگ الاپا جائے۔یوں تو "﴿لعنه الله﴾ بھی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کے الفاظ ہیں اور سورۃ نساء کی آیت 118 کا حصہ لیکن ان الفاظ کو فرقہ طلوع اسلام یا اس کے کسی مذیبی پیشوا کے لئے استعمال کرنا صرف اس لئے درست قرارنہیں دیا جاسکتا کہ یہ قرآنی الفاظ ہیں اوروحی الٰہی کا حصہ ہیں۔
ٹھیرئیے!ان حضرات کے ایک اشکال کا ازالہ ابھی باقی ہے جس میں یہ مبتلا ہیں۔اور وہ ہے ان کا زعم باطل کہ مسٹر پرویز نے جبکہ سیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر "معراج انسانیت" نامی کتاب لکھی ہے ۔جس میں انھوں نے بہت سی احادیث درج کی ہیں۔تو اس کتاب کے ہوتے ہوئے انھیں منکر حدیث یا منکر شان رسالت کیونکہ کہاجاسکتاہے۔؟
دراصل یہ مسٹر پرویز کے اس دعویٰ کی صدائے باز گشت ہے جس انھوں نے اپنے متعلق"ختم نبوت اور تحریک احمدیت۔کتاب میں ان الفاظ سے درج کیا ہے:
" مجھے جو منکرحدیث کہاجاتاہے تو وہ اس لئے نہیں کہ میں صحیح احادیث کا منکر ہوں۔میری کتاب"معراج انسانیت" میں دیکھئے میں نے کتنی حدیثیں درج کی ہیں۔"(26)
مسٹر پرویز کو "معراج انسانیت" کتاب کیوں لکھنا پڑی؟ اور اس میں انھوں نے متعدد احادیث درج کیوں کیں؟ایسے سوالات کا جواب مسٹر مذکور نے خود ہی مذکورہ بالا اقتباس میں دے دیا ہے۔یعنی تاکہ انھیں منکر حدیث یا منکر شان رسالت نہ کہاجاسکے۔
درحقیقت مسٹر پرویز نے جب ہر وقت کی گورنمنٹ کو اللہ تعالیٰ کے رسول ہوئے کا لقب عنایت فرمایا اور ان بہت سی آیات کو ۔جن میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ذکر ہے۔حکمرانوں پر چپکانے کی جسارت کی تو مسلمانوں کے ذہنوں میں اس بات کاجنم لینا لازمی تھا کہ گورنمنٹ عہدے داروں کو رسالت کے اعلیٰ منصب پر فائز کردینے والا مسٹر پرویز رسالت محمدیہ کا منکر اور درباری آدمی ہے۔تو اس اعتراض سے بچنے کے لئے انھیں یہ کتاب ترتیب دینا پڑی۔تاکہ جو شخص بھی انھیں منکرحدیث کہے یامنکر شان رسالت ثابت کرے تو اُس کے سامنے اُن کی یہ کتاب پیش کردی جائے۔اور یہ دعویٰ کیا جائے کہ جس شخص نے سیرت پر ایسی ضخیم کتاب لکھی ہے۔وہ منکر شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہوسکتا ہے؟ اور اس میں بہت سی احادیث درج کرنے والا منکر حدیث کیونکر ہوسکتا ہے؟حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ"معراج انسانیت" ہی وہ کتاب ہے جس میں مستشرق پرویز نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر رسالت پر وار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الرسل ہونے کا انکار کیا ہے اور یہاں تک لکھنے کی جسارت کی کہ"
"اللہ ورسول سے مراد وہ مرکز نظام اسلامی CENTRALAUTHORITY ہے۔جہاں سے قرآنی احکام نافذ ہوں۔"(معراج انسانیت:ص318)
اس کتاب میں اس قسم کے اقتباسات کو سامنے رکھ کر انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجئے ککہ یہ کتاب شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو اجاگر کرنے کےلئے لکھی گئی ہے یا مقام رسالت محمدیہ پرتیشہ چلانے کےلئے؟
یہی وجہ ہے کہ مقدمہ بہاول پور میں ۔بقول مسٹر پرویز۔۔۔ان کی بات کوعدلت میں پزیرائی حاصل ہوئی۔ورنہ انھوں نے کوئی ایسا تیر نہیں مارا تھا جوعلماء کی استطاعت سے باہر ہو۔بات اصل میں یہ تھی کہ مقام رسالت کو حضرت محمد رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر منھر سمجھنے والے علماء اور اس مقدس مقام پر حکمرانوں اور قاضیوں کو فائز کردینے والے مسٹر پرویز عدالت کی نگاہ میں برابر کیونکر ہوسکتے تھے؟ جبکہ اہل اسلام کے ہاں مقام رسالت کو حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھین کر گورنمنٹ کے عہدے داروں کو دینے کی کوشش کرنا ایسا بدترین جرم ہے جو مسٹر پرویز کےباقی سارے جرائم اور ان کی سب سازشوں سے بڑھ کر ہے اور جسے سن کر کوئی مسلمان اُس کی مذمت کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
رہی "معراج انسانیت" تو اس کتاب کے نام پر غور کرنے سے پرویز کے نزدیک محم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اصل مقام ہے وہ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔اور وہ یہ کہ مستشرق پرویز کے ہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اعلیٰ مقام تھا وہ صرف انسانیت کی معراج ہی تھا۔یعنی اُس کے نزدیک نبوت کا مقام انسانیت کی ترقی سے بڑھ کر کچھ نہیں اور یہی وہ فساد کی جڑ ہے۔ جو مستشرق پرویز کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دائمی ماننے سے انکار کی طرف لے جاتی ہے۔حالانکہ رسول انسان ہوکر بھی باقی سب انسانوں سے نبوت ورسالت کے اعتبار سے بالاتر ہے۔اور وصف رسالت ونبوت انسانیت کا ارتقاء یا اکتساب نہیں۔بلکہ وہبی شے ہے۔جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی اور اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے انسانی کمالات کا معترف ہوجائے لیکن وہ تب تک مسلمان نہیں ہوسکتا۔جب تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف رسالت کو دائمی تسلیم نہ کرے۔اور یہ وصف اس قدر کامل ہے کہ اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ صفات کا احاطہ کرلیا ہے۔قرآن کریم میں اسے کلمہ عصر سے ذکر کیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وما محمد الا رسول﴾
"یعنی رسول صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔"
اور کسی بھی شخص کے مومن اور مسلمان ہونے کا انحصار اس پر ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف نبوت کے ساتھ ساتھ آپ کے وصف رسالت کے دائمی ہونے پر بھی ایمان لائے۔ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ک انسانیت کی معراج ہونے کا اقرار تو بے شمار عیسائی اور یہودی ہندو اور سکھ بھی کرتے ہیں۔لیکن وہ مسلمان نہیں ہیں۔کیونکہ وہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول نہیں مانتے۔
دوسری طرف"معراج انسانیت" کا شخصی جمود سے بالاتر ہوکر مطالعہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اس کتاب کی جو بات صحیح ہے وہ نئی نہیں بلکہ دیگر علماء سے مستعار ہے اور جو چیز اس میں نئی ہے وہ صحیح نہیں بلکہ غلط ہے۔جس کی ایک مثال ابھی ہم ذکر کرچکے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام رسالت کے خلاف ایسے پرویزی پروپیگنڈے سے بچائے۔آمین۔