جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) کی تقسیم اسناد

(11 جولائی 1989 ء بروز منگل کلیۃ الشریعۃ 91۔بابر بلاک نیو گارڈن ٹاؤن لاہورسے متصل وسیع سبزہ زار میں جامعہ لاہور اسلامیہ(رحمانیہ) کی تقریب تقسیم اسناد زیر صدارت بقیۃ السلف حضرت مولانا حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی منعقد ہوئی۔جس میں مہمان خصوصی جناب جسٹس محمد رفیق تارڑ قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تھے۔اس تقریب کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ عید وجمعہ کے اجتماعات کی طرح خواتین وحضرات دونوں میں سے دین وسماجی خدمات انجام دینے والی نمایاں شخصیات نے شرکت کی۔خواتین کے لئے مکمل باپردہ نشست کا اہتمام کیاگیا تھا۔واضح رہے کہ جامعہ ہذا میں علمی اور تحقیقی کام کے علاوہ اسلامی ویلفيئر ٹرسٹ کے نام سے غربت وجہالت کے خاتمے کے لئے رفاہی اوردعوتی سلسلہ بھی جاری ہے۔جس میں مردانہ اور زنانہ دو الگ الگ ونگ کام کررہے ہیں۔ایک طرف مجلس تحقیق اسلامی۔المعہد العالیٰ لشریعۃ والقضاء کلیۃ الشریعۃ مدرسہ رحمانیہ وغیرہ ہیں تو دوسری طرف تیس کے قریب دعوت وتعلیم کے حلقہ جات ہیں جن میں سے کئی مستقل تعلیمی مراکز کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔مہمان خصوصی جناب جسٹس رفیق تارڑ صاحب نے جہاں جامعہ کے مختلف شعبوں سے فارغ ہونے والے 50 طلباء کی اسناد دیں وہاں امسال جامعہ کی طرف سے ریاض مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیمی وضائف حاصل کرنے والے گیارہ طلباء کو "الوداع" بھی کیا۔اس تقریب کے آرگنائزر معروف قانون دان جناب محمد اسماعیل قریشی صدر ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس اور جامعہ کی معہد شریعت وقضا ء کے پہلے بیج کے فضلاء تھے۔

اس موقع پر شیخ الجامعہ حافظ عبدالرحمٰن مدنی جو خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔اور مہمان خصوصی نے جن خیالات کا اظہار فرمایا وہ ہدیہ قارئین ہیں۔(ادارہ)

«الحمد لله الذى من على الانسان بتعليم القرآن والبيان وعلم بالقلم، علم الانسان ما لم يعلم، أحمده سبحانه وتعالى واشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له ، واشهد ان محمدا عبده ورسوله، وعلى آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا، اما بعد»

عزت مآب جناب جسٹس محمد رفیق تارڑ صاحب دام اقبالہ قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ،مہمانان زی وقار ،فاضل اساتذہ اور علمائے کرام!

«السلام عليكم ورحمة الله وبركاته»

اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی لطف وکرم ہے۔کہ آج ہم مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جامعہ لاہور اسلامیہ کے مختلف شعبوں المعہد العالیٰ لشریعۃ والقضاء کلیۃ الشریعہ اور مدرسہ رحمانیہ کی تیسری تقریب تقسیم اسناد زیر صدارت بقیۃ السلف حضرت مولانا حافظ محمد یحییٰ عزیز صاحب منعقد کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ہمارے لئے عدل وانصاف کے جج اور وکلاء حضرات جامعات کے سربراہان انتظامیہ کے ذمہ داران ،مایہ ناز علمائے دین وشریعت ،اساطین صحافت اور فاضل اساتذہ خواتین وحضرات تشریف فرما ہیں۔

حضرت گرامی!

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان دین وعلم کے اعتبار سے بھی ترقی پزیر ممالک میں سے ہے۔جہاں شریعت وفقہ کے ماہرین قلیل تو ضرور ہیں لیکن اسلامی جذبہ وجہاد کی حد تک پاکستان پوری اسلامی دنیا میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔اسی طرح ماہرین قانون کی تعداد اگرچہ تھوڑی ہے ۔تاہم ان میں ایسی باوقار شخصیتیں موجود ہیں جنہوں نے دیانتداری اور عمل وانصاف کے میدان میں روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ہمارے ممدوح جناب جسٹس محمد رفیق تارڑ صاحب اُ نہی میں سے ایک ہیں۔آپ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی مقدس روایات کے امین ہیں جن کی شرافت اور رواداری بھی مسلمہ ہے ۔آپ اپنی قانونی بصیرت کے ساتھ ساتھ اپنے بلند اخلاق وکردار کی بناء پر اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ میں خاص احترام سے دیکھے جاتے ہیں جبکہ آپ دینداری اور روشن خیالی کی جامع شخصیت بھی ہیں۔یہی صفات اور غیر جانبداری الیکشن کمیشن پاکستان میں آپ کی اعلیٰ کارکردگی کا سبب ہے۔

مہمانان گرامی قدر!

آج کے مبارک اجتماع کی مناسبت سے میں اس ادارے اور اس کے چند شعبوں کا مختصر تعارف پیش کرنا چاہتا ہوں جس کی تقریب میں شریک ہوکر آپ ہماری عزت افزائی کا باعث بنے ہیں۔اس ادارے کا ایک پہلو علمی اور تحقیق کام ہے جس کے تین مراحل ہیں۔

1۔اعلیٰ ثانوی درجہ:جس کا نام مدرسہ رحمانیہ ہے جو ایک اقامتی درسگاہ ہے اور اس میں طلبہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ قیام وطعام کی ساری سہولتیں مفت میسر ہیں۔اس درسگاہ میں مڈل یا میٹرک کے بعد چار سے چھ سال کا کورس ہے جس میں صبح کے اوقات شریعت وفقہ اور عربی زبان کے مروجہ علوم کے لئے ہیں تو شام کے اوقات میں میٹرک۔ایف اے ۔بی اے کی تیاری کرائی جاتی ہے۔اس کے کورس کا معادلہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹیوں سے ہے۔ اسی بناء پر عرب ممالک کی یونیورسٹیاں یہاں سے فراغت حاصل کرنے والوں کو اعلیٰ تعلیمی وضائف کے لئے اہمیت دیتی ہیں۔

2۔کلیۃ الشریعۃ:

یہ بھی مفت اقامتی درسگاہ ہے جس میں مدرسہ رحمانیہ سے فراغت پانے والے یا دیگر عربی مدارس کے منتہی طلباء داخل ہوسکتے ہیں۔داخلہ کی اہلیت دینی حلقوں کی معروف اصطلاح "موقوف علیہ" ہونی چاہیے۔جس کے بعد عموماً مدارس میں دورہ حدیث ہوتا ہے۔ایسے منتہی طلباء کو نہ صرف شریعت وفقہ اورعربی علوم کا ایک جامع کورس کرایا جاتاہے ملکہ پاکستان میں مختلف وفاق المدارس کی آخری سند کو جب یونیورسٹی گرانٹ کمیشن اور وزارت تعلیم وغیرہ نے ایم اے (عربی۔اسلامیات) کے برابر قرار دیا تو اسے کل سرکاری ملازمتوں کے لئے قابل قبول بنانے کی یہ شرط رکھی کہ اس کے ساتھ بی اے سطح کے تین اضافی مضامین عربی اسلامیات کے علاوہ بھی پاس کرنے ضروری ہوں گے۔لہذا کلیۃ الشریعہ میں ایسے مضامین کی تیاری بھی کرائی جاتی ہے۔گویا اس کا معیار ایم اے ہوا۔

3۔المھعد العالی للشریعۃ والقضاء:

اس میں داخلے کا میعار ایم اے یا ایل ایل بی ہے۔یہ دو سال کا ڈپلومہ کورس ہے۔اس کے حاملین کو بھی سعودی یونیورسٹیاں بڑی اہمیت دیتی ہیں۔قبل ازیں 60 کے قریب طلباء بیرونی تعلیمی وضائف حاصل کرچکے ہیں۔جن کی اکثریت تعلیم مکمل کرکے واپس پاکستان آچکی ہے۔ان حضرات کی خصوصی اہمیت یہ ہے کہ ایم اے یا ایل ایل بی کے بعد چار پانچ سال مزید اعلیٰ تعلیم میں لگاچکے ہیں۔اور قانون کے ساتھ ساتھ عربی زبان اورشریعت سے بھی واقف ہیں۔مجلس التحقیق الاسلامی نے ترجمہ وتحقیق کے کام میں ایسے حضرات سے استفادہ کی کوششیں جاری رکھی ہیں۔جس کے نتیجہ میں قانون اور عملی زندتی سے متعلق متنوع پہلوؤں پر ایک بیش بہا تحقیقی کام بھی ہوا ہے۔لیکن یہ کام حکومتی اداروں کی بھر پور توجہ کے بغیر ملی ضرورتوں کا کفیل نہیں بن سکتا۔اگرچہ یہ پہلو خوش آئند ہے۔کہ گزشتہ سال شریعۃ ریسرچ کونسل کی زیر نگرانی ایسے حضرات کو دو ماہ کا ریفریشر کورس کرانے کا بھی اہتمام کیاگیا تاہم کسی کام کو جاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اہل افراد کی ملکی ضرورتوں میں کھپت ہو۔ہمارے برادر اسلامی ممالک کا تعاون جس فراخ دلی کے ساتھ ہورہا ہے۔ حکومت اور اس کے اہم شعبوں کے ذمہ داروں کو اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

معزز حضرات!

میں اور میرے رفقاء کار کے نزدیک علمی اور تحقیقی کام اس وقت تک معاشرے کی تعمیر میں اپنا موثر کردار ادا نہیں کرسکتا۔جب تک اس کی اساس خدمت خلق اوررفاہ عام نہ ہو۔لہذا اس کے لئے ہم نے اسلامک ویلفئر ٹرسٹ کے نام سے ایک تنظیم قائم کررکھی ہے۔جواگرچہ اپنے وجود کے اعتبار سے زیادہ پرانی نہیں لیکن اس نے تھوڑے ہی عرصے میں جس طرح اپنے پروگراموں کو منظم کیا ہے۔اسے خاص فضل الٰہی ہی سمجھاجاسکتاہے۔اس وقت تک لاہور اور اس کے گردونواح میں نہ صرف تیس کے قریب حلقہ ہائے درس قائم ہوچکے ہیں۔بلکہ ان میں بعض کی حیثیت مستقل تعلیمی مراکز کی بن چکی ہے۔جن میں سے زیادہ کام مردوں کی نسبت ہماری بہنوں نے کیا ہے۔ہم نے مردوزن کے اختلاط سے بچنے کے لئے ٹرسٹ کے دوعلیحدہ ونگ قائم کئے ہیں۔

1۔مردانہ ونگ

2۔زنانہ ونگ

اگرچہ ٹرسٹ کی طرف سے گزشتہ سال سیلاب زدگان کے لئے لاکھوں کا سامان تقسیم کیاگیا تھا۔لیکن اس وقت زیادہ توجہ غریب اور پسماندہ علاقوں کی طرف ہے جہاں لوگوں کی خوراک اور رہائش کی ضروریات میں تعاون کے علاوہ بیماری اور جہالت کے خاتمہ پر بھرپور کام ہورہا ہے۔بیماروں کے علاج کے لئے ڈاکٹر صاحبان ان بستیوں میں خود بھی جاتے ہیں۔اور بیمار اور نادار مریضوں کو خصوصی کلینک میں بھی مفت علاج ودوائیں مہیا کی جاتی ہیں۔اب تک ایسی بستیوں میں چار ابتدائی درسگاہیں بھی قائم ہوچکی ہیں جن میں دو لاہور اور دو شیخو پورہ میں واقع ہیں جہاں وسیع تعداد میں لڑکے اورلڑکیاں الگ الگ زیرتعلیم ہیں۔

محترم حضرات!

ان علمی اور رفاہی کاموں کی ساری کامیابیوں کے پیچھے اللہ کے فضل کے بعد اصل ہاتھ ان سرپرستوں کا ہے۔جو اس سلسلہ میں کسی ستائش کی خواہش کے بغیر مادی اور معنوی مدد دے رہے ہیں۔جن میں اہل علم ساتھی بھی ہیں۔اوراہل خیرمعاونین بھی میں جہاں اپنی طرف سے اور اپنے رفقاء کی طرف سے ان کا شکریہ اد اکرنا ضروری سمجھتا ہوں وہاں ان کی دینی ودنیاوی کامیابیوں کے لئے دعاگو بھی ہوں۔

این دعا ازمن واز جملہ جہاں آمین باد

 

خطاب مہمان خصوصی


ر فیق تارڑ صاحب قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

«نحمده ونصلي على رسوله الكريم»

محترم صدر گرامی قدر حضرت مولانا حافظ محمد یحییٰ عزیز صاحب

جناب حافظ عبدالرحمٰن مدنی مدی مجلس التحقیق السلامی پاکستان

حضرات علمائے کرام!عزیز طلباء معزز خواتین وحضرات!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

میرے لئے یہ امر باعث صدرافتخار ہے کہ میں اہل علم کی اس محفل میں شریک ہوں۔جو طلبائے علوم دینیہ کی کورس س فراغت پر منعقد ہورہی ہے۔اس کے لئے حضرت مولانا عبدالرحمٰن مدنی صاحب کا بصمیم قلب شکر گزار ہوں۔علم وہ دولت ہے کہ جس کے سامنے دنیا کے مال ودولت کی کچھ حقیقت نہیں ۔

مال ودولت فانی ہے اور علم باقی ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسے بلندی درجات کا ذریعہ قرار دیا ہے۔

ترجمہ۔:"۔اللہ تعالیٰ تم میں ایمان والوں کے اور ان لوگوں کے جن کو علم عطا ہوا ہے درجے بلند کرے گا۔"(المجادلہ/آیت 11)

علم کی دوقسمیں ہیں:علم دین اورعلم دنیا۔

علم دین تو وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو اس کے احکام سے واقفیت ہوکر اس کی اطاعت کا طریق معلوم ہو۔

علم دنیا سے مراد وہ علوم ہیں جن کے ذریعے حوائج وضروریات دینوی کی تکمیل کی جاسکے۔مسلمان کے لئے علم دین مقصد اول ہے اور علم دنیا مقصد ثانی۔علم دین کے شرف کا کسی مسلمان کو انکار نہیں کیونکہ وہی کامل انسان بناتا اور ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کی پہچان کراتا ہے۔اسی لئے اس کے لئے انبیاء جیسی پاکباز ہستیاں دنیا میں تشریف لاتی ہیں اورعلمائے دین کو انہی معنوں میں انبیاءؑ کے وارث کہا جاتا ہے۔لیکن ایک عرصہ سے مسلمان تصوف وفقہ کی گھتیوں میں اس طرح الجھے کہ فرقہ بندیوں میں پڑ کر انسانی حقوق اور عالم اسلام کی ترقی سے غافل ہوگئے۔

لہذا میں وضاحت کرنا چاہتاہوں کہ ہمیں دین اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے صرف عربی زبان اور فقہ کافی نہیں بلکہ ایک لحاظ سے سائنسی اور تکنیکی علوم بھی دین کا حصہ ہیں۔بشرط یہ کہ انہیں انسانی خدمت اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے استعمال کیا جائے۔موجودہ ایٹمی دور میں تو اسلام کا دفاع بھی ان کےبغیر ممکن نہیں بلکہ سائنسی ترقی کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسے خدا شناسی کا ایک ذریعہ بنایا جائے بشرط یہ کہ یہ کام دین دار ہاتھوں میں ہو۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ہمیں جا بجا زمین وپہاڑوں کی تخلیق سورج۔چاند۔اورستاروں کی گردش کے نتیجے میں دن رات کے آگے پیچھے آنے جانے زندہ میں سے مردہ اور مردہ میں سے زندہ کے وقوع پزیر ہونے کے عمل پر غوروفکر کی بار بار دعوت دی ہے۔لہذا کائنات کی واقفیت حاصل کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل ہے۔جو ں جوں سائنس ترقی کرے گی ۔ان شاء اللہ۔قرآن کی حقانیت سب جہانوں پر واضح ہوتی چلی جائے گی لہذا یہ کہنا درست ہے کہ وہ علوم جو بظاہر دنیاوی نظرآتے ہیں اگر مذکورہ بالا مقصد سے حاصل کئے جائیں تو وہ بھی دین بن جاتے ہیں۔یہی مفہوم اس بات کا ہے کہ دین اسلام میں دین ودنیا کی کوئی تفریق نہیں۔جس طرح زندگی میں وحدت ہے۔اسی طرح علم جو ہدایت وروشنی ہے۔اس میں بھی اتحاد ہے۔

مجھے یہ بات اس لئے واضح کرنا پڑی کہ آج بعض حلقوں میں مذہب اور سائنس کو متضاد سمجھا جاتا ہے۔جبکہ اسلام کا یہ تصور نہیں اور نہ ہمیں یورپ وامریکہ کی سائنس وترقی سے مرعوب ہونا چاہیے۔یہ تو ہمارے گھر کی چیز ہے اور اس کی بنیادیں ہمارے ہی اسلاف کی کاوشوں اور علمی رفعتوں کی مرہون منت ہیں۔تاریخ ہمارے اسلاف کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔اہل یورپ نے انہی کی خوشہ چینی کرتے ہوئے سائنس میں پیش رفت کی ہے۔ہمارا یہ ورثہ آج بھی یورپ کی لائبریریوں میں محفوظ ہے۔لادین سائنسدانوں نے کیمیا ۔طبعیات۔ریاضی۔الجبرا۔اوردیگر علوم کو وہاں سے آگے بڑھایا جہاں ہمارے بزرگوں نے چھوڑا تھا۔ اور اسی ترقی سے مسلمانوں کو محکوم بنا لیا۔ ہم سے جیسے جیسے آزادی کی نعمت چھنی ہم ذہنی طور پر بھی غلام بنتے چلے گئے۔اسی تاریخی حقیقت کو حضرات علامہ اقبال ؒ اپنی شہرہ آفاق نظم"خطاب بہ نوجوانان اسلام" میں یوں پیش کیا ہے۔

حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جودیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ


آج ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ مسلمان تسخیر کائنات کے لئے سائنسی علوم کو بھی اہمیت دیں اور ان علوم کو دین کا حصہ تصور کرکے حاصل کریں۔اس ایٹمی دور میں ایسی اسلامی یونیورسٹیوں کی اشد ضرورت ہے جو شریعت وفقہ کی روشنی میں سماجی علوم کو مسلمان بنائیں اور سائنس وٹیکنالوجی کو بھی اسلامی نظریات پر استوار کریں دور حاضر میں دینی درسگاہوں کو عصری تقاضوں سے اس طرح ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ وہ لادین سائنس کے اوربے خدا فلسفہ کے پھیلے ہوئے اثرات کا توڑ کرسکیں۔

معزز حاضرین!

میرےنزدیک وہ حضرات بڑے خوش نصیب ہیں جنھیں مادیت کے غلبہ کے اس دور میں خالص علوم دینیہ کے حصول کی توفیق ملی اور اب وہ یہ لافانی دولت سمیٹ کر د وسروں کی اصلاح کے لئے میدان عمل میں قدم رکھنے والے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:

"قرآن سیکھنے اور سکھانے والے سب سے بہتر انسان ہیں۔"

مجھے یہ جان کر بھی دلی مسرت ہوئی کہ کچھ خوش نصیب طلباء مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے سعودی عرب کی اسلامی یونیورسٹیوں میں جارہے ہیں۔ان مہمانان خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کی خوش بختی کے الفاظ احاطہ ممکن نہیں۔اللہ تعالیٰ انھیں دین وعلم کی دولتوں سے مالا مال فرمائے۔آمین

ا س موقع پر میں اپنی بہنوں اوربیٹیوں کے لئے بھی خوشی کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔جو فلاحی کاموں میں بڑھ چرھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ہمارا دین جس طرح اصلاح پر زور دیتا ہے۔اسی طرح فلاح کو دین ودنیا کا مقصد حقیقی قرار دیتا ہے۔افلاس۔بھوک۔بیماری۔اور معاشی ناہمواریوں کو دو ر کرنے کے لئے کوشاں ہونا اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ جو مردوخواتین کا مشترکہ فریضہ ہے۔مردانہ ونگ کے علاوہ زنانہ ونگ کی معزز خواتین کو اس کا رخیر میں بطریق احسن اپنی زمہ داریاں پوری کرنے سے میں خصوصی مبارک پیش کرتا ہوں۔جناب صدر میں ان گزارشات کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔(وما علینا الا البلاغ)