مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ
مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ
(1867/ھ1283ء۔۔۔1935/ھ1353
مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری بن مولانا حافظ عبدالرحیم مبارکپوری محدث جید عالم فقیہ اور مفتی تھے علم حدیث میں تبحر و امامت کا درجہ رکھتے تھے ۔روایت کے ساتھ روایت کے ماہر اور جملہ علوم آلیہ و عالیہ میں یگانہ روزگارتھے قوت حافظہ بھی خداداد تھی حدیث اور متعلقات حدیث پر ان کی نظر وسیع تھی۔مولانا سید عبد الحی حسنی (م1341ھ)لکھتے ہیں ۔
كان ﻣﺘﻀﻠﱢﻌﺎً ﻓﻲ ﻋﻠﻮم اﻟﺤﺪﻳﺚ. ،. ﻣﺘﻤﻴﱢﺰاً. ﺑﻤﻌﺮﻓﺔ أﻧﻮاﻋﻪ وﻋﻠﻠﻪ. ،. وﻛﺎن ﻟﻪ ﻛﻌﺐ ﻋﺎل ﻓﻲ ﻣﻌﺮﻓﺔ أﺳﻤﺎء اﻟﺮﺟﺎل. فن جرح وتعدیل وطبقات المحدثين وتخرج الاحاديث(1)
"علم حدیث میں تبحر علمی کا درجہ رکھتے تھے اور معرفت حدیث انواع حدیث وعلل میں ان کی نظروسیع تھی اسماء الرجال اور جرح و تعدیل طبقات محدثین اور تخریج احادیث میں ان کو کمال حاصل تھا۔
مولانا براہ راست عامل بالحدیث تھے صفات باری تعالیٰ کے سلسلے میں ماوردبہ الکتاب والسنۃ پر ایمان رکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو علم و عمل سے بھر پورنواز اتھا ۔مدت ذہین ذکاوت طبع اور کثرت مطالعہ کے اوصاف و کمالات نے آپ کو جامع شخصیت بنا دیا تھا (2)صاحب نزہۃ الخواطر نے ان کو علمائے ربانیین میں شمار کیا ہے(3)مولانا ابو یحییٰ امام خان نو شہروی (1966ء)لکھتے ہیں کہ۔
"فن حدیث میں آپ کا ترجمہ معمولی نہ تھا اور علماء میں سب سے زیادہ خوش اخلاق تھے رقیق القلب اور صاحب ایثار و کرم تھے۔(4)
ولادت :
مولانا عبد الرحمٰن1283/ھ1867ءمیں مبارک پور ضلع اعظم گڑھ میں پیداہوئے اعظم گڑھ یوپی(اترپردیش ) کا مشہور شہراور ایک مؤرخ اور ادیب و شاعر مولانا شبلی نعمانی (م1332ھ)کا تعلق بھی اعظم گڑھ سے تھا بقول مولانا سعید احمد اکبرآبادی (م1985ء)
"اعظم گڑھ ایک بڑا مردم خیز خطہ ہے اس جیسے6 اور علاقوں کے سوتے خشک ہوگئے یا ہوتے جارہے ہیں لیکن اس کی زرخیزی نہ صرف قائم ہے بلکہ توز افزاوں ہے(5)اور بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ خطہ اعظم گڑھ پہ مگر فیضان تجلی ہے یکسر جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے ۔
اساتذہ :
آپ نے جن اساتذہ کرام سے مختلف علوم وفنون میں تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہیں
1۔حافظ عبدالرحیم مبارکپوری (م1330ھ)
2۔مولانا خدابخش اعظم گڑھی (م1333ھ)
3۔مولانا محمد سلیم فراہی (م1334ھ)
4۔مولانا فیض اللہ مؤی(م1316ھ)
5۔مولانا سلامت اللہ جے راج پوری(م1322ھ)
6۔مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی (م1327ھ)
7۔مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری(م1337ھ)
8۔ مولانا عبد الرحمٰن جیراج پوری(م1315ھ)
9۔مولانا قاضی محمد بن عبد العزیز مچھلی شہری (م32ھ)
10۔مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م1320ھ)
11۔علامہ حسین بن حسن انصاری الیمانی (م1327ھ)
تدریس :
مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری نے فراغت تعلیم کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور تدریس کا آغاز اپنے قصبہ مبارک پورسے کیا ۔وہاں ایک مدرسہ "دارالتعلیم "کے نام سے قائم کیا۔ تھوڑا عرصہ بعد آپ بلرام پور (گونڈہ )چلے گئے۔وہاں آپ نے ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی اور درس و تدریس کاسلسلہ شروع کیا۔کچھ عرصہ بعدبلرام پورے اللہ نگر (گونڈہ ) چلے گئے اور وہاں تدریسی خدمات انجام دیں اس کے بعد مدرسہ سراج العلوم گونڈہ تشریف لے گئے ۔یہاں کافی مدت تک درس و تدریس فرماتے رہے اس کے بعد مولانا مبارکپوری کے استاد مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازیپوری(م1337ھ)جو مدرسہ احمدیہ آرہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے نے آپ کو مدرسہ احمدیہ آرہ طلب فرمالیا۔چنانچہ آپ مدرسہ آرہ تشریف لے گئے اور وہاں اپنے استاد کے ساتھ مدتوں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے مدرسہ احمدیہ آرہ میں آپ کی علمی قابلیت کاشہرہ ہوگیا اور اہل مدارس کی نظر آپ پر اٹھنے لگی۔چنانچہ مدرسہ دارالقرآن والسنہ کلکتہ کے ناظم نے آپ کو اپنے مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دینے کی دعوت دی ۔چنانچہ آپ مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری کی اجازت سے کلکتہ چلے گئے۔(49)چنانچہ مولانا سید عبد الحی حسنی (م1341ھ)لکھتے ہیں۔
ثم ولي التدريس بالمدينة الا حمديه ببلدة أره فدرس وافاده زمانا ثم انتقل الي مدرسة دارالقرأن والسنة في كلكته فدرس بها مدة)50)
مولانا مبارکپوری کے تدریسی سفر کی یہ آخری منزل تھی اس کے بعد کسی مدرسہ میں نہیں گئےاور تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے۔(51)
تلامذہ:مولانا مبارکپوری نے زندگی کابیشتر حصہ درس وتدریس میں گزارااس لیے ان کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے تاہم یہاں آپ کے چند مشہور تلامذہ کامختصر تعارف پیش کیا جا تا ہے۔
مولانا عبد السلام مبارکپوری :۔
مولانا عبد السلام مبارکپوری مشاہیر علماءمیں سے تھے ۔آپ 1241ھ میں مبارک پور میں پیدا ہوئے ۔آپ نے علوم اسلامیہ کی تحصیل مولانا حافظ عبدالرحیم مبارکپوری (م1320ھ)مولانا حسام الدین مؤی (م1310ھ)مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری (م1353ھ)مولانا قاضی محمد مچھلی شہری (م1324ھ)اور علامہ حسین بن محسن بن محسن انصاری الیمانی (م1327ھ)سے کی۔ طب کی تعلیم حکیم عبد الولی بن حکیم عبدالعلی لکھنوی سے حاصل کی۔(54)
فراغت تعلیم کے بعد درس و تدریس کو اپنا مشغلہ بنا یا اور صادق پورپٹنہ کے ایک دینی مدرسہ سے تدریس کا آغاز کیا اور 15سال تک اس مدرسہ میں تدریس فرمائی ۔اس 15سالہ تدریسی دور میں آپ نے اپنی مشہور کتاب تاریخ المنوال لکھی صادق پور پٹنہ سے آپ مدرسہ فیض عام مئوآگئے اور تین سال تک اس مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اس کے بعد گونڈہ کے ایک مدرسہ میں چارسال تک پڑھایا۔ آخر میں دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں آئے اور اپنے انتقال 1342ھ تک تدریس فرماتے رہے ۔(53)مولانا عبد السلام مبارک پوری درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے بہت عمدہ مصنف اور اچھےنقاد تھے آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں
1۔اثبات الاجازہ لتکرار صلوٰۃ الجنازۃ 2۔اسلامی تمدن
3۔تصوف 4۔سیرۃ البخاری 5۔تاریخ منوال (54)
مولانا عبد السلام مبارکپوری نے18رجب 1343ھ/ھ24فروری 1924ءکو دہلی میں انتقال کیا اور مبارکپورمیں دفن ہوئے۔(55)مولانا ثناء اللہ امرتسری (م1948ء)نے آپ کے انتقال پر لکھا تھا کہ :
"آہ۔۔۔مولانا عبد السلام مرحوم !مولانا موصوف صحیح معنوں میں ایک عالم العلوم مدرس تھے مدرسین کی تلاش میں جب نظر پڑتی تو آپ ہی پر پہلے پڑتی(56)
مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ (صاحب مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح ):۔
شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ بن مولانا عبد السلام مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ مشاہیر علماء میں سے تھے آپ نے جن اساتذہ کرام سے علوم اسلامیہ میں تعلیم حاصل کی۔ ان میں آپ کے والد مولانا عبد السلام مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ (م1241ھ)مولانا احمد اللہ محدث پر تاب گڑھی (م1263ھ) مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری (م1353ھ)اور مولانا حافظ محمد گوندلوی (گوجرانوالہ ) م1985ء) قابل ذکر ہیں۔
1945ء میں آپ دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے فارغ ہوئے اور شیخ عطاء الرحمٰن مرحوم مہتمم دارالحدیث رحمانیہ نے آپ کو مدرسہ میں مدرس مقررفرمایا ۔
مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری جامع ترمذی کی شرح تحفۃالاحوذی کی تکمیل سے پہلے نگاہ سے معذور ہوگئے تھے آپ کو شرح کی تکمیل میں ایسے لائق عالم کی اعانت کی ضرورت تھی جو فنون حدیث میں مکمل مہارت صدررکھتا ہو اور اس کے ساتھ اس کا ادبی ذوق بھی عمدہ ہو۔ چنانچہ مولا نا عبد الرحمٰن مبارکپوری کی تحریک پر شیخ عطاء الرحمٰن مرحوم نے آپ کو دہلی سے مبارکپور بھیج دیا تاکہ تحفۃ الاحوذی کی تکمیل میں آپ مولانا مبارکپوری سے علمی تعاون فرمائیں ۔تنخواہ آپ کو دارالحدیث رحمانیہ سے ملتی تھی۔چنانچہ آپ نے 2سال مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری کے ساتھ بطور معاون کام کیا اور تحفۃ الاحوذی کی تیسری اور چوتھی جلد کی تکمیل کی۔تکمیل کے بعد واپس دارالحدیث رحمانیہ دہلی واپس تشریف لے آئے(57)
آپ کی ساری زندگی درس و تدریس میں بسر ہوئی ۔1947ءمیں تقسیم ملک سے دارالحدیث رحمانیہ دہلی کا وجود ختم ہوگیا اور آپ دہلی سے اپنے وطن مبارک پور چلے گئے۔
1950۔میں مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی (1987ء)کی تحریک پر آپ نے حدیث کی مشہور کتاب "مشکوۃ المصابیح "کی شرح بزبان عربی"سرعاۃ المصابیح "کے نام سے لکھنی شروع کی۔ اس شرح کی اب تک دس جلد یں طبع ہوئی ہیں اور اس میں کتاب المناسک پوری آگئی ہے۔ اس شرح میں جن علمی امور پر بحث کی گئی ہے وہ یہ ہیں ۔
(1)مشکوۃ کے ہر راوی کا ترجمہ (2)تمام احادیث کی تخریج (3)اسنادی اور متنی اشکالات کا حل(4)احادیث کی توضیح (5)اختلاف مذاہب اور ان کے دلائل پھر راجح مسلک کی وضاحت (58)آپ کی دوسری تصنیف "رمضان المبارک کے فضائل واحکام ہے(59)
مولانا عبید اللہ رحمانی 4جنوری 1992ءکو مبارکپوری میں انتقال کیا۔
مولانا عبد الرحمٰن آزاد مئوی :۔
مولانا ابو نعمان عبد الرحمٰن آزاد مئوی 1295ھ میں پیدا ہوئے ۔آپ نے جن اساتذہ کرام سے مختلف علوم وفنون میں تعلیم حاصل کی۔ ان میں مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی (م1327ھ)مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری (م1327ھ)مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری (م1353ھ) مولانا محمد اشرف علی تھا نوی (م1362ھ)اور مولانا احمد حسن کانپوری(م1222ھ) شامل ہیں حدیث کی تحصیل مولانا سید نذیر حسین دہلوی (م1320ھ) سے کی۔ 1314ھ میں دربھنگہ کے ایک دینی مدرسہ سے تدریس کا آغاز کیا۔ وہاں کچھ عرصہ تدریس فرماتے رہے اس کے بعد آسنسول کے ایک دینی مدرسہ میں تدریس پر مامور ہوئے ۔کچھ عرسہ بعد آسنسول سے درخت سفر باندھا اور کلکتہ چلے گئے۔کلکتہ کے زمانہ قیام میں مئومیں طاعون کی وبا پھیلی جن میں ان کے دوبھائی اور دوصاحبزادے موت کی گود میں جا ئے ۔(60)
مولانا عبد الرحمٰن آزاد ایک لا ئق مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مصنف بھی تھے ۔جن پر ان کی تصانیف شاہد ہیں ۔آپ کی تصانیف یہ ہیں ۔
(1)تفسیر القرآن (ناتمام) (2)شرح قصیدہ بانت سعاد (مطبوع )
(3)ترجمہ و شرح طبقات ابن سعد (ناتمام ) (4)التحریر(5)بحرالفرائض (61)
مولانا عبد الرحمٰن آزادنے 1357ھ میں وفات پائی ۔(62)
مولانا محمد بشیر رحمانی مبارکپوری :۔
مولانا محمد بشیر بن عبد المجید بن حافظ عبد الرحمٰن بن عبد الوہاب19/اکتوبر 1904ء/9شعبان 1322ھ مبارکپور ضلع گڑھ میں پیدا ہوئے ۔آپ کے اساتذہ میں مولانا عبد السلام مبارکپوری(م1342ھ)مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری (م1353ھ)اور مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی (م1363ھ) جیسے اساطین فن شامل ہیں ان اساتذہ کے علاوہ اور بھی کئی اساتذہ سے آپ نے مختلف علوم و فنون میں تحصیل کی۔شعبان 1345ھ میں آپ دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کے بعد طب کی تحصیل کے لیے تکمیل الطب کالج لکھنؤمیں داخل ہوئے اور 1348ھ میں طبیہ کالج لکھنؤسے فراغت پائی طبی تعلیم کی فراغت کے بعد مدرسہ عالیہ مئو ضلع اعظم گڑھ سے تدریس کا آغاز کیا۔ وہاں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں اس کے بعد مدرسہ میاں صاحب پھاٹک جشن خان دہلی میں تشریف لے آئے اور وہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا(63)اس کے بعد 1356ھ میں دارالحدیث رحمانیہ میں آئے اور پھر یہاں سے 1371ھ میں چلے آئے اور یہیں مطب جاری کر کے کئی سال تک خلق خدا کی خدمت کرتے رہے ۔آخر میں موضع سیونی (مدھیہ پردیش ) میں مدرس ہوئے اور کئی سال تک تعلیمی و دینی خدمات انجام دیں۔
مولانا محمد بشیر رحمانی نے 3مئی 1968ء/یکم صفر 1388ھ مبارکپور میں انتقال کیا اور اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے۔(64)
مولاناحکیم الٰہی بخش مبارکپوری :۔
مولانا الٰہی بخش بن حکیم عبد اللہ مبارکپوری بڑے جید عالم دین تھے ۔1280ھ میں پیدا ہوئے۔عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ بعد ازاں مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری مولانا احمد حسن کانپوری (م1322ھ)اور مولانا عبد الوہاب بہاری (م1329ھ) سے علوم اسلامیہ کی تحصیل کی۔ فراغت تعلیم کے بعد 1310ھ میں مبارکپور میں مدرسہ احیاء العلوم قائم ہوا تو اس مدرسہ میں تدریس پر مامور ہوئے ۔اور 20سال تک اس مدرسہ میں تدریس فرماتے رہے ۔اور اس کے ساتھ طبابت کاسلسلہ بھی جاری کیا۔ آخرمیں مبارکپور سے اعظم گڑھ منتقل ہوگئے اور مطب کرنے لگے ۔آپ بڑے حاذق طبیب تھے۔ضلع طبی بورڈ کے کئی سال تک صدر رہے 1356ھ میں مبارکپور واپس چلے گئے اور اسی سال آپ نے انتقال کیا۔(65)
مولوی حکیم محمد اصغر مبارکپوری:۔
مولوی حکیم محمد اصغرمحمد علی مبارکپوری مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری کے برادرزادہ تھے آپ نے دینی تعلیم اپنے چچا مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری سے حاصل کی ۔جس مدرسہ میں مولا نا مبارکپوری مرحوم نے پڑھا یا وہاں آپ اپنے چچا کے ساتھ ہوتے تھے فراغت کے بعد مدرسہ دارالتعلیم مبارکپور میں تدریس کا آغاز کیا اور اپنی ساری زندگی تدریس میں اسی مدرسہ میں گزاردی۔
طب کی تعلیم بھی حاصل کی تھی ۔مدرسہ سے معمولی تنخواہ ملتی تھی اور اس کے ساتھ مطب کرتے تھے صبر و قناعت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کردی۔1346ھ میں وفات پائی اور اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے ۔(66)
مولانا عبد الصمد حسین آبادی :۔
مولانا عبد الصمد احمد بن شیخ محمد اکبر رمضان 1322ھ میں موضع حسین آباد مضافات مبارکپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عربی و فارسی کی تعلیم مولوی حکیم محمد اصغر مبارکپوری (م1346ھ) سے حاصل کی۔ اس کے بعد جن اساتذہ کرام سے علوم دینیہ میں تحصیل کی ان کے نام یہ ہیں ۔
مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری مولانا عبد السلام مبارکپوری مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی (م1381ھ)اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م1342ھ)
فراغت تعلیم کے بعد مختلف دینی مدارس یعنی مدرسہ اسلامیہ بڑوا مدرسہ دارالتعلیم مبارکپور مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ اور مدرسہ محمد یہ دیودیا میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
مولانا عبد الصمد حسین آبادی بلند پایہ عالم اور محدث تھے تدریس میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کابھی عمدہ ذوق رکھتے تھے ان کی تصانیف کے مطالعہ سے ان کے علمی تبحر اور حدیث اور متعلقات حدیث میں ان کی مکمل مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔
مولانا عبد الصمد حسین آبادی کا سب سے برا علمی کارنامہ یہ ہے کہ مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری(م1353ھ)نے اپنی مشہور شرح تحفۃ الاحوذی کا ایک جامع و علمی مقدمہ لکھنا شروع کیا لیکن اس کی تکمیل نہ کر سکے اور دنیا سے رخصت ہوگئے مولانا عبد الصمدنے مقدمہ تحفۃ الاحوذی کے منتشر اوراق کے نامکمل مباحث کو مکمل کیا اور بڑی محنت اور تحقیق و کاوش سے مرتب و مدون کیا اور اس کو اشاعت کے قابل بنایا ۔ مولانا عبد الصمد کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے۔
1۔تائید حدیث بجواب تنقید حدیث 2۔شرف حدیث 3۔شان حدیث
4۔الفتوحات الرہانیہ 5۔تذکرۃ الاخوان بمنع شرب الدخان 6۔احوال الصحابہ
7۔ذم غناء ورقص وسر ور 8۔شرح سنن ابن ماجہ (عربی ناتمام)
9۔حق پرستی بجواب شخصیت پرستی10۔فقہ حنفی پر ایک نظر
11۔ التبيان لما يجب معرفة علي اهل الايمان )عربی)
مولانا عبد الصمد حسین آبادی نے 14/ربیع الاول 1367ھ/26جنوری 1948ء کوانتقال کیا۔(67)
مولوی شاہ محمدسریانوی :۔
مولوی شاہ محمدسریانوی نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد دینی علوم کی تعلیم مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری مولانا محمد فاروق چریا کوٹی (م1327ھ) اور مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (1330ھ) سے حاصل کی مولانا حافظ نذیر احمد خان دہلوی مترجم قرآن مجید (م1331ھ) سے بھی استفادہ کیا مولوی شاہ محمد مسلکا حنفی تھے لیکن مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری (م1353ھ) سے بہت زیادہ تعلق تھا اور مولانا مبارکپوری سے سب سے زیادہ استفادہ کیا۔
مولوی شاہ محمد علم وتحمل کا حسین امتزاج تھے شرافت اور توکل میں سلف صالحین کی یادگار تھے۔1391ھ)میں 70سال کی عمر میں انتقال کیا۔(68)
مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی:۔
مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی مشاہیر علماءمیں سے تھے ان کی ساری زندگی درس وتدریس میں بسر ہوئی اور نصف صدی تک آپ تفسیر و حدیث اور فقہ کی تدریس فرماتےرہے ان کا طریقہ درس بہت دل آویز تھا بڑی تحقیق سے طلباء کو درس دیتے تھے 1897ء/1314ھ میں ریاست جے پور کے ایک شہر کھنڈیلہ میں پیدا ہوئے ۔آپ نے جن اساتذہ سے علوم دینیہ میں تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہیں ۔
مولانا الوہاب دہلوی صدری (م1351ھ) مولانا عبد الوہاب انصاری دہلوی المعروف حکیم نابینا (م1338ھ) مولانا حافظ عبد الرحمٰن شاہ پوری(م1363ھ) مولانا عبدالرحمن ولایتی (1330ھ)مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی (م1381ھ) مولانا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی (م1384ھ) مولانا عبد القادرلکھوی (م1342ھ) اور مولانا عطاء اللہ لکھوی (م1952ء)
مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی کے تلامذہ کی فہرست بھی طویل ہے مشہور تلامذہ یہ ہیں ۔مولا نا اسماعیل ذبیح (م1976ء مولانا محمد عطاء اللہ حنیف (م1987ءمولانا حافظ محمد اسحاق حسینوی اور مولانا عبد الخالق رحمانی ۔
مولانا عبد الجبار تصنیف و تالیف کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے۔آپ کی تصانیف یہ ہیں ۔
1۔ازالۃ الحیرۃ عن فقاہۃابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (عربی)2۔نسبت محمدی (اردو)
3۔التبیان فی مسئلہ الایمان (عربی)4۔مقاصد الامامہ (اردو)
5۔اتمام الحجہ (اردو)6۔الانصاف فی رفع الاختلاف (اردو)
7۔مقدمہ صحیح بخاری (عربی)8۔حاشیہ صحیح البخاری (عربی)
مولانا عبد الجبار نے 2ربیع الاول 1382ھ/4/اگست 1962ءاوکاڑہ میں وفات پائی ۔(69)
ڈاکٹر تقی الدین الہلالی مراکشی:۔
ڈاکٹر تقی الدین الہلالی مراکشی ندوۃ العلماء لکھنؤ میں عربی ادب کے پروفیسر رہے مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری سے حدیث اور فقہ الحدیث میں استفادہ کیا۔دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مدتوں عربی ادب کا درس دیا۔ بعد میں بغداد کویت وغیرہ میں بھی کافی عرصہ درس و تدریس کاسلسلہ جاری رکھا ۔ 1983ءمیں مراکش میں انتقال کیا۔
علم و فضل:۔
علم و فضل کے اعتبار سے مولانا عبد الرحمٰن مباکپوری بلند مقام کے حامل تھے مولانا عبدالحی حسنی(م1341ھ)نے لکھا ہے کہ مولانا عبد الرحمن مبارکپوری (م1353ھ ) علمائے ربانیین میں سے تھے اور عالم باعمل تھے۔ القلب اور صاحب ایثار و کرم تھے اور اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے تھے۔(70)
انتقال:۔
مولانا عبد الرحمن مبارکپوری نے 16شوال 1353ھ/22جنوری مبارکپور میں انتقال کیا۔ جنازہ پر زایرین کا ہجوم علاقہ بھر میں اپنی نظیر تھا،بلا تفریق مشروب تمام فرق اسلامیہ شامل تھے صاحب تراجم علمائے حدیث سند لکھتے ہیں کہ:"قصبہ مئو سے جو مبارکپور سے چوتھا ریلوے اسٹیشن ہے زائرین سے بھری ہوئی ٹرین آئی اور راہ میں کسی اسٹیشن پر نہ رکی کہ مبادازائرین جنازہ سے محروم رہ جائیں"(71)
تصانیف:۔
مولانا عبدالرحمان مبارکپوری تصانیف میں اپنی مجتہدانہ شان رکھتے تھے۔فن حدیث میں آپ کا رتبہ بہت بلند تھا۔حدیث اور متعلقات حدیث پر آپ کی جوتصانیف ہیں، ان کے مطالعہ سے فن حدیث میں آ پ کے تبحر علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔مولاناعبدلرحمان مبارک پوری نے مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی(م1329ھ) کی تالیف عون المعبود فی شرح سنن ابی داود میں چار سال ان کی معاونت کی۔(72) مولانا عبدالرحمان مبارکپوری نے عربی اور اردو میں جوکتابیں لکھیں۔ان کی تفصیل درج زیل ہے:
1۔تحفۃ الاحوذی،شرح جامع ترمذی(عربی)
جامع ترمذی امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی(م279ھ) نے چار جلدوں میں اس کی شرح مکمل کی۔اس شرح کی کیا خصوصیات ہیں۔اس بارے میں شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری(م1992ء) لکھتے ہیں کہ:
"مولانا ابوالعلی علامہ عبدالرحمان مبارکپوری نے اس مبارک شرح میں جن مفید اورضروری اُمور کا التزام اور لحاظ کیا ہے،ان کامجموعہ کسی دوسری شرح میں نہیں مل سکے گا۔ان اُمور کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ان میں سے بعض مختصراً درج کئے جاتے ہیں:
1۔جامع ترمذی کے ہر راوی کاترجمہ بقدر ضرورت لکھا گیاہے۔اور مقدمہ شرح میں تمام راویوں کی فہرست بہ ترتیب حروف تہجی بھی دے دی گئی ہے۔اور جس راوی کاترجمہ شرح کے جس صفحہ میں مذکور ہے،اس کانشان دے دیاگیا ہے۔
2۔جامع ترمذی کی تمام حدیثوں کی تخریج کی گئی ہے۔یعنی اس کتاب کی حدیثوں کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ اوردیگر جن محدثین نے اپنی کتابوں میں روایت کیاہے ان کا اور ان کی کتابوں کا نام بتادیاگیا ہے۔
3۔امام ترمذی نے"وفی الباب" کے عنوان سے جن احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ان کی مفصل تخریج کی گئی ہے۔اور ان احادیث کے الفاظ بھی اکثر مقامات میں نقل کئے گئے ہیں۔احادیث مشار الیہا کے علاوہ اور دیگر احادیث کی تخریج کا بھی جابجا اضافہ کیاگیا ہے۔
4۔تصیح وتحسین حدیث میں امام ترمذی کا تساہل مشہور ہے۔اس لئے ہر حدیث کی تحسین وتصیح کے متعلق دیگر ائمہ فن حدیث کے اقوال بھی نقل کئے گئے ہیں اور جن احادیث کی تصیح وتحقیق میں امام ترمذی سے تسائل ہواہے،اسکی تصریح کردی گئی ہے۔
5۔اسنادی ومتنی اشکالات کے حل وایضاح کی طرف خاص طور سے توجہ کی گئی ہے۔
6۔احادیث کی توضیح وتشریح میں بہت کچھ تحقیق سے کام لیا گیا ہے۔اور جن مقلدین جامدین اور جن اہل ہوانے احادیث نبویہ کو اپنے مذہب ومسلک پر منطبق کرنے کے لئے غلط اور روایتی تاویلیں وتقریریں کی ہیں،ان کی تاویلات وتقریرات کی کافی تغلیط وتردید کردی گئی ہے۔احادیث کے صحیح مطالب ومضامین جو سلف صالحین اور فقہاء محدثین کے نزدیک متعمد ومستند ہیں،بیان کئے گئے ہیں ۔
7۔اختلاف مذاہب کے بیان میں ہر مذہب کے دلائل بیان کرکے مذہب حق وراجح ظاہر کردیاگیا ہے اور اس کی نصرت وتائید کی گئی ہے۔اور مذاہب مرجوحہ وغیرصحیحہ کے دلائل کے شافی جواب دیئے گئے ہیں۔
8۔آثار السنن(شوق نیموی)وغیرہ کی جابجا لطیف اور قابل دید تنقید کی گئی ہے۔(73)
9۔تحفۃ الاحوذی میں غیر ضروری مباحث سے اجتناب کرتے ہوئے نفیس کتاب کی توضیح وشرح کا پورا اہتمام والتزام کیا گیا ہے۔(74)
برصغیر کے اہل علم کے علاوہ عالم اسلام کے نامور اور مقتدر علمائے کرام نے اس کی تعریف وتوصیف کی ہے اور اس کو غیر معمولی طور پر پسندیدگی اورمقبولیت کی نظر سے دیکھا ہے۔مولانا عبیداللہ رحمانی لکھتے ہیں:
هو ا حسن شرع الجامع الترمذي ظهرعلي وجه الارض لم تر العيون مثله
تحفہ الاحوذی کی کتابت شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل السلفی(م1968ء) کے والد محترم مولانا حکیم محمد ابراہیم مرحوم ومغفور نے کی تھی۔(مجموعی صفحات 4 جلد 1626)
2۔مقدمہ تحفۃ الاحوذی(عربی):۔
مولانا عبدالرحمان مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی کا ایک علیحدہ مبسوط مقدمہ بھی تحریر فرمایا۔اس مقدمہ میں کچھ مباحث ابھی نامکمل تھے کہ مولانا مبارکپوری نے اس دنیا سے رخت سفر باندھا۔بعد میں آپ کے لائق شاگرد مولانا عبدالصمد حسین آبادی(م1948ء) نے اس کی تکمیل کی۔یہ مقدمہ 17 ابواب اوخاتمہ پر مشتمل ہے اس کے بارے میں مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری (م 1992ء) لکھتے ہیں۔
پہلےباب میں 41 فصلیں ہیں۔جن میں عام فنون حدیث،کتب حدیث ،ائمہ حدیث کے متعلق نہایت کارآمد اور ضروری فوائد جمع کردئے گئے ہیں اور دوسرا باب 17 فصلوں پر مشتمل ہے ۔جن میں خاص جامع ترمذی اور امام ترمذی کے متعلق بہت ضروری اور غایت درجہ مفید مباحث مذکور ہیں۔
باب ثانی جن نادر اور قیمتی نوادر پر مشتمل ہے،ان کاجاننا جامع ترمذی کے طالب علم کےلیے از حد ضروری ہے۔ان مباحث کو پڑھے بغیر جامع ترمذی کا پڑھنا اور پڑھانا بے معنی اور لاحاصل ہے۔مقدمہ میں مختلف مناسبتوں سے155/ائمہ حدیث وتفسیر وفقہ ولغت کے تراجم بھی آگئے ہیں اس کی تمام خوبیوں کااندازہ شروع میں ملحقہ فہرست سے ہوجاتاہے جو 12 صفحات پر مشتمل ہے۔آخر میں مولانا مبارکپوری کا مختصر تذکرہ بھی ہے۔(75)(صفحات 112)
3۔نور الابصار(اردو):۔
اس کتاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ بجز پانچ قسم کے لوگوں کے ہر بالغ مسلمان پر نماز جمعہ فرض ہے چاہے شہر کا ہویا دیہات کا(صفحات 80، مطبع سعید المطابع بنارس 1319ھ)
4۔تنویر الابصار فی تائید نور الابصار (اردو): یہ کتاب"نور الابصار" کی تائید میں ہے۔
5۔ضیاء الابصار فی تائید نور الابصار(اردو) یہ کتاب بھی نور الابصار کی تائید میں ہے اور شوق نیموی کی کتاب تبصرۃ الانظار کا جواب ہے(مطبوعہ)
6۔کتاب الجنائز(اردو):۔
اس کتاب میں احادیث صحیحہ کی روشنی میں جنازے کے احکام ومسائل بیان کئے گئے ہیں۔(صفحات 112،طبع روم نای پریس لکھنوء1950ء)
7۔القول السدید فیما یتعلق بتکبیرات العید(اردو):۔
اس رسالہ میں تکبیرات عیدین کے متعلق واضح کیا گیا ہے۔(مطبوعہ)
8۔تحقیق الکلام فی وجوب القراءۃ خلف الامام(2جلد) اردو:اس کتاب میں نہایت بسط ک ساتھ وجوب قراءۃ خلف الامام کو بدلائل ثابت کیاگیا ہے اوراحناف کے دلائل عدم وجوب قراءۃ کو نقل کرکے ہرایک کےجواب دئیے گئے ہیں۔(صفحات مجموعی 2جلد:338۔مطبع محبوب المطابع دہلی،جلد اول 1320ھ جلد دوم 334ھ)
9۔رسالہ عشر(اردو،غیر مطبوعہ)
10۔رسالہ درحکم بعد صلواۃ مکتوبہ(اردو،غیر مطبوعہ)
11۔اعلام اہل الزمن من تبصرۃ آثار السنن(اردو):۔
یہ رسالہ مولوی ظہیر احسن شوق نیموی کی کتاب "آثار السنن" کے جواب میں ہے۔اس میں صرف ان احادیث کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔جو صاحب آثار السنن مرتب کی۔جس میں اپنے"شعار تقلید" کی احادیث جمع کیں۔مولانا عبدالرحمان مبارکپوری نے آثار السنن کی تردید میں ابکار المنن لکھی۔جس میں شوق نیموی مرحوم کی کاوشوں کی قلعی کھولی ہے۔(صفحات 264،مطبوعہ رضوان پریس کلکتہ۔سن طباعت 1936ء)
13۔ خَيْرُ الْمَاعُونِفِي مَنْعِ الْفِرَارِ مِنَ الطَّاعُونِ (اردو،2جلد)اس کتاب میں طاعونی مقامات سے بھاگنے کی حرمت کے براہین پیش کرتے ہوئے بھاگنے والوں کے حیلوں،بہانوں کو نقل کرکے ہر ایک کامدلل جوابدیاگیا ہے۔(صفحات مجموعی 86 طبع رضوان پریس کلکتہ ،1906ء)
14۔ الدر المكنون في تائيد خير الماعون (اردو):اس کتاب میں بھی طاعونی مقامات سے بھاگنے والوں کے تمام حیلوں کونقل کرکے ہر ایک پر بحث کی ہے(صفحات 40 طبع سعید المطابع بنارس)
15۔ المقالة الحسنى في سنية المصافحة باليد اليمنى (اردو):یہ رسالہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کے اثبات میں نہایت پر زور دلائل پر مشتمل ہے۔(مطبوعہ نامی پریس لکھنو 1376ھ،صفحات 32)
16۔ إِرْشَادِ الْهَائِمِ إِلَى حُكْمِ إِخْصَاءِ الْبَهَائِمِ(اردو غیر مطبوعہ)(76)
17۔ شفاء العلل في شرح كتاب العلل (عربی) یہ کتاب امام ترمذی(م279ھ) کی کتاب العلل کی شرح ہے۔
18۔ الوشاح الإبريزي في حكم الدواء الإنكليزي"(اردو،غیر مطبوعہ)
19۔ الكلمة الحسنة في تائيد المقالة الحسني(اُردو غیر مطبوعہ) (77)
حوالہ جات:
1۔نزہتہ الخواطر ج8ص242،343،
2۔تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص145۔
3۔ نزہتہ الخواطر 343۔
4۔تراجم علمائے حدیث ہند ص404۔
5۔ماہنامہ برہان دہلی جون 1976ء۔
49۔تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص144۔145۔
50۔ نزہتہ الخواطر ج8ص242۔
51۔ایضاً۔
52۔تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص159۔158۔
53۔ایضاً۔
54۔جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ۔
55۔تراجم علماء حدیث ہند ص399۔
56۔ایضاً ص400۔
57۔تراجم علماء حدیث ہندص407۔
58۔جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ص72۔
59۔ایضاًص 226۔
60۔تراجم علمائے حدیث ہند ص435۔
61جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ۔
62۔ تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص 154۔
63۔ تراجم علمائے حدیث ہند ص410۔
64۔ تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص258۔
65۔ایضاًص254۔
67۔ایضاًص164،163۔
68۔ایضاًص101۔
69۔االاعتصام لاہور 2دسمبر 1949ء24اگست 1962ء۔
70۔نزہۃ الخواطر ج8ص243۔
71۔ تراجم علمائے حدیث ہند ص 406۔
72۔مقدمہ عون اکمعبود ص7مطبوعہ المکتبہ السلفیہ مدینہ منورہ۔
73۔سیرۃ البخاری ص429۔430۔
74۔ایضاً ص429۔
75۔ایضاً ص431۔
76۔جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ۔
77۔ تراجم علماء حدیث ہند ص 406۔