بری موت کے اسباب اور اس سے بچاؤ

(دنیامیں سب سے قیمتی اثاثہ انسان کی عمر ہے۔اگر انسان نے اس کو آخرت کی بھلائی کےلیے استعمال کیا ،تویہ تجارت اس کے لیے نہایت ہی مفید ہے۔اور اگر اسے فسق وفجور میں ضائع کردیا اور اسی حال میں دنیا سے چلا گیا تو یہ بہت بڑا نقصان ہے وہ شخص دانش مند ہے جو اللہ تعالیٰ کے  حساب لینے سے پہلے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کرلے اور اپنے گناہوں سے ڈر جائے قبل اس کہ کے وہ گناہ ہی اسے ہلاک اور  تباہ وبرباد کردیں۔
زیر نظر مضمون میں بڑے خاتمہ کے اسباب کاتذکرہ  پیش خدمت ہے۔یہ موضوع مسلمانوں کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ اعمال کادارومدارخاتمہ پر ہے اور انسان جس حالت میں زندگی بسر کرتا ہے اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوتی ہے۔ اور جس حالت میں انسان کی موت واقع ہوگی اسی حالت میں وہ قیامت کے دن قبر سے اٹھایا جائے گا۔حضرت  رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:
"مَنْ مَاتَ عَلَى شَيْءٍ بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ" (رواہ الحاکم)
"جس حالت میں آدمی فوت ہوگا،اسی پر اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا"
ہم اللہ تعالیٰ سے اچھے خاتمہ کا سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے تمام کام سنوار دے اور ہمارے اعمال کی اصلاح فرمائے،بے شک وہ سننے والا ،قبول کرنے والا اور بہت قریب ہے(مولف)))
برے خاتمہ سے یہ مراد ہے کہ قرب مرگ آدمی پر برے خیالات کا غلبہ ہو اور وہ شکوک وشبہات اورانکار ونافرمانی کے ساتھ دنیاسے چمٹا رہے اور اسی حال میں اس کی موت واقع ہوجائے اور اس کا خاتمہ ایسےاعمال   پر ہو جو اسے ہمیشہ کے لئے جہنم کا سزا وار بنادیں۔
بُرے خاتمہ کےخوف نے صدیقین کے دلوں کو ہر وقت  پارہ پارہ اور پریشان  رکھا ہے کہ ان کے لئے اس دنیا میں راحت وآرام نہیں ہے۔وہ جب کبھی کسی  پرسکون گلی میں داخل ہوتے ہیں تو  ان کی گھبراہٹ انہیں خوف کی راہ پر گامزن کردیتی ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے:
أَرْوحُ بِشَجْوٍ ثُمَّ أَغْدُو بِمِثْلِهِ
وَتَحْسَبُ أَنِّي فيِ الثِّيَابِ صَحِيحُ.
"میں تکلیف کی حالت میں شام کرتا ہوں اور تکلیف کی حالت میں ہی صبح کرتا ہوں اورتو سمجھتا ہے کہ میں  کپڑوں میں صحیح سلامت ہوں"
جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو علم عطا فرمایا اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا توانہوں نے کہا:عنقریب کرلیں گے۔اور اس عنقریب نے ان کے اعمال کی عمریں کم کردی ہیں۔وہ متنبہ ہوکردن رات جاگتے  رہے اور اپنے بڑے بڑے بھیانک ارادوں کو عملی صورت دے دی،جب انہوں نے جی بھر کے گناہ کرلیے اور کوئی کسر نہ چھوڑی تو ان کے انجام سے ڈرنے لگے۔
اور یہ بات حدیث میں  رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے کہ(لوگوں کے) دل اللہ  تعالیٰ کی انگلیوں کے درمیان ہیں۔اللہ  تعالیٰ جیسے چاہتاہے انہیں پھیر دیتاہے اور ہم نے کتنے لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ ایمان لانے کے کے بعد مرتدہوگئے اور کتنے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ استقامت اختیار کرنے کے بعد منحرف ہوگئے۔اسی لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   یہ دعا کثرت سے پڑھتے تھے:
"يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ"
"اے دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پرثابت رکھ"
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   کے زمانے میں بعض لوگ ایمان لانے کے بعدمرتد ہوگئے اور نوراسلام سے نکل کر کفر کےگھٹا ٹوپ اندھیروں میں چلے گئے۔ان مرتد ہونے والوں میں سے عبیداللہ بن جحش بھی تھا۔اس نے حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی اور پھر وہ اسلام سے مرتد ہوکر عیسائیت میں داخل ہوگیا۔حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   کی وفات کے بعد کتنے لوگ فتنہ ارتداد کا شکار ہوگئے جن کے خلاف حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جہاد کیا۔اسی طرح عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے زمانہ خلافت میں کئی لوگ دائرہ اسلام سے نکل کر کفر میں داخل ہوگئے۔ان  میں ایک ربیعہ بن اُمیہ بن خلف بھی تھا جو صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ساتھ ایک لشکر میں شامل تھا اور شراب پیتا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس پر شراب کی حد نافذ کرکے خیبر کی طرف اسے جلا وطن کردیا تو وہ ہرقل شاہ روم کے پاس چلاگیا اورجا کر عیسائیت میں داخل ہوگیا۔نعوذ باللہ من ذلک(الاصابہ) ۔۔۔امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
"جب ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ،استقامت کادارومدار اس کی مرضی پر ہے اور انجام کا کسی کو علم نہیں ہے اور انسان کا ارادہ مغلوب ہے تو اپنے ایمان ،نماز،روزے اور دیگر عبادات پر فخر مت کرو،اگرچہ یہ تمہارا عمل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی تم یہ کام کرنے پر قادر ہوئے اور جب تم اس پر فخر کروگے تو یہ ایسے ہے جیسے تم غیر کے مال پر فخر کرو کیونکہ وہ کسی وقت بھی تم سے چھینا جاسکتاہے اور تمہارا دل بھلائی سے خالی ہوجائےگا۔جیسے اونٹ کا  پیٹ خالی ہوجاتاہے کیونکہ کتنے ہی ایسے باغ ہیں کہ شام کو ان کے پھل وپھول  تروتازہ ہوتے ہیں لیکن رات کو ان پر سخت آندھی چلتی ہے تو صبح کو وہی پھل و پھول مرجھا جاتے ہیں۔انسان کا دل شام کو اللہ کی اطاعت سے منور اور صحیح سالم ہوتاہے لیکن صبح ہوتی ہے تو اس کے دل پر اندھیرا چھاجاتا ہے اور وہ بیمار ہوجاتاہے کیونکہ یہ اللہ عزیز وحکیم کا کام ہے۔اس لئے اللہ والے اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارا انجام برانہ ہوجائے۔جواللہ سےدھوکہ کرنا چاہتاہے اللہ بھی اس کے مکروفریب کا جواب دیتے ہیں۔"
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ:
"اللہ والوں کا خوف کرنا برحق ہے۔وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں کے بدلے رسوانہ کرے اور وہ بدبخت نہ ہوجائیں وہ اپنے گناہوں سے ڈرتے بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔اللہ  تعالیٰ فرماتے ہیں:
" أَفَأَمِنُواْ مَكْرَ اللّهِ  "(الاعراف:99)
"کیا وہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے بےخوف ہوچکے ہیں"
یہ آیت فاسقوں اور کافروں کے بارے میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا بندہ اپنے اللہ کی نافرمانی بھی نہیں کرتا اور اس کی پکڑ سے بے خوف بھی نہیں ہوتا۔کیونکہ ممکن ہے کہ اسے گناہوں کی سزابعد میں دی جائے اور اس میں دھوکہ پیدا ہوچکا ہو۔ان کے دل گناہوں سے مانوس ہوجاتے ہیں ۔اور ان پر اچانک عذاب آجاتے ہیں۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کےذکر سے غافل ہوجائیں اور اسے بھول جائیں تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں اپنے ذکر سے غافل کردے۔ان کی طرف آزمائشیں جلدی آتی ہیں اور ان کا انجام یہ ہوتاہے کہ وہ اس کی رحمت سے دور ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب کے گناہوں کو جانتاہے جو یہ نہیں جانتے انہیں اللہ تعالیٰ کی تدبیریں گھیرلیتی ہیں اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔اور یہ بات بھی ہے کہ اللہ تعالی ان کو آزمائشوں اور امتحان میں ڈال دیتا ہے اور وہ صبر نہیں کرسکتے جو خود آزمائش کی ایک صورت ہوتی ہے۔"
اسلاف کرام کا برے خاتمہ سے ڈرنا:۔
حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اسلاف پر برےخاتمہ(انجام موت) کا خوف طاری رہتاتھا۔ان میں ایسے بھی تھے جو اپنے اعمال پر قلق محسوس کرتے تھے اور کہاجاتاہے کہ نیکوکاروں کے دل خاتمہ کے بارے میں ہر وقت فکرمند رہتے ہیں کہ ہم نےآگے کما کر کیا بھیجا ہے؟
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ انہوں ن بعض سلف صالحین سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس بات نے کبھی رُلایاہے کہ اللہ تعالیٰ کا آپ کے متعلق فیصلہ کیا ہے۔تو انہوں نے جواب دیا  کہ اللہ  تعالیٰ نے جو مجھے مہلت دی ہے،میں اس پر کبھی مطمئن نہیں رہتا۔امام سفیان بھی اپنے اعمال اور خاتمہ کی وجہ سے قلق محسوس کیا کرتے تھے  اور رو کر کہتے تھے کہ"کاش!میں اُم الکتاب میں بدبخت نہ لکھا جاؤں،میں ڈرتا ہوں کہ موت کے وقت میرا ایمان کہیں مجھ سے چھین نہ لیاجائے۔"
مالک بن دینار رات کو بہت طویل قیام کرتے اور اپنی داڑھی پکڑ کرکہتے کہ:
"اے اللہ! تو جانتا ہے کہ جنت میں کون ہے اور جہنم میں کون ہے ،اے اللہ! میری جگہ تو نے کہاں بنائی ہے :جنت میں یاجہنم میں!"
موت کے وقت سلف کے چند اقوال:۔
اب ہم آپ کے سامنے نصیحت اور عبرت کےلئے سلف صالحین کے چند واقعات بیان  کرتے ہیں کہ وہ قرب مرگ کیاکہتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب فوت ہونے کے قریب ہوئےتو رونے لگے۔جب آپ سے رونے کیوجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ"میں اس لئے رورہا ہوں کہ سفر بہت لمباہے اور زادراہ بہت تھوڑا ہے۔اور یقین کمزورہے اوراترنے کی گھاٹی بہت مشکل ہے یاتو جنت کی طرف اور یا پھر جہنم کی طرف!"
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب فوت ہونے کے قریب ہوئے تو فرمانے لگے کہ:
"مجھے اٹھا کر بٹھا دو چنانچہ آپ کو بٹھا دیاگیا تو آپ اللہ کا ذکر اور تسبیح وتقدیس کرنے لگے اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمانے لگے کہ اے معاویہ!تو اپنے آپ کو گرتا ہوادیکھ کر اب اپنے رب کا ذکر کرنے لگا۔جب جوانی کی ٹہنیاں تروتازہ تھیں،اس وقت تونے کیوں نہ سوچا اور پھر  رونے لگے حتیٰ کہ رونے کی آواز بلند ہونے لگی اورپھر  فرمانے لگے:
"هو الموت لا منجى من الموت والذي, اُحاذر بعد الموت أدهى وأفظع"
"موت  سے کسی کو نجات نہیں جس موت سے میں ڈرتا ہوں وہ نہایت سخت اور ہولناک ہے"
پھر کہنے لگے:اے اللہ! سیاہ کار اور سخت دل بوڑھے پر رحم وکرم فرما،اے اللہ! زادراہ تھوڑا ہے میری خطاؤں کو معاف  فرما اور اسے بخش دے جس کا تیرے سواکوئی سہارا اور جائے پناہ نہیں"
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ک متعلق مروی ہے کہ جب وہ فوت ہونے کے قریب ہوئے تو اپنے محافظوں اور خادموں کو اپنے قریب بلا کر فرمانے لگے کہ کیا تم اللہ سے میرے متعلق کچھ کفایت کرسکتے ہو؟انہوں نے کہا:ہرگز نہیں،تو فرمانے لگے:تم یہاں سے چلے جاؤ اور مجھ سے دور ہوجاؤ پھر انہوں نے پانی منگوا کر وضو کیا اور کہنے لگے کہ مجھےمسجد کی طرف لے چلو۔آپ کومسجد میں لایا گیا تو آپ فرمانے لگے:

"اے اللہ! تو نے مجھے حکم دیا اور میں تیری نافرمانیاں کرتارہا تو نے مجھے امانت سونپی اور میں خیانت کرتا رہا،تو نے میرے لئے حدود متعین کیں اور میں انہیں توڑتارہا۔اے اللہ! میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے میں آج تیرے سامنے پیش کرسکوں اور نہ کوئی طاقتور میری مدد کرسکتاہے ۔بلکہ میں تو گناہگار ہوں اور میری بخشش کاطلب گار ہوں اورمجھے اپنے گناہوں پر اصرار بھی نہیں اورنہ ہی میں تکبر کرنے والا ہوں۔"

(اغتنام الأوقات في الباقيات الصالحات ،ص 144 از شیخ عبدالعزیز سلمان)

جب سلیمان  تمیمی فوت ہونے کے قریب ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ کو مبارک ہو،آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے تھے ،وہ فرمانے لگے:تم مجھےایسے نہ کہو،کیونکہ میں نہیں جانتا کہ میرے لیے وہاں کیا ظاہر ہوگا۔اللہ فرماتے ہیں:

وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ  (الزمر:47)

"اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کچھ ظاہر ہوگا،جس کا انہیں وہم وگمان بھی نہیں تھا"

بعض اہل علم یوں کہہ کر فکر مندی کا اظہار کرتے کہ"وہ نیکیاں سمجھ کر اعمال کرتے رہے لیکن در اصل وہ برائیاں تھیں جو میدان حشر  میں ان کے سامنے ظاہر کردی جائیں  گی"

عامر بن قیس بھی فوت ہونے کے وقت رونے لگے جب ان سے رونے کی وجہ دریافت کی گئی توانہوں نے فرمایا:میں اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے رورہا ہوں:

"إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِين"(المائدۃ:27)

"بے شک اللہ تعالیٰ تو متقین کے اعمال قبول کرتاہے"

بعض کایہ عمل تھا کہ وہ اپنے آپ کو ڈانٹتے اور نصیحت کرتے کہ اےنفیس!وقت گزرنے سے پہلے جلدی کرلے اور زندگی کے دن اور راتوں کی پہرہ داری کر(یعنی دن اور رات اللہ کی عبادت کرتارہ!)

جب سلف صالحین کایہ حال ہے تو ہمیں ان سے زیادہ ڈرنا چاہیے۔ہمارے دل سخت ہیں اور ہم اپنی لاعلمی کی وجہ سے بے پرواہ ہیں۔اس لئے بھی کہ صاف دل معمولی مخالفت سے بھی ڈرتے ہیں جبکہ سخت دلوں پر وعظ ونصیحت بھی اثر نہیں کرتے۔ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے دل،رونے والی آنکھ اور ذکر کرنے والی زبان کاسوال کرتے ہیں،بے شک وہی یہ چیزیں عطا فرمانے پر قدرت رکھتاہے!

بُرے خاتمہ کے اسباب:۔

اللہ ہمیں برے انجام سےبچائے۔یاد رہے کہ برا خاتمہ ایسے شخص کے لئے نہیں ہے جو اپنے ظاہر کو درست کرتا اوراپنے باطن کی اصلاح کرتاہے۔برائی کے ساتھ اس کا ذکر سناگیا اور نہ جانا  گیا ہے،تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔براانجام تو ایسے شخص کے لیے ہے جس کے دل ودماغ میں فتور ہے اوروہ کبائر پر اصرارکرنے والا اوراللہ کی حدودکو پامال کرنے والا ہے۔بسا اوقات اس پر اس چیز  کا غلبہ اس قدر ہوجاتا ہے کہ اسےتوبہ سے پہلے ہی موت آجاتی ہے۔شیطان اسے صدمہ کے وقت گمراہ کردیتا اوردہشت کے وقت اسے اچک لیتاہے یاوہ در ست ہوجاتاہے  یعنی استقامت اختیا کرتاہے یا پھراپنی حالت بدل کر کسی ایسے طریقے یا راستے پر چل پڑتا ہے جواس کےبرُے خاتمہ اور عاقبت کی بردباری کاسبب بن جاتاہے۔۔بُرے خاتمہ کے دو درجے ہیں:

اول:یہ کہ فوت ہوتے وقت دل پر شکوک وشبہات اورانکار کا غلبہ ہو اوریہ معاملہ بڑاخطرناک ہے جوہمیشہ ہمیشہ کےلئے پکا جہنمی بناسکتاہے۔

دوم:یہ کہ انسان اعلیٰ اقدار کو پامال کرےیا احکام الٰہی پر اعتراض کرے یا وصیت میں ظلم وزیادتی کرے یا گناہوں پر اصرار کرتے ہوئے فوت ہوجائے،یہ پہلے معاملے سے قدرے مختلف ہے۔

بُرے خاتمہ کے تمام اسباب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن ہم ان تمام اسباب کی طرف اختصار کے ساتھ صرف اشارہ کردیتے ہیں:

1۔بدعات میں پڑنے کی وجہ سے شکوک اور انکار کاشکار ہوجانا:۔

اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اسماء وافعال میں دیکھا دیکھی یا غلط رائے کی بنیاد پر باطل عقیدہ رکھا جائے۔اورجب موت کا وقت قریب آئے تو آنکھیں کھلیں کہ میں جس نظریے اورعقیدے کو اپنائے پھرتا رہا،وہ تو باطل اور بے بنیاد عقیدہ تھا۔ بے شمار لوگ اس حال میں مر گئے کہ انہوں نے اللہ کے دین میں بدعات کو جاری وساری کیاتھا اور صراط مستقیم سے کج روی اور انحراف کرتے رہے اوراللہ تعالیٰ سے پہلی ملاقات میں ان پر حقیقت حال واضح ہوگئی۔

اب فارض عمر بن علی حموی(متوفی 632ھ) نامی شخص اللہ تعالیٰ کے متعلق اتحاد اور طویل کا فاسد عقیدہ رکھتاتھا اورکہتاتھا کہ بندہ رب ہے اور رب بندہ ہے۔جبکہ جن با اعتماد لوگوں نے اس کی موت کا وقت دیکھا ہے ،بتاتے ہیں کہ جان کنی کے عالم میں اپنی بدبختی اور ہلاکت کاماتم اس نے ان اشعار کے ذریعے کیا:(ابن فارض فی سیر اعلام النبلاء وفیات الاعیان)

إنْ كانَ منزلتي في الحبِّ عندكمْ,

ما قد رأيتُ، فقد ضَيّعْتُ أيّامي.

أمنيَّة ٌ ظفرتْ روحي بها زمناً,

واليومَ أحسَبُها أضغاثَ أحْلامِ.

"اگر تمہارے ہاں میری محبت ومودت کا یہی صلہ ہے جو مجھے مل رہاہے تو میں نے اپنے دن ضائع کردیئے ۔ایک عرصہ تک میرا نفس میری آرزو پر کامیاب اور فتح یاب رہا اورآج میں اس کامیابی کوپریشان کن خواب سمجھتا ہوں۔"

یہ بات اس نے اس وقت کہی جب اس پراللہ کاغضب نازل ہوچکا تھا اور اس کی کرتوتوں کی حقیقت کھل کر سامنے آچکی تھی۔بہت کم ایسا ہوا کہ بدعتی کاخاتمہ ایمان کی حالت میں ہو۔

2۔توبہ کرنے میں کوتاہی اورغفلت کرنا:؛

ہرمکلف انسان پر ہر لمحہ اپنے گناہوں سےتوبہ کرنا ضروری ہے۔اللہ فرماتے ہیں:

وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.(النور:31)

"اے مومنو!تم سب اللہ کی طرف  توبہ کرو،تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ"

اور  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ اللہ نے معاف  فرمادیئے تھے،فرماتے ہیں:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ فَإِنِّي أَتُوبُ فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِائَةَ مَرَّةٍ .(رواہ مسلم)

"اے لوگو! اللہ کی طرف توبہ کرو میں روزانہ سو مرتبہ اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہوں"

شیطان کے ہتھیاروں میں سے ایک بہت بڑاہتھیار جس کے ساتھ وہ  لوگوں پر حملہ آور ہوتاہے یہ ہے کہ وہ خیال دل میں ڈالتاہے کہ کوئی بات نہیں،گناہ کرلو پھر توبہ کرلینا،ابھی بڑی لمبی عمر باقی ہے۔اس طرح وہ نافرمان لوگوں کے دلوں میں توبہ سے غفلت ڈال دیتا ہے اورکہتاہے کہ اگر تو نے اب توبہ کرلی اور  پھر کوئی گناہ کا ارتکاب کیا تو تیری توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور تو جہنمی بن جائےگا۔دل  میں مزیدوسوسہ ڈال دے گا کہ جب تیری عمر پچاس یا ساٹھ سال ہوجائےگی تو پھر توبہ کرکے مسجد میں بیٹھ جانا اور کثرت سے عبادت کرنا ۔ابھی توجوانی کی عمر ہے اوراسی عمر میں دنیا کی رنگینیاں اور بہاریں دیکھی جاتی ہیں۔اپنے نفس کو خوب من مانی کرنے دے اور عبادت  وریاضت  کرکے ابھی سے اس پر سختی نہ کر۔انسان کو توبہ سے محروم رکھنے کے لئے اس طرح کے کئی اور بھی شیطانی مکروفریب ہوتے ہیں۔اسی لئے سلف صالحین میں سے کسی نے کہا کہ:

"میں تمھیں شیطان کے بہت بڑے لشکر سے ڈراتا ہوں۔عقلمند مومن وہ ہے جو ہر وقت اپنے گناہوں سے اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہے اور بُرے خاتمے سے ڈرتا رہتاہے اور اللہ سے اس کی محبت کا سوال کرتا ہے اور ظالم شخص تو وہ ہے جوتوبہ کوموخر کرتا رہتاہے اس کی مثال اسی قافلہ سی ہے جس نے دوران سفر ایک وادی میں قیام کیا اور ان میں سے ایک سمجھدار آدمی بازار گیا اور جاکر ضروریات سفر خریدلایا اور قافلے کے چلنے کا انتظار کرنے لگا۔جبکہ اپنے آپ کو بڑا چالاک سمجھنے والا آرام سے بیٹھا رہتاہے۔کہ کوئی بات نہیں ،ابھی تیاری کرلوں گا۔یہاں تک کہ میر کارواں چلنے کاحکم دے دیتاہے اور اس کے پاس زاد  راہ بھی نہیں ہوتا۔یہ دنیا میں لوگوں کے لئے مثال ہے۔سچے مومن کو جب موت آتی ہے تو وہ پشیمان نہیں ہوتا جبکہ نافرمان(توبہ میں تاخیر کرنے والا) کہتاہے کہ اے میرے رب!مجھے اب  دنیا میں بھیج دے،میں جاکر نیک اعمال کروں گا"

3۔لمبی امیدیں:

اکثر لوگوں کی بد بختی کا سبب یہ ہو تا ہے کہ وہ شیطان کے فریب میں آجاتے ہیں اور وہ انہیں یہ یقین دلاتا رہتا ہے کہ ان کی عمربڑی لمبی ہے بہت سال آنے والے ہیں ۔انسان ان میں لمبی امیدیں بنا لیتا ہے اور آنے والے سالوں میں اپنی ہمت لڑاتا ہے۔ جب کبھی اسے موت نظر آتی ہے تو اس کی پرواہ نہیں کرتا ۔کیونکہ اس کے خیال میں موت اس کی آرزؤں کو گدلا دیتی ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  لمبی امیدوں اور خواہشات نفس کی پیروی سے بڑا ڈراکرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ لمبی امیدیں آخرت کو بھلادیتی ہیں ۔اور خواہشات نفس کی پیروی حق کی اتباع سے روک دیتی ہے ۔یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ خبردار دنیا پیچھے کی جانب پھرنے والی ہے اور آخرت جلدی سے آنے والی ہے اور دونوں میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں تمہیں چاہیے کہ تم آخرت کے بیٹے بنو دنیا کے بیٹے نہ بنو۔"آج حساب و کتاب نہیں بلکہ عمل کرنے کا موقع ہے اورکل روز قیامت حساب وکتاب ہو گا اور عمل کی مہلت نہیں ملے گی۔ اور جب انسان دنیا سے محبت کرنے لگے اور اسے آخرت پر ترجیح دینے لگے تو وہ اس دنیا کی زیب و زینت عیش  وعشرت  اور لذتوں میں پڑکر آخرت میں اپنا گھر ایسے لوگوں کے ساتھ جوار رحمت میں بنانے سے محروم رہتا ہے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء صدیقین شہداءاور صالحین کے ساتھ ۔اعمال صالحہ میں سبقت اختیار کرنا جھوٹی امید سے متاثر نہ ہونے کی علامت ہے کیونکہ ایسے شخص کو گنتی کے چند سانس زندگی کے چند دن اور عمر کے اوقات کو غنیمت سمجھنا آسان ہوتا ہے۔۔۔اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ جو وقت گزرجائے وہ پھر لوٹ کر نہیں آتا!!

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے میرے کندھے سے پکڑ کر فرمایا :"دنیا میں ایسے راہوجیسے تم پر دیسی یا مسافرہو۔"اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے تھے کہ جب تو شام کرے تو صبح کا انتظار نہ کر اور جب صبح کرے تو شام کا انتظار نہ کر۔اور بیماری سے پہلے صحت کو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھ"

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے مؤمنوں کی ایسی چیزوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جو انہیں لمبی امیدوں سے بچا کر فانی دنیا کی حقیقت سمجھانے والی ہیں ۔چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے حکم دیا ہے کہ۔

"موت کو یاد کرو قبروں کی زیارت کرو اور فوت ہونے والوں کی تجہیز وتکفین کر کے ان کا جنازہ پڑھو ۔بیماروں کی تیمارداری کرو نیک لوگوں  کی ملاقات و زیارت کرو"

دراصل یہ چیزیں مردہ دلوں کو بیدار کرنے والی ہیں موت کے بعد اپنے ساتھ پیش آنے ولا منظر دکھانے والی اور اعمال صالحہ پر آمادہ کرنے والی ہیں۔

4۔برائی سے محبت کرنا اور اسے عادت بنالینا:۔

جب انسان برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور توبہ نہیں کرتا تو شیطان اس کی سوچ پر حادی ہوجاتا ہے حتی کہ جب وہ آدمی قریب المرگ ہوتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب اسے کلمہ پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ دنیا سے جاتے وقت اسے کلمہ پڑھنا نصیب ہوجائے لیکن اس کی برائیاں اس پر غلبہ پالیتی ہیں اور وہ ایسے کام کرتا ہے جو اس کے برے خاتمہ کا سبب بن جاتے ہیں کیا نماز کو ترک کرنے والے اس بات سے نہیں ڈرتے کہ وہ نماز کو ضائع کر رہے ہیں اور انہیں نصیحت بھی کی جاتی ہے لیکن وہ نصیحت قبول نہیں کرتے ۔کیا نہیں اپنے برے انجام سے ڈر نہیں آتا۔سودی کاروبار کرنے والے جو اپنے اس حرام فعل سے توبہ نھی نہیں کرتے کیا نہیں ڈرنہیں آتا کہ اس جرم عظیم اور گناہ کبیرہ کی حالت میں انہیں موت آجائے ۔اور جب بندہ سچی توبہ کر لیتا ہے تو اس کے لیے اللہ کی طرف سے خیرو برکت لوٹ آتی ہے اسی لئے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ:

"عاصی کا عجز وانکسار ،نیک آدمی کے اپنے اچھے اعمال پر فخر کرنے سے زیادہ اچھا ہے"جو عمل تجھے  عاجزی کی دولت عطا کرے وہ ایسی نیکی سے بہتر ہے  جو تیرے اندر تکبر پیدا کردے "

اللہ کے نیک بندے ابان بن ابی عیاش کے متعلق مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ:"ایک دفعہ میں قیام بصرہ کے دوران حضرت انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے ملاقات کے لیے نکلا میں نے دیکھا کہ ایک جنازے کوصرف چار آدمی اٹھا کر لا رہے تھے میں نے بطور تعجب کہا سبحان اللہ !ایک مسلمان فوت ہوگیا ہے بصرہ شہر سے اس کا جنازہ گزررہا ہے اور جنازے کے ساتھ ان چار آدمیوں کے سوا کوئی بھی نہیں ابان بن ابی عیاش کہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ مل گیا اور جنازہ کو اٹھایا پھر جب اس آدمی کو قبر میں دفن کر دیا گیا تو میں نے ان چار آدمیوں سے کہا: کیا وجہ ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہمیں ایک عورت نے اسے دفن کرنے کے لیے کہا تھا وہ کہتے ہیں کہ میں اس عورت کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اے اللہ کی بندی !تیرااس فوت ہونے والے بندے سے کیا رشتہ تھا ۔وہ کہنے لگی کہ وہ میرا بیٹا تھا اور بعض اوقات وہ اپنے آپ پر زیادتی کرنے والا تھا اس نے مجھے کہا تھا کہ امی جان !جب میں فوت ہونے لگوں تو مجھے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنا تیرےتلقین کرتے کرتے میں اپنی زندگی پوری کر جاؤں گا تو اپنے قدم میرے گالوں پر رکھ دینا اور ساتھ یہ کہنا کہ یہ بدلہ ہے ایسے شخص کا جس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ میرے فوت ہونے کی کسی کو اطلاع نہ دینا کیونکہ لوگ میری کرتوتوں کو جانتے ہیں وہ ہر گز میرا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔پھر جب تو مجھے دفن کردے تو اپنے ہاتھوں کو اللہ کی بارگاہ میں اٹھا کر یہ کہنا کہ :

"اے اللہ !میں اپنے بیٹے سے راضی ہوتو بھی اس سے راضی ہو جا!"

جب ابان بن ابی عیاش اس عورت سے سوال کررہے تھے تو وہ مسکرارہی تھی ابان نے اس سے کہا: کہ اللہ کی بندی !مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟وہ عورت کہنے لگی ۔جب میں نے اپنے بیٹےکے دفن ہونے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر کہا کہ" یاللہ !میں اپنے بیٹے سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا جو اس نے مجھے وصیت کی تھی میں نے پوری کر دی " تب میں نے اپنے بیٹے کی آواز سنی کہ وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ " میں اپنے رب کریم کے پاس پیش ہوا ہوں ۔میرا رب نہ مجھ پر ناراض ہوا ہے اور نہ غضبناک ۔۔۔اگر آدمی کے نفس میں عاجزی وانکساری موجود ہوتو وہ فوت ہوتے ہوتے وقت ظاہر ہوجاتی ہے اور اگر معاملہ اسکے برعکس ہوتوہم اللہ سے اس کی پناہ مانگتے ہیں"(میزان الاعتدال للذہبی وتہذیب التہذیب لابن حجر ،ترجمہ ابان بن ابی  عیاش)

5۔خود کشی:۔

مسلمان کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اپنے اللہ سے اجروثواب کی اُمید رکھتے ہوئے صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اجروثواب سے نوازتے ہیں اور اگر وہ جزع فزع کرے اور زندگی سے تنگ آجائے اور بیماریوں،مصائب وآلام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئےخود کشی کی راہ اختیار کرے تو ایسے آدمی نے یقیناً اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اللہ کےغضب کو پکارا اوربلاوجہ اپنے آپ کو قتل کردیا۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہےکہ حضرت  رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ:

"جو کوئی اپنے آپ کو پھانسی دے  گا،اسےجہنم میں پھانسی دی جائے گی اورجو اپنے آپ کو نیزہ  مارکرختم کرے گا،اسے جہنم میں نیزے مارے جائیں گے"

سہل بن سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ ایک دفعہ کفار کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے مڈ بھیڑ ہوگئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے لشکر سے جاملے،کفار بھی اپنا لشکر لے آئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے ساتھیوں میں ایک آدمی تھا جوبڑی دلیری سے ہرمسلح ،غیرمسلح کاپیچھاکرتا اور اپنی تلوار سے اس پر حملہ آور ہوجاتا ۔بعض لوگوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی اس دلیر آدمی کے اجر کو نہیں پہنچ سکتا۔رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ:"وہ جہنمی ہے۔"وہیں ایک آدمی نے اس کے بارے میں بتایاکہ"میں اس کے ساتھ نکلا۔جہاں وہ ٹھہرتا،میں بھی ٹھر جاتا جب وہ چلتا تو میں بھی اسکے ساتھ چل پڑتا۔حتیٰ کہ وہ آدمی شدید زخمی ہوگیا اور اپنی تکلیف پر صبر نہ کرسکا۔اس نے اپنی تلوار زمین میں گاڑدی اور اس کی نوک پر اپنا  پیٹ رکھ کر جھول گیا اور خود کشی کرلی۔یہ سب کچھ دیکھنے والا وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آیا اور آکرکہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نےفرمایا:کس وجہ سے تو گواہی دیتاہے تو اس نے کہا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   جس آدمی کے متعلق کہہ رہے تھے کہ وہ جہنمی ہے تو لوگوں کو یہ بات سمجھ نہ  آئی۔میں نے انہیں کہا کہ چلو میں تمہارے ساتھ اس کے پاس چلتا ہوں پھر لوگوں کو پوری بات سنائی۔اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایاکہ

"ایک آدمی لوگوں کی نظروں میں جنتیوں والے اعمال کرتا ہے اور وہ جہنمیوں میں ہوتا ہے اور ایک آدمی لوگوں کی نظروں میں جہنمیوں والے اعمال کرتاہے جبکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔(متفق علیہ)

6۔منافقت /نفاق:۔

ظاہر باطن سے مختلف ہو اور قول وفعل میں تضاد ہو۔جس انسان میں دو رخا پن یا اس کے ظاہر وباطن میں اختلاف پایا جائے وہ منافق ہوتاہے۔ جو انسان ریا کار اور دھوکے باز ہو وہ بھی منافق ہے۔عنقریب مرگ کے بعد اسے بھی رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور موت کی سختی کی وجہ سے اس پر موت کی ہچکیاں طاری ہوں گی۔دنیا میں آنے کے بعد سے انسان پر سب سےبڑی تکلیف کا وقت یہی ہوگا۔سلف میں سے کسی نے کہا کہ:

"جب انسان کا ظاہر وباطن ایک جیسا برابر ہوتو یہ انصاف اور عدل ہے اور جب باطن ظاہر سے بہتر ہوتویہ بہت بڑی فضیلت ہے۔اور جب ظاہر باطن سے مختلف ہوتو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔"

صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور سلف صالحین اپنے آپ کے نفاق میں مبتلا ہوجانے سے بہت ڈرتے تھے اور اس سے ان کی تکلیف اورپریشانی شدت اختیار کرجاتی تھی۔ایک دفعہ عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فتنوں اور منافقین کے متعلق رازدان رسول حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے  سوال کیا کہ"کیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے میرا منافقین میں تو نہیں شامل کیا۔"حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ"نہیں لیکن میں آپ کے بعد کسی کی تصدیق نہیں کروں گا"

مسند بزار میں بسند صحیح مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،ام المومنین حضرت ام سلمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پاس  گئے اور کہنے لگے کہ"میں قریش میں زیادہ مال ودولت والا ہوں اور مجھے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ کہیں میرا یہ مال مجھے ہلاک ہی نہ کردے۔"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایا کہ تم صدقہ وخیرات کرو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ"بے شک میرے بعض صحابی ایسے بھی ہیں جو مجھ سے اس جدائی کے بعد دوبارہ نہیں ملیں گے"حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وہاں سے نکلے اور ان کا دل خوف سے پارہ پارہ ہورہا تھا کہ ان کی ملاقات حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی ہے۔توانہوں نے عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو اس کےبارے میں بتایا۔وہ بھی گھبراگئے اورام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پاس جاکرعرض کرنے لگے کہ میں اللہ کے واسطے تم سے پوچھتا ہوں،کیا میں ان میں سے تو نہیں؟۔ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے جواب دیاکہ:

"آپ ان میں شامل نہیں ہیں اور آپ کے بعد میں کسی کی براءت نہیں کرتی"

مسلمان بھائیو! یہ برے خاتمہ کے چند موٹے موٹے اسباب ہیں اور میں اپنے آپ کو اورآ پ سب کو اس بارے  میں توجہ دلاتا ہوں۔ کہ یہ اسباب کہیں ہم میں نہ ہوں۔ہر ایک کو اس چیز کی تیاری کرنی چاہیے جو اس کے لئے بہتر ہے اور "عنقریب کروں گا" کہنے سے بچنے کی ضرورت ہے عمر تھوڑی ہے ،تیرا ہر سانس تجھے تیرے خاتمہ کی طرف بلارہا ہے ممکن ہے کہ تیری روح اسی حالت میں قبض کرلی جائے کہ تجھے اپنی زندگی سنوارنے کاموقع نہ ملے۔یاد  رہے کہ جس حالت میں انسان مرے گا اسی پر اٹھایاجائے گا اور انجام کا وقت آنے والاہے۔بعض لوگوں کے برے انجام کو یاد کرکے عبرت پکڑنی چاہیے شاید کہ گزرے واقعات سے سبق حاصل ہوجائے کیونکہ ان میں کان لگاکر اللہ کی باتیں سننے اور دل والے کے لئے عبرت اور نصیحت ہے۔

بُرے انجام کی چندمثالیں:۔

برے انجام کاپتہ دینے والی علامتیں تو بہت زیادہ ہیں جن  میں بعض بیماری یاتکلیف کے دوران ظاہر ہوجاتی ہیں اور آدمی اللہ کی تقدیر پرناراض ہوتا یا اعتراض کرنے لگتاہے۔بعض اوقات آدمی قریب المرگ ہوکر ایسی گفتگو کرتاہے جواللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن جاتی ہے یا اسے کلمہ شہادت پڑھنے میں مشکل  پیش آتی ہے۔بعض دفعہ میت کوغسل دیتے وقت اس پر برے خاتمے کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔رنگت وغیرہ تبدیل ہوجاتی ہے ۔بعض دفعہ قبر  میں اتارتے وقت اور بعض دفعہ دفن کرنے کے بعد انسان پر برے خاتمہ کی علامتیں نظر آجاتی ہیں۔ہم نصیحت اور عبرت کے لیے چند ایسے واقعت کا ذکر کریں گے جن میں برے خاتمہ کی کوئی علامت  پائی جاتی ہو:

حافظ ابن رجب حنبلی بیان کرتے ہیں کہ عبدالعزیز بن رواد نے کہا کہ میں ایک قریب المرگ آدمی کے پاس گیاکہ اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کروں۔اس قریب المرگ آدمی نے کہا کہ جوکچھ تو کہہ رہاہے میں اس کا انکار کرتا ہوں اور اسی حالت میں وہ مرگیا۔عبدالعزیز بن روادکہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق لوگوں سے سوال کیا تو مجھے بتایاگیاکہ یہ آدمی شراب پیتا تھا۔عبدالعزیز کہا کرتے تھے کہ گناہوں سے بچو۔کیونکہ  گناہوں کے سبب ہی اس آدمی نے کلمہ شہادت  پڑھنے سے انکار کیا ۔

کئی سال پہلے سعودی عرب کے صوبہ قصیم میں ایک واقعہ  پیش آیا تھا۔جس کی باز گشت اخبارات میں بھی سنی گئی ۔اس خبر کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے قریب المرگ حالت میں ا پنے اللہ تعالیٰ پر اپنی بیماری کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اسکے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے والے اس کے بعض دوست آئے انہوں نے اس سے کہا:یہ وہ قرآن ہے جسے تو پڑھتا تھا،اپنے اللہ سے ڈر اور اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنے لگے۔وہ قریب المرگ آدمی کہنے لگا میں قرآن کو مانتا ہوں اور نہ کلمہ شہادت کو جانتا ہوں اور وہ اسی حالت میں فوت ہوگیا۔ہم اللہ سے اس ذلت ورسوائی کی پناہ مانگتے ہیں۔

ابن ابی الدنیا کہتے ہیں کہ مجھے ابو الحسن بن احمد فقیہ نے بیان کیا کہ ہمارے پاس ایک آدمی تھا جب اسے موت آنے لگی تو اس سے کہا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔وہ کہنے لگا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔پھر اس سے کہا گیا  کہ تم لاالٰہ الااللہ پڑھ لو،وہ کہنے لگا کہ مجھے اس کی بھی ضرورت نہیں ہے۔میں نے لوگوں سے سنا کہ وہ آدمی بہت بڑا عبادت گزار اور روزے رکھنے والا تھا۔اس پر بڑی تکلیف آئی اور وہ فتنے میں مبتلا ہوگیا۔میں نے اس سے سنا :وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے جن آزمائشوں میں مبتلا کیاگیا  ہے،ان کے بدلے اگر اللہ مجھے جنت دےدے تو ان کا بدلہ وہ جنت بھی نہیں ہے اور پھر وہ کہنے لگا اس تکلیف سے بڑی تکلیف اور کیا ہوسکتی ہے اور اگر یہ عذاب نہیں تو پھر عذاب سے کیامراد ہے؟۔۔۔یہ واقعہ بھی برے خاتمہ پر دلالت کرتاہے۔

اسی طرح میت کو غسل دیتے وقت ظاہر ہونے والی بری علامات بھی بے شمار ہیں جن میں سے ایک کو شیخ قحطانی نے اپنے خطاب میں بیان کیا کہ میں فوت شدگان کو غسل دیا کرتا تھا۔ان میں سے بعض افراد کارنگ نہایت سیاہ ہوجاتا ہے۔اور بعض کادایاں ہاتھ قبض ہوجاتاہے اور بعض کا ہاتھ اس کی دبر میں داخل ہوجاتا اور بعض کی دبر سے گندی بدبوآنے لگتی اور بعض سےایسی آواز سنائی دیتی کہ گویا اس کی دبر میں گویا آگ کے انگارے داخل کیے جارہے ہیں۔شیخ قحطانی کہتے ہیں  کہ ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک میت کو ہمارے پاس غسل دینے کے لئے لایا گیا۔جب ہم اسے غسل دینے لگے تو اس کارنگ نہایت سیاہ ہوگیا حالانکہ پہلے اس کارنگ نہایت سفید تھا۔میں غسل دینے والی جگہ سے باہرنکلا اور مجھے خوف محسوس ہورہاتھا میں نے باہر کھڑے ایک آدمی کو دیکھا اور اس سے دریافت کیا کہ یہ مت تمہاری ہے؟اس نے کہا:جی ہاں،میں اس کاوالد ہوں۔میں نے کہا:یہ آدمی کیاکرتا تھا؟اس نے کہا:یہ نماز نہیں پڑھتاتھا،تو میں نے کہا،اپنی اس میت کولے جاؤ اور خودغسل دے لو۔(تذکرۃ الاخوان بخاتمۃ الانسان)

قبر  میں اتارتے وقت پیش آنے والا ایک واقعہ یوں ہے ۔شیخ قحطانی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نماز عصر کے بعدقبرستان کی طرف گیا اور ایک فوت ہونے والے آدمی کی قبر بنائی۔میرے ہاتھوں پر مٹی لگی تھی اور میں اپنے ہاتھوں کو دھونے کا ارادہ کررہاتھا کہ ایک جنازہ آگیا اور تقریباً پچاس آدمی اس جنازے کے ساتھ تھے ان میں سے ایک آدمی نے مجھے آواز دی کہ خدا کے لئے ہمارے ساتھ قبر بنانے میں ہماری مدد کرو کیونکہ ہم اچھی قبر نہیں بناسکتے۔بہرحال میں نے ان کے ساتھ قبر بنانا شروع کردی۔قبر بنا کر ہم اس میت کو دفن کرنے لگے وہ میت کافی فربہ تھی۔دو آدمیوں نے میرے ساتھ اسے قبر میں اتار دیا۔میں نے اس میت کےسر کے نیچےرکھنے کے لیے اینٹ طلب کی اور میں نے بند کھول دیئے تو اس میت کاسر قبلہ سے پھر گیا۔شیخ قحطانی کہتے ہیں کہ میں نے دوبارہ اسکے سر کو پھیر کرقبلہ کی طرف کردیا۔اور میں میت کے دوسری طرف ہوگیا اور دوسری اینٹ پکڑی۔اس وقت میں نے دیکھاکہ اس کہ اس کی آنکھیں کھلی ہیں اور اس کے منہ اور ناک سے نہایت سیاہ خون بہہ رہاتھا۔یہ دیکھ کر مجھ پر اس قدر ڈر اور خوف طاری ہوگیا کہ میر ی ٹانگوں نے مجھے اٹھانے سے جواب دے دیا۔

میرے ساتھ دو تین اورآدمیوں نے بھی عجیب وغریب منظر دیکھا۔پھر انہوں نے مجھے تیسری اینٹ دی اور میں نے دیکھا کہ تیسری مرتبہ بھی اس کا سر قبلہ سے پھر گیا۔چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا اور  فوراً اس قبر کے پاس سے بھاگ گیا جو لوگ میرے ساتھ تھے انہوں نے بھی ڈر کی وجہ سے دفن کر نے کاکام ویسے ہی چھوڑ دیا اور لحد کو بند کئے بغیر ہی اس پرمٹی ڈال دی۔اس کے بعد میں نے اس میت کے ساتھ پیش آنے والا منظر سات /آٹھ مرتبہ خواب کی حالت میں دیکھا۔چنانچہ  جب میں عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں گیا اور پندرہ دن وہاں قیام کیا تو اللہ نے میرے دل کو سکون عطا  فرمایا۔(تذکرۃ الاخوان بخاتمۃ الانسان)

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھی ابو عبداللہ محمد بن احمد قصیری نے مجھے خبردی کہ قسطنطنیہ کے حکمرانوں میں کوئی آدمی فوت ہوگیا۔چنانچہ اس کے لئے قبر بنائی گئی اور جب لوگوں نے اس میت کو دفن کرنے کاارادہ کیا تواچانک ایک بہت بڑا سیاہ رنگ کا سانپ آکر اس قبر میں بیٹھ گیا۔لوگ اس میت کو اس قبر میں دفنانے سے ڈرگئے اور انہوں نے ایک اورجگہ قبربنائی۔وہ سانپ جا کر اس قبر میں بیٹھ گیا۔قصہ مختصر تیس قبریں بنائی گئیں۔اور وہ سانپ ہر اس قبر میں بیٹھ جاتا جس میں اس میت کو دفن کرنے لگتے۔جب لوگ قبریں بنا بناکر تھک ہارگئے تو انھوں نے اہل علم سےسوال کیا کہ اب ہم کیاکریں تو انہیں جواب دیاگیا کہ اس میت کو اسی سانپ کے ساتھ ہی دفن کردو۔

تدفین کے بعد برے خاتمہ کی علامت ظاہر ہونے والا ایک واقعہ یوں ہے جسے حافظ ابن  قیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے الروح نامی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہمارے ساتھی ابو عبداللہ محمد بنالرز الحرانی نے مجھے خبردی کہ میں ایک دن نماز عصر کے بعد قبرستان کی طرف گیا۔جب سورج غروب ہونے کے قریب تھاتو میں قبرستان پہنچ گیا۔وہاں میں نے دیکھا کہ ان قبروں میں سے ایک قبر ایسی تھی جس سے آگ بلند ہورہی تھی(جیسے چراغ سےآگ نکلتی ہے)اس قبر میں ایک میت بھی تھی۔میں اسے دیکھ کر اپنی آنکھوں کوملنے لگا اور دل میں خیال کرنے لگا کہ میں نیند کی حالت میں ہوں یاجاگ رہا ہوں۔پھرمیں شہر کی طرف واپس آگیا اور میں نے کہا:اللہ کی قسم میں تو جاگ رہاہوں،چنانچہ میں اپنے گھر گیا اور میں مدہوش تھا میرے گھر والوں نے میرے سامنے کھانا لاکررکھ دیا لیکن مجھ میں کھانا تناول کرنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔چنانچہ میں شہر کی طرف گیا اورجاکر اس قبروالے آدمی کے متعلق لوگوں سے دریافت کرنے لگا کہ وہ آدمی کیا تھاتو مجھے بتایا گیاکہ وہ آدمی جعلی کرنسی کاکاروبار کرتاتھا۔

ہم برے خاتمہ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اور اللہ سے سوال کرتےہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ کرےاور ہمیں اپنی خاص رحمت عطا فرمائے،بے شک وہی دینے والاہے۔

اپنے رشتہ داروں سے سلوک اور صلہ رحمی بھی اچھے خاتمہ کا سبب ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُمِدَّ اللَّهُ لَهُ فِي عُمُرِهِ وَيُوَسِّعَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيَدْفَعَ عَنْهُ مَيْتَةَ السُّوءِ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ وَلْيَصِلْ رَحِمَهُ

" کہ جو  چاہتا ہے کہ اس کی عمر اور رزق  میں اضافہ ہوجائے اور بری موت سے محفوظ ومامون رہے تو اسے اللہ سے ڈرنا چاہیے اور رشتہ داروں سے  صلہ رحمی کرنی چاہیے۔(مسند احمد عن علی)

قریب المر گ آدمی کی پیشانی پر اگر پسینہ آجائے تو یہ بھی اس کے اچھے خاتمہ کا سبب ہے۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بیان  فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے انتقال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جو موت کی شدت دیکھی تھی۔اس کے بعد مجھے کسی پر رشک نہیں آتا کہ اس کی موت آسانی سے آئے۔حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  خراسان میں اپنے بھائی سے ملنے اوراس کی تیمارداری کے لئے گئے۔جب حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنے بھائی کے پاس پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ ان کا بھائی قریب المر گ ہے اور موت کی شدت کی وجہ سے اس کی پیشانی پر پسینہ اتر آیا ہے۔حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمانے لگے:

" اللَّهُ أَكْبَرُ....... سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَوْتُ الْمُؤْمِنِ بِعَرَقِ الْجَبِينِ"

"اللہ بہت بڑا ہے،میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ مومن اپنی   پیشانی کے پسینہ کے ساتھ فوت ہوتا ہے(یعنی مومن کی موت کے وقت پیشانی پر پسینہ آجاتا ہے)

اچھے خاتمہ کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جمعۃ المبارک کے دن یا جمعہ والی رات موت آجائے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نےفرمایا:

ما من مسلم يموت يوم الجمعة أو ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر"،

"کہ" جس مومن کو جمعہ کے دن یاجمعہ کی رات موت آجائے،اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ رکھیں گے"اور یہ بھی ممکن ہے کہ کافر اور مشرک کو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات موت آجائے،لیکن وہ کافر یا مشرک عذاب قبر سے ہر گز نہیں بچ سکے گا کیونکہ مندرجہ بالاحدیث کی رو سے مومن ہونا شرط ہے ۔

قریب المرگ حالت میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھنا اور اس کے عذاب سے ڈرنا بھی اچھے خاتمہ کا سبب ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان آدمی قریب المرگ تھا۔حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم   اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس نوجوان سے دریافت فرمایا:" كيف تجدك؟"کہ"تیرے دل میں کیا ہے؟"تو وہ نوجوان کہنےلگا:

قال: والله يا رسول الله: إني أرجو الله وأخاف ذنوبي.

"کہ اللہ کی قسم مجھے اللہ سے ر حمت کی اُمید بھی ہے اور اپنے گناہوں کا ڈر بھی ہے۔"حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

 لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا المَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ

کہ"قریب المرگ حالت میں جس مومن کے دل میں یہ دو چیزیں جمع ہوجائیں گی،اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا فرمائیں گے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور جس سے ڈر اور خوف محسوس کرتا ہے ،اس سے اللہ تعالیٰ اس کو بچا لیں گے"

قریب المرگ آدمی کے پاس بیٹھ کر اس کے لیے نیک دعا کرنا بھی اس ک اچھے خاتمہ کا سبب  ہے کیونکہ  اس وقت جو بات بھی کہی جائے اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں۔حدیث میں ہے:

فقولوا خيرا فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون

(صحیح مسلم عن ام سلمہ)

"کہ قریب المرگ کے پاس بھلائی کی بات کرو کیونکہ جو کچھ تم اس وقت کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔

خاتمہ:۔

آخر میں حسن خاتمہ کے اسباب کا ذکر کرتا ہوں کہ انسان کا انجام بالخیر کیسے ہوسکتا ہے:

الف۔ظاہر وباطن اور ہر حالت میں تقویٰ کو لازمی اختیار کرنا چاہیے اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے۔یہ نجات کا واحد راستہ ہے۔اور آدمی کو گناہوں سے بہت زیادہ ڈرنا چاہیے۔یقیناً کبیرہ گناہ آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں اور صغیرہ گناہوں کی وجہ سے دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے۔

رسول مقبول  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچاؤ۔اس قوم کی طرح جو ایک وادی میں اترے۔کوئی ادھر سے ایک لکڑی لے آیا کوئی ادھر سے ایک لکڑی لے آیا۔یہاں تک کہ انہوں نے اپنا کھانا تیار کرلیا اور چھوٹے چھوٹے گناہ پتہ نہیں کب آدمی کو ہلاک کردیں۔

ب۔ہمیشہ اللہ  تعالیٰ کا ذکر اور شکر کرنا چاہیے اور جو کوئی ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتا رہتاہے اس کے تمام اعمال کا خاتمہ اسی پر ہوتاہے اور دنیا سے جاتے وقت اسے کلمہ شہادت  پڑھنے کی وجہ سے جنت کی بشارت مل جاتی ہے کیونکہ حضرت  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ:

"جس کی آخری کلام لاالٰہ الا اللہ ہوگی وہ جنت میں جائے گا"

اس کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا ختم ہونے والا گھر ہے اور یہ ہمیشہ نہیں رہے  گی جب آدمی اس بات کو سمجھ لیتا ہے تو پھر وہ دنیا کو اپنے دل میں نہیں بلکہ ہاتھ پر رکھتا ہے یعنی اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا اورکثرت سے یہ دعا کرتا ہے:

"يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ"

"اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ"

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   بھی اس دعا کو کثرت سے پڑھا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم   سے کہاگیا کہ اے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو آپ اللہ کی طرف سے لے کر آئے۔کیاپھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم   ہمارے متعلق ڈرتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:"ہاں! کیونکہ دل اللہ کی دو انگلیوں کےدرمیان ہے،اللہ جیسے چاہتاہے ،اسے پھیر دیتا ہے"

الٰہی!ہم آپ کے اسماءحسنیٰ اور صفات وعلیا کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اس حالت میں فوت کرنا کہ تو ہم سے راضی ہو۔الٰہی ہمارے آخری اعمال کو بہترین بنادے اور اپنی ملاقات کے وقت تو ہم سے خوش اور راضی ہوجا۔الٰہی!دنیا و آخرت میں ہمیں سچی بات پر ثابت اور قائم ر کھنا اور ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا اور ہمیں اپنی رحمت عطا فرما۔بے شک تو ہی سب کچھ دینے والا ہے۔الٰہی! ہمارے پوشیدہ کو ظاہر سے بہتر بنا اورظاہر کو بھی درست فرمادے،بے شک تو قدرت کاملہ رکھنے والاہے۔