فرقہ طلوع اسلام کی ضد

فرقہ طلوع اسلام چونکہ مکمل طور پر منکر حدیث ہے۔[1]اس لئے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کی  تبلیغ اور اس کی نشرواشاعت اسے ہرگز گوارا نہیں ہے،اور حدیث نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو مآخذ شریعت کے طورپر پیش کرنے والے اہل حدیث کو بدنام کرنے کے لئے اس فرقہ سے متعلقہ افراد موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔چونکہ خود یہ لوگ عربی زبان سے ناواقف اور اس کی گرائمر سمجھنے سے نابلد ہوتے ہیں لہذا اس بارے میں دوسروں پر اعتراض کرکے اپنی ہی سبکی کروالیتے ہیں،مثال کے طور پر دارالدعوۃ السلفیہ کی طرف سے جب شیخ عبدالسلام کی کتاب حدیث(منتقی الاخبار) کا اردو  ترجمہ شائع کیا گیا تاکہ اردو دان طبقہ احادیث رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی روشنی میں اپنے اخلاق واعمال کی اصلاح کرسکے تو فرقہ طلوع اسلام کو اشاعت حدیث کا یہ کام پسند نہ آیا،اور وہ اس ترجمہ کی عیب جوئی میں کولہو کےبیل کی طرح جیت گیا تاکہ اس طرح وہ عوام کو اس کتاب حدیث سے استفادہ کرنے سے روک سکے اور لکھا کہ:

"اس کتاب(منتقی الاخیار)میں فرقہ اہل حدیث کے علماء کی جانب سے ایسی خطرناک  تحریف کی گئی ہے جس کی زد ختم نبوت کے عقیدہ پر پڑتی ہے۔مسلمانوں کے ایک فرقے کاعقیدہ ہے چہاردہ معصومین یعنی چودہ معصوم انسان ہیں۔ان کے نزدیک یہ چہار دہ معصوم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کی آل پرمشتمل ہیں۔ان حضرات کے عقیدے کے مطابق یہ سب معصومین نبوت میں شریک تھے۔مسلمانوں کا یہ عام عقیدہ ہے کہ صرف انبیاء علیہ السلام   ہی معصوم انسان تھے۔اس لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر مسنون درود کے  الفاظ یہ تھے صلی اللہ علیہ وسلم لیکن ان حضرات نے اس مقصد کےلئے درود شریف میں آل کے لفظ کا اس طرح اضافہ کردیا جو عربی زبان کے قواعد کے مطابق بھی غلط ہے اس اضافے کے بعددرودشریف کی عبارت یوں ہوگئی ہے،"صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"(ماہنامہ طلوع اسلام ،جون 2000،ص46)

حقائق وعبر کے عنوان سے سطور بالا کے لکھنے والے پروفیسر رفیع اللہ شہاب ہیں جو کافی عرصہ سے فرقہ [2] طلوع اسلام سے وابستہ ہیں اور وہ اس فرقے کے افراد کے ہاں ایک علمی شخصیت شمار ہوتے ہیں۔لیکن افسوس کہ وہ اکثر علمی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں۔یہاں بھی انھوں نے پہلی غلطی تو یہ کی  کہ شیعہ فرقے کے چہار دہ معصومین یعنی چودہ معصوم امام بنادئیے ہیں،حالانکہ شیعہ فرقے کے معصوم امام چودہ نہیں بلکہ بارہ ہیں،اسی لئے تو انہیں اثناعشریہ یعنی بارہ اماموں کو معصوم ماننے والا فرقہ کہا جاتا ہے۔ اور انہوں نے ان اماموں کے نام بھی بارہ ہی شمار کئے ہیں جو کہ حسب ذیل ہیں:

1۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔3۔حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔4۔علی زین العابدین۔5۔محمد باقر۔6۔جعفر صادق۔7۔موسیٰ کاظم۔8۔علی رضا۔9۔محمد جواد۔10۔علی ہادی۔11۔حسن عسکری۔12۔محمد مہدی المنتظر

بنا بریں پروفیسر صاحب کے چہار دہ معصومین سے متعلق دعوے کو ان کی کم علمی ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ہاں البتہ اگر  پروفیسر صاحب نے خود کو اور پرویز صاحب کو بھی ان معصوم اماموں میں شمار کرنا شروع کردیا ہے۔تو تعداد کی حد تک ان کی مذکورہ بالا عبارت درست مانی جاسکتی ہے۔دوسری غلطی انہوں نے یہ کی ہے کہ"آلہِ"کے اضافے پر مشتمل درود کی عبارت"صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" کو وہ عربی کے ایک مشہور قاعدے کے خلاف سمجھ بیٹھے ہیں اور اس مشہور قاعدے کی تعبیر یوں کرتے ہیں:

"عربی زبان کا یہ مشہور قاعدہ ہے کہ اسم ضمیر پراسم ظاہر کاعطف نہیں ہوسکتا"(طلوع اسلام)

"آلہ" کے اضافے پر مشتمل درودشریف کی عبارت عربی قاعدے کے خلاف ہے یا نہیں؟ اور فرقہ طلوع اسلام سے تعلق رکھنے والے حضرات عربی زبان کے قواعد کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟

اس کے لئے محدث کے اگست اور ستمبر،اکتوبر 1986ء کے شمارے ملاحظہ  فرمائے جاسکتے ہیں جن میں تفصیل کے ساتھ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ضمیر مجرور پراسم ظاہر کے عطف کا قاعدہ کوفی اور بصری علماء کے ہاں اختلافی ہے اور ترجیح اس بات کو حاصل ہے کہ ضمیر مجرور پراسم ظاہر کا عطف حرف جرد ہرائے بغیر ہوسکتا ہے۔اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ لوگ عربی دانی کی خوش فہمی میں مبتلا ضرور ہیں،لیکن در حقیقت یہ عربی زبان سے نابلد ہیں،اور اس زبان کے قواعد کو سمجھنے سے بہت دور ہیں۔اور اس پر اظہار ندامت کی بجائے دوسروں پراعتراض کرنے کی تگ ودود میں رہتے ہیں،اور ایسے وقت میں اصل کتاب کی طرف مراجعت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے،اور کم علمی کی وجہ سے عربی زبان کے قواعد کی تعبیر میں ایسی غلطیاں کرتے ہیں جن پر عربی زبان کا ادنیٰ طالب علم بھی سر پیٹ کررہ جاتا ہے۔

چنانچہ آ پ عربی گرائمر کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیجئے آ پ کو یہ قاعدہ نہیں دستیاب نہیں ہوگا کہ اسم ضمیر پر اسم ظاہر کا عطف نہیں ہوسکتا،کیونکہ علمائے نحو کےدرمیان محل نزاع ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کے عطف کا قاعدہ ہے۔جبکہ ضمیر مرفوع اور ضمیر منصوب پر اسم ظاہر کا عطف بالاتفاق جائز ہے۔اگرچہ ضمیر مرفوع متصل پر اسم ظاہر کے براہ راست عطف کے وقت ضمیر منفصل بطور  تاکید لانا ضروری ہوتاہے لیکن  پروفیسر مذکور ہر ضمیر پر ہی اسم ظاہر کےعطف کو ناجائز قرار دے رہے ہیں۔حالانکہ ضمیر  پر اسم ظاہر کے عطف کی بیسیوں مثالیں قر آن کریم سے دی جاسکتی ہیں ۔بنا بریں پروفیسر صاحب نے عربی زبان کے قاعدے کی غلط تعبیر کرکے اپنے علم کو لیک لگالی ہے۔

اور ان کی فہم وفراست کا حال یہ ہے کہ وہ علیٰ حرف جردہرانے کے ساتھ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو درود کی صحیح عبارت تسلیم کرتے ہیں،مگر حرف جرد دہرائے بغیر"صلی اللہ علی وآلہ وسلم" کے بارہ میں عجیب مخمصے کا شکار ہیں اور  فرماتے ہیں:

"عربی زبان کے قواعد کے مطابق اگرآل کے شروع  میں حرف جاردوبارہ لایا جائے تو پھر درود شریف میں آل کے لفظ کے اضافے میں کوئی حرج نہیں،لیکن جن لوگوں کا عقیدہ چہاردہ" معصومین کا ہے وہ لفظ آل سے پہلے حرف علیٰ دوبارہ استعمال نہیں کرتے۔اس طرح آل کو بھی نبوت میں شریک سمجھا جاتا ہے"(طلوع اسلام،صفحہ 47)

پروفیسر صاحب کی یہ منطق بھی نرالی ہے کہ درود کی عبارت میں علیٰ حرف جر کا اضافہ نہ کیا جائے تو آل بھی نبوت میں شامل ہوجاتی ہے۔لیکن اگر اس میں علیٰ داخل کردیا جائے تو اس وقت آل نبوت میں شریک نہیں ہوتی گویاحرف علیٰ آل کی نبوت میں شرکت کےورے سد سکندری کا کام دیتا ہے۔حالانکہ عربی  گرائمر کے مطابق علیٰ حرف استعلاء ہے جو  بلندی کا معنی دیتاہے۔پروفیسر صاحب کی منطق کو اگرصحیح مان لیا جائے تو علی کو لانے سے تو آل مزید بلند شان ہوکر نبوت میں شامل ہوجائے گی۔

پروفیسر صاحب کی یہ غلط فہمی ہے کہ درود میں علیٰ اس لئے لایا جاتاہے تاکہ آل نبوت میں شامل نہ ہوسکے،جبکہ اہل فن کے نزدیک حرف جر  دہرانے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ضمیر متصل کلمہ کا جز ہوتی ہے۔اور اسم ظاہر کا کسی کلمہ کے ایک جز پرعطف ڈالنا درست نہیں اس لیے معطوف پر حرف جار کع دوبارہ لایا جاتا ہے تاکہ جزو کلمہ پر عطف لازم نہ آئے۔لیکن پروفیسر مذکور اس علت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔اس لئے وہ حرف جر دہرائے بغیر درود کی عبارت میں آل کے نبوت میں شامل ہوجانے کی ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔بلکہ اپنی اس جہالت کو تحقیق کا نام دیتے  ہوئے لکھتے ہیں:

"طلوع اسلام کے قارئین اس قسم کے انکشافات کے ثبوت مانگتے ہیں، ان کی تسلی کے لئے ہم نے یہ کتاب(منتقی الاخبار،مترجم اردو) خرید کر طلوع اسلام کی لائبریری میں رکھ دی ہے ،جن قارئین کو ہماری تحقیق پر شک وشبہ ہو وہ ان کتابوں کی زیارت کرسکتے ہیں"(طلوع اسلام ص47)

پروفیسر صاحب سے ہماری درخواست یہ ہے کہ آپ دارالدعوۃ السلفیہ کی طرف سے شائع ہونے والی منتقی الاخبار ،مترجم اردو خریدنے پر اکتفا نہ کریں ،بلکہ اصل عربی کتاب خریدکر اپنی لائبریری میں رکھنے کی بھی زحمت فرمائیں جس کا مذکورہ ادارے نے ترجمہ نشر کیا ہے۔کیونکہ منتقی الاخبار عربی کے ہر ایڈیشن میں ہرحدیث ک ساتھ درود کی وہی عبارت موجود ہے۔جوحرف جر علیٰ دہرائے بغیر ہے،جس پر آپ کو اعتراض ہے اور طلوع اسلام کے قارئین میں سے اگر کوئی شخص آپ کی تحقیق کا مشاہدہ کرنے کے لئے حاضر ہوتو اسے منتقی الاخبار مترجم اردو کے ساتھ اس کتاب کاعربی ایڈیشن بھی پیش کیاجائے تاکہ وہ آپ کے مکروفریب کو ملاحظہ کرسکے،اور اس بات سے آگاہ ہوسکے کہ ترجمہ کرنے والا تو اصل کتاب کا پابند ہوتا ہے ۔جبکہ منتقی الاخبار عربی میں ہر حدیث کے ساتھ درود کی عبارت حرف جر علیٰ دہرائے بغیر"صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" موجود ہے تو دارالدعوۃ السلفیۃ اپنے ترجمہ میں درود کی عبارت اسی طرح نقل کرنے سے خطرناک تحریف کامرتکب کیسے ہوسکتا ہے۔

آخر میں ہم طلوع اسلام سے وابستہ حضرات سے درخواست کریں گے کہ آپ لوگ مسٹر پرویز سے عقیدت کو چھوڑ کر ان کے بیک گراؤنڈ کو سمجھنے کی کوشش کریں،اور  یقین جانیں کہ وہ شخص انتہائی بدنیت  تھا،جس نے اسلام بلکہ قرآن ک نام پر امت مسلمہ کو صراط مستقیم سے ہٹا کر گمراہی اور ضلالت کے راستے پر ڈالنے کی  پوری کوشش کی ہے،اس پر اس کاپورا لٹریچر خاص کر مفہوم القرآن جیسی کتابیں شاہد ہیں،جس میں اس نے خوف خدا سے عاری ہوکر قرآنی آیات کے مفاہیم ومطالب بیان کرنے میں بھر پور دھاندلی اوردھونس سے کام لیا ہے،اب آ پ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی زندگی میں موقع فراہم کیا ہے کہ اس گمراہی سے توبہ کرلیں،اور نبوی منہج کو اختیار کرکے اپنی عاقبت کی اصلاح کرلیں۔۔۔وما علینا الا البلاغ


[1] ۔اس کے ثبوت کےلیے دیکھئے "محدث"بابت ماہ نومبر 1987ء
[2] ۔اہل طلوع اسلام فرقہ ہونے کے باوجود اپنے لئے فرقہ کے لفظ سے بڑے الرجک ہیں حالانکہ فرقہ کی تعریف ان پر بلکہ مسٹر پرویز پر بھی صادق آتی ہے،فرقہ کون ہوتاہے؟مسٹر پرویز اس بارہ میں لکھتے ہیں:"بہرحال فرقوں کی پہچان بالعموم نماز کے اختلاف سے ہوتی ہے"(منزل بہ منزل ،ص13)فرقوں کے اس تعارف کی بنیاد پر ہم طلوع اسلام والوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ لوگ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں؟اگر نہیں پڑھتے تو نماز نہ  پڑھنے والاملحد ہوتا ہے اور الحاد اسلام کی نقیض ہے۔اور اگر آپ نماز پڑھتےہیں تو کس طریقہ پر؟ دیگر فرقوں کے مطابق یا ان سے ہٹ کر؟اگر آپ کی نماز دوسرے لوگوں سے الگ ہے تو آپ بھی فرقہ ہوئے کیونکہ بقول  پرویز ہر فرقہ اپنی نماز سے پہچانا جاتاہے۔اور اگرآپ کی نماز دوسرے فرقے کے مطابق ہے تو کیسے ہوسکتاہے کہ وہ تو آپ کےنزدیک فرقہ ہوں۔لیکن آپ ان جیسی نماز پڑھنے کے باوجود فرقہ نہ بنیں ،خود مسٹر  پرویز بھی حنفی فرقہ سے منسلک رہے ہیں،اور وہ اسے اپنے لئے بطور فخر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں" میں خود حنفی گھرانے میں پیدا ہوا تھا،اس لئے حنفی طریقے کے مطابق نماز پڑھتا ہوں"(منزل بہ منزل ،ص99)
اس وضاحت کے بعد مسٹر پرویز اور ان کے حواریوں کے فرقہ ہونے پر یوں استدلال کیا جاسکتا ہے کہ:غلام احمد پرویز واتباعه یصلون وصلوۃ الحنفية ،والحنفية فرقة من الفرق فقلام احمد واتباعه فرقة من الفرق"یعنی" مسٹر پرویز اور اس کے پیروکار حنفی طریقہ پر نماز پڑھتے ہیں اورحنفی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے تو مسٹر پرویز اور اس کے پیروکار بھی مختلف فرقوں میں سے ایک فرقہ ہوئے۔
باقی ان حضرات کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہم توفرقہ بندی کو شرک کہتے ہیں،اس لئے ہم فرقہ نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارا کسی فرقہ سے تعلق ہے تو یہ صرف ہاتھی کے دانت ہیں جو لوگوں کودکھانے کے لئے ہیں ورنہ مقام غور ہے کہ جب حنفی حضرات ان لوگوں کے ہاں بھی ایک فرقہ ہیں کیونکہ ان کی نماز کاطریق دوسروں سے الگ تھلگ ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں،تو ان جیسی نماز پڑھنے والے اہل طلوع اسلام کے فرقہ ہونے میں کون سا شبہ باقی رہ جاتا ہے۔