(پہلاحصہ) سیکولرازم کا سرطان
سیکولر ازم کا مفہوم
گذشتہ پانچ صدیوں کے دوران مغرب کی سیاسی فکر میں اہم ترین تبدیلی ریاستی (لفظ مٹا ہوا ہے)سے مذہب کی عملا بے دخلی ہے،یہی امر سیکولر یورپ کا اہم ترین فکری،کارنامہ،بھی سمجھا جاتا ہے۔اس بات سے قطع نظر۔۔۔کہ جدید یورپ میں کلیسا کے خلاف شدید رد عمل کے فکری اسباب کیاتھے اور کلیسا اور ریاست کے درمیان ایک طویل محاذ آرائی بالآخر موخرالذکر کی کامل فتح پر کیونکرمنتج ہوئی۔۔۔بیسوی صدی کے وسط میں استعماری یورپ کی سیاسی غلامی سے آزاد ہونے والی مسلمان ر یاستوں میں بھی یہ سوال بڑے شدومد سے زیربحث لایا گیا کہ مذہب کا ریاستی امور کی انجام دہی میں کیا کردار ہوناچاہیے۔مسلمان ملکوں کاجدید دانشور طبقہ جس کی سیاسی فکر کی تمام تر آبیاری مغرب کے فکری سرچشموں سے ہوئی تھی مسلمانوں کی ریاست میں اسلامی شریعت کو ایک سپریم قانون کی حیثیت دینے کوتیار نہ تھا،مذہب کے متعلق اپنے مخصوص ذہنی تحفظات کی وجہ سے وہ اسلام کومحض مسلمانوں کی انفرادی یا شخصی زندگی تک محدود دیکھنے کا خواہشمند تھا۔وہ اسلام اور ریاست کے باہمی تعلق کو بھی مسیحی مغرب کے کلیسا اور ریاست کے تصادم کے تناظر میں بیان کرنے پر مصر تھا۔یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کے دینی طبقہ کے متعلق ان کے تاثرات کلیسا کے بارے میں مغربی دانشوروں کے تاثرات سے مختلف نہ تھے۔مغرب کے کلیسا دشمن دانشوروں نے جس جذباتی انداز میں اہل کلیسا کو جارحانہ تنقید کانشانہ بنایا تھا،تقریباً وہی ناقدانہ اسلوب مسلمانوں کے اس طبقہ جدید کابھی تھا۔وہ اپنے خود ساختہ مفروضات کی بناء پر شدید خدشات کاشکار تھے۔ان کا خیال تھاکہ اگر اسلام کو ریاستی امور میں بالادستی عطا کردی گئی تو دینی طبقہ کلیسا کی طرح روشن خیالی،آزادی اظہار اور ترقی پسندی کے تمام امکانات کو نہ صرف ختم کردے گا بلکہ روشن خیال طبقہ کو مذہبی آمریت کاتختہ مشق بھی بنایا جائے گا۔لہذا انھوں نے اسلام کی بجائے سیکولرازم کے نفاذ پرزوردیا۔یہ طبقہ اعدادوشمار کے لحاظ سے تو بہت قلیل تھا۔لیکن مغربی استعماری طاقتوں کے سیاسی جانشین ہونے کی وجہ سے اسے بے حد اثر ورسوخ حاصل تھا۔ان کے خیالات ،اُمنگیں اور فکری دھارے عوام کی اجتماعی فکر سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔مسلمان عوام اسلام کے علاوہ کسی اور قانون کی برتری کاتصور تک قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔جدید طبقہ اور سواد اعظم کے نظریات میں اس واضح خلیج نے آزاد ہونے والی مسلم ریاستوں میں ایک نئے فکری تصادم کو جنم دیا،جس کی مختلف صورتیں آج بھی مسلم ریاستوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
پاکستان جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا،یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس کی نظریاتی اساس اور اسلامی تشخص کو ایک مخصوص لابی کی طرف سے مشکوک ومتنازعہ بنانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔11جون کے اخبارات میں پاکستان کے وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر کی جانب سے نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو کے حوالے سے ان کابیان شائع ہوا کہ"پاکستان کو ترقی پسند،ماڈرن ،بردبار اور سیکولر سٹیٹ ہونا چاہیے۔وزیر داخلہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ حکومت ان ہزاروں مدارس کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔جہاں نوجوانوں کو جہاد کی تربیت دی جارہی ہے جو مغرب کے خلاف نفرت پھیلارہے ہیں وزارت داخلہ نے دوسرے دن یہ وضاحت کرکے اپنی جان چھڑالی کہ وزیر داخلہ کے بیان کو خلط ملط کرکے پیش کردیاگیا ہے اور یہ کہ انہوں نے پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کا نہیں کہا۔مگر اس موضوع پر سیاستدانوں اور رائے عامہ کے حلقوں کی طرف سے فوری طور پر شدید ردعمل کے بعد مسلسل اظہار خیال کاسلسلہ جاری ہے۔اُردواخبار نے اپنے اداریوں میں واضح کیا ہے کہ سیکولر ازم کا تصور مسلم قومیت اور نظریہ پاکستان سے صریحاً متصادم ہے ۔سیکولر طبقہ بھی حسب روایت اس بحث میں کود پڑا ہے ،وہ مسلسل قوم کو سیکولرازم کا مفہوم سمجھانے میں مصروف ہے۔ان کے خیال میں سیکولرازم کامطلب،مذہب دشمنی یا لادینیت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ریاست کی مذہبی معاملات کے بارے میں غیر جانبداری اور بے نیازی ہے وہ دین پسندوں کو مطعون ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ سیکولرازم کے مفہوم تک سے واقف نہیں ہیں۔انگریزی اخبارات میں چھپنے والے مضامین کااسلوب بالخصوص یہی رن لئے ہوئے ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر ازم کا مفہوم کیا ہے؟کیا سیکولرازم اپنے لغوی واصطلاحی معنوں میں اسلام یانظریہ پاکستان سے متصادم ہے؟اور پھر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیاپاکستان جیسی اسلامی تصور پر قائم ریاست سیکولرازم کی متحمل ہوسکتی ہے؟یہ معاملہ بھی تحقیق طلب ہے۔کہ مغرب میں سیکولرازم کوفروغ کیونکرہوا؟مغرب میں مختلف ادوار میں سیکولرازم سے کیا مطلب مراد لیاجارتا رہا اور آج کل عملی طور پر اس نظریے کے نفاذ کے کیا کیا مظاہر سامنے آئے ہیں؟ان تمام سوالات کے جوابات درج ذیل سطور میں دینے کی کوشش کی گئی ہے:
سیکولرازم کامطلب:۔
ہم انگریزی زبان کے چند معروف مصادر ومآخذ ،انسائیکلو پیڈیا ز اور لغات کی روشنی میں سیکولرازم کے مطالب ومفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں:
1۔آکسفورڈ ڈکشنری انگریزی زبان کی وسیع ترین ڈکشنری ہے جو پندرہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ۔علمی اعتبار سےاس اہم ترین لغت میں مختلف الفاظ کے نہ صرف معانی بیان کئے گئے ہیں بلکہ ان معانی کو مزیدواضح کرنے کے لیے مختلف ادوار میں معروف مصنفین کی طرف سے ان کے استعمالات بھی بیان کئے گئے ہیں۔راقم الحروف کے خیال میں ،سیکولر،سیکولرازم،اور سیکولرائزیشن جیسے الفاظ کے متعلق جس قدر مبسوط تشریح آکسفورڈ ڈکشنری میں ملتی ہے۔کسی اور لغت میں نہیں ملتی ،صرف سیکولر ک لفظ کو دو صفحات پر بیان کیا گیا ہے۔اسکے مطالب کی اسم صفت(Adjective) اوراسم فاعل(Subject) کے دو واضح عنوانات کے تحت وضاحت کی گئی ہے۔اور پھر ان عنوانات کے مزید ذیلی عنوانات قائم کئے گئے ہیں،ان ذیلی عنوانات کو مختلف مصنفین کی طرف سے تحریر کردہ فقروں کی مثالوں سے بیان کیا گیا ہے۔آکسفورڈ ڈکشنری کی تمام وضاحتوں کو لفظ بہ لفظ پیش کرنا توشاید غیر ضروری ہے۔البتہ اس کے اہم ترین حصوں کے ترجمے سے اس اہم لفظ کے اصل مفہوم تک پہنچا جاسکتاہے۔(جوقارئین سیکولرازم کے بنیادی لفظ سیکولر کامطلب ومراد ملاحظہ کرنا چاہیں وہ حاشیہ میں دی گئی عبارت ملاحظہ کریں[1] جہاں سیکولرکے لفظ کاآکسفورڈ ڈکشنری کی روشنی میں تفصیل سے درج کردیاگیاہے۔۔۔)
سیکولر ازم:۔
آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکولرازم کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:
“The doctrine that morality should be based solely on regard to the well.being of mankind in the present life, to the exclusion of all consederations draum from belief in God or in a fututure state,”
"یہ نظریہ کہ اخلاقیات کی بنیاد صرف اس مادی دنیا میں انسانیت کی فلاح کے تصور پر قائم ہونی چاہیے،خداپرایمان یااخروی زندگی کے متعلق تمامتر تصورات کو اس میں سرے سے کوئی عمل دخل نہ ہو"مندرجہ بالا تعریف کومزید یوں واضح کیا گیاہے:
سیکولرازم ایسے قطعی طور پر واضح نظام عقائد(سسٹم آف میتھ) کا نام ہے۔جسے معروف دانشور جی بے ہولی اوک(G.J.Holyoake)(1817ءتا 1906ء) نے بھر پور طریقے سے متعارف کروایا۔
ب۔1854ءمیں ہولی اوک نے اپنی ایک تحریر می سیکولر ازم کو عوام کا عملی فلسفہ قرار دیا۔اس نے اپنی بات کوواضح کرتے ہوئے کہا:
“The term secularism has been chosen ad expressing a certain positive and ethical element which the terms “infidel” sceptic’ Atheist’ do not express,”
یعنی" سیکولر ازم کی اصطلاح کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے تاکہ ایک خاص مثبت اور اخلاقی عنصر کو واضح طور پر بیان کیاجاسکے جو کافر شکی ،مزاج،اور ملحد،جیسی اصطلاحات کے استعمال سے واضح نہیں ہوتا"
2۔آکسفورڈ لغت میں سیکولرازم کی دوسری تعریف یوں کی گئی ہے:
“The view that education or the education provided at the public cost ,should be purely secular.”
"یہ نقطہ نظر کہ تعلیم ،یا وہ تعلیم جو عوام کے خرچ پر دی جائے،اسے خالصتاً سیکولر ہونا چاہیے"
سیکولر ازم کے قریب قریب انگریزی زبان میں ایک اورلفظSeularity بھی ہے۔آکسفورڈ ڈکشنری میں اس کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے:
“Worldliness, absence of religions principle or feeling.”
یعنی" دنیاداری ،مذہبی اُصولوں یا جذبات کامعدوم ہونا"
اس طرح ایک اوراصطلاح"Secularization" بھی ہے۔ اس کےتین مختلف معانی دئیے گئے ہیں مثلاً!
1۔اس سے مراد مذہبی یا روحانی اداروں کوسیکولر اداروں کی تحویل میں دینا یا ان کااستعمال سیکولر بنانا۔
2۔قانون کی مذہبی خصوصیت کوسیکولر(مادی)رنگ دینا،تعلیمی نصاب یافنون لطیفہ کو مذہب سے آزاد کرانا یاتعلیم کاسیکولر مضامین تک ہی محدود کرنے کاعمل۔
3۔ایک مذہبی یا باقاعدہ(ریگولر) کوسیکولرمیں بدل دینا۔
مندرجہ بالا سطور میں آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکولر،سیکولرازم اور سیکولرائزیشن کی اصطلاحات کے بارے میں درج شدہ معلومات کے اہم حصے بیان کئے گئے ہیں۔ان میں صرف بنیادی مطالب اور مفاہیم کو ہی لیا گیا ہے۔بہت ساری وضاحتوں یا تفصیلات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔
درج ذیل سطور میں انگریزی زبان کے چند مزید انسائیکلو پیڈیا(موسوعات) اور لغات سے سیکولر ازم کی تعریف وتوضیح کو یکجا کردیا گیا ہے تاکہ متنوع حوالہ جات سے اس انتہائی اہم اصطلاح کی تفہیم میں زیادہ آسانی پیدا ہو۔
انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا جلد 9(پندرہواں ایڈیشن) میں سیکولرازم کی وضاحت ملاحظہ کیجئے:
"سیکولرازم سے مراد ایک ایسی اجتماع تحریک ہے جس کا اصل ہدف اُخروی زندگی سے لوگوں کی توجہ ہٹا کر دنیوی زندگی کی طرف مرکوز کرانا ہے۔قرون وسطیٰ کے مذہبی میلان رکھنے والے افراد میں دنیاوی معاملات سے متنفر ہوکر خداوند قدوس کے ذکر اور فکرآخرت میں انہماک واستغراق کا خاصا قوی رجحان پایا جاتا تھا۔قرون وسطیٰ کے اس ر جحان کے خلاف رد عمل کے نتیجے میں نشاۃ ثانیہ کے زمانےمیں سیکولر ازم کی تحریک انسان پرستی(ہیومن ازم) کے ارتقاء کی شکل میں رونما ہوئی،اس وقت انسان نے انسانی ثقافتی سرگرمیوں اور دنیاوی زندگی میں اپنی کامیابیوں کے امکانات میں پہلے سے زیادہ دلچسپی لینی شروع کی۔سیکولرازم کی جانب یہ پیش قدمی تاریخ جدید کے تمام عرصہ کے دوران ہمیشہ آگے بڑھتی رہی اور اس تحریک کو اکثر مسیحیت مخالف اور مذہب مخالف (Anti.Rellgion) سمجھا جاتا رہا"
2۔Lobister کی ڈکشنری آف ماڈرن ورلڈ" میں سیکولر ازم کی تعریف دو حصوں میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:
1۔"دنیوی روح یا دنیوی رجحانات وغیرہ بالخصوص اُصول وعمل کاایسا نظام جس میں ایمان اور عبادت کی ہر صورت کو ردکردیاگیا ہو۔"
2۔"یہ عقیدہ کہ مذہب اور کلیسا کا امور مملکت اور عوام الناس کی تعلیم میں کوئی عمل دخل نہیں ہے"
3۔"نیوتھرڈ ورلڈ ڈکشنری"میں سیکولرازم کی تعریف ان الفاظ میں دیکھی جاسکتی ہے:
"زندگی یازندگی کے خاص معاملہ سے متعلق وہ رویہ جس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ وین یا دینی معاملات کو حکومتی کاروبار میں دخل نہیں ہوناچاہیے یا یہ کہ مذہبی معاملات کو نظام حکومت سےارادتاً دور رکھنا چاہیے۔اس سے مر اسد حکومت میں خالص لادینی سیاست ہے۔در اصل سیکولرازم اخلاق کا ایک اجتماعی نظام ہے جس کی اساس اس نقطہ نظر پر ہے"
مندرجہ بالا سیکولرازم کے متعلق وضاحتوں،مفاہیم اور تعریفات کی روشنی میں سیکولرازم کا مختصراً مفہوم جوسامنے آتا ہے۔اسکے اہم ترین پہلودرج ذیل ہیں:
1۔سیکولرازم ایک ایسانظریہ ہے جو اُلوہی،روحانی اور الٰہیاتی اُمور کی بجائے دنیاوی،مادی،غیر روحانی،غیر مذہبی اور غیر مقدس اُمور پر توجہ مرکوز کرنے کی دعوت دیتاہے۔
2۔سیکولرازم درحقیقت قرون وسطیٰ میں کلیسا کی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف شدیدردعمل تھا۔
3۔سیکولرازم کا نظریہ دین سیاست یا چرچ اور ریاست کی مکمل تفریق پر مبنی ہے۔سیکولر ریاست میں مذہب کاکوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
4۔سیکولرازم ایسا نظام ہے جو ایمان اور عبادت کی کسی صورت کو قبول نہیں کرتا۔بلکہ ان کی شدت سے مخالفت کرتاہے۔لہذاسیکولرازم اپنے مزاج کے اعتبار سے مذہب مخالف یادوسرے الفاظ میں لادین نظریہ ہے۔
سیکولرازم کااُردو میں ٹھیک ٹھیک ترجمہ کیا ہے؟:۔
اس سوال کے متعلق آج کل ہمارے اخبارات میں نئے سرے سے بحث کی جارہی ہے۔اردو میں عام طور پر اس کا مطلب"لادینیت" کیا جاتاہے ،مگر ہمارے دانشور،لادینیت،کوسیکولرازم کے مترادف کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔انگریزی صحافت کے معروف ترین دانشور جناب اردوشیر کاؤں جی(پارسی) نے اپنے ایک حالیہ کالم میں سیکولرازم کے موضوع پر قلم اٹھایا ہےاس میں من جملہ دیگر باتوں ک ان کاارشاد ہے:
"اردو زبان میں کوئی واحد لفظ ایسا نہیں ہے کہ جس سے سیکولر کاترجمہ کیاجاسکے"(روزنامہ "ڈان" 25 جون 2000ء)
روزنامہ پاکستان میں تنویر قیصر اردو زبان کی اس مبینہ تہی دامنی پر یوں افسوس کرتے ہیں:
"یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اُردو زبان میں کوئی ایسی لغت ابھی تک مرتب نہیں کی جاسکتی ہےجو ہمیں سیکولرازم کی جامع اور واضح تعریف بتاسکے۔ہمارے ذہنوں میں اس لفظ کے بارے میں جو شکوک وشبہات ہیں۔ان کا ازالہ کرسکے۔لے دے کرہمارے پاس مقتدرہ قومی زبان کی شائع کردی لغت،قومی انگریزی اُردو لغت ہےجس کی تدوین معروف اور معزز سکالر جناب ڈاکٹر جمیل جالبی نے کی ہے۔اس لغت کے تیسرے ایڈیشن(1996ء) میں سیکولرازم کا مطلب یوں بیان کیا گیا ہے۔لادینی جذبہ یا رجحانات بالخصوص وہ نظام جس میں جملہ مذہبی عقائد واعمال کی نفی ہوتی ہے،اسے مزید یوں واضح کیا گیا ہے:یہ نظریہ کے عام تعلیم اورمغربی ماند بود کے معاملات میں مذہبی عنصر کو دخیل نہیں ہوناچاہیے۔(روزنامہ پاکستان:14 جون 2000ء)
معلوم ہوتا ہے کہ فاضل کالم نگار ڈاکٹر جمیل جالبی جیسے نابغہ عصر اور اُردو زبان کے جید عالم کی مذکورہ بالاسیکولرازم کی تعریف سے کچھ زیادہ مطمئن نہیں ہیں۔اسی لیے وہ برطانوی خاتون اخبار نویس ایماڈ نکن،(بریکنگ دی کرفیو،کی مصنفہ) کی اس مسئلہ کے متعلق رائے کاجواب دیتے ہیں ،وہ لکھتی ہے:
"پاکستان میں مذہب کے لئے جوبڑی لڑائی لڑی جارہی ہے اس کے حوالے سےاردو میں کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔مثلا سیکولر ازم کا اُردو میں کوئی ترجمہ نہیں ہے۔پاکستان کے مذہبی طبقات اور مولوی حضرات اور سیکولرازم کی مخالفت تو کرتے ہیں مگر انھیں اس لفظ کے معنی نہیں آتے۔"
ایمان ڈنکن مزیدلکھتی ہے:
"اُردو میں سیکولر اور سیکولرازم کا جوقریب ترین ترجمہ رائج ہے وہ لادین اور لادینیت ہے۔۔۔لادینیت کو سیکولرازم کے مترادف اور ہم معنی کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔سیکولرازم کا درست مطلب ہے۔مذہبی غیر جانبداری وہ لکھتے ہے کہ پاکستان میں ایک بڑے ادیب نے مجھے بتایا کہ جب ہم پہلے سیکولرازم کےبارے میں لکھنا چاہتے تھے تو بھی لفظ سیکولرزم اردو میں لکھ دیتے تھے کیونکہ اردو زبان میں اس کا ہم معنی یا مترادف موجود ہی نہیں لیکن مذہبی حلقوں نے سیکولرازم کے لفظ کو ناپسندیدہ قرار دے کرمسترد کردیا اور اس کی جگہ لادینیت لفظ کی سرپرستی شروع کردی اور اب گذشتہ دس برسوں سے یہ لفظ اخباروں میں دیکھنے میں نہیں آتا۔اس کی جگہ لادینیت رائج ہوچکا ہے۔(حوالہ ایضاً)
تنویر قیصر صاحب نے نجانے برطانوی صحافی ایمان ڈنکن کا مذکورہ بالاطویل اقتباس اس اصطلاح کے اُردو مترادف کے بارے میں ابہام کو دور کرنے کے لئے یا اس ابہام کو مزید بڑھانے کےلئے درج کیاہے۔ایما ڈنکن کامعاملہ تو سمجھ میں آتاہے کہ اُردو زبان کے مترادف کے بارے میں اس کا مبلغ علم اتنا ہی ج تنا کہ اسےہمارے سیکولر دانشوروں نے ملاقاتوں کے دوران چوگا دیاہوگا۔مگر ہمارے صحافی حضرات کا یہ کہنا کہ اردو میں سیکولرازم کا کوئی مترادف ہی نہیں ہے،نے حد حیران کن امر ہے۔ایما ڈنکن نے اہل پاکستان کو ان کی جہالت پرمتنبہ کرتے ہوئے انہیں درس دیا ہے کہ سیکولرازم کا درست مطلب مذہبی غیر جانبداری ہے۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی جہالت یا انگریزی لغت مرتب کرنے والے ماہرین لسانیات (Lexico Graphers)کی جہالت کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں۔سیکولرازم کادرست مطلب اگر اردو زبان میں واقعی مذہبی غیر جانبداری ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ انگریزی لغات اور انسائیکلو پیڈیا میں سیکولرازم کی وضاحت کے ضمن میں"Religions" یا کم از کم"Religions indifference"جیسےالفاظ آخر استعمال کیوں نہ کئے گئے۔انہی لغات میں سیکولرازم کے لئے"Anti-Religion" کے واضح الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ایماڈنکن یا ہمیں پاکستان کے کوئی روشن خیال دانشور ہی سمجھائیں کہ ہم انگریزی زبان کی معروف لغات کے مقابلے میں ان کی سیکولرازم کی خانہ زاد،خود ساختہ اور ساقط الاعتبار وضاحت کو کس منطق کے مطابق قبول کریں۔اور پھر ایما ڈنکن اور وہ صاحب جنھوں ے اسے بتایا کہ اُردو زبان میں مذہبی طبقہ نے سیکولرازم کے لیے لادینیت کی اصطلاح کو رواج دیا،اگر ذرا سا غور کریں توا نہیں اس سطحی الزام تراشی پر خود ہی شرم محسوس کرنے لگے گی۔ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب جسے اُردو زبان وادب کے عظیم دانشور جو فکری اعتبار سے سیکولر ہیں،اگراپنی مرتبہ کردہ لغت میں سیکولرازم کے لئے لادینی جذبہ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں،تو پھر مذہبی طبقہ کو مطعون کیوں ٹھہرایا جاتاہے۔کیاکوئی سیکولردانشور یہ فرض کرسکتا ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب جیسا لسانیات کا بحرذ خار اس معاملہ میں کسی غیر ذمہ دارانہ اور غیر ثقہ ترجمہ کو پیش کرسکتا ہے۔
یہ بات درست نہیں ہے کہ اُردو زبان میں سیکولرازم کامترادف موجود نہیں ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ کی زیر نگرانی مرتب کئے جانے والے،اردو معارف اسلامیہ"جو پنجاب یونیورسٹی نے شائع کیا(1972ء) کی جلد 9 صفحہ 446 پر سیکولر ازم کا ترجمہ دنیویت کیاگیا ہے۔انگریزی لغات میں سیکولرازم کی درج شدہ چند وضاحتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو دنیویت بھی بہت مناسب مترادف معلوم ہوتا ہے۔بالخصوص "Worldlimess"کایہی ترجمہ ہی مناسب ہے۔ عالم اسلام کے نامور مفکر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ جن کی عربی اور اردو زبان میں تصنیفات کا ایک زمانہ معترف ہے۔انہوں نے اپنی تحریروں میں سیکولرازم کے لئے نامذہبیت کامترادف استعمال کیا ہے۔ان کی معروف تصنیف عالم اسلام میں مغربیت اور اسلامیت کی کشمکش "میں متعدد مقامات پر"نامذہبیت" کا لفظ استعمال کیاگیاہے۔البتہ کہیں کہیں انہوں نے لادینیت کالفظ بھی استعمال کیا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ زبان وادب کےاتنے بڑے شاہ سوار اورمایہ ناز ادیب نے"نامذہبیت" اور"لادینیت" کے الفاظ کیا محض تہذیب مغرب کے خلاف کسی تعصب کی بنا پر استعمال کئے ہیں؟سید ابوالحسن علی ندوی کے متعلق اس طرح کاسوئے ظن کوئی بہت بڑا بد باطن ہی پال سکتا ہے۔
عربی زبان جو اُردو زبان کا بہت بڑا سرچشمہ ہے۔اردو زبان کے ہزاروں خوبصورت الفاظ اور تراکیب کا صل منبع ومصدر عربی زبان ہی ہے۔امت مسلمہ کا عظیم ترین لٹریچر بھی اسی مقدس زبان میں موجود ہے۔جس میں"قرآن عربی" نازل فرمایاگیا۔عربی زبان کی فصاحت ضرب المثل ہے۔عالم عرب کے معروف سیکولر دانشور سیکولرازم کا ترجمہ العلمانیۃ کرتے ہیں۔ان میں سے بھی کسی نے اس کا ترجمہ"مذہبی غیر جانبداری"نہیں کیا۔مگر عربی زبان کے دین پسند دانشوروں نے عرب سیکولر طبقہ کی جانب سے سیکولرازم کے لے علمانیت کے مترادف کو غلط قرار دیا ہے ۔ عالم عرب کے شہرہ آفاق مصنف علامہ یوسف قرضاوی نے اپنی کتاب"سیکولرازم اور اسلام" میں سیکولرازم کے معانی ومطالب پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکولرازم کا کیا مفہوم ہے؟اس کے لیےعربی زبان میں علمانیت کا لفظ مستعمل ہے جو کہ انگریزی Secularismفرانسیسی Seculariteکا ترجمہ ہے۔مگر یہ ترجمہ غلط ہے۔اس لئے کہ لفظ علم یا اس کے مشتقات کا سیکولرازم سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔علم کا مترادف انگریزی اور فرانسیسی میں Scienceہے۔جومسلک یافکر سائنس کی جانب منسوب ہوا،اسےScientism کہا جاتاہے۔اور علم کی جانب انگریزی میں نسبت ہو تو انگریزی میں اسے Scientismکہا جاتا ہے"
وہ اس موضوع پر علمی بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:
"بحرحال سیکولرازم کا صحیح ترجمہ لادینی یا دنیاوی ہے۔دنیاوی نہ صرف ان معنوں میں کہ یہ اخروی کے بالمقابل ہے بلکہ ان مخصوص معنوں میں کہ ایسا دنیاوی رویہ جن کا دین سے کوئی تعلق ہویا اگر کوئی تعلق ہوتو یہ تعلق تضاد کا تعلق ہو۔عربی زبان میں سیکولرازم کا ترجمہ علمانیت اس لیے کیاگیاہے کہ ترجمہ کرنے والے دین اور علم کا وہی مفہوم سمجھتے ہیں جو ان الفاظ کا مسیحی دنیا میں سمجھا جاتاہے۔مغرب میں دین اور علم دو متضاد الفاظ ہیں یعنی ان کے یہاں جو بات دینی یامذہبی ہووہ علمی نہیں ہوسکتی اور علمی بات دینی نہیں ہوسکتی۔غرض ان کے یہاں علم اور عقل دین کے بالمقابل اور اسکی ضد ہیں اور اسی طرح علمانیہ اور عقلانیت ایسے رویے ہیں جو دین کے برعکس ہیں۔(صفحات :49۔51)
مشہور مستشرق آربری اپنی کتاب "مشرق وسطیٰ میں مذہب" میں لکھتا ہے:
"ماذی علمیت ،انسانیت ،طبعی مذہب اور وضعت سب لادینیت (سیکولرازم) کی صورتیں ہیں اور لادینیت یورپ اور امریکہ کا ایک نمایاں وصف ہے۔اگرچہ یہ مظاہر مشرق اوسط میں بھی موجود ہیں لیکن انہیں کوئی فلسفیانہ رخ یا متعین ادبی رخ نہیں ملا۔اس کاحقیقی نمونہ جمہوریہ ترکیہ میں مذہب وحکومت کی تفریق ہے"
پاکستان کے سیکولر دانشور سیکولرازم کا ترجمہ مذہبی غیر جانبداری اگر بتلاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے یا عملی اعتبار سے سیکولرریاست غیر جانبدار ہوتی ہے۔وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کسی لادینی یا غیر مذہبی ریاست کا اس جرات مندی سے مطالبہ کرنا ممکن نہیں ہے۔جس طرح کہ یورپ میں یہاں اس طرح کے مطالبہ کو نہ صرف مسترد کردیاجائے گا بلکہ اس کے خلاف شدید رد عمل بھی سامنے آسکتا ہے،اسی لیے وہ اسلام کی کھلم کھلا مخالفت کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔وہ نظریاتی طور پر لادین ہی ہیں مگر اپنے نظریے سے ان کی وابستگی اتنی شدید نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے اپنی جانوں کانذرانہ بھی پیش کرسکیں۔عالم اسلام میں ترکی سیکولر ریاست کی نمایاں ترین مثال ہے وہاں جس غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔اس کی داستانیں زبان زدعام ہیں ۔اس نام نہاد غیر جانبدار(سیکولر) ریاست میں ایک خاتون رکن پارلیمنٹ کو محض اس لئے برداشت نہیں کیا جاتا کہ اس نے سر پر سکارف اوڑھ رکھا ہے۔گذشتہ رکھا ہے۔گذشتہ سال ترکی پارلمینٹ کی خاتون رکن محترمہ مروہ کی اسمبلی کی رکنیت اس جرم کی پاداش میں منسوخ کردی گئی۔ اور ان کی شہریت ختم کردی گئی ۔وہ اب دربدری کا دکھ سہہ رہی ہیں۔سیکولر ازم کااگر مزید مفہوم سمجھنا ہوتو پاکستان کے مادر پدر آزاد دانشوروں اور صحافیوں کی تحریریں پڑھ لی جائیں۔
اسلام اور اہل اسلام کے خلاف جو شدید نفرت اور حقارت ان کی تحریروں میں ملتی ہے۔وہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔کہ سیکولرازم کا جو مفہوم ان کے اپنے ذہنوں میں ہے اس کےلئے لادینیت بلکہ بعض انتہا پسندافراد کی صورت میں دہریت کے الفاظ ہی صحیح مترادفات ہیں۔
پاکستان کے ایک سیکولر دانشور عزیز صدیقی صاحب جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں:
"ہر ملک کے آئین میں اس امر کا اعلان واشگاف طور پر ہونا چاہیے کہ اس کے تمام شہری اور مذہبی نسلی اور لسانی گروہ قانون کی نظر میں برابر ہیں اور انہیں برابر کی سطح پر اور پوری آزادی کے ساتھ ہم آہنگی کے ماحول میں ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہیں۔دوسرے الفاظ میں ریاست کو لفظی اور معنوی دونوں لحاظ سے سیکولر ہونا پڑے گا۔ایک بے عمل ریاست کے بعد بدترین منافرت پیدا کرنے والی ریاست وہ ہے جو اپنے عمل میں جانبدار ہے اور جو حکومت غیر سیکولر ہ وہ صریحاً جانبدار ہے۔چنانچہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ عم،آگہی اور معقولیت کا ایسا ماحول پیدا کرے جس میں عصبیت پر مبنی اُصول اور تشدد کے حربے بالعموم ناپسند کئے جانے لگیں"(پاکستانی معاشرہ اور عدم رواداری،مرتب حسن عابدی،صفحہ نمبر64)
سیکولرازم کے حامیوں کے دوہرے معیار:۔
عزیز صدیقی صاحب جن معنوں میں سیکولرریاست کو غیر جانبدار سمجھتے ہیں ،ان معنوں میں ایک اسلامی ریاست بھی غیر جانبدار ہوتی ہے۔اس میں قانون کی حکمرانی کاوہی تصور موجود ہے۔لیکن عملی حقائق کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے۔کہ نہ تو سیکولر ریاست کلیۃ غیر جانبدار ہوتی ہے اور نہ ہی اسلامی ریاست۔چونکہ دونوں ریاستوں کے پس پشت ایک بے حد توانا نظریہ کارفرما ہوتا ہے اسی لیے دونوں ریاستیں ہی درحقیقت نظریاتی ریاستیں ہوتی ہیں۔اور ایک نظریاتی ریاست کبھی بھی مکمل غیر جانبدار نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اسے ہونا چاہیے ۔ایک اسلامی ریاست اسلام کی نظریاتی اساس سے متصادم سرگرمیوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کرے گی۔ایک سیکولر ریاست اپنے شہریوں کو ساحل پر فطری لباس(ننگا پن) میں گھومنے کی تو بخوشی اجازت د ے دیتی ہے۔مگر یہی ریاست سکول کی بچیوں کی سرپر سکارف اوڑھنے کی اجازت نہیں دیتی،فرانس اور مصر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ترکی کی سیکولر ریاست شہوت انگیز موسیقی کی کھلم کھلا اجازت دیتی ہے۔مگر وہ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دینے کی اجازت نہیں دیتی۔وہاں کے تعلیمی اداروں میں مذہب دشمن مضامین پڑھائے جاتے ہیں مگر دین کی تعلیم کی اجازت نہیں ہے۔اور پھر ہمارے ہاں عزیزصدیقی صاحب جیسے سیکولر دانشور جو علم ،آگہی اور عقلیت سے بھر پور مگر عصبیت سے خالی معاشرہ کا قیام چاہتے ہیں،وہ دینی مدارس پر پابندی لگانے کامطالبہ کرتے ہیں۔وہاں ان کی رواداری ایک عجیب تنگ نظری میں بدل جاتی ہے۔وہ علم سے مراد صرف دنیاوی علوم لیتے ہیں ۔اگر عوام اپنی مرضی سے دینی علوم کا اہتمام کرنا چاہیں تو یہ اسے برداشت کرنے کوتیار نہیں ہیں۔المختصر سیکولرریاست کی غیرجانبداری اور عدم مداخلت ایک ڈھونگ اور لا یعنی دعویٰ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ فحاشی اور عریانی کے خاتمے کےلئے ریاستی مداخلت زیادہ قابل قبول ہے۔یاد ینی مدارس کو ختم کرنے یااسکارف پر پابندی لگانے کے لیے ریاستی مداخلت زیاہ بہتر ہے۔اس بات کا فیصلہ ہرزی شعور پاکستانی مسلمان خود کرسکتا ہے۔
اسلام اور سیکولرازم میں مشترک قدریں ڈھونڈنے کی کوشش:۔
ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقہ ہے جو مذہب سے مکمل انکار نہیں کرتا،اسلام اور سیکولرازم کے درمیان عجب مشابہت کی تلاش میں سرگرداں رہتاہے۔چونکہ سیکولرازم کا ایک پہلو دنیوی اُمور کی انجام دہی بھی ہے اور اسلام دین ودنیا کی تفریق کا قائل نہیں ہے۔لہذا یہ حضرات دنیاداری کو اسلام اور سیکولرازم کے درمیانی قدر مشترک قرار دے کراسلام اور سیکولرازم کے درمیان فرق کو مٹا دیناچاہتے ہیں اور پھر اس استدلال کے ذریعے بزعم خویش ثابت کرتےہیں کہ اسلامی ریاست ہی سیکولر ریاست ہے۔
روزنامہ ڈان(25جون 2000ء) میں کراچی کے پروفیسر سید جمیل واسطی کاایک مفصل مکتوب،اسلام اورسیکولرازم کے عنوان سے چھپا ہے۔موصوف رقم طراز ہیں:
"لفظ سیکولر کالادینی ترجمہ کرنا در حقیقت اس لفظ کے اصل مطلب کو مسخ کرنے اور اس کی اہمیت کو کم کرنے کے مترادف ہے۔اس لفظ کو اس کے اصل تاریخی تناظر سے الگ کرکے صحیح طور پر سمجھا نہیں جاسکتا۔مسیحی مغرب میں دو متحارب قوتیں تھیں۔یعنی چرچ اور ریاست ،پوپ،اور قیصر،جو ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اکثر آپس میں لڑتی جھگڑتی رہتی تھیں۔
اسلام کے مذہبی اور سیاسی نظام میں ،نہ تو کوئی چرچ ہے،نہ کوئی پوپ اور نہ ہی کسی قیصر(Emperor) کی گنجائش ہے۔پہلے چار خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بادشاہ تھے نہ ہی سلطان،سیکولرکا متضاد لفظ(Theocratic)تھیا کریسیMonastic(راہبانہ) اور Clericalہے۔چونکہ اسلام میں کوئی چرچ نہیں ہے۔نہ ہی کوئی راہبانہ سلسلہ ہے۔اس لئے اسلامک اور سیکرلر ریاست دونوں اپنے شہریوں کو مذہبی آزادی دیتی ہیں۔انہیں انسانی حقوق ،آزادی،قانون وانصاف کی نگاہ ہی مساوات کی ضمانت دیتی ہیں،سیکرلرکامطلب ہے:دنیاوی اور مادی اور اسلام ایک جامع مذہب کی حیثیت سے چونکہ دنیاوی معاملات ومفادات کا احاطہ بھی کرتاہے لہذا یہ ایک سول(Civil) اور سیکولر مذہب ہے"
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام دنیوی اور اُخروی زندگی دونوں کے معاملات کا احاطہ کرتاہے،اسلام میں دین ودنیا کی ثنویت نہیں ہے۔اسلام جہاں اپنے پیروں کاروں کو اُخروی زندگی کی تیاری کے لئے ہدایت کرتاہے۔وہاں انہیں یہ بھی ہدایت کرتاہے کہ "اس دنیا میں سے ا پناحصہ لینا نہ بھولو"(القرآن) مگر سیکولرازم اور اسلام کی اپروچ یکسر مختلف ہے۔اسلام اُخروی ودنیوی زندگی میں توازن کادرس دیتا ہے ۔مگرسیکولرازم کے ہاں اخروی معاملات کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے۔وہاں تو مقصودومطلوب محض دنیاوی لذائذ ہیں۔دنیاوی لذتوں کی طرف یکطرفہ رجحان خودغرضی،حرض اور مادہ پرستی کے جذبات پروان چڑھتاہے۔سیکولرازم میں دنیا سے شدید رغبت اورآخرت سے عدم رغبتی کا تصور ملتا ہے۔اسی لئے اسلام اور سیکولرازم میں ایک جزوی مماثلت کے باوجود دونوں کے نظریہ حیات میں بہت فرق ہے۔لہذا اسلام کا سیکولرازم سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔دنیوت سیکولرازم جیسی وسیع اصطلاح کا محض ایک پہلو ہے ۔اس اصطلاح کاغالب پہلو وہ ہے جسے لادینیت کہاجاتاہے۔پروفیسر جمیل واسطی صاحب جیسے افراد کی عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کی برتری ظاہر کرنے کی یہ کاوش جتنی بھی نیک نیتی پر مبنی ہو۔مگر اس کے مضمرات نہایت خطرناک ہوں گے۔پاکستان میں بعض اشتراکی منکرین نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے "اسلامک سوشلزم"کی اصطلاح وضع کی۔اسلام اور اشتراکیت کے درمیان انہوں نے بہت سے مشترک پہلوؤں کی نشاندہی بھی کی۔ایک اور طبقہ جو یورپ کی جمہوریت سے بے حد متاثر ہے وہ اسلام اور جمہوریت کے درمیان اسی طرح مشترکہ نکات کو بیان کرکے"اسلامک ڈیموکریسی"جیسی اصطلاح کو رواج دینے میں مصروف رہتا ہے۔مگر ایسا نہیں ہوناچاہیے کہ اسلام ،اسلام ہی ہے۔اسے کسی سابقے یا لاحقے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر بقول واسطی صاحب اسلام ایک سیکولرمذہب ہے ۔تو پھر سیکولرازم کے نفاذ کا مطالبہ کیوں کیاجاتا ہے۔سیدھے سبھاؤ اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کیوں نہیں کیاجاتا؟اس طرح کے التباس اور ابہام کو جان بوجھ کر کیوں پیدا کیا جاتا ہے۔
سیکولرازم کی مرد معین کرنے سے گریز:۔
جناب تنویر قیصرشاہد اپنے مذکورہ کالم میں لکھتے ہیں:
"یہ ہماری کم علمی ہے یا حقیقت سے فرار کہ پاکستان میں سیکولرازم کے لفظ کی گالی تو آسانی سے دے دی جاتی ہے۔لیکن قانون یا پارلمینٹ نے اس لفظ کی تشریح کی ہے،نہ اسے Defineکیا ہے"
پاکستان کی پارلمینٹ کی"کوتاہیوں" کا شمار کیا جائے توایک طویل فہرست مرتب ہوسکتی ہےمگر موصوف کی اس ضمن میں خفگی بے جا ہے کیونکہ دنیا کی کسی پارلمینٹ نے سیکولرازم کی تعریف کا تعین نہین کیا یہ کام وہا ں کے ماہرین لسانیات اوردانشوروں نے انجام دیا ہے ۔پاکستان کے دانشور سخن سازیاں تو بہت کرتے ہیں مگر سیکولرازم کو اپنی خواہش کے مطابق Defineنہیں کرتے۔مزید برآں ایک،سیکولر آدمی کو لادین کہنا اسی طرح گالی نہیں ہے۔جس طرح ایک طوائف کو بدکارہ کہنا اور ایک کرپٹ آدمی کو حرام خور کہنا گالی نہیں ہے۔یہ حقیقت حال کا اظہار ہے۔جولوگ اسلام کے مقابلے میں پاکستان میں سیکولرازم لانا چاہتے ہیں۔انہیں مسلمان عوام کو اس قدر تو اظہار رائے کی آزادی دینی چاہیے کہ وہ انھیں لادین کہہ سکیں۔ظاہر ہے کہ وہ انہیں ملک بدر کرنے سے تورہے۔اگر ایک سوشلسٹ ریاست میں سوشلزم کے مخالفوں کو ملک بدر کرنا غلط نہیں سمجھا جاتا توا ایک خالص اسلامی ریاست میں اس کے نظریاتی مخالفوں کو ملک بدر کرنا بھی غلط نہیں سمجھا جاناچاہیے۔مگر ہمارے سرخ جنت کے پجاری جو بات سوویت یونین کے ضمن میں درست سمجھتے تھے ،وہ پاکستان کے بارے میں غلط سمجھتے ہیں!!!
آخر میں ہم بے حد زور دے کر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سیکولرازم کا مطلب بلاشبہ اسلام دشمنی ہے۔چونکہ پاکستان کی نظریاتی اساس اسلام ہے۔ان معنوں میں اس کادوسرا مطلب پاکستان دشمنی بھی ہے۔اسلام اور پاکستان لازم ملزوم ہیں۔اسلام ہی پاکستان کی اصل شناخت ہے ،ورنہ اس کا وجود بے معنی ہے ۔اگر سیکولرازم کو ہی نافذ کرناتھا تو پاکستان کے قیام لاکھوں جانوں کی قربانی دینی کیا ضروری تھی؟
سیکولرازم:عیسائیت اور اسلام کے تناظرمیں
(دوسرا حصہ)
آج کا ماڈرن مغرب زدہ اور بزعم خویش لبرل مسلمان سیکولرازم کو جو بھی معنی پہنائے اسلام اور سیکولرازم کے درمیان کسی قسم کی مطابقت پیدا کرنے کی کاوش صحرا میں سراب کو پانی سمجھ کر اپنے آپ کو ہلکان کرنے کے مترادف ہے ۔یہ لوگ بھی سمجھتےہیں کہ اسلام اور سیکولرازم باہم مخالف اور متصادم نظام ہائے فکر ہیں مگر وہ تلبیس کوشی کے پردے میں بات کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انھوں نے اگر اسلام کی کھل کر مخالفت کی تو عوام کے شدید عتاب کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا اور مغربی جمہویت نے انہیں کچھ اور بات ذہن نشین کرائی ہو یا نہیں البتہ انہیں جمہوریت کے رٹوطوطے ضرور بنا دیا ہے وہ جمہوریت اور عوام کا راگ الاپتے رہتے ہیں وہ عوام کو اپنے فکری الحاد میں رنگنا چاہتے ہیں مگر اس باغیانہ تبلیغ کے لیے جو اخلاقی جراءت درکار ہے اس سے ان کا دامن دل تہی خاطر ہے۔
اسلام اور مغرب کے سیاسی تصورات کے درمیان اصولی کلیدی اور بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ اسلام چرچ اور ریاست یا زیادہ بہتر الفاظ میں دین وسیاست کاسرے سے قائل ہی نہیں ہے اسلام کے اندر یورپ اور قیصر کی تفریق نہیں ہے خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین سے لے کر خاندان بنا اُمیہ خاندان بنو عباسہ عثمانی سلطنت و مابعد اسلامی تاریخ کا کو ئی بھی دور ایسا نہیں ہےجہاں پوپ اور قیصر یا کسی مذہبی پنڈت اور خلیفہ کے درمیان کوئی تصادم یا باقاعدہ محاذ آرائی کی صورت نظر آتی ہو۔ اسلامی تہذیب و تمدن کلیسا جیسے کڑی درجہ بندی پر مشتمل ادارے کے وجود تک سے ناآشنا ہے جبکہ مسیحی یورپ کی پوری تاریخ میں کلیسا نے اہم ترین ادارے کا کردار اداکیا ہے۔یورپ کے قرون وسطیٰ کی کئی صدیاں تو ایسی ہیں کہ جس میں قیصر کااقتدار تو برائے نام رہ گیا تھا اصل اقتدار کا مالک کلیسا یا پوپ ہی تھا قیصر سیاسی حکمران ہونے کے باوجود عملاً پوپ کا تحت ہی تھا ۔پوپ کی خوشنودی کا حصول مسیحی حکمرانوں کے سیاسی وجود کو برقراررکھنے کے لیے ناگزیرتھا ۔مگر دوسری طرف اسلامی تاریخ کوہم دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ تعجب ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ کے متقی ترین افراد کو خلیفہ وقت کی طرف سے کوڑوں کی ذلت آمیز سزاؤں سے دوچار کیا جا تا ہے کہ انھوں نے خلیفہ کی طرف سے ملازمت کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا ۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر آئمہ کرام نے اس ضمن میں عزیمت کی جو داستانیں رقم کی ہیں اسلامی تاریخ ان پر ہمیشہ ناز کرتی رہے گی ۔ دوسری جانب کلیسا کی تاریخ کا ایک ایک ورق گواہی دے رہا ہے کہ پوپ اور اس کے حواری مجسٹریٹ جیسی معمولی آسامی کے لیے حکمران وقت سے تصادم اور جنگ و جدل کرتے رہے ہیں۔
اسلام اور عیسائیت کے درمیان دوسرا اہم ترین فرق یہ ہے کہ عیسا ئیت میں تقویٰ اور تدین کی معراج یہ کہ انسان دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر کے جنگل میں ڈیرے ڈال لے اور دنیا وی نعمتوں کواپنے اوپر حرام کر لے۔ کلیسا کی اس کی اس غیر فطری روش کا نتیجہ ہی تھا کہ مسیحی پادریوں کے لیے عورت سے نکاح کرنا ممنوع قرارد یا گیا ۔مگر اسلام اپنے پیروکاروں کو دنیا میں رہتے ہوئے تزکیہ نفس اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی ہدایت کرتا ہے پیغمبر اسلام محسن انسانیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معروف ارشاد گرامی ہے کہ "اسلام میں کو ئی رہبانیت نہیں ہے۔
گذشتہ سطور میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ مغرب میں سیکولرازم کے نظریے کی ابتداہی اس تصور سے ہوئی کہ وہاں کے بعض مفکرین نے روحانی معاملات سے ہٹ کر دنیاوی معاملات کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کو شش کی۔اسلام کے اندر نماز ،روزے کی طرح اپنے بچوں کے لیے رزق حلال کی کوشش کو بھی عبادت قراردیا گیا ہے کلیسا نے عورت کو چھونا حرام قراردیا تھا مگر اسلام نے اپنی زوجہ سے صنفی مواصلت کو صدقہ اور باعث اجر قرار دیا قرآن مجید میں واضح حکم دیا گیا ہے ۔
وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ یعنی "دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھولو "
جہاں تک چرچ اور ریاست کے درمیان تفریق کی بات ہے یہ تصور مغرب کے سیکولردانشوروں کے ذہن کی تخلیق نہیں ہے۔ خود عیسائیت کی بنیادی تعلیمات میں دین وسیاست کی تفریق کی واضح تعلیم موجود ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کاا سلوب اور منہج اخلاقی ہے اسی لیے انھوں نے برملایہ اعلان کیا کہ وہ شریعت موسوی کی پابندی کرتے ہیں شریعت یعنی نظام عمل یا طریقہ کار کے بغیر ریاستی نظم و نسق نہیں چلایاجا سکتا ۔اخلاقی تعلیمات کے مقابلے میں شریعت کی خصوصیت اس کا قانونی پہلو اور محکم ضابطوں کا وجودہے جسے معاشرے میں عدل وانصاف کے قیام کے لیے نافذ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نئی شریعت نہیں لائے تھے اسی لیے انھوں نے حکومت کرنے کی خواہش کا اظہار یا جدوجہد کبھی نہیں کی۔لیکن اسلام اور شارع اسلام کا معاملہ یکسر مختلف ہے اسلام مجرداخلاقی تعلیمات کا مجموعہ نہیں ہے اسلام ہر اعتبار سے مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں بالخصوص سیاسی پہلو کے متعلق واضح ہدایات دیتا ہے اسلام کا نظام حیات ایک قوت نافذہ کا متقاضی ہےاسلامی شریعت سماجی عدل کے قیام کے لیے اسلامی ریاست کے قیام کو ناگزیر سمجھتی ہے انجیل میں واضح طور پر یہ الفاظ ملتے ہیں ۔"جو قیصر کو دواور جو خداکا ہے وہ خدا کو دو "حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب یہ جملہ اپنی روح کے اعتبار سے دین و دنیا کی اسی تفریق کا اعلان ہے جو سیکولرازم کی دونوں میں مشترک ہے لہٰذا مغرب میں اس نظریے کو جو والہانہ پذئرائی میسر آئی ہے وہ زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے ۔اگر یہ کہا جا ئے کہ سلطنت اور دین کی تفریق کا یہ نظریہ جدید سیکولر مغرب کا "متفقہ مذہب"ہے تو مبالغہ نہ ہو گا ۔مگر یہ تصور اسلام کے اساسی نظریات کے صریحاً منافی ہے۔ سید سلیمان ندوی اسلام میں دین و دنیا کی وحدت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
"اسلام دین و دنیا اور جنت ارضی اور جنت سماوی اور آسمانی بادشاہی اور زمین کی خلافت دونوں کی دعوت لے کر اول ہی روز سے پیدا ہوا اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دو نہیں ایک ہی شہنشا ہ علی الاطلاق ہے جس کی حدود حکومت میں نہ کوئی قیصر ہے اور نہ کوئی کسریٰ ۔اسی کا حکم وعرش سے فرش تک اور آسمان سے زمین تک جاری ہے وہی آسمان پر حکمران ہے وہی زمین پر فرماں رواہے"(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم : جلد ہفتم صفحہ نمبر 45)
ایک اور مقام پر سید سلیمان ندوی اسی بات کو بے حد خوبصورت پیرائے میں بیان فرماتے ہیں۔
اسلامی سلطنت ایسی سلطنت ہے جو ہمہ تن دین ہے یا ایسا دین ہے جو سرتا پا سلطنت ہے مگر سلطنت الٰہی کے اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اس سلطنت الٰہی میں قیصر کا وجود نہیں۔ اس میں ایک ہی حاکم اعلیٰ و آمرمانا گیا ہے وہ حاکم علیٰ الاطلاق اور شہنشا قادر مطلق اللہ تعالیٰ ہے آنحضرت اس دین کے سب سے آخری نبی اور پیغمبر تھے اور وہی اس سلطنت کے سب سے پہلے امیر حاکم اور فرماں رواتھے ۔آپ کے احکام کی بجا آوری عین احکام خداوندی کی بجا آوری ہے۔ "جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی"النساء آیت8(ایضاًص110)
اسلامی تاریخ کا شاید ہی کو ئی نامور مصنف ہو جس نے اسلام اور مسیحیت کے اس اصولی فرق کی نشاندہی نہ کی ہو۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے"حجۃ اللہ البالغہ"میں اس موضوع پر مفصل بحث کی ہے انھوں نے لکھا ہے۔
"کسی بھی پیغمبر نے رہبانیت کی تعلیم نہیں دی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اس سے حاصل نہیں ہوتی کہ آدمی تمدن کے معاملاتی حصے میں بعض طبائع کی خود غرضی اور فساد سے بیزار ہو کر اس سے علیحدگی اختیار کر لے ۔جنہوں نے لوگوں سے میل جول رکھنے اور خیر و شر میں ان کے شریک حال رہنے سے قطعاً علیحدگی اختیار کر کے پہاڑوں کی کھوؤں اور خانقاہوں کے تنگ و تاریک حجروں میں جاکر پناہ لی اور وحشیانہ زندگی بسر کرنا انھوں نے اختیار کرلیا ان کی یہ ادا حق سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں ہر گز پسندیدہ نہیں۔
جدید اسلامی دنیا کے نامور مفکر مصر کے علامہ یوسف القرضاوی سیکو لرازم اور اسلام کا موازانہ کرتے ہوئے نہایت بلیغ اور مؤثر پیرائے میں ارشاد فرماتے ہیں ۔
"اسلام میں سرے سے انسانی زندگی کے معاملات کی یہ تقسیم ہی نہیں کہ زندگی کے یہ امور دینی ہیں اور یہ غیر دینی ۔دین و دنیا کی تقسیم ہی غیر اسلامی اورمسیحی مغرب سے درآمد شدہ ہے اور جو ہمارے معاشرے میں بعض اداروں اور لوگوں کے بارے میں دینی اور غیر دینی (سیکولر)کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اس تقسیم کا اسلام سے کو ئی تعلق نہیں ہے۔۔۔اسلامی نظام حیات میں زندگی کے یہ دوحصے کبھی نہیں رہے اور دین و دنیا کی تفریق کبھی قائم نہیں ہوئی اسلام اس دین سے آشنانہیں جو سیاست سے عاری ہواور اس سیاست کو تسلیم نہیں کرتا جو دین سے خالی ہو ۔اسلام میں انسانی زندگی کے تمام پہلو اس طرح باہم مربوط اور دوش بدوش رہے ہیں جس طرح جسم وجان کا رشتہ باہم مربوط ہے اس لیے اسلام کی نظر میں دین اورعلم دین اور دنیا دین اور حکومت ہر رشتہ مربوط غیر منفصل اور کبھی نہ جدا ہونے والا ہے"(سیکو ازم) اور اسلام "صفحہ 53اردوترجمہ ساجد الرحمٰن صدیقی )
یورپ کی جدید تہذیب عدم توازن کا شکارہے قدیم یورپ ایک انتہا پر تھا تو جدید یورپ ایک دوسری انتہا پر پہنچ گیا ہے قدیم یورپ میں عورت کو پاپ کی گٹھڑی اور غلیظ مخلوق سمجھا جاتا تھا اسے جائیدادمیں سرے سے کو ئی شراکت حاصل نہ تھی اس کا اپنا کوئی تشخص نہ تھا مگر جدید یورپ میں عورت کو اس قدر آزادی دی گئی ہے کہ عملاً وہ کوئی بھی پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے عورتوں کی اہم جنس پرستی اور اسقاط حمل کے حق کو حال ہی میں اقوام متحدہ کی بیجنگ پلس فائیو کانفرنس میں "بنیادی انسانی حقوق "کے طور پر اقوام عالم سے تسلیم کرانے کی کوشش کی گئی قرون وسطیٰ کے یورپ میں فرد کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہ تھے حکمرانوں کی خدائی حقوق کے نام پر جابرانہ اختیارات حاصل تھے آج فرد کی آزادیوں کے مقابلے میں معاشرے کے حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں قدیم یورپ میں جائیداد کی ملکیت پر غاصبانہ قبضہ کی صورت میں جاگیرداری نظام رائج تھا اس کے ردعمل میں جب اشتراکت کا نظام سامنے لایا گیا تو اس میں ذاتی جائیداد کے حق کا سرے سے ہی انکار کردیا گیا قدیم یورپ میں کلیسا کو اس قدر اختیارات حاصل تھے کہ امور ریاست کا کو ئی بھی معاملہ کلیسا کی رضا جوئی کے بغیر جائز تسلیم نہیں کیا جا تا تھا کلیسا جیسے چاہتا تھا جائز قراردیتا اور جسے چاہتا ناجائز اور کافرانہ قراردےکر مسترد کردیتا جدید یورپ سیکولرازم کا حامی ہے جس میں مذہب کو کو ئی عمل دخل نہیں ہے سیکولرازم کے تصور سے پہلے دنیاوی زندگی سے متمتع ہو نا ایک گناہ
کی بات تصور کی جاتی تھی ۔معمولی نعمتوں سے بہرہ ور ہونا بھی عاصیانہ عیش پرستی کے زمرے میں شمار ہوتا تھا مگر اس کا ردعمل یہ ہے کہ آج کا سیکولر یورپ اُخروی زندگی کے تصور سے ہی بیزار ہے آج کا مغربی انسان اس دنیا کی لذتوں سے حریصانہ طور پر لذت اندوز ہونے کو ہی زندگی کا نصب العین سمجھتا ہے۔ گویا پہلے اگر دنیا وی معاملات
کے متعلق تفریظ تھی تو آج افراط کی اجارہ داری ہے۔
اسلامی نظام میں دین و دنیا کے درمیان حسن توازن قائم کیا گیا ہے اسلام دنیا سے مکمل بے رغبتی کا پرچار نہیں کرتا اور نہ ہی دنیاوی لذتوں میں غرق ہو کر اُخروی زندگی کو یکسر بھلا دینے کو قابل تحسین سمجھتا ہے اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مضمون نگار کے مطابق "قرآن مجید میں دنیا کا لفظ ایک سو پندرہ مرتبہ آیا ہے اور اکثر آخرت کے مقابلے پر آیا ہے قرآن کی روسے دنیا اور آخرت دونوں کا ئنات کی حقیقت میں شامل ہیں اور ایک مؤمن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ان دونوں کی فلاح و سعادت کے لیے کوشاں ہو خدا پرستی اور دین داری دنیوی معیشت اور ترقی کے خلاف نہیں اسی لیے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
"یعنی اے رب !ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما"(البقرۃ201)
کی دعا سکھائی گئی ہے جس میں دنیا و آخرت دونوں کی بہتری کے حصول کی التجاہ کی گئی ہے قرآن مجید میں حج کے احکام کے سلسلے میں حکم ہوا۔ اس میں تمھارے لیے کوئی گناہ نہیں کہ (اعمال حج کے ساتھ )تم اپنے پروردگار کے فضل کی تلاش میں بھی رہو البتہ ایسا نہ کرنا چاہیے کہ کاروبار دنیوی کے انہماک کی وجہ سے حج کے اوقات و اعمال سے بے پروا ہو جاؤ "(البقرۃ197۔)لیکن اسلام میں اس امر کی ممانعت ہے کہ صرف دنیا کو عین مقصود سمجھ لیا جا ئے اور آخرت کا انکار یا اس سے قطع نظر ہو جا ئے
قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے "کیا تم آخرت کے مقابلے میں حیات دنیوی کو پسند کرنے لگےہو۔(التوبہ 32)
ان ارشادات ربانی سے معلوم ہواکہ دین اسلام دنیا کا مخالف نہیں بلکہ اس دنیا پرستی کا مخالف ہے جو انسان کو خدا پرستی نیکی اور جزاو سزا کے عقیدے سے غافل کر دیتی ہے دوسری تیسری صدی ہجری میں زہد و تصوف کے کچھ مسالک ظہور میں آئے جن کے زیر اثر ترک دنیا اور ترک سعی کی تلقین ہوئی لیکن یہ انتہا پسند صوفیوں اور زاہدوں کا مسالک تھا جن معتدل صوفیا کی نظر روح شریعت پررہی ،انھوں نے بری دنیا داری سے بچنے کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ کسب معاش اور سعی وعمل کو ضروری قرادیا ہے جمہورا کابر علماء اور حکماء اسلام نے زندگی کو ایک معرکہ عمل قراردیا ہے اور اس سے فرار کا سبق نہیں سکھایا علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں دنیا کو آخرت کی تجربہ گا ہ قرار دے کر اس میں حسن زندگی کو انسان کا فطری تقاضا اور اس کا کمال ظاہر کیا ہے مفکر اسلام حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے دنیوی زندگی کو آخرت سے وابستہ کرنے کی حکمت یہ بتائی ہے۔ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍکہ اعمال انسانی کے لیے ایسا اخلاقی معیار ہو جا ئے جو مثالی ہو۔ ابن مسکویہ اور امام غزالی نے سعادت کو دنیوی زندگی کا نصب العین قراردیاہے۔اس دور میں مغرب کی مادیت (Materialism)اور دنیویت (Secularism )کےنظریات بھی ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئے ہیں ان سے مصنفوں کا ایک طبقہ متاثر بھی ہوا ۔چنانچہ ترکی شام مصر اور ہندوستان میں ایک مؤثر اقلیت دین اور دنیا (مذہب اور سیاست ) کو جدا جدا شعبے قرار دینے لگی لیکن روایت سے وابستہ دینی نقادوں اور مفکروں کی اکثریت اس پر قائم ہے کہ اسلام میں دین اور دنیا دونوں ایک کلی حقیقت کے طور پر یکجا ہیں اور دونوں ایک عظیم مقصد کے تحت لازمی ہیں ان نقادوں میں علامہ شبلی نعمانی علامہ اقبال ابو الکلام آزاد سید سلیمان ندوی مولانا سید ابو الا علی مودودی وغیرہ شامل ہیں علماء عرب میں مفتی محمد عبد ہ الاستاذ عبدالعزیز شاویش علامہ رشید رضا سید شہید قطب شہید وغیرہ نے اسی خیال کا اظہارکیا ہے۔(ماخوذازا اردو دائرہ معارف اسلامیہ : صفحہ 443تا446)
ہمارے نام نہاد دلبرل دانشوروں نے روسو، والٹیر،ہیوگو،جان لاک ،ہانبر،جان اسٹارٹ مل ،کارل مارکس، فریڈرک اینجلز،ماؤزئے تنگ ،لینن اور یورپی مستشرقین کو تو بہت پڑھ رکھا ہے مگر انھوں نے کبھی اسلام کے صحیح معنوں میں مفکرین اور مؤرخین کو نہیں پڑھا ۔ان میں سے شاید ہی کسی نے امام غزالی شاہ ولی اللہ ،حافظ ابن قیم ،امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام شاطبی، حافظابن حجر ،الماوردی ،ابن خلدون ،ابن الخطیب ،علامہ ابن حزم ،نظام الملک طوسی،شعیب ارسلان جیسے نابغہ ہائے عصر کو کبھی پڑھنے کی زحمت گوارا کی ہو،ان کااسلام کے متعلق مبلغ علم بس اتنا ہے جتنا کہ یورپی مستشرقین کی تحریروں میں وہ دیکھ لیتے ہیں وہ اسلام کو اسلام کے اصل ماخذوں کی بجائے یورپی متعصب مصنفین کی تحریروں کے ذریعے سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں کیونکہ عربی زبان سے وہ واقف نہیں ہیں اور اردو زبان سے واقف ہونے کے باوجود اسے "منہ نہیں لگانا "چاہتے کہ اس طرح ان کی دانشوری ترقی پسندی سے پھسل کر رجعت پسندی کے گڑھے میں گرسکتی ہے۔اگر کبھی قرآن و سنت کے بنیادی ماخذوں کے متعلق ان میں سے بعض کا میلان پیدا بھی ہوتا ہے تو وہ یہ مطالعہ اس نیت سے کرتے ہیں کہ انہیں ایسا موادمل جائے جس سے ان کی "روشن خیالی"اور "ترقی پسندی "کی تائید ہوتی ہو ۔وہ اسلام کی روشنی میں مغربی افکار کو جانچنے کا میلان نہیں رکھتے ان کی فکر تگ و دو ساری اس نکتے کے گرد گھومتی ہے کہ کس طرح اسلام کو مغربی افکار کا لبادہ اوڑھ کر دنیا کو اسے ماڈرن بنا کر دکھا یا جا ئے ۔علامہ یوسف القرضاوی اپنی مشہور کتاب "سیکولرازم اور اسلام "میں سیکولردانشوروں کی اسی نفسیات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
"لادینیت کے داعی حضرات اعلیٰ الاعلان اس صاف ستھرے اسلام پر تو اعتراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتے البتہ انھوں نے اپنا ایک الگ اسلام اختراع کر لیا ہے اور اسے وہ ہم پر زبردستی تھوپنا چاہتے ہیں ان کااسلام اس اسلام سے قطعی مختلف ہے جو اللہ کی کتاب قرآن پاک میں موجود ہے جو اسلام قرآن مجید میں محفوظ ہے یہی حقیقی اسلام ہے۔یہی حقیقی اسلام ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی اسلام کو لے کر معبوث ہوئے تھے اسی جانب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دعوت دی تھی ۔یہی وہ اسلام ہے جسےخلفاءراشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عملاً نافذ کیا اور جس کی تو ضیح و تشریح آئمہ محدثین اور مفسرین نے کی ہے لیکن اسلام سے لادینیت پسندوں کی مراد ایسا اسلام ہے جن پروہ ان غلطیوں کا بوجھ لاد سکیں جو تاریخ میں مسلمانوں سے سرزد ہوئی ہیں وہ اسلام کی وہی تصویر پیش کرتے ہیں جو انھوں نے نے خود بتائی ہے یا ان کے پیش رو مستشرقین اور مسیحی مشزیوں نے تیار کی ہے "(صفحہ 30)
جدید یورپ کے نامور شہر ہ آفاق فلسیفوں اور مؤرخین مثلاً ٹائن بی، جی، ایچ ویلز،ولڈیورانٹ اور پروفیسر ولفریڈکینٹ ،ول آسمتھ بھی اقرار کرتے ہیں کہ مغرب کی تہذیبی روایات کا سر چشمہ صہیونی مسیحی (Judeo Christian)اوریونان و روم کی میراث ہے شاید پاکستان کے لبرل ازم کے پجاریوں کو بھی اس حقیقت سے انکار نہ ہو۔ مگر ان کا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہے ۔وہ مسیحی یورپ کے تہذیبی اقدار ان کے لادینی مزاج ان کے کلیسا کے کردار ان کے ثقافتی ارتقاء کے اہم عوامل ان کی تہذیب میں مسیحی صہیونی اثرات وغیرہ جیسے عناصر اور ان کے مخصوص تاریخی پس منظر کا لحاظ کئے بغیر تہذیب مغرب کو پاکستانی معاشرے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ان کے قول و فعل میں تضاد اور ان کے معیارات دوہرے ہیں وہ پاکستان اور مگرب کا جب بھی موازنہ کریں گے۔پاکستان کو ایک وحشی تمدن کانمونہ ظاہر کرنے میں کوئی ابلاغی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ انہیں پاکستان اور جدید مغرب کے اداروں میں کسی قسم کی کو ئی قدر مشترک نظر نہیں آئے گی۔۔۔مگر اس کے باوجود پاکستانیوں کو گھسیٹ کر تہذیب مغرب کے گڑھے میں دھکیلنے کے لیے بے چین ہیں ۔یہی منافق لبرل دانشورہی ہیں جنہوں نے پاکستان میں پانچ اقلیتوں کا شر انگیز نظر یہ گھڑا ہوا ہے انہیں صوبہ پنجاب کے ہی دو علاقوں ملتان اور لاہور کی تہذیب و کلچر میں اس قدر معرکۃ الآراء فرق نظر آتا ہے کہ یہ سرائیکی صوبہ کے قیام کے نعرے لگاتے ہیں یہ بلوچستان سندھ سرحد اور پنجاب کا موازنہ اس طرح کرتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ چار مختلف ممالک کا تذکرہ کیا جارہا ہو۔اسی صوبائی تعصب کو ہوا دینا ہی ان کی سیاست کا ایک اہم اصول ہے۔ مگر وہ اس اصول پر قائم نہیں رہتے ۔جب یہ مغربی تہذیب اور سیکولرازم کو پاکستان میں نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں پاکستان اور سکینڈے نیو یا کی ننگ دھڑنگ اور یورپ کی ملحدانہ تہذیب اور روس جیسے خنک علاقے کے کلچر اور پاکستانی معاشرے میں بالکل کوئی فرق نظر نہیں آتا ہے ۔یہاں پاکستانی کلچر کے تشخص سے ہی یہ انکار کرتے ہیں اگر ان آزادی ضمیر کے ان تھک منادوں کا ضمیر اگر زندہ ہو تا تو شاید پاکستان اور یورپ کے درمیان ثقافتی فرق کا ادراک کوئی مشکل امر نہیں تھا اور شاید سیکولرازم کی بات کرتے ہوئے انہیں اپنے ضمیر کے طمانچوں کا سامناکرنا پڑتا ۔مگر یہ بات تو زندہ ضمیر لوگوں کی ہے!!
تحریک پاکستان کے نامور محقق و مورخ پروفیسر شریف المجاہد پاکستان کے مذہب بیزار سیکولرافراوکی اسلامی تعلیمات کے متعلق لاعلمی اور مذہب سے ان کی نفرت کے بارے میں بے حد افسردہ دلی کے انداز میں اپنے تحقیقی مقالہ"پاکستان میں نارواداری "میں تحریر فرماتے ہیں۔
"بدقسمتی سے آزاد خیال افراد اور حقوق انسانی کے مبلغ اسلام بلکہ سرے سے مذہب کے بارے میں ہی ایک مسخ شدہ تصور رکھتے ہیں اور اس کی وجہ اسلام سے ان کی ناواقفیت ہے اب سے پہلے جو تجدد پسند گزرے ہیں اگر یہ لو گ انہی کی طرح اسلام کے تاریخی ورثے اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہوتے تو انہیں اندازہ ہو تا کہ وہ اسلام کی اس تفسیر سے جو خمینی نے کی ہے بہت دور ہیں اس کی بجائے اسلام کا ایک انسانی پہلو ہے"
پروفیسر شریف المجاہد ان لبرل حضرات کو مشورہ دیتے ہیں :
"اسلام سے(اگر وہ اس کی مخالفت نہیں کرتے تو بھی) اجتناب برتنے اور اسے نظر اندازکرنے کی بجائے آزاد خیال عناصر اور انسانی حقوق کے مبلغین کے حق میں اچھا ہوگا اگر وہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی دو مضوعات "قرآن کے مفاہیم "اور اسلام اور تجدد"کامطالعہ کرلیں اور ان کی باتوں پر دھیان دیں ۔اس مطالعے سے انہیں معلوم ہوگا کہ وہ جن اقدار (انسان دوستی ،روادارمی )کے دعویدار ہیں اور جن کی تبلیغ کر رہے ہیں وہ عمومی انداز میں اسلامی تعلیمات کے اندر ہی موجود ہیں"وہ مزید لکھتے ہیں ۔
"یہ آزاد خیال لوگ اگر اسلام کو محض چند رسوم کا مجموعہ یا محض اوامرونواہی کی دستاویز سمجھتے ہیں اور خود کو اپنی تاویلات تک محدودرکھتے ہیں یا اسے رد کردیتے ہیں تو وہ ان اصولوں سے بھی بے انصافی کر رہے ہیں جنہیں وہ بے حد عزیز رکھتے ہیں اور اسلام سے بھی انصاف نہیں کرتے ۔پاکستانی معاشرے کی خصوصیات کے پیش نظر اور عام لوگوں کے مزاج کو سمجھتے ہوئے ان لوگوں کو چاہیے کہ اسلام سے شناسائی پیدا کریں اور اس کے فلسفے کو اور اس کے بنیادی اصولوں کو سمجھیں بشرطیکہ وہ معاشرے کی تعمیر میں کو ئی کردار ادا کرنا چاہتے ہوں ۔بیرونی اقدار کو ملک کے اندردرآمد کرنے یا انہیں اس طرح پیش کرنے سے گویا وہ مغرب کے تجربوں سے اخذ کی گئی ہیں مغرب کی تعلیم یافتہ اشرافیہ کے دلوں میں تو ہمدردی کے جذبات پیدا کیے جاسکتے ہیں لیکن نا خواندہ اور نیم خواندہ عوام کے لیے ایسی باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔حاصل کلام یہ ہے کہ پاکستان کے روشن خیال عناصراور حقوق انسانی کے علمبردار اسلامی ثقافت کو قبول کرنے میں آنا کافی نہ کریں ۔وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے ذہنی تحفظات اور تعصبات سے جان چھڑائیں "
پروفیسر شریف المجاہد صاحب نے مندرجہ بالاسطور میں پاکستانی کے نام نہاد روشن خیال اورلادین عناصر کو پاکستانی کلچر کے سانچے کو قبول کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بالکل یہی بات اپنے اس الہامی مصر عےمیں فرمائی تھی۔
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
[1] ۔سیکولر(Secular)1۔یہ لاطینی زبان کے لفظ SeculeerیاSecler کی بدلی ہوئی انگریزی شکل ہے۔اس کے کئی مطالب اور اشکال ہیں۔معروف ترین مطلب "The World"یعنی دنیاہے جو چرچ کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے اسم صفت کے طور پر اسکے سات درج ذیل مطالب ہیں:Of or Pertaining to the World. یعنی دنیا کے متعلق یادنیاوی اس کی مزید تشریح یوں کی گئی ہے:
Of members of clerg: Living in the world and not in monastic seclusion, as distinguished from regular and ‘religions’.
"سیکولر سے مراد کلیسا کے وہ ارکان ہیں جو راہبانہ خلوتوں کی بجائے عام لوگوں کے درمیان رہتے ہوں،اس اعتبار سے وہ ریگولر(باقاعدہ)اور مذہبی لوگوں سے متمیز ہیں"
اسی طرح اس کے دیگر استعمالات کچھ یوں تھے مثلاً:سیکولر قانون"وغیرہ ایک ایساشخص جوراہب کے فرائض تو انجام نہیں دیتا تھا مگر ریونیو کا کچھ حساب رکھتا تھا،اسے"Secular Aboor" کہا جاتاتھا۔پادریوں کے ایک خاص طبقے کو بھی سیکولر پادری کہاجاتا تھا ،انہیں Gospel(صحیفہ) کی تعلیم کی اجازت نہیں تھی۔1782ء میں ایڈنڈ برگ کہتا ہے:
The Secular clegy are Univesally fallen into such Contempt etc.
"سیکولرکلر جی کو عالمی سطح پر نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے"
سیکولر پادری کلیساؤں میں رہائش نہیں رکھتے تھے،گویا وہ ریڈیڈنٹ کلرجی(رہائشی پادری) سے مختلف تھے۔
2۔اسم صفت کے لحاظ سے سیکولر کادوسرامطلب ہے:
“ Belonging to the World and its affairs as distinguished from the church and religion, Civil lay termpral, Chiesfly used as a negative term with the meaning non,eccliesiastical, non.religions or non.sacred.”
"دنیا اور اُمور دنیا سے متعلق ،چرچ اور مذہب کے اُمور سے مختلف،یعنی شہری ،عام اور اس مادی دنیا سےمتعلق(اُمور) یعنی غیرروحانی ،غیرمذہبی،اورغیر مقدس"
سیکولر مسلح گروہ(Secular Arm) ایسے افراد پر مشتمل ہوتا تھا،جسے پرانے زمانے میں چرچ مجرموں کو سزائیں دینے کے لئے استعمال کرتاتھا:چرچ کے ارکان(Clergy) کوکوئی سیکولر عہدہ لینے کی اجازت نہ تھی۔1673ءکے ایک مضمون کی یہ سطر ملاحظہ ہو:
“I inend not here to speak of religion at all as adivine,bur as amere secular man.”
یعنی"میں مذہب کے بارے میں ایک خدارسیدہ شخص کے طور پر نہیں بلکہ ایک سیکولر(عام) آدمی کی حیثیت سے بات کرنا چاہتا ہوں"۔۔۔اس میں سیکولرسے مراد ایک عام آدمی لیا گیا ہے۔
جے ایچ نیو مین(1873ء)لکھتا ہے:Bishops were now great seular magistrates” یعنی"بشپ اب بہت بڑے سیکولر مجسٹریٹ بھی بن گئے۔"۔۔۔Tennyson(1875ء) کوئین میری پر نظم میں کہتا ہے:
“A Secular kingdom is but as the body laching a sout.”
یعنی"ایک سیکولر سلطنت کی مثال ایسے ہے جیسے ایک جسم روح کے بغیر"
2۔ایک ایسا ادب،تاریخ،آرٹ(موسیقی) یا مصنفین اور فنکار جو مذہب سے نہ ہی متعلق ہوں نہ ہی جن کا مقصد مذہب کی خدمت بجالانا ہو،ان تمام کو سیکولر کانام دیاجاتا ہے:
3۔سیکولر تعلیم کے بارے میں آکسفورڈ ڈکشنری کے الفاظ ہیں:
“OF education instruction, Relating to non.religions ,subjects .In recent use often in playing the exclusion of religions teaching from education.”
"ایک تعلیم سیکولر سے مراد ایسی تعلیم ہے جوغیر مذہبی مضامین پر مشتمل ہے ۔حالیہ استعمال میں اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ تعلیم سے مذہبی تعلیمات کو یکسر نکال دیاجائے"
3۔سیکولر کا بطور اسم صفت تیسرا مطلب یہ ہے:
“Of or belonging to the present of visible world as distinguished from the eternal or spiritual world: temporal,worldly.”
"اس دنیا کی یا اس دنیا کے بارے میں یاظاہری آنکھ سے دیکھی جانے والی دنیا جوابدی یاروحانی دنیاسے مختلف ہے:مادی ،یا دنیاوی" سیکولر ایک مطلب یہ بھی ہے:
“Caring for the present world only: un spiritual.”
یعنی"صرف اس مادی دنیا کاہی خیال رکھنا غیر روحانی"
4۔آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق سیکولر کا ایک استعمال یوں بھی کیاجاتا ہے:
“Pertaining to or accepting the doctraine of secularsm.secularistic.”
یعنی"سیکولر ازم کے متعلق یاسیکولر ازم کانظریہ قبول کرنا،سیکولر پسندانہ"
1852ء کےلگ بھگ انگلینڈ میں سیکولر خیالات کی ترویج کے لئے مختلف شہروں میں تنظیمیں بھی قائم کی گئی جنھیں "سیکولر سوسائٹی" کانام دیاگیا۔
5۔بعض ایسے واقعات یاکھیلوں کے انعقاد کے لیے بھی سیکولر کالفظ استعمال کیاگیا جوکسی خاص زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً سیکولر گیم۔۔۔قدیم روم میں 120 سال کے بعد تین دن اورتین راتوں تک جاری رہنے والے کھیلوں کوسیکولرگیم کا نام دیا گیا۔
اسم صفات کے اعتبار سے آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکولر کے چند ایک اور بھی مطالب درج کئے گئے ہیں ،جنھیں طوالت کے خوف سے نظرانداز کیاجاتاہے۔مندرجہ بالا مطالب سیکولر کامفہوم سمجھنے میں خاصی حد تک معاونت کرتے ہیں۔
اس فاعل کے اعتبار سے سیکولر کے تین معانی بیان کئے گئے ہیں:
a.”On of the,secular clergy ,as distinguished from a’regular’ or monk.”
وہ جو سیکولر کلر جی کارکن ہو،یا جو ایک"باقاعدہ رکن یا راہب سے مختلف ہو"
" b.”A jusuit Lay brother.” اس سے مراد ایک عام جسیوت برادر ہے"
c.” One who is engaged in the affairs of the worlds disticit from the church,a layman.”
جو دنیاوی اُمور سے وابستہ ہو،چرچ سے نہیں،یعنی ایک عام"شخص"