بیجنگ پلس +فائیو5 کانفرنس

"تیری بربادیوں کے مشورے ہیں UNO کے ایوانوں میں"


گذشتہ ماہ (5تا9جون) نیویارک میں اقوام متحدہ کے نمائندوں  کے ذریعےیہودیوں کا ایک  خوفناک شیطانی منصوبہ پیش کیا گیا جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے ہم خیال شیطانی دماغ مل کر بیٹھے اور"خواتین 2000ءواکیسویں صدی  میں صنفی مساوات امن اور ترقی "کے نام پر چند فیصلے کئے گئے جن کو یواین او کے پلیٹ فارم کے ذریعے ممبر ممالک میں نافذ کیا جاتا تھا ۔یہ خواتین کے سلسلے میں پانچویں عالمی کانفرنس تھی اس سے قبل حقوق نسواں کے نام پر خواتین کی چارعالمی کانفرنس منعقد ہوچکی ہیں۔
پہلی بین الاقوامی کانفرنس:                            1975 ءمیں میکسکیو میں
دوسری بین الاقوامی کانفرنس:                       1980  ء میں کو پن ہیگن میں  
تیسری بین الاقوامی کانفرنس:                        1985ءمیں نیروبی میں
چوتھی بین الاقوامی کانفرنس:                         1995ءمیں بیجنگ میں
بیجنگ کا نفرنس میں خواتین کی ترقی اور صنفی مساوات کے نام پر ایک بارہ نکاتی ایجنڈا طے کیا گیا تھا وہ نکات درج ذیل ہیں ۔
1۔غربت 2۔تعلیم 3۔حفظان صحت4۔عورتوں پر تشدد 5۔مسلح تصادم 6۔معاشی عدم مساوات7۔مختلف اداروں میں مرد و عورت کی نمائندگی میں تناسب 33فیصد تک 8۔عورت کے انسانی حقوق 9۔مواصلاتی نظام خصوصاً ذرائع ابلاغ 10۔موحول اور قدرتی وسائل 11۔چھوٹی بچی 12۔اختیارات اور فیصلہ سازی۔
خواتین کی پانچویں عالمی کانفرنس: (جون 2000ءنیورک )
بیجنگ میں طے کردہ بارہ نکاتی ایجنڈا رکن ممالک کو عمل درآمد کے لیے دے دیا گیا تھا ۔چنانچہ اسی ایجنڈےپرکہاں تک عمل ہوسکا اس کا جائزہ لینے کے لیے بیجنگ کانفرنس کے پانچ سال بعد 5جون سے 9جون تک نیویارک میں کانفرنس منعقد ہوئی۔ اسی لئے اس کانام بیجنگ +5قرار دیا گیا کہ یہ بیجنگ کانفرنس کے پانچ سال بعد ہورہی تھی اس کانفرنس کا صل عنوان تھا۔"
"2000ءکی خواتین اور اکیسویں صدی میں صنفی مساوات امن اور ترقی "
Women 2000,Gender,Equality,Devlopment and Peace in the21st century.”
اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے ممبر ممالک جہاں سر کاری طور پر شامل ہوئے وہیں این جی اوز کے کثیر تعدادمیں وفود بھی شامل ہوئے ۔اگرچہ بیجنگ کانفرنس کے شرکاء اور مندوبین کی تعداد اس کانفرنس کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی مگر یہ کانفرنس اس لحاظ سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی کہ اس میں بیجنگ کانفرنس کے دوران طے کئے گئے۔ این جی اوز کے بارہ نکاتی ایجنڈوں کی توثیق اقوام متحدہ کی طرف سے ہوکر اسے تمام ممبر ممالک پر حکماً نافذ کرنے کا پروگرام تھا اور اس کی خلاف ورزی پر اقوام عالم"مجرم ملک"کے خلاف ایکشن لینے کی مجاز قراردی گئی تھیں یعنی نہ عمل کرنے والے ملک پر عراق و کیوباجیسی اقتصادی پابندیاں اور طاقت کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
کانفرنس کے لئے تیاریاں:۔
بیجنگ  پلس فائیو کانفرنس نیوریاک کی تیاریاں تو بیجنگ کانفرنس کے فوراً بعد ہی سے شروع ہوگئیں تھیں مگر 1999ءاور 2000ءمیں یہ تیاریاں پورے عروج کوپہنچ گئی تھیں اس کے لیے دنیا کے مختلف علاقوں میں وقتاً فوقتاً علاقائی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہیں۔ ان میں پہلی "تیاری کانفرنس "(Prep.com)تو15مارچ سے 19مارچ1999ء تک نیویارک ہی میں منعقد ہوئی ۔پھر نیوریارک میں ایک اور کانفرنس 27فروری سے 17مارچ تک دوبارہ منعقد ہوئی ۔اس کے علاوہ کھٹمنڈو ،بنکاک ودیگر مقامات پر بھی علاقائی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہی تھیں ۔(اصل کام ان کانفرنسوں میں انجام دیا جاچکا تھا)
اس کانفرنس کا خصوصی  ایجنڈا یہ تھا کہ خاتون خانہ کی گھر یلو ذمہ داریوں پر اور پھر اس کی تولیدی خدمات پر اس کو باقاعدہ معاوضہ دیا جائے ۔"ازدواجی عصمت دری(یعنی شوہر کا اپنی بیوی کی مرضی کے برعکس اس سے جنسی وظیفہ ادا کرنے) پر قانون سازی کرنا اور فیملی کورٹس کے ذریعے مرد کو سزا دلواناطوائف کو جنسی کارکن قرار دینا ممبر ممالک میں جنسی تعلیم اور کنڈوم کے استعمال پر زور دینا اسقاط حمل کو عورت کا حق قرار دینا ہم جنس پرستی کافروغ وغیرہ چنانچہ انہیں تجویز وں کو رسمی طور پر پانچ دس منٹ کی نمائشی تقریروں کے بعد منظور کرلینے کا پروگرام تھا ۔
اسلامی دنیا میں اس کی تیاری :۔
عالم اسلام کے حکمرانوں کو اس غیر اسلامی اور غیر اسلامی شرعی ایجنڈے پر دستخط کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوتی مگر عوام کے دباؤ نے بہت سی حکومتوں کو مزاحمت پر مجبور کر دیا قاہرہ کانفرنس کے بعد مصر میں نئے عائلی قوانین نافذ ہوئے مگر نہ مصر میں اور نہ اسلامی دنیا میں کو ئی احتجاج ہوا۔
مراکش میں بھی اس ایجنڈے کے مطابق قوانین نافذ کئے گئےتو وہاں دس لاکھ خواتین نے مظاہرہ کیا مگر اس کی شنوائی نہ ہوسکی۔
کانفرنس کے درپردہ مضمرات :۔
1۔امریکہ اپنے نوورلڈ آرڈر کے استحکام کے لیے عالم اسلام کا استیصال کرنا چاہتا ہے۔
2۔اپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے دنیا کے ہر علاقہ میں مرد و زن کے امتیاز کے بغیر سستی لیبراور سستی افرادی قوت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔لہٰذا مذہبی اثرات کو زائل کر کے ہر مرد وعورت کو ورکر کی سطح پر لانا چاہتا ہے۔
پاکستان میں اس کانفرنس کی تیاری :۔
چھ سال قبل قاہرہ میں 1994ء میں منعقد ہونے والی بہبود آبادی کانفرنس کے نتیجے میں پاکستان میں بہت سی این جی اوز (غیرسرکاری تنظیمیں )وجود میں آئیں ۔بیجنگ کانفرنس کے بعد ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ملک میں فیملی پلاننگ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ۔جگہ جگہ بہبود آبادی سنٹر کھل گئے ستارہ اور چابی والی گولیاں (مانع حمل ادویات) ملک میں عام ہوئیں ۔ایڈز سے بچانے کے بہانے ملک میں ہم جنس پرستی کے بارے میں وسیع پراپیگنڈا کیا گیا ۔وطن عزیز میں بے حیائی و فحاشی کو بہت فروغ حاصل ہوا ۔پرنٹ اور الیکٹرانک ذرائع ابلاغ ٹی وی ڈش کیبل ،انٹرنیٹ ،فحش لٹریچر ،ماڈلنگ وڈیو گیمز وغیرہ کے ذریعے فحاشی کے مظاہربہت زیادہ بڑھ گئے۔
اغوا عصمت دری پھر گینگ ریپ اور گھروں سے دوشیزاؤں کے فرار کے واقعات میں معتدبہ اضافہ ہوا۔اسی پس منظر میں"صائمہ ارشد لومیرج کیس " بھی منظر عام پر آیا جس نے مغربی یلغارکو وطن عزیز میں مزید فروغ دیا۔ خواتین کے بینک اور خواتین پولیس سٹیشن قائم ہوئے۔
1994ءمیں حکومت پاکستان نے خواتین کی اصلاح و ترقی کے نام پر ایک "خواتین تحقیقاتی  کمیشن "ترتیب دیا تھا اس کے ممبران میں زیادہ تراین جی اوز کے نمائندے شامل تھے خصوصاً عاصمہ جہانگیر (جویواین او کی باقاعدہ تنخواہ دارایجنٹ ہے اور جس کا مشن ہی پاکستان میں مغربی اباحیت کو فروغ دینا ہے) جیسے لوگ یہ رپورٹ تیار کر رہے تھے۔1997ءمیں انھوں نے رپورٹ پیش کی تھی ۔اس میں پاکستانی خواتین کے لیے بیجنگ کانفرنس والا ایجنڈاہی پیش کردیا ۔ اس کے بعد ان خواتین نےغیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے خلاف اس زور سے دہائی دی کہ موجود ہ حکومت نے 20/1پریل 2000ء کو ہونے والی انسانی حقوق کانفرنس میں ایسے قتل کوقتل عمدہ ٹھہرا کر اس کی سزا موت قراردے دی ۔ پھر پاکستان کی فوجی حکومت این جی اوکابینہ نے بلدیاتی انتخابات میں عورتوں کی پچاس فیصد نشستیں دینے کا اعلان کر کے اسی ایجنڈے پر عملدرآمد کیا۔ حیرت ہے کہ ان اقدامات پر پاکستان میں بہت کم رد عمل دیکھنے میں آیا ۔بلکہ یہاں سے این جی اوز نے بیجنگ ڈرافٹ پر پیش رفت کے سلسلے میں باقاعدہ اپنی رپورٹ درج کروائی کہ یہاں بے نظیر بھٹوصاحبہ کے دور میں اس ایجنڈے پر تیز رفتاری سے عمل جاری رہا اور رکاوٹوں کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ،مگر نواز شریف کے دور میں ساری پیش رفت جامد ہوکر رہ گئی۔
سرکاری سطح پر کانفرنس کے لیے جوپاکستانی وفد نیویارک گیا ۔اس میں سماجی بہبود اور خواتین کی وزیر شاہین عتیق الرحمٰن ،ڈاکٹر یاسمین راشد ،زریں خالد ،ثمینہ پیرزادہ اور ڈاکٹر رخسانہ شامل تھیں ۔جبکہ وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال اس کی سر براہ تھیں ان کے ساتھ کئی دانشور خواتین بطور مبصر بھی گئی تھیں کئی این جی اوز بھی عاصمہ جہانگیر کے ہمراہ وہاں موجود تھیں ۔
علماء کرام اور بہی خواہوں کا مسلمانوں اور خصوصاً مسلم حکمرانوں کو انتباہ :۔
1۔مسلم ورلڈ جیورسٹس ایسوسی ایشن کے صدر جناب اسماعیل قریشی نے لاہور ہائی کورٹ میں اس کانفرنس کے غیر شرعی اور غیر اسلامی نکات کے خلاف رٹ دائر کی۔ نیز انھوں نے زبیدہ جلال وفاقی وزیر تعلیم کی سر براہی میں اپنا وفد بھیجنے کی بھی مخالفت کی۔ جبکہ دوسری دینی جماعتیں بھی موصوفہ کی مغرب نوازی کی بنا پر شدید تنقید کر رہی تھیں ۔آخر حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کو یقین دلایا کہ ہمارا وفداسلام کے خلاف نکات کی اس کانفرنس میں مخالفت کرے گا اور قرآن وسنت سے متصادم کسی شق کو قبول نہیں کرے گا ۔
2۔اسی طرح رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ بن صالح العبید نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام بالعموم اور رائے عامہ کے نمائندوں کے نام بالخصوص ایک خط لکھا جس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 54ویں اجلاس کی جانب توجہ دلائی جو 5تا9 جون نیویارک میں ہورہا ہے "خواتین کے بارے میں اس کا 23واں سیشن ہوگا ۔جس کے لیے "اکیسویں صدی میں خواتین کے لیے مساوات ترقی اور امن کا عنوان"اختیار کیا گیا ہے انھوں نے کہا کہ ان سب خواتین کانفرنسوں کا مقصد خاندان کے ادارے کو ختم کرنا اور خواتین بلکہ نو جوان نسل میں اخلاقی بے راہ روی اور والدین سے بغاوت پیدا کرنا ہے۔اللہ نے مسلمانوں کو نیک کاموں میں تعاون کرنے اور برے کاموں سے الگ رہنے کا حکم دیا ہے لہٰذا نئے عالمی نظام کے اقوام متحدہ کی چھتری تلے منظم حملے کے خلاف سوچنا اور تدبیر کرنا تمام مسلم اُمہ کی ذمہ داری ہے۔یہ حملہ صرف مسلم اقدارکے خاتمے کے خلاف سازش نہیں بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے پردے میں تمام انسانی رشتوں بلکہ خود انسان کی پہچان کو تبدیل کر دینے کے مترادف ہے۔
3۔سابق صوبائی وزیر اطلاعات پیر بنیامین رضوی نے امریکہ میں ہو نے والی اس کانفرنس کو اسلام کے خلاف شرمناک سازش قراردیا ۔جس میں ہم جنس پرستی کو جائز اسقاط حمل کو فروغ اور طوائفوں کو جنسی کارکن قراردیا جارہا ہے انھوں نے مطالبہ کیا کہ این جی اوز کی نمائندہ وفاقی وزیر زبیدہ جلال کو حکومت فوراً واپس بلائے نیز اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کرے بلکہ انھوں نے اسلامی ممالک کے تمام سربراہوں سے بھی اپیل کی کہ وہ فوری طور پر اپنے نمائندے اس کانفرنس سے واپس بلا کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں اسی طرح پاکستان کی تمام دینی جماعتوں نے بھی فرد اًفرداً اس کانفرنس کواپنے مذہب عقیدے ایمان اور اقدارکی تباہی کے یہودی منصوبے کے خلاف ڈٹ جانے کی تلقین کی۔
شدید تنقید کی وجہ:۔
یہ ساری تنقید اس بنا پر تھی کہ یوایناو کے نمائندوں نے اہم نوٹس جاری کیا تھا :" یہ کانفرنس پہلی تمام پیش رفت کا جائزہ لے گی۔ پھر بیجنگ پلیٹ فارم ایکشن کے 12نہایت اہم نکات کا جائزہ لے کر انھوں نے افسوس ظاہر کیا کہ "افسوس لوگوں پر ابھی تک روایتی جنسی شناخت طاری ہے اور عورت کے خلاف جنس کی بنا پر امتیازی سلوک مردوزن کی مساوات قائم کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پھر حکومتوں نے بھی ایسے اقدامات  پرتوجہ دی  نہ ہی انھوں نے اس امر پر زور دیا جس عورتوں کے تولید ی حقوق اور جنسی صحت کے متعلق حقوق پر عملدرآمد ممکن ہوسکے ۔اس لیے اب یو این او بین الاقوامی تنظیموں مہذب معاشروں سیاسی جماعتوں ذرائع ابلاغ نجی شعبہ سب کی یکساں ذمہ داری قرار دیتی ہے کہ وہ ایسی عوامی بحث کا آغاز کریں اور باقاعدہ مہم چلائیں جس سے متعلقہ امور پر کھلے عام بات چیت ہو عمومی رویے زیر بحث آئیں نئے تصورات جنم لیں اور جائزہ لیا جا ئے کہ مرد عورت کی مساوات پرکس حد تک عمل ہوسکتا ہے ۔پھر شعبہ تعلیم میں کام کرنے والوں کو رسمی وغیرہ رسمی ذرائع اختیار کر کے یہ بیداری پیدا کرنے کی کو شش کرنی چاہیے اسی طرح بین الاقوامی تنظیموں آئی ایم ایف ورلڈ ٹریڈ آرگنا ئز یشن گروپ آف سیون G7اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو جنس کی مساوات کو فیصلہ سازی کااہم حصہ بنانا چاہیے ۔
تجزیہ:۔
خواتین کے اختیار واقتدار میں اضافہ ہرفورم پر ان کی پچاس فیصد نمائندگی اسقاط حمل کاحق تولیدی خدمات اور گھریلو خدمات پر معاوضہ طلب کرنا ہم جنس پرستی کو قانونی جواز مہیا کرنا شوہر کے ہاتھوں ازدواجی عصمت دری اور مساوات مردوزن کانعرہ کیا یہ سب بیسویں صدی کے پر فریب نعرے نہیں ہیں عورت آخر کون سا اقتدار مانگ رہی ہے کیاماں کی حیثیت سے وہ معاشرے کا قوی ترین کردار نہیں ہے؟کیا بیوی کی حیثیت سے وہ اپنے خاوند کی مشیر اور شریک سفر نہیں ہے؟ وہ تو گھر کی ملکہ ہے بہن اور بیٹی کی محنت تو بڑے بڑے سنگدلوں کو پگھلا کر موم کر دیا کرتی ہے کون کہہ سکتا ہے کہ مسلمان خاتون طاقتورنہیں ہےیامرد برتر ہے اور عورت کم تر ۔یہ سارے مسائل مغربی معاشروں کے تو ہوسکتے ہیں مگر دین اسلام تو بذات خود محسن انسانیت ہےوہ تو 14سو برس قبل عورت کو بن مانگے اتنے بڑے حقوق عطا کر چکا ہے جس کے لیے مغربی عورت ابھی تک کشکول گدائی لیے ماری ماری پھر رہی ہے۔مظاہروں ہڑتالوں جلوسوں سیمیناروں اور کانفرنسوں کے ذریعے اپنے جائز حقوق مانگتے مانگتے بے راہ روی کی راہ پر نکل کھڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں کی خواتین کی حق تلفیوں اور انہیں ان کے حقوق سے بہرہ ور کرنے کی جو باتیں بہت دلسوزی سے کی جارہی ہیں یہ دراصل اسلام کے خاندانی نطام اور اخلاقی اقدار کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر کفر کے نظام کو ان پر مسلط کرنے کی سازش ہے اور یہ باتیں کرنے والے بھی اہل مغرب کے ایجنٹ ہیں دراصل کانفرنس کے محرکین کو عورت سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اگر فی الواقع ایسا ہوتا تو کشمیر فلسطین چیچنیا ،بوسنیا کوسودا اراکان اور دیگر خطوں میں جبری عصمت دری کاشکار ہونے والی  عورتوں کا مسئلہ بھی ایجنڈے پر موجود ہوتا ۔ اس طرح خواتین کے کئی اور بھی اہم مسائل تھے جو ان کی نظروں سے اوجھل رہے ان کی توجہ تو صرف خرافات پر مبذول رہی جس سے خود خواتین بھی پریشان ہوں اور معاشرہ بھی تباہی سے دوچار ہو۔ مغرب کی عورت تو ان پریشانیوں سے تنگ آکر اسلام کے سائے میں پناہ ڈھونڈھ رہی ہے مگر مشرقی عورت کو اسی تباہی کی راہ پر ڈالا جارہا ہے۔
خواتین کی تمام اداروں میں پچاس فیصد نمائندگی :بھی اسی طرح ایک ناقابل عمل تجویز ہے مثلاًاس حکم کے تحت جنرل پرویز مشرف صاحب نے بلدیاتی کونسل میں خواتین کی پچاس فیصد نمائندگی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کی عدم شرکت کی صورت میں یونین کونسل میں ان کی چاروں نشتیں خالی رکھی جائیں گی۔ دوسرے الفاظ میں یونین کونسل میں آٹھ افراد کی بجائے صرف چار (مرد) افراد سے کام چلایا جائے گا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ چند بڑے شہروں کو چھوڑکر قصبوں اور دیہات میں عورت کسی دفتر بینک ڈاک خانے ریلوے آفس وغیرہ میں نظر نہیں آتی ۔پھر یونین کونسل کے ممبر کی ذمہ داریاں اس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ عموماً عورت ان سے بخوبی عہد ہ برآ نہیں ہوسکتی ۔اس سے ترقی کی رفتار بھی سست ہوگی ۔مگر ساتھ مخلوط معاشرت سے بہت سی نئی الجھنیں  پیدا ہوں گی۔مسلم ممالک کو تو چھوڑ ئیے خود مغربی ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ امریکہ کے پورے دور میں اب آکر ایک خاتون میڈلن البرائٹ وزیر بن سکی ہے۔ اب تک کوئی خاتون امریکی صدر نہیں بن سکی۔امریکہ کے ایوان نمائندگان میں بھی عورتوں کا تناسب صرف 2فیصد ہے اور جرمن پارلیمنٹ میں صرف 7فیصد برطانیہ میں یہ تناسب صرف 3فیصد ہے اس طرح انتہائی ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ معاشروں میں مجموعی طور پر عورت کی شرکت کا تناسب صرف 12فیصد ہے۔تویہ پچاس فیصد کی سطح پر کیسے لایا جا سکتا ہے۔ایشیائی ممالک میں تو خواتین وزراء اعظم کی کثرت ہوگئی ہے مگر مغربی ممالک میں تو نقشہ اس سے بہت بدلا ہوا ہے۔
جب حقائق کی دنیا اس فریب کا پردہ چاک کر رہی ہے تو پھر زبردستی یو این او کے اس کفر پر مبنی یہودی نظام کو مسلم ممالک پر مسلط کرنا بہت بڑی گمراہی نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔؟
 خاتون خانہ کے گھر یلو کاموں اور تولیدی خدمات پر محنت کا معاوضہ :
یہ مطالبہ بھی انتہائی شرمناک ہے عورت تو اپنے گھر کی ملکہ ہے۔ مرد مشکل ترین کام کرتا ہے یعنی باہر کے گرم سرد موسم کی تلخیاں اور صعوبتیں برداشت کر کے کما کر اپنی محنت مزدوری عورت کے ہاتھ پر لاکر رکھ دیتا ہے کہ وہ اس کو اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرے اور گھر کا سارا نظم و نسق چلائے ۔کیا مرد اس کواپنا مزدور سمجھ کروہ رقم اس کے حوالے کرتاہے؟عورت اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے ان کو جنم دیتی ہے تو اس کی اپنی نفسیات تسکین پاتی ہے۔ کوئی عورت بچوں کے بغیر اپنے آپ کو غیر مکمل اور ادھوری سمجھتی ہے۔ اس کی مامتاکا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہو۔ اس طرح اس کی ذات کی تکمیل ہوسکے۔پھر اس کے بچے کو کوئی اور کیوں پالے وہ اس کا لخت جگر ہے اس کا گوشت پوست ہے بچے کی خوشی اس کی اپنی خوشی ہے۔بچے کی بیماری سے خود عورت پژ مردہ اور مضحل ہوجاتی ہے ۔آخر وہ اپنے بچے کو جنم دینے اور پرورش کرنے میں اور اس کی تعلیم و تربیت کرنے میں جو فرحت اور سچی خوشی محسوس کرتی ہے دنیا کی کون سی چیز اس کا نعم البدل بن سکتی ہے؟ کیا انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردارحقیقی والدہ کو نوکر بنا رکھ دینا چاہتے ہیں جذباتی مطالبے کرناتحریریں اور مضمون لکھ دینا تو اور چیز ہے مگر زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں خصوصاً پاکستانی عورت تو اپنے معاشرے میں بہت زیادہ غالب اور ہمہ مقتدرہے کہ مرد اپنی ساری کمائی لاکر اس کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے اور پھر اپنی چھوٹی موٹی ضرورت کے لیے بھی عورت سے وقتاً فوقتاً مانگتا رہتا ہے۔
اب خود سوچ لیں کہ مسلمان خاتون کے لیے ماں بننے کا اعزاز پھر تربیت اطفال کی ذمہ داری دنیا میں سکون و طمانیت کا باعث ہے اور عاقبت میں عظیم اجرو ثواب کا باعث کیا اس کی جگہ دفتروں میں ملازمت کر کے یا مرد سے اس خدمت کا معاوضہ طلب کر کے چند ٹکے حاصل کرلینا باعث فخر واعزاز ہے۔۔۔یا اس کی مامتا کے منہ پر زبردست طمانچہ ۔۔۔؟
جہاں تک سیکس فری معاشرہ :قائم کرنے کی بات ہے تو کیا وہ مرد یا عورت ہونے کا شعور ہی ختم کردینا چاہتے ہیں ؟ یہ شعور یاجبلت تو حیوانوں میں بھی موجود ہے ۔نر جانور مادہ جانورکو خوب جانتا پہچانتا ہے مادہ جانور اپنی خلقی و جبلی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی ہے اور اگر اس سے مراد ہے کہ عورت ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کرتا ہے اس لیے ان میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے توپھر بھی یہ ایک مہمل اصطلاح ہے کیا واقعی عورت مرد کی محتاج نہیں ہے؟کیا واقعی عورت ہر وہ کام کرسکتی ہے جومرد کرتا ہے؟اور کیا واقعی مرد بھی وہ کام کرسکتا ہے جو عورت کی ذمہ داری قدرت نے بنادی ہے؟یاپھر اس سے مراد خواتین ہم جنس پرست مرد ہم جنس پرست اور شادی کے بغیر ساتھ رہنے والے جوڑے ہیں جو جنس کی ہر ذمہ داری سے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔۔۔؟؟
کم از کم ہمیں تو اس اصطلاح کا مفہوم سمجھ میں نہیں آسکا یااس سے مراد مخنث افراد کا معاشرہ پیدا کرنا مقصود ہے جو صرف ناچ گانا اور اچھل کود ہی جانتا ہو۔ نہ وہ مردوں کی سی ذمہ داریاں ادا کر سکے۔نہ عورتوں کے فرائض انجام دے سکے اور اس طرح تمدن کو زبردست تباہی سے دوچارکرنا چاہتے ہیں غالباًاسی لیے زنا کی آزادی اور اسقاط حمل کی آزادی طلب کی جارہی ہے اور ہم جنس پرستی کوفروغ دیا جارہاہے۔ دوسری طرف بے نکاح خاندانوں کی سر پرستی کی جارہی ہے۔
دستاویز کا ایک اہم نکتہ "شوہروں کے ہاتھوں بیویوں کی عصمت دری ہے:جسے (Marital Rape)کہا گیا ہے ۔پھر شوہر کے ہاتھوں بیوی ،جنسی زیادتی سے نبٹنے کے لیے فیملی کورٹس کے ذریعے مناسب قانون سازی کر کے مردوں کو سزا دلوانے کی سفارش کی گئی ہے۔ یادرہے کہ عورت کے لیے مغرب میں جنسی ورکر کی اصطلاح موجود ہےپھر انھوں نے قانون وراثت میں بھی مردوں اور عورتوں کو برابر حصہ دے کر اسلامی قوانین کومنسوخ کرنے کا حکم دیا ہے ۔دستاویز میں واضح طور پر ہدایت دی گئی۔کہ قانون سازی اور اصلاحات کے ذریعے جائیداد اور وراثت میں مردوزن کے مساوی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کئے جائیں۔
کیا عورت مجرو عورت ہے جسے مرد کے بالمقابل کھڑاکیاجارہا ہے اور اس کے دل میں مرد کے خلاف زبردستی نفرت ٹھونسی جارہی ہے۔حالانکہ مرد اس کا باپ ہے بھائی ہے شوہر ہے اور بیٹا ہے کیا وہ اپنے ان عزیز ترین رشتوں سے دست بروارہونے کو تیار ہے۔ کیا وہ خود ہی باپ بھائی بیٹے کے کردارادا کر لے گی؟ اس کی نفسیات اور اس کا جسمانی نظام تو پکارکر کہہ رہے ہیں کہ ایسا ہونا ناممکن ہے تو پھر یہ ساری اچھل کود کیوں۔۔۔؟
مغرب نے تو اس بے روک ٹوک جنسی آزادی کے کچھ نتائج تو دیکھ ہی لیے ہیں گھر برباد ہوگئے بوڑھے ماں باپ اولڈہاؤسز  کی زینت بنے بچے Day Care Centres پلنے لگے۔بحرمحبت ساحلوں پر ٹھاٹھیں مارنے لگا ہوٹل اور پارک آباد ہوئے ہسپتالوں نے ولادت اور موت کا فریضہ سنبھال لیا۔یہ تو صرف آزادی نسواں کا کچھ اعجاز ہے۔ اب عورت کو پچاس فیصد نمائندگی دے کراور اسقاط حمل وہم جنس پرستی کا مزید بنیادی حق دے کر اسے طاقتوربنانا مقصود ہے تو پھر یہ ڈرامہ کیا سین دکھائے گا۔بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ  تو "نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد"۔۔۔اب عورتیں مرد کو درمیان سے نکال کر چند سکے تو کمالیں گی۔مگر یہ سکے اس کی عزت آبرو ناموس تمدن ثقافت عفت و عصمت اور شرم و حیا جیسی اعلیٰ اقدار کا گلا گھونٹ دیں گے اور عالم انسانی توسیع ترین جنگل کی حیثیت اختیارکر جائے گا۔
حضرت لوط علیہ السلام   کے دور میں اہل سدوم کے غیر فطری رویہ کا کتنا عبرتناک انجام قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے، کیا اب اس انجام سے بچا جاسکتا ہے؟؟ 
مغرب میں تو یہ تمام بربادی ان کی اپنے غلط رویوں کی بناپر خود بخود آئی مگر اب مغرب کے تھانیدار اس تمام خانماں بربادی کو یواین او کے ذریعے ساری دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔کتنا بڑا ظلم جبر اور ناانصافی ہے۔۔۔؟
پانجویں عالمی کانفرنس کا انعقاد :۔
کانفرنس کا ایجنڈا تو سارا پہلے سے تیار ہو چکا تھا۔ اس موقعہ پر تو صرف پانچ تادس منٹ کی نمائشی تقریر وں میں اس ایجنڈے کی توثیق کرنا مقصود تھا عملاً بحث شروع ہوئی تو تمام نکات پر ترتیب وار خوب بحث مباحثہ ہوا ۔اس کانفرنس میں بیشتر مسلم ممالک شامل ہوئے ۔روزنامہ "نوائے وقت "10/جون نے اس کے بارے میں لکھا :"نیوریارک میں عورتوں کے جنسی حقوق کے مسئلے پر اسلامی ممالک اور رومن کیتھولک ممالک ایک ہو گئےجنسی حقوق(جن کا نام بیجنگ کانفرنس میں بدل کر بنیادی انسانی حقوق قراردیا گیا تھا) مین اسقاط حمل اور مرضی سے بچنے جننے کا حق بھی شامل ہے۔ ایران لیبیا سوڈان اور پاکستا ن کے علاوہ رومن کیتھولک ملکوں پر بھی اس کانفرنس میں شدید تنقید کی گئی ۔محض اس لیے کہ انھوں نے اس دستاویز کی مخالفت کیوں کی؟
"غیرت کے قتل کے موضع پر بھی خوب تنقید ہوئی مگر بہرحال پاکستانی وفد نے اس کو جرم تسلیم نہ کیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ امریکہ میں بھی تو جذبات کے تحت قتل ہوتا ہے جذبات کے تحت قتل اور غیرت کے نام پر قتل دراصل دونوں ایک ہی چیز کے نام ہیں لہٰذا ہم اسے جرم تسلیم نہیں کرتے" (روزنامہ "نوائے وقت"10/جون 2000ء)
چنانچہ یہ کانفرنس شدید مخالفت کے باعث کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ہی ختم ہوگئی صرف عورتوں کی تعلیم اور بہتر صحت کی سہولتوں پر ہی اتفاق رائے ہوسکا ۔حسن اتفاق یہ ہے کہ خود رومن کیتھولک  چرچ نے بھی ابتداء ہی سے بیجنگ کانفرنس کے ایجنڈے کی مخالفت کی تھی ۔چنانچہ اس کانفرنس میں بھی انھوں نے جنسی آزادی اور اسقاط حمل جیسے فضول ایجنڈے کی کھل کر مخالفت کی۔ علاوہ ازیں جمہوریہ چین نے بھی ان سفارشات کی مخالفت کی چنانچہ کانفرنس سے واپسی پر خواتین کی صوبائی وزیر شاہین عتیق الرحمٰن نے رپورٹ پیش کی"چین اور کیتھولک عیسائی ممالک نے بھی مسلم ممالک کے موقف کی اس بنیاد پر پھر پورحمایت کی کہ کوئی ایسی قرار داد منظور نہیں ہونی چاہیے جو کسی ملک کی خود مختار ی مذہب اور کلچر کے منافی ہو۔۔۔خواتین کی عالمی کانفرنس میں مسلم ممالک کی حمایت سے مغربی این جی اوز کی اسقاط حمل اور جنسی آزادی کی سفارشات مسترد کروائی گئیں ۔پاکستانی عورت کے خلاف لابنگ سے کیا جانے والا پراپیگنڈہ غلط ثابت کیا ہمارے وفد کو ہر سطح پر بھر پورنمائند گی ملی ۔بھارت کے مقابلے میں ہمارا سر کاری وفد اگرچہ مختصر تھا مگر اپنی کارکردگی کی بدولت یہ وفد کانفرنس پر چھایا رہا ۔ہم نے کانفرنس میں بتایا کہ پاکستانی عورت پر تشدد اور دباؤ کے الزامات بالکل غلط ہیں یہ محض پروپیگنڈہ کا حصہ ہیں ہماری عورت ترقی کی دوڑ میں شامل ہے اسے تمام بنیادی حقوق اور شہری آزادیاں حاصل ہیں۔اس دوران پاکستانی این جی اوز اپنے ملک کے ہی خلاف زہر اگلنے میں اور ذاتی گفتگومیں مصروف رہنے کے باعث کوئی عملی کردار ادانہ کر سکیں ۔(روزنامہ "نوائے وقت "16/جون 2000ء)
مقام غور وفکر:۔
گذشتہ خواتین کانفرنسوں میں اسلامی حکومت کے نمائندوں نے اپنی مذہبی تعلیمات عقیدے اور ایمان کے صریحاً منافی احکام کی مخالفت ومزاحمت نہیں کی تھی بلکہ چند تحفظات کا اظہار کردینا کافی خیال کیا۔ جبکہ موجودہ کانفرنس کا ایجنڈااس کفریہ  نظام کو جبراً رکن ممالک پر مسلط کرنا تھا لہذادینی جماعتوں علماء اور امت کے اہل نظر اصحاب نے اپنی اپنی حکومتوں کو خوب سمجھا یا اور بغیر سوچے سمجھے اس کانفرنس  کے ایجنڈے پر دستخط کرنے کے خطر ناک عواقب سے ان کو آگاہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی آن پہنچی ۔جمہوریہ چین نے بھی اپنے مفادات کے تحت ایجنڈے کی مخالفت کی۔ رومن کتھولک چرچ نے بھی اس کے خالف آواز بلند کی۔ اس طرح یہ شیطانی اور یہودی منصوبہ وقتی طور پر اپنی موت آپ مر گیا۔
مگر اس کے خلاف طویل منصوبہ بندی کرنا بہت ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندے بارباراس کے ایجنڈے کو ہمارے سروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ جس طرح اقلیتوں کے مسئلے پر توہین رسالت کے موضوع پر قتل غیرت کے نام پر اور دہشت گردی کے خاتمے کے عنوان سے باربار ہم سے مطالبے کئے جاتے ہیں اور ان موضوعات پر ہونے والے پیش رفت کا سوال باربار مختلف فورمزسے اٹھایا جاتا ہے بعینہ جنسی آزادی اسقاط حمل اور پچاس فیصد خواتین کی نمائندگی کے مسائل باربار اٹھائے جاتے رہیں گے۔لہٰذا ہمیں مسلسل بیدار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر مؤثر مزاحمت نہ ہوئی تویہ انسانیت دشمن ایجنڈا مسلم ممالک کو قبول کرنا پڑے گا اور جو قبول نہیں کرے گا اس کے خلاف مجرموں والا سلوک ہوگا یعنی عراق و لیبیا کی طرح پابندیاں لگائی جائیں گی اور طاقت کا استعمال بھی کیا جائے گا اس وقت مسلمانان عالم کو ایک عظیم فتنے کا سامنا ہے شیطان مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے۔اگر اب بھی اس کے خلاف مؤثر مزاحمت کا سامان نہ کیا گیا تو خدانخواستہ وہ دن آسکتا ہے جب مسلمانوں کو جبراً اسلام اور اسلامی تعلیمات سے روک دیا جائے گا۔ع ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ۔
1۔اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں غور و فکر کے مختلف فورم بنیں جہاں محض تقاریر نہ ہوں ۔ان عالمی اداروں میں پیش آنے والے عالمی چیلنجز کا جواب ہم ٹھوس انداز میں دے سکیں۔ یہ فرض ہم پر امت مسلمہ کے فرد کی حیثیت سے عائد ہوتا ہے ٹھوس بنیادوں پر کام کئے بغیر ہم ان طوفانوں کا رخ نہیں موڑ سکتے۔
2۔ہمارے ہاں ہندوانہ رسم و رواج کی وجہ سے بلاشبہ عورت بہت سے مصائب کا شکار ہے ضرورت ہے کہ اس کی جائز محرومیاں دور کی جائیں اور اسلام نے عورت کو جو حقوق دئیے ہیں ان کے بارے میں رائے عامہ بیدار کی جائے عورت کے ساتھ عمومی رویے بہتر بنائے جائیں تعلیم صحت وراثت حق ملکیت حسن سلوک انتخاب زوج جیسے حقوق جو اسلام نے اسے عطا کئے ہیں ۔فی الواقع عورت کو یہ حقوق دے کر اس کی عزت و آبرو کا احترام کیا جا ئے اس کے مقام و مرتبدکو معاشرے میں بحال کیا جا ئے۔
3۔اسلام نے عورت کو جو بہترین حقوق دئیے ہیں خود اپنے معاشروں میں اور بین الاقوامی فرومز میں ان کو وضاحت اور خوبصورتی سے پیش کیا جا ئے ۔آج کی مسلمان عورت کو اپنے دین اخلاقی اقدار اور علم کے ہتھیار سے مسلح ہوکر اپنے اسلاف سے رشتہ جوڑتے ہوئے اعتماد سے قدم اٹھانا ہوں گے۔تاکہ آنے والی صدی میں خواتین سے متعلقہ چیلنج کا علمی اور عملی دونوں سطح پر مؤثر جواب دیا جاسکے ۔
4۔نیو ورلڈ آرڈر جاری کرنے کے بعد سے امریکہ ہر ممکن طور پر مسلم ممالک کو الگ الگ دبا رہا ہے اس کو احساس ہے کہ اس کے اس آرڈرکو صرف اسلام ہی چیلنج کر سکتا ہے اس لیے امریکہ اور یہودی مسلمانوں کو مسلسل کمزور کرنے اور تقسیم در تقسیم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں لہٰذا جلد مسلمانوں کو متحدہ ہوکر اپنی یونین قائم کرنی چاہیے یا تو سلامتی کونسل میں اپنی اکثریت کی بنا پر دو تین مستقل ووٹ حاصل کریں وگرنہ اپنا مسلم بلاک الگ تشکیل دیں اپنے کردار اور جہاد کے ذریعہ اپنا لوہا منوائیں داخلی اتحاد سکے ذریے نہ صرف اپنے دین کا تحفظ کریں بلکہ دکھی انسانیت تک اسلام کا حیات بخش اور روح پرور پیغام پہنچا ئیں اسلام کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا توڑ کریں اپنی مؤثر اور معتمدنیوز ایجنسی قائم کریں اپنا مسلم ٹیلیویژن نیٹ ورک قائم کریں اور مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے بین الاقوامی فوج تشکیل دے کر سرخروہوں یہی کامیابی کا راستہ ہے۔
مقام مسرت ہے کہ اس موقع پر پاکستان کاسرکاری وفد اس بات پر ڈٹا رہا کہ وہ اپنی اسلامی روایات کے برعکس کوئی ایجنڈا قبول نہیں کرے گا کیونکہ اسلام میں خواتین کی سیاسی و معاشی ترقی کے لیے بھر پور کردار موجود ہے محترمہ زبیدہ جلال نے اس عزم کو بھی اظہار کیا کہ اب ہم او آئی سی کے تمام رکن ممالک کو بھی اعتماد میں لے رہے ہیں تاکہ مغربی معاشرے کی روایات ہم پر مسلط نہ کی جا سکیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنے اس عزم پر قائم رہتے ہوئے پوری اسلامی دنیا کو مغرب کی بڑھتی ہوئی تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرے۔ یہ وعدے صرف صفحہ قرطاس کی زینت بنے نہ رہ جائیں بلکہ ان کو عملی جامہ پہنا کر مسلم اُمہ کی تحقیقی فلاح و بہبود کا کام سر انجام دیا جا ئے۔(مسز ثریا علوی بنت مولانا عبد الرحمٰن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ  )