آرٹ اور اسلام
ماہنامہ طلوع اسلام کے جولائی 1979ء کے شمارہ میں ’’آرٹ اور اسلام ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں آرٹ اور آرٹ میں سے موسیقی کو بلکہ مزا میر کو قرآنی فکر طے مطابق قابل قبول اور جائز ثابت کیا گیا ۔
ماہنامہ ‘‘ بلاغ القرآن اگست کے شمارہ میں جناب ایم ،ایم ،اے (سمن آباد ،لاہور ) نے ایک مضمون بعنوان ناچ گانا اور زبور مقدس لکھ طر طلوع اسلام کا تعاقب کیا اور یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم کی روسے موسیقی ایک لغو اور ناجائز فعل ہے اور حقیقت یہ ہے کہ صاحب موصوف نے تعاقب کا پورا پورا حق ادا کردیا ہے ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مندرجہ بالا دونوں ماہنامے (طلوع اسلام اور بلاغ القرآن ) بظعم خویش قرآنی فکر کے حامل ہیں ، دونوں احادیث و آثار اور تاریخ کا بیشتر حصہ وضعی قرار دیتے ہیں ۔ فہذا انہیں ناقابل حجت اور ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں ، ان میں سے صرف وہ حدیث یا وہ واقعہ ان کے نزدیک قابل اعتبار ہے جو ان کے زعم کے مطابق ہوں دونوں قرآن کریم کے معانی و مطالب کی تفہیم کے لئیے تفسیرا القرآن بالقرآن پر زور دیتے ہیں لیکن ان قرآنی فکر کے حاملین کے فکر میں احادیث و آثار سے انکار کے بعد جس قدر تصنا و تخالف واقع ہو سکتا ہے وہ اس مضمون سے پوری طرح واضع ہوجاتا ہے ۔
اس مضمون میں چند باتیں ایسی بھی ہیں جو محل نظر ہیں ۔ لیکن ہم ان سے صرف نظر کرتے ہوئے مضمون کا پورا متن من وتن جوالہ قارئین کرتے ہیں (ادارہ )
راقم الحروف :
کو اس عنوان پر اس لیے قلم اٹھانا پڑا کہ محرفین تو رات نے جو حضرت داود اعظم کے ناموس کو داعدار کر رکھا ہے ۔ قرآنی فکر کے حامل ماہنامہ طولع اسلام نے ان کی ہم نوائی کرتے ہوئے جو لائی 1979ء میں آرٹ اور اسلام ‘‘ کے عنوان سے موسیقی کی بغلی سرخی کے تحت صفحہ ’’سطر‘‘ تا 25 پر لکھا ہے ۔
’’جہاں تک آرٹ اور آرٹ میں موسیقی کا تعلق ہے حضرت داؤد علیہ السلام کو اس میں بڑا نمایاں مقام حاصل ہے ۔ انہوں نے عبرانی موسیقی مدون کی تھی اور مصری اور ربابلی مزا میر (سازوں ) کو ترقی دے کر نئے نئے آلات ایجاد کئیے تھے جن میں قانون اور بربط خاص طور پر مشہور ہیں ۔ زبور ان (حضرت داؤد ) کا صحیفہ ہے ۔ اس میں ہرباب سے پہلے یہ ہدایات موجود ہیں کہ سردار مغنی (گویا )ان آیات کو کس ساز کے ساتھ گائے ۔ اس کے آخری باب میں ہے ۔
قرنائی پھونکتے ہوئے خدا کی ستائش کرو بین اور بربط چھیڑتے ہوئے اس کی ستائش کرو طبلہ بجاتے ہوئے اور ناچتے ہوئے اس کی ستائش کرو ۔ بلند آواز سے جھانجھ بجا کر اس کی ستائش کرو۔ خوش آواز جھانجھ بجار کر اس کی ستائش کرو۔ (تورات صفحہ 616 شائع کروہ برٹش اینڈ فارن سوسائٹی لاہور 1922ء ۔
اس میں شبہ نہیں کہ تورات میں بہت کچھ تحریف ہو چکی ہے ۔ لیکن ہم موسیقی سے متعلق اس بیان کو اس لیئے قابل قبول سمجھتے ہیں کہ جب قرآن میں جنتی معاشرہ میں موسیقی کی محفلوں کا ذکر ہے تو یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اس فن کی تہذیب و تزئین کی ہوا اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہےکہ خود ہمارے ہاں کی کتب احادیث کی شرحوں مذکور ہے کہ حضرت داؤد باجے کے ساتھ گایا کرتے تھے (حافظ ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری ) کتب احادیث میں ہے کہ مسجد نبوی میں حبشیوں کا ناچ ہو رہا تھا اور حضور نبی اکرم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کے ساتھ کھڑے تماشاد یکھ رہے تھے ‘‘ اقتباس ختم ہوا ) ایک ضروری نوٹ) اقباس بالا لفظ موسیقی کی خود یہ تعریف کرگئی ہے ،مزار میر یعنی گانے بجانے کے ساز طبلہ ،سارنگی ،جھانجھ ،گھنگرو وغیرہ بجانا ،ناچنا اور گانا اب اقتباس بالا کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں ۔
خلاصہ اقتباس ۔
1)حضرت داؤد کو گانے بجانے میں بہت نمایاں مقام حاصل ہے انہوں عبرانی موسیقی کو مدون یعنی کتابی شکل میں محفوظ کیا تھا اور اپنے مصری اور بابلی سازوں ،طبلہ سارنگی ، وغیرہ کو ترقی دے کر بہت سے نئے ساز ایجاد کئے تھے ۔
2)حضرت داؤد پر زبور نازل ہوئی اس میں ہرباب سے پہلے ہدایات درج ہیں کہ اسے سرادار مغنی یعنی ماہر گویا فلاں ساز کے ساتھ گائے یعنی یہ بات طبلہ سارنگی کے ساتھ گایا جائے ۔ یہ دو تار ے کے ساتھ اور یہ جھا نجھ کھنجری وغیرہ کے ساتھ ۔
3)زبور مقدس کے آخری باپ میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ستائش یعنی حمدو تعریف قرناء پھونک کر ، ستار کی سر چھیٹر کر ، طبلے پر تھاپ لگا کر اور بلند آواز سے جھانجھ گھنگر و بجا کر اور ناچ گا کر کی جائے
4)اگرچہ تو رات میں بہت کچھ تحریف ہو چکی ہے لیکن زبور مقدس کا گانا بجانے سے متعلقہ مذکورہ بیان اس لیئے قابل قبول ہے کہ خود قرآن کریم میں جتنی معاشرہ میں موسیقی یعین ناچ گانے کی محفلوں کا ذکر موجود ہے ۔ جس کی تائید حافظ ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت داؤد باجے کے ساتھ گایا کرتے تھے آپ کا گانا حدود کے اندر تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی حمدو تعریف ہوتی تھی گندے عشقیہ گانے نہیں تھے۔
5)کتب احادیث سے ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں حبشیوں کا ناچ ہو رہا تھا اور حضور نبی اکرمﷺ حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ کھڑے تماشہ دیکھ رہےتھے (اب پانچوں نمبر ں پر بالترتیب تبصرہ ملاحظہ فرمائیں )
تبصرہ نمبر 1)
پہلے نمبر پر حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق بتایا گیا ہے کہ موسیقی یعنی گانے بجانے میں ان کو بہت نمایا ں مقام حاصل ہے ۔ جس میں سرفہرست یہ ہے کہ آپ نے عبرانی موسیقی کو مدون یعنی کتابی شکل میں محفوظ فرمایا تھا ۔
٭: دوسرے یہ کہ آپ نے موسیقی کے سازوں طبلہ ،سارنگی ،کتارہ ،دوتارہ ، طنبورہ ، کھنجری اور گھنگروں وغیرہ کی قسم کے گانے بجانے کے نئے نئے ساز ایجاد کئیے تھے ۔
٭:حضرت داؤد جو صرف نبی اور رسول ہی نہیں تھے بلکہ ایک ذمہ دار اسلامی سطنت کے سربراہ بھی تھے ان کی طرف یہ منسوب کرنا کہ آپ نے فن موسیقی کو مدون فرمایا تھا ، اگر اسے ذراتفصیل سے بیان کیا جائے تو یہ چیز سامنے آتی ہے کہ آپ نے ایسی نادر روز گار کتا ب تصنیف فرمائی تھی جس میں موسیقی کے راگوں کے اوزان سارے گاما پادا وغیرہ مرتب فرمائے ۔ اور اس میں راگنی ، بھیرویں ، بہاگ ، ٹھمری ،اکتال وغیرہ کی قسم کے پکے راگوں کے گربھی پوری صحت کے ساتھ درج فرما دئیے کیونکہ تدوین کامعنی ٰ ہے کسی چیز کو کتابی شکل میں مرتب و محفوظ کرنا ۔
5)لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حضرت داؤد جو نہ صرف یہ کہ خدا کے جلیل القدر نبی ،رسول تھے بلکہ ایک عظیم اسلامی سلطنت کے سربراہ بھی تھے ،محرف تو راۃ نے جنہیں گویوں کااستاد و قائد ثابت کیا ہے ۔ قرآن کریم کی روشنی میں ان کا کیا فریضہ نبوت و رسالت تھا اور بحثیت سر براہ سلطنت ان کا مخصوص فرض منصبی کیا تھا نیز اس حقیقت پر بھی غور کیا جانا لازم ہے کہ کیا کسی بھی نبی و رسول نے اللہ کی کتاب کے سوا اور کتاب تصنیف کی اور اپنے پیچھے چھوڑ دی تھی ؟
حضرت داؤد کا فرض منصبی بحثیت رسو ل
سب سے پہلے تو اس تاریخی حقیقت ثابتہ سے انکار کی گنجائش تک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے جملہ رسل و انبیاء نے صرف ان کتابوں کو لکھا ،لکھوایا ،مرتب ،مدون اور محفوظ فرمایا جو ان کی طرف خدا تعالیٰ کی طرف سے الگ الگ نازل کی گئی تھیں اور ’’انہی کتابوں کے خداوندی پیغام کو عوام تک پہنچانا ۔ان کا رسولی فریضہ تھا جس کے متعلق قرآن حکیم نے نفی اثبات کے حصر کے ساتھ اعلا ن کر رکھا :
ما علي الرسول الا البلغ 99/5‘‘ اللہ کے ہر رسو ل کا فرض منصبی صرف اور صرف یہ ہےکہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچائے ۔
اب اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد کا فریضہ جملہ رسل، انبیاء سے الگ کس خدا کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا کہ آپ نے فن موسیقی سارے ،گاما ،پاوا ، کے اوزان مرتب و مدون کرنا شروع کر دئیے ہوں ؟
حضرت داؤد کا فرض منصبی بحیثیت سربراہ ریاست
حضرت داؤد کا فرض منصبی بحیثیت نبی،رسول تو آپ ملا حفظہ فرما چکے ہیں ۔ اللہ کے پیغاموں کو کسی ھک و اضافہ کے بغیر عوام تک پہنچانا ۔ اب قرآن کریم کے الفاظ میں آپ کا وہ فریضہ ملاحظہ ہو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر بحیثیت سر براہ ریاست فرض کیا گیا تھا ۔ سورہ ’’ص ‘‘ میں ارشاد ہوا ہے ۔
يا داؤد انا جعلنك خليفة في الارض فحكم بين الناس بالحق
’’اے داؤد بے شک ہم نے آپ کو زمین کے ایک حصے کا خلیفہ مقرر فرمایا ہے پس آپ لوگوں کے مقدمات ٹھیک ٹھیک فیصلے فرمایا کریں ۔
اب دیکھیے کہ ایک طرف آپ کے ذمہ نبوت ور سالت کے عظیم فرائض کا بوجھ ہے اور دوسری طرف حکومت و سلطنت کی گوناگوں ذمہ داریاں آپ کے کاندھوں پر ڈال دی گئی ہیں ۔ عوام کی ربوبیت عامہ ،روٹی ،کپڑا مکان اور علاج کی بہم رسانی ۔ سلطنت کے داخلی اور خارجی انتظامات ،سرحدوں کی حفاظت ،دشمن کے مقابلے کے لیے فوجی ٹرینگ اور شبانہ روز اسلحہ کی تیاری ،کتنی عظیم ذمہ داریاں ہیں جن سے سبکدوش ہونا آپ کا فرض منصبی قرار دیا گیا تھا ۔
محرف تو راۃ کا بہتان عظیم
اس کے برعکس محرف توراۃ کا بہتان ملاحظہ فرمائیں جس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے موسیقی کے بہت سے الات ایجاد کیے تھے کیا نبوت و رسالت اور حکومت و سلطنت کی مذکورہ بالا ذمہ داریوں کے بارگراں میں دبے ہوئے حضرت داؤد کے متعلق باور کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے طبلہ ،سارنگی ،ستار اکتارہ ،طنبور ،کھنجری ،اور گھنگر و وغیرہ موسیقی کے آلات ایجاد کرنا بھی فریضہ نبوت و سلطنت قرار دے لیا ہو ، جب کہ آپ کی شخصیت اور سلطنت کے متعلق حضور نبی اکرم ﷺ کو مستقل مزاجی جا درس دیتے ہوئے ارشاد ہوا ہے
اصبِر عَلىٰ ما يَقولونَ وَاذكُر عَبدَنا داوۥدَ ذَا الأَيدِ إِنَّهُ أَوّابٌ ﴿١٧﴾إِنّا سَخَّرنَا الجِبالَ مَعَهُ يُسَبِّحنَ بِالعَشِىِّ وَالإِشراقِ ﴿١٨﴾ وَالطَّيرَ مَحشورَةً كُلٌّ لَهُ أَوّابٌ ﴿١٩﴾وَشَدَدنا مُلكَهُ وَءاتَينـٰهُ الحِكمَةَ وَفَصلَ الخِطابِ ﴿٢٠﴾...ص
’’اے رسو ل لوگ آپ کو جو کہتے ہیں(کہ ہنوز آپ کو حکومت میسر نہیں آئی اس پر) آپ مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتے جائیں اور ہمارے بہت سی قوتوں والے بندے داؤد (اعظم) کو یاد کریں ۔ بیشک وہ ہماری طرف رجوع کرنے والا تھا ۔ بلا شبہ ہم نے الجبال پہاڑی باشندوں کو اس کے ماتحت پا یا وہ اس کے ساتھ شام و صبح مل کر اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے تھے اور (الطیر )آزاد قبائل اس کے گرد جمع ہوئے پائے وہ سب کے سب اس کی طرف رجوع کرنے والے تھے ۔ اور ہم نے اس کی حکومت کو بہت مضبوط پایا کیونکہ ہم نے اسے (الحکمت )دانائی عطا فرمائی تھی یعنی مقدمات کوصحیح طور پر فیصلہ کرنے کا ملکہ عطا فرما یا تھا واضح رہے کہ :
داؤد ذا لاید :کا لفظی معنیٰ ہےبہت سی طاقتوں والا یعنی طاقتور داؤد ،جس طرح سکندر اعظم ایک اصطلاح ہے اسی طرح ’’داؤد ذا لاید ‘‘ ایک اصطلاح ہے بمعنیٰ داؤد اعظم ۔ اید کا لفظ ید کی جمع ہے بمعنیٰ قوت اور اید بمعنی بہت سی قوتیں حضرت داؤد یک بہت سی قوتوں میں اولین قوت ان کا ذاتی عزم و استقلال تھا ۔ جس کی بدولت آپ ایک مضبوط حکومت کے سربراہ ہوکر داؤد اعظم کہلائے ۔ آپ کی دوسری قوت نبوت و رسالت تھی ۔ جس کی بدولت آپ کا رابطہ ہر آن خدا تعالی کے ساتھ قائم تھا ۔ تیسری قوت آپ کی ہمہ جہتی مضبوط حکومت تھی جس کی سرحدیں اس قدر مضبوط تھیں کہ پہاڑی لوگ اور سرحدی قبائل جو سرحدوں پر ملنے والی دو حکومتوں میں سے کسی کی بھی ماتحتی اختیار نہیں کرتے بلکہ دونوں طرف سے مال کھاتے رہتے ہیں ،سب کے سب حضرت داؤد علیہ السلام کے مطیع و فرمانبردار تھے بلکہ ان کی ہر مہم میں ان کے ساتھ مصروف عمل رہتے تھے اور آپ کی چوتھی قوت تھی عدل و انصاف کے ساتھ مقدمات کے فیصلے کرنا ۔ کیا کوئی صاحب عقل سلیم یہ کہ سکتا ہے کہ قوتوں والے داؤد کی ایک قوت ناچنا اور گانا بھی تھی جس کی بدولت آپ داؤد الاید یعنی داؤود اعظم ثابت ہوئے ۔
آیات بالا 38 میں آنحضور نبی اکرم ﷺ کو درس استقلال دینے کےلئیے حضرت داؤد اعظم کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے کہ جس طرح انہوں نے اسلامی حکومت کو ہر لحاظ سے طاقتور بنایا تھا اسی طرح آپ کو بھی ہمہ جہتی خود کفیل ، مضبوط اسلامی حکومت قائم کرنا اور اسکی گونا گو ں ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونا ہے ۔