کب تک پانی کے کانٹوں پہ لہو تو لو گے تم

عرب جاہل تھے ،گنوار تھے ، تہذیب و تمدن کی روشنی  سے کوسوں دور وہ  ایک ایسے خطہ کے مکین تھے جس کی تاریخ خاندانی جھگڑوں یا قبائلی جنگوں سے عبارت تھی----- لیکن انھیں اپنے اس اندو ہناک ماضی پر فخر تھا اور اپنے حال کی پستیوں پر ناز ! ---کوئی برائی جو انہیں اپنے  حال کی پستیوں پر ناز ! ------کوئی برائی جو انہیں اپنے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ملی تھی، ان کی نظر میں قابل نفرت ، اور کوئی نیکی جسے ان کے آباؤ  اجداد ٹھکرا چکے تھے ، ان کے نزدیک قابل التفات نہ تھی  ----ان کا و جود زندگی کی ہر سعاد ت کی نفی  کرتا تھا ------وہ جس روش پر چل  رہے تھے اسی پر چلتے رہنا چاہتے تھے ----ان کے ماحول کی ظلمتوں کو کسی روشنی کی احتیاج نہ تھی لیکن یہی و ہ ظلمت کدہ تھا جو آئندہ کے لیے روشنی کے ہر جویا کی نگاہوں کا مرکز بننے والا تھا -----اوریہی وہ افق تھا جس کی تاریکیاں آفتاب رسالت کی ضیاء پاشیوں کی اولین مستحق سمجھی گئی تھیں ----ہاں وہ ربع الاول ہی کی ایک صبح درخشاں تھی جس نے مدتوں سے بھیانک تاریکیوں ارو بے نشان راستے پر چلنے والی انسانیت کو ایک نئی روشنی کا پیغام دیا -----اور -----جس نے تاریک رات کے مسافروں کو چونکا دیا تھا :
آفتاب رسالت فاران کی چوٹیوں پر سے نمودار ہو ا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری کائنات کو ایک ایسی  روشنی سے منور کر گیا کہ جس کی تابندگی و تابانی ، زوال و غروب کے الفاظ سے کبھی آشنا نہ ہو سکی اور آئندہ کبھی ہو سکے گی :
﴿هُوَ الَّذى أَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِهَ المُشرِكونَ ﴿٣٣﴾...التوبة
’’دعائے خلیل ‘‘ کی قبولیت اور نوید مسیحا ‘‘ کے ظہور کے چند ہی سال بعد عرب کے یہ وحشی انسان  دنیا کو انسانیت ، صلح و آشتی ، امن و انصاف اور تہذیب و تمدن کا درس دے رہے تھے ----عرب کے اس ظلمت کدہ سے آفتاب رسالت کی ضیا  باریوں کے باعث  انسانی عظمتوں کے جو پہاڑ نمودار ہوئے ان کی وسعت ، بلندی دلکشی  کا تصور بھی مودجودہ دور کے انسانوں کے فہم و ادراک کی سرحدوں سے باہر ہے ----وہ عرب کے تپتے ہوئے صحراؤں سے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار  لے کر اٹھے تو زمین کی وسعتیں ان کے سامنے سمٹ کر رہ گئیں ---افریقہ کے ریگزار ہوں یا چین کے چٹیل پہاڑ، سرزمین  اندلس وسپین ہو یا تبکدۂ ہند ،مجاہدوں کے قافلے ہر جگہ پہنچے اور ہر ہر منزل پر اپنے قدموں کے ایسے نشانات چھوڑ گئے کہ جن کو حوادث زمانہ کی تندو تیز موجیں نہ آج تک مٹا سکی ہیں ،نہ آئندہ کبھی مٹا سکیں گی ----لا الہ الا اللہ ‘‘ کی عالمگیر  انقلابی آواز سے جو غلغلہ بپا ہوا---اور  پھر کتاب و سنت کی بنیادوں پر اخلاق و آداب، معیشت و اقتصاد ، علوم و فنون ، تعلیم و تربیت ، صنعت و حرفت ، زراعت و تجارت ،نظام و انصرام ، عدل و انصاف ، قانون و سیاست اور حکمرانی وجہانبانی کی جو پر شکوہ   اور بفلک عمارتیں تعمیر ہوئیں ، وہ آج بھی اقوام عالم کی رہنمائی کرتی نظرآتی ہیں ۔
روشنیوں میں نہا کر وہی نگاہیں خیرہ ہوتی ہیں جو بیمار ہو ں ، آفتاب کے نظارہ سے وہی شخص محروم رہتا ہے جس کی بینائی کو قدرت نے سلب کر لیا ہو ---- اسکی رخشند گی و تابانی کا انکار وہی کر سکتا ہے جو اس کے وجود سے ناواقف ہو ----لیکن ایک ایسا انسان جو نگاہ دیدہ و بینا رکھتا ہے ، اس کی بدقسمتی کا  اس سے بڑھ کر اور کیا تصور ہو سکتا ہے کہ اجالوں کے وجود سے واقف ہونے اور ان کے حقائق کا ادراک کر لینے کے باوجودوہ ان سے یکسر محروم رہے اور تاریکیوں میں بھٹکتے رہنے پر قناعت کر لے ---درآنحالیکہ قدم قدم پرٹھوکریں کھاتا ہو ، اس کی راہ میں بیشمار  پر خطر مقام حائل ہوں اور مہیب غار منہ کھولے اس کو ہڑپ کر جانے کے لیے مضطرب و بے چین ہو ں ---وہ گر گر  کر اٹھتا ہے اور اٹھ اٹھ کر گرتا ہے ----ہر نئی ٹھوکر اسے جھنجھوڑتی اور ہر غلط جگہ پر پڑنے والا قدم اسے تباہی کا احساس دلاتا ہے ----وہ واو یلا کرتا اور شور مچاتا ہے ----چیختا اور چلاتا ہے ، لیکن آنکھیں نہیں کھولتا ----روشنی کا رہین منت ہونا اسے  گوارا نہیں ----خدا کے بخشے ہوئے نور سے فیضیاب ہونے کی وہ توفیق نہیں پاتا ----کیا اس کی بد نصیبی ، محرومی ، تیرہ بختی اور کوتاہ دامنی و کوتاہ بینی میں  کچھ کلام ہو سکتا ہے ؟
پاکستان میں ملت کا قافلہ گزشتہ بتیس سال سے تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے ۔۔وہ اسلام کی عظمتوں سے واقف بھی ہے اور اس کا نالیوا بھی ----آفتاب رسالت کی ضیاء پاشیوں کا معترف بھی  ہے اور زبانی و کلامی اس کی محبت سے سر شار بھی ----وہ نور مبین کی حقیقتوں سے آگاہ بھی ہے اور ’’سراج منیر ‘‘ کی جگمگاہٹوں کو اپنے  مقدر کی سیاہیوں کو دھو دینے کا واحد ذریعہ بھی خیال کرتا ہے ----لیکن کبھی سوشلزم کی خون آشام آندھیوں کا شکار ہوتا ہے ، تو کبھی مغربی جمہوریت کے فتنہ و فساد کا اسیر ----کبھی  عیسائیت کی اندھی تقلید کو اپنی  نجات کا ذریعہ سمجھنے لگ  جاتا ہے ، تو کبھی  یہودیت کی نقالی کو باعث فخر گرداننے لگتا ہے ۔ اس کی زندگی کا ہر قدم اسے کسی نئے خطرے کا پیغام دیتا ہے ---اس کے سفر حیات کا ہر موڑ اسے نئی مصیبتوں دو چار کرتا ہے -----اس کی تاریخ کا ہر نیا  دھارا اسے کسی تازہ تباہی کا احساس دلاتا   ہے ---آدھا    کاروان  لٹ گیا ، پٹ گیا ، کٹ گیا ۔۔ وہ چیخا اور چلایا بھی ۔۔ اپنے مقدر کی ظلمتوں پر آنسو بھی بہائے اور اپنی روسیاہیوں کا  ماتم بھی کیا ---لیکن کتاب وسنت کی روشنی میں دیکھنا اسے گوارا نہ ہوا ----اس کے نور سے جلاپا لینے کا خیال اسے نہ آیا --- وہ چند طائع آزماؤں کے نت  نئے  نعروں کا شکار ہوا -----وہ اس کی خواہشات سے کھیلے ----انہوں نے اس کی تمناؤں کا خون کیا ----افراد امت ان کی ادنی سے اشاروں پر مچل مچل گئے ---- جان کی بازیاں لگائیں اور خون کے نذرانے پیش کیے ---لیکن سب کچھ اک سراب نکلا ----حقیقت سے جس کو دور کا بھی واسطہ نہ تھا--- اور آج تک یہ حالت ہے کہ :
﴿مَثَلُهُم كَمَثَلِ الَّذِى استَوقَدَ نارًا فَلَمّا أَضاءَت ما حَولَهُ ذَهَبَ اللَّـهُ بِنورِهِم وَتَرَكَهُم فى ظُلُمـٰتٍ لا يُبصِرونَ ﴿١٧﴾...البقرة
ربيع الاول پھر آر ہا ہے ----گذشتہ سال بھی کچھ نئے عزائم کا اظہار ہوا تھا ----کچھ نئے عہدو پیمان بندھے تھے ، لیکن وقت کی آندھیوں نے انھیں دھندلا دیا ----زانیوں کو ، شرابیوں  کو ، شرابیوں کو ، چورں کو کوڑے بھی لگے ----راشپوں ، منافع خوروں ، بد دیانتوں کو سزائیں بھی ہوئیں اور جرمانے بھی ہوئے ۔
لیکن سب ماارشل لاء کے تحت ۔۔۔ معاشرہ کی تطہیر کے سامان بھی ہوئے ، لیکن مارشل لاء کی روشنی میں ۔۔کتاب و سنت کے نور سے اتفادہ نہیں ہوا ۔۔۔اس سلسلہ میں ہنوز روز اول کا سا معاملہ  ہے ۔ اور اب گرد کی تہیں پھر جم رہی ہیں ۔۔۔نقوش پھر مٹتے جارہے ہیں ۔۔۔ ملت نے انہیں اپنے خون اجاگر کیا تھا ---یہ خون ابھی تک خشک نہیں ہوا لیکطن یہ نقوش پھر دھندلا رہے ہیں ،پھر مٹ رہے ہیں ----ملت کے قافلہ سالارو ---ان نقوش پہ اب حقیقت کے خوشنما محل تعمیر کر ہی ڈالو---وقت تیزی سے گزر رہا ہے ---گرد کی تہیں دبیز ہو گئیں ، تاریکیاں کچھ اور بڑھ گئیں ، تو کسی نئے چشمہ خون کی ضرورت پڑے گی ---اور کیا تم سمجھتے ہو کہ خون کے یہ چشمے ابلتے ہی رہیں گے ؟ یہ سوتے خشک بھی ہو سکتے ہیں ----ختم بھی ہو سکتے ہیں ، پھر نئے چشمے کہاں سے تلاش کروگے ؟ ---اب بھی وقت ہے ، کتاب و سنت کے نور نیرین سے تا بانپاں  حاصل کر لو ----جس کے باعث عرب کے گڈر یے ، شہنشاہ دوراں بنا دیے گئے تھے ، تم بھی اس کی روشنی میں نئی راہیں تلاش کرسکو گے ، نئی منزلیں پاسکو گے ---ورنہ یادرکھو!---یہ قافلہ اگر چند سال اور اسی طرح بھٹکتا رہا تو خدانخواستہ اس کی سلامتی پر آنچ بھی آسکتی ہے ---پس ان دھندلے نقوش کو واضح کر دو، اجاگر کر دو ----انمٹ بنا ڈالو----اسی مبارک ماہ میں ----اسی ربیع الاول میں ---خدا تمارا حامی و ناصر ہو ! -----آمین !