درود و تاج وغیرہ کا ورد ، ناراض مقتدیوں کے امام کی اممت ، دوھری اذان

کراچی سے جناب قاری  محفوظ اللہ ہزاروی پوچھتے ہیں کہ:
ایک شخص کا خیال ہے کہ درود ہزارہ ، درود لکھی ، درود تاج ، دعا گنج العرش اور عہد نامہ وغیرہ کا درد ،وظیفہ خلاف شرع اور بدعت ہے ۔
دوسرے صلح حسب کہتے ہیں کہ :
نہیں یہ بدعت نہیں کار ثواب ہے کیونکہ ان میں بھی خدا کی صفات کا بیان ہے جیسے کوئی شخص اپنی زبان میں خدا کو یاد کرتا ہے اسی طرح ان کا حال ہے ۔ ان  میں سے صحیح  کس کا خیال ہے ؟
الجواب :
صحیح موقف پہلے شخص کا ہے دراصل اس قسم کے اور ادر ارو وظائف نے تلاوت قرآن اور مسنون ذکر و اذکار کی جگہ لے لی ہے جس سے بڑھ کر خسارہ کا تصورہی  نہیں کیا جا سکتا ،  قرآن حکیم  کی تلاوت ذکر بھی ہے اور مطلوب تلاوت بھی ، جس کے ایک ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں ۔دوسرے جتنے وظیفے اور ذکر   ہیں ان کی یہ کیفیت نہیں ہے ۔ اسی طرح سے ، رسول اللہﷺ نے جو دعائیں اور جو ورد وظیفے اور ذکر اذکار بتائے یا اپنائے ہیں ،خدا کے ہاں ان کی حثییت عبادت کی ہے ، دوسروں کی یہ شان نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یار لوگ مصر ہیں کہ ہمیں درود ہزارہ ،لکھی ،تاج ،وغیرہ کے ورد وظیفہ کی اجازت ملنی چاہیے ۔ آخر اس میں راز کیا ہے ؟ گھاٹے کا یہ سودا ان کو کیوں منظور ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے توان اداؤں بے چینیوں اور سوچنے کے انداز کو غلط قرار دیا ہے ۔
قرآن شریف میں ہے کہ :
’’ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِيْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِيْ هُوَ خَيْرٌ
’’جو چیز اعلیٰ ہے تم اس کے بدلے میں ایسی چیز لینا چاہتے ہو جو کمتر درج کی ہے ؟
کیا یہا  ں یہ بات ثابت نہیں ہے کہ یہ لوگ قرآن حکیم کی تلاوت اور پیارے نبی ﷺ کے دہن مبارک سے نکلے ہوئے اذکار کی جگہ ، دوسروں کے بنائے ہوئے وظیفوں پر جان  چھڑکنے لگے ہیں ؟ کیا اس سے بڑھ کر اعلیٰ اور ادنی کا کوئی تصور ممکن ہے ؟ ایک طرف قرآن حکیم  کی تلاوت ہو ۔ دوسری طرف درود لکھی کی تلاوت ہو، ادھر محمد رسول  اللہ ﷺ کے اختیار کردہ اذکار الہی ہو ں اور دوسری طرف خود ساختہ قسم کے عند نامے ، تو ایسے مرحلہ پر دونوں کے موازنہ کے بعد جو لوگ ان عہد ناموں اور  اپنے بنائے ہوئے درود وں پر اصرار کرتے ہیں ان کو اس ادائے غلط‘‘ پر خدا سے ڈر نہیں لگتا ؟ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ بدعات پر جان چھٹرکتے ہیں بطور سزا وہ اتنی مقدار میں ’’سنت ‘‘ کے ذوق اور عمل سے بھی محروم ہو جاتے ہیں ۔ روایات میں آیا ہے کہ :
’’ما احدث قوم بدعة الا رفع مثلہا من السنة ‘‘ (احمد ،بزار ،)
حضور ﷺ کا ارشاد ہے ،جو گروہ جتنی بدعت ایجاد کرتا ہے اتنی سنت اس سے چین لی جاتی ہے ‘‘
جب ان لوگوں کے بدعات پر جان چھڑکنے اور سنت سے بدکنے کے مناظر دیکھتے ہیں  تو ہمیں رسول اللہ ﷺ کا مندرجہ بالا ارشاد ماد آجاتا ہے ۔
بدعت کے در اصل دو محرک ہوتے ہیں ایک مزہ بدلنے کا ، دوسرا مسنون عبادات پر اضافہ کا ۔ اور وہ بھی بطور نیکط جذبہ کے ۔ یہی وہ بیماری تھی جو اہل کتاب کو آسمانی صحیفوں ارو انبیاء کرام علیہم  الصلوٰۃ والسلام کے اسؤہ حسنہ سے دور لے گ‘ی تھی کیونکہ اب وہ خود ساختہ عبادات اور ورد زظیفوں میں لگے رہتے تھے ۔ یہی چیز آج ہمارے دوستوں میں سرایت کر رہی ہے ۔
سنت سے بدعت ان کو زیادہ پیاری ہے اگر ان کی بدعات کی راہ لی جائے تو یقین کیجیے  قرآن و پیغمبر  سے رابط برائے نام رہ جائے ۔  
ہم ان سے پوچھتے ہیں جو ذکر قرآن حکیم اور پیغمبر  خدانے بتائے  اور تجویز کئیے ہیں ،وہ بہتر ہیں یا دوسرے ؟ تویہی کہیں گے کہ قرآن اور رسول ﷺ کے بتائے ہوئے !
پھر جب آپ پوچھیں گے کہ جناب آپ ان کو چھوڑ کر دوسروں پر کیوں جان دیتے ہیں ؟
تو جواب دیں گے آخر وہ بھی اللہ ہی نام لیتے ہیں ، اس پر جب ان  سے کہیں گے کہ
’’اس طرح  اللہ کا نام کیوں نہیں لیتے جس طرح اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ نے سکھایا ہے ؟
تو اس پر کچھ جواب ان سے بن آئے گا!
راقم الحروف نے آج سے 6 سال پہلے ماہنامہ  محدث کے شوال اور ذیقعدہ 1363ھ کے شمارہ میں ’’دلائل الخیرات کا ورد‘‘ کے عنوان سے ایک تبصرہ لکھا تھا ۔ بہترہے ان سطور کے ساتھ ان کو بھی ملا کر پڑھ لیا جائے تو مزید بہتر رہے گا ۔ ملاحظہ ہو’’ماہنامہ ‘‘ محدث ‘‘ ص 44 شوال ذیقعدہ  1393؁ھ
باقی رہا اپنے لفظوں میں خداکو یاد کرنا ؟ سویر ایک الگ صورت ہے ۔ یہ ایک غیر مرتبط غیر منظم اور غیر متعین سلسلے ہیں جن کی تلاوت ہوتی ہے نہ ورد، بس وہ نام لینے والی بات ہوتی ہے ۔ اگر یوں کبھی کبھار اس کا کوئی جملہ زبان پر آجائے تو ہمیں اس پر کیا اعتراض ہے ؟ ۔۔ رونا تو اس بات کا ہے کہ مسنون اذکار کی جگہ ان خود ساختہ درد وظیفوں نے لے لی ہے اور باقاعدہ ان  کی منزلیں اور ختم رواج پا گئے ہیں ۔ اگر حضرت عمر ﷜ کا عہد ہوتا تو تصور کیجیے ! کہ آپ ﷜ ان احداثات کو کس نظر سے دیکھتے ؟

ناراض مقتدیوں کے ایام کی امامت

لودھراں سے جناب خورشید احمد صاحب لکھتے ہیں کہ :
ایک امام مسجد سے ان کے نمازی ناراض ہیں ، وہ ان کو منافیق اور اپنی جماعت کا باغی تصور کرتے ہیں اور ان کے بے جا اصرار کی وجہ سے پوری جماعت دو حصوں میں بٹ گئی ہے تو کیا ان کی امامت جائز ہے ؟ انکو تنخواہ زکوٰۃ اکٹھا کر کے دیتے  ہیں اور وہ لے لیتے ہیں ۔ امام موصوف کہتے ہیں اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ نہ دو مجھے تو تنخواہ چاہیے !
ایک دینی مدرسہ ہے اپنے لالچ کے لئے لوگوں کو اس سے تعاون کرنے سے بھی روکتے ہیں ۔ کیا ایسا شخص امامت کے لائق ہے ؟
الجواب : امام موصوف سے جو لوگ ناراض ہیں اگر ان کی ناراضگی کسی شرعی داعیہ پر مبنی ہے تو مولوی صاحب کو ایسی صورت میں خود بخود ہی امامت سے علیحدہ ہونا چاہیے حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
’’ثلثة لا تقبل لهم صلوٰة ، الرجل يوم القوم وهم له كارهون- الحديث
رواه ابن ماجة عن عبدالله بن عمرو وفي  الزوائد اسناده صحيح و رجاله ثقات
 ’’ تین شخصوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ( ان میں سے ایک وہ ) شخص ہے جو لوگوں کو نماز  پڑھاتا ہے اور لوگ اس کو پسند نہیں کرتے ‘‘
اگر حق گوئی کی بنا پر ان سے وہ ناراض ہیں پھر امام گو عنداللہ بری ہے ۔ تاہم مسلمانوں کو انتشار  سے بچانا سب سے بڑا فریضہ ہے ۔ اور خانہ خدا کو دنگل بنانے سے احتراز نہایت ضروری ہے ۔ اس لیے اگر اب بھی وہ رضا کارانہ طور پر امامت سے الگ ہو جائیں تو اس پر ان کو ثواب بھی ہو گا ۔
’’ومن ترك المراء ---وهو محق بني له (اي بيت ) في وسطها (ترمذي)
قال حديث حسن )
باقی رہی یہ بات کہ وہ زکوٰۃ کے پیسوں سے تنخواہ لیتا ہے تو وہ ویسے ہی مختلف فیہ بات ہے تاہم یہ کوئی گردن زدنی بات نہیں ہے ۔
مدرسہ کے سلسلے میں تعاون کرنے سے لوگوں کو روکنا ، عظیم معصیت ہے اور یہ ان  لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے جو دینی خدمت بطور عبادت انجام نہیں دیتے بلکہ اسے کاروبار بنا کر کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی کم نہ ہو جائے اگر یہ بات ہے تو یہ ان کے شایان شان نہیں ہے ان کو اپنے اس رویہ پر نظر ثانی کرنا چاہیے ۔ بہر حال اگر نمازیوں کی اکثریت ان سے  مطمئن نہیں ہے تو عافیت اسی میں ہے کہ مولوی صاحب خود بخود امامت سے الگ ہو جائیں و رنہ گلہ مولوی صاحب کا ہوگا ۔ اور بے دین لوگ مذاق دینی قیادت کا اڑائیں گے ۔
ان هدني  الدنيا يحبك الله و از هد فيما في ايدي
الناس تحبك الناس (راوه ابن ماجه ) الزهد
في الدنيا يريح القلب والجسد  (راواه الطبراني
واسناد ه مقارب قاله المنذي )
ایک  اور صاحب ٹاؤن   شپ لاہور سے لکھتے ہیں کہ !
$11.                 دوہری  اذان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
$12.                  تکبیر تحریمہ کے بعد ’’سبحانک اللہم ‘‘ پڑھنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم  کا پڑھنا کیسا ہے ؟
جواب :
اذان کہنے کے متعدد طریقے ہیں اور وہ سب سنت سے ثابت ہیں ایک تو وہ جو حضرت بلال ﷜ کا طریقہ تھا یعنی وہ اذان جو حنفیوں میںمتداول اور مشہور ہے یعنی اللہ اکبر چار بار باقی دو دو بار آخر میں لا الہ الا اللہ ایک بار اور تکبیر وہ جو عموماً اہل حدیث کہتے ہیں ۔ قدقامت الصلوٰۃ کے سواباقی سب کلمے اکہرے اکہرے ۔
’’عن انس قال امر  بلال ان يشفع  الاذان و يوتر الاقامة  وزاد يحيي في حديثه  عن ابن علية فحدثت  به يوب فقال الا الاقامة (مسلم ) و كذا روي عن ابن عمر رواه ابو داؤد ~~
دوسرا  طریقہ یہ کہ جیسی اذان ویسی تکبیر یعنی اللہ اکبر چار بار پھر سب دو دو بار ۔ ’’ ان بلالا اذن بمنی و رسول الله صلی الله علیه وسلم ثم مرتین مرتین  واقام مثل ذالک (رواہ ابو الشیخ کذا فی النیل )
امام شوکانی فرماتے ہیں یہ ٹکٹرا صحیح قابل اجتماج ہے کہ جیسی اذان ویسی تکبیر بھی ۔
اذا عرفت هذا تبين لك ان احاديث تثنية الا قامة صالحة للاحتجاج بها لما اسلفناه ‘‘
بہر حال اس طور کی ذان اور تکبیر سے بدکنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ بھی ثابت ہے ۔ یہی نظریہ امام احمد ، امام اسحق ، امام داؤد بن علی ظاہری کا ہے ۔
قال ابو عمر بن عبدالبرا ذهب احمد بن حنبل و اسحق ابن راهوية  داؤد بن علي و محمد بن جرير الي اجازة القول بكل ماروي  عن رسول الله ﷺ في ذالك و حملوه علي الا باحة  (نيل )
دوہر ی اذان
دوہری اذان سے سائل کی مراد غالباً ترجیع ہے  یہ دوہری اذان  رسو ل اللہ ﷺ نے سکھائی تھی ۔ حضرت ابو مخدورہ﷜ کو آپ ﷺ نے  میں یہ اذان سکھائی اور وہ 59 ؁ھ تک مکہ مکرمہ میں دیتے رہے ۔
’’عن ابي محذورة ان النبي ﷺ غلمه الا ذان " الله اكبر الله كبر  (و في طرق الفارسي في صحيح مسلم اربع مرات – نوي اشهد  ان الا اله الا الله اشهد ان لا اله الا الله اشهد ان محمد رسول الله  اشهد ان محمد رسول الله ثم يعوذ فيقول اشهد ان لا اله الا الله اشهد ان الا اله الا الله مرتين اشهد ان محمد رسو الله  (وفي نسخة اشهد ان محمد رسو ل الله ) مرتين حي علي الصلوة  مرتين حي علي الفلاح مرتين زاد اسحق الله  اكبر الله اكبر الا اله الا الله (مسلم )
ہاں ان کی تکبری میں ترجیع نہیں تھی اس لیے حضرت ابو محذورہ ﷜ نے فرمایا تھا ۔ مجھے حضور ﷺ نے اذان کے کلمے 19 اور تکبیر کے 17 سکھائے تھے ۔
ان النبي ﷺ علمه  الاذان التاسع عشرة كلمة  والاقامة سبع عشرة كلمة  وقال الترمذي ٰ حديث حسن صحيح
اذان کے کلمے 19 بنتے ہیں جب ترجیع ہو اور تکبیر کے 17 بنتے ہیں جب وہ دوہری  تو ہو مگر  اس میں  زجیع نہ ہو  ترجیع کے معنے ہیں کلمہ شہادتین  ایک دفعہ آہستہ آواز میں  دو ،دو بار  پھر اونچی آواز میں مکرر دو دو بار ۔
جو حضرات ’’ترجیع ‘‘ سے بد کتے ہیں وہ بھی غلطی کرتے ہیں ۔ جیسے کہ کچھ لوگ دوہری تکبیر سے گھبراتے ہیں ۔ کیونکہ یہ دونوں ثابت ہیں ہاں اکہر تکبیر کی روایت زیادہ صحیح ہے لیکن دوسری روایت میں ایک بات زائد ملتی ہے ۔ اس لئے امام شوکانی  فرماتے ہیں وہ صحیح ہے ۔ یعنی اس پر عمل بھی ہو سکتا ہے بہت سے آئمہ کا یہی نظریہ ہے :
قالو الکل ذالک جائز لانہ قد ثبت عن النبیﷺ جميع ذالك و عمله به اصحابه فمن شاء قال الله اكبر  اربعا في اول الاذان ومن شاء ثني الاقامة  ومن شاء افردها الا قوله قد قامت الصلوة فان ذالك مرتان علي كل حال  (كذا قال ابن عبدالبر –نيل )
ہمیں اپنے بعض اساتذہ سے یہ تاثر بھی ملا ہے کہ اگر اذان ترجیع والی  ہو تو تکبیر بھی وہی ہو یعنی دوہری  ہو ۔ اگر اذان بلال ﷜ والی ہو تو تکبیر بھی وہی یعنی قدقامت الصلوٰۃ اور اللہ  اکبر اللہ  اکبر کے سوا باقی اکہرے کلمے ۔ صحیح یہ ہے کہ اذان اور تکبیر دونوں طرح ثابت ہے ۔
اذان ترجیع بھی اور بلا ترجیع بھی ۔ تکبیر اکہری بھی اور دوہری بھی ۔ اگری باری باری یہ سب سنتیں جاری رہیں تو زیادہ مبارک اور بہتر ہے۔
2۔سبحانک اللہم  سے پہلے بسم اللہ ۔
اس سلسلے کی جتنی روایات ہماری نظر سے گزری ہیں ان میں سے کسی بھی روایت  میں اس کا کوئی نشان نہیں ملتا ۔ حالانکہ بسم اللہ اس وقت بھی موجود تھی ،نماز میں پڑھی جار ہی تھی اگر بسم اللہ بھی اس موقعہ پر پڑھی گئی  ہوتی تو ضرور اس کا ذکر آجاتا جیسا کہ سورۃ  فاتحہ سے پہلے  جب وہ پڑھی گئی چھپی نہ رہی ۔ روایات میں اس کا نابتا  بندھ گیا جہاں صورت حال یہ ہواس کو عموم البلویٰ کہا جاتا ہے ۔ بہر حال ہمارے نزدیک عبادات کے بارے میں قیاس کا دخل بہت کم ہے ۔
’’کل امر ذی بال لم يبد آببسم الله نهو اقطع اوابتر  كے عموم سے یہاں استدالال صحیح نہیں  ، کیونکہ اب نماز ‘‘سبحانک اللہم  ‘‘ سے پہلے شروع ہو چکی ہے  اس کے عموم تلقین کے باوجود حضو ر علیہ السلام  کے معمولات میں اگر اس کا نشان نہ ملے  تو یہی کہا جائے گا کہ یہ مرحلہ اس سے مستثنی ٰ ہے ۔ ورنہ یہ الزام آئے گا کہ ایک بات آپﷺ کہہ کر خود اس پر عمل نہیں کرتے حالانکہ رحمۃ للعالمین ﷺ کی پاک زندگی قول اور فعل کے اس تضاد سے پاک ہے ۔ اور بالکل پاک ﷺ اس لیے ہمارے  نزدیک صحیح یہی ہے کہ جتنا اور جیسا کچھ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اسی کے اتباع پر اکتفا کیا جائے اپنی طرف سے مزید کوئی اضافہ نہ کیا جائے ۔ کیونکہ دین ،دین اضافہ نہیں تفویض کا نام دین حق ہے ۔ واللہ اعلم !