اسلامی قانون میں حدیث کا مقام

اگر قرآن حکیم ،مستند روایات اور اسلامی تاریخ کا دیانت و بصیرت کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو یہ  بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید کے بعد اسلامی قانون کا دوسرا قابل اعتماد سر چشمہ رسو ل اللہ کی احادیث ہیں ،قرآن کریم میں ارشاد باری ہے :
﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَت مَصيرًا ﴿١١٥﴾...النساء
’’ جو ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ کے مخالفت پر تل جاتا ہے ،اور سبیل المؤمنین کی بجائے دوسری راہ اختیار  کرتا ہے  تو ہم اسے اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پلٹ گیا ہے اورہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے ۔‘‘
اس آیت میں دو باتوں کی مذمت کی گئی ہے ۔ رسو  ل اللہ کی مخالفت  اور آپ ﷺ کے احکام سے سرتابی ،دوسرا سبیل اللہ سے انحراف کرتے ہوئے دوسرے راستہ کی پیروی ۔ظاہر ہے کہ اگر رسو  ل اللہ کے احکام و فرامین جو احادیث کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں ،اگر ان کی صرف حیثیت تاریخ دین کی ہے تو اس پر اس قدر وعید نہ ہونی  چاہیے تھی گویا یشاقق الرسول ‘‘ کا مفہوم ایک ہی ہے یعنی جو سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرتا ہے اسے جہنم کی وعید سنائی جارہی ہے ۔ اس آیت میں دوسرا جرم جس پرعذاب کی دہمکی دی گئی ہے ،
وہ سبیل المؤمنین سے انحراف ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلی صدی ہجری سے لے کر اب تک حدیث کے بارے میں  اہل ایمان کا کیا رویہ رہا ہے ۔ قابل اعتماد روایات  اور  مستند  اسلامی تاریخ   گواہ ہے لہ معتزلہ اور خوارج میں چند افراد کے سوا پوری امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد سلامی قانون کا ماخذ رسول اللہ ﷺ کی احادیث ہیں ۔ وضاحت و تائید کے لیے صحابہ کرام ﷜ اور سلف صالحین سے مستند اقوال اور ان کی زندگی کے عمل نمونے پیش کیے جارےہےہیں ۔
خلیفہ اول اور حدیث نبویﷺ
حافظ ابن قیم ﷫ نے سنت اور حدیث کے بارے میں حضرت ابوبکر  صدیق ﷜ کا طرز عمل اس طرح نقل کیا ہے ۔ حضرت ابوبکر کے سامنے جب کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو پہلے کتاب اللہ  میں اس کا حل تلاش کرتے ،اگر وہاں رہنمائی نہ ملتی تو سنت رسو ل اللہ کی طرف رجوع کرتے ۔ اگر اس موقعہ پر بھی  نام کام رہتے تو لوگوں سے پوچھتے کہ کیا اس معاملہ میں رسو  ل اللہ  کے فیصلے کا کسی کو علم ہے ؟ بار ہا ایسا  ہواکہ آپ ﷺ کے اس طرح سوال کرنے پر لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے فیصلے سے آپ ﷺ کو مطلع  کیا ۔
تاریخ الخلفاء میں مزید یہ الفاظ ملتے ہیں کہ آپ ﷜ اس قسم کے مواقع پر رسول اللہ ﷺکی حدیث سن کر خوشی سے فرماتے :
الحمد لله الذي جعل بيننا من يحفظ عن نبينا
’’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہم میں سے ایسے لوگوں کو باقی رکھا جن کے سینوں میں ہمارے نبی کی سنت محفوظ ہے ‘‘
حديث  کے بارے میں یہی  روش حضرت عمر ﷜ کے بارے میں  نقل کی گئی ہے ، رسو ل اللہ کی وفات  کے بعد حضرت فاطمہ ؓ اورحضرت عباس ﷜ نے ترکہ نبوی میں سے اپنے اپنے حصہ کا مطالبہ کیا اور ازواج مطہرات ﷢ نے حضرت عثمان ﷜ کے ذریعے اپنا حق وراثت طلب کیا تو حضرت ابو بکر ﷜ نے سب کو ایک ہی حدیث سنا کر مطمئن کر دیاکہ رسو ل اللہ نے فرمایا۔ لا نورث ما تركنا صدقة –
’’انبیاء کرام کا  ترکہ میراث کی طرز پر تقسیم  نہیں ہوتا ہے ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  جنھیں  اس مطالبہ پر اصرار تھا بعد میں وہ بھی راضی ہو گئیں ۔ رسول اللہ کی وفات پر صحابہ کرام ﷢ میں یہ نزاع پیدا ہوئی کہ آپ ﷺ کو کہاں دفن کیا جائے ۔ صحابہ کرام ﷢ کا رحجان مختلف  مقامات کی طرف ۔ اس موقعہ پر حضرت ابو بکر صدیق ﷜ نے یہ حدیث نبوی ﷺ سنا کر اس نزاع کا خاتمہ کر دیا
’’ماقبض الله نبيا  الا في الموضع الذي يحب ان يدفن فيه ‘‘
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد تاریخ اسلام کا وہ نازک مرحلہ پیش آیاکہ جس کی پر قریب تھا کہ انصار و مہاجرین کے درمیان خلافت کے بارے میں اختلاف کی نوعیت شدید صورت اختیار کر لیتی ۔ اس موقعہ پر حضرت ابوبکر صدیق ﷜ نے حیدث رسول  الائمۃ  من قریش ‘‘ پیش کر کے  انصار کے جوش کو ٹھنڈا کر دیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا ۔ حضرت ابو بکر صدیق ﷜ سے جب دادی کے حق  کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ اپنے پوتے کی میراث میں کتنا حصہ پائے گئی توحضرت ابو بکر صدیق ﷜ نے اس بارے میں صحابہ ﷜ سے پوچھا تو محمد بن مسلمہ ﷜ اور مغیرہ بن شعبہ ﷜ نے بتلایا کہ رسو اللہ ﷺ نے دادی کو چھٹا حصہ دلوایا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ﷜ نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا ۔
حضرت عمر ﷜ اور احادیث :
حضرت عمر ﷜نے احادیث کے معاملے میں وہی طرز عمل اختیار کیا جو حضرت صدیق ﷜ نے اپنے عہد حکومت میں اختیار کیا تھا ۔
’’قال  عمر سیاتی قوم یجادلونکم بشبہات القرآن فخذوہم بالسنن فان اصحاب السنن  اعلم بکتاب اللہ ۔
’’آئندہ ایسے  لوگ وجود میں آئیں گے جو قرآن کی آیات میں شبہات پیدا کرکے تم سے بحث ومجادلہ کریں  ایسے لوگوں  پر تم سنن (احادیث ) کے ذریعے گرفت کرو ، اس  لیے کہ سنن والے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا زیادہ علم رکھتے ہیں (یعنی قرآن کریم کا صحیح فہم سنت و حدیث کے علم پر موقوف ہے ،ورنہ انسان شبہات کی وادی میں بھٹکتا پھرے گا )
حضرت عمر ﷜ ایک مرتبہ شام کے ارواے سے نکلے ،جب آپ ﷜ مقام ’’سرغ ‘‘ پر پہنچے تو معلوم  ہوا کہ شام میں طاعون پھیلا ہوا ہے ۔ مزید سفر جاری رکھنے کے بارے میں صحابہ ﷜ میں اختلاف پیداہوا کافی گفتگو کے باوجود کوئی فیصلہ نہ ہو سکا ۔ اس موقعہ پر حضرت عبدالرحمن بن عوف ﷜ نے یہ حدیث پیش کی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جہاں وبا پھوٹ پڑی ہو وہاں نہیں جانا چاہیے ‘‘ یہ  حدیث سنتے ہی صحابہ ﷜ کا اختلاف دور ہو گیا اور حضرت عمر ﷜ لشکر کے ساتھ واپس  مدینہ تشریف لے آئے ، حضرت عمر ﷜ سے دریافت کیا گیا کہ مقتول شوہر کی دیت سے اس کی بیوی حصہ پائے گی یا نہیں ؟ حضرت عمر ﷜ اس کا جواب نفی میں دیتے تھے ، اس موقعہ پر ضحاک بن سفیان آپ سے کہتے ہیں کہ میرے پاس  نبی علیہ السلام  کا نوشتہ موجود ہے کہ آپ ﷺ نے اشعیم ضبابی کو بیوی کو اپنے شوہر کی دیت سے حصہ لینے کا حقدار ٹھہرایا یہ سن کر حضرت عمر ﷜ نے اپنے فیصلے سے رجوع فرما یا ، ایران کی فتح کے بعد جناب عضرت عمر﷜ کے سامنے یہ سوال آیا کہ اہل فارس سے جزیہ لیا جاسکتا ہے یا نہیں قرآن کریم میں اس سلسلے میں کوئی حکم واضح نہیں ہے آپﷺ نے صحابہ ﷺ سے دریافت کیا ، اس موقعہ پر حضرت عبدالرحمن بن عوف ﷜ نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ نے ہجر ‘‘ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا ۔ اس وضاحت کےبعد آپ ﷜ نے اہل فارس سےبھی  جزیہ لینا شروع کردیا ۔
حضرت عثمان ﷜اور حدیث :
حضرت عثمان ﷜ کا خیال تھاکہ جس عورت کا شوہر مر جائے وہ جہاں چاہے مدت گزارسکتی ہے لیکن جب ابو سعید خدری ﷜ کی بہن فریعہ بنت مالک نے اپنا واقعہ پیش کیا کہ میرا شوہر قتل کیا گیا تھا ۔ میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے شوہر کے مکان  میں مدت گزارنے  کا حکم دیا تو حضرت عثمان ﷜ نے اسی روایت کے مطابق فیصلہ کیا ۔
حضرت عثمان ﷜ کے ہاتھ پر صحابہ ﷜ نےجن الفاظ میں بیعت کی وہ یہ تھے ۔
’’ہم تمہارے ہاتھ پڑ اللہ تعالیٰ کی کتاب ‘ اس کے رسول ﷺ کی سنت اور حضرت ابوبکر صدیق ﷜ اور حضرت عمر ﷜ کے طریقے پر بعیت کرتے ہیں ،تاریخ گواہ ہے کہ حضرت عثمان ﷜ نے سر موبھی  اس معاہدہ  بعیت سے تجاوز نہیں کیا حضرت عثمان ﷜ حج کے موسم میں تمتع کے قائل نہیں تھے ۔ جب حضرت علی ﷜ نے حدیث بیانکی تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ۔
حضرت علی ﷜ اور حدیث نبوی ﷺ
حضرت علی ﷜ کے پاس چند مرتد لائے گئے ، آپ ﷜ نے انھیں آگ میں جلانے کا حکم دیا ۔ حضرت عبداللہ  ابن عباس ﷜ نے حدیث سنائی کہ آنحضرت ﷺ کا ارشادہے :
’’من بدل دینه فاقتلوہ ‘‘
’’مرتد ین کا خاتمہ تلوار سے کیا جاسکتا ہے نہ کہ آگ میں جلا کر ‘‘
حضرت  علی ﷜ نے یہ سن کر فرمایا ‘ صدق  ابن عباس ‘‘ یعنی ابن عباس ﷜ سچ کہتے ہیں ‘ حضرت علی ﷜ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر دین کا دارومدار رائے اور قیاس پر ہوتا تو موزوں پر نیچے سے مسح کیا جاتا لیکن آنحضرت ﷺ نے موزوں کے اوپر مسح کیا ہے ۔ حضرت علی ﷜ نے کتاب و سنت کی اتباع میں ٹھیک وہی روش اختیار کی جس پر ابو بکر صدیق ﷜ اور حضرت عمر ﷜ زندگی بھر قائم رہے ۔ حضرت علی ﷜ یہ دعا فرمایا کرتے تھے ‘‘ خداوندا ! جس طرح تو نےخلفاء راشدین کی رہنمائی کی مجھے بھی اپنی ہدایت سے  مالامال فرما کسی نے سوال کیا کہ خلفا ۔ راشدین کون ہیں ؟ اس موقعہ پر آپ ﷜ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور فرمایا:
’’هما حبيباي ابو بكر وعمر اماما الهديٰ وشيخا الاسلام ‘‘
یعنیٰ خلفاء راشدین سے میری مراد ابوبکر ﷜  اور حضرت عمر ﷜ ہیں جو میرے محبوب ہیں اور ہدایت کے امام ہیں اسلام کی باعظمت شخصیتیں ہیں ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ﷫ اورحدیث نبوی ﷺ
حضرت عمر بن عبدالعزیز  نے ایک مرتبہ فرمایا کہ رسو ل اللہ اور ولاۃ امر یعنی خلفائے راشدین نے آب کے بعد بہت سی سنتیں قائم کی  ہیں جنھیں  اختیار کرنا کتاب اللہ کی تصدیق باہم معنیٰ ہے ۔ اس طرح اطاعت الہی میں کمال حاصل ہوتا ہے اور اس کے دین کے لیے قوت و طاقت میں فراوانی ہوتی ہے ۔ ان سنتوں تغیر و تبدل جائز نہیں ہے ۔ اور نہ ہی ان کی مخالفت گوارا کی جاسکتی ہے ۔ جس نے ان پر عمل کیا اس نے ہدایت  پائی اور جس نے انکا سہارا لیا اس نے غلبہ پایا اور جس نے ان کی مخالفت کی اس نے مومنین  کی راہ چھوڑ کر دوسرے راستہ کی پیروی کی ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا یہ قول امام مالک  کو بہت پسند آیا ۔ باربار اسے دہرایا کرتے تھے ۔ یہ حضرت عمر ثانی کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے حدیث کی باقاعدہ جمع و تدوین کے لیے محدثین کرام کو آمادہ کیا اور اس کےلیے حکومت کے وسائل و ذرائع مہیا کیے ۔
امام ابو حنیفہ  اور حدیث نبویﷺ:
منکرین حدیث نے حضرت امام ابو حنیفہ  کو اپنے زمرے میں شامل کیا ہے جو کہ اسراسر افتراء ہے۔ اختصار ا ً آپ کے چند قول نقل کیے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کے دل میں سنت رسول ﷺ یک کیا قدر ومنزلت تھی ۔
’’لو لا سنة ما فهم احد منا القراٰن ‘‘
’اگر سنت کا وجود نہ ہوتا تو کوئی بھی ہم سے قرآن کریم کا فہم حاصل نہ سکتا ‘‘
"اياكم والقول في دين الله بالراي و عليكم باتباع السنة ممن خرج عنها ضل –
’اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں رائے اور بہتان سے بچو اور سنت کی پیروی کو اپنے اوپر لازم کر لو، جو سنت  کے دائرہ سے نکلا وہ گمراہ ہوا ‘‘
اذا صح الحديث فهو مذهبی –
"اذا قلت فولا يخالف كتاب الله وحديث الرسول فاتركو ا قولي "
’’جب میں ایسی بات بیان کروں جو کتاب اللہ اور حدیث رسو ل ﷺ کے خلاف ہو تو میری بات چھوڑ دو ۔
امام مالک ﷫اورحدیث نبوی ﷺ
امام مالک  فرماتےہیں :
انما انا بشر اخطيء و اصيب فانظروا في راي فكل  ما وافق الكتاب والسنة فخدوه وكل ما لم يوافق الكتاب فاتركوه "
’’بس میں ایک انسان ہی ہوں ،غلط اور صحیح دونوں قسم کے فتوے دے سکتا ہوں ، میری رائے میں غور کرو اگر کتاب و سنت کے موافق ہو تو قبول کر و  ورنہ رد کردو ‘‘
’’لیس احد الا يؤخذ من قوله يترك  الا النبي ﷺ
’’ہرشخص کی بات کو اختیار بھی کیا جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جاسکتا ہے سوائے آنحضرت ﷺکے کہ آپ ﷺ یک بات ہر حالت میں اپنانا ہی پڑے گی ‘‘
امام شافعی اور حدیث نبوی ﷺ
’’اجمع المسلمون علي ان من استبان له سنة عن رسو ل الله ﷺ لم  يحل له ان يدعها بقول احد ‘‘
’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب  رسول اللہ ﷺ کی سنت سامنے آجائے تو پھر اس بات کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ کسی کےقول کی بنا پر اسے ترک کر دیا جائے ‘‘
امام احمد بن حنبل اور حدیث نبوی ﷺ
امام احمد بن حنبل کو احادیث کی تدوین اور درس و تدریس کا شوق رہا ہے ، ان کے قول ہے ’’من رد حديث رسول الله فهو علي شفا هلكة ‘‘
’’جس نے حضور ﷺ کی حدیث رد کی وہ ہلاکت و تباہی کےکنارے پہنچ گیا ‘‘
معلوم ہواکہ مسلمانوں کے ہرمکتب فکر نے حدیث کو اسلامی قانون کا ماخذ تسلیم کیا ہے ‘ پس یہی وہ سبیل المؤمنین ہےجو حدیث وسنت کی روشنی میں واضح ہو کر ہمارے سامنے آتا ہے ۔