آدابِ دعاء

موضوع کا تقاضا ہے کہ ہم وسیلہ کا بیان ایک مستقل فصل میں کریں، خواہ وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو، تاکہ اس موضوع کے بارہ میں صحیح بات واضح ہو سکے۔
توسل کا لغوی معنیٰ: مطلوبہ چیز کا قرب، اور شوق کے ساتھ اس تک پہنچنا، توسل کہلاتا ہے۔
وسیلہ اس ذریعہ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے قرب حاصل ہو۔۔۔دعا کرنے والا جب یہ سمجھے کہ اس سے حقوق اللہ کے بارہ میں کوتاہیاں ہو چکی ہیں، اور وہ اللہ کی ممنوعہ حدود کا مرتکب ہو چکا ہے، تو جس شخص کو اپنے سے افضل سمجھتا ہو وہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دعا زیادہ سے زیادہ فضیلت والی ہو، اور جلد قبول ہو جائے۔ چونکہ توسل بھی عبادت کے ضمن میں ہے، اس لیے اس کی دو قسمیں ہو جاتی ہیں:
1۔ اس کی ایک قسم مشروع ہے، جس کا ثبوت قرآن کریم اور سنت صحیحہ سے ملتا ہے۔
2۔ اور دوسری قسم غیر مشروع ہے، جس کا جواز قرآن کریم اور سنت صحیحہ سے نہیں ملتا، بلکہ کتاب و سنت سے اس کا شرک ہونا ظاہر و باہر ہے۔

توسل کی جائز صورتیں


اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کے توسل ہمارے لئے مشروع قرار دئیے ہیں، جن کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ داعی کی دعا قبول فرماتے ہیں، بشرطیکہ قبولیت دعا کی باقی شروط بھی مکمل موجود ہوں۔
کتاب و سنت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ توسل کی تین انواع مشروع ہیں:
1۔ اللہ کے پیارے ناموں یا بلند صفات میں سے کسی کو دعا کے لئے وسیلہ بنانا:
مثلا یوں دعا کرے:
"أللهم إنى أسألك بأنك الرحمن الرحيم اللطيف الخبير أن تعافينى"
"اے اللہ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، چونکہ تو الرحمان الرحیم ہے، الطیف الخبیر ہے، لہذا مجھے عافیت عطا فرما"
یا یوں دعا کرے:
" أسألك برحمتك  التى وسعت كل شىء أن ترحمنى وتغفر لى "
"(اے اللہ) میں تیری اس رحمت کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں جو ہر چیز پر وسیع ہے کہ تو مجھ پر رحم فرما اور مجھے بخش دے"
یا یوں کہے:
" أللهم إنى أسألك بحبك لمحمد صلى الله عليه وسلم"
"اے اللہ، میں تجھ سے اس محبت کے حوالہ سے سوال کرتا ہوں جو تجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔"
ان دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کے اسماء۔۔۔الرحمن، الرحیم، الطیف، الخبیر۔۔۔کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ رحمت و محبت کا توسل اختیار کیا گیا ہے۔ کیونکہ محبت و رحمت کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی بلند صفات میں سے ہے۔
توسل بالاسماء والصفات کی مشروعیت کی دلیل:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى... ١٨٠﴾...الأعراف
 "اللہ تعالیٰ کے پیارے پیارے نام ہیں، انہی ناموں سے اسے پکارا کرو۔"
اسی طرح فرمایا:
﴿قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ... ١١٠﴾...الإسراء
"( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرما دیجئے، تم اللہ کو "اللہ" کے نام سے پکارو یا "رحمٰن" (کے نام سے) ۔۔۔ جس نام سے بھی پکارو اس کے سب ہی اچھے نام ہیں"
اسی طرح حدیث میں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کی پریشانیاں بڑھ جائیں وہ یہ دعا پڑھے:
" أللهم إنى عبدك و ابن عبدك وابن أمتك  ناصيتى بيدك . ماض فى حكمك . عدل فى قضاؤك أسئلك بكل اسم هو لك سميت به نفسك أو علمته أحد من خلقك أو أنزلته فى كتابك أو استأثرت به فى علم الغيب عندك أن تجعل القرآن ربىع قلبى ونو ر صدرى وجلآء حزنى وذهاب همى"( مسند احمد: 1/391
"یا اللہ میں تیرا بندہ، تیرے بندے اور بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے۔ تیرے حکم مجھ پر نافذ ہیں۔ تیسرے فیصلے میرے بارے میں درست اور انصاف والے ہیں۔ تو نے اپنے جو نام رکھے، یا کسی مخلوق کو سکھائے، یا اپنی کتاب میں نازل فرمائے، یا اپنے ہاں علم الغیب میں محفوظ رکھے ہیں، میں ان تمام ناموں کا تجھے واسطہ دیتا ہوں کہ قرآن کریم کو میرے دل کی بہار، میرے سینہ کا نور، میرے غموں کی جلاء اور میری پریشانیوں کے ازالہ کا ذریعہ بنا"
2۔ داعی کا اپنے کسی نیک عمل کو وسیلہ بنانا:
مثلا یوں کہے:
أللهم بإيمانى بك . ومحبتى لك وإتباع لرسول إغفرلى"
"اے اللہ، تجھ پر میرے ایمان رکھنے کے سبب، تجھ سے میری محبت کے واسطہ سے اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے سبب (میں سوال کرتا ہوں کہ) تو مجھے بخش دے"
یا یوں کہے:
" أللهم إنى أسألك بحبى لمحمد صلى الله عليه وسلم  و إيمانى به أن تفرج عنى"
"اے اللہ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ چونکہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں لہذا میری مشکل کو دور فرما دے"
یعنی انسان اپنے اللہ پر ایمان کو، اللہ تعالیٰ سے محبت کو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے عمل کو بطورِ وسیلہ پیش کرے۔
نیک اعمال سے توسل کی مشروعیت کے دلائل:
قرآن کریم میں ہے:
﴿الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿١٦﴾...آل عمران
"وہ لوگ جو کہتے ہیں "ہمارے رب بے شک ہم ایمان لائے۔ لہذا ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھ"
نیز قرآن مجید میں ہے:
﴿رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ﴿٥٣﴾...آل عمران
"اے ہمارے رب، ہم تیرے نازل کردہ احکام پر ایمان لائے، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی۔ اس لیے تو ہمیں (اپنی وحدانیت کی) گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔"
اسی ضمن میں غار والوں کا مشہور واقعہ ہے، جس کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تین آدمی ایک غار میں داخل ہوئے کہ غار کے منہ پر پہاڑ سے ایک بہت بڑا پتھر آن گرا اور غار کا منہ بند ہو گیا۔ وہ کہنے لگے کہ اس مصیبت سے نجات کے لیے اپنے نیک اعمال پیش کر کے اللہ سے دعا کرو، اس کے علاوہ نجات کی کوئی صورت نہیں۔ تو ان تینوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر اللہ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے پتھر کو ہٹا دیا اور وہ باہر نکل آئے۔
3۔ نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ:
کسی نیک آدمی سے دعا کروانا:
یہ بھی شریعت مطہرہ میں جائز اور مشروع توسل کی ایک قسم ہے۔ اور سنت میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں۔۔۔چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قحط سالی ہو گئی۔ جمعہ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ ایک اعرابی کھڑا ہو کر کہنے لگا، "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، مال مویشی ہلاک ہو گئے، اور بچے بھوکوں مر گئے، اللہ سے دعا کیجئے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے۔ اس وقت فضا میں بادل کا کوئی ٹکڑا تک نظر نہیں آ رہا تھا۔ قسم بخدا ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ نیچے نہیں کیے تھے کہ پہاڑوں کی مانند بڑے بڑے بادل امڈ آئے اور فضا میں پھیل گئے۔ پھر ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف نہیں لائے تھے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک سے بارش کے پانی کے قطرے گرتے دیکھے۔۔۔بارش مسلسل ایک ہفتہ تک ہوتی رہی۔
آئندہ جمعہ کو وہی اعرابی یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور بولا، "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، کثرت باراں کی وجہ سے مکانات گر گئے اور مال غرق ہو گئے، اللہ سے دعا کیجئے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے او فرمایا: "یا اللہ، ہمارے اوپر نہیں ارد گرد برسا" آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف بھی انگلی مبارک سے اشارہ کرتے جاتے تھے بادل بھی ساتھ ساتھ ہٹتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ فضا کٹورے اور گڑھے کی مانند بن گئی۔ اس بارش کے سبب وادی قناۃ مہینہ بھر بہتی رہی۔ ارد گرد کے علاقوں سے ہر آنے والے نے بارش کی کثرت اور اللہ کی رحمت کی خبر دی۔" (صحیح بخاری 2/512)
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ عہدِ فاروقی میں جب قحط پڑتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ بارش کی دعا کرتے۔ اور کہتے "یا اللہ، جب تک ہمارے اندر تیرا نبی صلی اللہ علیہ سلم موجود تھا، ہم اس کے وسیلہ سے دعائیں کراتے اور تو ہمیں بارش عطا فرما دیتا تھا۔ اب ہم تیرے سامنے تیرے نبی کے چچا کو پیش کرتے ہیں تو (اس کی دعا) کے ذریعے ہمیں بارش عطا فرما۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، "اس دعا سے بارش ہو جاتی تھی۔" (صحیح بخاری 2/398)
اس واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ہم پہلے نبی صلی اللہ علیہ سلم کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے اور اب نبی صلی اللہ علیہ سلم کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں یعنی نبی صلی اللہ علیہ سلم کی زندگی میں ہم نبی صلی اللہ علیہ سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے دعا کی درخواست کرتے اور ان کی دعا سے تیرا قرب حاصل کرتے تھے، اب وہ ہمارے اندر موجود نہیں اور اب ان کا دعا کرنا ممکن نہیں، اس لئے ہم آپ صلی اللہ علیہ سلم کے چچا کو پیش کرتے ہیں کہ وہ تیرے سامنے دعا کریں۔
۔۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ سلم کے مقام کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ سلم کے چچا کے مقام کو بطور وسیلہ پیش کرنے لگے۔ کیونکہ یہ تو بدعت کے قسم کی دعا ہے۔ جس کی کتاب و سنت میں کوئی اصل نہیں، اور سلف صالحین میں سے کسی نے اس طور پر دعا نہیں کی، رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
(علاوہ ازیں اگر یہ مقام یا ذات کے وسیلہ کی بات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ سلم کو چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ سلم کے چچا سے کیوں دعا کروائی گئی؟ پس معلوم ہوا کہ ایک تو یہ زندہ نیک آدمی سے دعا کرانے کی بات ہے، جو مشروع توسل کی ایک صورت ہے اور یہی زیر بحث بھی ہے، ثانیا اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا جائز نہیں۔ ثالثا اس سے فوت شدگان کو دعا وغیرہ کے لیے پکارنے کی نفی ثابت ہوئی، ورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور صلی اللہ علیہ سلم کو چھوڑ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی طرف کبھی متوجہ نہ ہوتے۔ مترجم)
پس گزشتہ تفصیل سے ثابت ہوا کہ کتاب و سنت اور تعامل اسلاف کی روشنی میں صرف تین قسم کا وسیلہ پیش کرنا مشروع ہے:
1۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا۔
2۔ داعی کے اپنے کسی نیک عمل کا۔
3۔ کسی زندہ بزرگ اور صالح آدمی کی دعا کا۔[1]
دعا کی عدمِ قبولیت کے اسباب کا بیان
جب فوری طور پر دعا قبول نہ ہو تو اس کے کئی احتمال ہو سکتے ہیں:
1۔ یا تو دنیا میں جس وقت دعا کی قبولیت دعا کرنے والے کے حق میں مفید ہو، اس وقت دعا قبول ہوتی ہے۔
2۔ یا دنیا میں وہ دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ دعا مانگنے والے کی دعا کو کسی دوسرے انداز میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلا یوں کہ کوئی دکھ یا پریشانی، جو اس کے مقدمہ میں تھی، وہ دور کر دی گئی۔۔۔اور اسی میں ہمارے لیے سراسر خیر اور بھلائی ہے۔ کیونکہ دعا سے بھی ہمارا مقصود اپنے لیے بھلائی طلب کرنا اور تکالیف کا ہٹانا ہے، لیکن ہم اپنے قصورِ فہم کی بناء پر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جو چیز ہم نے طلب کی وہ ہمارے لیے بہتر ہی بہتر ہے۔ مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے بیٹا مل جائے تو بہت اچھا ہوتا کہ اس کی وجہ سے خوشی ہو، اس کی اچھی تربیت کر سکے اور وہ بچہ دنیا میں بہترین وارث ثابت ہو، حتیٰ کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے نام کی شہرت کا سبب بنے۔۔انسان یہ سب کچھ تو سوچتا ہے۔ مگر یہ خیال تک اسے نہیں آتا کہ یہ بچہ اس کے لیے وبال، مصیبت اور پریشانی کا سبب بھی تو بن سکتا ہے۔۔ قرآن کریم میں ایسے ہی ایک لڑکے کا ذکر ہوا ہے:
﴿وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا ﴿٨٠﴾ فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ﴿٨١﴾...الكهف
"اور وہ جو لڑکا تھا، اس کے والدین مومن تھے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ (بڑا ہو کر اپنی بدکرداری کی وجہ سے) ان کو سرکشی اور کفر میں مبتلا نہ کر دے۔ تو ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کی جگہ ان کو اور (بچہ) عطا فرمائے جو پاک طینتی میں بہتر اور محبت میں زیادہ قریب ہو۔"
اسی طرح انسان بار بار مال کی کثرت سے دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے مالدار بنا دے۔ مگر اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ کیونکہ احتمال ہے کہ وہ مال انسان کے لیے ہلاکت اور تکبر کا سبب بن جائے اور اس کے لیے غربت و فقیری میں ہی بہتری ہو۔
پس کسی چیز کا بہتر ہونا یا نہ ہونا ہم اس بارہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کہاں بہتری ہو گی اور کہاں نہیں؟
اس بات کی تائید و تصدیق قرآن کریم سے یوں ہوتی ہے:
﴿فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّـهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ﴿١٩﴾...النساء
"عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت سے بھلا پیدا کر دے۔"
اسی طرح قرآن مجید میں دوسری جگہ ہے:
﴿وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٢١٦﴾...البقرۃ
"اور عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں بری لگے اور درحقیقت تمہارے لیے مضر ہو، (چیزوں کی حقیقت کو) اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔"
(جاری ہے)


[1]  ما ذ از كتاب التوسل وانواعه  للشيخ محمد نا صر الدين الالبانى حفظه الله تعالى ومتعنا بطول حياته- آمین
یہ انتہائی مفید کتاب ہے، ہم قارئین سے اس کے مطالعہ کی سفارش کرتے ہیں۔