ماہنامہ محدث

قارئین کرام!
ماہنامہ "محدث" کے گزشتہ تین شماروں میں جناب پروفیسر محمد دین قاسمی کا مضمون بعنوان "اشتراکیت کی درآمد قرآن کے جعلی پرمٹ پر" شائع کیا گیا۔ جس کے ردِعمل میں ناظم ادارہ "طلوعِ اسلام" لاہور کی طرف سے مدیرِ اعلیٰ "محدث" کو خط موصول ہوا جس میں جناب قاسمی صاحب کے مضمون کا تنقیدی جائزہ لیا گیا تھا۔ اس پر ادارہ نے یہ خط براہِ راست صاحب مضمون کو ارسال کر دیا، جس کے جواب میں جناب موصوف نے ایک مفصل خط بنام ادارہ طلوعِ اسلام لکھا اور اس کی ایک نقل ہمیں بھی ارسال فرمائی۔
ہم اپنی سابقہ منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بڑی فراخدلی کے ساتھ ادارہ "طلوعِ اسلام" کا خط ان کی خواہش کے مطابق اور جناب قاسمی صاحب کا جواب شائع کر رہے ہیں اور اپنے معاصر "طلوعِ اسلام" سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ ہماری طرح وہ بھی ان دونوں خطوط کو شائع کرے گا کیونکہ انصاف کا یہی تقاضا ہے۔۔۔۔ادارہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب
مدیر ماہنامہ "محدث" لاہور
99 جے ماڈل ٹاؤن، لاہور
السلام علیکم، مزاج بخیر
کتاب و سنت کی روشنی میں آزادانہ بحث و تحقیق کا حامی، علمی، اصلاحی، عناد اور تعصب سے پاک ملتِ اسلامیہ کا ماہوار مجلہ "محدث" بابت دسمبر 1988ء نظر سے گزرا۔ قطع نظر اس کے کہ رسالہ میں شامل مضامین کس حد تک ماہنامہ کے اس مخصوص طرزِ فکر کے غماض ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اتنے اوصاف کا مالک یہ ماہنامہ امانت ، دیانت اور شائستگی کا سبق کیوں بھول گیا۔
ماہنامہ کے صفحہ 48 تا 58 پر پروفیسر محترم محمد دین قاسمی صاحب کا ملکیتِ زمین پر بظاہر تحقیقی مقالہ شاملِ اشاعت کیا گیا ہے جس میں محترم قاسمی صاحب نے غلام احمد پرویز مرحوم کے استدلال سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ یہ اختلاف دنیا جانتی ہے کہ نیا نہیں اور نہ ہی غلام احمد پرویز وہ واحد شخصیت ہیں، جو زمین کو متاعِ بندہ اور ملکِ خدا سمجھتے ہیں، لیکن تحقیق و تنقید کی آڑ میں کردار کُشی کے لئے مقالہ نگار نے پرویز ہی کو لاوارث جانا۔ فرماتے ہیں، پرویز کہتا ہے:
"جہاں تک کمیونزم کے معاشی نظام کا تعلق ہے، وہ اسلام کے معاشی نظام سے متماثل ہے۔"
لیکن اس کتاب میں جا بجا درج پرویز مرحوم کے یہ الفاظ انہیں نظر نہیں آئے کہ:
"اس میں شبہ نہیں کہ کمیونزم میں بھی ذاتی ملکیت کی نفی ہوتی ہے، لیکن صرف اتنی سی بات سے کمیونزم جیسا خلافِ اسلام تصور حیات اسلام تو نہیں بن سکتا۔ کمیونزم اور اسلام دو متضاد عناصر ہین، جو کبھی ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ کمیونزم نہ خدا کی قائل ہے نہ کائنات اور انسانی زندگی کے کسی مقصد کی۔ نہ وہ وحی کو مانتی ہے نہ مستقل اقدار کو۔ نہ وہ انسانی ذات کی قائل ہے نہ مرنے کے بعد زندگی کے تسلسل کی۔ نہ وہ قانونِ مکافات کو تسلیم کرتی ہے نہ اس کے غیر متبدل اصولوں کو۔"
اپنی کتاب نظام، ربوبیت میں جس کا ایک ایک لفظ فاضل مقالہ نگار نے پڑھا ہے۔ یہ کچھ لکھنے کے بعد پرویز قوم کو دعوت دیتا ہے کہ: "آپ سوچئے! کہ ایک ایسے نظامِ زندگی کو جو ان تمام اقدار کے افکار پر مبنی ہو اسلام سے کیا واسطہ ہو سکتا ہے؟" لیکن آپ نے 424 صفحات پر پھیلی ہوئی کتاب میں سے ایک جملہ اچک کر فتویٰ صادر فرما دیا کہ: "پرویز اشتراکیت کو عین اسلام قرار دیتا ہے۔" یہی کچھ فاضل مقالہ نگار نے اللہ کی کتاب کے ساتھ کیا ہے اور پھر وہی بدنامِ زمانہ گھسے پٹے جملے پرویز منکر حدیث ہے۔بے شرم ہے۔ بے حیا ہے۔۔۔دعوت آپ کی اس کے باوجود یہ ہے کہ اگر آپ منصفانہ اور معتدلانہ رویہ پسند کرتے ہیں تو "محدث" کا مطالعہ کیجئے۔ معلوم نہیں "محدث" کے قارئین آپ کے اس طرزِ عمل کو کتمانِ حقیقت کہیں گے یا تجاہل عارفانہ! لیکن ہم اتنا عرض کر دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ یہ طریقہ واردات اب بہت پرانا ہو چکا ہے۔ علم و آگہی کی دنیا میں پرویز اب اتنا اجنبی بھی نہیں کہ جو چاہا توڑ مروڑ کر اس کے نام "منصوب[1]" کر دیا۔ کسی بحث میں الجھے بغیر ہماری آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ تنقید بغرضِ کردار کشی، نہ تبلیغِ دین ہے نہ نشر و اشاعتِ اسلام۔ پرویز نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ جو کچھ اس نے پیش کیا ہے وہ سہو و خطاء سے منزہ اور حرفِ آخر ہے۔ اس کی یہ گزارش آپ کو اس کتاب میں بھی درج ملے گی کہ اگر "اربابِ فکر و ںظر کو اس تجزیہ حالات میں کوئی سقم نظر آئے، تو اس کی نشاندہی کے لئے میں ان کا شکر گزار ہوں گا۔" لہذا پرویز کی قرآنی فکر کو آپ بصد شوق زیربحث لائیں ہمیں خوشی ہو گی بشرطیکہ آپ جو کچھ کہیں اس کی تائید میں قرآنی سند پیش کی جائے۔ لیکن خدا را ایسی زبان استعمال نہ کیجئے جس کو اپنانا ہم وابستگان دامنِ قرآنی کے بس میں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سوچنے، صحیح سمجھنے اور صحیح لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ویسے جراءت کردار اور صحافتی دیانت کا تقاضا ہے کہ آپ ہماری ان معروضات کو بھی "محدث" میں جگہ دیں۔ گو تجربہ شاہد ہے آپ ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔
والسلام
نیاز مند
محمد لطیف چوہدھری
ناظم ادارہ، طلوعِ اسلام، لاہور
مورخہ 27/12/88
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکرمی و محترمی جناب محمد لطیف چوہدری صاحب
ناظمِ ادارہ طلوعِ اسلام، لاہور
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، مزاج بخیر
آپ کی طرف سے 27 دسمبر 1988ء کو مدیر ماہنامہ "محدث' کے نام لکھا جانے والا خط مجھے بھیج دیا گیا۔ کیونکہ جس مقالہ "اشتراکیت کی درآمد، قرآن کے جعلی پرمٹ پر" کو آپ نے ہدفِ اعتراض بنایا ہے وہ میں نے ہی لکھا تھا۔ اس لئے آپ کے مکتوب کی جواب وہی کے لئے میں خود حاضرِ خدمت ہوں۔
1۔ یہ درست ہے کہ پرویز صاحب نے اشتراکیت کے معاشی نظام اور قرآن کے معاشی نظام کو باہم متماثل قرار دینے کے بعد یہ بھی لکھا ہے کہ ۔۔۔"کمیونزم اور اسلام دو متضاد عناصر ہیں، جو کبھی ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ کمیونزم نہ خدا کی قائل ہے نہ کائنات اور انسانی زندگی کے کسی مقصد کی۔ نہ وہ وحی کو مانتی ہے اور نہ مستقل اقدار کو۔ نہ وہ انسانی ذات کی قائل ہے نہ مرنے کے بعد زندگی کے تسلسل کی۔ نہ وہ قانونِ مکافات کو تسلیم کرتی ہے نہ اس کے غیر متبدل اصولوں کو۔
اب اسلام اور اشتراکیت کو باہم متماثل قرار دے ڈالنے کے بعد یہ راگ الاپنا کہ اشتراکیت خدا، وحی اور آخرت وغیرہ کی منکر ہے اور اسلام ان امور کو اساسی طور پر مانتا ہے۔ پانی میں مدھانی چلانے کے مترادف ہے۔ جو چیز اصلا قرآن کے خلاف ہے اسے داخلِ اسلام کر کے اس کے ساتھ عقائد اسلام کو نتھی کر دینا خود فریبی بھی ہے اور فریب دہی بھی۔ جس طرح اشتراکیت کا معاشی نظام اپنی عین اصل کے مطابق تعلیماتِ قرآن کے خلاف ہے بالکل اسی طرح کیپٹلزم کا سودی نظام بھی خلافِ اسلام اور خلافِ قرآن ہے۔ پس جس طرح سودی نظام کو اختیار کرنے کے بعد،خدا، وحی، آخرت (یا بقول آپ کے وحی مستقل اقدار اور قانونِ مکافات وغیرہ کے) عقائد کا قبول کر لینا سودی نطام کو سندِ جواز عطا نہیں کرتا۔ بالکل اسی طرح اشتراکیت کے معاشی نظام کو اپنا کر اسلامی عقائد کا اعتراف بھی اسے جائز اور درست نہیں بنا سکتا۔ لہذا اشتراکیت کی بنی بنائی عمارت کی اسفل ترین تہوں میں سے انکارِ خدا اور کفرِ آخرت کی اینٹوں کو نکال کر، اس کی بنیاد میں خدا و رسول یا وحی و آخرت کے عقائد کو اساسی اینٹوں کے طور پر رکھ دینا، اسے اسلامی تہذیب و تمدن کی عمارت میں تبدیل نہیں کر سکتا، کیونکہ عمارت کا نقشہ، مقصد، رُخ، ڈیزائن اور اس کی سمت وغیرہ سب پہلے ہی سے اشتراکی نقطہ نظر سے طے شدہ ہے۔ البتہ اس کاروائی سے اشتراکیت جیسے دہریانہ اور ملحدانہ نظام کو ایک ایسی جونک میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جو عقائد اسلام کا خون چوس کر پلتی رہے۔ لیکن آپ لوگ ہیں کہ اشتراکیت کے ساتھ عقائدِ اسلام کا ضمیمہ نتھی کر کے اسے مشرف باسلام کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ہم بہرحال اس بات سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں کہ "اشتراکیت + خدا= اسلام جیسی مساوات کی آر میں کفر و اسلام کا ملغوبہ تیار کریں۔ بہرحال، اشتراکیت اور اس کا شخصی ملکیت کی نفی کا تصور بنیادی طور پر خلافِ قرآن اور خلافِ اسلام ہے۔ پرویز صاحب نے بڑے تکلف و تصنع سے اسے قرآن سے کشید کیا ہے۔
اس کے لئے انہوں نے لغت اور تفسیرِ قرآن میں جو کوہ کنی کی ہے اپنے مقالے میں میں نے اس کا جائزہ لیا ہے۔ آپ نے اس کی صرف پہلی ہی قسط ملاحظہ فرما کر خط لکھنے میں عجلت سے کام لیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر آپ اس مقالہ کی جملہ اقساط کو ملاحظہ فرما کر مکتوب لکھتے۔
2۔ شخصی ملکیت کے بارے میں پرویز صاحب کے مؤقف کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: "دنیا جانتی ہے کہ یہ اختلاف نیا نہیں ہے۔ آپ کی یہ بات مبنی بر صحت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک اسلامی دنیا کا ایک بھی سکالر ایسا نہیں گزرا جو افراد کی شخصی ملکیت کا منکر ہو۔ (کارل مارکس 1818ء-1883ء) کے فکر کے ترویج کے نتیجہ میں برصغیر میں اسے پرویز صاحب نے بڑی بلند آہنگی کے ساتھ منسوب الی القرآن کیا ہے اس سے قبل کا چودہ صدیوں پر مشتمل اسلامی ادب، انفرادی ملکیت کی نفی کے تصور سے قطعی نا آشنا ہے۔
3۔ آپ نے مجھ پہ یہ الزام عائد کیا کہ میں نے پرویز صاحب کی کردار کشی کی ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ آیا آپ لوگ "کردار کشی کرنے" اور کسی سے "دلیل و حجت کے ساتھ اختلاف کرنے" میں جو باہمی فرق ہے اس سے واقف بھی ہیں یا کہ نہیں۔
بندہ خدا! میں نے پہلے بھی بذریعہ محدث (اکتوبر 1988ء صفحہ 62) آپ سے عرض کیا ہے کہ کسی کے نقطہ نظر سے برہان و حجت کے ساتھ اختلاف کرنا، اس پر کیچڑ اُچھالنے یا اس کی کردار کشی کرنے کا ہم معنی نہیں ہوتا۔ آپ کی یہ بات صرف اسی صورت میں مبنی بر صداقت قرار پا سکتی ہے جبکہ میں نے پرویز صاحب کے ذاتی عیوب و نقائص اور شخصی برائیوں اور خامیوں پر بحث کی ہوتی اور یہ ظاہر ہے کہ میرا قلم بفضلہ تعالیٰ اس آلودگی سے آلودہ نہیں ہوا۔ آپ اپنے دل کو ٹٹولئے کہیں ایسا تو نہیں کہ پرویز صاحب سے آپ کو جو محبت ہے وہ حدِ اعتدال سے اس قدر تجاوز کر گئی ہو کہ اب ان سے مدلل اختلاف کرنے والا بھی آپ کو ان کی کردار کشی کرنے والا ہی نظر آتا ہے۔
4۔ (ا) آپ فرماتے ہیں کہ: "حیرت اس بات پر ہوئی کہ اتنے اوصاف کا مالک، یہ ماہنامہ "محدث" امانت، دیانت اور شائستگی کا سبق کیوں بھول گیا۔
آپ کا یہ الزام ثبوت سے عاری اور دلیل سے مفرا ہے، بلا دلیل و حجت آپ کا الزام آخر کس طرح قابل تسلیم ہو گا؟
(ب) آپ نے فرمایا ہے کہ۔۔ 424 صفحات پر پھیلی ہوئی۔ اس کتاب میں سے ایک جملہ چک کر فتویٰ صادر فرما دیا کہ "پرویز اشتراکیت کو عین اسلام قرار دیتا ہے۔"
میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ آپ نے جلد بازی کی اور پہلی ہی قسط دیکھ کر بے تابی سے خط لکھ ڈالا۔ اگر آپ میرے مقالہ کی جملہ اقساط پڑھ لیتے تو آپ کو علم ہو جاتا کہ یہ پورا سلسلہ مضمون پرویز صاحب کے صرف ایک جملے پر مبنی نہیں ہے۔ میں آپ سے عرض گزار ہوں کہ اس مقالہ کی جملہ اقساط کا مطالعہ فرمائیں۔
شاید کہ اُتر جائے تِرے دل میں مِری بات
(ج) اس کے ساتھ ہی آپ نے لکھا کہ۔ "یہی کچھ فاضل مقالہ نگار نے اللہ کی کتاب کے ساتھ کیا ہے۔ یہ پھر آپ کی طرف سے بے بنیاد الزام تراشی ہے جس کا کوئی ثبوت نہ آپ پیش کر سکے ہیں اور نہ ہی آئندہ کر سکیں گے۔ آخر کسی دلیل، ثبوت، نظیر یا مثال کے بغیر مجھے یہ کیسے علم ہوتا کہ میں نے واقعی کتاب اللہ کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے جس کا الزام آپ مجھ پر عائد کر رہے ہیں۔ خدارا! آخرت میں اپنی جواب دہی کا احساس فرمائیں اور ایسے بے بنیاد الزام تراشیوں سے اجتناب فرمائیں۔
(د) مندرجہ بالا عبارت سے متصل ہی آپ لکھتے ہیں کہ ۔۔ "اور پھر وہی بدنام زمانہ گھسے پٹے جملے، پرویز منکرِ حدیث ہے، بے شرم ہے، بے حیا ہے۔"
میرا مقالہ (جس پر آپ اعتراض فرما رہے ہیں) ماہنامہ "محدث" کے دسمبر 1988ء کے  شمارے میں ص 50 سے ص 58 تک پھیلا ہوا ہے، کیا آپ اس میں کہیں یہ جملہ دکھا سکتے ہیں کہ۔۔ "پرویز منکرِ حدیث ہے، بے شرم ہے، بے حیا ہے۔" اسی بے سروپا الزام تراشی اور بہتان طرازی کے جواب میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ
ظالم جفائیں کر مگر اتنا رہے خیال
ہم بےکسوں کا بھی کوئی پروردگار ہے
میں پرویز صاحب کے فکر کی تردید میں ڈیڑھ دو سال سے "محدث" میں مسلسل لکھ رہا ہوں میں نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ مضبوط دلائل اور قوی براہین کے ساتھ پرویز صاحب کی تردید کر ڈالنے کے بعد ان کے متعلق "بے شرم، بے حیا ہے" جیسے سوقیانہ الفاظ بھی استعمال کروں۔ میرے سیرت و کردار اور مذاق و مزاج سے شناسا لوگوں کو جب آپ کا یہ خط پڑھایا گیا، تو انہوں نے بے ساختہ یہ کہہ دیا کہ "آپ کی قلم سے یہ الفاظ نہیں نکل سکتے۔ ناظمِ طلوع اسلام نے آپ کی طرف یہ الفاظ منسوب کرنے میں اگر سیوا ایسا نہیں کیا ہے تو یقینا انہوں نے کذب و زور سے کام لیا ہے۔
یہاں یہ عرض بھی کردوں کہ ہر مسلمان اس امر سے شرم اور حیاء محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی غیر اسلامی چیز یا فکر کو اسلامی قرار دے، مگر پرویز صاحب تھے کہ بغیر کسی ادنیٰ حجاب و ہچکچاہٹ کے یہ کہتے رہے ہیں کہ ۔۔۔" جہاں تک کمیونزم کے معاشی نظام کا تعلق ہے وہ قرآن کے تجویز کردہ معاشی نظام سے متماثل ہے۔" (نظامِ ربوبیت، ص 358)
حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان جب یہ دیکھتا ہے کہ کعبہ کو سومنات اور گنگا و جمنا کو کوثر و تسنیم قرار دیا جاتا ہے، تو اس کی دینی غیرت و حمیت اور اسلامی شرم و حیا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔
5۔ اپنے خط میں آپ نے فرمایا ہے کہ: "خدارا ایسی زبان استعمال نہ کیجئے جس کو اپنانا ہم وابستگانِ دامنِ قرآنی کے بس میں نہ ہو۔" الحمدللہ کہ میں نے ایسی زبان استعمال نہیں کی۔ اس کے برعکس آپ نے جس طرح بے سروپا الزامات کی بوچھاڑ کی ہے وہ اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ خود ہی اپنی تحریر کے آئینے میں اپنا سراپا ملاحظہ فرما لیں۔ علاوہ ازیں آپ طلوع اسلام کے مضامین پر بالعموم اور حقائق و عبر کے مواد پر بالخصوص نظر ڈالیں۔ جن میں اگر آپ نے علماء امت کے خلاف لکھا ہے تو طعن و تشنیع، پھکڑ بازی، فقرہ بازی اور استخفاف و استہزاء کی زبان ہی استعمال کرتے ہیں۔ آپ کے ایسے ہی اندازِ نگارش پر مولانا مودودی صاحب نے لکھا تھا کہ"
"یہ منکرینِ حدیث جہل مرکب میں مبتلا ہیں۔ جس چیز کو نہیں جانتے اسے جاننے والوں سے پوچھنے کی بجائے عالم بن کر فیصلے صادر کرتے ہیں اور پھر انہیں شائع کر کے عوام کو گمراہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی گمراہ کُن تحریریں ہماری نظر سے گزرتی رہتی ہیں اور ان کا کوئی اعتراض ایسا نہیں ہے جس کو دلائل کے ساتھ رد نہ کیا جا سکتا ہو لیکن جس وجہ سے مجبورا خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی بحث میں بالعموم بازاری غنڈوں کا سا طرز اختیار کرتے ہیں ان کے مضامین پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی شخص ایک غلاظت بھری جھاڑو لئے کھڑا ہو اور زبان کھولنے کے ساتھ ہی مخاطب کے منہ پر اس جھاڑو کا ایک ہاتھ رسید کر دے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کے منہ لگنا کسی شریف  آدمی کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ اس قماس کے لوگ، اس لائق سمجھے جا سکتے ہیں کہ ان سے کوئی علمی بحث کی جائے۔" (رسائل و مسائل، ج2، ص 54)
میرے یا محدث کے طرزِ نگارش کے متعلق آج کل تک کسی نے ایسی شکایت نہیں کی۔
6۔ اپنے خط کے آخر میں آپ نے فرمایا ہے کہ۔۔"جراءت کردار اور صحافتی دیانت کا تقاضا ہے کہ آپ ہماری ان معروضات کو بھی محدث میں جگہ دین، تو تجربہ شاہد ہے کہ آپ ہرگز ایسا نہیں کریں گے۔"
مجھے نہیں معلوم کہ جس تجربے کو آپ شاہد بنا رہے ہیں وہ آپ کو کب اور کہاں حاصل ہوا؟ لیکن میرا تجربہ یہ ہے کہ خود طلوعِ اسلام، ایسی جراءت کردار اور صحافتی دیانت سے کوسوں دُور واقع ہوا ہے۔ میرا ایک مضمون۔۔۔ "خدا و رسول یا مرکزِ ملت (قرآن کریم کی روشنی میں)" محدث (جون 1988ء) میں چھپا تھا۔ آپ نے حسبِ روایت، بڑے اوچھے انداز میں ایک تردیدی مضمون طلوعِ اسلام اگست 1988ء میں شائع کیا۔ میں نے آپ کے اوچھے اندازِ بیان کے مقابلہ میں اچھا اندازِ نگارش اختیار کرتے ہوئے محدث (اکتوبر 1988ء) میں آپ کا جواب دیا اور ساتھ ہی آپ سے یہ عرض کی کہ:
"میرا یہ مضمون طلوعِ اسلام میں شائع فرما دیں۔ یہ ملک اہل علم سے خالی نہیں ہے۔ آپ کے قارئین خود میرا، آپ کا اور پرویز صاحب کے قلم سے لکھا ہوا پورا مضمون پڑھ کر خود اندازہ لگا لیں گے کہ کس کا مؤقف قوی ہے اور کس کا کمزور؟ اور یہ بھی کہ عبارتوں کو پیش کرنے میں کون بددیانت واقع ہوا ہے اور کون دیانتدار؟ نیز یہ بھی کہ کس کا اندازِ بیان اوچھا ہے اور کس کا اچھا؟" (محدث اکتوبر 1988ء، ص آخری)
لیکن آپ نے میرا مضمون طلوعِ اسلام میں شائع نہیں کیا۔ اس کے برعکس "محدث" (جسے آپ "گو تجربہ شاہد ہے کہ آپ ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔" کے الفاظ سے پیشگی موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں) کا رویہ یہ ہے کہ آپ کے فکر سے وابستہ ایک شخص مسمی سید محمد رضا شاہ (44-راوی بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور) مدیر محدث کو "نابالغ لڑکے اور لڑکی کا نکاح" کے زیرِ عنوان ایک تفصیلی مضمون بصورتِ خط اس درخواست کے ساتھ بھیجتا ہے کہ اسے محدث میں شائع کر کے اس کا جواب بھی دیا جائے۔ چنانچہ مدیر محدث نے فراخدلی سے اسے ماہنامہ محدث (جلد 17 عدد 6) میں شائع کیا اور شخصِ مذکور کی حسبِ خواہش مولانا عبدالرحمن کیلانی حفظہ اللہ کے قلم سے اس کا جواب بھی شائع کیا۔
آپ کی جراءتِ کردار اور صحافتی دیانت کے تقاضے کے پیشِ نظر کیا میں آپ سے یہ توقع رکھوں کہ آپ اپنے خط کے ساتھ میرے اس جواب کو بھی طلوعِ اسلام میں جگہ دیں گے میں اس خط و کتابت کو محدث میں بھی مارچ 1989ء کے پرچے میں شائع کروا رہا ہوں، آپ بھی مارچ کے طلوعِ اسلام میں اس خط و کتابت کو چھاپ دیں تاکہ دونوں طرف کے قارئین استفادہ کر سکیں۔ از حد شکریہ۔
والسلام


[1] اصل لفظ "منسوب" موصوف کی علمی استعداد ملاحظہ فرمائیے۔ (ادارہ)