برصغیر پاک و ہند میں علمِ حدیث اور علمائے اہل حدیث کی مساعی

اشاعتِ حدیث میں تلامذہ سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی مساعی:

حضرت میاں نذیر حسین صاحب مرحوم و مغفور کے جن تلامذہ نے اشاعتِ حدیث میں گرانقدر علمی خدمات انجام دی ہیں، ان کا مختصر تذکرہ پیش خدمت ہے:

مولانا سید امیر حسن رحمۃ اللہ علیہ (م 1291ھ)

1243ھ میں پیدا ہوئے۔ شاہ عبدالجلیل شہید علی گڑھی، مولانا قاضی بشیر الدین قنوجی (م 1273ھ) مفتی صدر الدین دہلوی (م 1285ھ)، مولانا شیخ عبدالحق بنارسی (م 1286ھ) مولانا شاہ عبدالغنی مجددی دہلوی اور حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م 1320ھ) سے تمام علومِ عقلیہ و نقلیہ حدیث و تفسیر پڑھے۔

تکمیل کے بعد سہسوان کی علمی بساط، جو الٹ چکی تھی، پر ازسرِ نو محفلِ علم قائم کی۔ حضرت میاں صاحب کی مشہور علمی کتاب "معیار الحق" کی تردید مولانا ارشاد حسین رام پوری (م 1277ھ) نے "انتصار الحق" کے نام سے لکھی۔ آپ نے "انتصار الحق" کا جواب "براہین اثنا عشر" کے نام سے دیا۔ اس کا ایک نسخہ مشہور حنفی عالم مولانا ابوالحسنات محمد عبدالحی فرنگی محلی (1304ھ) کی خدمت میں ارسال کیا۔ مولانا عبدالحی نے "براہین اثنا عشر" کا نسخہ وصول کر کے مولانا سہسوانی کی خدمت میں لکھا:

"از محمد عبدالحی! مولوی صاحب مکرم معظم، مجمع البحرین، المعقول والمنقول منبع نہرین جامع الفروع والاصول مولوی سید امیر حسن صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، عنایت نامہ لطف شمامہ مورخہ 20 ماہ رواں بورد و فور ممتاز ساختہ "براہیم اثنا عشر" رسید اغلاط سامی کتب و مؤلفین در انتصار لاتعد ہستند، شاید بنظرِ اختصار بر چند کفایت شدہ۔"

اشاعتِ حدیث کے سلسلہ میں آپ نے گرانقدر علمی خدمات سر انجام دیں۔ 1291ھ میں سہسوان میں آپ کا انتقال ہوا۔

مولانا سید امیر احمد بن سید امیر حسن رحمۃ اللہ علیہ (م 1306ھ)

1262ھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مولانا سید امیر حسن سے حاصل کی۔ اس کے بعد حضرت شیخ الکل رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تکمیلِ تعلیم کی۔ مولانا سید امیر احمد حضرت میاں صاحب کو دادا کہتے تھے اور حضرت میاں صاحب کا برتاؤ بھی ان کے ساتھ بزرگانہ تھا۔ تکمیلِ تعلیم کے بعد کئی مقامات پر اقامت گزین رہے۔

درس و تدریس میں آپ اپنی مثال آپ تھے۔ شمسِ بازغہ و افق المبین جیسی کتابیں بغیر مطالعہ کے پڑھاتے۔ اشاعتِ حدیث کے سلسلہ میں آپ نے گرانقدر علمی خدمات سر انجام دیں۔

مولانا عبدالحی (م 1341ھ) لکھتے ہیں:

"اشاعتِ حدیث کے سلسلہ میں علمائے حدیث میں مولانا سید امیر حسن سہسوانی (م 1291ھ) اور ان کے صاجزادہ مولانا سید امیر احمد (م 1306ھ) قابلِ ذکر ہیں۔"

1306ھ میں وفات پائی۔

مولانا محمد بشیر سہسوانی (م 1326ھ)

1250ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حکیم بدرالدین اپنے زمانہ کے ممتاز عالم اور طبیب تھے۔

آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا سید امیر حسن سہسوانی (م 1291ھ) سے حاصل کی۔

ادب و جملہ معقولات کی تعلیم مولانا ہدایت اللہ رام پوری سے حاصل کی، علمائے فرنگی محل کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا۔ فقہ و حدیث کی تعلیم حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م 1320ھ) سے حاصل کی۔ اور سند و اجازہ علامہ شیخ حسین یمانی (م 1327ھ) شیخ احمد مشرقی اور مولانا محمد سہارن پوری سے حاصل کی۔

تکمیلِ تعلیم کے بعد سینٹ کالج آگرہ میں عربی فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ دورانِ قیامِ آگرہ سے حضرت نواب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ رئیس بھوپال (م 1307ھ) نے آپ کو بھوپال طلب فرمایا اور افسرِ مدارس مقرر کیا۔

اشاعتِ حدیث میں آپ کی مساعی:

صاحب تراجم علمائے حدیث ہند لکھتے ہیں:

"بھوپال کے زمانہ میں حدیث و تفسیر کے درس جاری رہے اور مسائل مستفتیٰ بہار پر مجتہدانہ انداز سے فتاویٰ لکھے جاتے ہیں۔ اعزہ و اقارب پر الطافِ کریمانہ کی بارش ہوتی ہے۔ الغرض اس طرح آگرہ سے علم کی مہک بھوپال تک پہنچی تھی۔ اسی طرح بھوپال سے یہ مشامِ جاں تمام اکنافِ ہند میں پھیل گئی۔"

خودبخود بوئے یار پھیل گئی
کوئی منت کش صبا نہ ہوا


آپ کی مشہور تصانیف، الحق الصریح فی اثبات حیاۃ المسیح، القول المحق المحکم فی زیارۃ الحبیب الاکرم، القول المحمود فی رد جواز السود، اور فرضیۃ فاتحہ خلف الامام ہیں۔

فرضیۃ فاتحہ خلف الامام:

یہ آپ کی خدمتِ حدیث میں بہترین تصنیف ہے جو آپ نے دہلی کی مسجد حوض والی میں مسلسل ایک ماہ تک، بعد نماز مغرب تقریر کی۔ سامعین میں مشہور علمائے احناف بھی ہوتے تھے۔ اور آپ نے بدلائل ثابت کیا کہ بغیر فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی۔

یہ تقریر آپ کے ممتاز تلمیذ مولانا شیخ الحدیث احمد اللہ دہلوی (م 1348ھ) نے "البرہان العجائب فی فرضیۃ ام الکتاب" کے نام سے چھپوا کر شائع کی۔

مولانا محمد بشیر سہسوانی جماعت اہل حدیث کے ان ممتاز علمائے کرام میں سے تھے جن پر جماعت کو ناز تھا۔ علم و تقویٰ، زہد و ورع میں اپنی مثال آپ تھے۔ سہسوان میں آپ جیسا صاحبِ علم و فضل آج تک پیدا نہیں ہوا۔

29 جمادی الاخریٰ 1326ھ کو دہلی میں آپ کی وفات ہوئی اور اپنے استاد شیخ الکل حضرت میاں صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے جوار میں دفن ہوئے۔

علمائے سہسوان کی تدریسی خدمات:

تدریسی خدمات کی ابتداء 1251ھ میں ہوئی۔

دور اول: میں مولانا سید امیر حسن سہسوانی (م 1291ھ) مدرس تھے۔ اس دور میں آپ کے صاجزادہ مولانا سید امیر احمد (م 1306ھ)، مولانا سید محمد نذیر سہسوانی (م 1299ھ) مولانا سید محمد عبدالباری سہسوانی (م 1303ھ) فیضیاب ہوئے۔

دورِ ثانی: میں مولانا سید امیر احمد سہسوانی (م 1306ھ) اور مولانا محمد بشیر سہسوانی (م 1326ھ) مدرس تھے۔ اس دور میں بہت سے علمائے کرام نے آپ سے استفادہ کیا۔ چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:

مولانا احمد اللہ محدث پرتاپ گڑھی (م 1338ھ) مولانا محمد اسماعیل سہسوانی (م 1336ھ) مولانا ابوالبشار امیر احمد بن عزیز احمد سہسوانی (م 1339ھ) مولانا سید اقتدار احمد سہسوانی اور مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی (م 1381ھ) (سہسوان کی بجائے دہلی میں استفادہ کیا)

علمائے غزنویہ


برِصغیرمیں علمائے غزنویہ یعنی السید مولانا عبداللہ الغزنوی اور آپ کے صاجزادگانِ گرامی نے توحید و سنت کے سلسلہ میں جو گرانقدر علمی خدمات سر انجام دی ہیں، ان سے ہر پڑھا لکھا آدمی ضرور واقف ہو گا۔ یہاں اس کا مختصر تذکرہ پیش خدمت ہے۔

السید مولانا عبداللہ الغزنوی رحمۃ اللہ علیہ (م 1298ھ)

آپ کا مقامِ ولادت موضع بہادر حیل ضلع غزنی ہے۔ 1230 میں پیدا ہوئے اصل نام محمد اعظم تھا مگر آپ نے اپنا نام عبداللہ رکھ لیا۔ شجرہ نسب یہ ہے:

عبداللہ بن محمد بن محمد بن محمد شریف۔

آپ فرماتے تھے:

"محمد کہ اعظم از کائنات افضل از مخلوقات است ہماں رسول اللہ ہست تسمیۃ بعبداللہ خوب است۔"

یعنی "محمد کا اسمِ گرامی حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہی کو زیبا ہے جو ساری کائنات سے زیادہ عظمت رکھنے والے اور تمام مخلوقات سے افضل ہیں۔ میرا نام عبداللہ ہی بہتر ہے۔"

تعلیم:

ابتداء میں آپ نے غزنی کے علماء سے تحصیل کی۔ تفسیر حدیث سے آپ کو والہانہ شغف تھا۔ لیکن غزنی میں کوئی ایسا عالم موجود نہیں تھا، جس سے آپ کا علمی ذوق تسکین پاتا۔ چنانچہ آپ نے اپنی علمی پیاس بجھانے کی خاطر قندھار کا سفر اختیار کیا تاکہ شیخ حبیب اللہ قندھاری، جو اپنے وقت کے صاحبِ علم اور زہد و تقویٰ میں بے مثل تھے، سے استفادہ کریں۔ چنانچہ آپ حضرت شیخ حبیب اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے حضرت سید صاحب کو "تقویۃ الایمان" کا مطالعہ کرنے کا حکم دیا۔ آپ کچھ حصہ قندھار میں رہے اس کے بعد واپس غزنی آ گئے۔ اس کے بعد جب کسی مشکل مسئلہ کے حل کی ضرورت پڑتی۔ تو حضرت شیخ کو لکھ بھیجتے۔ حضرت شیخ کا جواب ہمیشہ محققانہ ہوتا۔ کچھ مدت کے بعد آپ نے پھر قندھار کا سفر کیا تو حضرت شیخ کو تعجب ہوا، کہ یہ شخص چند مسائل پوچھنے کے لیے اتنی لمبی مسافت طے کرتا ہے۔ حضرت شیخ بھری محفل میں فرمایا کرتے تھے:

"مسائل دینیہ را چنانکہ ایں شخص می فہمد من خودنمی فہم"

"دینی مسائل کو جس طرح یہ شخص سمجھتا ہے میں بھی نہیں سمجھتا۔"

توحید و سنت کی تبلیغ، شرک و بدعت کی تردید، لوگوں کی مخالفت اور جلا وطنی:

آپ نے توحید و سنت کی تبلیغ اور شرک و بدعت کی تردید شروع کی۔ اس سے علاقہ کے عالم اور لوگ مخالف ہو گئے۔ علمائے سوء اور لوگوں نے امیرِ کابل دوست محمد خاں سے آپ کی شکایتیں کیں۔ چنانچہ امیر کابل، علمائے سوء کے بہکانے میں آ گیا اور اس نے آپ کی جلاوطنی کا حکم صادر کر دیا۔

قندھار کے قاضی القضاۃ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ امیرِ کابل نے حضرت عبداللہ صاحب کی جلاوطنی کا حکم صادر کر دیا ہے تو انہوں نے امیرِ کابل کی بجائے مفتی کابل ملا سعد الدین مقری کو ایک خط لکھا کہ آپ امیر کابل کو ان کا حکم واپس لینے کے لیے آمادہ کریں مگر علمائے سوء اس راہ میں حائل ہوئے۔

ملا سعد الدین مقری نے اپنے خط میں حضرت عبداللہ صاحب کے اوصافِ حمیدہ کا یوں تذکرہ کیا:

"حقائق و معارف آگاہ موفق من عنداللہ قائد الخلق الی صراط اللہ محی السنہ وقامع البدعت"

اور آگے چل کر لکھتے ہیں:

"مَمَلُوٌّ بِالسُّنَّةِ مِنَ الفَرْقِ اِلَى الْقَدَمِ"

"یہ انسان سر سے پاؤں تک سنت میں ڈوبا ہوا ہے۔"

غزنی سے رخصت ہو کر کوئٹہ، ہزارہ اور پنجاب سے ہوتے ہوئے دہلی آئے اور حضرت شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی رحمہ اللہ ک خدمت میں پہنچے۔ یہ واقعہ 1276ھ (1857ء) کا ہے اور آپ نے حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔

آپ نے حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ سے اپنے تلمذ کا اعتراف ان لفظوں میں کیا ہے:

"بخدمت خاتم المحدثین شیخنا سید محمد نذیر حسین صاحب رسیدم و کتاب صحیح بخاری شروع نمودم، درآں بلوائے شروع شد درحین بلوائے شدید کہ ہرکس بہ غم جاں خود بود من بخواند کتاب مذکور تاحدے کہ نصاری غالب آمدند و اہل بلدہ را متفرق نمودند درآں ایام کتاب صحیح بخاری قریب اختتام بود، مگر بسبب پراگندگی اہل بلدہ درمیان من و سید صاحب ہم جدائی افتاد و کتاب ناتمام ماند۔"

تکمیل تعلیم کے بعد دوبارہ وطن واپس گئے۔ انہی دنوں امیر دوست محمد خاں کا انتقال ہو گیا اور امیر شیر علی ملک کا امیر مقرر ہوا۔ مخالفین نے امیر شیر علی کو آپ کے خلاف بھڑکایا، چنانچہ اس نے بھی آپ کی جلاوطنی کا حکم صادر کر دیا۔

لیکن کچھ عرصہ بعد امیر شیر علی کا تختہ الٹ دیا گیا اور اس کی جگہ محمد افضل خاں امارت کے عہدے پر فائز ہوا۔ علمائے سوء نے محمد افضل خاں کو بھی آپ کے خلاف بھڑکایا، چنانچہ اس نے آپ کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا اور آپ کو گرفتار کر کے سردار محمد عمر خاں پسر امیر دوست محمد خاں کے پاس لے جایا گیا۔ وہ آپ کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی نرم پڑ گیا اور ادب سے کہنے لگا، "آپ کیوں نہیں یہ راستہ چھوڑ دیتے اور جو وقت کے مولوی کہتے ہیں، آپ بھی ان کے ساتھ شریک ہو جائیں۔" مگر آپ نے جواب میں فرمایا:

"قصد محکم دارم وعزم مصمم کہ تا جان در بدن دارم و سر برتن در خدمت کتاب و سنت نہایت سرگرمی کوشم۔ ایں چہ مصائب کہ برمن می آید؟ من ازرب خود ہمیں می خواہم، کہ دریں راہ تکہ تکہ شوم و امعاء درد ہائے من من دربیاباں برسر بوتہ و خار افتادہ زاغہا بنولہ ہائے خودزنند۔"

کہ "میں قصدِ محکم اور عزمِ مصمم رکھتا ہوں کہ جب تک میرے بدن میں جان باقی ہے اور میرے جسم پر سر سلامت ہے، کتاب و سنت کی خدمت نہایت گرمجوشی سے کروں۔ یہ کیا مصیبتیں ہیں جو مجھ پر آئی ہیں۔ میں تو اپنے آقا سے یہی آرزو کرتا ہوں کہ اس راتے میں میرے پرزے اڑا دیے جائیں اور میری انتڑیاں جنگلوں میں خاردار جھاڑیوں میں پھینک دی جائیں اور کوے ان پر چونچیں ماریں۔"

اس کے بعد سب نے متفق ہو کر آپ کے قتل کا فتویٰ لکھا۔ مگر ملا مشکی نے قتل کا فتویٰ پر دستخط نہ کیے چنانچہ آپ کو قید کر دیا گیا۔

7 اکتوبر 1867ء کو میر افضل خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد امیر اعظم خاں تخت پر بیٹھا۔ اس نے آپ کو قید سے نکال کر جلاوطنی کا حکم صادر کر دیا اور آپ کو پشاور کی طرف نکال دیا گیا۔

مولانا عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ (م 1331ھ) لکھتے ہیں:

"آپ کی جلاوطنی کے احکام صادر کیے ہوئے ابھی ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور شکست کھا کر سراسیمگی کی حالت میں حیران و سرگردان پھرنے لگا۔ اس کے اہل و عیال، جو عمر بھی کبھی گھر سے باہر نہیں نکلے تھے، انہیں بھی جلا وطن کر دیا گیا۔

پشاور میں چند روز قیام کر کے بعض احباب کی درخواست پر امرتسر پنجاب میں اقامت گزیں ہوئے۔

آپ کی علمی خدمات:

آپ کے پڑپوتے مولانا سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ (م 1395ھ) لکھتے ہیں:

"امرتسر میں قیام کے بعد کتاب و سنت کی تبلیغ و اشاعت میں ڈوب گئے۔ توحید، اتباعِ سنت اور عقائدِ صحیحہ پر بہت سی کتابوں اور رسالوں کا فارسی اور اردو میں ترجمہ کرواتے اور عام لوگوں کے فائدے کے لیے چھپوا کر للہ تقسیم کرتے رہے۔"

وفات:

16 ربیع الاول 1298ھ (1879ء) کو آپ کا انتقال ہوا۔ امرتسر میں دروازہ سلطان ونڈ کے باہر عبدالصمد کاشمیری کے تالاب کے کنارے دفن ہوئے۔ اللہم الغفرلہ وارحمہ۔

آپ کے متعلق علمائے عصر کی آراء:

شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ (م 1320ھ) فرمایا کرتے تھے:

"میرے درس میں دو عبداللہ آئے ہیں، ایک عبداللہ غزنوی اور دوسرے عبداللہ غازی پوری"

اور اس کے ساتھ یہ بھی فرماتے:

"عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ نے مجھ سے حدیث پڑھی اور میں نے اس سے نماز سیکھی"

مولانا سید عبدالحی (م 1341ھ) لکھتے ہیں:

"حضرت عبداللہ بن محمد بن محمد بن محمد شریف الغزنوی شیخ تھے، امام تھے، عالم تھے، زاہد تھے، مجاہد تھے۔ رضائے الہی کے حصول میں کوشاں تھے۔ اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان، اپنا گھر بار، اپنا وطن، سب کچھ لٹا دینے والے تھے۔ علماء سوء کے خلاف ان کے معرکے مشہور ہیں۔"

علامہ شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی (م 1329ھ) آپ کی مدح و توصیف میں لکھتے ہیں:

"اِنَّهُ كَانَ فِى جَمِيْعِ اَحْوَالِهِ مُسْتَغْرِقًا فِى ذِكْرِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰى اَنَّ لَحْمَهُ وَعِظَامَهُ وَاَعْصَابَهُ وَاَشْعَارَهُ وَجَمِيْعَ بَدَنِهِ كَانَ مُتَوَجِّهًا اِلَى اللهِ تَعَالِي فَانِيًا فِى ذِكْرِهَ عَزَّوَجَلَّ"

کہ "وہ ہر وقت اور ہر حالت میں خدائے بزرگ و برتر کے ذکر میں ڈوبے رہتے تھے۔ حتیٰ کہ ان کا گوشت، ان کی ہڈیاں، ان کے پٹھے اور ان کا ہر ہربن مو اللہ کی طرف متوجہ تھا۔ اللہ عزوجل کے ذکر میں فنا ہو گئے تھے۔"

محی السنہ والاجاہ حضرت نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ رئیس بھوپال (م 1307ھ) لکھتے ہیں:

"چرخ اگر ہزار چرخ زند مشکل کہ چنیں ذات جامع کمالات بُروئے ظہور آرد"

"آسمان اگر ہزار بار بھی گردش کرے تو مشکل ہے کہ اب ایسی جامع کمالات ہستی معرضِ وجود میں آئے"

علامہ اقبال رحمہ اللہ اپنے ایک خط بنام محمد دین فوق لکھتے ہیں:

"مولوی عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ آج حدیث کا درس دے رہے تھے کہ ان کو اپنے بیٹے کے قتل کی خبر موصول ہوئی۔ ایک منٹ تامل کیا، پھر طلباء کو مخاطب کر کے کہا:

"مابرضائے اوراضی ہستیم، ببائد کہ کارخود بکنیم۔" یہ کہہ کر پھر درس میں مصروف ہو گئے۔"

آپ کی اولاد:

آپ کے بارہ صاجزادے تھے جو سب کے سب محدث تھے۔ اسماء گرامی درج ذیل ہیں:

1۔ حضرت مولانا محمد غزنوی (م 1293ھ)

2۔ حضرت عبداللہ بن عبداللہ غزنوی (م1269ھ)

3۔ حضرت مولانا احمد غزنوی

4۔ حضرت مولانا عبدالجبار غزنوی (م1331ھ)

5۔ حضرت مولانا عبدالواحد غزنوی (1349ھ)

6۔ حضرت مولانا عبدالرحمن غزنوی

7۔ حضرت مولانا عبدالستار غزنوی

8۔ حضرت مولانا عبدالقیوم غزنوی

9۔ حضرت مولانا عبدالعزیز غزنوی

110۔ حضرت مولانا عبدالحی غزنوی

11۔ حضرت مولانا عبدالقدوس غزنوی

12۔ حضرت مولانا عبدالرحیم غزنوی (م 1342ھ)

رحمہم اللہ تعالیٰ


حوالہ جات

الحیاۃ بعد المماۃ ص، 295،296

تراجم علمائے حدیث ہند ص249

اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں ص203

تراجم علمائے حدیث ہند ص246

تراجم علمائے حدیث ہند ص251

مولانا علی محمد سعیدی از خانیوال اب اس کو دوبارہ شائع کر رہے ہیں (عراقی)

تراجم علمائے حدیث ہند ص255

ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص126

مخطوطہ میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ (داؤد گزنوی رحمۃ اللہ علیہ ص219)

تاریخ اہل حدیث ص435

داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ص221

تاریخ اہل حدیث ص435

داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ص225

سوانح عمری عبداللہ صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ

داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ص230

داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ص232

ایضا ص233

تراجم علمائے حدیثِ ہند ص455

نزہۃ الخواطر ج7 ص302

مقمدہ گایہ المقصود فی شرح سنن ابی داؤد بحوالہ نزہۃ الخواطر ج7 ص303

تقصار من تذکار جیود الاحرار ص192

اقبال کے ممدوح علماء ص132