مولانا عبدالستار خاں نیازی کا نظریہ انتشارِ ملت

جماعتِ اسلامی کی تحریکِ اتحادِ ملت پر مولانا عبدالستار خاں صاحب نیازی کو طویل غصہ آیا ہے۔۔۔ آپ "نوائے وقت" کے ذریعے 16 اگست کو جماعت پر یوں برسنا شروع ہوئے کہ پورا عالمِ اسلام اس کی لپیٹ میں آ گیا۔۔۔ بمشکل30 اگست کو جا کر ان کا غصہ فرو ہوا۔۔۔ "اتحاد بین المسلمین" ایک متفق علیہ اور فوری توجہ کا مستحق موضوع" کے عنوان سے نوائے وقت میں چھپنے والا آپ کا یہ مضمون پانچ اقساط پر مشتمل ہے۔ مضمون کی ابتداء ہی میں مولانا نیازی نے داعیانِ اتحاد سے یہ شکوہ کیا ہے کہ:

"اب جب اتحاد کے لیے تحریک اُٹھ رہی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی مقصد کے لیے اتحاد؟ آئندہ انتخابات کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے؟ جہاں تک انتخابات کے لیے اتحاد اور کسی متفق علیہ ہدف یا مطمح نظر کا سوال ہے تو موجودہ تحریکِ اتحادِ ملت کے بعض داعی غیر جماعتی انتخابات کو ملک و ملت کے لیے تباہ کن اور مضرت رساں سمجھنے کے باوجود "متاعِ قلیل" کی اور "نفع رذیل" کی خاطر بہرطور قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس طرح ابتداء ہی سے اتحاد کی بجائے افتراق سے بنیاد اٹھائی جا رہی ہے"

۔۔۔ اس سے معا قبل مولانا نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:

"اتحاد بین المسلمین کے لیے منزلِ مقصود اور ہدف بالکل واضح ہونا چاہئے۔ جمہوریت اور تحفظِ ختم نبوت ایسے مقاصد ہیں جن پر پہلے بھی امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجماع ہو چکا ہے۔ اب بھی اجماع موجود ہے"

۔۔۔گویا مولانا نیازی کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر امت کو تحفظِ ختمِ نبوت اور جمہوریت کی بحالی وغیرہ کے مسائل درپیش ہوں تو اتحاد کو گوارا کیا جا سکتا ہے، ورنہ امت کا انتشار میں مبتلا رہنا ہی بہتر ہے۔۔۔بالفاظِ دیگر اتحاد کو ایک وقتی ضرورت ہے، عام حالات میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔۔۔حالانکہ قرآن مجید فرماتا ہے:

﴿وَلا تَكونوا مِنَ المُشرِ‌كينَ ﴿٣١﴾ مِنَ الَّذينَ فَرَّ‌قوا دينَهُم وَكانوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزبٍ بِما لَدَيهِم فَرِ‌حونَ ﴿٣٢﴾... سورة الروم

کہ "مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ، یعنی ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے (چنانچہ) ہر گروہ، جو کچھ اس کے پاس ہے، اسی پر نازاں ہے"

لیکن مولانا نے اتحاد کو ختمِ نبوت اور جمہوریت سے مشروط کر کے رکھ دیا ہے، پھر جہاں تک تحفظِ ختم نبوت کا تعلق ہے تو یہ واقعی ایک عظیم مقصد ہے، لیکن جمہوریت کے لیے اتحاد والی بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔سینتیس (37) سال سے ملک کے طول و عرض میں جمہوریت کے نعرے سنائی دے رہے ہیں، لیکن آج تک اس کی صورت دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔۔۔پاکستان میں شریعت کی عملداری سینتیس (37) سال کے اس طویل عرصہ میں ممکن نہ ہو سکی تو اس کی وجہ محض اور محض جمہوریت پر آپ کا یہ اجماع ہے۔۔۔ جمہوریت پر اس اجماع کی بدولت ملک ٹوٹ گیا، پر یہ اجماع نہ ٹوٹا۔ بے شمار سیاسی گروہ صرف اس جمہوریت کی خاطر وجود میں آئے، بھائی بھائی سے کٹ گیا، مسلمان نے مسلمان کے خون سے ہولی کھیلی۔۔۔ ماضی قریب کے قومی اتحاد کو، حتیٰ کہ تحریکِ نظامِ مصطفیٰﷺ کے مقاصد کو بھی جمہوریت کا یہ عفریت نگل گیا، نو(9) ستارے اسی جمہوریت کی خاطر آسمانِ سیاست پر نمودار ہوئے اور جمہوریت ہی کی پاداش میں عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے، تاآنکہ مطلع بالکل ہی صاف ہو گیا۔۔۔اس سے قبل ایک ایسا دور بھی آیا جسے جمہوری دور کا نام دیا گیا، لیکن جس کے سامنے مارشل لاء بھی نہ صرف "الامان والحفیظ" پکار اٹھا، بلکہ اس کی بناء پر جولائی 77ء کے بعد ہم نے مارشل لاء پر خود جمہوریوں کا اجماع ہوتے دیکھا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بات مولانا نیازی کی سمجھ میں نہ آ سکی کہ انتشارِ ملت کی جڑ تو یہی جمہوریت ہے، جس کی خاطر اتحاد کے لیے امت کے اجماع کی خوشخبری سنائی جا رہی ہے۔۔۔ پس مولانا، مختصر الفاظ میں اسے "انتشار کے لیے اتحاد" کا نام دیجئے اور جماعتِ اسلامی کو معاف فرما دیجئے کہ اس بیچاری نے انتخابات ہی کے لیے اتحاد کا نعرہ بلند کیا ہے جو جمہوریت کی بحالی کی نوید سنانے والے ہیں۔۔۔ اور یوں جماعت اسلامی پر پہلے ہی حملے میں مولانا نیازی اپنی ہی جھونک میں چاروں شانے چِت نظر آتے ہیں۔۔۔ اس لیے کہ آپ کے اپنے مضمون میں بھی:

"ابتداء ہی سے اتحاد کے بجائے افتراق سے بنیاد اٹھائی جا رہی ہے"

اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا نیازی یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مضمون میں اتحاد کو ایک مستقل ذمہ داری قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں:

"تمام داعیانِ اتحادِ ملت بشمول راقم الحروف کا فرض ہے کہ اپنی تمام تر جماعتی اور فرقہ وارانہ وفاداریوں کو ثانوی درجہ دے کر صرف زار و نزار، لخت لخت اور پُرزے پُرزے ملت کے اتحاد کو مقدم رکھنا ہو گا۔ یہ ایک مستقل ذمہ داری ہے۔"

پھر ان نیک خواہشات کے اظہار کے معا بعد "راقم الحروف" (مولانا) نے یہ فرض یوں ادا فرمایا ہے:

"الیکشن کی خاطر اتحاد اتحاد کا نعرہ لگانا، صلح کل بن کر ووٹ بٹورنے کی خاطر مخالفین کو فرقہ پرست کہہ دینا اور خود ان تمام اختلافات سے بالاتر بن جانے کا موقف اختیار کرنا عبداللہ بن ابی جیسے رئیس المنافقین سے بڑھ کر منافقت اور دنیا پرستی ہے۔ موجودہ حالات میں الیکشنی دنگل کے پہلوانوں کو صاف نظر آ رہا ہے کہ ایک طرف یا رسول اللہ کا نعرہ ہو گا، صلوۃ و سلام کے روح پرور نظارے ہوں گے اور محافلِ میلاد کی پاکیزہ رونقیں ہوں گی۔ تمام گستاخانِ رسول، منکرینِ اولیاء و صلحائے امت کے سابقہ گھناؤنے اعمال اور ناشائستہ کردار کا محاسبہ کیا جائے گا۔۔۔ دلبر خطا ایں جا است کے مصداق ہم جاہ پرستی کے کوڑھ اور دنیاداری کے سگِ مردار کو دل کے چاہِ عمیق سے باہر نکالنا چاہتے ہیں"

۔۔۔ مولانا، یہ "اتحاد بین المسلمین اسے متفق علیہ اور فوری توجہ کے مستحق موضوع" کی دعوت ہے یا کھلی جنگ کا اعلان؟ ۔۔۔اور کس جرم میں؟ ۔۔۔ آپ بھی الیکشن کی خاطر اتحاد کے قائل ہیں اور آپ کے مخالفین بھی، فرق صرف جماعتی اور غیر جماعتی الیکشن کا ہے۔۔۔پھر اس قدر غصہ کیوں؟۔۔۔اور دعویٰ یہ کہ:

"تقاضائے وقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان فقہی اختلافات اور اعتقادی تعبیرات پر منازعت و مشاجرت کے بجائے صلح و مصالحت اور عفوو درگزر سے کام لیا جائے۔ نادان کو سمجھایا جائے اور دانا کو خطرناک نتائج کا حوالہ دے کر مائل بہ اتحاد کیا جائے"

۔۔۔ پس جس مقصد کی خاطر آپ فقہی اختلافات اور اعتقادی تعبیرات تک کو قربان کر دینے پر آمادہ ہیں، اسی مقصد کی خاطر جماعتی الیکشن کی بھی قربانی کر ڈالیے اور غیر جماعتی الیکشن پر راضی ہو جائیے۔۔۔ یا کیا آپ کے نزدیک الیکشن کی اہمیت، اعتقادات وغیرہ سے بھی بڑھ کر ہے؟ ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ "جاہ پرستی کے کوڑھ اور دنیاداری کے سگِ مردار کو دل کے چاہِ عمیق سے باہر نکال پھینکیں"۔۔تو پھر اس کو نکال باہر کیوں نہیں کرتے؟ اور پھر "مقررہ فقہی تعداد کے مطابق ڈول بھی کھینچئے" تاکہ دل کا یہ چاہِ عمیق پاک صاف ہو جائے اور روز روز کی اس سیاسی دھماچوکڑی سے قوم کو نجات بھی مل جائے۔

اوپر ہم نے مولانا نیازی کے چند جملے بطورِ نمونہ نقل کیے ہیں، ورنہ اس سے قبل مکمل ساڑھے تین کالموں میں صرف پاکستان ہی نہیں، بیرون ملک بلکہ پورے عالمِ اسلام پر بھی وہ رہ رہ کر حملہ آور ہوئے ہیں۔۔۔ کہ "کنز الایمان" پر عرب ممالک میں پابندی کیوں لگی؟ اسلام آباد کی 75٪ مساجد سے انہیں کیوں محروم کیا گیا؟ صلوۃ و سلام کی مجالس پر دستِ عقوبت کیوں دراز ہوا؟ اوقاف کا انتظام کیوں ان کے سپرد نہ کیا گیا؟ اہل سنت کو بدعتی کیوں کہا گیا؟۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔ حالانکہ یہ "اہل سنت" خود بھی اس سلسلہ میں کسی رُو رعایت کے قائل نہیں ہیں۔۔۔ مخالف فرقوں کی مساجد پر غنڈہ گردی کے ذریعے قبضہ ان کا آئے دن کا وطیرہ ہے۔۔۔باشاہی مسجد کا سانحہ تو ابھی کل کی بات ہے۔۔۔امامانِ حرم کی اقتداء میں نمازِ جمعہ ادا کرنے والوں کو نمازیں دہرانے کا مشورہ انہی بریلوی علماء نے دیا کہ "یہ امام نجدی وہابی ہیں، لہذا ان کی اقتداء میں نماز نہیں ہوتی۔" حالانکہ حرمین کی نسبت سے ان لوگوں کا احترام و عقیدت امتِ مسلمہ کے دلوں میں ظاہر و باہر ہے۔۔۔رہی بات بدعتی وغیرہ وغیرہ کہنے کی، تو ابھی ہم نے آپ کی عبارت اوپر نقل کی ہے، دیکھئے، کیا کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان ہے؟۔۔۔کیا "اتحاد بین المسلمین"، "صلح و مصالحت" اور "عفوو درگزر" کے یہی تقاضے ہیں؟ ۔۔۔آپ نے اپنے مضمون میں "اہل سنت و جماعت البریلوی" کے عقائد گنواتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختاریت، توسل، تصرفات، حاضر و ناظر، قیام فی المیلاد، نذر و نیاز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کو لوازمِ دین میں شمار کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بھی فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے 73 فرقوں میں سے ایک فرقہ جو "ما انا عليه واصحابى" کا مصداق ہو گا، وہی ناجی ہو گا۔۔۔ اس سے آپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ "اتباعِ صحابہ، تعاملِ صحابہ اور اجماعِ صحابہ شریعتِ اسلامی کے لیے ضروری ہے"۔۔۔اب قطع نظر اس سے کہ آپ کے مذکورہ بالا عقائد کو " ما انا عليه واصحابى" سے کیا نسبت ہے؟ آپ نے اپنے یہ عقائد گنوانے سے قبل "ایک فرقے کے عقائد"۔۔۔اور۔۔۔"ایک دوسرے فرقے کے عقائد" کے ذیلی عناوین سے وہ تمام باتیں اور الزامات، قطع و برید کے ساتھ، ان کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے یکبارگی "نوائے وقت" ایسے کثیر الاشاعت اخبار میں شائع کر دیے ہیں، جن کو اس سے قبل آپ کے "علماء" منبروں، سٹیجوں پر اکثر و بیشتر، تاہم الگ الگ اور محدود اجتماعات میں، ذکر کر کے امتِ مسلمہ میں انتشار و افتراق کا ایک مستقل بیج بو چکے اور ۔۔۔ "﴿ وَأَسَرُّ‌وا النَّجوَى الَّذينَ ظَلَموا هَل هـٰذا إِلّا بَشَرٌ‌ مِثلُكُم ۖ أَفَتَأتونَ السِّحرَ‌ وَأَنتُم تُبصِر‌ونَ ﴿٣﴾ ... سورةالانبياء" کے مصداق اپنے مریدوں کو حاملین کتاب و سنت سے متنفر کرنے کا ناپاک فریضہ سرانجام دے چکے ہیں۔۔۔ کم از کم آپ اپنے اس مضمون میں تو یہ ہوائیاں نہ چھوڑتے، خصوصا جبکہ آپ اس کے آخر میں اتحاد و اتفاق کی تجاویز اور فارمولے بیان کرنے والے تھے۔ ویسے بھی علمِ غیب، حاضر و ناظر وغیرہ کے یہ تمام مباحث علمائے توحید و سنت کا چبایا ہوا نوالہ ہیں، آپ ایسے نایاب عالمِ دین کی طرف سے کوئی نئے انکشافات نہیں۔۔۔ اس وقت آپ کے پیش نظر 'فوری توجہ کا مستحق موضوع"اتحاد تھا۔۔۔ جماعتِ اسلامی سے آپ کو یہ شکوہ تھا کہ "انہوں نے اتحاد کو مضبوط و مستحکم بنیادوں پر قائم کرنے کی بجائے محض نعرہ بازی پر اکتفاء کی ہے"۔۔۔لہذا آپ براہِ راست مطلب کی بات کرتے اور وہ تجاویز و نکات پیش فرماتے جو آپ کے نزدیک اتحاد کی مستحکم بنیادیں بن سکتے تھے۔۔۔لیکن جس طرح کہ آپ نے اپنے اتحادی فارمولے بیان کرنے سے قبل "انتشارِملت"کا فریضہ سر انجام دینے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا، بالکل اسی طرح یہ فارمولے بیان کرنے کے بعد بھی، مضمون کے بالکل آخر میں،آپ اہل حدیث کی مبارک نسبت رکھنے والوں کو "وہابیہ نجدیہ" جیسے خطابات دے کر شرارت سے باز نہیں آئے

دامن کو ذرا دیکھ بندِ قبا دیکھ


۔۔۔۔۔۔۔

مولانا نیازی نے اپنے مضمون میں مختلف مقامات پر اتحاد کے لیے تجاویز پیش فرمائی ہیں۔ ہم انہیں یکجا ذکر کرتے ہیں:

1۔ "تمام علماء و مفسرین، دین کی خدمت اور اہل اسلام کے عالمی اتحاد کی خاطر مذاکرہ و مفاہمت کے بعد قرآن مجید کے صرف ایک ترجمہ پر جمع ہو جائیں۔ تعصب و عناد کو مسترد کرتے ہوئے تفسیر بالرائے کے بجائے قرآن کی تفسیر و مفہوم خود قرآن سے اخذ کریں۔ نیز اس کے ساتھ ساتھ احادیثِ صحیحہ، تعاملِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور فقہ سلف صالحین کو سامنے رکھا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح روئے زمین پر بائبل (عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید) کا صرف ایک ہی انگریزی ترجمہ موجود ہے،اسی طرح قرآن مجید کا بھی ایک معیاری ترجمہ و مرتب کر کے دنیا کی تمام زبانوں میں شائع کیا جائے"

2۔ "حکومت کے زیرِ اہتمام نیشنل اسمبلی ہال میں فریقین کے متعمد و جید علماء علمی تحقیقی انداز میں ججوں کے سامنے اپنا اپنا نقطہ نگاہ پیش کریں اور کتاب و سنت کو معیارِ حق مانتے ہوئے متنازعہ فیہ تمام امور کا فیصلہ ہو جائے۔ اگر صلوۃ و سلام کتاب و سنت کی روشنی میں جائز بلکہ فرض ہے تو بلا تخصیص عقیدہ و مسلک ہر مسجد میں اس کی اجازت ہو"

3۔ "کتاب و سنت کے علاوہ فقہ کو بھی اساسِ حجت میں شامل کیا جائے"

4۔ "اتحادِ ملت کے چار نکات" (جن کا ذکر، ان پر تبصرہ کے ضمن میں آ جائے گا)

۔۔۔ اصل صورتِ حال یوں معلوم ہوتی ہے کہ جماعتِ اسلامی کی اتحادِ ملت کی تحریک سے متعلق پڑھ سن کر مولانا نیازی اندیشہ ہائے دور و دراز میں مبتلا ہو گئے۔ پھر شدید غصہ کے عالم میں انہیں یہ ہوش بھی نہ رہا کہ وہ کس سے مخاطب ہیں؟۔۔۔یہی وجہ ہے کہ رضاخانی ٹولہ کو چھوڑ کر باقی سب کے متعلق جو کچھ منہ میں آیا کہتے چلے گئے۔۔۔ لیکن اس طرح چونکہ یہ الزام عائد ہوتا تھا کہ "مولانا نیازی اتحاد کی مخالفت کر کے انتشار کو ہوا دے رہے ہیں"، لہذا خیر و برکت کے طور پر، اتحاد کے لیے کچھ نکات تجویز کرنا بھی ضروری خیال فرمایا۔ورنہ بوکھلاہٹ اور انتشارِ ذہنی کے غماز یہ تجاویز و نکات بھی ہیں۔۔۔ انہیں کون یہ بتلائے کہ قرآنی الفاظ کا سیدھا سادھا ترجمہ انتشار و اختلاف کا باعث نہیں بنتا، بلکہ انتشار و افتراق، ترجمہ میں گھپلا کرنے اور قرآنی الفاظ کی من مانی تعبیر سے پیدا ہوتا ہے۔۔۔ چنانچہ اگر انہوں نے ایک متفقہ ترجمۃ القرآن کے مرتب کرنے کی تجویز پیش فرمائی ہے تو یہ دراصل "چور کی داڑھی میں تنکا" والی بات ہے۔ کیونکہ جس ترجمۃ القرآن (کنز الایمان) کی دوسرے تراجمِ قرآنی پر فضیلت ثابت کرنے میں انہوں نے اپنے اس مضمون میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے، یہی وہ واحد ترجمۃ القرآن ہے جس میں اپنے مزعومہ عقائد کو ثابت کرنے کے لیے تحریفات کا سہارا لیا گیا ہے، اور اسی لیے عرب ممالک میں اس پر پابندی لگی، جس پر مولانا نیازی چراغ پا ہیں۔۔۔دعویٰ کی دلیل میں ہم یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کریں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی بشریت کے ثبوت میں قرآن مجید کی یہ آیت اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے:

﴿قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌمِّثْلُكُم﴾

جس کا سیدھا سادھا ترجمہ یوں ہے کہ:

"(اے نبی صلی اللہ علیہ سلم) کہہ دیجئے، سوائے اس کے نہیں کہ میں بشر ہوں مثل تمہاری"

لیکن مولانا احمد رضا خاں صاحب اس کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں کہ:

"تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں" (کنزالایمان، الکہف)

۔۔۔ اب اگر مولانا نیازی سے پوچھا جائے کہ "ظاہر صورت" اس آیت کے کون سے الفاظ کا ترجمہ ہے؟ اور تفسیر بالرائے کے بجائے قرآن کی تفسیر و مفہوم خود قرآن سے اخذ کرنے نیز احادیث صحیحہ اور فقہ سلف صالحین کو (اس ترجمہ میں کہاں تک) ملحوظ رکھا گیا ہے؟" تو جواب ندارد ۔۔۔ تاہم اگر دیگر رضاخانی ملاؤں کے علاوہ خود مولانا نیازی بھی اس بناء پر "نور من نور الله" (العیاذباللہ) کے قائل ہیں، تو ظاہر ہے امتِ مسلمہ میں نور و بشر کے مباحث کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا (بلکہ شروع ہے) جس کا نتیجہ سو فیصد فرقہ بندی ہے۔۔۔ اس کے باوجود اگر مولانا نیازی سے پوچھا جائے کہ آپ کی نظر میں وہ کون سا ترجمہ القرآن ہے جو سب فرقوں کے درمیان متفقہ کہلانے کا حق دار ہو سکتا ہے؟ تو اغلب گمان یہی ہے کہ جوابا وہ "کنزالایمان" کا نام لیں گے۔ کیونکہ اپنے مضمون میں اس کی فضیلت ثابت کرنے سے ان کا مقصود یہی ہے۔۔۔ اور عجب نہیں کہ اس ترجمہ کی بدولت، فرقہ بندی کے رد میں وہ یہ دلیل بھی پیش فرما دیں کہ اس ترجمہ میں"منکرینِ بشریتِ رسول صلی اللہ علیہ سلم اور قائلینِ بشریت رسول صلی اللہ علیہ سلم" دونوں کے اطمینان کے سامان موجود ہیں۔ چنانچہ "ظاہر صورتِ بشری" کے الفاظ تو "منکرینِ بشریت" کے کام آئیں گے اور "میں تم جیسا ہوں" کے الفاظ "قائلین بشریت" کو ٹھنڈا ٹھار کر دیں گے۔۔۔اور اس طرح اتحاد بھی ہو جائے گا اور "اتحاد کے مرکزی تصور کا موضوع بھی تشنہ نہ رہے گا۔

۔۔۔بایں ہمہ، مولانا نیازی سے یہ پوچھنا باقی ہے کہ "روئے زمین پر بائبل کا اگر صرف ایک ہی ترجمہ موجود ہے" تو اس بناء پر عیسائیت کے مختلف فرقوں کا کیا واقعی خاتمہ ہو چکا ہے؟ ۔۔۔ پھر یہ وسیلہ ڈھونڈنے کی ضرورت؟

ہاں مولانا نیازی کی یہ بات درست ہے کہ "حکومت کے زیر اہتمام نیشنل اسمبلی ہال میں فریقین کے متعمد و جید علماء علمی تحقیق انداز میں ججوں کے سامنے اپنا اپنا نقطہ نگاہ پیش کریں اور کتاب و سنت کو معیارِ حق مانتے ہوئے متنازعہ فیہ تمام امور کا فیصلہ ہو جائے"

۔۔۔ لیکن افسوس، مولانا نیازی کو خود ہی اس پر اطمینان نہ ہو اور کتاب و سنت کا نام لے کر صحیح نتیجہ تک پہنچنے کے باوجود وہ امتِ مسلمہ کو دھوکا دینے سے باز نہ آئے۔ چنانچہ اس کے معا بعد لکھ دیا کہ:

"اگر صلوۃ و سلام کتاب و سنت کی رونی میں جائز بلکہ فرض ہے تو بلا تخصیص عقیدہ و مسلک ہر مسجد میں اس کی اجازت ہو"

مولانا کی اس مختصر سی عبارت میں ابلہ فریبی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔۔۔یہ الفاظ لکھ کر انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ رضاخانیوں کے علاوہ باقی تمام مسلمان صلوۃ و سلام کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ تمام مسلمان پانچوں وقت کی نماز میں "التحیات" کے بعد رسولِ عربی صلی اللہ علیہ سلم پر سلام بھیجتے ہیں اور سلام کے بعد "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ" بھی پڑھتے ہیں، جو کتاب و سنت، جسے آپ نے معیارِ حق تسلیم کیا ہے، کے عین مطابق ہے۔۔۔ لہذا صلوۃ و سلام کا کوئی بھی مسلمان انکاری نہیں ہے۔۔۔ہاں ہمیں آپ کے من گھڑت صلوۃ و سلام اور بصورتِ قیام، ہاتھ باندھے ہوئے، گلا پھاڑ پھاڑ کر اور رگیں پھلا پھلا کر اس کے انداز "سب پڑھو۔۔" سے شدید اکتلاف ہے۔ کیونکہ جس کتاب و سنت کی روشنی میں آپ متنازعہ فیہ تمام امور کا فیصلہ کرنے پر آمادہ ہیں، اس میں نہ آپ کا یہ صلوۃ و سلام ملتا ہے، نہ پڑھنے کا یہ انداز۔۔۔تو پھر آپ اس خانہ ساز صلوۃ و سلام کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ تاکہ اپنے ہی لکھے پر آپ کی طرف سے کچھ ہی اخلاص کا ثبوت ہمیں مل جاے۔۔۔لیکن اگر آپ بلا تخصیصِ عقیدہ و مسلک ہر مسجد میں اسی صلوۃ و سلام کے اسی انداز میں پڑھنے کی اجازت چاہتے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کا نام لینے اور اسے حکم ماننے کے باوجود آپ نے اسے حکم تسلیم نہیں کیا۔۔۔ پھر چونکہ عقیدہ و مسلک کی اصل بنیاد کتاب و سنت ہیں، لہذا آپ نے بلا تخصیصِ عقیدہ و مسلک" کے الفاظ ذکر کر کے لفظا، اور کتاب و سنت کی عملا مخالفت کر کے معنا بھی اس کا انکار کر دیا ہے۔

۔۔۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:

"کتاب و سنت کے علاوہ فقہ کو بھی اساسِ حجت میں شامل کیا جائے"

۔۔۔اور اس طرح آپ نے واضح الفاظ میں "کتاب و سنت پر اپنے عدمِ اطمینان کا اظہار کر دیا ہے۔۔۔کم از کم مولانا نیازی ایسے عالمِ دین سے ہمیں اس کی توقع نہ تھی کہ وہ فقہ کو بھی اساسِ حجت تسلیم کرنے کا نعرہ لگاتے۔۔۔فقہ تو کئی ہیں، اور اگر یہ سب اساِ حجت ہیں، تو پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر آپ شافعی، مالکی، حنبلی فقہ کے مخالف کیوں ہیں؟۔۔۔ یہ فقہ حنفی کی تخصیص کیوں اور صرف حنفی کہلانا کیوں پسند فرماتے ہیں؟۔۔۔پھر تو سبھی امامِ اعظم ہوئے، آپ صرف ایک کو امامِ اعظم کیوں کہتے ہیں؟۔۔۔اساسِ حجت تو شریعت ہے، لیکن اگر فقہ بھی اساسِ حجت میں شامل ہو تو کیا آپ باقی فقہوں کو چھوڑ کر شریعت کے دائرہ سے باہر نکل گئے ہیں یا ﴿أَفَتُؤمِنونَ بِبَعضِ الكِتـٰبِ وَتَكفُر‌ونَ بِبَعضٍ﴾ پر عمل پیرا ہیں/ کیا آپ کو یہ بھی علم نہیں کہ خود آپ کے اپنے امامِ اعظم بھی، دوسری فقہیں تو کجا، اپنی فقہ کو بھی اساسِ حجت نہیں سمجھتے؟ ۔۔چنانچہ آپ کا مشہور مقالہ ہے کہ:

«اِذَا صَحَّ الْحَدِيْثُ فَهُوَ مَذْهَبِى»

کہ "جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے"

۔۔۔ اور اگر آپ فقہ حنفی کے علاوہ کسی دیگر فقہ کے بھی قائل ہیں تو امام مالک رحمہ اللہ کا یہ ارشاد بھی سن لیجئے:

"مَا مِن اَحَدٍ اِلَّا وَقَولُهُ مَقْبُولٌ وَمَرْدُوْدٌ عَلَيْهِ اِلَّا صَاحِبَ هٰذَا الْقَبْرِ"

کہ"ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جا سکتی ہے، مگر اس صاحب، قبر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی قبر مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کی بات (قبول ہی کی جائے گی، رد نہیں کی جا سکتی)"

۔۔۔ لیکن آپ کو تو انتشارِ ملت کا فریضہ سرانجام دینے کے باوجود "اتحاد بین المسلمین اور اس کے مرکزی تصور" کا بھرم قائم رکھنا تھا۔ چنانچہ یہ نہ سوچا کہ فقہ کو اساسِ حجت میں شامل کرنے کا نعرہ بلند کر کے پھر سے انتشارِ ملت کا پٹارہ اپنے ہاتھوں کھول بیٹھے ہیں۔۔۔محترم، یہ فقہ کو اساسِ حجت میں شامل کر کے اسے شریعت کا درجہ دے دینا ہی تو فرقہ بندی کی جڑ ہے، آپ اسی میں سے پھوٹنے والے پودے کو اپنے خون پسینہ سے سینچتے بھی ہیں۔۔۔تناور بنا کر جوان کرتے ہیں، اور توقع یہ رکھتے ہیں کہ یہ نہ صرف برگ وبار نہیں لائے گا بلکہ فرقہ بندی اور انتشار کی بجائے اور اتحاد کے پکے پکائے پھل آپ کی جھولی میں گرائے گا۔ افسوس، آپ نے کتنی قلابازیاں کھائیں، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟۔۔۔ پہلے قرآن کے ایک متفقہ ترجمہ کی تجویز پیش کی اور اس کے لیے بائبل (عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید) کا وسیلہ اختیار کیا، ساتھ ہی ترجمہ کے لیے احادیثِ صحیحہ اور تعاملِ صحابہ رضی اللہ عنھم کی قید لگائی، لیکن متفقہ ترجمہ کا مستحق ہونے کے لیے ایک ایسے ترجمہ کی فضیلت بیان فرمائی جو جا بجا احادیثِ صحیحہ اور تعاملِ صحابہ رضی اللہ عنھم سے ہٹا ہوا ہے۔۔۔ پھر کتاب و سنت کی طرف متوجہ ہوئے، لیکن فرقہ وارانہ رگِ حمیت پھڑکی تو درود و سلام کا روایتی انداز یاد آ گیا۔۔۔پھر سوچا کہ کتاب و سنت کو حکم ماننے سے بات بنتی نظر نہیں آتی، کہ فقہ سے دستبردار ہونا پڑے گا، تو فقہ کو بھی شریعت تسلیم کرنے کا پتہ پھینکا۔۔۔ لیکن جب اس طرح بھی بازی پِٹتے دیکھی، کیونکہ تمام فقہوں پر ایمان لانا مشکل تھا، تو اپنے مضمون کے آخر میں "اتحادِ ملت کے چار نکات" بیان فرماتے ہوئے پہلے نکتے میں "شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد و نظریات کی روشنی میں اپنے تمام متنازعہ فیہ امور کو حل کرنے" کا مشورہ دیا۔۔۔اور "لطف کی بات یہ کہ" لکھ کر بریلوی اور دیوبندی کو تو امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی غیرمشروط تقلید کا مژدہ سنایا، لیکن اہل حدیث کو کتاب و سنت اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا مشورہ دیا۔۔۔ اب ظاہر ہے کہ کتاب و سنت کی اتباع اور امامِ اعظم کی غیر مشروط تقلید کو آپس میں کوئی نسبت نہ تھی، علاوہ ازیں یہ سوال کیا جا سکتا تھا کہ بات تو شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد و نظریات کی ہو رہی تھی، پھر "لطف کی بات" میں بریلوی،دیوبندی کو امامِ اعظم کی غیر مشروط تقلید اور اہل حدیث کو کتاب و سنت کی اتباع کی خوشخبری کی کوئی تُک کہاں تھی؟۔۔۔نیز یہ بھی ثابت کرنا پڑتا کہ کیا مذکورہ حضرات بھی امامِ اعظم کے، آپ ہی کی طرح غیر مشروط مقلد تھے؟۔۔۔قارئینِ کرام، ظاہر ہے یہ کوئی اتحادی فارمولا کہلانے کی بجائے تماشہ کہلانے کا زیادہ حقدار ہے اور انتشارِ ذہنی کی بدترین مثال۔۔۔لہذا انتشار کے ان تمام شگافوں پر بڑی صفائی سے "اتحاد بین المسلمین" کا روغن یوں پھیرا کہ:

"ان اکابر سے لے کر حضور پُر نور صلی اللہ علیہ سلم تک ہمارا مرکزِ اطاعت ایک ہے"

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے


۔۔۔ اب صورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے کہ ان اکابر (شاہ ولی اللہ وغیرہ) کے نظریات اپنی جگہ اٹکے ہوئے مولانا نیازی کا منہ تک رہے ہیں، دیوبندی اور بریلوی امامِ اعظم کی غیر مشروط تقلید کر رہے ہیں اور اہل حدیث حضرات کتاب و سنت کی اتباع میں مشغول ہیں۔۔۔ اور "اتحاد بین المسلمین کا مرکزی تصور" الگ نکھرتا چلا جاتا ہے۔۔۔پھر بھی مرکزِ اطاعت ایک ہے

جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی


۔۔۔ دیکھئے، کس خوبی سے مولانا نیازی نے اختلافِ امت کی تمام گھتیاں سلجھا کر رکھ دی ہیں۔۔۔ قطع نظر اس سے کہ اس فقرہ کا مفہوم ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔

"ان اکابر سے لے کر حضور پُر نور صلی اللہ علیہ سلم تک ہمارا مرکزِ اطاعت ایک ہے"

۔۔۔ کیا ہی بہتر ہو کہ مولانا نیازی اسی اندازِ بیان میں قرآن مجید کا ایک متفقہ ترجمہ ترتیب دے ڈالیں تاکہ "اتحاد بین المسلمین" ہو جائے۔۔۔ اور

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی


۔۔۔ ظاہر ہے جب کوئی، کچھ سمجھے گا ہی نہیں تو اختلاف کی جراءت کسے ہو گی؟

۔۔۔قارئین کرام شائد مطمئن ہو گئے ہوں گے کہ مولانا نیازی کے نزدیک "اتحاد بین المسلمین" واقع ہو چکا۔۔۔لیکن جب مولانا نیازی خود مطمئن نہیں ہوئے تو قارئین کو یہ حق کیسے دے سکتے ہیں؟۔۔۔ چنانچہ مولانا نیازی کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ ممکن ہے، پہلے نکتہ میں مذکور اکابر کے عقائد و نظریات میں ان کے مزعومہ عقائد کو تحفظ نہ ملے (اور تحفظ مل بھی نہیں سکتا، بشریت کے مسئلہ پر ہی کباڑہ ہو جائے گا) لہذا دوسرے نکتہ میں آپ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، چشتی صابری رحمہ اللہ کی رسالت پر ایمان لاتے ہوئے ان کی تصنیف "فیصلہ ہفت مسئلہ" کو حکم بنانے کا اعلان فرماتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن مجید نے یہ مقام صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ہے، کسی چشتی صابری کو نہیں۔ حتیٰ کہ اب حضرات موسیٰ و عیسیٰ علیہما الصلوۃ والسلام کو بھی نہیں۔۔۔ علاوہ ازیں قرآن مجید نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم نہ ماننے والے کے ایمان کو ہی ناقصد قرار دیا ہے:

﴿فَلا وَرَ‌بِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ‌ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَ‌جًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا﴿ ٦٥﴾... سورةالنساء

"(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) تیرے رب کی قسم، یہ اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک اپنے جھگڑوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تسلیم نہ کر لیں، نیز جو فیصلہ آپ فرمائیں، یہ اپنے دل میں اس پر کچھ تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سرتسلیم خم کر دیں۔"

۔۔۔ لیکن ہرجائیوں کا کیا ہے؟۔۔۔کھاتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا ہیں اور حکم کسی اور کو تسلیم کرتے ہیں۔۔۔ سچ ہے، جن لوگوں نے خدا کا رزق کھا کر اس کے شریک بنانے سے گریز نہ کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم کیوں ملحوظ رکھیں گے؟

۔۔۔ مولانا انصاف فرمائیے، اگر آپ نے کسی ایسے چشتی صابری کو حکم تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بارے میں اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری،تو آپ دیگر تمام لوگوں سے یہ حق کیسے چھین سکتے ہیں کہ وہ اپنے الگ الگ حکم بنا لیں؟۔۔۔"اتحاد بین المسلمین" کا فریضہ ضرور سر انجام دیں، لیکن خدا کو سمجھانے والی باتیں نہ کریں کہ قرآن مجید میں "﴿اتَّخَذوا أَحبارَ‌هُم وَرُ‌هبـٰنَهُم أَر‌بابًا مِن دونِ اللَّهِ﴾" کیوں وارد ہوا؟۔۔۔بیچارے یہود و نصاریٰ بھی تو اپنے رہبان و احبار کو حکم ہی تسلیم کرتے تھے کہ ان کا حلال کیا ہوا حلال، اور حرام کیا ہوا حرام سمجھ لیتے تھے، پھر ان پر عتاب کس لیے؟۔۔۔اندریں حالات سوچئے، "اتحاد کا مرکزی تصور" کیا ہوا، جبکہ آپ نے پوری ملت کو مخالف سمتوں میں ہر ممکنہ تیزی سے دوڑانا شروع کر دیا ہے؟۔۔۔کیا "﴿وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَميعًا﴾" کا یہی مفہوم ہے؟

۔۔۔اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا کیا قصور تھا؟ کہ انہوں نے تو آپ کے بقول "ہر شخص کو (صرف) شریعت کی تعبیر میں کھلا چھوڑ کر ذاتی تفقہ و اجتہاد کی روشنی میں اعمالِ اسلامی کی اجازت مرحمت فرمائی ہے"۔۔۔لیکن آپ نے تو تعبیر چھوڑ خود شریعت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔۔۔چنانچہ تیسرے نکتہ میں آپ نے علمائے دیوبند پر نظرِ کرم فرماتے ہوئے "المہند" میں درج شدہ فیصلوں کو اختلافی مسائل میں نافذالعمل کر دیا ہے۔۔۔اور اس "عقائد نامہ کو بھی حکم تسلیم کرنے" کے علاوہ ان کو یہ مشورہ دیا ہے کہ "پبلک پلیٹ فارم سے اپنے مخالفین کے خلاف طعن و تشنیع سے مکمل اجتناب کریں"۔۔ تاکہ اگر آپ نے ان کے اکابر پر، اپنے اسی مضمون میں کیچڑ اچھالا ہے تو وہ اس مضمون کا جواب بھی نہ لکھیں، مبادا ان الزامات کی صفائی دینے میں وہ کامیاب ہو جائیں جن کے ذریعے آپ نے امتِ مسلمہ کے مابین اتحاد کے نام پر انتشار کا ناخوشگوار فریضہ سر انجام دیا ہے۔

۔۔۔اور اتحادِ ملت کے چوتھے نکتہ میں تو مولانا نے ایک انگریزی "آیت" "Live and Let Others Live" کا حوالہ دے کر جہاں اس مقولہ کے خالق کو گویا حکم تسلیم کر لیا ہے وہاں ہر شخص کو جملہ پابندیوں اور مذکورہ بالا تمام "حکموں" سے بھی بے نیاز کر کے رکھ دیا ہے کہ جس کی مرضی میں جو آئے، کرے! کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔ مولانا کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

"Live and Let Others Live" انگریزی محاورہ کے اصول پر اگر کوئی مسلمان سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر کھڑے ہو کر صلوۃ و سلام پڑھتا ہے تو اسے پڑھنے دیں اور جو خاموشی سے بیٹھ کر پڑھ لے تو اسے مجبور نہ کیا جائے کہ وہ کھڑا ہر کر بلند آواز سے ضرور پڑھے۔ تمام مسلمان نماز میں "السلام عليك ايها النبى" پڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجتے ہیں تو نماز کے بعد بھی اس پر کوئی اعتراض نہ ہونا چاہئے"

۔۔۔واللہ! اس انگریزی محاورے نے تو دکھا بھی دیا۔۔۔سچ ہے، اس کے بغیر انتشارِ ملت کا یہ فارمولا مکمل بھی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔تعجب ہے کہ قرآن مجید میں "﴿ لَكُم دينُكُم وَلِىَ دينِ ﴿٦﴾... سورة الكافرون" کا نعرہ کیوں لگا؟ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "Live and let others live"کے محاورہ کو گول کر کے مشرکینِ مکہ کی منت سماجت کے باوجود "لا" کی تلوار سے ان کے تمام معبودانِ باطلہ کے سر کیوں کاٹ پھینکے تھے؟

۔۔۔ اور انگریزی کے علاوہ اُردو میں بھی جو کچھ مولانا نے بیان فرمایا، وہ بھی ایک کلیہ ہی ہے کہ دین کے نام پر جو چاہو کرو، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔۔۔مزید کرم انہوں نے یہ کیا ہے کہ تمام مسلمانوں کے نزدیک صلوۃ و سلام کا جائز ہونا تسلیم کر لیا ہے۔۔۔ لیکن ساتھ ہی یہ اڑنگا پٹخنی بھی دی ہے ہ دیگر مسلمان تو ایک چھوڑ سینکڑوں "حکم" تسلیم کر کے ان کے پابند ہو جائیں تاکہ "اتحاد بین المسلمین" کے تقاضے پورے ہو جائیں، لیکن خود انہیں یہ اجازت ضرور مرحمت فرمائی جائے کہ وہ نماز کے بعد کھڑے ہو کر بلند آواز سے درود پڑھ لیا کریں

۔۔۔آہ! اتنے جھمیلوں کے بعد بھی

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

۔۔۔اب اس بلند آواز سے خانہ ساز درود پڑھنے پر جو شور پھر سے اٹھے گا تو "اتحاد بین المسلمین" کی پوری بازی ہی چوپٹ ہو کر رہ جائے گی۔

قارئین کرام، یہ ہے وہ چار نکاتی فارمولا، جس کے متعلق مولانا نیازی نے دعویٰ کیا ہے کہ سینکڑوں لوگوں نے اس کی تائید فرمائی ہے۔۔۔مولانا کہتے ہیں تو ہم بھی مان لیتے ہیں کہ ضرور تائید فرمائی ہو گی۔۔۔تاہم مزید ہمیں یہ کہنے کی بھی اجازت دیں کہ یہ فارمولا "اتحاد بین المسلمین" کے نقطہ نظر سے تو انتہائی نا معقول ہے، البتہ "انتشار بین المسلمین" کے نقطہ نظر سے اسی قدر معقول بھی۔۔۔جیسا کہ ہم نے اس پر تبصرہ کر کے اہل فکر و نظر کو اس پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔۔۔اور آخر میں ہم مولانا سے بھی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اتحاد بین المسلمین کا مرکزی تصور اور فارمولا صرف اور صرف یہ ہے کہ:

«تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ»

یہ فارمولا اس ہستی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا، جس کی کوئی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی،خواہ ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے۔۔۔مزید یہ کہ اس فارمولا پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، ائمہ کرام (رحمہم اللہ) حتیٰ کہ خود آپ کے اپنے امامِ اعظم کے دستخط بھی موجود ہیں کہ:

«اِذَا صَحَّ الْحَدِيْثُ فَهُوَ مَذْهَبِى»

کہ "جب صحیح حدیث مل جائے تو یہی میرا مذہب ہے"

لہذا آپ کو اتحادی فارمولے تلاش کرنے کے لیے اتنے جھمیلوں میں پڑنے کی ضرورت ہرگز نہ تھی۔۔۔ صرف اس مذکورہ بالا فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دے دیتے تو سستے چھوٹ جاتے

شائد کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات


حاشیہ

مولانا اپنے مضمون میں مقررہ فقہی تعداد کے مطابق ڈول بھی کھینچے ہیں۔

"وہ (طریقہ) جس پر میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) اور میرے صحابہ رضی اللہ عنھم ہیں"

"اور ظالم لوگ سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) تو تمہاری مثل بشر ہے (لہذا رسول نہیں ہو سکتا) تو کیا تم دیدہ و دانستہ اس کے جادو کا شکار ہوئے جاتے ہو؟"۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین اولین کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا یا رسول بشر نہیں ہوتا۔ فلہذا اس کی باتیں مت سنو، قرآن مجید نے اس عقیدہ کی "﴿هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا﴾" کے الفاظ ذکر کر کے سختی سے تردید فرمائی۔