امام غزالی شریعت کی عدالت میں

امام غزالی اور علمِ قرآن:

امام غزالی کو قرآن کریم سے کس قدر شغف رہا ہے، اس بات کی وضاحت کے لیے ذیل میں چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔

قرآن کریم میں ایک آیت ہے:

﴿لَعَلّى ءاتيكُم مِنها بِقَبَسٍ أَو أَجِدُ عَلَى النّارِ‌ هُدًى ﴿١٠﴾... سورة طه

'شائد میں اس سے کوئی چنگاری تمہارے لیے لاسکوں یا وہاں الاؤ پر کسی رہبر کو پا سکوں۔"

اس آیت کریمہ کی تفسیر امام غزالی نے اس طرح بیان فرمائی ہے:

"لَعَلَّكَ مِنْ سُرَادِقَاتِ الْعِزِّتُنَادٰى بِمَا نُودِىَ بِهِ مُوسىٰ اَنَا رَبُّكَ"(الاملاء المخلص الاحياء ص44 مطبع الجنة نشر الثقافة الاسلامية)

یعنی "اے مخاطب (نبی صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ کو عزت کے پردوں سے پکارا گیا جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سے پکارا گیا کہ میں تیرا رب ہوں۔"

قرآن کی ایک دوسری آیت ہے:

﴿وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ ﴿٥٦﴾... سورةالذاريات

"اور میں نے انسانوں اور جنوں کو نہیں پیدا کیا مگر اس لیے کہ وہ (صرف) میری عبادت کریں۔" (تفسیر بمطابق انگریزی ترجمہ، معانی القرآن الکریم لابن کثیر ص522)

اس آیت کی تفسیر میں امام غزالی فرماتے ہیں:

"وَاَنَّا خَلَقْنَا الْقَلْبَ وَاَعْطَيْنٰهُ الْمُلْكَ وَالْعَسَاكِرَ وَجَعَلْنَا النَّفْسَ مَرْكَبَهُ حَتَّى يُسَافِرَ عَلَيْهِ مِنْ عَالَمِ التُّرَابِ اِلٰى اَعْلٰى عِلِّيِّيْنِ"(الجواهر، الغزالى ص11)

یعنی "اور میں نے پیدا کیا قلب کو اور عطا کیا اسے ملک و عساکر اور نفس کو مرکب بنادیا حتیٰ کہ وہ سفر کرے اس پر عالمِ تراب سے اعلیٰ علیین تک۔"

استاذ محمود مہدی استانبولی کہتے ہیں:

"(امام) غزالی نے قرآن حکیم کی بعض ایسی تفاسیر بیان کی ہیں جو عبث، لغو، اپنے موضوع سے ہٹی ہوتی اور تحریف الکلام کے مترادف ہیں اس بناء پر اگر یہ کہا جائے کہ (امام) غزالی کو قرآن و حدیث سے معرفت نہ تھی تو بے جا نہ ہو گا۔" (ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بطل الاصلاح الدینی لمحمود مہدی ص131،132)

اسی طرح امام غزالی نے تفسیر صفات اللہ تعالیٰ کی تاویل میں بیان کیا تھا کہ "الاستواء"، "استیلاء" پر مجاز ہے، "ہاتھ" "قدرت" پر اور "آنکھ" "بصارت' پر۔ استاذ محمد ابوزہرہ مصری نے بھی امام غزالی کی اس تفسیری تاویل کو سراہا اور اس کی تائید کی ہے۔ لیکن استاذ محمود مہدی استانبولی نے حقائق و دلائل کی روشنی میں استاذ محمد ابوزہرہ کی سخت گرفت کی ہے۔ امام غزالی کی صفات اللہ کی اس تاویل کے سلسلہ میں ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت حق بات فرمائی ہے جو اس طرح ہے:

"بلاشبہ قرآن کریم کی تمام آیات الصفات کی تاویل میں صحابہ رضی اللہ عنھم کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنھم سے منقولہ بہت سی تفاسیر سامنے آئی ہیں۔ جن میں احادیث سے روایت کی گئی ہے۔ ماشاءاللہ اس بارہ میں تمام چھوٹی و بڑی کتابیں متفق ہیں۔ ایک سو سے زیادہ تفاسیر موجود ہیں لیکن مجھے اس وقت تک کسی صحابی کے بارہ میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے آیاتِ صفات احادیثِ صفات کی کوئی تاویل، اس کے مقتضیٰ اور مفہومِ معروف کے خلاف بیان کی ہو۔" (تفسیر سورۃ النور لامام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ص145 و (سوانح) ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لاستاذ محمد ابوزہرہ مصری ص270)

حافظ ابن الجوزی نے امام غزالی کی ایک تفسیری رائے کے متعلق اپنی مشہور زمانہ تصنیف "تلبیس ابلیس" میں اس طرح لکھا ہے:

"اس میں لکھا ہے کہ وہ ستارہ اور سورج اور چاند جن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا، ان سے مراد انوار ہیں جو اللہ عزوجل کے حجاب ہیں۔ یہ مشہور چاند، سورج اور ستارے مراد نہیں۔ غزالی کا یہ کلام باطنیہ کے کلام کی قسم سے ہے۔" (تلبیس ابلیس، مصنفہ امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ، ترجمہ مولانا عبدالحق ص255، مطبع فاروقی دہلی)

امام غزالی اور علمِ حدیث:

امام غزالی کو علمِ حدیث اور اس کے متعلقات کی بہت کم معرفت تھی۔ جس کا تھوڑا بہت اندازہ گزشتہ صفحات میں ہو چکا ہو گا۔ اس بات کی شہادت خود امام صاحب نے ان الفاظ میں دی ہے:

"بِضَاعَتِىْ فِى عِلْمِ الْحَدِيْثِ مُزْجَاةٌ"(رسالة التاويل16)

یعنی "علمِ حدیث میں میری بضاعت بہت خلط ملط اور کم ہے۔"

اسی باعث آپ کی تصانیف میں، کثیر تعداد میں ضعیف اور موضوع روایات ملتی ہیں۔ بہت سے علمائے کبار نے امام غزالی کی اس کمی کی طرف اشارہ کیا ہے، مثلا ابوبکر الطرطوشی فرماتے ہیں:

"وہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے سے محبت ہے ہمیں اس بسیط و عریض سرزمین پر کسی ایسی کتاب کا علم نہیں ہے جو جھوٹ باندھنے میں ان (امام غزالی) سے بڑھ کر ہو۔" (مسیرۃ الغزالی ص75، طبع دارالفکر بدمشق)

امام غزالی چونکہ بقول مولانا ابوالحسن علی الندوی "حدیث کی طرف ایسی توجہ نہیں کر سکے تھے جیسی انہوں نے علومِ عقلیہ اور بعض علومِ نقلیہ کی طرف کی تھی، لہذا اس (آخری) زمانہ میں ان کو اپنی اس کمی کو پورا کرنے کا خیال ہوا۔ چنانچہ (اپنے زمانہ کے) ایک مشہور محدث حافظ عمر بن ابی الحسن الرواسی کو اپنے یہاں مہمان رکھ کر ان سے صحیح بخاری و صحیح مسلم کا درس لیا اور اس کی سند حاصل کی۔ یہ آخر زمانہ ان کا حدیث کے مطالعہ اور اشتغال میں گزرا۔" (تاریخ دعوت و عزیمت، مصنفہ ابوالحسن علی الندوی ج1 ص189 طبع لکھنؤ)

ابن عساکر کا قول ہے:

"وَكَانَتْ خَاتَمَةُ اَمْرِهِ اِقْبَالَهُ عَلٰى حَدِيْثِ الْمُصْطَفٰى صلى الله عليه وسلم وَمَجَائَسَةَ اَهْلِهِ وَمُطَالَعَةُ الصَّحِيْحَيْنِ لِلْبُخَارِىِّ وَمُسْلِمٍ اَلَّذِيْنَ هُمَاحُجَّةُ الْاِسْلَامِ"(تبئين كذب المفترى ص296)

یعنی "ان کی زندگی کا آخری کام یہ تھا کہ وہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پوری طرح متوجہ ہوئے اور علماء حدیث کی ہم نشینی اختیار ی، صحیحین بخاری و مسلم کا مطالعہ شروع کیا جو اسلام میں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔"

امام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک مقام پر امام غزالی کے متعلق لکھا ہے کہ آخری زندگی میں علومِ فلسفیہ و کلامیہ سے اشتغال چھوڑ کر علمِ حدیث کی طرف متوجہ ہوئے۔

حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں امام غزالی کے اس رجحان کا تذکرہ یوں منقول ہے:

"وَاٰخِرُ مَا اشْتَغَلَ بِهِ النَّظَرُ فِى صَحِيِحِ الْبُخَارِىِّ وَمَاتَ وَهُوَ مُشْتَغِلٌ بِذٰلِكَ"(ابن تيميه بطل الاصلاح الدينى لمحمود مهدى ص252)

یعنی "آخری چیز جس کے ساتھ ان کا اشتغال تھا وہ صحیح بخاری میں نظر تھی اور (انہوں نے) وفات پائی جب وہ اس کے ساتھ مشتغل تھے۔"

امام غزالی اور تصوف:

امام غزالی تصوف کے بہت مداح اور حامیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ آپ نے تصوف کا بغور مطالعہ کیا تھا اور اس سے متاثر ہوئے تھے۔ چنانچہ اپنے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اب صرف تصوف باقی رہ گیا، میں ہمی تن تصوف کی طرف متوجہ ہوا۔ تصوف علمی بھی ہے اور عملی بھی۔ میرے لیے علم کا معاملہ آسان تھا۔ میں نے ابوطالب مکی کی قوت القلب اور حارث محاسبی کی تصنیفات، اور حضرت جنید شبلی و بایزید بسطامی وغیرہ کے ملفوظات پڑھے اور علم کے راستے سے جو کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا وہ میں نے حاصل کر لیا، لیکن مجھے معلوم ہوا کہ اصلی حقائق تک تعلیم کے ذریعے نہیں، بلکہ ذوق و حال اور حالات کی تبدیلی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ جو علوم میرا سرمایہ تھے خواہ وہ شرعی ہوں یا عقلی، ان سے مجھے وجودِ باری اور معاد پر ایمان راسخ ہو چکا تھا۔ الخ" (المنقد من الضلال للغزالی)

"(چنانچہ) بغداد سے میں شام آیا اور وہاں دو سال کے قریب رہا، وہاں میرا کام عزلت و خلوت اور مجاہدے کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے علمِ تصوف سے جو کچھ حاصل کیا تھا اس کے مطابق نفس کے تزکیہ، اخلاق کی درستی و تہذیب اور ذکر اللہ کے لیے اپنے قلب کو مصفا کرنے میں مشغول رہا۔ میں مدت تک دمشق کی جامع مسجد میں معتکف رہا۔ مسجد کے منارے پر چڑھ جاتا اور تمام دن دروازہ بند کیے وہیں بیٹھا رہتا۔ دمشق سے میں بیت المقدس آیا، وہاں بھی روزانہ صخرہ کے اندر چلا جاتا اور دروازہ بند کر لیتا۔۔۔ حج کرنے کے بعد اہل و عیال کی کشش اور بچوں کی دعاؤں نے مجھے وطن پہنچا دیا، حالانکہ میں وطن کے نام سے کوسوں بھاگتا تھا۔ وہاں بھی میں نے تنہائی کا اہتمام رکھا اور قلب کی صفائی سے غافل نہیں ہوا۔ الخ" (المنقد من الضلال للغزالی، مختصرا)

اسی خودنوشت میں آگے چل کر لکھتے ہیں:

"دس سال اسی حالت میں گزر گئے۔ ان تنہائیوں میں مجھے جو انکشافات ہوئے اور جو کچھ مجھے حاصل ہوا، اس کی تفصیل اور اس کا استقصاء تو ممکن نہیں لیکن ناظرین کے نفع کے لیے اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ صوفیاء ہی اللہ کے راستے کے سالک ہیں، ان کی سیرت بہترین سیرت، ان کا طریق سب سے زیادہ مستقیم اور ان کے اخلاق سب سے زیارہ تربیت یافتہ اور صحیح ہیں۔ اگر عقلاء کی عقل، حکماء کی حکمت اور شریعت کے رمز شناسوں کا علم مل کر بھی ان کی سیرت و اخلاق سے بہتر لانا چاہے تو ممکن نہیں۔ ان کے تمام ظاہری و باطنی حرکات و سکنات مشکوۃِ نبوت سے ماخوذ ہیں۔ نورِ نبوت سے بڑھ کر رُوئے زمین پر کوئی نور نہیں جس سے روشنی حاصل کی جائے۔" (المنقذ من الضلال للغزالی)

ایک جگہ اپنی خلوت نشینی کے متعلق لکھتے ہیں:

"اس طرح میری گوشہ نشینی کی مدت گیارہ سال ہوتی ہے، الخ" (المنقذ من الضلال)

مولانا شبلی نعمانی بیان کرتے ہیں کہ:

"بغداد میں ان کو تحقیق حق کا شوق پیدا ہوا، تمام مذاہب کو چھانا، کسی سے تسلی نہیں ہوئی، آخر تصوف کی طرف رخ کیا۔ لیکن وہ قال کی چیز نہ تھی بلکہ سر تا پا حال کا کام تھا اور اس کا پہلا زینہ اصلاحِ باطن اور تزکیہ نفس تھا۔ امام صاحب کے مشاغل اس کیفیت کے بالکل سدِراہ تھے، قبول عام و ناموری، جاہ و منزلت، مناظرات و مجادلات اور پھر تزکیہ نفس شتان بینہما

ایں رہ کہ می ردی تو بمنزل نمی رود

آخر سب کو چھوڑ چھاڑ کر ایک کملی پہن بغداد سے نکلے اور دشت پیمائی شروع کی۔ سخت مجاہدات و ریاضات کے بعد بزم راز تک رسائی پائی۔ یہاں ممکن تھا کہ اپنی حالت میں مست ہو کر تمام عالم سے بے خبر بن جاتے لیکن بیاد آر حریفاں بادہ پیمارا ۔۔۔الخ" (الغزالی، مصنفہ مولانا شبلی نعمانی ص63،64)

مولانا سید ابوالحسن علی الندوی بتاتے ہیں:

"عمل کے سلسلہ میں اپنی ذہنی ، علمی ، اخلاقی اور روحانی ترقی و تکمیل کا انہوں نے کوئی گوشہ فروگزاشت نہیں کیا۔ علمی تبحر اور جامعیت و کمال کے ساتھ اپنے وقت کے ایک مخلص و مبصر شیخ طریقت شیخ ابو علی فارمدی (م 477ھ) سے بیعت کی اور تصوف کی تعلیم حاصل کی، پھر اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر کے اس کے مقاصد و غایات کو پہنچے اور اذواق صحیحہ سے لذت آشنا ہوئے۔" (تاریخ دعوت و عزیمت، مصنفہ مولانا ابوالحسن علی الندوی ج1 ص191مطبوعہ لکھنؤ)


حاشیہ

ترجمہ از قصص القرآن ،مصنفہ مولانا حفظ الرحمن سیو ہاروی، ج1 ص392، طبع ندوۃ المصنفین دہلی، بار چہارم)

ابن تیمیہ بطل الاصلاح الدینی، مصنفہ استاذ محمود مہدی استانبولی ص133، مکتبہ دارالمعرفۃ بدمشق

ابن تیمیہ، مصنفہ استاذ محمد ابوزہرہ مصری، ص270، 293، طبع مصر

ابن تیمیہ، بطل الاصلاح الدینی لمحمود مہدی استانبولی ص13، 135

سورۃ الانعام، آیات 76 تا78

استاذ محمود مہدی استانبولی نے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول پر ایک حاشیہ لکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:

"امام غزالی نے اگرچہ اپنے آخری دور میں فلسفہ کے بدلہ سنت سے اشتغال کیا تھا۔ لیکن اپنی سابقہ صوفیانہ و فلسفیانہ آراء سے، جو یقینا صحیح اسلام سے بعد اور کتاب و سنت سے عدم شغف کے باعث ان سے صادر ہو گئی تھیں، رجوع کا علی الاعلان اظہار نہیں کیا جیسا کہ ایک اشعری کے متعلق مشہور ہے کہ جب اس نے مذہب اشاعرہ سے توبہ کی تو مسجد کے منبر پر چڑھ کر اس طرح اعلان کیا: اے لوگو جو مجھے پہچانتا ہے اس نے مجھے پہچانا اور جو مجھے نہیں جانتا پس میں اشعری ہوں۔ مجھ پر حق ظاہر ہو چکا ہے لہذا میں اس سے اپنا تعلق توڑتا ہوں اور عقیدہ سلف کی طرف رجوع کرتا ہوں اور ان معتقداتِ باطلہ کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں جو اس عقیدہ کے مخالف ہوں۔"(ابن تیمیہ بطل الاصلاھ الدینی لاستاذ محمود مہدی ص252)

شائد اسی لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ "اگر کوئی آدمی چاشت کے وقت صوفی بنے، ظہر سے پہلے پہلے ضرور احمق ہو جائے گا" اور "جو شخص چالیس روز صوفیہ کے پاس رہے گا پھر کبھی اس کی عقل اس کے پاس نہیں آئے گی۔" (تلبیس ابلیس، مصنفہ حافظ ابن الجوزی ص 496 مطبوعہ فاروقی دہلی)

ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں: "چونکہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کبار رضوان اللہ علیھم اجمعین کا راستہ ہی صحیح راستہ تھا۔ اس لیے آپ نے صوفیاء کے تمام گروہوں (بشمول امام غزالی) پر تنقید کی ہے۔" (امام ابن تیمیہ، مصنفہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق ص163 مطبوعہ اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور 1079ء) تصوف کی رد میں آپ کی جو تنقیدی کتب ملتی ہیں وہ یہ ہیں: الحج العقلیہ فی الرد علی الجہمیہ والصوفیہ، رسالہ فی الذوق والوجد الذی یزکرہ الصوفیہ، قاعدہ فی الرد اہل الاتحاد، السبعینیہ، قاعدہ فی الشیوخ الحمدیہ، الفرق بین الخلوۃ الشرعیہ والبدعیہ، تحریم السماع، قاعدہ فی بیان طریقۃ القرآن، قاعدہ فی السیاحۃ العزلہ وفی الفقر والتصوف، قاعدہ فی تزکیہ النفوس، قاعدہ فی الزہد والورع، قاعدہ فی امراض القلوب وشفاء ہا، رسالہ فی علم الظاہر وعلم الباطن وغیرہ۔