وضع حدیث اور وضاعین

نقدِ حدیث کے معیار:

لیکن بعد میں آنے والے ادوار میں جبکہ موضوعات کی گرم بازاری اور بڑھی تو یہ بنیادی اصول ناکافی ثابت ہوئے۔اب علمائے حق نے ان اباطیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسے ایسے طریق دریافت کر لئے جنہیں استعمال کرنے سے موضوع حدیث الگ ہو کر سامنے آجاتی تھی۔ لہذا فتنہ وضع حدیث کو بالآخر محدثین کے سامنے ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ وہ طریقے کیا تھے؟ یہ داستان بہت طویل اور الگ تفصیل کی متقاضی ہے جو میں کسی دوسری فرصت میں بیان کروں گا۔ مختصرا یہ کہ یہ طریقے دو قسم کے تھے۔ (ا) نظری اور(ب) عملی۔ اور یہ مختصرا درج ذیل ہیں:

(ا)نظری طریق:

سے مراد وہ قواعد ہیں جو موضوع حدیث کی پہچان کے لیے بنائے گئے۔ اس طریق کی پھر دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم کے قواعد متنِ حدیث یا درایت سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ درج ذیل ہیں:

درایت کے اصول:


1۔ خلافِ عقل ہو:

جیسے یہ حدیث کہ "اللہ تعالیٰ نے گھوڑے کو پیدا کر کے اسے بھگایا تو اسے پسینہ آگیا۔ پھر اس پسینہ سے اپنے آپ کو پیدا کیا" یہ وضعی حدیث غالبا گھوڑے کی تعریف میں وضع کی گئی جس میں پہلے اللہ تعالیٰ کو خالق بیان کیا گیا ہے۔ پھر اس کی نفی بھی کر دی گئی ہے گویا اس میں تضاد بھی ہے، غیر معقولیت بھی اور لغویت بھی۔

2۔ خلافِ مشاہدہ ہو:

جیسے یہ حدیث کہ "بینگن ہر مرض کی شفا ہے" حالانکہ تجربہ اس کے خلاف ہے۔

3۔ قرآن کی قطعی دلالت یا سنتِ متواترہ یا اجماعِ قطعی کے خلاف ہو:

اور جمع و تطبیق کا بھی کوئی امکان نہ ہو۔ جیسے یہ حدیث کہ "دنیا کی عمر سات ہزار برس باقی رہ گئی ہے۔" یہ اس لیے وضعی ہے کہ قرآن کی صریح آیات کے خلاف ہے۔ لہذا قیامت کی مدت متعین کرنے والی اس قسم کی دوسری سب احادیث موضوع ہوں گی۔ یا یہ کہ "ولد الزنا جنت میں نہیں جائے گا۔" یا یہ کہ "جس شخص کا نام احمد یا محمد ہو وہ دوزخ میں نہیں جائے گا۔" یہ سب احادیث وضعی ہیں۔

4۔ عذاب و ثواب میں مبالغہ آرائی:

مثلا یہ حدیث کہ: جو شخص لا الہ الا اللہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کلمہ سے ایک پرندہ پیدا کرتا ہے جس کی ستر ہزار زبانیں ہوتی ہیں۔۔۔الی اخرہ۔ یا یہ کہ" جو شخص حلال غسلِ جنابت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ہر قطرہ کے عوض ہزار شہید کا ثواب دے گا۔" اور اسی قبیل کی دوسری روایات سب موضوع ہیں۔

ایسا تاریخی واقعہ جو کسی اجتماع میں پیش آئے ہیں لیکن اس کے راوی ایک یا اقل قلیل تعداد میں ہوں۔ جیسے شیعہ کا یہ دعویٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیرِ خم کے مقام پر خلافت عطا کی۔ حالانکہ اس واقعہ کے وقت ایک لاکھ سے زیادہ اصحاب رضی اللہ عنہ موجود تھے لیکن شیعہ کے سوا اسے کسی نے روایت نہیں کیا، لہذا یہ حدیث وضعی ہے۔

6۔ نسلی اور قومی تعصبات سے متعلق احادیث:

مثلا یہ حدیث کہ "ترکوں کا ظلم منظور ہے مگر عربوں کا عدل بھی مقبول نہیں۔"

7۔ فرقہ وارانہ روایات:

شیعہ حضرات کی وہ روایات جو اہل بیت کے فضائل میں ہیں، یا دوسرے صحابہ رضی اللہ عنھم کے خلاف ہیں۔ مثلا ان کی یہ روایت کہ "حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خلافت چھین لی تھی۔" یا یہ حدیث کہ: "میرے اہلِ بیت کی مثال نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوا اور دھنس گیا۔" یا یہ حدیث کہ "میری امت میں ایک شخص محمد بن ادریس ہو گا جو میری امت کے حق میں شیطان سے بھی زیادہ ضرر رساں ہو گا۔" واضح رہے کہ یہ محمد بن ادریس "امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ" ہیں۔ یا یہ حدیث کہ "میری امت میں ایک شخص پیدا ہو گا جسے ابوحنیفہ کہا جائے گا وہ میری امت کا چراغ ہو گا۔" یہ وضعی حدیث"ابوحنیفہ سراج امتی" کے الفاظ سے مشہور ہے۔

8۔ تاریخ کے خلاف ہو:

مثلا اہلِ خیبر سے جزیہ وضع کرنے کی حدیث جس میں وضاع نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی شہادت کو بھی شامل کر دیا۔ اس میں دو تاریخی لغزشیں ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت سعد بن معاز رضی اللہ عنہ، جنگِ خندق (5ھ) کے موقعہ پر فوت ہوئے تھے دوسرے، جزیہ کا حکم 9ھ میں غزوہ تبوک کے بعد نازل ہوا تھا۔

9۔ راوی کا غیر طبعی طویل عمر کا دعویٰ:

جیسے کہ چھٹی صدی ہجری میں رتن ہندی کا یہ دعویٰ کہ "وہ رسول اللہ سے مل چکا ہے اور صحابی ہے۔" حالانکہ یہ بات مسلمہ ہے کہ آخری صحابی ابوالطفیل عامر بن وائلہ رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے 102ھ میں وفات پائی۔ لہذا رتن ہندی کی سب مرویات موضوع ہیں۔

اسی طرح کے ایک "صحابی" جبیر بن حرب چھٹی صدی کے ہیں۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جنگِ خندق میں شریک تھے۔

یا ابوعبداللہ الصقلی پانچویں صدی ہجری کا "صحابی" ہے اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا ہے۔

نیز قیس بن تمیم گیلانی بھی چھٹی صدی ہجری کا "صحابی" ہے۔ جس کی پیشانی پر ایک نشان تھا اور مشہور یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خچر نے اس کی پیشانی پر لات ماری تھی۔

محدثین نے ایسے تمام بناوٹی صحابیوں کا پورا تعاقب کیا۔ ان کو وضاع اور ان کی مرویات کو موضوع قرار دیا اور اپنی تصانیف میں بالخصوص ان کا ذکر کر دیا۔

10۔ کشف و رؤیاء پر مبنی روایات:

ایسی روایات طبقہ صوفیا کی خودساختہ ہوتی ہیں جو کہتے ہیں کہ کشف یا خواب میں میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے یوں فرمایا یا یہ کام کیا۔ لہذا ایسی تمام مرویات موضوع ہیں کیونکہ یہ مسلمہ امر ہے کہ رؤیاء یا کشف ے کسی شرعی حقیقت کا اثبات نہیں ہوتا۔

11۔ رکاکتِ لفظی یا معنوی:

رکاکتِ لفظی کا تعلق زیادہ تر ذوق سے ہوتا ہے جیسے اقبال کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے والے حضرات اس کا کلام پہچان لیتے ہیں۔ اسی طرح محدثین لفظوں سے ہی اس افصح العرب والعجم کا کلام پہچان لیتے ہیں، اور معنوی رکاکت یہ ہے کہ اس حدیث کے مضمون کی کوئی شرعی بنیاد نہ ہو۔ جیسے یہ روایت کہ "مرغ کو گالی نہ دو کہ وہ میرا دوست ہے۔" یا یہ کہ: "اگر چاول آدمی ہوتے تو بڑے بپردبار ہوتے۔"

اس مقام پر یہ تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جناب حافظ اسلم صاحب جیراجپوری نے مقامِ حدیث میں دو مقامات پر ص106 اور ص154 پر روایت کے ان اصولوں کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلے مقام پر آٹھ اصول لکھے ہیں دوسرے مقام پر سات۔ البتہ تیسرے قاعدہ کہ "وہ قرآن کی قطعی دلالت یا سنتِ متواترہ یا اجماعِ قطعی کے خلاف ہو۔" کو دونوں مقامات پر مختصر کر کے صرف اتنا لکھ دیا ہے کہ "قرآن کے خلاف ہو" یہ اختصار کیوں کیا گیا؟ اس کی وجہ آپ بھی سمجھتے ہیں۔ نقل میں ایسی من مانی، علمی خیانت نہیں تو اور کیا ہے؟

نظری طریق کی دوسری قسم:

روایت یا اسناد کی چھان پھٹک کے اصول:

یہ مضمون الگ تفصیل کا محتاج ہے۔ سرِ دست ہم چند اشارات پر اکتفا کریں گے۔ اس سلسلہ میں محدثین کرام نے مندرجہ علوم کی داغ بیل ڈالی:

(1)علم الجرح والتعدیل:

اس علم کی بنیاد یہ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا... ﴿٦﴾... سورة الحجرات

"اے ایمان والو! جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔"

اس علم کی رُو سے ہر ایک راوی کے عدل اور ضبط پر بحث کی جاتی ہے۔ ماسوائے صحابہ رضی اللہ عنھم کے کہ ان کے متعلق متفق علیہ اصل یہ ہے کہ وہ سب کے سب عادل ہیں۔ لیکن جہاں تک ضبط اور حافظہ کا تعلق ہے وہ بھی اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔

اس علم کا آغاز دورِ صحابہ رضی اللہ عنھم میں ہی ہو گیا تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنھم میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ (م 68ھ) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ (م 34ھ) انس بن مالک رضی اللہ عنہ (م 93ھ) نقد و جرح کے امام تھے۔ پھر تابعین میں سے عامر شعبی رحمۃ اللہ علیہ (م 104ھ) ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ (م 110ھ) اور سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ (م 93ھ) یکتائے روزگار تھے۔ بعد میں آنے والے ناقدین کی فہرست بہت طویل ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں۔

2۔ علم التاریخ والرواۃ:

اس میں راویوں کے حالاتِ زندگی سے بحث کی جاتی ہے۔ یعنی فلاں راوی کب پیدا ہوا۔ حدیث سننے کا آغاز کب کیا؟ کس کس محدث سے ملا اور کس کس شہر میں گیا۔ حافظہ کی صورتِ حال کیا تھی؟ اگر پہلے ٹھیک تھا تو کب ذہول ہوا؟ کون سی احادیث خرابی حافظہ سے پہلے کی سنی ہوئی ہیں اور کون سی بعد میں اور کب اور کہاں فوت ہوا؟ اس علم سے کئی فائدے ہوئے۔ ایک تو موضوع احادیث کا پتہ چل جاتا تھا۔ دوسرے سند کے متصل یا منقطع ہونے کا۔ تیسرے سند میں تدلیس کا۔

امام مسلم اپنے مقدمہ میں روایت کرتے ہیں کہ "معلی بن عرفان نے ابووائل کے واسطہ سے یہ حدیث سنائی کہ "حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں ہمارے پاس آئے۔" یہ حدیث سن کر معلی ہی کے ایک شاگرد ابونعیم فضل بن رکین نے برجستہ کہہ دیا کہ "کیا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دوبارہ زندہ ہو گئے تھے؟" اس طنز میں اس تاریخی لغزش کی طرف اشارہ تھا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو 32ھ میں دورِ عثمانی میں فوت ہو گئے تھے۔ پھر وہ جنگِ صفین، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہوئی، کیسے شامل ہو سکتے تھے؟

اسماعیل بن عیاش نے ایک آدمی سے دریافت کیا کہ آپ نے خالد بن معدان سے کس سال حدیثیں سنیں؟ اس نے کہا "113ھ میں" اسماعیل کہنے لگے، گویا تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ تم نے خالد سے اس کی موت کے سات سال بعد سماع کیا۔" کیونکہ یہ خالد بن معدان 106ھ میں وفات پا گئے تھے۔

محمد بن حاتم الکشی نے عبد بن حمید سے حدیث روایت کی تو امام حاکم نے اس کا اس کا سنِ ولادت دریافت کیا۔ اس نے کیا"260ھ" یہ سن کر امام حاکم کہنے لگے کہ "اس شخص نے عبد بن حمید کی وفات سے تیرہ سال بعد اس سے حدیث سنی۔"

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے "جب راویوں نے کذب بیانی سے کام لینا شروع کیا تو ہم تاریخ سے فائدہ اٹھانے لگے۔" اور حسان بن یزید کہتے تھے کہ "جھوٹے راویوں کے خلاف جتنی مدد ہمیں تاریخ سے ملی ہے اور کسی چیز سے نہیں ملی۔"

3۔ معرفۃ الصحابہ رضی اللہ عنھم:

اس میں صحابہ رضی اللہ عنھم کے نام، القاب اور کنیتوں وغیرہ سے معرفت حاصل کی جاتی ہے۔ اس علم کے ذریعہ کسی حدیث کے متصل یا مرسل ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ اس فن سے محدثین کی ابتداء ہی سے گہری دلچسپی رہی ہے اور اس پر بے شمار تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔

4۔ علم الاسماء والکنیٰ:

اس میں عام راویوں کے نام، القاب اور کنیت سے متعلق علم حاصل کیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ ایک راوی، اس کے باپ اور دادا تک کے نام دوسرے راوی سے مل جاتے ہیں۔ کبھی کنیت ایک ہوتی ہے۔ پھر بعض لوگ اپنی کنیت یا لقب بدلتے بھی رہتے ہیں۔ جب تک ان سب امور کی پوری تحقیق نہ ہو تدلیس اور اشتباہ کا امکان باقی رہتا ہے۔

غرض درایت کے پہلو کے لحاظ سے بہت سے علوم معرضِ وجود میں آ گئے۔ جن میں چند کا ذکر ہم نے کر دیا ہے۔ ان علوم سے جہاں موضوع احادیث کو دریافت کرنے میں مدد ملی۔ وہاں کسی حدیث کے صحت و سقم کے لحاظ سے درجات متعین کرنا بھی میسر آ گیا۔ اور اس طرح

عدو شرے برانگیز دکہ خیرے مادراں باشد


کے مصداق ان علوم سے جہاں موضوعات کا سدِباب ہوا۔ وہاں یہ دوسرا فائدہ ازخود سامنے ا گیا کہ اگر وضاعین حدیثیں نہ گھڑتے تو محدثین کو چھان پھٹک کے ایسے کڑے معیار تلاش کرنے کی شائد ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

(ب) عملی طریق:

عملی طریقہ یہ ہے کہ محدثین نے ان وضاعین کے ناموں کا برملا اعلان کیا اور ان کی بیان کردہ موضوعات پر روشنی ڈال کر ان کو موضوع ثابت کیا۔ ان موضوعات کو اسی طرح حفظ کیا جس طرح صحیح احادیث کو۔ تاکہ عوام کو ہر طرح سے آگاہ کر سکیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے دور میں یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نقدِ حدیث کے امام سمجھے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ لوگوں نے دیکھا کہ یحییٰ بن معین کچھ حدیثیں لکھ رہے ہیں لیکن جب کوئی ان کے پاس آ کت بیٹھتا تو وہ اس مکتوبہ کو ایک طرف رکھ دیتے۔ کسی نے پوچھا "آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ "میں ان تمام موضوع احادیث کو لکھ رہا ہوں جن کا راوی ابان ہے۔ وہ اپنی جگہ کسی دوسرے ثقہ راوی کا نام بتا کر لوگوں کو آسانی سے دھوکہ میں مبتلا کر سکتا ہے۔ لہذا ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو اصل حقیقتِ حال سے آگاہ کریں۔" ہمارے علم کی حد تک موضوع احادیث کا یہ پہلا تحریری مجموعہ تھا۔ اس کے بعد بےشمار کتابیں اس خاص موضوع پر لکھی گئیں۔ جن میں سے درجن سے زیادہ آج کل بھی متداول ہیں۔

یہ تھا محدثین کرام کی مساعی جمیلہ کا مختصر تذکرہ، کہ کس طرح انہوں نے ان موضوعات کو الگ کر کے صحیح احادیث کو الگ کیا اور انسانی حد تک اس میں اپنی پوری کوششیں اور زندگیاں صرف کر دیں۔ اس کے باوجود کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان تمام تر کوششوں کے باوجود یہ دعویٰ غلط ہے کہ انہوں نے موضوعات کو صحیح احادیث سے الگ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ہے اور اب بھی بہت سی موضوعات صحیح احادیث کے مجموعوں میں ملی ہوئی ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ سب انسانی کوششیں ہیں اور انسانی کوششوں میں بہرحال غلطی کا امکان باقی رہتا ہے۔

نظریہ کی حد تک ان کا یہ اعتراض مسلم۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی تکلیف کب دی ہے کہ جب تک ہر معاملہ کی جزئیات تک یقینی کیفیت پیدا نہ ہو جائے وہ اس پر عمل پیرا نہ ہو؟ عام مسلمانوں کی بات چھوڑئیے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنازعات کے جو فیصلے کئے وہ مدعیوں اور گواہوں کے انہی ظنی بیانات پر کیے۔ اور اس بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی برملا الفاظ میں بیان فرمایا کہ اگر "کوئی شخص چرب زبانی سے میرے سامنے دوسرے کا حق غصب کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ تو وہ یہ خوب سمجھ لے کہ وہ اپنے بھائی کا حق نہیں لے رہا بلکہ جہنم کی آگ کا ٹکڑا لے رہا ہے۔" انہی ظنی بیانات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلے کیے لیکن ان فیصلوں کی دینی حیثیت سب کے ہاں مسلم ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو خیر معاملہ ہی الگ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نزاع کے فیصلہ میں غلطی کے صدور کا امکان نہیں۔ لیکن ایک عام قاضی سے فیصلہ میں غلطی بھی ممکن ہے۔ گویا گواہوں کے بیانات بھی ظنی ہو سکتے ہیں اور قاضی کے فیصلہ میں غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ان دونوں باتوں کے باوجود اس کا فیصلہ نافذالعمل ہوتا اور مکمل شرعی حیثیت رکھتا ہے۔ بشرطیکہ قاضی نے یہ فیصلہ خلوصِ نیت اور اپنی پوری کوشش سے کیا ہو۔ گویا کسی معاملہ کی دینی حیثیت معلوم کرنے کے لیے مجتہد میں مہارت و ممارست، امکان بھر کوشش اور خلوصِ نیت انہی تین باتوں کو معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر غلطی ثابت ہو جائے تو انسان اس کا مکلف نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کاواقعہ ہے کہ ایک دفعہ رمضان میں بادل کی وجہ سے آفتاب کے چھپ جانے کا دھوکا ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روزہ کھول لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد آفتاب نکل آیا۔ لوگ متردد ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"اَلْخَطْبُ يَسِيْرُ وَقَدِ اجْتَهَدْنَا"

"معاملہ چنداں اہم نہیں۔ ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر چکے تھے۔"

(الفاروق، سبلی، مطبوعہ سنگ میل پبلیکیشنز ص350 بحوالہ مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ص184)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس مجتہدانہ قول سے صاف ظاہر ہے کہ کسی بھی دینی معاملہ کی تحقیق میں انسان اسی حد تک مکلف ہے جو اس کی امکانی کوششوں کے دائرہ میں ہو اب یا تو یہ بتلایا جائے کہ محدثین کرام نے احادیث کی تحقیق و تنقید میں کوئی کسر اٹھا رکھی اور پوری امکانی کوششوں سے کام نہیں لیا لیکن اگر اس بات کا جواب نفی میں ہے تو پھر لامحالہ یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ حجت قائم ہو چکی ہے۔

پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کہا کہ "محدثین کی یہ مساعی جمیلہ سر آنکھوں پر اور ان کے قواعدِ جرح و تعدیل اور روایت درایت مسلم۔ لیکن یہ حرفِ آخر نہیں۔ ان اصولوں میں معقول طریقہ سے اضافہ کیا جا سکتا ہے۔" دلیل ان کی بھی وہی ہے جو پہلے فریق کی ہے۔ نظری حد تک ان کا یہ اعتراض بھی مسلم۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں نے کبھی کوئی "معقول طریقہ والا اضافہ" تجویز بھی فرمایا ہے؟ اگر وہ فی الواقعہ معقول بھی ہو اور نقدِ حدیث کے سلسلہ میں مفید بھی، تو اہل العلم اتنے تنگ نظر نہیں کہ وہ ایسے معقول اور مفید طریقہ تنقید کو ماننے سے انکار کر دیں۔

موجودہ دور میں وضع حدیث:

ہمارے خیال میں محدثین کے دریافت کردہ اصول، نقدِ حدیث اوت بالخصوص کسی موضوع حدیث کی چھان پھٹک کے لیے آج بھی ویسے ہی کافی ہیں جیسے ان ادوار میں تھے۔ نیز موضوع حدیث کی چھان پھٹک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب جھوٹ کو دور کرنے کی آج بھی امتِ مسلمہ کی اسی طرح ذمہ داری ہے جیسی کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے زمانہ یا مابعد کے ادوار میں تھی۔اب اگر آج پرویز صاحب اپنے اختراع کردہ قرآنی نظامِ ربوبیت۔۔۔جو ظاہری طور پر کمیونزم کا مکمل چربہ ہے۔۔۔کے متعلق یہ کہہ دیں کہ:

"آج دنیا حیران ہے کہ محمد رسول اللہ والذین معہ، کی قلیل سی جماعت نے اتنے مختصر عرصہ میں ایسی محیر العقول ترقی کس طرح کر لی تھی؟ دنیا حیران ہے اور اس کے لیے تحقیقاتی ادارے قائم کرتی ہے لیکن اسے معلوم نہیں کہ رسول اللہ نے وہ معاشرہ متشکل کیا جو قرآنی نظامِ ربوبیت کا حامل تھا۔" (قرآنی نظامِ ربوبیت ص180)

تو پرویز صاحب کی اس بات کو بھی ہم انہی اصولوں کی رو سے پرکھ سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ یہ فعل منسوب الی الرسول ہے۔ لہذا حدیث کی تعریف میں آتا ہے اور سنتِ فعلی ہے۔ تاہم درج ذیل وجوہ کی بناء پر موضوع ہے۔

1۔ تاریخ کے خلاف ہے۔ احادیث یا تاریخ کی کسی کتاب سے اس "نظامِ ربوبیت" کا سراغ نہیں ملتا۔

2۔ اس واقعہ کا تعلق انسانی زندگی کے سب سے اہم پہلو سے ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نظام قائم کیا ہوتا، تو اس کے بکثرت راوی ہونے چاہئیں تھے۔ جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ سرے سے اس کا کوئی راوی ہی نہیں۔

لہذا پرویز صاحب کا یہ قول موضوع حدیث ہے۔ مزید برآں چونکہ یہ فعل منسوب الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے مگر بلاسند ہے۔ لہذا یہ ویسے بھی مردود ہے۔

اسی طرح ادارہ طلوع اسلام نے کئی مقامات پر دعویٰ کیا ہے کہ:

"جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے ہیں تو یہ (قرآن) بعینہ اسی شکل و ترتیب میں، جس میں یہ اس وقت ہمارے پاس ہے، لاکھوں مسلمانوں کے پاس موجود تھا۔ اس کی مستند کاپی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ستون کے قریب صندوق میں رکھی رہتی تھی، یہ وہ نسخہ تھا جس میں سب سے پہلے وحی لکھوایا کرتے تھے۔" (طلوعِ اسلام فروری 82ء ص11)

یہ فعل بھی منسوب الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور یہ سنتِ فعلی بھی ہے اور تقریری بھی۔ اور اس حدیث کے موضوع ہونے کے لیے مندرجہ بالا دونوں وجوہ کے علاوہ ایک تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن کریم موجودہ ترتیب کے لحاظ سے نازل نہیں ہو رہا تھا۔ بلکہ کئی کئی سورتوں کے مضامین ایک ہی دور میں نازل ہو رہے تھے۔ لہذا مکمل تنزیل سے پہلے اس کا موجودہ ترتیب سے ہونے کا تصور ہی ناممکن ہے۔ اور جب تنزیل مکمل ہوئی تو فورا بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے۔

اس وقت ہمارا یہ مقصد نہیں کہ پرویز صاحب یا ادارہ مذکورہ کی تمام موضوعات کو پیش کریں (اور اگر ایسا کریں تو بلاشبہ ایک دفتر تیار ہو سکتا ہے) بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ آج بھی اقوال و افعال منسوب الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود پایا جاتا ہے۔ اور اس میں صرف "طلوعِ اسلام" ہی نہیں کئی دوسرے حضرات بھی شریک ہیں۔

فلہذا آج بھی مسلمانوں پر ان کے دفاع کی ویسی ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جیسی پہلے ادوار میں تھی۔ بالخصوص جبکہ آج ہمیں یہ سہولت بھی میسر ہے کہ معیار کے لیے اصول و قواعد پہلے سے موجود ہیں لیکن ناقدین سابقین کو ایسے اصول و قواعد وضع کرنے میں بھی بہت سی دماغی کاوشوں سے کام لینا پڑا تھا۔


حاشیہ

قاعدہ اتنا اہم ہے کہ اس پر تنقید کی بنیاد رکھی گئی تھی جسے ہم فتح الملہم شرح صحیح مسلم کے حوالہ سے پہلے درج کر چکے ہیں۔

موضوع حدیث کے لیے یہ تو ضروری نہیں کہ وہ عربی زبان میں ہو یا بمعہ اسناد ہو۔ آخر بناوٹی صحابی جو روایات فرماتے تھے، وہ بھی تو بلا سند ہی ہوتی تھیں۔ ان بےچاروں کے تخیل کی پرواز صحابیت تک ہی تھی۔ لیکن طلوعِ اسلام نے مرکزِ ملت کا تصور پیش کر کے خدا اور رسول کا مقام سنبھال لیا ہے۔ تو پھر آخر اسے کسی منسوب الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم بات کے لیے اسناد کا سہارا لینے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ تاہم اس نے بھی یہ افعال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس کی ہے کہ انکارِ حجیت حدیث کے باوجود، وہ بھی بالواسطہ حجیت حدیث کی اہمیت کو خوب سمجھتا ہے۔ فتدبر