غزل

دو دلوں کا ربط باہم ہو گیا
ایک عالم ہم سے برہم ہو گیا
غم کی دولت کو ترستا تھا بہت
غم ملا اتنا کہ بے غم ہو گیا
غم کے آنسو یا خوشی کے اشک تھے
اس کا دامن سارا پرنم ہو گیا
دن بھی راتوں کی طرح تاریک ہیں
جب سے سورج تاروں میں ضم ہو گیا
تیز تر ہوتی گئی باہر کی شمع
اور دیا اندر کا مدہم ہو گیا
درد بڑھتے جا رہے ہیں سب کے سب
ایک دردِ دل ہی کیوں کم ہو گیا
دم کیا ایسا مسیحِ وقت نے
اس کا ہر بیمار بے دم ہو گیا
آنکھ سے موتی گرا جو بھی نعیم
سنگریزوں میں ہی مدغم ہو گیا