مجلس التحقیق الاسلامی اور جامعہ لاہور الاسلامیہ
اسلامی شریعت اور قانون کی اعلیٰ تعلیم کا امتزاج
فرد و معاشرہ کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے اور اسے "صبغۃ اللہ" میں رنگنے کے لیے قرآن مجید تعلیم و تعلم اور تزکیہ نفس پر خصوصی زور دیتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں"
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ رسالت کے بیان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"ہم نے مومنوں میں، انہی میں سے ایک ایسا رسول بھیج کر ان پر احسانِ عظیم فرمایا ہے، جو ان پر اللہ کی آیات پڑھتا، ان کا تزکیہ نفس کرتا اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔" (البقرۃ: 164)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔۔۔اور چونکہ اب دینِ اسلام ہی کو تا قیامت بنی نوعِ انسان کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا ہے، لہذا اس سلسلہ میں اسلام کا طریقِ کار یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے کچھ لوگ دینی بصیرت اور تفقہ سے آراستہ ہو کر عوام الناس کو نہ صرف اسلامی تعلیمات سے آگاہ کریں بلکہ انہیں فکر و عمل کے مختلف فتنوں سے بچا کر صحیح سمت میں ان کی رہنمائی بھی کریں۔۔۔ اس طریقہ کار سے جہاں فرمانِ الہی "مسلمانوں میں ایک گروہ ایسا ضرور موجود ہونا چاہئے جو (خود بھی) دین کی سمجھ حاصل کریں (اور دوسروں کو بھی اس سے آگاہ کریں)" التوبہ: 122۔ کی تعمیل ہوتی ہے، وہیں اس حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ
"علماء انبیاء کے وارث ہیں"
گویا اسلام میں تعلیم و تربیت کا مسئلہ کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔۔۔تعلیم و تربیت کے انہی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے آج سے تقریبا بائیس سال قبل سئہ 1970ء میں "مجلس التحقیق الاسلامی" کا انعقاد عمل میں آیا تھا، اور آج بحمداللہ، اس مجلس کے زیر اہتمام ایک طرف بحث و تحقیق اور نشر و اشاعت علومِ اسلامیہ کا کام "المجمع الاسمی" (Islamic Acadmy) کے نام سے جاری ہے، جبکہ دوسری طرف تعلیم کے مختلف مرحلوں پر مشتمل تعلیمی ادارے اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں جن میں سے مدرسہ رحمانیہ اور کلیۃ الشریعۃ (Faculty of Shariah) کافی عرصہ سے چل رہے ہیں۔۔۔ مدرسہ رحمانیہ کا معیار، اعلیٰ ثانوی تعلیم (Intermediate) شریعت کا ہے، جبکہ کلیۃ الشریعۃ، جو چار سالہ کورس پر مشتمل ہے، اس کا معیار ایل-ایل-بی (Licenciate) کا ہے۔ یہ نظامِ تعلیم پاکستان میں بہت پرانا نہیں، بلکہ پاکستان کو عالمِ اسلام کے جدید تعلیمی نظام سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ اور اس سے جہاں پاکستان کو اسلامی ممالک سے اسلامی نظریاتی اساس پر منسلک کرنا مقصود ہے، وہاں اس کے ذریعے ملک میں دینی تعلیم کو ایک زندہ تعلیم کے طور پر رائج کر کے پاکستان کو اسلامی تعلیمات کے ایک بہترین عملی نمونہ کی حیثیت سے پیش کرنا بھی مطلوب ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری موجودہ حکومت نے عالمِ اسلام کو ایک رخ پر ڈالنے کے لیے اس نظامِ تعلیم کی اہمیت کا احساس کیا ہے اور اسلام آباد میں اسلامی یونیورسٹی کے نام سے انہی بنیادوں پر تعلیمی سلسلہ شروع کیا ہے۔۔۔ موجودہ حکومت کی قابلِ تحسین مساعی میں سے ایک کوشش، اسلام کو زندگی کے جملہ شعبوں میں جاری و ساری کرنے کی بھی ہے ، ظاہر ہے، اس کے لیے ایسے افراد کی شدید ضرورت ہے جو مختلف اداروں میں اسلامی نظام کو نہ صرف عملا اپنانے کی اہلیت رکھتے ہوں بلکہ وہ ملک کے قانونی ڈھانچے اور نظامِ عدل کے لیے ماہرینِ آئین و قانون کی ضرورت بھی پوری کر سکیں۔۔۔ "مجلس التحقیق الاسلامی" اس سلسلہ میں اپنے سامنے ایک مستقل پروگرام رکھتی ہے، تاکہ مروجہ نظامِ تعلیم کے تیار کردہ افراد کو ایک معیاری تربیت دے کر مذکورہ بالا اہمیت کا حامل بنایا جا سکے۔ چنانچہ کچھ عرصہ قبل مجلس کے زیرِ اہتمام "المعہد العالی للشریعۃ والقضاء" (Institute of Higher Studies in Sharia and Judiciary)کا قیام بھی عمل میں آ چکا ہے، جس کے دو شعبے ہیں۔ پہلے شعبہ میں ایسے افراد زیرِ تربیت ہیں جن کی بنیادی تعلیم ایم-اے اسلامیات یا اس کے مساوی ہے جبکہ دوسرے شعبہ میں ایل-ایل-بی کی ڈگری رکھنے والوے افراد کو داخلہ دیا گیا ہے۔ دونوں شعبوں میں زیرِ تربیت افراد اگرچہ کسی حد تک مختلف ذہن و استعداد کے حامل ہیں، تاہم ان دونوں کے لیے ایسا نصابِ تعلیم ترتیب دیا گیا ہے، جس کے تحت دونوں کو اسلامی شریعت کی صحیح بصیرت حاصل ہو سکے۔ لہذا ایم-اے اسلامیات والوں کا ذہن اسلامی شریعت و قانون سے وابستہ کرنے کے ساتھ ساتھ، انہیں معاشرہ میں اس کی ترویج کا اہل بنانے کی کوشش بھی ہو رہی ہے جبکہ ایل-ایل-بی حضرات کو عربی زبان میں مہارت کے علاوہ کتاب و سنت کا اندازِ فکر سکھا کر اسلامی نظام کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
نصاب:
"المعہد العالی" میں تعلیم کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ہر مرحلہ 4 مہینے کی تعلیمی مدت پر مشتمل ہے۔۔۔ پہلے مرحلے میں (ا۔ گروپ)
اصولِ فقہ، اصولِ حدیث، اصولِ تفسیر، تاریخ و سیرت، تقابلِ ادیان، اسلام اور جدید معاشیات، اسلام اور سیاست، اسلام اور جدید قانونی تصورات کے تقابل پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔۔۔ اس سلسلہ میں اسلامی تصورِ قانون، اس کی تاریخ، اس کا تعزیراتی قانون، قانونِ شہادت اور نظامِ عدالت پر ملک کے معروف علماء اور قانون دان حضرات لیکچر دے رہے ہیں، جبکہ کتاب و سنت، فقہ و قانون، عربی ادب و انشاء میں مہارت کی طرف بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے، جس کے لیے تفصیلی نصاب وضع کیا گیا ہے۔
(ب۔ گروپ) کے زیرِ تربیت طلباء کو عربی زبان میں مہارت کے ذریعہ مسلم ماہرینِ فقہ و قانون کے لٹریچر سے استفادہ کا اہل بنانے کے لیے مناسب حال نصاب تیار کیا گیا ہے، جس میں قرآن و حدیث کے وہ حصے داخلِ نصاب ہیں جو اسلامی فقہ، بین الاقوامی قوانین، حدود و تعزیرات، مسلم شخصی قانون، قانونِ شہادت، اسلامی قوانین و قواعد اور قانونی اداروں کی تاریخ و ہئیت پر روشنی ڈالتے ہیں اور اسی نگاہ سے ماضی اور حال کی تحریکوں کا موازنہ اور تجزیہ بھی کیا جاتا ہے۔۔۔ جبکہ اسلامی فکر و تہذیب کے تقابلی جائزہ کے لیے جدید قانونی تصورات، جدید معاشیات اور سیاسی افکار پر ماہرین سے مسلسل لیکچر دلائے جا رہے ہیں۔ نصاب کا ایک خصوصی حصہ، معاشرہ کو درپیش کسی اہم موضوع پر ہر دو ہفتوں کے بعد مذاکروں (Symposium) اور محاضروں (Seminar) کا انعقاد و اہتمام بھی ہے۔۔۔ اب تک متعدد مذاکرے اور سیمینار منعقد ہو چکے ہیں جن کی تفصیلیرپورٹ مجلس کے علمی مجلہ ماہنامہ "محدث" میں شائع ہو رہی ہے۔
اساتذہ:
"المعہد العالی" کے مستقل اور مہمان اساتذہ میں یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، جج صاحبان اور ماہرینِ قانون کے علاوہ ان علماء کی زیادہ تعداد ہے جو پاکستان میں دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سعودی عرب اور مصر کی یونیورسٹیوں سے اپنے مضامین میں اختصاصی تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور علمی و تعلیمی میدان میں ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان میں بعض عربی النسل بھی ہیں۔ حافظ عبدالرحمن مدنی (مدیر الجامعہ) حافظ ثناءاللہ مدنی، مولانا عبدالسلام کیلانی، پروفیسر حافظ ثناءاللہ، پروفیسر حافظ محمد سعید، پوفیسر فاروق اختر نجیب، پروفیسر محمد عظمت، پروفیسر محمد سلیم، پروفیسر حافظ احمد یار، پروفیسر خالد علوی، جناب اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ، پروفیسر چوہدری عبدالحفیظ، پروفیسر حافظ محمد ایوب، مولانا حفیظالرحمن لکھوی، قاری نعیم الحق اور قاری خلیل الرحمن، بالترتیب: اسلامی قدیم و جدید افکار، تفسیر، حدیث، عربی قواعد، تقابلِ ادیان، سیاسیات، معاشیات، تاریخ، تاریخِ تفسیر، اسلامی معاشرت، قانون، عربی ادب، جدید عربی بول چال، نحو و بلاغت، صرف و نحو اور قراءت و تجویز کے شعبوں کے انچارج ہیں۔ مہمان اساتذہ میں شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ، مولانا محمد متین ہاشمی، مولانا محمد مالک کاندھلوی، مولانا مفتی محمد صدیق، پروفیسر قاضی مقبول احمد، ایس-ایم-ظفر، جسٹس بدیع الزمان کیکاؤس اور جسٹس ذکی الدین پال شامل ہیں۔ جبکہ غیر مکی ماہرین میں ڈاکٹر عبداللہ عزام اور شیخ علی ضرخام قابل، ذکر ہیں۔۔۔ گاہے بگاہے سعودی عرب کے تعلیمی اور تبلیغی بیورو کے سکالرز بھی تشریف لاتے ہیں۔
"المعہد العالی" کو ملک کے اس طرز کے تعلیمی اداروں میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں داخلہ کا ایک معیاری طریقِ کار ہے اور تعلیمی مدت بھی کم از کم ایک سال۔۔۔ چنانچہ داخلہ کے لیے درخواست دہندگان میں سے تقریبا 400 امیدواروں کا تحریری اور شفاہی امتحان (؟) لیا گیا اور کڑے معیار کے تحت صرف 187 طلباء کو دونوں شعبوں میں داخلہ دیا گیا۔ اگرچہ کچھ امید افزاء حیثیت رکھنے والے طلباء کو بحیثیت سامع، دورس میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔۔۔ طلباء میں جامعہ ازہر، سعودی یونیوسٹیوں کے شریعت و قانون کے شعبوں کے فارغ التحصیل حضرات بھی شامل ہیں۔ الف گروپ کا کم از کم معیار ایم-اے اسلامیات یا اس کے مساوی تعلیم اور (ب) گروپ کا ایل-ایل-بی ہے، جبکہ بعض طلباء میں پی-ایچ-ڈی، بیرسٹر اور عدلیہ کے بعض جج حضرات بھی شریکِ کورس ہیں۔ "المعہد العالی" کا یہ کورس "قاضی کورس" یا مختصر "تعلیمی دورہ" نہیں ہے، بلکہ ایک مستقل اور جامع بنیادوں پر مشتمل نصاب تعلیم ہے جس کے بعد اعلیٰ تعلیم کا ڈپلومہ دیا جائے گا، جس کا معیار بعض سعودی یونیورسٹیوں نے پوسٹ گریجوایشن قرار دیا اور مزید تعلیم کے لیے اعلیٰ تعلیمی وظائف مخصوص کیے ہیں۔۔۔ اس اعتبار سے ان کلاسوں میں اعلیٰ ثانوی سرٹیفیکیٹ کے حامل یا گریجوایٹ سے کم درجہ کے طلباء کا داخلہ ممکن نہیں۔۔۔ اعلیٰ ڈپلومہ سے قبل ہر دو فصلوں (Terms) میں کامیاب ہونے والے طلباء کو معیاری سرٹیفیکیٹ جاری کئے جائیں گے، تاکہ ملک میں اسلامی شریعت کا علم رکھنے والے حضرات کی فوری مانگ میں بروقت حصہ لیا جا سکے۔
یہ کلاسیں 99 جے، ماڈل تاؤن لاہور، "مجلس التحقیق الاسلامی" کی نئی عمارت میں، جس کا افتتاح شام کے سابق وزیراعظم جلالۃ الملک خالد کے مشیر جناب ڈاکٹر معروف الدوالیبی نے کیا تھا، باقاعدگی کے ساتھ جاری ہیں۔ تعلیمی اوقات شام چار بجے سے سات بجے تک ہیں۔ دونوں کلاسوں میں تین نین پیریڈ روزانہ ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں "مجلس التحقیق الاسلامی" کی وسیع لائبریری اساتذہ اور طلبہ کے لیے موجود ہے۔ واضح رہے کہ یہ لائبریری ملک کی چند ایک بڑی لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے۔ اسی طرح مجلس کا علمی مجلہ ماہنامہ "محدث" ملک کے علمی جرائد میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔
"مجلس التحقیق الاسلامی" کے زیرِ اہتمام عربی، اردو اور انگریزی زبانوں میں تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا کام بھی جاری ہے جبکہ اس میں مسلمانوں کے قدیم علمی سرمایہ کی نئی اشاعت اور ان پر تعلیقات کا اہتمام بھی موجود ہے۔ چنانچہ "مجلس" اسلامی علمِ معاشیات کے اہم ماخذ "کتاب الخراج" پر، جس کے مصنف امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے استاد یحییٰ بن آدم ہیں، تفصیلی عربی تعلیقات کا کام کر چکی ہے۔۔ آج کل یہ کتاب ملک کے بعض دینی جامعات میں شاملِ نصاب ہے۔
عموما سعودی یونیورسٹیوں سے، اور پاکستان میں سعودی عرب کے تعلیمی اور تبلیغی بیورو کے اسکالرز، مجلس کے زیرِ اہتمام اداروں میں آمد اور اس کی مختلف تقریبات میں ان کی شرکت کی وجہ سے شائد بعض لوگوں کا یہ خیال ہو کہ مجلس کے زیرِ اہتمام چلنے والے اداروں کے مالی تعاون میں سعودی عرب پیش پیش ہے، یہ خیال غلط ہے۔ ہاں ایک اسلامی رابطہ کی حیثیت سے سعودی عرب کا تعاون مجلس کے لیے بڑا قابل قدر ہے اور مجلس اس رابطہ کو مزید پختہ کی خواہش مند بھی ہے۔ یہ رابطہ اب تک اس حد تک ضرور ہے کہ مجلس کو سعودی یونیورسٹیوں اور وزارتِ مذہبی امور کی طرف سے صرف اساتذہ اور کتب کا تعاون حاصل ہے، مزید برآں سعودی یونیورسٹیوں، مجلس کے اداروں مدرسہ رحمانیہ، کلیۃ الشریعۃ اور "المہعد العالی" (جو وہاں "جامعہ لاہور الاسلامیہ" کے نام سے متعارف ہیں) کے طلباء کو تعلیمی وظائف کے لیے ترجیح دیتی ہیں۔۔۔اور جہاں تک مالی تعاون کا تعلق ہے، بحمداللہ، پاکستان کے چند اہلِ خیر و ثروت کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مجلس کے زیر اہتمام جملہ تعلیمی، تحقیقی اور دعوتی شعبوں کی مالی کفالت و سرپرستی کر رہے ہیں۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ مجلس کو سعودی عرب یا کسی دوسرے اسلامی ملک سے اب تک ایک پائی بھی نہیں دی گئی تو قطعا مبالغہ نہ ہو گا۔
انتظامیہ:
مدیر الجامعہ حافظ عبدالرحمن مدنی (Principal)
مدیر المعہد العالی پروفیسر حافظ ثناءاللہ (Director)
المسجل پروفیسر حافظ محمد سعید (Registerar)
مدیر المالیہ پروفیسر ظفر اقبال (Treasurer)
اس وقت ایک نہایت ہی منظم اور فعالِ طریقے سے زیرِ تربیت طلباء کو کتاب و سنت اور اسلامی افکار کی تعلیم دی جا رہی ہے، اور جب کہ ملک میں اسلامی نظامِ قانون کو رائج کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اور اس کے لیے افرادِ کار کی شدید ضرورت بھی ہے، "مجلس التحقیق الاسلامی" کا یہ کارنامہ بلاشبہ قابلِ تحسین، مثالی حیثیت کا حامل اور قابلِ فخر بھی ہے۔