مومنوں کا تحفہ سلام
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُدّوها...﴿٨٦﴾... سورةالنساء
کہ "جب کوئی تمہیں تحفہ دے تو تم جواب میں اسے، اس سے بھی بہتر تفہ دو، یا یہی تحفہ اس پر لوٹا دو"
چنانچہ امت مسلمہ کی باہمی محبت اورالفت کا ذریعہ شریعت اسلامیہ نے یہ قرار دیا ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اس کو "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" کہے۔
نصِ حدیث سے ثبوت ملتا ہے "تهادوا تحابوا" کہ "باہمی محبت بڑھانے کے لیے تحفہ تحائف دیا کرو۔" اور مسلمان کا باہمی ہدیہ اورتحفہ سلام سے بڑھ کر اور کوئی نہیں، کیونکہ مسلمان کی باہمی محبت و الفت کی پہچان کا واضح ذریعہ سلام ہی ہو سکتا ہے اور اسی طرح کسی کے مسلمان ہونے کی پہچان کا اہم ذریعہ بھی سلام ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ خداوندِ کریم نے اپنی کتابِ مقدس میں بیان فرمایا ہے:
﴿فَإِذا دَخَلتُم بُيوتًا فَسَلِّموا عَلىٰ أَنفُسِكُم تَحِيَّةً مِن عِندِ اللَّهِ مُبـٰرَكَةً طَيِّبَةً...﴿٦١﴾... سورةالنور
کہ "جب تم گھروں میں داخل ہو تو ایک دوسرے پر سلام کہو جو اللہ کی طرف سے ایک مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔"
اور یہی سلام جنتیوں کا شعار ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا:
﴿تَحِيَّتُهُم فيها سَلـٰمٌ ﴿٢٣﴾... سورة ابراهيم
اور انہی مبارک کلمات کے ساتھ فرشتے مومنین کا استقبال کریں گے۔ جیسے ارشادِ خداوندی ہے:
﴿وَقالَ لَهُم خَزَنَتُها سَلـٰمٌ عَلَيكُم طِبتُم فَادخُلوها خـٰلِدينَ ﴿٧٣﴾... سورةالزمر
اور یہی وہ ہدیہ ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے مہمان ان کے لیے لائے تھے، جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ ذاریات میں بیان فرمایا:
﴿إِذ دَخَلوا عَلَيهِ فَقالوا سَلـٰمًا ۖ قالَ سَلـٰمٌ...﴿٢٥﴾... سورةالذاريات
اور ویسے بھی سلام مسلم کے حقوق میں سے ایک اہم حق ہے:
حدیث پاک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ» قِيلَ: مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللهِ؟، قَالَ: «إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللهَ فَسَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ»صحيح مسلم مع شرح النووى جلد14- صفحه143
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، "وہ کون سے حقوق ہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (1) جب کسی کو ملے تو اسے سلام کہے۔ (2) جب کوئی دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے۔ (3) جب کوئی نصیحت کا خواہش مند ہو تو اس کو نصیحت کرے (4) جب کسی کو چھینک آئے تو "یرحمک اللہ" کہے، بشرطیکہ چھینک مارنے والا الحمدللہ کہے۔ (5) جب کوئی بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کرے۔ (6) جب کوئی فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ پڑھے۔"
ایک اور حدیث میں یوں وارد ہوا ہے کہ سلام راستہ کے حقوق میں سے ہے:
« عن أبي سعيدِ الخُدري، أن رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم - قال: "إيّاكُم والجُلُوسَ بالطُرُقاتِ " قالوا: يا رسُولَ اللهِ: ما بدُّ لنا مِنْ مجالِسِنا نتحدَّثُ فيها،
فقال رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم-:" إن أبيتم فاعطُوا الطريقَ حَقَّه"، قالوا: وما حق الطَريقِ يا رسولَ الله -ِ؟ قال: "غضُّ البصَرِ، وكَفُّ الأذى، وردُّ السَّلامِ، والأمرُ بالمعرُوفِ، والنَهيُ عن المُنكر"
"حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستے میں بیٹھنے سے پرہیز کیا کرو۔" صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے سوال کیا، "اے اللہ کے رسول! ہمیں بیٹھنے کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں کیونکہ ہم آپس میں باتیں کرتے ہیں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "اگر تم نے ضرور بیٹھنا ہی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کیا کرو۔" صحابہ رضی اللہ عنھم نے پوچھا، "راستے کا کیا حق ہے، اے اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، (1) آنکھوں کو نیچا رکھنا (2) تکلیف دہ چیز کو دور کرنا (3) اور سلام کا جواب لوٹانا (4) اچھی بات کا حکم دینا (5) اور برائی سے روکنا۔
سلام کے معنی:
سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جیسے کہ سورۃ الحشر کی آخری آیت میں ہے:
﴿هُوَ اللَّهُ الَّذى لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ المَلِكُ القُدّوسُ السَّلـٰمُ المُؤمِنُ المُهَيمِنُ...﴿٢٣﴾... سورةالحشر
"السلام علیکم" کا معنی یہ ہے کہ اللہ آپ کا حافظ ہو اور آپ پر سلامتی ہو، جیسے کہ عام طور پر کہا جاتا ہے (خدا حافظ) السلام علیکم کا ایک معنی اور بھی ہے کہ آپ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں۔
سلام کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟
کتبِ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ سلام کی مشروعیت کا آغاز تخلیق آدم علیہ السلام سے بھی پہلے ہوا ہے، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:
« عَنْ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ قَالَ" خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ: اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ، وَهُمْ نَفَرٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا يُجِيبُونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، قَالَ: فَذَهَبَ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللهِ»(الحديث(صحيح بخارى، كتاب الاستئذان)
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایسی صورت میں پیدا کیا کہ ان کا قد ساٹھ ہاتھ (یعنی تقریبا 30 گز تھا) جب ان کا جسم مکمل ہوا تو خدا تعالیٰ نے فرمایا، جاؤ اور ان بیٹھے ہوئے فرشتوں پر سلام کہو اور ان کا سلام سنو جو وہ کہیں گے، تیرا اور تیری اولاد کا یہی سلام ہوگا، پھر آدم علیہ السلام نے "السلام علیکم" کہا، فرشتوں نے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کہا۔"
سلام کی شرعی حیثیت اور اس کا حکم:
دراصل سلام کہنا اور اس کا جواب دینا واجب ہے لیکن بہت سارے علماء جن میں ابن عبدالبر وغیرہ بھی شامل ہیں، اس طرف گئے ہیں کہ سلام کہنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے۔ انہوں نے سورۃ النساء کی آیت 86 سے استدلال کیا ہے: "﴿وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُدّوها...﴿٨٦﴾... سورةالنساء " لیکن تفصیلی طور پر راجح یہ ہے کہ جب کوئی کسی کے گھر میں داخل ہو تو اسے سلام کی ابتدائی کرنی واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "﴿فَإِذا دَخَلتُم بُيوتًا فَسَلِّموا عَلىٰ أَنفُسِكُم ...﴿٦١﴾... سورةالنور
اس کے علاوہ عام حالات میں اگر ایک جماعت یا گروپ میں سے ایک آدمی بھی سلام کہہ دے تو سب کی طرف سے کافی ہے کیونکہ اس عام سلام کا حکم علماء کے نزدیک سنت ہے لیکن اگر سب کے سب سلام کہنا چاہیں تو بھی اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ یہ صورت بہتر ہے اسی طرح ایک جماعت پر سلام کہا جائے تو ایک آدمی کا جواب سب کی طرف سے کفایت کرتا ہے اور اگر اکیلا آدمی ہو تو اس پر سلام لوٹانا واجب ہے۔ بعض علماء کے نزدیک سب پر جواب دینا واجب ہے۔
لیکن راجح یہی ہے کہ ایک آدمی کا جواب دینا اس کے دوسرے سب ساتھیوں کی طرف سے کفایت کرتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
« وَيُجْزِئُ عَنِ الْجُلُوسِ أَنْ يَرُدَّ أَحَدُهُمْ»
ایسے ہی سلام کی جو اہمیت ملاقات کرتے وقت ہے، اتنی ہی علحدہ ہوتے وقت ہے۔ کیونکہ دونوں کی مستقل ایک حیثیت ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
«فلما يسلم عند اللقاء يسلم عند الفراق فان الاولى ليست باحق من الاخرة» (ابوداؤد والترمذى)
سلام کا مستحق کون ہے؟
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سلام مسلمان کا ہی باہمی شعار ہے۔ اس شعار کے اہل کوئی کافر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی غیر مسلم سلام کا مستحق ہے۔ البتہ حدیث میں جو وارد ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: " أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ: تَقْرَأُ السَّلَامَ، عَلَى مَنْ عَرَفْتَ، وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ» " (بخاری استئذان، ابوداؤد و نسائی باب الایمان)
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ جو بھی ملے، چاہے تمہیں اس کے اسلام کا علم ہو یا نہ ہو، اسے سلام کہہ دو۔
بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کو آپ ذاتی طور پر جانتے ہوں یا نہ۔ اگر آپ کو اس کے مسلمان ہونے پر کوئی شک نہیں، اس کو سلام کہو اور عموما اس حدیث کا مصداق بلادِ اسلامیہ پر زیادہ مناسب ہے، جہاں کسی غیر مسلم کے پائے جانے کا احتمال کم ہو۔ اگر کوئی آدمی غیر مسلم ملک میں ہو جہاں کثرت کفار کی ہو اور شکل و صورت میں بھی اشتباہ ہو تو وہاں پہلے تسلی کر کے پھر سلام کہنا چاہئے۔ اگر کوئی شخص مذکورہ حدیث اور سلام کے بارہ میں وارد شدہ عام احادیث سے استدلال کر کے غیر مسلمین پر سلام کہنا جائز قرار دیتا ہے تو یہ صحیح نہیں، کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
«لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ وَلَا النَّصَارَى بِالسَّلَامِ، فَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي طَرِيقٍ، فَاضْطَرُّوهُ إِلَى أَضْيَقِهِ فان سلم يرده بقوله و عليكم او عليكم ولا يقول وعليكم السلام لان من عادتهم وطبيعتهم الغش فهم لا يدعون للمسلمين بالسلامة بل يدعون عليكم»(ترمذى، باب الاستئذان، ابن ماجه، كتاب الاداب ، مسلم شرح النووى ص148ج3، ابوداؤد ، باب الاداب
"سلام کہ ابتداء یہود و نصاریٰ سے مت کرو اور جب ان کو راستہ میں ملو تو ان کو ایک طرف چلنے پر مجبور کرو تاکہ وہ تمہارے درمیان حائل نہ ہوں اور اگر وہ سلام کہہ دیں تو اس کے جواب میں "وعلیکم السلام" نہیں کہنا چاہئے، بلکہ صرف "علیکم" یا "وعلیکم" کہہ دینا چاہئے کیونکہ عموما ان کی طبیعت میں دھوکا ہی ہوتا ہے اور وہ کبھی یہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کی سلامتی کے لیے دعا کریں بلکہ اس کے برعکس چاہتے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَّ مَرَّ عَلَيْكُمْ الْيَهُودُ يَقُولُ أَحَدُهُمُ:السَّامُ عَلَيْكَ، فَقُلْ وَعَلَيْكَ»(مسلم مع شرح النووى مجلد13صفحه146، ابوداؤد)
یعنی "جب یہود تمہارے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ "السام علیکم" کہتے ہیں (یعنی تمہارے لیے موت کی بددعا کرتے ہیں) تم کہہ دیا کرو "وعلیک" کہ "تم پر ہو"
سلام کی فضیلت اور ثواب:
چونکہ سلام کے ساتھ باہمی اخوت قوی ہوتی ہے اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إنَّ أولى النَّاسِ بالله مَنْ بَدَأهُمْ بِالسَّلام"
کہ "اللہ تعالیٰ کے نزدیک ترین انسان وہ ہے جو سلام کہنے میں پہل کرے"
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ،فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَشْرٌ» ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ،فَقَالَ: «عِشْرُونَ» ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَقَالَ: «ثَلَاثُونَ»
"حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے "السلام علیکم" کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ شخص دس نیکیوں کا مستحق ہے۔ پھر دوسرا شخص آیا، اس نے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کے لیے بیس نیکیاں ہیں۔ پھر تیسرا شخص آیا اور اس نے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس شخص کو تیس نیکیاں ملی ہیں۔"
ایک اور حدیث میں یوں ذکر آتا ہے کہ جب دو مسلمان آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں:
عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ، غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَتَفَرَّقَا"
سلام باہمی اخوت و محبت کا قوی اور عظیم وسیلہ ہے، جیسے بعض علماء کا قول ہے کہ سلام ایک ایسی چابی ہے جو دلوں کے تالوں کو کھول کر رکھ دیتی ہے اور تمام دلی کدورتوں کو صاف کرتی ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاہے آپ کسی سے متعارف ہوں یا نہ ہوں، سب کو سلام کہئے، اور جیسا کہ حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ تَدْخُلُوا الجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَمْرٍ إِذَا أَنْتُمْ فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلاَمَ بَيْنَكُمْ.(رواه مسلم)
"قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جب تک ایمان نہیں لاؤ گے جنت میں نہیں داخل ہو سکو گے اور جب تک باہمی محبت نہیں کرو گے ایماندار نہیں ہو سکے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس کے کرنے سے باہمی محبت زیادہ ہوتی ہے؟ وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو عام کرو۔"
سلام سے نہ صرف دنیا میں محبت بڑھتی ہے بلکہ اس سے ایمان قوی ہوتا ہے اور یہی سلام کہتے ہوئے مومن جنت میں داخل ہو گا۔ معلوم ہوا کہ سلام دنیا و آخرت میں باعثِ سلامتی ہے۔ اسی لیے حضور علیہ السلام نے فرمایا:
«يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصِلُوا الأَرْحَامَ, وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ»(صحيح مسلم)
"اے لوگو! سلام کو عام کرو اور مسکینو ں کو کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات کو عبادت کرو جبکہ لوگ محوِ خواب ہوں تاکہ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔"
مجلس سے اٹھتے وقت سلام کہنا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ، فَلْيُسَلِّمْ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ، فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتِ الْأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الْآخِرَةِ»ابوداؤد، باب استئذان
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کوئی مجلس میں بیٹھنے لگے تو سلام کہہ دے اور جب کوئی اٹھنے لگے تو بھی سلام کہہ دے کیونکہ دونوں کی حیثیت مستقل ہے۔"
عورتوں پر سلام کہنے کا حکم:
جہاں تہذیبی مفاسد کا خدشہ نہ ہو وہاں سلام کی مشروعیت میں مردوزن کا کوئی فرق نہیں، جیسے کہ حدیث پاک سے عورتوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کہنے کا کوئی ثبوت ملتا ہے:
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتَ يَزِيدَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمًا وَعُصْبَةٌ مِنَ النِّسَاءِ قُعُودٌ، فَأَلْوَى بِيَدِهِ بِالتَّسْلِيمِ وَأَشَارَ عَبْدُ الحَمِيدِ بِيَدِهِ.(ترمذى استئذان باب رقم)
"حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ نبوی سے گزر رہے تھے اور عورتوں کی ایک جماعت کو بیٹھے پایا تو ان کو اپنے ہاتھ کے اشارے سے سلام کہا۔"
ہاتھ کے اشارے سے سلام کا حکم:
بہتری اسی میں ہے کہ آدمی فریضہ سلام کو ادا کرتے وقت زبان سے ہی سلام کہے اور ہاتھ یا سر کے اشارے سے سلام کہنے سے بچے۔ کیونکہ حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ ہاتھ کے اشارہ سے سلام کہنا یہود و نصاریٰ کی عادات تھیں، چنانچہ ترمذی شریف میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لاَ تَشَبَّهُوا بِاليَهُودِ وَلاَ بِالنَّصَارَى، فَإِنَّ تَسْلِيمَ اليَهُودِ الإِشَارَةُ بِالأَصَابِعِ، وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الإِشَارَةُ بِالأَكُفِّ.(ترمذى ، كتاب الاستئذان باب رقم7حديث رقم2695)
کہ "جو کسی دوسری امت کی مشابہت کرتا ہے وہ ہماری امت سے نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ کی مشابہت نہ کرو کیونکہ یہود ہاتھ کی انگلیوں سے اور نصاریٰ ہاتھ سے سلام کہتے تھے۔"
یہ حدیث اگرچہ ضعف کے درجہ میں ہے تاہم اس سے سبق یہی ملتا ہے کہ ہاتھ یاسر وغیرہ سے سلام کہنے یا جواب دینے سے بچنا بہتر ہے۔ ہاں اگر کوئی آدمی زبان سے معذور ہے یا جس کو سلام کہہ رہا ہے اس سے فاصلہ پر ہے تو یہ ایک علیحدہ صورت ہے۔ اس میں ہاتھ یا سر کے اشارے میں کوئی قباحت معلوم نہیں ہوتی۔ (واللہ اعلم)
بچوں پر سلام کا حکم:
عَنْ سَيَّارٍ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ثَابِتٍ البُنَانِيِّ، فَمَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ ثَابِتٌ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ أَنَسٍ، فَمَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، وَقَالَ أَنَسٌ: «كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (رواه الترمذى كتاب الاستئذان، باب رقم8)
"حضرت یسار فرماتے ہیں کہ میں حضرت ثابت البنانی کے ساتھ جا رہا تھا تو راستے میں کچھ بچوں پر گزر ہوا، حضرت ثابت نے ان پر سلام کہا اور پھر فرمایا کہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جا رہا تھا، بچوں پر گزر ہوا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے انہیں سلام کہا، پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ فرمانے لگے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ بچوں پر گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں "السلام علیکم" کہا۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا، سلام کے حقوق میں چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں کرنی چاہئے، البتہ یہ خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ بچوں کے اندر سلام کا جواب دینے کی صلاحیت ہو۔
کسی دوسرے کی طرف سے سلام پہنچانے کا حکم:
عَنْ أَبِى سَلَمَةَ بْنَ عَبْدُالَّرحْمٰنِ أَنَّ عَائِشَةَ، حَدَّثَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا: «إِنَّ جِبْرِيلَ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ»، قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ.( رواه البخارى فى الاستئذان وزاد الترمذى"وبركاته"
"حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن بیان فرماتے ہیں کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جبریل علیہ السلام کا سلام پہنچایا تو ام المومنین نے جواب میں "علیہ السلام ورحمۃ اللہ" فرمایا۔ (بخاری شریف، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے "وبرکاتہ" کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے)"
کیا سلام کی بجائے کوئی متبادل الفاظ کہنا جائز ہیں؟
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے شعار کی حفاظت کرے اور اسے اسی صورت میں قائم رکھے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلایا ہے، لہذا سلام کا کوئی متبادل لفظ جائز نہیں کیونکہ زمانہ جاہلیت میں اس قسم کی عادات پائی جاتی تھیں لیکن آفتاب اسلام کے طلوع ہونے کے بعد تمام عادات کو ختم کر کے صرف اسلام سکھایا گیا، جیسے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ذکر ہے:
عَنْ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ، قَالَ: «كُنَّا نَقُولُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَيْنًا، وَأَنْعِمْ صَبَاحًا، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ نُهِينَا عَنْ ذَلِكَ»(ابوداؤد)
"حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں کہا کرتے تھے "اللہ! تیری وجہ سے ہم پر انعام کرے اور تیری صبح بخیر ہو، لیکن اسلام کے آنے کے بعد ہمیں اس سے روک دیا گیا۔"
غور فرمائیں کہ جب سلام کے لیے (السلام علیکم کے علاوہ) دوسرے کلمات، جو دعا کا مفہوم ادا کرتے ہوں، جائز نہیں، تو صرف اشارہ کرنا (جیسے کہ آج کل عام رواج بن چکا ہے) جس سے نہ دعا اور نہ ہی سلام کا مفہوم ادا ہوتا ہے وہ کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لَا تُسَلِّمُوا تَسْلِيمَ الْيَهُودِ فَإِن تسليمهم بالرؤوس وَالْأَكُفِّ وَالْإِشَارَةِ(فتح البارى مجلد3صفحه484)
کن حالتوں میں سلام کہنا جائز نہیں ہے؟
سلام کی ممانعت کی حالتیں اگرچہ علماء کرام نے بہت ذکر کی ہیں، جن میں تلاوت قرآن، کھانا کھانے، جنابت اور قضاء حاجت کی حالتیں شامل ہیں، لیکن احادیث کی جو نصوص مل سکی ہیں ان میں صرف پیشاب و پاخانہ اور نماز کی حالت میں سلام کہنا ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ذیل میں بعض روایات پیش خدمت ہیں:
عَنْ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّ رَجُلًا سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبُولُ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ يعنى السَّلَامَ»
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا اور آپ پیشاب کی حالت میں تھے جس کی وجہ سے سلام کا جواب نہ دیا۔"
اور ایک روایت میں یوں ذکر ہوا ہے:
فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ: " أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَحْوِ بِئْرِ الْجَمَلِ، وَلَقِيَهُ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ حَتَّى أَقْبَلَ عَلَى الْجِدَارِ فَمَسَحَ بِوَجْهِهِ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ(رواه النسائى فى الطهارة باب 38، وابوداؤد، طهارت باب129)
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت جو مسند احمد میں ہے اس میں نماز کی حالت ذکر ہوئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی حالت میں سلام کا جواب نہ دیا۔ (مطبعۃ دارالصادر ، مسند احمد 3/351)
اور ایک حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْظَلَةَ بْنِ الرَّاهِبِ: أَنَّ رَجُلًا سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ بَالَ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَالَ بِيَدِهِ إِلَى الْحَائِطِ " يَعْنِي أَنَّهُ تَيَمَّمَ
مذکورہ بالا تمام روایتوں کا مفہوم یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ پیشاب میں سلام کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب طہارۃ کرنے کے بعد دیا۔
مسند احمد کی ایک روایت میں یوں بھی ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت پیشاب سلام کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، پھر میں نے سلام کہا، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، پھر میں نے تیسری بار سلام کہا، پھر بھی مجھے کوئی جواب نہ دیا۔آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ آخر میں مسجد میں داخل ہوا اور غمگین سی حالت میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم طہارت کر کے تشریف لائے اور تین دفعہ "وعلیک السلام ورحمۃ اللہ" فرمایا۔ (مسند احمد جلد4، صفحہ 177)
سلام کا جواب کیسے لوٹایا جائے؟
جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ سلام ایک ہدیہ ہے۔ جب کوئی آدمی کسی کو اس ہدیہ سے نوازے تو اسے چاہئے کہ وہ اس ہدیہ کا جواب اس سے بہتر صورت میں دے یا کم از کم اسی کے برابر تو دے، مثلا جب آدمی کسی کو "السلام علیکم"کہے، اس کے لیے بہترین جواب "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" ہے یا صرف "وعلیکم السلام" پر بھی کفایت کی جا سکتی ہے۔ اور یہی مفہوم قرآن مجید کی اس آیت کا ہے:
﴿وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُدّوها ۗ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ حَسيبًا ﴿٨٦﴾... سورة النساء
سلام کی ابتداء کون کرے؟
افضل اخلاق اور تقویٰ اور خشوع و خضوع اور قوتِ ایمان کا تقاضا اسی میں ہے کہ انسان سلام کرنے میں پہل کرے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان اولى الناس بالله من يبدأ بالسلام- ابوداؤد، باب الادب
یعنی "اللہ تعالیٰ کے قریب ترین انسان وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔"
تاہم حدیث نے ترتیب واضح فرما دی ہے:
عَنْ أَبَي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ»
(رواه البخارى فى الاستئذان- ابوداؤد فى الادب ومسلم مجلد13 صفحه14 ومؤطا امام مالك باب السلام و مسند احمد ج2 صفحه335)
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ سوار آدمی کو پیدل چلنے والے پر اور چلنے والے کو بیٹھے ہوئے پر اور تھوڑوں کو زیادہ پر سلام کہنا چاہئے۔"
اس میں حکمت یہ ہے کہ سوار پیدل چلنے والے سے اچھی حالت میں ہوتا ہے اور جب اس حالت میں وہ اپنے ایک پیدل چلنے والے مسلمان بھائی کی عزت کرتے ہوئے اس کو سلام کہتا ہے تو اس کے دل میں انتہائی خوشی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ان کی باہمی محبت بڑھتی ہے۔ اسی طرح گزرنے والا جب کھڑے یا بیٹھے کو سلام کہتا ہے تو اس میں اس کو کوئی دقت نہیں، جب کہ اس کے تیز چلنے میں کھڑے یا بیٹھے کو سلام کہنے میں قدرے دشواری ہے۔ اسی طرح چھوٹے کو بڑوں پر اور تھوڑوں کو زیادہ پر سلام کہنے میں حکمت یہ ہے کہ یہ عین آداب کے شایان شان ہے۔
خاتمہ:
قارئین کرام! اسلام کی اہمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے واضح ہو چکی ہے۔ اس کو مدِنظر رکھتے ہوئے موجودہ حالات پر نظر دوڑائیں کہ ہم اس اہم سنت سے کس قدر غافل ہو چکے ہیں۔ اکثر لوگ کسی کو سلام کہتے ہی نہیں اور نہ ہی جواب دیتے ہیں اور بعض لوگوں نے تو ایک اور بدعت نکال لی ہے کہ جب ان کو سلام کہا جائے تو بجائے "وعلیکم السلام" کے "السلام علیکم" ہی کہہ دیتے ہیں۔ اس کا شرعی طور پر کوئی ثبوت نہیں بلکہ یہ ایک صریح بدعت ہے جو دیکھا دیکھی بڑھتی جا رہی ہے۔
خاص طور پر جدید تعلیم سے متاثر حضرات اس عادت کو اپنانے میں زیادہ پیش پیش ہیں۔ ہمیں سلام اسی طریقے سے کہنا چاہئے جیسے ہمیں شرعی طور پر سکھایا گیا ہے۔ اگر کوئی آدمی پاس سے گزرے تو سلام کہنے میں پہل کرنی چاہئے، اس کا بہت ثواب ہے جیسے گزر چکا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور روایت ہے جو مؤطا امام مالک اور طبقات ابن سعد میں مذکور ہے کہ وہ اکثر بازار کا چکر لگاتے رہتے تھے، جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کرنے کے لیے بازار میں نکلتا ہوں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "افشواالسلام" کہ "سلام کو عام کرو۔"
اور ایک روایت کی نص یوں ہے:
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ كَانَ يَأْتِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فَيَغْدُو مَعَهُ إِلَى السُّوقِ، قَالَ: فَإِذَا غَدَوْنَا إِلَى السُّوقِ، لَمْ يَمُرَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى سَقَاطٍ،(اَىْ بَائِعِ رَدِّى اْلمَتَاعِ) وَلَا صَاحِبِ بِيعَةٍ، وَلَا مِسْكِينٍ، وَلَا أَحَدٍ إِلَّا سَلَّمَ عَلَيْهِ(مؤطا امام مالك كتاب السلام باب3 حديث6)
طبقات ابن سعد میں اس کے متقارب الفاظ ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر مسنون کام کی توفیق عطا فرمائے آمین