سنت کی دائمی حیثیت

٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت نبی ہیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع بھی امت کے لیے تاقیامت لازمی ہے۔

٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول اور ہر فعل ہمارے لیے شرعی راہنما ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے کسی حصہ کو نبوت سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ نبی علیہ السلام کی شخصی اور نبوی دو الگ الگ حیثیتیں متعین کرنا ایک بہت بڑا دھوکا، ایک بہت بڑی جسارت اور اہالیاِنِ اسلام کے خلاف ایک گہری سازش ہے۔

٭ مستشرقین کا کام اہلِ اسلام کے دلوں میں تشکیک پیدا کرنا ہے۔۔ اور اس سلسلہ میں مستشرقین نے جتنا کام کیا ہے مسلمان اپنے اسلام کے دفاع میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں کر رہے۔

٭ قرآنِ مجید کے علاوہ سنت کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔۔۔ جس طرح کتاب اللہ ہمارے تا قیامت راہنما ہے، اسی طرح سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہماری لئے راہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔

"جامعہ لاہور اسلامیہ" میں "المہد العالی للشریعۃ والقضاء" کے زیر اہتمام سمینار میں

'اسلامی حدود و تعزیرات کے سلسلہ میں سنت کی دائمی حیثیت" کے موضوع پر مدیر الجامعہ کا عالمانہ خطاب

36 جمادی الآخرۃ سئہ 1403ھ (مطابق 21 اپریل سئہ 1982ء) بروز بدھ "جامعہ لاہور الاسلامیہ" میں "المعہد العالی للشریعۃ والقضاء" کے زیر اہتمام "اسلامی حدود و تعزیرات کے سلسلہ میں سنت کی دائمی حیثیت" کے موضوع پر سیمینار سے مدیر الجامعہ جناب حافظ عبدالرحمن مدنی نے خطاب فرمایا ۔۔۔ مہمانِ خصوصی شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ، اور صاحبِ صدر ریتائرڈ جسٹس جناب بدیع الزمان کیکاؤس نے اپنے خطابات میں مدنی صاحب کے خطاب کی تائید کی جبکہ محترم اسماعیل صاھب قریشی ایڈووکیٹ نے مسجدِ اقصیٰ کے افسوسناک واقعہ پر بھرپور احتجاج کیا اور اس سلسلہ میں قراردادِ مذمت بھی پیش کی۔

حاضرین میں "معھد" کے شرکاء کے علاوہ متعدد و دیگر اہلِ علم بھی موجود تھے۔۔۔ اس سیمینار کی مکمل کاروائی کو افادیت کے پیش نظر "محدث" میں شائع کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

مدیر الجامعہ کا خطاب

تلاوتِ کلام پاک کے بعد مدیرالجامعہ جناب حافظ عبدالرحمن صاحب مدنی نے اپنے خطاب کا آغاز فرمایا ۔۔۔ "سنت کی دائمی حیثیت" کے موضوع کے پیشِ نظر آپ نے فرمایا:

یہ موضوع اپنے الفاظ کے اعتبار سے ایک نیا موضوع معلوم ہوتا ہے لیکن ہمارے علمی اور دینی حلقوں کے لیے یہ نیا نہیں ہے، کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ایک وقتی چیز ہے یا اس کی حیثیت دائمی ہے؟

انہوں نے فرمایا:

صحیح بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تاقیامت نبی ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی حیثیت بھی دائمی ہے اور سنت کی اتباع امت کے لیے تا قیامت لازمی ہے۔

منصبِ رسالت:

اس سلسلہ میں وضاحت کے لیے مدنی صاحب نے منصبِ رسالت اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے ہر امت اور ہر قوم میں ہادی بھیجا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ﴾

اور نبی کی یہی وہ حیثیت ہے جس کو تسلیم کیے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا۔۔۔ ورنہ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اور شخصی اوصاف کا تعلق ہے، اس میں شبہ نہیں کہ نبی کے مقابلے میں کسی بھی دوسرے شخص کو کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ اور رسول اللہ ط کے ذاتی اوصاف و کمالات تو عدیم المثیل اور عدیم النظیر ہیں، تاہم ان کمالات کا محض اعتراف نہ تو اصل مقصود ہے اور نہ ہی ایک مومن کا طرہ امتیاز ہے۔

انہوں نے فرمایا کہ اس سے یہ غلط فہمی نہ پیدا ہونی چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں رطب اللسان ہونا غلط ہے، یا معاذاللہ ہمیں اس سے انکار ہے، بلکہ اس سے غرض یہ ہے کہ صرف یہی چیز اصل مقصود نہیں، کہ اگر نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کا مقصد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہی ہوتا تو وہ قدیم و جدید مصنفین جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں کے معترف ہیں، لیکن کلمہ نہ پڑھ کر حلقہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے، آج ہم انہیں غیر مسلموں کی صف میں نہ دیکھتے۔۔ اور یہیں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کے انکاری نہیں بلکہ معترف ہیں، تو یہ لوگ مسلمان کیوں نہ ہو گئے؟ ۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محض خوبیاں بیان کر دینا اور چیز ہے اور مسلمان ہونا ایک اور چیز۔۔۔ انبیائ علیھم الصلاۃ والسلام کا مشن یہ نہ تھا کہ ان کی خوبیاں بیان کی جائیں، بلکہ ان کا مشن یہ تھا کہ ان کے مخاطبین ان کی تعلیمات سے راہنمائی حاصل کر کے اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے تحت بسر کر سکیں۔۔۔ مسلمان اور کافر میں یہی فرق ہے کہ کفار صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں کے معترف ہیں، جبکہ ایک مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اس لیے بیان کرتا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے مانتا ہے۔

شبہات اور ان کا ازالہ:

قرآن کریم میں ہے: "وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُول" کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی ایسی امتیازی حیثیت ہے جسے مان کر ایک شخص اللہ سے وابستہ ہو جاتا ہے۔

مدنی صاحب نے فرمایا کہ:

سنت کی دائمی حیثیت کے متعلق مختلف علمی فتنوں نے بہت سے شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں۔۔۔ اور یہ شکوک و شبہات اندر سے جنم نہیں لیتے بلکہ باہر سے آئے ہیں جو اس موضوع کے بارے میں ایسا تصور پیدا کر دیتے ہیں کہ انسان تشکیک کا شکار ہو کر اگرچہ ایمان سے تو نہیں جاتا تاہم وہ ایک پختہ کار مومن کی حیثیت سے بھی باقی نہیں رہتا۔۔۔ اور یہ ایک بہت پرانا حربہ ہے۔۔۔ چنانچہ مدنی صاحب نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اس سلسلہ میں ایک شبہ یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر بھی ہدایت حاصل ہو سکتی ہے۔۔۔ اصل بات تو یہ ہے رسول اللہ کے بغیر ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں، مگر ان لوگوں نے یہ شبہ پیدا کر کے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر بھی ہدایت حاصل ہو سکتی ہے، اس کو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے تقویت بھی دے ڈالی ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَمْ يَبْقَ مِنْ الْوَحْىِ إِلَّا المُبَشِّرَاتِ

کہ "وحی سے اگر کوئی چیز باقی رہ گئی ہے تو وہ مبشرات ہیں"

نیز یہ کہ:

"خوابیں نبوت کا چھیالسواں حصہ ہیں"

"مبشرات" خوش کن سچے خوابوں کو کہتے ہیں۔۔۔ یا مثلا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کرتا ہے۔۔۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ "جو خواب میں مجھے دیکھتا ہے، اس نے مجھے کو دیکھا کیونکہ شیطان میری شکل نہیں بن سکتا"

گویا ان احادیث سے یہ شبہ پیدا کیا گیا کہ خواب کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایت حاصل ہو جانا ممکن ہے۔۔۔ یہ شبہ بظاہر معمولی ہے، لیکن حقیقت میں یہ بڑا ہی خطرناک عقیدہ اور بڑے ہی دور رس مذموم نتائج کا حامل ہے۔ یعنی یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اور اس کے واسطہ کے بغیر بھی ہدایت حاصل ہو سکتی ہے، یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل اس کی زندگی میں نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد خوابوں کے ذریعہ جاری ہے) گویا دوسرے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت، مقصدِ بعثت اور تکمیلِ رسالت (نبی کی نبوت اور منصبِ نبوت) ہی سے انکار کر ڈالا گیا۔

مدنی صاحب نے اس شبہ کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ:

اگر کسی امتی کو خواب میں یہ نظر آئے کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہے، تو کیا اس خواب کی بناء پر وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر سکتا ہے؟ ۔۔۔ ہرگز نہیں، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ خواب دیکھا تو آپ علیہ السلام کے لیے اس پر عمل کرنا بھی لازمی تھا، لیکن کسی دوسرے (غیر نبی) کے لیے اس کا تصور بھی محال ہے۔۔۔ اور نبی اور غیر نبی کے خواب میں یہی فرق ہوتا ہے کہ نبی کا خواب معیار اور حجت ہے جبکہ غیر نبی کا خواب معیار اور حجت نہیں ہوتا، قطع نظر اس سے کہ وہ خواب سچا ہو۔۔۔اور سچا خواب تو کافر کو بھی آ سکتا ہے، فرعون نے بھی تو ایک خواب دیکھا تھا کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کے ہاتھوں اس کا زوال ہو گا۔۔۔ اور وہ خود اس کی تعبیر کا شکار بھی ہوا۔۔۔ گویا غیر نبی کا خواب سچا ہونے کے باوجود، اس پر عمل کو لازمی قرار دینا محل نظر ہے، اس لیے کہ نبی کے علاوہ کسی امتی کے لیے یہ تمیز ہی مشکل ہے کہ یہ خواب کہاں تک سچا ہے اور کہاں تک اس میں ملاوٹ ہے؟ جبکہ نبی کا خواب وحی ہوتا ہے۔۔ بعض دفعہ کسی انسان کو القاء ہوتا ہے، آپ اس کو چھٹی حِس بھی کہہ سکتے ہیں۔ مثلا کوئی شخص کہتا ہے، یوں معلوم ہوتا ہے، آج خیر نہیں،بعد میں اس کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے کہ اس کا کوئی عزیز حادثے کا شکار ہو گیا۔۔۔ یہ القاء اگرچہ بعد میں درست ثابت ہوا لیکن پہلے سے یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ یقینی ہے، جبکہ کسی بات پر عمل پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ یقینی ہو۔ اور نبی کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے، لہذا یقینی ہے۔۔۔ ہاں کشف کے سلسلہ میں ہم انکار نہیں کرتے، مثلا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "اے ساریہ ۔۔۔" چنانچہ سینکڑوں میل دور آپ رضی اللہ عنہ کی آواز بھی سنی گئی، تاہم کشف بھی حجت نہیں ہوتا، کیونکہ یہ خاصہ صرف نبی کا ہے کہ اس کی بات درست ہوتی ہے، جبکہ امتی کی بات واقع ہو جائے تو درست ہے، واقع نہ ہو تو درست نہیں۔۔۔ اور پہلے سے اس بات کی کوئی گارنٹی موجود نہیں ہوتی کہ یہ بات درست ثابت ہو گی یا غلط۔

۔۔۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ "جس نے خواب میں مجھ کو دیکھا، اس نے مجھے کو دیکھا کہ شیطان میری شکل نہیں بن سکتا۔" ۔۔۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہدایت حاصل ہو جانے کا استدلال کرنے والوں کا مزید رد کرتے ہوئے مدنی صاحب نے واقعاتی طور پر فرمایا:

ایک عالم اپنا خواب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی اظہار دیکھا، چنانچہ اس خواب کی بناء پر انہوں نے حنفی مذہب کو چھوڑ کر شافعی مذہب اختیار کر لیا۔ لیکن علماء نے کہا کہ اتنا بڑا عالم اس قدر معمولی بات بھی نہ سمجھ سکا کہ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل شکل میں دیکھنا تو حجت ہے، لیکن خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سننا تو حجت نہیں۔۔۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو بیان فرمایا کہ شیطان میری شکل نہیں بن سکتا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ میری آواز نہیں بن سکتا، بالخصوص جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کو پہچان لینے کا، کہ یہ واقعتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی آواز تھی، کوئی ذریعہ بھی موجود نہیں۔ کیونکہ اس کو پہچان لینا صرف اس شخص کے لیے ممکن ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی ہو، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت کے حصول کا کوئی الہامی ذریعہ موجود نہیں ہے۔۔۔اور یہی درحقیقت منصبِ رسالت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ اور ہمارے درمیان واسطہ ہیں۔

ضمنا منصبِ رسالت کو ایک دوسری طرز سے بیان کرتے ہوئے مدنی صاحب نے فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کو ماننے کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ (رسول صلی اللہ علیہ وسلم) تسلیم کیا جائے، کہ انبیاء علیھم السلام کا اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق ہوتا ہے جو کسی دوسرے غیر نبی کے لیے ممکن نہیں۔۔۔ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ لینے کے معنی بھی یہی ہیں کہ کلمہ پڑھنے والے نے گویا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے، چنانچہ یہی وہ تسلیم و اقرار ہے جس کی بناء پر ایک انسان حلقہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے، لیکن اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہدایت کا کوئی اور ذریعہ بھی مان لیا جائے تو گویا اس منصب کے وجود کو کسی دوسرے میں بھی تسلیم کر لیا گیا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس عقیدہ کی بناء پر وہ حلقہ اسلام سے مکمل طور پر وابستہ نہ ہوا۔ کیوں کہ اس طرح وہ شرک فی الرسالت کا مرتکب ہوا۔

انبیاء علیھم السلام کے اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق اور منصبِ رسالت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مدنی صاحب نے فرمایا:

نبوت اکتسابی اور اختیاری چیز نہیں، بلکہ یہ ایک وہبی چیز ہے۔۔۔ یہ ولایت کے درجوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ بھی نہیں کہ ریاضت کرتے ہوئے کوئی انسان نبوت کے مقام تک پہنچ جائے، بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے، وہ جسے چاہے، عطا فرما دیتا ہے: "اللَّهُ يَعْلَمُ حَيثُ يَجعَلُ رِ‌سالَتَهُ"

سنت کیا ہے؟

مدنی صاحب نے فرمایا کہ:

منصبِ رسالت بیان کرنے سے میرا مقصود یہ تھا کہ اس سے سنت کی اہمیت واضح ہو کر سامنے آ جائے۔۔۔ چنانچہ اب ہم براہِ راست "سنت کی دائمی حیثیت" پر گفتگو کر سکیں گے۔۔۔ لیکن اس سے قبل ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سنت کی تعریف کیا ہے؟

سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کا نام ہے۔ سنت کی تین قسمیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ کا نام قولی سنت ہے، جو امور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیے، فعلی سنت کہلاتے ہیں۔۔۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو کوئی کام کرتے ہوئے دیکھ کر خاموشی اختیار فرمائی تو اس کا نام تقریری سنت ہے۔

مختصرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں جو کام بھی کیا، اس کا نام سنت ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس میں یہ تخصیص کی ہے کہ سنت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے وہ امور ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت نبی انجام دیے ہیں، اور جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ عادت کیے ہیں وہ سنت نہیں۔۔۔ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس ہمارے لیے شرعی حیثیت نہیں رکھتا۔۔۔ لیکن یاد رکھیے، یہ صریحا دھوکا ہے۔۔۔ نبی علیہ السلام کی شخصی اور نبوی دو الگ الگ حیثیتیں متعین کرنا ایک بہت بڑی جسارت ہی نہیں، اہالیانِ اسلام کے خلاف ایک گہری سازش بھی ہے۔

یہ دراصل مستشرقین کا کام ہے جن کا مقصد اہلِ اسلام کے دلوں میں ان کے اسلام کے بارے میں تشکیک پیدا کرنا ہے۔۔۔اور اس سلسلے میں انہوں نے جتنا کام کیا ہے، مسلمان اسلام کے دفاع میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں کر رہے۔

مدنی صاحب نے فرمایا:

مجھے یاد ہے کہ مولانا مودودی مرحوم نے اپنے دو مقالوں میں جب نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی ان دو الگ الگ حیثیتوں کو متعارف کرایا تو "المسلمون" نے مولانا کے اس نظریے کا تعاقب کرتے ہوئے کہا کہ گویا اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ فیصلہ ہم کریں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی بات نبوی حیثیت رکھتی ہے اور کون سی شخصی؟ جس کے جواب میں مولانا نے لکھا کہ عملی اعتبار سے نبی ہر حالت میں نبی ہوتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض خواصے بھی ہیں، رشتے بھی ہیں اور ذاتی تعلقات کی نفی بھی نہیں کی جا سکتی، لیکن علماء نے یہ کہا ہے کہ اگرچہ یہ چیزیں ذاتی ہیں، تاہم ہمارے لیے ان میں بھی راہنمائی اور ہدایت کے سامان موجود ہیں، مثلا حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں اور چچا ہونے کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا احترام کرتے ہیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی تعلق ہے، لیکن ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات بھی اس لیے راہنما کی حیثیت رکھتی ہے کہ انسان اپنے حلقہ میں خواہ کتنا ہی معزز و محترم کیوں نہ ہو، اسے بہرحال اپنے بڑوں کا احترام کرنا چاہئے، نیز اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ چچا سے برتاؤ یوں کیا جاتا ہے جس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس عربی ہے اور ہمارے لیے یہ امر بھی بایں معنیٰ روشنی ہے کہ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ قومی اور علاقائی لباس شریعت نہیں ہوتے۔۔۔ کھجوروں کی پیوندکاری سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنھم کو منع فرما دیا، جس کے نتیجہ میں پیداوار کم ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صورتِ حال بیان فرمائی، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

انتم اعلم بامور دنياكم

کہ "تم اپنے دنیاوی امور کے متعلق بہتر جانتے ہو"

شبہ اور اس کا ازالہ:

مدنی صاحب نے فرمایا:بعض علماء نے اس واقعہ سے یہ جواز نکلا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فلاں حکم چونکہ دنیاوی ہے، لہذا اسے ہم ہدایت نہیں مانتے۔۔۔ لیکن دوسرے علماء اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین میں سے کوئی ایک ایسا صاحب رسول بھی تھا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیوند کاری نہ کرنے کے حکم کی خلاف ورزی کی ہو، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت مرحمت فرما دی؟ ۔۔۔ معلوم ہوا کہ اس واقعہ میں بھی ہمارے لیے ہدایت کا سامان یوں موجود ہے کہ کوئی فیصلہ دینی ہے یا دنیاوی، یہ فیصلہ کرنا بھی نبی کا کام ہے اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی وضاحت سے ممکن ہے۔۔۔ یا زیادہ واضح الفاظ میں یوں سمجھیے کہ کھجوروں کی پیوند کاری کا مسئلہ دینی ہے یا دنیوی؟ اس کی وضاحت کیوں کر ممکن ہوئی؟ ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے۔۔۔ گویا اس معاملہ میں بھی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے مستغنی نہیں رہے۔

اس سے حاصل یہ ہوا کہ تجرباتی امور شرعی نہیں ہوتے بلکہ تدبیری ہوتے ہیں، لیکن یہ بات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے معلوم ہوئی کہ فلاں کام دینی ہے یا دنیاوی، انتظامی ہے یا تدبیری، شرعی ہے یا آزد ۔۔۔؟ گویا اس وضاحت سے ہم مباح کے میدان میں داخل ہوتے ہیں، اور مباح بلاشبہ شرعی حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کی مشا کا ترجمان ہے، اور اللہ تعالیٰ چونکہ اپنی مشا کا اظہار نبی کے ذریعہ ہی فرماتے ہیں، لہذا یہ بات سنت کی دائمہ حیثیت پر دال ہونے کے علاوہ منصبِ نبوی کی بھی ترجمان اور اس پر شاہد عدل ہے۔۔۔اسی طرح فرض، واجب، سنت، مستحب، حرام اور مکروہ وغیرہ صورتوں کی وضاحت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ہی سے ہوتی ہے۔ پس: (مدنی صاحب نے پُر زور الفاظ میں فرمایا: ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول اور ہر فعل ہمارے لیے راہنما ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات، مبارکہ کے کسی حصہ کو بھی نبوت سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعثت سے قبل کا دورِ حیات بھی اس اعتبار سے راہنما کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی نبوت سے قبل بھی کمال عفت و عصمت کی زندگی بسر کرتا ہے اور وہ اپنے اوصافِ حمیدہ، اخلاقِ حسنہ اور اعلیٰ کردار کے لحاظ سے بھی دوسروں میں ایک منفرد اور ممتاز مقام و حیثیت کا حامل ہوا کرتا ہے اور اس حیثیت سے وہ نبوت کی دلیل بنتا ہے۔۔۔ اور یہ میں نہیں کہہ رہا، ربِ ذوالجلال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے اس دور کو قرآن مجید میں کفار کے سامنے بطور دلیل کے پیش فرمایا اور نبی علیہ السلام کی زبان سے یہ کہلوایا ہے:

﴿فَقَد لَبِثتُ فيكُم عُمُرً‌ا مِن قَبلِهِ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ ﴿١٦﴾...سورة يونس

کہ "اے لوگو، میں نے اس (دورِ نبوت) سے قبل بھی ایک زمانہ تم لوگوں کے درمیان گزارا ہے (کیا تمہارے لیے میرا یہ دورِ حیات میری نبوت کا ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کرتا کہ میں نے آج تک کسی انسان کے سامنے بھی غلط بات نہیں کہی، تو پھر کیا میں اللہ پر جھوٹ باندھنے لگوں گا؟ ۔۔۔ نیز یہ کہ میری زندگی میں یہ اچانک انقلاب کیسے آ گیا، ایک عام انسان افلاک میں گم، بے شمار رازوں سے نقاب کیونکر سرکانے لگ گیا؟ ۔۔۔ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دورِ حیات کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ثبوت کے طور پر منکرینِ نبوت کے سامنے پیش فرمایا ہے، نبوت کی دلیل کے سامان کیوں مہیا نہیں کر سکتا؟ )"

۔۔۔ مدنی صاحب نے فرمایا، سنیے:

یہ لوگ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی اور نبوی حیثیت کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حیثیت بھی، کہ جس کو "شخصی" کا نام دیا جا رہا ہے، رحمت کی حیثیت رکھتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر حصہ کو راہنما تسلیم کرنے سے ہمیں ان امور پر تو ثواب ملے گا ہی، جن کو یہ شرعی کہتے ہیں، لیکن جن کے شرعی ہونے کے یہ قائل نہیں، ان میں بھی ہم ثواب سے محروم نہ رہیں گے کہ ہم اسے مباح (اللہ کا حکم) سمجھ کر کریں گے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی اور نبوی دو حیثیتوں کو تسلیم کر لینے سے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایک مخصوص حصہ کو اپنا لائحہ عمل بنا لینے پر تو ثواب ملے گا لیکن دوسرے مخصوص حصے پر عمل پیرا ہونے کے باوجود ہم ثواب کے حصول سے محروم رہ جائیں گے۔۔۔ لیکن وہ ذات کہ جس کو خود خدائے لم یزل "رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم" کا نام دیں اور جس کا وجود سراپا رحمت ہو، اس کی رحمت کے یہ شایانِ شان نہیں کہ اس کی زندگی کا ایک حصہ تو رحمت ہو اور دوسرا رحمت نہ ہو۔۔۔ یا بالفاظ دیگر اس "رحمت" کی صفت کو محدود اور مقید کر دیا جائے۔

سنت کی دائمی حیثیت: مدنی صاحب نے سنت کی دائمی حیثیت پر مزید استدلال کرتے ہوئے فرمایا:

علماء نے کہا ہے کہ ہمارے لیے کوئی چیز بھی عقلا نہیں بلکہ اس کی حیثیت شرعی ہے۔ مثلا کسی ایسی چیز کا دھونا جس پر پیشاب کے چھینٹے پڑ جائیں، اگر آپ اسے دھونے لگیں گے تو عقلا جو پانی اس مقام کو چھوئے گا اور جو ہاتھ اسے دھوئیں گے وہ بھی ناپاک ہو جائیں گے لیکن شرعا یہ چیز دھونے سے پاک ہو جائے گی۔۔۔ پانی کی بالٹی میں پیشاب کا قطرہ گرنے سے سارا پانی ناپاک ہو جاتا ہے، لیکن کسی ایسی جگہ، جہاں پر پیشاب کا ایک قطرہ نہیں، پورا پیشاب کر دیا جائے، اس پر پانی کا ایک ڈول بہا دینا اس جگہ کو پاک کر دینے کے لیے کافی ہو گا۔۔۔ عقلا یہ دونوں صورتیں متعارض ہیں، لیکن شرعا متعارض نہیں۔۔۔اسی طرح عورتوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کہ "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ہماری چادریں جب ناپاک زمین سے گزرتی ہیں تو ناپاک ہو جاتی ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟" ۔۔۔فرمایا، "اس کے بعد جب یہی چادریں پاک زمین پر سے گزریں گی تو خود بخود پاک ہو جائیں گی" اس ضمن میں ان صحابہ رضی اللہ عنھم کے اس اشکال کا حوالہ بھی مناسب رہے گا جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا، "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ہم ننگے پاؤں بعض دفعہ ناپاک زمین سے گزرتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس جوتے نہیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب اس کے بعد یہی پاؤں پاک زمین پر پڑیں گے تو پاک ہو جائیں گے، یہ ہدایات احادیث سے مستنبط ہیں، الفاظِ حدیث اس وقت یاد نہیں ہیں، گویا یہ پاکی وغیرہ کے سب مسائل ایسے ہیں جن میں عقل سے بڑھ کر شریعت کی حکمرانی ہے۔۔۔پس سنت کے سلسلہ میں اہم چیز یہ ہے کہ کوئی بات جائز ہے یا ناجائز، دینی ہے یا نیاوی؟ یہ فیصلہ کرنا سنت کا کام ہے۔۔۔ مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے جنگِ بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کرنے اور بعض صحابہ رضی اللہ عنھم کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے خلاف مشورہ دینے کے انداز سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ تدبیری امور میں رائے کی آزادی ہے، نیز اسی سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ فلاں کام میں آپ کو اختیار ہے، چھٹی ہے اور فلاں کام آپ اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے۔۔۔ لہذا سنت میں یہ تخصیص غلط ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت ہمارے لیے شریعت ہے، اور دوسری شریعت نہیں۔۔۔اور اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے کھلی کتاب ہے۔۔۔حتیٰ کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کبھی غصہ میں بھی ہوتے ہیں، کیا اس کیفیت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ فرمائیں ہم لکھ لیا کریں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری زبان سے حق کے علاوہ کچھ نکل ہی نہیں سکتا۔۔۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اشارہ کیا ہے کہ نبی کی خاموشی بھی حجت ہے لیکن کسی دوسرے کی خاموشی حجت نہیں۔

مدنی صاحب نے سنت میں تخصیص کا رد کرتے ہوئے اور اس کی جامع حیثیت پر سنت کی اہمیت کے ضمن میں قرآن مجید سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا، قرآن مجید میں ہے:

﴿أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّما عَلَيهِ ما حُمِّلَ وَعَلَيكُم ما حُمِّلتُم ۖ وَإِن تُطيعوهُ تَهتَدوا ...﴿٥٤﴾... سورةالنور

کہ "اللہ کی اطاعت کرو، (اللہ کے) رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو، اور اگر تم اس بات سے اعراض کرو گے تو رسول اللہ اپنی ذمہ داری کے مسئول ہیں اور تم اپنی ذمہ داری کے مسئول، لیکن اگر تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے۔"

آیت کا مطلب واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کام احکام کو پہنچا دینا ہے اور تمہارا کام یا ان احکام کو تسلیم کر لینا یا (بدقسمتی سے) اعراض کرنا ہے۔۔۔ لیکن آخر میں یہ بھی فرما دیا کہ اگر تم اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا شعار بناؤ گے تو ہدایت تمہارا مقدر ہو گی۔۔۔اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ایک مستقل چیز ہے۔۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿مَن يُطِعِ الرَّ‌سولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ...﴿٨٠﴾... سورةالنساء

کہ "جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی، اس نے گویا اللہ ہی کی اطاعت کی" کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی منشاء کے ترجمان ہیں، اس لیے وہ مطاع ہیں۔

مدنی صاحب نے مزید فرمایا، ارشاد الہی ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم ۖ فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ ۚ ذ‌ٰلِكَ خَيرٌ‌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٥٩﴾... سورةالنساء

کہ "اے ایمان والو، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرو، لیکن اگر تم میں کسی بات کے متعلق نزاع ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف رجوع کرو۔"

اس آیت میں گرامر کے اعتبار سے "اولی الامر" "اطیعوا" کا مفعول ہے۔ یعنی اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اولی الامر تینوں کی اطاعت کا حکم ہے۔ لیکن "اولی الامر" کے ساتھ "اطیعوا" کا اضافہ نہیں، جبکہ لفظ "اللہ" اور "رسول" کے ساتھ یہ لفظ موجود ہے۔ یعنی بلاغت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ لفظِ "رسول" کے ساتھ بھی اس کا اضافہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اس میں زور پیدا ہو سکے مثلا "﴿قُل هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾... سورة الاخلاص" کی بجائے ﴿قُل هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾... سورة الاخلاص"" نہیں کہا گیا تاکہ اس میں زور پیدا ہو جائے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ اپنی زندگی میں کسی ایسی بات پر قائم رہ سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی منشاء سے ہٹ کر ہو، غلط ہے، کہ نبی معصوم ہوتا ہے، چنانچہ "اولی الامر" کے ساتھ "اطیعوا" کا اضافہ اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہاں یہ صورتِ حال نہیں۔

اور اسی آیت میں یہ بھی بتا دیا کہ اگر تمہارا کسی کام کے بارے میں نزاع ہو جائے تو معاملہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دو، حالانکہ نزاع ہوتا ہی تدبیری امور میں ہے، جس کے معنی "کشمکش" کے ہیں۔۔۔اور تدبیری امور میں آپ کو چھٹی ہے، اس کے باوجود نزاع کی صورت میں "﴿فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ﴾" کا مطلب یہ ہے کہ تدبیری امور میں حق و باطل کی وضاحت بھی سنت ہی سے ہو گی۔

علاوہ ازیں اس آیت سے عصمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر استدلال کرتے ہوئے مدنی صاحب نے فرمایا کہ نبی کی اطاعت ایک مستقل چیز ہے اور وہ منشاء الہی سے ہٹ کر بات نہیں کرتے اور اگر ہٹ بھی جائیں تو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی اس کی نشاندہی بھی فرما دی ہے جیسا کہ جنگِ بدر کے قیدیوں کے آزاد کر دینے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے غلطی ہوئی۔۔۔ نیز اس تنبیہ خداوندی کہ "﴿لَولا كِتـٰبٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُم فيما أَخَذتُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿٦٨﴾... سورةالانفال" کہ "اگر اس امر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے معافی نہ لکھ دی گئی ہوتی تو (ان قیدیوں کے آزاد کرنے کے سلسلہ میں) عذاب بھی آ سکتا تھا" ۔۔۔کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عذاب دکھایا، اور اگر یہ عذاب آ جاتا تو عمر رضی اللہ عنہ کے سوا اس سے کوئی بھی نہ بچتا" کہ ان کی وہی رائے تھی جو اللہ تعالیٰ کی منشاء تھی (اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے)

پھر اس آیت سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ رسول سے کوئی نہ کوئی کام ایسا کرایا جاتا ہے جو بشریت کا تقاضا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ عصمت کے مقام پر قائم رہتا ہے کہ اس کی اصلاح کر دی جاتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت حجت نہیں رہتی۔

پس سنت جامع ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر لمحہ ہمارے لیے راہنما ہے۔

مدنی صاحب نے سنت کی دائمی حیثیت کے موضوع پر واپس آتے ہوئے ایک عجیب نکتہ بیان فرمایا کہ:

جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعض لمحات کو سنت قرار دیا ہے، بعض کو نہیں۔۔۔اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر لمحہ کے سنت ہونے کے قائل ہیں۔۔۔ ان دونوں نظریات کے باوجود سنت کی دائمی حیثیت اس لیے متاثر نہیں ہوتی کہ سنت جس چیز کا نام ہے (خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر لمحہ ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعض لمحات) سوال یہ ہے کہ آیا اس کی حیثیت وقتی ہے یا دائمی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت دائمی ہے یا وقتی؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت وقتی ہے تو سنت بھی وقتی ہو گی، لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت دائمی ہے سنت بھی یقینا دائمی ہو گی۔۔۔ اس لیے کہ سنت تو منشاء الہی کی ترجمانی کا نام ہے اور منشاء الہی کی تبدیلی سے سنت کے ترجمان ہونے کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک مثال سے مدنی صاحب نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

بیت المقدس کی طرف رخ کر کے سولہ مہینے نمازیں پڑھی جاتی رہیں، جب تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہوا تو صحابہ رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہماری ان گزشتہ نمازوں کا کیا بنے گا جو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی جاتی رہی ہیں؟ تو جوابا اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"وَما كانَ اللَّهُ لِيُضيعَ إيمـٰنَكُم" (یہاں ایمان سے مراد نمازیں ہیں) "کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ان نمازوں کو ضائع نہیں فرمائیں گے" اس لیے کہ پہلے بھی حکمِ الہی پر عمل ہوا ہے اور اب بھی حکمِ الہی پر ہی عمل ہو رہا ہے"

مدنی صاحب نے فرمایا کہ یہاں اس سلسلہ کا ایک پہلو انتہائی قابلِ غور ہے، کہ قرآن مجید میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم موجود نہیں بلکہ یہ رسول اللہ کی سنت تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَما جَعَلنَا القِبلَةَ الَّتى كُنتَ عَلَيها إِلّا لِنَعلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّ‌سولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلىٰ عَقِبَيهِ...١٤٣﴾... سورة البقرة

کہ "ہم نے اس قبیلہ کو جس کی طرف آپ متوجہ تھے، اس لیے قبلہ قرار دیا تھا، تاکہ ہم جان لیں، کون آپ کی اتباع کرتا ہے اور کون اس سے روگردانی کرتا ہے"

لہذا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی حکم کے الفاظ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائے ہوں یا رسول اللہ اس کا حکم دیں۔۔۔ قرآن مجید میں ہر حکم کا ہونا ضروری نہیں کہ اصل چیز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے جو در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے۔۔۔ بلکہ اس پر بھی مستزاد یہ کہ قرآن مجید کا کلام الہی ہونا بھی ہمیں اس دلیل سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتایا ہے، کہ یہ کلامِ الہی ہے، جبکہ ہر شخص کے لیے اس کی تحقیق ممکن نہیں، پس اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے ہم اسے اللہ کا کلام تسلیم کر سکتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی زندگی ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی منشاء کی ترجمانی اور حجت کیوں نہیں ہو سکتی؟ قطع نظر اس سے کہ وہ الفاظ کی صورت میں ہو جیسے اللہ تعالیٰ کا قرآن، یا معنیٰ کی صورت میں ہو، جیسے کہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔

اور قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب بھی یہی بیان کیا گیا ہے:

﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ...﴿٤٤﴾... سورة النحل

کہ "ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اسے بیان کریں۔"

مزید ارشاد الہی ہے:

﴿تُحَرِّ‌ك بِهِ لِسانَكَ لِتَعجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُر‌ءانَهُ ﴿١٧﴾... ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ ﴿١٩﴾... سورةالقيامة

کہ " آپ (بوقتِ وحی) قرآنی الفاظ کو محفوظ کرنے کے لیے جلدی جلدی پڑھنا نہ شروع کر دیں، کہ اسے جمع کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور پھر اس کا بیان بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔"

آپ دیکھتے ہیں ، قرآن کے جمع کر دینے کی یہ ذمہ داری کس حد تک پوری ہوئی کہ ایک ایک نکتہ اور شوشہ تک محفوظ ہے۔۔۔ تو پھر اس کے بیان (سنت) میں کسی قسم کا شک روا رکھنا کہاں تک درست ہے؟ جبکہ ان دونوں کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے۔۔۔اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک گوشہ جس طرح ہہمارے سامنے موجود اور محفوظ ہے، کسی دوسری شخصیت کے لیے اس کی نظیر ممکن نہیں۔

مدنی صاحب نے اس سلسلہ میں ایک اور دور رس نکتہ بیان فرمایا کہ:

﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩﴾...سورة الحجر

یعنی "ہم نے ذکر کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"

(انہوں نے فرمایا)

غور کیجئے، یہاں اللہ تعالیٰ نے "﴿ إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الْقُرآَنَ﴾" نہیں فرمایا "﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكْرَ﴾" فرمایا ہے۔۔۔ ذکر کے معنیٰ نصیحت کے ہیں، اور ذکر اور قرآن میں معمولی سا فرق ہے۔ ذکر قرآن کو بھی شامل ہے اور قرآن مجید کے الفاظ برکت اور باعثِ ثواب ضرور ہیں، لیکن یہ نصیحت اس وقت بنتے ہیں جب اس کے معانی بیان کیے جائیں، پس "﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكْرَ﴾" کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے قرآن مجید کو اس کے بیان سمیت اتارا ہے۔ یعنی جہاں قرآن مجید منزل من اللہ ہے وہیں (اس کا بیان) سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔۔۔"﴿وَمَا جَعَلْنَا الَقِبْلَةَ الَّتِى..... الاية﴾" میں بھی یہی نکتہ کارفرما ہے اور "﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوىٰ﴾"کے معنیٰ بھی یہیں ہیں۔

مدنی صاحب نے فرمایا:

اس آیت سے جو دوسرا نکتہ ہمیں حاصل ہے وہ یہ ہے کہ یہں "ذکر" کی حفاظت کا ذمہ لیا گیا ہے جبکہ ذکر کتاب و سنت دونوں کو شامل ہے، پس جس طرح قرآن مجید تا قیامت محفوظ اور ہمارے لیے راہنما ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہمارے لیے تا قیامت ہے، وہیں آپ ی سنت بھی قیامت تک محفوظ اور اس کی حیثیت بھی ہمارے لیے دائمی اور راہنما کی ہے۔

ایک مغالطہ اور اس کی تردید:

مدنی صاحب نے اس سلسلہ میں ایک مغالطہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ یہاں اعتراض کرتے ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تو دائمی ہے، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، اس وقت عرب کے کچھ مخصوص حالات تھے جو شریعت میں داخل ہو گئے، لہذا انہیں تو تبدیل ہونا ہی چاہئے۔۔اس کا جواب یہ ہے کہ حالات شریعت سازی نہیں کرتے، یہ تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ شریعت حالات کا لحاظ رکھتی ہے، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ حالات سے متاثر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منشاء الہی بیان فرمایاہو تو یہ امر واقعہ کے بھی خلاف ہے۔

اور اس لحاظ سے بھی باطل، کہ شریعت ساز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ جبکہ یہ غلط فہمی پیدا ہونے کی وجہ ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شریعت ساز سمجھ لیا جائے۔ یاد رکھیے، زمانہ خواہ کتنی ترقی کر جائے، حالات خواہ کوئی سا رخ اختیار کریں، تا قیامت ہر دور میں پیش آنے والے حالات کا لحاظ اللہ تعالیٰ نے شریعت میں رکھ لیا ہے، اور شریعتِ محمدی کے مال ہونے کے معنیٰ یہی ہیں۔ دوسری شریعتین بھی بلاشبہ کامل ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو شریعت ساز ہیں، کی ایک صفت حکیم بھی ہے اور حکیم کا کوئی کام ناقص نہیں ہوتا، لہذا یہ شریعتیں جن اقوام کے لیے تھیں، کامل تھیں، لیکن اگر ان شریعتوں، مثلا موسوی یا عیسوی شریعت کو قیامت تک کے لیے لازمی سمجھ لیا جائے تو یہ اس لحاظ سے نکامل نہ کہلا سکیں گی کہ ان میں ہر زمان و مکان کی الجھنوں کا حل موجود نہ ہو گا کیونکہ یہ اپنے وقت کے لیے تھیں۔ چنانچہ یہ بعد میں تبدیل ہو گئیں، جبکہ محمدی شریعت زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے اور چونکہ سنت بھی شریعت ہے، لہذا اس میں ہر دور کے حالات کا لحاظ رکھ لیا گیا ہے اور چونکہ شریعت غیر متبدل ہے لہذا سنت کی حیثیت بھی دائمی ہے۔

مدنی صاحب نے آخر میں یہ وضاحت ضروری سمجھی ہے کہ ہمارے یہ مذاکرات اسلامی حدود و تعزیرات کے سلسلے میں ہو رہے ہیں۔۔اور اس مقام پر پہنچ کر ہمیں رجم کے سلسلہ کے ایک اشکال کا حل بھی مل جاتا ہے کہ رجم تعزیر ہے یا حد؟۔۔۔اگر ہم رجم کو تعزیر مان لیں تو تعزیر حاکم کی مرضی کے مطابق سزا کا نام ہے جسے اس کی ذاتی رائے کہا جا سکتا ہے اور جو یقینا وقتی ہو گی۔۔۔پرویز صاحب نے یہی مغالطہ دیا ہے کہ ان کے نزدیک رسول کی حیثیت حاکم کی ہے اور یہی ان کے نزدیک رسول کی تعریف بھی ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول تھے، پھر صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ اور پھر عمر رضی اللہ عنہ، وعلیٰ ہذا القیاس، جسے وہ "مرکزِ ملت" کا نام دیتے ہیں۔۔۔ "﴿أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم﴾" کے معنی ان کے نزدیک یہی ہیں کہ قرآن کی اطاعت کرو، پھر حاکم کی۔ اور اولی الامر سے ان کی مراد بیوروکریسی کی ہے۔ پھر "﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ﴾" کے سلسلہ کو انہوں نے اس طرح منظم کیا ہے کہ اگر حاکم اور بیوروکریسی میں اختلاف ہو جائے تو ان دونوں کو چھوڑ کر مرکزِ ملت کی طرف رجوع کیا جائے۔۔اور یہ سارا جال مستشرقین کا پھیلایا ہوا ہے۔۔۔ مدنی صاحب نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم جب یہ ثابت کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دائمی ہے، وقتی نہیں، جبکہ تعزیر ایک وقتی چیز ہے تو لا محالہ ہمیں رجم کو تعزیر کی بجائے حد اور اسے حاکم کی منشاء کی بجائے اصل شریعت ماننا پڑے گا اور سنت کی دائمی حیثیت اسی کی متقاضی ہے۔

اس سلسلہ میں مدنی صاحب نے ان دو آدمیوں کے واقعہ کا حوالہ دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زنا کا ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوئے تھے اور انہوں نے کہا تھا:

«اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ»

یعنی "(اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ہمارے درمیان اللہ کی شریعت سے فیصلہ فرمائیے"

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کو (کنوارا ہونے کی بناء پر) کوڑے مارنے اور عورت کو (شادی شدہ ہونے کی بناء پر اور اس کے اقرار کی صورت میں) رجم کرنے کا حکم فرمایا تھا۔۔۔ گویا رجم کا مسئلہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس کی حیثیت شرعی ہے، یہ ایک حاکم کا وقتی حکم نہیں ہے اور یہ حد ہے، لیکن اگر اسے تعزیر مان لیا جائے تو اس کی زد شریعت پر پڑتی ہے کہ تعزیر ایک انتظامی اور انسدادی حکم ہوتا ہے اور اسی حیثیت سے حاکم کی صوابدید پر مبنی ہوتا ہے۔۔ اور یہی وجہ ہے کہ علماء شریعت کی حفاظت کے لیے رحم کے حد ہونے پر زور دیتے ہیں۔

چند سوالات اور ان کے جوابات:

سوال: کشف کے سلسلہ میں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ذکر مع مراقبہ سے ہر شخص اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مراقبہ میں دیکھتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتا ہے اور بعض قبروں کا حال بھی جان سکتا ہے۔۔۔کہاں تک درست ہے؟

جواب: میں اپنے خطاب میں یہ ذکر کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت حاصل کرنے کی کوئی با اعتماد صورت نبی کے واسطے کے بغیر ممکن نہیں۔ لہذا کشف کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کشف کے بارے میں یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ وہ الہامی ہے، کیونکہ ایسے امور میں شیطان کی دخل اندازی بہت ممکن ہے اور یہ تمیز نہیں ہو سکتی کہ کہاں تک اس میں ملاوٹ ہوئی ہے؟۔۔۔ جبکہ شیطان اللہ کے نام پر بھی دھوکا دینے سے گریز نہیں کرتا۔۔۔قرآن کریم میں ہے:

﴿وَلا يَغُرَّ‌نَّكُم بِاللَّهِ الغَر‌ورُ‌ ﴿٥﴾... سورةفاطر

کہ "بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے (نام کے) ساتھ دھوکا نہ دے"

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ بادلوں میں سے انہیں آواز آئی، "اے شیخ عبدالقادر، تو نے میری اتنی عبادت کی ہے کہ میں تجھ سے خوش ہو گیا ہوں" شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے جب اس بات پر میں غور کیا تو انہیں احساس ہوا کہ ایسی تسلی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیھم السلام کو بھی نہ دی گئی، لہذا انہوں نے "لا حول ولا قوۃ الا باللہ" پڑھا۔۔۔ بادل پھٹا اور اس میں سے شیطان بھاگا، ساتھ ہی آواز آئی، "اے عبدالقادر! آج تو اپنے علم کی وجہ سے میرے داؤ سے بچ گیا ہے ورنہ میں نے ایسے حربوں سے کتنے ہی ولی گمراہ کیے ہیں" شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کہنے لگے کہ "مجھے میرے اللہ نے بچایا ہے، میرے علم نے نہیں"

۔۔۔ گویا شیطان اعترافِ شکست میں بھی ایک اور وار کر فیا، جس سے وہ انہیں تکبر میں ڈال کر گمراہ کرنا چاہتا تھا۔

یہ ایک واقعہ ہے، اس طرح کے بیسیوں واقعات علمائے کرام اور اولیائے عظام کے ساتھ پیش آ چکے ہیں۔۔۔ اگر قبروں پر مراقبہ سے یہ چیز حاصل ہو سکتی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ایسے واقعات ضرور ملتے کہ انہوں نے باہمی اختلافی امور میں مراقبہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلے کرائے ہوتے۔۔۔ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایسے مراقبوں سے یہ مقام حاصل نہ کر سکتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کرا لیتے؟

سوال نمبر 2: سچا خواب اگر خلاف شرع نہ ہو تو وہ حجت ہو گا یا نہیں؟

جواب: سچا خواب اگر خلاف شرع نہ ہو تو وہ حجت ہی ہو گا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس خواب کے واقع ہونے کے بعد یہ یقین حاصل ہوا کہ وہ سچا ہے، تو اس کا خود واقعہ پر کیا اثر پڑے گا؟ حاصل یہ ہے کہ غیر نبی کے بارے میں یہ یقین ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ سچا ہے، اس لیے غیر نبی کا خواب حجت نہیں۔

سوال نمبر 3: استخارہ میں بھی انسان بعض دفعہ خواب میں کوئی جانب راجح دیکھتا ہے، اس کا شریعت نے اعتبار کیا ہے؟

جواب: حدیث میں استخارہ کرنے کی جو ترغیب آئی ہے اس میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ استخارہ کے بعد یہ علم ہو جائے گا کہ فلاں کام بہتر ہے۔۔۔کواب کے ذیرہ سے ہو، یا کسی اور ذریعہ سے، استخارے کا مقصد اللہ تعالیٰ سے خیر طلب ہے، جس کا اظہار لفظ "استخارہ" کر رہا ہے اور حدیث میں آیا ہے:

«مَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ وَمَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ»

"جس نے مشورہ طلب کیا، شرمندہ نہ ہوا،اور جس نے استخارہ کر لیا وہ ناکام نہ ہوا'

گویا استخارہ کرنے سے مقصود یہ ہے کہ انسان کا کوئی عمل رائیگاں نہ ہو اور اس کا نتیجہ بہتر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ استخارہ ارادہ کرنے کے بعد کیا جاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استکارہ کی جو دعا سکھائی ہے اس میں بھی ارادہ کے بعد یہ دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، اگر استخارہ سے مقصود خیر کا علم پہلے سے حاصل کرنا ہوتا تو یہ ارادہ سے پہلے ہونا چاہئے تھا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔

سوال نمبر 4:

جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اس نے واقعی مجھے ہی دیکھا، اب جو گفتگو ہوئی ہو گی اس میں شک اور تردد کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے؟

جواب: اس سوال کے جواب میں طرفہ تماشا ہے کہ مجھے ایک اور سوال، جو اس سلسلہ میں موصول ہوا ہے، وہ سوال نہ صرف آپ اپنا جواب ہے بلکہ یہ آپ کے اس سوال نمبر 4 کا جواب بھی ہے (اس لیے وہ سوال ہی یہاں نقل کیا جا رہا ہے)

سوال: آپ نے فرمایا ہے کہ شیطان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل اختیار نہیں کر سکتا، یہ درست ہے لیکن جسے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں نظر آئیں، اس کے پاس کیا کسوٹی ہے کہ وہ کہے کہ واقعی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ صحابی تو کہہ سکتا ہے کہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، اس لیے صحابی کو پہچان ہے، لیکن جس نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا وہ کیسے پہچانے گا؟ ممکن ہے کہ کسی دوسرے کی شکل میں آ کر شیطان دھوکا دے دے؟۔۔۔جب آواز کی کوئی پہچان نہیں تو شکل و صورت کی پہچان کیا ہوئی؟

(اس سوال کو بغور پڑھیے، آپ کو اپنا مطلوبہ جواب مل جائے گا) ۔۔۔ ویسے بھی اس کا جواب میرے خطاب میں مفصل آ چکا ہے۔

سوال نمبر 5:

انبیائے کرام علیھم السلام جیسے اللہ کے نمائندے ہیں، ایسے فرشتوں کے بارے میں بھی "رسول" کے لفظ وارد ہوئے ہیں۔۔۔ دونوں کے نمائندہ ہونے میں کیا فرق ہے؟

جواب: فرشتے ذوی العقول ہونے کے باوجود اختیار نہیں رکھتے، قرآن کریم میں ہے:

﴿وَيَفعَلونَ ما يُؤمَر‌ونَ﴿٥٠﴾... سورةالنحل

کہ "وہ وہی کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں۔"

اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں تکوینی امور میں اپنا نمائندہ بنایا ہے لیکن چونکہ وہ بااختیار نہیں، اس لیے ان کا کوئی فعل ان کے اختیار پر مبنی نہیں ہوتا۔ جبکہ انبیاء علیھم السلام اللہ تعالیٰ کے نمائندے ہیں اور یہ نمائندگی وہ اپنے اختیار سے کرتے ہیں، تاہم اللہ کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے اللہ ان کی حفاظت کرتے ہیں لہذا وہ معصوم ہوتے ہیں، اگرچہ یہ منصب وہبی ہوتا ہے، اختیار سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ گویا فرشتوں کی نمائندگی تکوینی امر ہے اور انبیاء علیھم السلام کی نمائندگی تشریعی۔

سوال نمبر 6:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا ہے کہ نبی کا ہر حکم لازمی نہیں ہوتا، جب وہ حکم ہے تو لازمی کیوں نہیں؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اِذَا اَمَرْتُكُمْ بِشَىءٍ فَاْتُوْا مِنْهُ مَااسْتَطَعْتُمُ»

جواب: "تابیر نخل" (کھجوروں کی پیوندکاری) والے معاملے میں جو الفاظ مجھے یاد ہیں، یہ ہیں:

«اِذَا اَمَرْتُكُمْ بِشَىءٍ مِنْ دِيْنِكُمْ فَخُذُوْا بِهِ وَاِذَا اَمَرْتُكُمْ بِشَىءٍ مَنْ رَائِى فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ---- وَاَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُورِ دُنْيَاكُمْ»

ان الفاظ سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ حکم واجب الاطاعت ہے جو دین سے متعلق ہو، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض امور ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو ذاتی رائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔ کاروباری تجربے اور انتظامی امور نفس الامری کے اعتبار سے انسانی تدبیر شمار ہوتے ہیں، لہذا ان میں انسان کو آزادی دی گئی ہے، اور یہی مشورے کا میدان بھی ہے۔ ایسے امور میں مشورہ دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف بھی کیا گیا۔ لیکن یہ واضح رہے کہ کاروباری اور انتظامی امور کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جس کا تعلق حقوق و فرائض کے اعتبار سے خیر و شر، حق و باطل اور عدل و ظلم کی حدود میں داخل ہو سکتا ہے۔ لہذا ان امور میں شرعی ہدایات بھی دی گئی ہیں اور ان کی پابندی بھی لازمی ہے، چونکہ انسان کے لیے بیشتر اوقات یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ تدبیر کرتے ہوئے وہ خیر و شر کی حدود کا لحاظ رکھ سکا ہے یا نہیں، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایسے موقعوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھ لیا کرتے تھے کہ آپ کی یہ ذاتی رائے ہے یا شرعی ہدایت؟ ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست استفادہ تو ممکن نہیں، اس لیے ہمیں ہر معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات ملحوظ رکھنی چاہئیں اور انہی ہدایات کی روشنی میں تدبیری امور انجام دینے چاہئیں۔

ہم نے سنت کی حقیقت کے متعلق جو گفتگو کی ہے وہ اسی اعتبار سے ہے کہ تدبیری امور کا فیصلہ نہ کر سکنے کی بناء پر انسان دین و دنیا کے امور میں بنیادی طور پر سنت کا لحاظ رکھے تاکہ کسی چیز کا دنیاوی امر ہونا بھی اسے سنت ہی سے حاصل ہو۔ اس طرح سنت انسان کی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ تابیر نخل والے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک خود یہ واضح نہیں فرما دیا کہ معاشی تجربے سے آپ لوگ زیادہ واقف بھی ہو سکتے ہیں، اس وقت تک صحابہ رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے "تابیر نخل" کے سلسلے میں مشورے کی بھی خلاف ورزی نہیں کی۔ لہذا تدبیر کی آزادی کا اختیار بھی ان اصولوں، ضابطوں اور قدروں میں ہو گا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے حاصل ہوتی ہیں، اس سلسلے میں قرآن مجید کی یہ آیت قابلِ غور ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم ۖ فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ...﴿٥٩﴾... سورةالنساء

کہ "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی بھی۔۔ اور اگر تمہارا کسی امر میں نزاع ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرو۔"

جنگِ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا اگرچہ تدبیری امر تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مشورہ کیا اور بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف بھی کیا، لیکن اسی تدبیر سے دنیا اور آخرت میں ترجیح کا سوال پیدا ہو گیا تھا ﴿تُر‌يدونَ عَرَ‌ضَ الدُّنيا وَاللَّهُ يُر‌يدُ الءاخِرَ‌ةَ﴾ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ گویا تدبیری امور بھی شرعی ہدایات کے تابع رہ کر ہی انجام دیے جا سکتے ہیں۔

سوال نمبر 7:

جیسا کہ آپ نے فرمایا:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ "تم میری ہر بات لکھ لیا کرو، کہ اس زبان سے بجز حق کے اور کچھ نکل ہی نہیں سکتا" تو پھر پیوندکاری کی ممانعت پر فصل نفع آور کیوں نہ آئی؟ ۔۔۔ اس میں کیا حکمت تھی؟

جواب: سوال نمبر 6 کے جواب سے یہ بات حاصل ہو چکی ہے کہ یہ شرط صرف شرعی ہدایت سے متعلق ہے اور شرعی حدود کے اندر تدبیر کی آزادی ہے۔ اس اعتبار سے دنیاوی تجربے زیادہ مفید بھی ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ کھجوروں کی پیوندکاری کا ترک کر دینا کم نفع آور ہوا۔

سوال نمبر 8:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض خاصے اور معجزے بھی لازمی اور واجب الاطاعت ہوں گے، وضاحت فرمائیں۔

جواب: خاصہ کا معنیٰ ہی یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہے، دوسروں سے متعلق نہیں، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تسلیم کرنا ہمارے لیے ضروری ہے نہ کہ عمل، یہی حال معجزہ کا ہے۔ معجزہ کو تسلیم کرنا ضروری ہے لیکن معجزہ کو عمل میں لانا کسی دوسرے کے لیے ممکن نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شیخ التفسیر مولانا محمد عبدہ:

مدنی صاحب کا خطاب تقریبا سوا گھنٹہ جاری رہا، مغرب کی نماز کا وقت قریب تھا اس لیے بھی، اور جناب شیخ الحدیث کی علالتِ طبع کی بناء پر بھی، آپ کا خطاب نہایت مختصر تھا، آپ نے مدنی صاحب کے خطاب کی مکمل تائید کے علاوہ بھی کچھ باتیں بیان کیں، انہوں نے فرمایا:

آپ نے حافظ صاحب کا خطاب سنا، آپ نے سنت کی دائمی حیثیت پر کئی پہلوؤں سے سیر حاصل بحث کی ہے۔۔۔ حقیقت یہی ہے کہ جس طرح قرآن مجید کی حیثیت دائمی ہے، اسی طرح سنت کی حیثیت بھی دائمی ہے۔۔۔ سنت کی دائمی یا وقتی حیثیت کا مسئلہ آج کی پیداوار نہیں، پرانا ہے۔ معتزلہ کے دور میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا گیا۔۔۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں بھی یہ لوگ موجود تھے اور آپ کے سامنے کئی ایسے واقعات پیش آئے۔۔۔ کچھ لوگ روایات کا انکار کرنے لگے اور کچھ ایسے اہلِ قیاس بھی پیدا ہوئے جنہوں نے خبرِ واحد اور خبرِ متواتر کی بحث چھیڑی کہ خبرِ متواتر حجت ہے، خبرِ واحد حجت نہیں۔۔۔ تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے اصولِ فقہ پر قلم اٹھایا۔۔۔ ان کا "الرسالۃ" اس سلسلہ میں پہلا رسالہ ہے اور اس کو ہم آخری بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ انہوں نے ایسے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے ایک راہنما جملہ فرمایا ہے کہ:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیا ہے قرآن ہی کی روشنی میں کیا ہے۔ جو کچھ فرمایا ہے، قرآن ہی کی روشنی میں اور قرآن ہی کی وضاحت کے لیے بیان فرمایا ہے۔" گویا ان کے نزدیک حدیث کی حیثیت قرآن کی شارح کی ہے، حدیث قرآن کا ایک جزء ہے اور جزء کی حیثیت سے اس کے ساتھ مستلزم ہے، اگر قرآن ہمارے لیے راہنما ہے تو حدیث اس کی شرح کی حیثیت سے ہمارے لیے راہنما ہے۔

انہوں نے فرمایا:

حدیث کے انکار کا فتنہ درجہ بدرجہ بڑھا ہے۔ شروع میں یہ اختلاف نہ تھا کہ حدیث حجت ہے یا نہیں، وقتی ہے یا دائمی؟ بلکہ پہلے اس حیثیت سے انکار ہوا کہ بعض احادیث عقل کے خلاف ہیں۔۔۔ کیا یہ حدیث ہے یا نہیں؟۔۔۔ سند کے اعتبار سے اس کی حیثیت کیا ہے؟۔۔۔ اور آج اس کا نام فتنہ انکارِ حدیث ہے، ہندوستان میں سرسید وہ پہلا شخص ہے جس نے بہت سی احادیث کو یہ کہہ کر ٹھکرایا کہ یہ عقل کے خلاف ہیں، جبکہ پاکستان میں یہ فتنہ پرویزیت کے نام سے موسوم ہے، حالانکہ اگر سنت کو کتاب کے شارح کی حیثیت سے مان لیا جائے تو حدیث کی حجیت کا مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے۔۔۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

«كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْاٰنْ»

گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعلی اور قولی طور پر قرآن کے شارح ہیں۔۔۔اور اس حیثیت سے اس مسئلہ میں واقعتا کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔

جناب اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ:

جس دن اس سیمینار کا انعقاد ہوا ہے، اسی دن پورے عالمِ اسلام میں صدر پاکستان کی اپیل پر مسجدِ اقصیٰ میں اسرائیلی بربریت کے خلاف یومِ احتجاج منایا جا رہا تھا، سیمینار کے انعقاد کا پروگرام چونکہ پہلے ترتیب دیا گیا تھا اور یومِ احتجاج کا اعلان بعد میں ہوا۔ اس لیے اسی سیمینار میں جناب اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اس افسوس ناک واقعہ پر احتجاج کرتے ہوئے مختصر خطاب فرمایا۔۔۔ اس خطاب کے چند نکات حسبِ ذیل ہیں:

*یہودی قوم پاگل ہو چکی ہے جو مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہی ہے۔

*وہ وقت جلد آنے والا ہے جبکہ بہ ارشادِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک پتھر پکار اٹھے گا کہ اس کے پیچھے یہودی چھپا بیٹھا ہے۔

* بیت المقدس کا مسئلہ فلسطینیوں اور عربوں کا مسئلہ نہیں، پورے عالمِ اسلام کا مسئلہ ہے۔

* فلسطین کی سرزمین میں بہائے جانے والے خون میں ہمارا خون بھی شامل ہے، جناب اسماعیل قریشی صاحب نے اس سلسلہ میں ایک قراردادِ مذمت بھی پیش کی جس کی پرزور تائید کی گئی۔۔۔قرارداد کا متن حسبِ ذیل ہے:

قراردادِ مذمت:

"کلیۃ الشریعۃ" لاہور کا یہ اجتماع مسجدِ اقصیٰ کے موجودہ اندوہناک سانحہ پر اپنے شدید غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے جس میں اسرائیلی فوج نے مسلمانوں کے قبلہ اول پر اندھا دھند فائرنگ کر کے کئی مسلمانوں کو شہید کر دیا اور پچاس سے زائد مسلمان مجروح اور زخمی ہو کر زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ آج سے تیرہ سال قبل بھی ایک انتہا پسند یہودی نے مسجدِ اقصیٰ کو نذرِ آتش کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی۔ اس کے بعد اسرائیلی حکومت نے ہیکل سلیمانی کی تلاش کے بہانہ سے مسجدِ عمر کو منہدم کرنے کا مذموم منصوبہ تیار کیا تھا۔ اب اسرائیل کی فوج لبنان کی سرحد پر جمع ہو رہی ہے تاکہ فلسطین مجاہدوں کی بستیوں کو نیست و نابود کر دے۔ ان واقعات نے اسرائیل کے توسیع پسندانہ اور سفاکانہ عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس کو یہ جراءت اور جسارت اس لیے ہو رہی ہے کہ دنیا کی دو سپر طاقتیں روس اور امریکہ اس کی پشت پناہی پر موجود ہیں۔ لہذا عالمِ اسلام کے لیے اپنے اندرونی اختلافات کو دور کر کے متحد ہو جانا ازبس ضروری ہو گیا ہے۔ انہیں اپنے مادی وسائل کو خانہ جنگیوں میں ضائع کرنے کی بجائے ان کو بروئے کار لا کر اپنی قوت کو مجتمع کرنا ہو گا۔ اس سلسلہ میں ہم حکومت پاکستان کی موجودہ کوششوں کی تائید کرتے ہوئے اس سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسلامی کانفرنس اور رابطہ عالم اسلامی کے ذریعہ تمام اسلامی ملکوں کو قریب تر لانے اور ان سب کو متحد کرنے کے سلسلے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ ہم امریکہ اور روس پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کی ناجائز حمایت سے وہ عالمِ اسلام کو مشتعل کرنے سے باز آ جائیں۔ ہم اسرائیل کے خلاف اس جہاد میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے شریک ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ اس سلسلہ میں کسی قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔

اس قرارداد کی نقول تنظیم آزادی فلسطین، اسلامی کانفرنس، رابطہ عالمِ اسلامی اور تمام اسلامی ملکوں کے سفارت خانوں اور پریس کو روانہ کی جا رہی ہیں۔"

(تحریک: محمد اسماعیل قیریش۔ تائید: حافظ محمد سعید صاحب)

جسٹس (ریتائرڈ) بدیع الزمان کیکاؤس کا صدارتی خطاب:

آخر میں صاحبِ صدر جناب بی-زیڈ کیکاؤس نے اپنے صدارتی خطاب میں جو کچھ فرمایا، ہم اسے ایک سچے دردمند مسلمان کے دل کی پکار کہہ سکتے ہیں۔۔۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ تمام ولوے اور عزائم اس نحیف و نزار سینے میں جمع ہو چکے ہیں جو اچانک باہر آ جانے کے لیے بیتاب ہو رہے ہیں، ان کا لہجہ شروع میں ہی جوشیلا تھا۔۔۔ انہوں نے فرمایا:

اسرائیل نے چند سال پہلے بھی ایسی ہی حرکت کی تھی، اس وقت بھی ایسے ہی غم و غصہ کا اظہار کیا گیا تھا۔۔۔ آج بھی یہی صورتِ حال ہے، لیکن نتیجہ کیا ہو گا، رزولیویشن پاس کرو گے اور معاملہ ٹھپ ہو جائے گا۔۔۔آپ کہیں گے، ہم کیا کریں، تو میں یہ کہوں گا کہ بطورِ مسلمان ہمارا فرض جہاد ہے، جوابا اعتراض اٹھے گا، ہمارے پاس اسلحہ نہیں، لیکن مجھے یہ کہنے دیجئے کہ آپ نے اپنے سب سے بڑے ہتھیار، توحید اور اعمالِ حسنہ کو فراموش کر دیا ہے۔۔۔اس راستے پر چل نکلیے، پھر دیکھئے، راہیں کس طرح ہموار ہوتی ہیں، ہم تو سوئے ہوئے ہیں، خدا فرماتا ہے، اٹھو کچھ کرو، لیکن ہم پر کوئی اثر نہیں ہوا، بھارتی لاکھوں مسلمانوں کا قتلِ عام کر چکے ہیں، افغانستان میں رُوس ظلم کی تلوار چلا رہا ہے اور ہم بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں۔۔۔ یہ تو رسوائی کی زندگی ہے۔۔۔ ہم کو دین کی بھی ضرورت تھی اور سائنس کی بھی، ہم نے یہ دونوں کام نہیں کیے۔۔۔ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ اسرائیلی نہیں کر رہے، یہ قدرت کی طرف سے مسلمانوں کو سزا ہے، اللہ فرماتا ہے:

﴿وَما أَصـٰبَكُم مِن مُصيبَةٍ فَبِما كَسَبَت أَيديكُم...﴿٣٠﴾... سورةالشورىٰ

کہ "تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے تو یہ تمہاری ہی بداعمالیوں کی پاداش میں ہے" ہم نے دین کو چھوڑ کر دنیا پرستی اختیار کر لی ہے، ہمیں تو ممبری چاہئے، عیش کے سامان چاہئیں یا سینما۔۔۔ ابلیس نے ایک حکم نہ مانا، مردود ٹھہرا، ہم تو کئی احکام فراموش کر چکے ہیں، حالانکہ ہمارا طرہ امتیاز ہی "﴿وَبِذ‌ٰلِكَ أُمِر‌تُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ﴿١٦٣﴾... سورةالانعام" ہے۔۔۔ ہمارے لیے اعمالِ صالحہ ناگزیر ہیں جبکہ ان اعمال کی بنیاد اللہ کی رضا ہے۔ مسلمان سر سے کفن نہ باندھے تو وہ مسلمان ہی نہیں۔۔۔ (اس سلسلہ میں جناب جسٹس نے بیعتِ عقبہ کا حوالہ دیا)۔۔۔ ہر مسلمان حزب الشیطان کے خلاف جہاد کرنے والا ہے۔۔۔ اور جہاد کی بنیاد احکامِ الہی کی تعمیل ہے۔ یہی تو سب سے بڑا مؤثر ہتھیار ہے۔ ابھی آپ کے سامنے کتنی بحث ہوئی اللہ کے احکام پر، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر، لیکن کیا ہم ان باتوں کو مان رہے ہیں؟ اگر انہیں ہم مان لیں تو سب مسئلے حل ہو جائیں گے۔۔۔ لیکن ہماری حالت کیا ہے؟ ہم تو جھوٹ بھی نہیں چھوڑ سکتے، جھوٹ سارے پاکستان میں بولا جا رہا ہے، یہ اب باعثِ عار ہی نہیں رہا، فحاشی عروج پر ہے، ننگی تصویریں اور گندے گانے بازار میں بِک رہے ہیں، مسلمان ہو کر یہ حرکتیں، شرم آنی چاہئے ایسے مسلمانوں کو۔۔۔ خدا تو فرماتا ہے:

﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَر‌ضِ أَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ وَأَمَر‌وا بِالمَعر‌وفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ‌...﴿٤١﴾... سورةالحج

لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ ۔۔۔ جب تک ہم ان ملعون حرکتوں کو نہ چھوڑیں گے، دنیا میں تو رسوائی ہے ہی، ہم جہنم کے عذاب سے بھی نہ بچ سکیں گے، دنیا اور اقتدار کی خواہش ہم پر غالب ہے، حالانکہ حبِ مال اور حبِ جاہ اتنی جلدی ایمان کو کھا جاتی ہیں، جیسے کہ بھیڑیا شکار کو، ۔۔۔ ہم نے دین کو، اس بات کو قبول نہیں کیا کہ "اے اللہ تو میرا رب ہے، میں تیرا بندی ، میری زندگی موت تیرے لیے ہے" یہ دین کی اصل روح ہے جسے ہم قبول نہیں کرتے، یہی زندگی کا مقصد ہے، یہی پہلی اور بنیادی بات ہے۔۔۔اسلام کے دو ماخذ ہیں:

﴿فَإِذا قَرَ‌أنـٰهُ فَاتَّبِع قُر‌ءانَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ ﴿١٩﴾... سورةالقيامة

یعنی کتاب اور سنت، جب تک ہم انہیں اپنا لائحہ عمل نہیں بنائٰن گے، کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

اس سیمینار میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب نے انجام دیے، مغرب کی اذان کے ساتھ ہی یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔