تبصرہ کتب
حدیثِ جاں (حمد و نعت)
نتیجہ فکر جناب راسخ عرفانی
ضخامت 112 صفحات، کاغذ و طباعت اعلیٰ
مجلد،حسین گرد پوش سے مزین، قیمت: 20 روپے
ناشر: مکتبہ نور ادب، چوک نیائیں، گوجرانوالہ
رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور محبت ایک مسلمان کے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح، خواہ نثر میں کی جائے یا نظم میں، بہت بڑی سعادت ہے اور بڑے اجر وثواب کا باعث۔ نعت اس کلام کو کہا جاتا ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کا اظہار ہو۔ نعت گوئی کے لیے فنی اسلوب مخصوص نہیں ہے بلکہ نعتیہ مضامین تقریبا تمام اصنافِ سخن میں موجود ہیں۔ نعت گوئی کا آغاز عہدِ رسالت ہی میں ہو گیا تھا اور خود ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعارِ نعت استماع فرما کر شاعر کی تحسین فرمائی تھی۔ یہ شاعر یا مداحِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ، سچی بات تو یہ ہے کہ نعت گوئی کی ابتداء اسی وقت سے ہو گئی جب ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نزولِ اجلال مدینہ منورہ میں ہوا اور انصارِ مدینہ کی معصوم لڑکیوں نے اپنے بھرپور جوشِ عقیدت اور محبت کا اظہار برجستہ اشعار کی صورت میں کیا۔ آج بھی جو شاعر حمدِ باری تعالیٰ اور حضور پپُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و توصیف کو اپنی شاعری کا موضوع بناتا ہے۔ اس کی خوش بختی اور سعادت مندی میں کیا کلام ہو سکتا ہے؟
جناب راسخ عرفانی ایک نغر گو شاعر کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں، انہیں تقریبا ہر صنفِ سخن پر قابلِ رشک قدرت حاصل ہے لیکن جب وہ حمد و نعت کے میدان میں آتے ہیں تو ان کا کلام سہلِ ممتنع کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے سینے سے امڈ امڈ کر اشعار کی صورت میں ڈھلتی جاتی ہے۔ ہر لفظ اور ہر حرف سے حبِ رسول کی خوشبو آتی ہے جس سے مشامِ جان معطر ہو جاتا ہے۔ زیرِ نظر کتاب جناب راسخ عرفانی کے نعتیہ کلام کا تازہ مجموعہ ہے اور اس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ان کی شاعری کا خاصہ ہیں۔ حمد اور نعت کافی عرصہ سے جنابِ راسخ کے اشہبِ فکر کی جولان گاہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم کی محبت شاعر کے دل میں رچی بسی ہوئی ہے اور ان کے کلام کا قلبِ مومن کا درد اور گداز ہے وہ اپنا دل بہلانے اور لوگوں کو خوش کر کے ان سے داد وصول کرنے کے لیے نعت نہیں کہتے بلکہ ان شاعری ان کی عقیدتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آئینہ دار ہے، اسی لیے ان کے کلام میں بے پناہ جوش اور روانی ہے، ہم ان کے اشعار کے انتخاب کو پورے کلام کی توہین سمجھتے ہیں کیونکہ ہر شعر اس مصرعے کا مصداق ہے
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں است
جناب راسخ عرفانی کے اشعارِ نعت پڑھ کر بے اختیار سیدالانام، فخرِ موجودات، خیرالخلائق، احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محبت اور عقیدت کے جذبات ابھرنے لگتے ہیں۔ اور اسی بناء پر ہم اللہ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان اشعار کو شاعر کے لیے ذریعہ نجات بنا دے گا۔ اس سلسلہ میں ہم دوست اور خیراندیش کی حیثیت سے چند گزارشات جناب راسخ عرفانی کی خدمت میں پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں، مناسب سمجھیں تو قبول فرما لیں ورنہ رد کر دیں۔
1۔ یہ مجموعہ حمد و نعت جس پائے کا ہے کتابت اس کے شایانِ شان نہیں۔ اکثر جگہ کاتب صاحب نے فنی لحاظ سے املاء کو مضحکہ خیر بنا دیا ہے۔
2۔ صفحہ 57 اور89 پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو "فاتحِ جنت" اور "فاتح خلدِ بریں" کہا گیا ہے۔ فاتح موزوں لفظ معلوم نہیں ہوتا۔ تفصیل اور بحث کا موقع نہیں، وہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں پر غور فرمائیں۔ درِ جنت کے ساتھ اگر فاتح کا لفظ آئے تو اور بات ہے۔
3۔ صفحہ 63 پر مصرع "بحرِ ذخار کی موجوں کا تھا منظر کیسا؟" میں بحرِ زخار ہوتا، تو بہتر تھا۔
4۔ صفحہ 92 پر مصرع "دشمنون نے لاکھ تاریکی بچھائی راہ میں" نظرثانی کا محتاج ہے۔ "راہ میں تاریکی بچھانا" محاورہ نہیں ہے۔
5۔ صفحہ 95 پر "دید طیبہ" کے بجائے "دید طیبہ" کتابت ہوا ہے۔
6۔ صفحہ 102 پر مصرعہ "اے یہ فیضِ حبیب حق راسخ" نظرثانی کا محتاج ہے۔
7۔ صفحہ 103 پر مصرع۔
اے خوشا حسن، معراج کی رات کا نام تک بھی تھا نابود ظلمات کا۔"
کی "کلام راسخ" سے کوئی نسبت نہیں ہے، اسے تبدیل کر دینا مناسب ہو گا۔ اس بلند پایہ کتاب کا مقدمہ ادیب شہیر جناب عارف عبدالمتین صاحب نے لکھا ہے۔ یہ بجائے خود ایک فاضلانہ مقالہ ہے جس میں مقدمہ نگار نے کلامِ راسخ سے پورا پورا انصاف کیا ہے۔
یہ مجموعہ حمدونعت ہمارے دینی لٹریچر میں ایک گرانقدر اضافہ ہے۔ اس کا مطالعہ کیف و سرور کے ایک ایسے عالم میں پہنچا دیتا ہے جس کو بیان کرنا قلم کے بس کی بات نہیں۔
ذوق ایں بادہ نداتی بخدا تانہ چشی
(طالب ہاشمی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب: افغانوں کی نسلی تاریخ
مصنف: خان روشن خان
ضخامت: 80 صفحات
ناشر: روشن خان اینڈ کمپنی، جونا مارکیٹ (پھول چوک) کراچی نمبر 2
افضان نسلا کس خاندان ، قبیلہ یا قوم سے تعلق رکھتے ہیں؟ ۔۔۔ زیر نظر کتاب میں اس مسئلہ پر مختلف مکاتب خیال کا تاریخی اور محققانہ جائزہ لیا گیا اور اس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
مصنفِ کتاب جناب روشن خان صاحب، جو کہ خود بھی پٹھان ہیں، کا یہ جذبہ انتہائی قابلِ قدر ہے کہ:
"پٹھانوں کی قومی تاریخ کی جہاں تک عظیم الشان روایات اور ہمارے اسلاف کے بینظیر کارناموں اور بے مثال سیرت کا تعلق ہے، میں اسے اپنی قومی میراث سمجھتا ہوں اور اس پر فخر کرتا ہوں اور جہاں تک قومی تاریخ کی خامیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کا تعلق ہے اور جو باتیں تاریخ سے ثابت ہیں، میں ان سے انکار نہیں کرتا۔ میں ان سے سبق حاصل کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ قوم کے نوجوان بھی ان سے عبرت حاصل کریں"
نیز یہ کہ:
"قرآن اور اس کی بیان کردہ تمام حکمتوں پر میرا ایمان ہے۔ میں اس دائمی، عالمگیر اور قدیم سچائی سے انکار نہیں کرتا۔ لیکن قرآن مجید نے جو قدیم اقوام کے حالات بیان کیے ہیں، ان کا مقصد بھی یہ بیان کیا ہے کہ ۔۔۔ اس کے مخاطب انسان و اقوام ان واقعات سے عبرت حاصل کریں۔۔۔ پس جہاں اس تحریر میں میرا نقطہ نظر خالص علمی اور تاریخی ہے وہاں میں اپنے مطالعہ و تحقیق میں اس قرآنی مقصد کو ترک کر دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اسی جذبہ کے تحت میں نے اس کی اشاعت کا فیصلہ کیا ہے"
۔۔۔ مصنف کے ان ہر دو اقتباسات سے کتاب کا موضوع بآسانی سمجھ میں آ سکتا ہے۔۔۔ اور اہلِ علم، خصوصا پٹھانوں کی تاریخ کے مطالعہ کے شوقین اس سے کماحقہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔۔۔ سفید کاغذ، کتابت نہایت عمدہ، قیمت تین روپے نہایت معمولی ہے۔