آثار مکۃ المکرمۃ
وہ مقدس اور مبارک شہر جس میں مسلمانانِ عالم کا قبلہ، بیت اللہ شریف ہے،مکہ مکرمہ کہلاتا ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اسی شہر میں ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کی 53 بہاریں اسی شہر میں گزارین۔ بعدہ، جب قریش مکہ کے ظلم و ستم حد سے گزر گئے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اولا حبشہ کی طرف اور پھر مدینہ کی طرف، ہجرت کی اجازت مرحمت فرمائی۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور اجازت سے حضرت ابوبکر صدیق صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مدینہ کو روانہ ہوئے۔ مکہ سے روانہ ہوتے وقت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے جذبات کا اظہار فرمایا تھا کہ "اے مکہ! تو مجھے تمام روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے مگر تیرے باسیوں نے میرا یہاں رہنا مشکل کر دیا ہے۔ اگر مجھے یہاں سے نہ نکالا جاتا تو میں کبھی تجھے چھوڑ کر نہ جاتا۔" (او کما قال)
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک قول "معجم البلدان" میں ہے کہ "مجھے جو اطمینان مکہ میں نصیب ہوتا ہے وہ مدینہ میں نہیں۔" آخر کیوں نہ ہو وہاں اللہ کا گھر جو موجود ہے۔
اسی طرح حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مدینہ آنے کے بعد بھی مکہ کو بہت یاد کیا کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ شعر گنگناتے رہتے
كل امرئ مصبح في أهله ... والموت أدنى من شراك نعله
اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ شعر بھی صحیح بخاری میں ہیں
ألا ليت شعري هل أبيتن ليلة ... بواد وحولي إذخر وجليل
وهل أردن يوما مياه مجنة ... وهل يبدون لي شامة وطفيل
(صحيح البخارى، آخر كتاب الحج)
مکہ مکرمہ کا ذکر، قرآن کریم میں: قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر مکہ مکرمہ اور بیت اللہ شریف کا ذکر آیا ہے۔ ان میں سے بعض آیات مندرجہ ذیل ہیں:
﴿وَإِذ جَعَلنَا البَيتَ مَثابَةً لِلنّاسِ وَأَمنًا وَاتَّخِذوا مِن مَقامِ إِبرٰهـۧمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدنا إِلىٰ إِبرٰهـۧمَ وَإِسمـٰعيلَ أَن طَهِّرا بَيتِىَ لِلطّائِفينَ وَالعـٰكِفينَ وَالرُّكَّعِ السُّجودِ ﴿١٢٥﴾ وَإِذ قالَ إِبرٰهـۧمُ رَبِّ اجعَل هـٰذا بَلَدًا ءامِنًا وَارزُق أَهلَهُ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَن ءامَنَ مِنهُم بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۖ قالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَليلًا ثُمَّ أَضطَرُّهُ إِلىٰ عَذابِ النّارِ ۖ وَبِئسَ المَصيرُ ﴿١٢٦﴾وَإِذ يَرفَعُ إِبرٰهـۧمُ القَواعِدَ مِنَ البَيتِ وَإِسمـٰعيلُ رَبَّنا تَقَبَّل مِنّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّميعُ العَليمُ ﴿١٢٧﴾... سورةالبقرة
﴿قَد نَرىٰ تَقَلُّبَ وَجهِكَ فِى السَّماءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبلَةً تَرضىٰها...﴿١٤٤﴾... سورةالبقرة
﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيتٍ وُضِعَ لِلنّاسِ لَلَّذى بِبَكَّةَ مُبارَكًا وَهُدًى لِلعـٰلَمينَ ﴿٩٦﴾فيهِ ءايـٰتٌ بَيِّنـٰتٌ مَقامُ إِبرٰهيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كانَ ءامِنًا...﴿٩٧﴾... سورة آل عمران
﴿جَعَلَ اللَّهُ الكَعبَةَ البَيتَ الحَرامَ قِيـٰمًا لِلنّاسِ...﴿٩٧﴾... سورة المائدة
﴿رَبَّنا إِنّى أَسكَنتُ مِن ذُرِّيَّتى بِوادٍ غَيرِ ذى زَرعٍ عِندَ بَيتِكَ المُحَرَّمِ...﴿٣٧﴾... سورةابراهيم
﴿وَإِذ قالَ إِبرٰهيمُ رَبِّ اجعَل هـٰذَا البَلَدَ ءامِنًا وَاجنُبنى وَبَنِىَّ أَن نَعبُدَ الأَصنامَ ﴿٣٥﴾... سورة ابراهيم
﴿وَليَطَّوَّفوا بِالبَيتِ العَتيقِ ﴿٢٩﴾... سورة الحج
﴿وَكَذٰلِكَ أَوحَينا إِلَيكَ قُرءانًا عَرَبِيًّا لِتُنذِرَ أُمَّ القُرىٰ وَمَن حَولَها...﴿٧﴾... سورة الشورى
﴿لا أُقسِمُ بِهـٰذَا البَلَدِ ﴿١﴾ وَأَنتَ حِلٌّ بِهـٰذَا البَلَدِ ﴿٢﴾... سورةالبلد
﴿وَالتّينِ وَالزَّيتونِ ﴿١﴾ وَطورِ سينينَ ﴿٢﴾ وَهـٰذَا البَلَدِ الأَمينِ ﴿٣﴾... سورة التين
اسماء مکہ:
قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور کتب تاریخ میں مختلف صفات کے اعتبار سے بے شمار نام ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض مشہور نام یہ ہیں۔
مکہ،بکہ،ام القریٰ،بلدآمن،ذی طول، وادی غیر ذی زرع، القریہ القدیمہ، ام رحم، صلاح، کوثیٰ، الباسہ، الحاطمہ، قدس، ناذر۔ (اخبار مکہ للازرقی رحمۃ اللہ علیہ، معجم البلدان الیاقوت الحموی رحمۃ اللہ علیہ)
بعض اسلاف سے منقول ہے کہ آبادی کا نام مکہ اور زمین کے جس حصہ پر بیت اللہ شریف ہے اس کا نام بکہ ہے۔
بیت اللہ:
بیت اللہ کا معنیٰ ہے اللہ کا گھر۔ چونکہ اس عمارت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے مخصوص کر دیا ہے اس لیے اسے بیت اللہ کہا جاتا ہے۔ کعبہ بھی اسی کا نام ہے۔
معجم البلدان ج4 میں ہے کہ احادیث میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا فرمایا تو سب سے پہلے کعبہ والی جگہ کو تخلیق کیا گیا۔ اس کے بعد زمین چاروں طرف پھیل گئی۔ چنانچہ جس جگہ بیت اللہ ہے وہ ساری زمین کا درمیانی حصہ ہے۔ اسی لیے مکہ کو سُرۃ الارض (یعنی زمین کی ناف) اور ام القریٰ (یعنی تمام آبادیوں کا اصل) بھی کہا جاتا ہے۔
ابتداء اسلام میں مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ میں تشریف فرما رہے تو نماز میں اس انداز سے کھڑے ہوتے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ہوتا۔ آں حضرت علیہ السلام کی دلی تمنا تھی کہ بیت اللہ کو قبلہ متعین کر دیا جائے۔
چنانچہ ہجرت کے سولہ یا سترہ ماہ بعد جب درج ذیل آیت نازل ہوئی تو بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ کو قبلہ قرار دیا گیا:
قَد نَرىٰ تَقَلُّبَ وَجهِكَ فِى السَّماءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبلَةً تَرضىٰها ۚ فَوَلِّ وَجهَكَ شَطرَ المَسجِدِ الحَرامِ...﴿١٤٤﴾... سورةالبقرة
خصوصیت بیت اللہ:
سورج کے طلوع، غروب اور نصف النہار کے اوقات میں نماز ادا کرنا صحیح نہیں۔ مگر بیت اللہ شریف کی یہ خصوصیت ہے کہ وہاں ان مکروہ اوقات میں بھی نماز پڑھنے کی اجازت ہے:
عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ وَصَلَّى أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ»
مسجدِ حرام:
اس کا معنیٰ ہے حرمت والی مسجد۔ بیت اللہ کے اردگرد جو مسجد تعمیر ہے وہ مسجدِ حرام کہلاتی ہے۔ رُوئے زمین پر یہ سب سے پہلی مسجد ہے۔ صحیح بخاری میں ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ
کہ 'رُوئے زمین پر سب سے پہلی مسجد کون سی ہے؟"
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔۔۔ "مسجد حرام" (کتاب بدا الخلق)
صحیح بخاری اور دیگر کتبِ حدیث میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا المَسْجِدَ الحَرَامَ»
یعنی "مسجدِ نبوی میں ایک نماز باقی مساجد میں ایک ہزار نماز کے برابر ہے سوائے مسجد حرام کے۔"
یعنی وہاں اس سے بھی زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ مسجدِ حرام میں ایک نماز عام مساجد میں ایک لاکھ نماز کے برابر ہے:
عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ"(ابن ماجه، احمد، طبرانى، بيهفي)
مسجدِ حرام کی فضیلت:
کسی مسجد کو افضل تصور کرتے ہوئے اس کی طرف سفر کرنا منع ہے۔ روئے زمین پر صرف تین مساجد کی طرف اس نیت سے سفر کی اجازت ہے۔ (1)مسجد حرام (2)مسجد نبوی (3)بیت المقدس
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا، وَمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى"(بخارى، مسلم، ابوداؤد، نسائى، ابن ماجه)
تعمیرِ کعبہ:
کعبہ کی تعمیر مختلف مواقع پر ہوتہ رہی۔ کتبِ تاریخ میں اس کی مکمل تفصیل موجود ہے۔ بعض تعمیروں کا اجمالی ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
تعمیرِ ملائکہ: اخبارِ مکہ میں ہے کہ تخلیقِ آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال قبل ملائکہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے بیت اللہ کو تعمیر کیا۔
2۔ تعمیرِ آدم علیہ السلام:
حضرت آدم علیہ السلام نے زمین پر نزول فرما ہونے کے بعد بحکمِ الہی دوبارہ تعمیر کی۔ اس تعمیر میں پانچ پہاڑوں کے پتھر کام آئے۔ لبنان، طور زیتا، طور سیناء، ججودی، حراء۔ یہ تعمیر طوفانِ نوح کے موقعہ پر منہدم ہو گئی۔
3۔ تعمیرِ ابراہیم علیہ السلام:
بعدہ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بامرِ الہی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ہمراہ لے کر بیت اللہ شریف کو تعمیر کیا۔
4۔ تعمیر بنی جرھم:
بعض کتب میں ہے کہ بنی جرہم کا قبیلہ جو چاہِ زمزم کے ظہور کے بعد وہاں آکر آباد ہو گیا تھا انہوں نے بھی اللہ کے گھر کو تعمیر کیا تھا۔ واللہ اعلم
5۔ تعمیرِ قریش:
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی کے زمانہ میں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس برس تھی اور بیت اللہ شریف کی عمارت بارشوں، سیلابوں اور مرورِ زمانہ کے سبب بوسیدہ ہو چکی تھی، قریش نے بیت اللہ کی جدید تعمیر کا فیصلہ کیا۔ اس موقعہ پر حجراِ اسود کو اس کے مقام پر نصب کرنے کا وقت آیا تو ہر قبیلہ کی خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے نصیب ہو۔ نزاع اس قدر بڑھا کہ تلواریں نکل آئیں۔ چنانچہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروقت دانشمندانہ فیصلہ سے یہ نزاع ختم ہوا۔ اس تعمیر میں اخراجات کی کمی کے سبب بیت اللہ کو تعمیرِ ابراہیمی پر استوار نہ کیا جا سکا اور شمال کی جانب کچھ حصہ خالی رکھنا پڑا۔ وہ بھی در حقیقت بیت اللہ ہی کا حصہ ہے۔ اسے حطیم کہتے ہیں۔
6۔ تعمیر ابن الزبیر رضی اللہ عنہ:
سئہ 64ھ میں جب یزید کی افواج نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر مکہ پر چڑھائی کی تو منجنیق سے آگ برسائی گئی جس کے نتیجہ میں کعبہ کے پردے جل گئے اور دیوارون کو بھی نقصان پہنچا۔ تو ابنِ زبیر رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کی عمارت کو شہید کر کے ازسرِ نو تعمیر کر کے حطیم کو بھی تعمیر میں شامل کر دیا جو کہ قریش نے مال کی کمی کے سبب تعمیر نہ کیا تھا۔
7۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانہ میں حجاج بن یوسف نے ابنِ زبیر رضی اللہ عنہ سے عداوت کی بناء پر خلیفہ کو بہکایا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ میں تغیر کر دیا ہے۔ چنانچہ خلیفہ نے جدید تعمیر کی اجازت دے دی۔
8۔ اس کے بعد بھی بعض خلفاء نے جدید تعمیر کے ارادے کیے مگر امام دارالہجرۃ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے اصرار سے شاہِ وقت خلیفہ ہارون الرشید کو اس سے باز رکھا کہ کعبہ کی تعمیر امراء و خلفاء کے کھیل کا نشانہ نہ بن جائے کہ ہر بادشاہ اپنی شہرت و نمود کی خاطر اس مکرم و محترم گھر کو منہدم اور شہید کرتا رہے اور لوگوں کے دلوں سے اس کی عظمت جاتی رہے۔ (منہاج شرح مسلم)
9۔ سئہ 1021ھ میں سلطان احمد ترکی نے عمارتِ کعبہ کی بوسیدگی دُور کرائی۔
10۔ سئہ 1039ھ میں سلطان مراد کے دورِ حکومت میں سیلاب مسجدِ حرام میں پہنچ گیا۔ جس سے بیت اللہ کی دیواریں گر گئیں تو سلطان نے تعمیر کرائی۔
11۔ سئہ 1367ھ میں ملک عبدالعزیز بن سعود نے بیت اللہ کے دروازہ کے کواڑوں اور چوکھٹ کی تجدید کرائی۔
13۔ مملکتِ عربیہ سعودیہ کے موجودہ فرمانروا جلالہ الملک خالد بن عبدالعزیز کے دور میں بیت اللہ شریف کا دروازہ سونے سے بنایا گیا۔
حطیم: بمعنیٰ محطوم۔ یعنی علیحدہ کیا ہوا حصہ۔
قریش کی تعمیر میں اخراجات کی کمی کے باعث بیت اللہ کی مکمل تعمیر مشکل ہو گئی تو انہوں نے شمال کی جانب کچھ حصہ چھوڑ دیا اور اس پر عمارت نہ کھڑی کی جا سکی۔ اسے حطیم کہا جاتا ہے۔ یہ در حقیقت بیت اللہ ہی کا حصہ ہے اس میں نماز ادا کرنا بیت اللہ کے اندر نماز ادا کرنے کی مانند ہے:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَدْخُلَ البَيْتَ فَأُصَلِّيَ فِيهِ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَأَدْخَلَنِي الحِجْرَ، فَقَالَ: «صَلِّي فِي الحِجْرِ إِنْ أَرَدْتِ دُخُولَ البَيْتِ، فَإِنَّمَا هُوَ قِطْعَةٌ مِنَ البَيْتِ، وَلَكِنَّ قَوْمَكِ اسْتَقْصَرُوهُ حِينَ بَنَوْا الكَعْبَةَ فَأَخْرَجُوهُ مِنَ البَيْتِ»(ابوداؤد، نسائى، ترمذى)
صحیح مسلم میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آں حضرت علیہ السلام سے دریافت کیا، "آیا جدر (حطیم کا نام ہے) بیت اللہ کا حصہ ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ "ہاں"۔
چونکہ حطیم بیت اللہ کا حصہ ہے اس لیے طواف میں حطیم کے باہر سے چکر لگانا ہو گا۔ اگر کوئی شخص حطیم کے اندر سے گزر کر طواف کرے تو اس کا طواف ناقص رہ جائے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے معلوم ہوا کہ حطیم کا نام حجر اور جدر بھی ہے۔
حجرِ اسود:
بیت اللہ کے جنوب مشرقی کونہ میں انسانی قد کے برابر بلندی پر ایک سیاہ پتھر کے چند ٹکڑے چاندی کے فریم میں نصب ہیں۔ اس پتھر کو حجرِ اسود کہا جاتا ہے۔
سنن نسائی میں ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "الحجرالاسودمن الجنة" کہ "حجرِاسود جنت میں سے آیا ہے۔"
اس کو چھونا اور چومنا اور ہاتھ لگانا گناہوں کا کفارہ اور مغفرت کا سبب ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ مَسْحَهُ كَفَّارَةٌ لِلْخَطَايَا»
جامع ترمذی میں ہے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَزَلَ الحَجَرُ الأَسْوَدُ مِنَ الجَنَّةِ، وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ»
کہ "حجرِ اسود جنت سے اُترا ہے۔ تب یہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا۔ اسے انسانوں کے گناہوں نے سیاہ کر دیا۔"
جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: "اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ قیامت کے روز حجرِ اسود کو دیکھنے اور بولنے کی قوت عطا فرمائیں گے۔ جس شخص نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ اسے ہاتھ لگایا ہو گا۔ اس کے حق میں یہ پتھر گواہی دے گا۔"
عَبْدَ الله بْنَ عَمْرو قَالَ: قَالَ رَسُولَ الله -صلى الله عليه وسلم"الرُّكْنُ وَالْمَقَامُ يَاقُوتَتَانِ مِنْ يَوَاقِيتِ الْجَنَّةِ، وَلَوْلاَ أنَّ اللهَ طَمَسَ نُورَهُمَا، لأضَاءَتَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ"(صحيح ابن حبان، جامع ترمذى)
"آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم علیہ السلام جنت کے یاقوتوں میں سے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کا نور بجھا نہ دیا ہوتا تو یہ مشرق سے مغرب تک کو منور کرتے۔" یہ ایک بڑا پتھر تھا جسے حوادثِ زمانہ نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔"
سئہ 363ھ میں ایک شخص نے دورانِ طواف اس پر ضرب لگائی۔
اسی طرح 990ھ میں ایک شخص نے خنجر مارا۔
سئہ 371ھ میں ابوطاہر قرامطی نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا اور خونریزی کے بعد بحرین لے گیا، اور بائیس سال تک اپنے قبضہ میں رکھا۔ سئہ 339ھ میں حملہ کر کے اس سے یہ متبرک پتھر واپس حاصل کیا گیا اور بیت اللہ میں نصب کیا گیا۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ حجرِ اسود کو بوسہ کے وقت آپ کے آنسو رواں تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "هٰهُنَا تَسْكُبُ الدُّمُوْعُ" یہاں آنسو نکل ہی آتے ہیں۔"
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں یہ سعادت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنے گھر کی زیارت کا موقعہ نصیب فرمائے آمین
عام طور پر لوگ حجرِ اسود تک پہنچنے کے لیے ازدحام کر دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں۔ یہ ناروا فعل ہے اس سے بچنا چاہیے۔
ملتزم:
ملتزم کا معنیٰ ہے وہ جگہ جہاں لپٹا جائے۔ حجرِ اسود اور بیت اللہ کے دروازہ کی درمیانی جگہ کو ملتزم کہا جاتا ہے۔ یہ دعا کی قبولیت کا مقام ہے۔
سنن ابوداؤد، اور سنن ابن ماجہ میں حضرت عبدالرحمن بن صفوان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے فتح مکہ کے روز آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو دیکھا کہ کعبہ کے دروازہ سے حطیم تک بیت اللہ کے ساتھ لپٹے ہوئے تھے اور اپنے رخسار بیت اللہ کی دیوار پر لگا رکھے تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنھم اجعمین کے وسط میں تھے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: مَا بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْبَابِ يُدْعَى الْمُلْتَزَمِ لَا يَلْزَمُ مَا بَيْنَهُمَا أَحَدٌ لِيَسْأَلُ اللَّهَ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ(بيهقى)
"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حجرِ اسود اور دروازہ کے درمیان ملتزم ہے۔ یہاں جو دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔"
چونکہ یہ جگہ دعا کرنے اور جہنم ست پناہ مانگنے کی جگہ ہے اس لیے اسے مدعیٰ اور متعوذ بھی کہا جاتا ہے۔
مقامِ ابراہیم:
یہ اس پتھر کا نام ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی تھی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر اور گارا وغیرہ لا کر دیتے تھے۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس مقام پر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے:
﴿وَاتَّخِذوا مِن مَقامِ إِبرٰهـۧمَ مُصَلًّى﴾
کہ "مقام ابراہیم (علیہ السلام) کو جائے نماز بنا لو۔"
طواف کے بعد کی دو رکعتیں یہیں ادا کی جاتی ہیں۔ اگر ازدحام ہو تو مسجدِ حرام میں جہاں جگہ ملے یہ نماز ادا کی جا سکتی ہے۔
یہ پتھر جنت سے آیا ہے جیسا کہ صحیح ابن حبان اور جامع ترمذی کی روایت پہلے گزری کہ "مقامِ ابراہیم علیہ السلام اور حجرِ اسود جنت کے یاقوت ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کا نور بجھا دیا ورنہ یہ مشرق سے مغرب تک کو منور کرتے۔"
یہ پتھر اب بیت اللہ کے بالکل قریب مشرق کی طرف شیشہ کے خول میں قبہ نما صورت میں محفوظ ہے۔
میزابِ رحمت:
بیت اللہ کے پرنالے کو میزابِ رحمت کہا جاتا ہے۔ اس کے نیچے بھی دعا کرنی چاہئے۔
حضرت عطاء کا قول ہے کہ میزابِ رحمت کے نیچے دعا سے گناہ یوں بخش دیے جاتے ہیں جیسے کہ اس کی ولادت آج ہی ہوئی ہو۔ (اخبارِ مکہ صفحہ 318) حضرت جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف کے دوران جب میزابِ رحمت کے مقابل آے تو یہ دعا فرماتے:
اللهم انى اسئلك الراحة عندالموت والعفو عند الحسابة
چاہِ زمزم: یہ وہ کنواں ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو کھودنے کا حکم دیا تھا۔ یہ بیت اللہ سے مشرق کی جانب قریب ہی واقع ہے۔ پہلے کھلا تھا۔ اب اس پر چھت ڈال دی گئی ہے اور پائپوں کے ذریعے پانی پہنچایا گیا ہے۔ جہاں سے لوگ یہ پانی پیتے ہیں۔
مسنون طریقہ یہ ہے کہ آبِ زمزم کھڑے ہو کر بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر پیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ "میں قیامت کے روز کی پیاس سے بچنے کے لیے زمزم پیتا ہون۔"
مطاف:
بیت اللہ کے ارد گرد چاروں طرف اطراف کرنے کی جگہ کو مطاف کہا جاتا ہے۔ یہ بہت کھلی جگہ ہے اور بیک وقت لاکھوں افراد اللہ کے گھر کا طواف کر سکتے ہیں۔
صفا ، مروہ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام امرِ خداوندی سے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور کم سن بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو یہاں بے آب و گیاہ وادی میں اللہ کے سپرد کر کے چکے گئے۔ تھوڑے دنوں بعد کھجوریں اور پانی ختم ہو گیا۔ عرب کی گرمی سب لوگ جانتے ہیں۔ کم سن اسماعیل علیہ السلام گرمی اور پیاس کی شدت سے بلبلانے لگے تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا پریشانی کے عالم میں بیٹے کو ایک پتھر کے سایہ میں لٹا کر پانی کی تلاش میں صفا پہاڑی پر آئیں، کہ شاید کہیں پانی کے آثار یا کوئی آبادی نظر آ جائے۔ ناکام نیچے اتریں۔ دوسری طرف مروہ پہاڑی تھی۔ دامن میں پہنچ کر ذرا تیز دوڑیں اور مروہ پر چڑھ کر ادھر ادھر نظر دوڑائی مگر کہیں پانی اور آبادی نظر نہ آئی۔ کبھی بچے کے پاس آتیں، اسے روتا دیکھ کر صبر نہ ہو سکتا اور مامتا کی ماری دوبارہ کبھی صفا پر اور کبھی مروہ پر چکر لگاتی رہیں۔ یوں ہی سات چکر لگائے۔ آخری دفعہ جب مروہ پر تھیں تو کوئی غیبی آواز سنائی دی۔ واپس بچے کے پاس آئیں تو دیکھا کہ وہاں اللہ کے حکم سے پانی کا چشمہ اُبل رہا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ بچے کو پانی پلایا اور خود بھی پیا۔ یہی چشمہ چاہِ زمزم کہلاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کا صفا اور مروہ پر چکر لگانا اور دامن میں ذرا تیز چلنا اس قدر پسند آیا کہ رہتی دنیا تک آنے والے مسلمانوں پر حج اور عمرہ کی ادائیگی کے دوران یہ عمل واجب کر دیا۔ اس عمل کو سعی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پہاڑوں کو اپنے دین کی علامات قرار دیا ہے۔فرمایا:
"ابدأ بما بدأالله به "جس سے اللہ تعالیٰ نے ابتداء کی میں بھی اسی سے ابتداء کرتا ہوں۔"
ایک دوسری روایت میں ہے: "ابدؤا بما بدأ الله به" جس سے اللہ تعالیٰ نے ابتداء کی تم بھی اسی سے ابتداء کرو۔"
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفا پر اس قدر چڑھتے کہ بیت اللہ نظر آنے لگتا، بیت اللہ پر نظر پڑتے ہی تین بار "اللہ اکبر" کہتے اور مندرجہ ذیل دعا تین بار پڑھتے:
لا إلهَ إلاَّ الله وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اس کے بعد کافی دیر تک تسبیح و تہلیل و استغفار میں مشغول رہتے۔ اسی طرح مروہ پر کرتے۔
میلین اخضرین:
دونوں پہاڑوں کے درمیان کی جگہ جہاں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا دوڑی تھیں، چونکہ اب پہاڑیوں کے نشانات ختم ہو شکے ہیں۔ اس وادی کی تحدید کے لیے دونوں کناروں پر سبز نشان لگا دیے گئے ہیں۔ سعی کے دوران جب حاجی اس جگہ پہنچے تو ایک نشان دے دوسرے نشان تک تیز چلے یا دوڑے۔ یہی سنت ہے۔
مسعیٰ:
صفا سے مروہ تک کی جگہ کو "مسعیٰ" یعنی "سعی کرنے کی جگہ" کہا جاتا ہے۔ حجاج کی سہولت کی خاطر آنے جانے کے لیے علیحدہ علیحدہ راستے بنائے گئے ہیں۔ حج کے دنوں میں رش ہو جاتا ہے اس لیے اوپر دوسری منزل بھی بنا دی گئی ہے۔
حرمِ مکی:
حرم (بفتح الحاء والراء المہملتین) جو چیز قابلِ تکریم و اکرام ہو، حرم کہلاتی ہے۔
اصطلاحا وہ مقررہ حدود جن کے اندر شکار کرنا، درخت اور گھاس وغیرہ کاٹنا اور لڑائی وغیرہ کرنا شرعی طور پر ناجائز ہے۔مسلمانوں کے نزدیک دو حرم ہیں۔ حرمِ مکہ اور حرمِ مدینہ۔
مکہ کی حرمت میں کسی کو اختلاف نہیں، صحیح بخاری اور حدیث کی دیگر کتب میں آیا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے جس روز زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اس سرزمین کو اسی دن سے حرم قرار دیا ہے۔یہ قیامت تک حرم ہے۔ یہاں لڑائی کرنا کسی کے لیے جائز نہیں۔ صرف مجھے تھوڑی دیر کے لیے لڑائی کی اجازت دی گئی تھی۔ اب دوبارہ اس کی حرمت عود کر آئی ہے اور یہ قیامت تک حرم ہے۔
حدودِ حرم
حرمِ مکی کی حد مدینہ کی جانب تین میل، یمن کی جانب سات میل، جدہ کی طرف دس میل، طائف کی طرف گیارہ میل، عراق کی جانب سات میل اور جعرانہ کی طرف نو میل ہے۔
مواقیت:
میقات کی جمع ہے۔ یعنی وہ مقامات جہاں سے حاجی اور معتمر کو بغیر احرام کے آگے جانا جائز نہیں۔ اہل مدینہ کے لیے میقات ذوالحلیفہ (جسے آج کل ابیارِ علی کہتے ہی) اہلِ نجد کی قرن المنازل، اہل یمن کی یلملم، اہلِ شام کی جحفہ اور اہل عراق کی میقات ذات العرق ہے۔
جحفہ:
احادیث میں اس مقام کا نام مہیعہ بھی آیا ہے۔ مکہ سے تقریبا ڈیڑھ سو میل کی مسافت پر مکہ مدینہ روڈ پر ایک مشہور مقام رابغ ہے۔ وہاں سے مشرق کی جانب تقریبا بیس میل کے فاصلہ پر یہ مقام واقع ہے، صحیح البخاری میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ مدینہ سے ایک بوڑھی، پراگندہ حال، سیاہ عورت نکل کر جحفہ چلی گئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس کی تعبیر یوں فرمائی کہ مدینہ کی وباء وہاں منتقل کر دی گئی۔ (کتاب الرؤیا)
الروحاء:
صحیح مسلم میں ہے کہ اذان کی آواز سن کر شیطان روحاء کی طرف بھاگ جاتا ہے (کتاب الاذان)یہ مقام مکہ مدینہ روڈ پر مدینہ سے 36 میل کی مسافت پر ہے۔
منیٰ:
مکہ مکرمہ سے سات کلومیٹر کے فاصلہ پر یہ وادی ہے۔ یہی وہ وادی ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے کے لیے لے گئے تھے۔
حجاج کرام ٹھ ذوالحجہ کو زوال سے قبل اس وادی میں پہنچ جاتے ہیں۔ رات یہاں بسر کر کے 09 ذوالحجہ کی صبح کو عرفات روانہ ہو جاتے ہیں۔ غروب، آفتاب کے بعد وہاں سے واپسی ہوتی ہے رات مزدلفہ میں بسر کی جاتی ہے اور 10 ذوالحجہ کی صبح کو واپس منیٰ پہنچ جاتے ہیں۔
اسی وادی میں قربانیاں کی جاتی ہیں۔ عید کے بعد 13 ذوالحجہ تک یہاں قیام رہتا ہے۔12 ذوالحجہ کو بھی واپسی کی اجازت ہے۔
حدودِ معنیٰ:
اخبارِ مکہ ج2 ص172 اور معجم البلدان ج5 میں ہے کہ ابن جریج نے حضرت عطاء سے سوال کیا کہ "منیٰ کی حد کیا ہے؟" فرمایا: "جمرہ عقبیٰ سے وادی محسر تک۔"
خصوصیت منٰی:
اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ حجاج کرام جس قدر کثیر تعداد میں بھی آ جائیں وہ سب کے سب اس وادی میں سما جاتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ان منى تتبع باهله كما يتسع الرخم للولد
"کہ منیٰ لوگوں کے لیے اس طرح فراخ ہو جاتا ہے جس طرح بچہ کے لیے رحم۔"
وجہ تسمیہ منیٰ:
اس بارہ میں مختلف اقوال ہیں:
1۔ منیٰ کا معنی ہے تمنا کرنے کی جگہ۔ جب حضرت جبریل علیہ السلام کے حضرت آدم علیہ السلام کو چھوڑنے کا وقت آیا تو کہا کیا تمنا کرتے ہو؟" انہوں نے جواب دیا "جنت کی"۔ اس وقت وہ اس وادی میں تھے۔ اسی وجہ سے اس کا نام منیٰ پڑ گیا۔ (اخبارِ مکہ)
2۔ منیٰ کا معنیٰ قربانیاں کرنے کی جگہ۔ چونکہ اس وادی میں قربانیاں کی جاتی ہیں، اس لیے معنیٰ کہلاتی ہے۔ (شرح مسلم للنووی، معجم البلدان، ج5)
3۔ منیٰ کا معنیٰ ہے ذبح کرنا۔ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے آنے والے مینڈھے کو اسی وادی میں ذبح کیا تھا، اس لیے اسے منیٰ کہا جاتا ہے۔ (معجم البلدان، ج5) واللہ اعلم۔
عرفات:
مکہ کے جنوب مشرق میں 25 کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک وادی ہے۔ 9 ذوالحجہ کو اس وادی میں حاضر ہونا ہر حاجی کے لیے ضروری ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"الحج عرفة" کہ "وقوفِ عرفہ اصل حج ہے۔" اگر کوئی شخص تمام ارکانِ حج ادا کرے اور عرفات میں نہ جائے تو اس کا حج ہی نہیں۔ اس میدان میں جہاں جگہ ملے وقوف کیا جا سکتا ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " "وقفتُ ها هنا بعرفَةَ، وعرفُة كُلُّها موْقِفٌ "(ابوداؤد، ترمذى، ابن ماجه)
چونکہ یہ میدان حدودِ حرم سے باہر ہے۔ اس لیے قریش وغیرہ عرب قبائل زمانہ جاہلیت میں مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران عرفات نہ جاتے، ان کا خیال تھا کہ ہم اہلِ حرم ہیں، اس لیے حرم سے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ثُمَّ أَفيضوا مِن حَيثُ أَفاضَ النّاسُ﴾
"کہ تم بھی وہاں ہو کر آؤ جہاں دوسرے حجاج ہو کر آتے ہیں۔"
یہ قبولیت دعا کا خاص مقام ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: " " خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ "(ترمذى)
جبلِ رحمت:
عرفات کی شمالی جانب ایک پہاڑ ہے، حجۃ الوداع کے موقعہ پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہاڑ پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ اسی موقعہ پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، "﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...﴿٣﴾... سورة المائدة "
مزدلفہ:
"بالضم فسكون ودال مفتوحه مهملة ولام مسكورة وفاء- معجم البلدان" غروب آفتاب کے بعد جب حاجی عرفات سے روانہ ہوں تو وہ رات انہیں اس میدان میں بسر کرنا ہوتی ہے۔
وجہ تسمیہ:
وجہ تسمیہ میں کئی قول بیان کیے گئے ہیں:
ایک یہ ہے کہ "ازدلاف" کا معنیٰ ہے "جمع ہونا۔" چونکہ لوگ اس وادی میں جمع ہوتے ہیں، اس لیے مزدلفہ کہا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ "ازدلاف" کا معنیٰ ہے "ملاقات" ۔۔۔ کہتے ہیں کہ ہبوطِ جنت کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اور حواء جدا جدا ہو گئے تھے اور بالآخر اسی وادی میں ان کی ملاقات ہوئی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "ازدلاف" کا معنیٰ ہے "قرب و نزدیکی۔" چونکہ حجاج کرام اس مقام پر آ کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں اس لیے مزدلفہ کہا جاتا ہے۔ واللہ اعلم (معجم البلدان)
یہاں ایک پہاڑ مشعرِ حرام کے نام سے تھا۔ اسی نسبت سے اس وادی کو "المشعر الحرام" بھی کہا جاتا ہے۔ احادیث میں "جمع" (بفتح الجیم و سکون المیم و بعد ہا عین) نام بھی آیا ہے۔
ثبیر:
مزدلفہ کے مشرق میں ایک پہاڑ ہے۔ مشرکینِ مکہ کی عادت تھی کہ وہ طلوعِ آفتاب کے بعد یہاں سے روانہ ہوتے تھے۔ وہ مشرق کی طرف منہ کر کے سورج کے طلوع کا انتظار کرتے رہتے اور کہتے "اشرق ثبير" ثبیر! جلدی سورج طلوع کر۔"
اسلام میں مشرکین کے اس طریقہ کی مخالفت کی گئی کہ سورج طلوع ہونے سے ذرا دیر پہلے یہاں سے روانہ ہو جائیں۔
وادی محسر:
مزدلفہ سے منیٰ کو جاتے ہوئے راستہ میں ایک وادی ہے۔ اسی وادی میں اصحابِ فیل پر عذابِ الہی نازل ہوا اور وہ لوگ تباہ کر دیے گئے تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس وادی میں سے جلدی اور تیزی سے گزر جایا کرو۔ اس وادی کو "وادی النار" بھی کہا جاتا ہے۔
مسجدِ خیف:
منیٰ کی بڑی مسجد کا نام ہے۔ اسے "مسجد العیثومہ" بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ "اگر میں مکہ میں رہائش پذیر ہوتا تو ہر ہفتہ کے روز منیٰ کی مسجد میں آیا کرتا۔" (اخبارِ مکہ ص173، ج2)
غارِ حرا:
مکہ کے شمال میں تقریبا پانچ کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک غار ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے قبل اپنے کھانے پینے کا سامان لے کر یہاں آ جاتے اور کئی کئی روز تک یہیں تشریف رکھتے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہتے۔ تا آنکہ چالیس برس کی عمر میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلعتِ نبوت سے نوازا گیا۔ تو سب سے پہلی وحی (سورۃ العلق کی ابتدائی آیات) اسی غار میں نازل ہوئیں۔
غارِ ثور:
یہ وہ غار ہے جس میں ہجرت کے موقعہ پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معیت میں تین روز تک رہے۔ بعض لوگ غارِ ثور اور حراء میں جانا ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے لیے بے شمار تکلیفیں اٹھاتے ہیں۔ وہاں جا کر نمازیں پڑھتے اور مٹی کھاتے ہیں۔ مٹی اور پتھر کو بطورِ تبرک ساتھ لاتے ہیں۔ یہ کام بدعات میں شامل ہیں۔ مٹی کھانا نہ صرف ناجائز ہے بلکہ بہت سے امراض کا سبب بھی ہے۔ اس لیے اس قسم کے فضول اور غیر ضروری کاموں سے اجتناب ضروری ہے۔
جنت المعلیٰ:
مکہ کے مشرق میں جبلِ حجون کے دامن میں ایک پرانا قبرستان ہے۔ اسے مقبرۃ المعلاۃ اور مقبرۃ الحجون بھی کہا جاتا ہے۔ اسی قبرستان میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد عبد مناف، عبدالمطلب وغیرہ، چچا ابوطالب، زوجہ مطہرہ خدیجہ رضی اللہ عنہا، صحابہ میں سے عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور دیگر بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، تابعین عظام رحمۃ اللہ علیھم اور ہزاروں کی تعداد میں کبار علماء، صلحاء اور اولیاء مدفون ہیں۔