عورت اپنا مقام پہچانے
مسند دارمی میں روایت ہے، ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا:
"اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم دورِ جاہلیت میں بتوں کو پوجتے اور اپنی اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے۔۔۔چنانچہ میری ایک پیاری سی بیٹی تھی، جب میں اسے پکارتا تو وہ بڑی خوشی محسوس کرتی، ایک دن میں نے اسے بلایا اور اپنے ساتھ لے کر باہر کی طرف چلا۔ یہاں تک کہ ہم ایک قریبی کنویں کے پاس پہنچے، پھر میں نے اپنی اس بچی کا ہاتھ پکڑا اور اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔۔۔میں نے اس کی چیخیں سنیں، وہ مجھے "ابا ابا" کہہ کر پکار رہی تھی ۔۔۔ ابھی اس شخص نے اپنی بات ختم نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔۔۔ مجلس میں سے ایک صاحبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے مخاطب ہو کر کہا، "تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ واقعہ بیان کر کے انہیں غمزدہ کر دیا ہے" تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا، "اپنا واقعہ پھر سے بیان کر" ۔۔۔ اس نے ایسا ہی کیا تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پھر رونے لگے، یہاں تک کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہارے جاہلیت کے تمام گناہ معاف فرما دئیے ہیں"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرزمین عرب سے بہت دُور سندھ کے ایک ساحلی مقام سے ایک مسلمان بیٹی کی لرزاں و ترسان چیخ سنائی دی۔۔۔ "فیا للحجاج" کی یہ صدا بصرہ کے ظالم حاکم بدنامِ زمانہ حجاج بن یوسف تک پہنچی، تڑپ کر اٹھا، اس کے ہاتھ میں خنجر تھا اور سامنے دیوار پر ہندوستان کا نقشہ آویزاں تھا، تھوڑی دیر تک وہ بے قراری سے کمرے میں ٹہلتا رہا اور پھر اس نے یہ خنجر، نقشہ میں اس مقام پر پیوست کر دیا جہاں بحری قزاقوں نے ایک مسلمان لڑکی پر ہاتھ ڈال کر اس کی قوم کی غیرت کو للکارا تھا۔۔۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس مسلمان لڑکی کی فریاد پر سترہ سالہ محمد بن قاسم گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر عرب سے یلغار کرتا ہوا سندھ پہنچا اور نہ صرف اس لڑکی کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوا بلکہ پوری دنیا کو یہ باور کرا گیا کہ صرف مسلمان بیٹی ہی نہیں، آئندہ اگر حوا کی کسی بھی بیٹی پر دستِ دراز ہوا تو اس ہاتھ کو کاٹ دینے کے لیے مسلمان قوم کی تلوار بے نیام ہونے میں کبھی دیر نہیں لگائے گی۔
تاریخ کے اوراق کھنگالئے، آپ کو ایسے بے شمار واقعات تلاش کرنے میں دقت پیش نہیں آئے گی۔ جن سے یہ معلوم ہو گا کہ اہلِ اسلام نے عورت کی نسوانیت کی حفاظت کو ایک انتہائی اہم فریضہ خیال کیا ہے، بلکہ بسا اوقات یوں بھی ہوا کہ عورت اپنی ہی قوم کے ہاتھوں پریشان رہی لیکن اغیار (مسلمان) ان کے لیے فرشتہ رحمت بن کر نمودار ہوئے۔۔۔ یہ وہی لگ تو تھے جو اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیا کرتےتھے، لیکن اسلام نے جہاں ان کی زندگی کے ہرپہلو میں ایک انقلاب بپا کر دیا، وہاں ان کے لیے عورت کی عفت و عصمت کا پہلو بھی اس سے مخفی نہ رہا۔۔۔ چنانچہ عروجِ اسلام کے دور میں ہمیں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ غیر مسلم عورتیں، جب یہ دیکھتی تھیں کہ ان کے اپنے ہی ہم وطن و ہم قوم ان کی عفت و عصمت کے ڈاکو ثابت ہو رہے اور ان کے لیے انسان نما بھیڑیوں کا روپ دھار چکے ہیں تو وہ نہایت حسرت سے یہ دعا کیا کرتی تھیں، کہ "الہی، مسلمان کب اس بستی پر حملہ آور ہو کر ہمیں ان ظالموں کے چنگل سے رہائی دلائیں گے" ۔۔۔ کیوں نہ ہو، انہوں نے چند سال اس نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں گزارے تھے جس کی آنکھیں ایک معصوم بچی پر ظلم و ستم کی داستان سن کر ڈبڈبا آئی تھیں۔۔۔ اور جس نے اپنے دشمن قبیلہ کے سردار حاتم طائی کی بیٹی کو بے پردہ دیکھ کر، پردہ کے لیے خود اپنی روائے مبارک عطا فرمادی تھی۔
اسلام ہر فرد بشر کے لیے ہی سلامتی کا ضامن نہیں، جانور تک اس کی عنایات و شفقت سے محروم نہیں رہے۔۔۔ تو پھر کیا اسلام، عورت پر ایسے ظلمِ صریح کا مرتکب ہو سکتا ہے جس پر احتجاج و واویلا کرنے کے لیے چند مغرب زدہ خواتین کو کراچی ٹیلیویژن سٹیشن پر پہنچ کر مظاہرہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔۔۔ اور پھر جس کے نتیجے میں ملک کے گوشے گوشے سے بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دینے لگیں (اور اب تک سنائی دے رہی ہیں) ۔۔۔ کیوں نہ اس قضیے کا فیصلہ کرنے کے لیے کتاب و سنت کی طرف رجوع کیا گیا، اور اس مسئلہ کو اس نقطہ نظر کی روشنی میں دیکھنے کی ضرروت کیوں گوارا نہ کی گئی کہ اسلام، جس سے بڑھ کر عورت کے حقوق کے تحفظ کا کوئی بھی دوسرا مذہب اور معاشرہ دعویٰ نہیں کر سکتا، اس نے مرد و عورت کا دائرہ کار کیا متعین کیا ہے اور اس کی نظر میں ان کے فرائضِ منصبی کیا ہیں؟
اس وقت اس سلسلہ میں ہمارے سامنے تین ہی راستے ہیں:
1۔ یا تو ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے اور مردوں کو ان پر قوام بنا کر ان پر صریحا ظلم کیا ہے۔۔۔ نیز یہ کہ روئے زمین پر کوئی مذہب یا کوئی ازم ایسا بھی موجود ہے جو اسلام سے بڑھ کر حقوقِ نسواں کا دعویدار اور علمبردار ہی نہیں، بلکہ واقعتا بھی وہ ایسا ہی ہے۔۔۔ لیکن ہم ببانگِ دہل کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں اگر ہم "﴿ قُل هاتوا بُرهـٰنَكُم إِن كُنتُم صـٰدِقينَ﴾" کا نعرہ بلند کریں تو اس کے جواب میں کہیں سے بھی، کوئی آواز تک نہیں ابھر سکے گی۔
2۔ اور یا ہمیں معاذاللہ اسلام سے بغوت، اور کلمے کا انکار کر کے اس کے دستورِ حیات سے منحرف ہو جانا چاہئے۔۔۔کہ جب عملی زندگی میں س کی ہدایات ہمارے لیے غیرپسندیدہ ہیں تو زبانی طور پر مسلمانی کو قابلِ فخر سمجھ لینا بھی کہاں کی دانشمندی اور کہاں کا انصاف ہے؟۔۔۔آخر اس احساسِ کمتری کی ضرورت بھی کیا ہے؟ جراءت کا مظاہرہ کر کے "﴿ فَأذَنوا بِحَربٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ ﴾" کے ؐصداق علی الاعلان خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کا اعلان کر دینا چاہئے۔۔۔ العیاذباللہ
2۔ اور اگر اس صورت میں "خسر الدنيا والاخرة" کی رسوائیوں اور ابدی نامرادیوں کا خطرہ ہے تو تیسری صورت صرف اور صرف یہ ہے کہ "رضينا قسمة الجبار فينا" کا نعرہ لگائیے۔۔۔ اور "سرِ تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے" کا سماں باندھ دیجئے۔۔۔ پھر یقینا آپ کی نظر حقوق سے زیادہ فرائض اور ذمہ داریوں پر اٹھے گی، آزادیوں سے زیادہ پابندیوں کا احساس دل میں جاگزیں ہو گا۔۔۔ اور دنیا کی عیش پرستیوں سے زیادہ محشر کی جان لیوا گھڑیوں کا تصور ذہن میں اٹھے گا۔۔۔ اس وقت قرآن حکیم کی یہ ایک ہی آیت مرد و زن کی رہنمائی کے لیے کافی و وافی ہو گی:
﴿ لا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا لِبُعولَتِهِنَّ أَو ءابائِهِنَّ أَو ءاباءِ بُعولَتِهِنَّ أَو أَبنائِهِنَّ أَو أَبناءِ بُعولَتِهِنَّ أَو إِخوٰنِهِنَّ أَو بَنى إِخوٰنِهِنَّ أَو بَنى أَخَوٰتِهِنَّ أَو نِسائِهِنَّ أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُنَّ... ٣١﴾... سورةالنور
کہ "عورتیں اپنی زینت کو اپنے خاوندوں ، اپنے باپوں، کاوندوں کے باپوں،اپنے بیٹوں، خاوند کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں، عورتوں اور لونڈی غلاموں کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں"
۔۔۔ بتائیے کہ اس آیت کی روشنی میں عریاں لباس پہننے، بناؤ سنگھار کرنے، بن ٹھن کر گلیوں اور بازاروں میں ننگے سر گھومنے اور راہ چلتے لوگوں کو دعوتِ نظارہ دے کر انہیں براہِ راست نظر بازی کی تربیت دینے کی ادنیٰ سی گنجائش بھی نکلتی ہے؟ کیا ان جلوس نکالنے والیوں نے کبھی اس نقطہ نظر سے بھی سوچا ہے؟
جہاں تک حقوق کا تعلق ہے، تو نہ تو خدا تعالیٰ نے ان کو فراموش کیا ہے کہ "﴿لَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعروفِ﴾" فرما کر ان کے حقوق کو تحفظ فراہم کر دیا ہے اور نہ ہی خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سےکوئی ناانصافی فرمائی ہے۔نبی رحمت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں نہایت وضاحت کے ساتھ فرمایا:
« فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٍ لايملكن لأنفسهن شيئا وإن لهن عليكم حقا أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا ولا يأذن فى بيوتكم لاحد تكرهونه- «فَإِنْ خِفْتُمْ نُشُوزَهُنَّ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ إِنَّمَا أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللهِ»
کہ "لوگو! اپنی عورتوں کے بارے میں خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یہ تمہاری زیر دست ہیں کہ اپنے لیے (آزادانہ) اختیارات کی مالک نہیں ہیں، ان کے تم پر حقوق ہیں اور تمہارے لیے ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی کو بیٹھنے نہ دیں اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں میں آنے کی اجازت دیں جن کا اپنے گھروں میں داخلہ تم ناپسند کرتے ہو۔۔ اور اگر تمہیں ان کی طرف سے نافرمانی کا خطرہ ہو تو ان کو نصیحت کرو، (اگر باز نہ آئیں) تو ان کو خواب گاہوں میں اکیلا چھوڑ دو (اس پر بھی باز نہ آئیں) تو اُن کو معمولی مار مارو۔۔۔ جبکہ (عورتوں کا تم پر حق یہ ہے کہ) ان کا کھانا اور لباس معروف طریقہ سے تمہارے ذمہ ہے، کہ وہ تمہارے پاس اللہ کی امانت ہیں۔"
اس ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔۔۔ لیکن مختصرا، ہم پوچھنا چاہتے ہیں ان "مفتیان" شرعِ متین سے، جو دفتروں میں مردوں کے دوش بدوش عورتوں کی ملازمت کے جواز کا فتویٰ دے رہے ہیں، کہ ان اداروں میں اوقاتِ کار کے دوران جتنے اجنبی مرد آتے ہیں، جن کو یہ ڈیل کرتی ہیں، وہ کیا سب ان کے خاوندوں سے اجازت لے کر وہاں پہنچتے ہیں؟۔۔۔ مرد کے حقوق کے ضمن میں عورت کی یہ ذمہ داری، کہ وہ اس کے گھر میں کسی دوسرے کو، جس کا داخلہ اسے ناگوار گزرتا ہے، داخل ہونے کی اجازت نہ دے، اس سے مقصود صرف گھریلو سامان کی حفاظت تو نہیں ہو سکتی۔ خصوصا جبکہ اس سے قبل "لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا" (کہ وہ تمہارے علاوہ کسی کو اپنے بستر پر بیٹھنے کی اجازت نہ دیں) کا قرینہ بھی موجود ہے۔۔۔بلکہ یہ تو بدرجہ اولیٰ عفت و عصمت کا سوال ہے، پھر دفاتر میں اجنبی مردوں کا دندناتے ہوئے داخلہ، اور ان کاؤنٹروں پر مردوں کے غیر معمولی ہجوم کے کیا معنی ہیں جہاں مردوں کی بجائے نوجوان لڑکیاں کام کرتی ہیں اور وہ حیلوں بہانوں سے وہاں زیادہ سے زیادہ دیر تک رُکے رہنا پسند کرتے ہیں؟ ۔۔۔ ہاں اگر آپ یہ کہیں کہ عورت کا دفتر کی ملازمت اختیار کرنا ہی مرد کی اجازت متصور ہو گا، تو کیا ایسے مرد کو بے غیرت اور دیوث، کہا جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ فرمائیں کہ (ان حقوق کے سلسلہ میں) اگر تم (مردوں) کو ان (عورتوں) سے نافرمانی کا خدمہ ہو تو تم انہیں نصیحت کرنے اور ان سے اظہارِ ناراضگی کے علاوہ انہیں معمولی مار تک مار سکتے ہو، جبکہ یہاں ان حقوق کو سرے سے گول ہی کر دیا گیا ہے؟۔۔۔ پھر بتائیے کہ دفتر کی ملازمت کے چکر میں عورت نے مرد کے حقوق پورے کر دیے؟۔۔۔ اور اگر عورت نے ملازمت رکے اپنے نان و نفقہ اور لباس کے اخراجات خود ہی پورے کر لیے تو کیا مرد نے عورت کے حقوق پورے کر دیے؟۔۔۔ گویا اس چکر نے دونوں ہی کو اپنے اپنے فرائض سے گریز کی راہ سمجھا دی۔۔۔لیکن کیا یہ کسی ارسطو یا افلاطوں کا قول ہے پسند آیا تو سبحان اللہ، نہ پسند آیا تو نہ سہی۔۔۔ سنو! یہ اس ہستی کا ارشاد ہے جس کو دنیا "محمد رسول اللہ" کی حیثیت سے جانتی ہے، جو صاحبِ وحی ہے اور جس کی نافرمانی جہنم کے ذلیل و عمیق گڑھوں میں گرا دینے کے لیے کافی ہے:
﴿وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدودَهُ يُدخِلهُ نارًا خـٰلِدًا فيها وَلَهُ عَذابٌ مُهينٌ ﴿١٤﴾... سورةالنساء
کہ "جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی، اور اس کی متعینہ حدود سے تجاوز کیا تو اللہ تعالیٰ اسے آگ میں داخل کرے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلوس تو خیر نکلا اور مظاہرہ بھی ہوا۔۔۔ لیکن آزادی و حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والو، تم نے آسمان سر پر کیوں اٹھا لیا ہے؟ ۔۔۔ سنو! اسے نفس کے بندو، ہوس کے غلامو! ﴿ وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ﴾ کا قرآنی حکم تمہیں اس لیے شاق گزرتا ہے کہ اس سے تمہیں تمہاری عیاشیوں کے راستے مسدود ہوتے نظر آتے ہیں۔۔۔ تمہیں یہ اضطراب اس لیے ہے کہ عورت، جسے تم کھلونا سمجھے بیٹھے ہو۔۔۔ ایک ایسا کھلوناسمجھے بیٹھے ہو۔۔۔ ایک ایسا کھلونا کہ جس سے مرد جی بھر کے کھیلے اور پھر توڑ پھوڑ دے۔۔۔ اسلامی تحفظات سے یہ کھلونا کہیں تمہارے ہاتھوں چھن نہ جائے، اور جو باپردہ خواتین تمہاری پُرہوس نگاہوں سے دور ہیں ان کو سرِ بازار رسوا کر کے تم ان سے انتقام لے سکو۔۔۔ تم عورت کو گھروں میں مقید کرنے کا پروپیگنڈا صرف اس لیے کرتے ہو کہ وہ تمہاری دسترس سے دور کیوں ہیں؟ ۔۔۔ کاش آج کوئی محمد بن قاسم ہوتا تو وہ تمہیں بتاتا کہ عورت کی عفت و عصمت کے معنی کیا ہیں۔۔۔ تم نے کبھی یہ سوچا کہ عورت بیوی کے علاوہ بہن، بیٹی اور ماں بھی ہے، لیکن تمہارا یہ "عورتوں کو گھروں میں مقید کر دینے" کا تصور صرف بیوی تک محدود ہے، ماں، بہن اور بیٹی کے لیے نہیں۔۔۔ اس لیے کہ ماں بیٹے کو، بہن بھائی کو اور بیٹی باپ کو اس بناء پر کبھی ظالم نہ کہے گی کہ وہ اسے بے پردہ باہر گھومنے کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ وہ خود اس بہن، اس بیٹی اور اس ماں کی نظر میں بھی غیرت مند بھائی، غیرت مند باپ اور غیرت مند بیٹا کہلائے گا۔۔۔ ہاں صرف بیوی (بلکہ بیگمات) تمہارے اس گمراہ کن پروپیگنڈہ کا شکار ہو سکتی ہیں، لیکن تم نے یہ نہ سوچا کہ یہ بیوی تو صرف اس کی ہے جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، تمہارے لیے تو یہ بھی یا بیٹی ہے یا بہن اور یا ماں۔۔۔ اور کیا تم اپنی ماں، بہن اور بیٹی کو صرف اس بناء پر مظلوم کہہ سکو گے کہ وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں عزت و وقار کی زندگی بسر کر رہی ہے؟ ۔۔۔ تمہیں الفاظ کی تلخی کا شکوہ تو ضرور ہو گا، لیکن تم نے یہ کیا کہہ دیا کہ مرد و زن کے آزادانہ میل جول سے جنسی تشنگی بجھ جائے گی اور اس طرح اغوا اور آبرو ریزی کے جرائم کم ہو جائیں گے۔۔۔ کیا تم مسلمان ہو؟ ۔۔۔ خلاقِ فطرت کو تم یہ راہیں سمجھانے کے لیے نکلے ہو؟ یا تم یہ باور کرانا چاہتے ہو کہ جرائم کی بیخ کنی کا یہ نسخہ کیمیا" اس مصلح اعظم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بھی معلوم نہ ہو سکا، جس نے اپنی زوجہ محترمہ سے رات کے اندھیرے میں باتیں کرتے ہوئے یہ محسوس کر کے کہ کوئی اور بھی ان کے قریب موجود ہے، یہ وضاحت ضروری سمجھی کہ "کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جانا یہ میری اپنی بیوی ہے" ۔۔۔ تم کہتے ہو کہ عورت کا چہرہ پردے میں داخل نہیں، تو تمہاری اس فطرت شناسی کا بھانڈا تو عین چوراہے میں پھوٹ جاتا ہے، جب تم کسی شریف عورت کے سامنے اچانک آ جاتے ہو تو وہ فورا اپنے چہرے کو ڈھانپ لینا ضروری خیال کرتی ہے۔۔۔ اس قدر بھولپن سے کام نہ لو کہ دنیا تمہیں مخبوط الحواس سمجھنے لگے، اس قدر منطق و فلسفہ نہ بھگارو کہ دماغی خلل کا شبہ ہونے لگے۔۔۔ اور اس قدر ایڈوانس نہ کہلاؤ کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی قرار دے دیے جاؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔اور اے بہن، اے بیٹی، اے ماں! تو بھی فریب کا شکار ہو رہی ہے۔۔۔ تو بھی اپنا مقام بھول گئی۔۔۔ عورت ہونے کے ناتے تیرا مقام بہت بلند ہے۔ سن کہ تیری کوکھ سے پیغمبروں نے جنم لیا، صدیقین و شہداء اور ائمہ و صلحاء، تیری گودوں میں کھیلے، اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رسول اللہ کی زبان سے "الجنة تحت اقدام الامهات" کے الفاظ سن کر جنت کو تیرے قدموں میں تلاش کیا۔۔۔ تو نے صدیق رضی اللہ عنہ، و عمر فاروق رضی اللہ عنہ وعلی رضی اللہ عنہ، طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ، حمزہ رضی اللہ عنہ و بلال رضی اللہ عنہ، حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کو دودھ پلایا۔۔۔ تیرے مکتب میں تربیت حاصل کرنے والے خالد رضی اللہ عنہ و مثنیٰ رضی اللہ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ، قعقاع بن عمر، قتیبہ بن مسلم، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، صلاح الدین ایوبی، آسمانِ شہرت کے وہ رخشندہ ستارے ہیں کہ جن کی عظمتوں کے تصور ہی سے قلم لڑکھڑانے لگتا ہے۔۔۔ لیکن جب تو اپنا مقام بھول گئی تو تو نے ان دلیپ کماروں اور سنتوشوں کو جنم دیا جو تیری بیٹیوں کے بازوؤں میں بازو حمائل کر کے سٹیجوں پر تھرتھرانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔۔۔ محمد بن قاسم بھی تیرا ہی بیٹا تھا جو غیرت کی تلوار لہراتا ہوا سرزمین عرب سے نکل کر سندھ تک پہنچا تھا، اور اب وہ بھی تیرے ہی بیٹے ہیں جو تاریک گلیوں میں تیرا پیچھا کرتے ہیں۔۔۔ یہ مصور بھی تیری ہی اولاد ہیں جو ہر چوراہے میں، ہر بورڈ پر، ہر ٹریڈ مارک کے لیے تیری برہنہ تصویریں کھینچنا ضروری خیال کرتے ہیں۔۔۔ اور ان تاجروں کو بھی تیرا ہی بیٹا ہونے کا فخر حاصل ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود اب اخبارات میں "ماڈل گرلز" کی ضرورت کے اشتہارات دینے لگے ہیں۔۔۔ وہ بھی تیرے ہی بیٹے ہیں جو تیری تضحیک، تیری تذلیل اور تیری بے حرمتی دیکھنے کے باوجود اپنے سینوں میں ذرا سا بوجھ بھی محسوس نہیں کرتے، ان کی جبینوں پر شکن تک نہیں آتی۔۔۔ اور وہ بھی تیرے ہی بیٹے ہیں جو تمہیں دھوکے میں مبتلا کر کے، غلط پروپیگنڈے کر کے، تم پر ظلم کی فرضی داستانیں گھڑ گھڑ کر تیرا ہی استحصال کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ ۔۔۔ صرف اس لیے کہ تو اپنے مقام سے خود گر گئی۔۔۔ تیری گود میں بیٹھ کر توحید کے نغمے سننے والے اب فلمی نغمے سنتے ہیں۔۔۔ انہیں اب قرآن سننے کو نہیں ملتا۔۔۔ "الله ربى لا اشرك به شيئا" کی میٹھی لوریاں اب ان کا دل نہیں بہلاتیں۔۔۔ اور جب تک تو اپنے گھر میں بیٹھ کر ان کی تربیت کا اصل فریضہ، جو صرف تیرے ذمہ ہے، انجام نہیں دیتی، تو نت نئے حقوق کا نعرہ لگاتی رہے گی لیکن اسی قدر تیرے استحصال کے نت نئے حربے بھی ایجاد ہوتے رہیں گے۔۔۔ اور اگر یہی حالت رہی تو پھر کون کہہ سکتا ہے، وہ وقت نہیں آئے گا کہ جس گھر میں تو جنم لے گی اس کو منحوس خیال کیا جائے گا۔۔۔ کہیں تیرا اپنا ہی باپ رسوائیوں کے خوف سے تمہیں زندہ زمین میں گاڑ دینے یا اندھے کنوؤں میں دھکیلنے پر مجبور نہ ہو جائے۔۔۔ اس وقت تمہیں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مقدس آنسوؤں کی قیمت کا احساس ہو گا، جو تیری داستان، ستم سن کر، تیری ہمدردی کے لیے بہہ نکلے تھے۔۔۔ اس وقت تیرے کانوں میں وحی الہی اور زبانِ نبوت کے وہ الفاظ گونجنے لگیں گے جو وادی نمرہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر کم و بیش ڈیڑھ لاکھ صحابہ رضی اللہ عنھم کو مخاطب کر کے کہے گئے تھے۔۔۔ لیکن شاید۔۔۔ شاید اس وقت پانی سر سے گزر چکا ہو گا۔