جنوری 1971ء

مولانا محی الدین احمد قصوریؒ

قصوری خاندان کے چشم و چراغ۔ تحریکِ آزادی کے مجاہد


جنوری ۱۹۷۱؁ کا یہ بہت بڑا سانہ ہے کہ اس میں جماعت اہلِ حدیث کی تین اہم شخصیتیں ہمیں داغ مفارقت دے گئی۔ علمائ اور خادمانِ دین کا موجودہ دورِ پرفتن میں اس طرح اُٹھ جانا جماعت اہل حدیث اور ملتِ اسلامیہ کے لئے بہت بڑا خلا ہے۔ فتنے دن بدن پھیل رہے ہیں اور ان کے سامنے بند باندھنے والے اُٹھتے جا رہے ہیں۔

انہی شخصیتوں میں جماعت اہل حدیث کی مایہ ناز ہستی مولانا عبد القادر قصوریؒ کے جانشین اور ملتِ اسلامیہ کے مخلص خادم مولانا محی الدین احمد قصوری رحمۃ اللہ علیہ تھے جو ۲۶ ذی القعدہ ۱۳۹۰؁ مطابق ۲۴ جنوری ۱۹۷۱؁ بروز اتوار ۴ بجے صبح انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مرحوم نے اپنی زندگی میں بیش بہا خدمات سر انجام دیں، تعلیم و تربیت، دعوت و ارشاد اور صحافت و سیاست میں مولانا کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ ایک خبر کے مطابق مولانا مرحوم کی قائم کردہ جمعیت دعوت و تبلیغ نے دس سال کے عرصہ میں ایک لاکھ سے زائدہ غیر مسلموں کو اسلام سے ہمکنار کیا اور صرف مدارس میں تیس ہزار ہندو مسلمان ہوئے۔

تصنیفی کاموں میں مولانا نے سورہ یوسف کی تفسیر اور شیخ السلام ابن تیمیہؒ کی کتاب سورہ نور کا اردو میں ترجمہ کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبۂ انسائیکلوپیڈیا کے سات عرصہ تک منسلک رہے۔ مرحوم نے کلکتہ سے ایک ہفت روز جریدہ ''اقدام'' بھی نکالا جو کچھ عرصہ چلتا رہا پھر ان کی نظر بندی کی وجہ سے بن ہو گیا۔

مولانا ایک اچھے ماہر تعلیم تھے۔ تعلیم اور سماجی ہمدردی کے نام پر عیسائی مشنریز کی سرگرمیوں کو مسلمانوں کے لئے بہت نقصان دہ سمجھتے تھے اور موجودہ نسل کی بے راہ روی اور الحاد کے رجحانات کا ذمہ دار مغربی طرزِ تعلیم کو قرار دیت تھے اور اسلامی طرز کے سکول اور کالج قائم کرنے کے خواہاں تھے جن میں دنیاوی اور دینی تعلیم کا امتزاج ہو۔ اپنی تحریروں اور مقالات میں اس پروگرام کو پیش کیا ہے۔

مولانا جمعیت اہل حدیث کے مرکزی ناظمِ تعلیمات بھی رہے۔ مولانا نے تحریکِ خلافت اور تحریکِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا اور اس سلسلہ میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ریشمی رومال کی مشہور سازش میں شریک ہونے کے الزام میں نظر بند ہوئے۔

مرحوم اپنے دل میں غریب اور مفلوک الحال طبقے کا بہت درد رکھتے تھے۔ انہی کے مساعی سے مالا بار (ہند) میں، کالی کٹ کے مقام پر اور صوبہ مدارس میں یتیم خانے قائم ہوئے۔ آخر الذکر آج بھی موجود ہے۔

مولانا زندگی کے آخری دور میں جناح باغ کی مسجد دار السلام میں درس دیتے رہے ہیں۔ دل کے عارضہ کے مریض تھے جو ان کی وفات کا سب ہوا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کو ان کے آبائی گاؤں قصور میں دفن کیا گیا۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام دے اور ان کے پس ماندگان کو ان کی روایات زندہ رکھنے کی توفیق دے۔ آمین۔

وضاحت


بہت سے احباب رسالہ ''محدث'' منگوانے کے سلسلہ میں خط و کتابت کرتے ہیں۔ لیکن اس کی فوری تعمیل نہیں ہو سکتی جس کا وہ شکوہ کرتے ہیں۔ اس کے متعلق گزارش ہے کہ رسالہ ہر مہینہ ایک ہی بار حوالہ ڈاک کیا جاتا ہے۔ جس کے لئے پوسٹ ماسٹر جنرل کی طرف سے باقاعدہ تاریخ مقرر ہوتی ہے۔ اس لئے مقررہ تاریخ کے علاوہ رسالہ نہیں بھیجا جا سکتا۔ قارئین نوٹ فرما لیں۔

(ادارہ)