فکر و نظر
نیا عیسوی سال اپنے جلو میں کئی مسائل لیے ہوئے آیا ہے، جنہیں گذشتہ سال کی سہ ماہی نے بہت اہم بنا کر ملک و ملت کے کندھوں پر عظیم بوجھ رکھ دیا ہے۔ خصوصاً مشرقی پاکستان میں ہولناک سمندری طوفان کی ناقابلِ تلافی تباہ کاریاں، انتخاب میں لادین اور سوشلسٹ عناصر کی غیر متوقع کامیابی اور مشرقی وسطی میں شاہ حسین اور حریت پسندوں کی خانہ جنگی پاکستان اور عالم اسلام کے لئے ایسے مسائل ہیں جن سے کوئی انسان دوست، محب وطن مسلمان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں لیکن یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ یہ سب کچھ قوم کے طویل اخلاقی انحطاط، عملی بے راہ روی، خدا سے دوری اور ہوس اقتدار کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ جب کسی قسم میں یہ چیزیں عام ہو جاتی ہیں تو اس کے لئے ابتلاء اور مصائب کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
﴿ظَهَرَ الفَسادُ فِى البَرِّ وَالبَحرِ بِما كَسَبَت أَيدِى النّاسِ لِيُذيقَهُم بَعضَ الَّذى عَمِلوا لَعَلَّهُم يَرجِعونَ ﴿٤١﴾... سورة الروم
لوگوں کے اعمال کے سبب سے خشکی اور تری میں بلائیں و ابتلائیں پھیلتی ہیں۔ یہ ان کے بعض اعمال کا مزہ اللہ تعالیٰ اس لئے چکھاتے ہیں کہ وہ باز آجائیں۔
--------------------
مشرقی پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جہاں مشرقی پاکستان والوں کے لئے قیامت بن کر نازل ہوئیں اور رستے بستے گھرانوں کو حسرت و یاس کی تصویر، لہلہات کھیتوں کو ویرانے اور آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر گئیں وہاں دوسرں کے لئے سامان عبرت اور انسانی ہمدردی کا امتحان ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مشکلات کو اپنی مصیبت سمجھتے ہوئے، دِل کھول کر ان کی ہر قسم کی اخلاقی اور مالی امداد کریں اور مالی تعاون کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھیں جب تک مصیبت زدگان مکمل طور پر آباد نہیں ہو جاتے۔
--------------------
مشرقی پاکستان میں ہلاکت اور قیامت خیزی کے چند دن بعد ہی عام انتخابات نے قوم کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی جن کا انعقاد حسبِ اعلان ۷ اور ۱۷ دسمبر ۱۹۷۰ء کو ہوا اور پاکستانی عوام نے پہلی بار ''بالغ رائے دہی'' اور ''ایک آدمی ایک ووٹ'' کی بنیاد پر اس انتخاب میں حصہ لیا اور اس طرح صدر یحییٰ خاں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے آزادانہ انتخابات کرا کر قوم سے اپنا پہلا وعدہ پورا کیا۔ اس سے قبل پاکستان میں جو انتخاب ہوتے رہے وہ نہ تو اس طرح آزادانہ تھے اور نہ ہی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتے تھے۔ ان انتخابات کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ قوم کے افراد نے بہت حد تک اپنی مرضی کے مطابق ووٹ کا استعمال کیا ہے اور انتظامیہ نے سیاسی پارٹیوں اور ہر طبقۂ خیال کے اشخاص کو اپنے اپنے منشور اور نظریات کی تبلیغ و اشاعت کی مکمل آزادی دے رکھی تھی لیکن دوسری جانب اس آزادی کے پردہ میں بعض جماعتوں اور اشخاص نے ایک دوسرے پر جس ذلت آمیز پیرائے میں کیچڑ اچھالا اور بے بنیاد الزام تراشیاں کیں وہ اس آزادی کا بہت غلط استعمال ہے۔
نتیجتاً مغربی جمہوریت کے اصولوں کے مطابق دو پارٹیاں عظیم اکثریت سے کامیاب ہوئی ہیں اور شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو لیڈروں میں نمایاں حیثیت سے اُبھرے ہیں۔ انتخابات پر مختلف تبصرے ہوئے ہیں اور شکست خوردہ جماعتوں کی غلطیوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے ان کوتاہیوں سے قطع نظر ہار ہی ایک ایسی بڑی غلطی ہے جس کے ساتھ سبھی کچھ لازم آجاتا ہے اور جیت کمزوریوں پر بھی پردہ ڈال دیتی ہے۔
لیکن انسان کے لئے کامیابی کی صورت میں جس طرح شکر لازم ہے اسی طرح ناکامی کی صورت میں اپنا محاسبہ اور اصلاح فکر و نظر ضروری ہے۔ ہم انتخابات کے بعض پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے قارئین کی توجہ اسی طرح مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ ہماری رائے میں یہ مقابلہ ایک نفسیاتی معرکہ تھا جو جماعتیں اور شخصیتیں عوام کے جذبات سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھا گئیں وہ کامیاب ہوئیں اور جو جذبات کا دھارا اپنی طرف نہ موڑ سکیں وہ ناکام رہیں۔ مروجہ جمہوری نظام کے تحت انتخابات میں کامیابی اور ناکامی کے اسباب عوامی جذبات ہی ہوا کرتے ہیں۔ اس میں عموماً کامیابی کا دارومدار نظریات کی صحت پر نہیں ہوتا۔ کیونکہ اکثریت کی نظر مادیت پر زیادہ ہوتی ہے اور بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نظریاتی جنگ لڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کو فرماتے ہیں وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللّٰہ یعنی اگر تو اکثریت کے پیچھے لگے گا وہ تجھے اللہ کے رستہ سے بھٹکا دیں گے۔ علامہ اقبال نے اسی جمہوریت کے متعلق کیا خوب کہا ہے ؎
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ایسی جمہوریت کا مقصد صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اقلیت کو اکثریت کے تابع بنا کر بے بس کرنا ہوتا ہے خواہ نظریاتی طور پر وہ اقلیت کتنی ہی صحیح ہو بلکہ بسا اوقات اقلیت ہی جذباتی جنگ میں کامیاب ہو کر اکثریت کو اقلیت کے رنگ میں اپنا محکوم بنا لیا کرتی ہے جیسا کہ حالیہ انتخابات میں ہوا ہے۔ مغربی پاکستان میں سوشلسٹ نظام کے حامی مجموعی ڈالے گئے ووٹوں سے تقریباً ۴۰ فی صد ووٹ لے کر عوامی نمائندے منتخب ہوئے حالانکہ ۶۰ فی صد ووٹ ان کے خلاف ڈالے گئے اور ووٹ نہ ڈالنے والے تقریباً ۴۰ فی صد عوام نے بھی انہیں اپنا نمائندہ منتخب نہ کیا۔ گویا ایک اقل قلیل گروہ کی وقتی حمایت سے وہ پوری قوم پر چھا گئے۔
ہماری رائے یہ ہے کہ جس طبقاتی جنگ سے کمیونزم اور سوشلزم فائدہ اُٹھاتا ہے یہ طبقاتی تقسیم موجودہ جمہوری نظام کی پیدا کردہ ہے۔ اسی لئے کمیونزم اور سوشلزم کو مغربی جمہوریت اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کا ہی ردِ عمل سمجھا جاتا ہے۔ جمہوری انتخابات میں دھڑے بندیاں اور پھر بر سر اقتدار آکر گروہی مفادات کا جس طرح تحفظ کیا جاتا ہے اس سے معاشرہ میں ظالم و مظلوم اور طبقاتی تفاوت کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ خیر! حالیہ انتخابات میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے کثرت سے سیٹیں حاصل کی ہیں اور مشرقی پاکستان کے ان عوامی جذبات سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے جو بعض وجوہات کے باعث ان کے اندر پیدا ہو گئے تھے اور مشرقی پاکستان والے اپنی مفلوک الحالی اور مصائب کا ذمہ دار مغربی پاکستان والوں کو سمجھنے لگ گئے تھے۔ ایوب خاں کے خلاف عوامی تحریک نے اس خیال کو خاصی تقویت پہنچائی جس سے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور اگر تلہ سازش کیس سے رہائی کے بعد تو وہ مشرقی پاکستان کے عوام کے ہیرو بن گئے اسی طرح مغربی پاکستان میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو تھے جو ایوب خاں کے خلاف عوامی ایجی ٹیشن میں ایوب خاں کے ایک شدید مخالف کی حیثیت سے سامنے آئے اور اس سلسلہ میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی اُٹھائیں جس سے ان کی عوامی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ ایک عوامی لیڈر بن گئے۔ انہوں نے اپنی مقبولیت سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور اس میں مزید اضافہ کرنے اور بلا شرکت غیرے قومی ہیرو بننے کے لئے اس جدوجہد آزادی کو طبقاتی جنگ میں تبدیل کرنا شروع کر دیا تاکہ ایوب خان کے ساتھ ایک دوسرے طبقہ کو بھی ان حالات کا ذمہ دار قرار دے کر غریب مزدور اور کسان طبقے کی مکمل حمایت حاصل کی جا سکے۔ گویا کہ جب اسلامی نظریۂ حیات کے داعی اس آزادی کا رُخ نظامِ اسلام قائم کرنے کی طرف پھیر رہے تھے۔ سوشلزم کے حامی عوام کو طبقاتی جنگ کے لئے ابھار رہے تھے۔ ہماری رائے میں سوشلزم کا نعرہ اور طبقاتی جنگ اقتدار کے لئے تھی تاہ غریب طبقہ کے احساسِ محرومی سے مکمل فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ سوشلزم کے حامی سوشلزم کے نفاذ میں مخلص نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار اس کثرت سے پیپلز میں شامل ہوئے کہ کسی دوسری جماعت میں اس کا وجود نہیں ملتا۔ اِس سے ایک طرف جہاں انہیں اقتدار کا راستہ ملا وہاں ان کے سرمائے کا تحفظ ہوا اور ستم زدہ طبقہ کی حمایت کے بلند بانگ دعووں کی وجہ سے عوام نے ان کی بد اعمالیوں کے محاسبہ سے توجہ ہٹا کر سب خرابیوں کا ذمہ دار ان کے مخالفین کو سمجھا۔
کامیاب ہونے والی جماعتوں اور لیڈروں نے اپنی زیادہ تر کوشش نعروں کو عوام پسند بنانے میں صرف کی اور اس بات کا بہت کم خیال رکھا کہ اس سے ان کی ذمہ داریاں مستقبل میں کیا ہوں گی؟ اسی لئے اہوں نے اپنی تقریروں میں بار بار یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ہم صرف عوامی خواہشات کے امین ہیں۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کا کتاب و سنت کا نظام رائج کرنے کا اظہار اور مغربی پاکستان میں مسٹر بھٹو کا سوشلزم کے اعلان کے بعد عوام کے نازک مذہبی احساسات کے پیش نظر اسلامی سوشلزم کا اعلان اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اور اسلام کے منافی نظریات کے الزام سے بچنے کے لئے بعد میں اس کی تعبیر میں اسلامی مساوات اور مساوات محمدی کے نعرے استعمال کئے گئے۔ بلکہ بیشتر دفعہ کتاب و سنت اور خلافتِ راشدہ کا نظام رائج کرنے کا وعدہ اپنی تقریروں میں کیا۔ یہ سب کچھ اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لیڈروں کے نزدیک انتخابات کفر و اسلام کا مقابلہ نہیں تھے اور نہ ہی اسلام ہارا ہے اور سوشلزم جیتا۔ کیونکہ اگر سوشلزم کی ہی جیت ہوتی تو نیشنل عوامی پارٹی جو سوشلزم کے بارے میں کسی حد تک مخلص معلوم ہوتی ہے، مشرقی اور مغربی پاکستان میں عظیم اکثریت سے کامیاب ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے ایک گروپ نے اپنی کمزور پوزیشن دیکھتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور انتخابات میں حصہ لینے والے دوسرے گروپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان نعروں اور من گھڑت تعبیرات سے کامیاب ہونے والی جماعتوں کو واقعی یہ فائدہ تو ہوا ہے کہ وہ برسر اقتدار آرہی ہیں لیکن انہیں اچھی طرح سوچ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کی کامیابی کے بعد حالات ان کے لئے اب بالکل بدل چکے ہیں۔ پہلے اگر وہ محرومیوں کا زیادہ احساس دلا کر عوامی حمایت حاصل کرتے رہے ہیں تو اب انہی محرومیوں کا علاج انہیں کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام کا تحفظ اور سالامی نظام کا قیام اسی تعبیر کے ساتھ کرنا بھی ان کا فرض ہے۔ جو تعبیر وہ اپنی تقریروں میں کرتے رہے ورنہ اب ان کو عوام کے دوہرے جذبات کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ایک طرف عوامی بدحالی کا بوجھ ان پر ہو گا اور دوسری طرف اسلامی اقدار کی پامالی کا طعنہ اور پاکستانی عوام جنہوں نے اسلام کے نام پر ۱۰ لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دے کر پاکستان حاصل کیا کسی جابر سے جابر حکمران کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گ کہ وہ پاکستان کو اس کے بنیادی نظریے کے خلاف کسی دوسری راہ پر گامزن کرے۔
مذکورہ بالا جائزہ کامیاب ہونے والی دو پارٹیوں کے متعلق تھا اب اسلام کا نعرہ بلند کرنے والوں کے متعلق چند سطور پیش خدمت ہیں۔
اسلام کا نعرہ بلند کرنے والی جماعتوں اور اشخاص پر بحیثیت مجموعی غیر مخلص ہونے کا فتویٰ تو نہیں لگایا جا سکتا۔ خصوصاً ان جماعتوں اور افراد پر جو اس انتخابی کش مکش سے بہت پہلے س اسلامی نظام زندگی کے لئے کوشاں ہیں مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بہت سے سیاسی شاطروں نے اسلام کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی اور اس طرح سے ایک طرف اس بارے میں مخلص افراد کی پوزیشن خراب کی اور دوسری طرف محب اسلام عوام کو ایسے شدید انتشار میں مبتلا کر دیا کہ اس سے جہاں ووٹوں کی بڑی تعداد بٹ گئی اور پاکستان میں حامیانِ اسلام کی بہت بڑی کثرت ہونے کے باوجود انہیں اسلام کی شکست کا طعنہ سننا پڑا وہاں محب اسلام عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے بے اطمینانی اور عدم اعتماد کی حالت میں پپلز پارٹی کے حق میں ووٹ د دیئے اور ووٹ نہ دینے والوں کی بڑی عداد نے حامی اسلام ہونے کے باوجود کسی کو بھی ووٹ نہ دیا۔ اب یہی لوگ جو آج تک پاکستان میں بگاڑ اور اسلام کے خلاف سازشوں کا باعث بنے رہے۔ فتح یاب ہونے والی پارٹیوں سے جوڑ توڑ میں مصروف ہیںکہ کسی نہ کسی طرح اقتدار میں شریک ہو سکیں۔
دوسرا بڑا افسوسناک امر یہ ہے کہ جو لوگ عوام کو دِن رات اپنی تقریروں اور تحریرو میں یہ باور کراے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسلام خطرہ میں ہے۔ اسلام کے نام پر بھی اتفاق و اتحاد پیدا نہ کر سکے بلکہ جب کبھی اتحادی کوششیں شروع ہوئیں ان لوگوں کی اپنی ہوس اقتدار آڑے آئی اور یہ سارے پاکستان میں اسلام کی بجائے ذاتی اور گروہی مفادات کا تحفظ کرتے رہے او ہوس اقتدار نے انہیں اس حد تک مجنوں بنا دیا کہ سوشلسٹوں کی تنقید کا جواب دینے کی بجائے اسلام پسندوں کو کوستے رہے اور اتنی سخت الزام تراشی کی کہ اس کی مثال مخالفین میں بھی نہیں ملتی۔ رائی کاپربت بنا کر ایک دوسرے کو کافر اور دشمنِ اسلام ثابت کرنے کی کوشش کتے رہے جس سے ایک طرف عوام الزام زدگان سے بدظن ہوئے تو دوسری طرف الزام دہندہ کی اخلاق باختگی ملاحظہ کرتے ہوئے اس سے بیزار ہو گئے جس کا نتیجہ وہی نکلا جس کا خطرہ تھا۔ اس فتویٰ بازی اور الزام تراشی سے سوشلزم کے بارے میں ۱۱۳ علمائے کرام کے فتاویٰ کی حیثیت خاک میں مل گئی اور عام رجحان یہی ہوا کہ فتویٰ بازی دوسرے کو گرانے اور ناکام بنانے کا ایک ہتھکنڈا ہے۔ اس سے بھی افسوس ناک امر یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں ذلت آمیز شکست کے بعد بھی اس میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ نہ ہی عملی اتحاد ہوا اور نہ ہی تحریر بلکہ شکست کا بار ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے کہ اسلام خطرے میں ہے کا نعرہ بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ طرزِ عمل بھی!!! حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ عوام کے لئے جس چیز کو کفر و اسلام کا معاملہ بتا رہے تھے ان کا اپنا عمل اس کی تکذیب کرتا تھا۔ اِس لئے عوام بھی اِن پر اعتماد نہ کر سکے اور خدائی مدد بھی شامل حال نہ ہوئی۔
کاش یہ اسلام پسند ان ملکوں کے حالات سے عبرت پکڑیں جن میں اسلام کے زوال کا باعث مسلمانوں کا تشتت و افتراق ہوا اور پوری کوششوں کے باوجود اسلام پسند اسلام کے لئے اسلام کے نام پر مل کر نہ بیٹھ سکے، انہوں نے غیر کی غلامی تو پسند کر لی لیکن یہ پسند نہ کیا کہ اپنوں کی برتری تسلیم کر لیں۔
اب ہم اسلام کی حامی جماعتوں کے لئے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم انتخابات میں ان کی ناکامی کے بعد انہیں اس بات کا احساس دِلانا ضروری سمجھتے ہیں جو ان کے لئے بے برکتی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے لئے سم قاتل ہے۔
وہ یہ ہے کہ یہ بات عام طور پر سامنے آتی ہے کہ ہم جب کسی ترقی پسند نظریہ کو دیکھتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں ترقی پسند اسلا پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اسلام میں جدید نظریات داخل کرنے کا موقعہ مل جائے اور غیر اسلامی نظریات میں معمولی تبدیلی کر کے کسی لفظ کا اضافہ کر کے اسے اسلامی بنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسلام چودہ سو سال پرانا بلکہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی بنی نوع انسان کی عمر ہے لیکن خدائی قانون (اسلام) کا یہ اعجاز ہے کہ یہ اصول اتنے قدیم ہونے کے باوجود اتنے جدید اور ترقی یافتہ بھی ہیں کہ کسی بھی ترقی یافتہ دور میں کوئی انسانی قانون ترقی یافتگی میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ گویا ہ اسلام ہی ایسا بے مثال اور مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زمان و مکان کی قیود سے پاک ہے اور خدائی طریقۂ زندگی ہونے کی وجہ سے اپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہے کہ تاقیامت امن و امان کا واحد ضامن اور انسانی مشکلات کا آخری حل ہے۔ جب کبھی دوسرے ترقی یافتہ ناموں کو اس میں شامل کر کے اس میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے نقصان ہی ہوا اور غیر اسلامی چیزوں کو اسلام کے نام پر قبول کر لیا گیا۔ اسلام میں جو بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے اور غیر اسلامی نظریات اختیار کئے گئے اس کا سبب متجد دین (ترقی پسندوں) کا اِسی قسم کا تاثر ہوا جو انہوں نے اسلام سمجھ کر قبول کر لیا۔
اگر سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگانا یا اس کا نام اسلامی مساوات رکھنا حامیانِ اسلام کو گوارا نہیں تو بڑا تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ جمہوریت کے ساتھ اسلام کا لفظ لگا کر اسے اسلامی کیوں قرار دیتے ہیں؟ اگر کوئی کہے کہ سوشلزم صرف معاشی نظام نہیں بلکہ ایک مکمل مذہب ہے جس کا باعث صرف معاشی محرکات ہوئے ہیں اور جن اصولوں پر اس کا نظام معیشت استوار ہے، انہی اصولوں پر باقی سارا نظام قائم ہے تو ہم کہیں گے کہ جمہوریت بھی ایک مکمل مذہب ہے صرف اس کا محرک آمریت کے مقابلہ میں ایک سیاسی نظام ہے اور اس کے جن اصولوں پر سیاسی نظام کی بنیاد ہے اسی پر باقی سارے نظام کا انحصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام حامیانِ جمہوریت کا لازمہ سمجھا جاتا ہے۔ انتخابی مہم میں یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ جمہوریت کے حامی اسلام پسندوں نے انتہائی کوشش کی کہ کسی طرح ہم غریب مزدور اور کسان کو یہ یقین دِلا دیں کہ ہم سرمایہ داری کے خلاف ہیں اور اسلامی نظام کے حامی ہیں لیکن ان کی اس بات پر کان نہ دھرا گیا کیونکہ سرمایہ داریت جمہوریت کے لوازمات سے ہے اور یہ دونوں ایک ہی ذہن کی پیداوار ہیں۔ جن لوگوں نے اسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت کہہ کر فرق کرنا چاہا وہ بھی اسے واضح نہ کر سکے۔ اس لئے کہ اسلام اور جمہوریت دو الگ نظام ہیں۔ کوے کو مور کے پر لگانے سے وہ مور نہیں بن سکتا۔ اگر جمہوریت لفظ کے معنی اچھے ہیں جس سے عوامی اقتدار اور آزادی کا اظہار ہوتا ہے تو سوشلزم لفظ کے معنی کون سے برے ہیں اس سے بھی تو اجتماعیت کا اظہار ہوتا ہے جس کی اہمیت اسلام کی نظر میں بہت ہے۔ لہٰذا ان لفظوں کے لغوی معنوں سے دوکا ہیں کھانا چاہئے بلکہ ابب یہ اصطلای نام ہیں جن سے خاص نظام مراد ہیں۔ برائی تو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اجتماعی حل کے لئے سوشلزم کا طریقۂ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب عوامی اقتدار کے نام پر جمہوریت کا طریقۂ کار اختیار کیا جاتا ہے تو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئے نہ تو سوشلزم رنگین مساوات کے نام پر اسلام بن سکتا ہے اور نہ ہی جمہوریت کی (غیر محدود اور بدعنوانیوں کو دروازہ کھولنے والی) آزادی اِسے اسلام سے ہم آہنگ کر سکتی ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ سوشلزم ایک منفی تحریک ہونے کی بناء پر ہر اس چیز کا خاتمہ کرتا ہے جو اس کے راستہ میں دیوار بن کر کھڑی ہو سکے۔ اِسی وجہ سے وہ مذہب و اخلاق کا براہِ راست دشمن ہے جبکہ جمہوریت مثبت انداز میں پھیلتی ہے اور اپنی حکمت عملی کی بناء پر براہِ راست مذہب سے ٹکر نہیں لیتی بلکہ اسے انسان کا پرائیویٹ معاملہ کہہ کر نظر انداز کرتی ہے۔ سوشلزم اور جمہوریت کا قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں بے خدا مادی نظریے ہیں۔ اِس کے برکس مذہب اسلام خلافت کا نظریہ پیش کرتا ہے اور سیاست و معیشت دونوں کی اساس اسی نظریہ پر رکھتاہے جو انسانی ضروریات کو پورا کرنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لئے ایک بہترین اعتدال کی راہ ہے جس میں جمہوریت کی آزادی سے بڑھ کر آزادی ہے لیکن یہ آزادی بدعنوانیوں کا دروازہ کھولنے کی بجاے ان کا سدِ باب کرتی ہے۔ اسی طرح اس میں سوشلزم کی مزعومہ مساوات سے بڑھ کر عملی عدل و مساوات ہے جو سوشلزم کی نسبت کمزور اور غریب کا زیادہ ہمدرد ہونے کی وجہ سے مفلوک الحالی کا بہترین حل اور خوشحالی کا واحد ضامن ہے لیکن سوشلزم کی طبقاتی جنگ اور تحفظ حقوق کے نام پر پامالی،، حقوق کا ایک مستقل فتہ اور عذاب بننے سے کوسوں دور امن و امان اور صلح و آشتی کا مثالی نمونہ پیش کرتا ہے کیوں نہ ہو اسلام کا تو مصدر و ماخذ ہی سلم (سلامتی) ہے۔ ہم اس استدلالی بحث کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی کرتے ہیں۔ اس مختصر سے بیان سے ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ اسلام پسند اگر اسلام کا نعرہ لگاتے ہیں تو صحیح اسلام پیش کریں۔ یہ نہ ہو کہ سب کچھ اسلام کے لے کرنے کے بعد منزل اس سے ہٹ کر مغرب ہو یا مشرق۔
انتخابات کا نتیجہ ظاہری طور پر اسلامی نظام کا علم لے کر کھڑی ہونے والی جماعتوں کے لئے خوش کن نہیں ہے لیکن انہیں مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ منتخب شدہ نمائندے اسلامی نظام سیاست کے مطابق عوامی نمائندے نہیں ہیں نہ ہی عوام کی اکثریت ان کے حق میں ہے۔ نیز اپنے اسلامی وعدوں کی وجہ سے وہ اب کافی حد تک مجبور ہیں کہ ان وعدوں کا ایفاء کریں۔
اس لئے حمیان نظام اسلام کو اسلام پسند عوام کی حوصلہ افزائی کرنے کے علاوہ اسلامی نظام زندگی کے مختلف شعبوں کا تعارف تحریر و تقریر سے پھیلانے کا کام زیادہ اہتمام سے شروع کرنا چاہئے تاکہ وہ عوام کے دِلوں میں اس کی خوبیوں کو اجاگر کر کے اہیں اس کی حمایت میں مزید مستحکم بنا سکیں۔
طلبہ مدرسہ رحمانیہ لاہور ... قربانی کی کھالوں کا بہترین مصرف
احباب کو معلوم ہے کہ مرکزی شہر لاہور میں جماعت اہل حدیث کے علمی ادارے مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام عظیم الشان دینی کام سر انجام پا رہے ہیںَ امسال مجلس نے ایک ماہوار علمی اور اصلاحی ماہانہ ''محدث'' کا اجراء کیا ہے۔ مجلس کے تعلیمی اور تربیتی ادارے ''مدرسہ رحمانیہ'' گارڈن ٹائون لاہور میں، الحمدد للہ چھ درجوں میں باقاعدہ جماعت بندی سے پڑھائی جاری ہے۔ جن میں علوم دینیہ اور عصری علوم کے فاضل اور کہنہ مشق چھ علماء اور اساتذہ مولانا حافظ بد الرحمن مدنیؔ کے زیر نگرانی تدریسی خدمات میں مصروف ہیں۔ مدرسہ میں مفت تعلیم کے علاوہ رہائش اور کھانے پینے کا اعلیٰ انتظام ہے۔
مدینہ یونیورسٹی کے فیض یافتہ اساتذہ کی وجہ سے الحمد للہ اس درس گاہ میں پاکستانی اور عربی ممالک کے طرز تعلیم کی خوبیوں کا امتزاج ہو گیا۔
احباب قربانی کی کھالیں یا ان کی قیمت مندرجہ ذیل پتہ پر بھیج کر دینی تعاون فرمائیں۔
حافظ عبد اللہ (روپڑی) مدرسہ رحمانیہ (نزد اومنی بس باڈی بلڈنگ سٹاپ فیروز پور روڈ لاہور نمبر ۱۶)