اسلامی مساوات

نبی ﷺ کے خطہ حجۃ الوداع اور خلفائے راشدین کے عہد کے آئینے میں

اسلام نے معاشرتی تنظیم کے لئے جو اصول وضع ہیں اصولِ مساوات ان میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اِسی بنیاد پر معاشرے کا باقی ڈھانچہ تعمیر کیا گیا ہے اور معاشرتی قانون بنائے گئے ہیں۔

جان و مال اور عزت سب کے یکساں ہیں:

مساوات کے اصول کے تحت اسلام معاشرے کے ہر فرد کے جان و مال اور عزت کو یکساں محترم قرار دیتا ہے اور اس سلسلے میں کسی کے ساتھ کسی قسم کے امتیاز کا روادار نہیں ہے۔ وہ اس اعتبار سے کسی کو برتر نہیں مانتا کہ وہ اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہے یا اس کے پاس دوسروں کی نسبت مال زیادہ ہے یا وہ زیادہ زمین کا مالک ہے یا اس کا رنگ دوسروں سے اچھا ہے یا زیادہ پڑھا لکھا ہے، یا کسی خاص علاقے کا باشندہ ہے یا وہ معاشرے میں کسی خاص حیثیت کا حامل ہے۔ اسلام کے مقرر کردہ قواین معاشرہ کی نگاہ میں یہ سب حیثیتیں بے معنی ہیں اور اگر کسی موقع پر معاشرہ کے نظام میں خرابی کا باعث بنتی ہیں تو قانون کے مقابلے میں ایک پرکار کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں اور پورے استغنا کے ساتھ ٹھکرا دی جاتی ہیں۔

اسلام اس بات کا بھی قائل نہیں کہ کسی شخص کو اس لئے حقیر سمجھا جائے کہ وہ غریب اور نادار ہے یا کوئی طاقت ور اس لئے دوسرے کے مال پر قبضہ کر لے کہ مقابل کمزور ہے۔ یا کم حیثیت والے کی عزت پر کوئی اس لئے ہاتھ ڈال لے کہ وہ اعلیٰ حیثیت کا مالک نہیں۔ کسی شخص کا کمزور، نادار اور کم حیثیت ہونا قطعاً اس میں رکاوٹ نہیں بنتا کہ اس کو اس کے حقوق پورے پورے دیئے جائیں اور اس کے مال جان اور عزت کا اسی طرح احترام کیا جائے جس طرح کسی طاقت ور، مالدار اور اعلیٰ حیثیت کے حامل فرد کے مال و جان اور عزت کا احترام کیا جاتا ہے اور اس کو اس طرح تحفظ دیا جاتا ہے جس طرح کسی اعلیٰ سے اعلیٰ فرد کو حاصل ہوتا ہے۔

خطبہ حجۃ الوداع:

محمد رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ مکمل اسلامی نظام کا بہترین خلاصہ ہے اور جس مجمع میں آپ نے وہ خطبہ دیا وہ اس دور کے مسلمانوں کا عظیم ترین مجمع تھا۔ وہاں غریب بھی تھے اور امیر بھی، سرمایہ دار بھی اور مزدور بھی، زمیندار بھی تھے اور مزارع بھی۔ بڑے بڑے تاجر بھی تھے اور خوردہ فروش بھی، طاقتور بھی تھے اور کمزور بھی۔ علاقوں کے گورنر بھی تھے اور ان کی نگرای میں زندگی گزارنے والی رعایا بھی۔ غرضیکہ عرب سوسائٹی کے تقریباً ہر طبقہ کے افراد موجود تھے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا۔

ألإن دمائکم وأموالکم وأعراضکم حرام علیکم کحرمة یومکم هذا في شهرکم هذا في بلدکم هذا۔

خبردار تمہارے خو، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے لئے اسی طرح واجب الاحترام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارے اس مہینے میں اور اس شہر میں تمہارے لئے قالِ احترام ہے۔

یہ ارشاد اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہے اور اسے آپؐ نے سوا لاکھ کے قدسی صفات عظیم مجمع میں بیان فرمایا اور کسی قسم کا استثنا نہیں کیا بلکہ اس بات پر زور دیا کہ تم میں سے ہر شخص اس بات کا مکلف ہے کہ وہ دوسروں کی جان، مال اور عزت کا پورا پورا احترام کرے اور ان کو اتنا ہی قیمتی سمجھے جتنا وہ اپنے جان و مال اور عزت کو قیمتی سمجھتا ہے۔ نہ وہ ناحق کسی کی جان لے، نہ اس کامال چھین اور نہ اس کی عزت کو پامال کرنے کے در پے ہو۔ خواہ وہ مالدار ہے یا غریب۔ طاقتور ہے یا کمزور۔ اعلیٰ حیثیت کا مالک ہے یا ادنیٰ کا۔

پھر ا ن تینوں جزوں کی قدر و قیمت کا اندازہ اس طرح کروایا کہ ان کی حرمت کو حجۃ الوداع کے دن کی اس حرمت کے برابر قرار دیا جو ذوالحجہ کے مہینے میں اور مکہ مکرمہ میں لوگوں کے دلوں میں ہوتی ہے۔ خصوصاً جب کہ خود رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس ان میں شامل تھے۔

مساوات کے یہ اصول صرف وعظ و نصیحت کی چیز ہی نہیں بنے بلکہ اس کے لئے باقاعدہ قوانین وضع کيےگئے اور پوری قوت اور حکومت کی مشینری کے ذریعے اس کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ ایک طائرانہ نگاہ اس عملی پہلو پر بھی ڈال لیجئے۔

قریشی خاتون کا واقعہ:

بنو مخزوم کی فاطمہؓ نے جب چوری کی تھی تو اس کا ہاتھ اسی طرح کاٹ دیا گیا جس طرح اس جرم میں کسی دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹا جاتا اور ان کا ایک اعلیٰ خاندان کا فرد ہونا قانون کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکا۔ یہ ان کے اس جرم کی سزا تھی کہ انہوں نے اس مال کا وہ احترام نہ کیا جس کا وہ مستحق تھا۔

حضرت صدیقؓ کا پہلا خطبہ:

پھر حضرت ابو بکر صدیقؓ جب منصبِ خلافت کے لئے منتخب ہوئے تو آپ نے اپنے پہلے ہی خطبے میں یہ حقیقت واضح کر دی کہ ہر شخص کے بنیادی حقوق یکساں حفاظت کے مستحق ہیں۔ فرمایا:

''تم میں کا کمزور میرے نزدیک طاقت ور ہے۔ جب تک میں اس کا حق اس تک نہ پہنچا دوں اور تم میں کا طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے حق وصول نہ کر لوں۔

یہ فرمان اسی احساس کا مظہر تھا کہ شریعت محمدی میں ہر کسی کا جان و مال اور عزت یکساں محترم پھر پورے دورِ صدیقی میں اس فرمان پر پورا پورا عمل ہوا۔

ابن عمر کو کوڑوں کی سزا:

اور یہ بھی واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے بیٹے سے شراب نوشی کا فعل سر زد ہوا۔ تو وہ بھی قانون کی گرفت سے بچ نہ سکے۔ انہیں اسی طرح کوڑے مارے گئے جس طرح اس فعل کے مرتکب کسی دوسرے شخص کو مارے جاتے اور ان کا خلیفہ وقت کا بیٹا ہونا ان کے کسی کام نہ آیا بلکہ اس کا سبب بنا۔ کہ جب وہ اپنی کمزوری اور تکلیف کی شدت سے فوت ہو گئے تو ان کی مردہ لاش پر کوڑوں کی تعداد پوری کی گئی۔ کیونکہ اگرچہ وہ خلیفہ وقت کے بیٹے تھے لیکن قانون کی نگاہ میں ایک عام شہری تھے اور انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی تھی کہ وہ کسی ایسے فعل کا ارتکاب کریں جس سے معاشرتی نظام میں خلل واقع ہونے کا خدشہ ہو اور دوسروں کے جان و مال اور عزت کے لئے خطرے کا سبب بنے۔

حضرت عمرؓ   کا اپنا حال:

خود حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ غصے میں ایک شخص کے سر پر کوڑا دے مارا اور بعد میں احساس ہوا کہ اس بے چارے کو ناحق مار پڑی ہے تو اس کے پیچھے بھاگے اور اسے اپنا بدلہ لینے اور ان کے سر پر کوڑا مارنے کے ليے مجبور کیا کیونکہ یہ بات ان کے ذہن میں پختہ تھی کہ اس شخص کی جان خود آپ کی اپنی جان سے کچھ کم محترم نہیں۔

حضرت علیؓ عدالت کے کٹہرے میں:

پھر چشم عالم نے یہ بھی دیکھا کہ خلیفہ وقت حضرت علیؓ مدعی بن کر عدالت میں گئے تو مدعا علیہ کے ساتھ عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے اور کھڑے رکھے گئے، حالانکہ ان کا مدعا علیہ شخص ایک یہودی تھا۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ خود حضرت علیؓ اور قاضیٔ عدالت دونوں جانتے تھے کہ ایک مدعی کی حیثیت میں حضرت علیؓ کی ذات یہودی سے زیادہ محترم نہیں اور نہ ہی یہودی مدعا علیہ ہوتے ہوئے حضرت علیؓ سے کچھ کم احترام کا سزا وار۔

ایسے قوانین کے موجود ہوتے ہوئے اور ان پر عمل بھی کرنے کا نتیجہ تھا کہ مملکت اسلامیہ میں معاشرتی اعتبار سے پورا امن تھا اور ہر شخص دوسرے کے جان و مال اور عزت کا احترام کرتا تھا۔ اسی بنا پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک عورت زیوروں سے لدی پھندی صنعا سے چل کر حضر موت تک سفر کرے گی اور اسے کسی انسان سے خوف نہ ہو ا۔
مساوات کا یہ تصور اسلام کے سوا دنیا کے کسی قانون میں نہیں پایا جاتا۔ حتیٰ کہ وہ ممالک بھی ایسی مساوات پیش نہیں کر سکتے جو آج تہذیبِ نو کی زمامِ قیادت سنبھالے ہوئے ہیں اور جنہیں دنیا والے بڑا مہذب سمجھتے ہیں۔
ان کے ہاں انسان اور انسان کے درمیان بڑے بڑے امتیازات ہیں اور آئین میں ایسی دفعات رکھی جاتی ہیں جن کے ذریعے خاص حیثیت کے حامل افراد کو قانون کی گرفت سے بالا تر قرار د دیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا اپنی تمام تر ترقی کے باوجود آج تک معاشرے کی ان اقدار سے محروم ہے جن کو مسلمانوں نے چودہ سو سال پہلے فروغ دیا تھا۔ کیونکہ دیا کا کوئی قانون جان و مال اور عزت کے احترام کا وہ سبق نہیں دیتا جو اسلام دیتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک لوگوں کے دِلوں میں دوسروں کی جان و مال اور عزت کا وہ احترام پیدا نہ ہو جائے، معاشرتی خرابیاں موجود رہتی ہیں بلکہ ایک کے بعد دوسری جنم لیتی رہتی ہے اور اس کی نئی نئی صورتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ جس معاشرے میں یہ تصور احترام نہیں پایا جاتا وہاں چوری، ڈاکہ، زنا، قتل، رشوت، سود خوری وغیرہ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا اور جس معاشرے میں یہ خرابیاں موجود ہوں اس کو کبھی پر ان معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔
دوسری طرف کچھ لوگ معاشی مساوات کے داعی ہیں حالانکہ یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جسے آج تک دنیا کے کسی خطے میں ایک لمحہ کے لئے بھی حقیقت بننا نصیب نہیں ہوا۔
دراصل مساوات کا صحیح اور قابل عمل تصور وہی ہے جو اسلام نے دیا ہے اور اس سے دوسرا کوئی بھی تصورِ مساوات بالکل بے معنی ہے۔

دواخانہ رحمت


کالی کھانسی، چنبل، خارش ہر قسم، بواسیر خونی اور بادی اور نزلہ و زکام دائمی کاتیر بہدف علاج۔

حکیم عبد الجبار خلف الرشید حکیم عبد القیوم (مرحوم) ۱۳۔ نکلسن روڈ لاہور