عالمی مسائل اور سوشلسٹ سرگرمیاں

(۱) مشرق وسطیٰ (۲) بحر ہند


صدر ناصر کی وفات کے بعد قاہرہ کی قومی اسمبلی کے ۳۵۳ ممبروں نے وائس پریذیڈنٹ انوار السادات کو رسمی طور پر ملک کا نیا صدر چن لیا۔ مصری دستور کے مطابق یہ انتخابات ۶۰ دنوں کے اندر اندر ہونا تھا مگر یہ انتخاب ۹ دِنوں میں کر لیا گیا۔ اس عجلت کی وجہ خواہ کچھ ہی ہو یہ بات تو عیاں ہے کہ حکومت کا کوئی اہل کار اس نازک وقت پر ایسی رائے نہیں دینا چاہتا تھا جو ایک طرف تو ان کے باطنی جذبات نفرت کی غماز ہو اور دوسری طرف اس مخالفت کی پاداش میں انہیں جن حالات کا سامنا کرنا ممکن تھا، اس کے لئے وہ تیار نہ تھے۔ اس کے علاوہ روس بڑی جلدی میں تھا۔ روسی وزیر اعظم نے جو ناصر کی وفات کے فوراً بعد قاہرہ پہنچے۔ انوار السادات، سابق وزیر اعظم علی صابری اور وزیرِ جنگ محمد فوزی سے بالترتیب تین لمبی لمبی ملاقاتیں کیں۔ باقی رہا ان ملاقاتوں کا پس منظر کیا تھا؟ اسے سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔

گزشتہ دِنوں روس کی طرف سے نائب وزیر خارجہ والڈیمیرایم ونو گریڈ ود کو مصر میں سفیر مقرر کیا گیا۔ اسے آنجہانی سرجی اے کی جگہ پر مقرر کیا گیا تھا۔ ہمارے نزدیک اس کی اس تقرری سے بھی اس پس منظر کو سمجھنے کے لئے کافی مدد مل سکتی ہے۔

نئی حکومت کے عزائم اور اسرائیلیوں کی پوزیشن:

اِدھر انوار السادات نے اسرائیل کے ساتھ عبوری جنگ بندی کا عرصہ گزر جانے کے بعد جنگ بہرحال لڑنے کا تہیہ کر رکھا ہے جب تک کہ اسرائیلی فوجیں ۱۹۶۷؁ کی جنگ بندی لائن پر واپس لوٹ نہیں جاتیں۔ پھر محمود ریاض نے امریکی سامراج پر تنقید کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اب مصر کس طرف رُخ کرے گا۔

نیو یارک میں گزشتہ دنوں چار بڑی طاقتوں کا غیر سفارتی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں مشرق وسطیٰ کے بارے میں تصفیہ طلب امور پر بحث کی جانی تھی مگر امریکی نمائندہ صرف اس وجہ سے اجلاس سے واک آؤٹ کر گیا کہ اس نے پہلے یہ شرط رکھی دی تھی کہ وہ اس وقت تک اس اجلاس میں شریک نہیں ہو گا جب تک کہ نہر سویز سے روسی میزائل ہٹانے کی قرار داد منظور نہیں کی جائے گی۔ جب کہ محمود ریاض نے اعلان کر دیا تھا کہ نہر سویز سے ایک میزائل بھی نہیں ہٹایا جائے گا۔ یہ میزائل قریباً تیس مقامات پر نہر کے ساتھ سات لگے ہوئے ہیں اور وہ اسرائیل سے اتنے نزدیک ہیں کہ ان سے اسرائیل پر آسانی سے حملہ کیا جا سکتا ہے۔ ان مقامات کو اور قریب لایا جا رہا ہے اور ان میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ جنگ بندی کے باوجود معمولی معمولی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور دونوں طرف سے اقوامِ متحدہ میں شکایات پہنچائی جا رہی ہیں۔

صدر ناصر کی وفات اور اردن میں خانہ جنگی کے واقعات سے اسرائیل کے کچھ حوصلے بلند ہوئے تھے مگر انوار السادات کی انتہاءپسندی اور روس کی مسلسل امداد کی وجہ سے وہ اب خائف نظر آرہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی پشت پناہی اور مسلسل فوجی امداد کے علاوہ فوج کی افرادی قوت میں نازک اوقات کے دوران مغربی طاقتوں اور خود اسرائیل کے رضا کاروں کی خدمات کا سہارا اس کے لئے کسی وقت بھی کم دِلی کا سبب نہیں بنا اسے یہ بھی معلوم ہے کہ امریکہ کا اس کے ساتھ اور روس کا عربوں کے ساتھ خلوص کس حد تک سچا ہے۔ پھر ۱۹۶۷؁ کی جنگ میں جنگی منصوہ بندی میں کون سی طاقت برتر رہی ہے۔ اس یہ بھی معلوم ہے کہ عراق اور شام کی فوجی طاقتوں میں لڑنے کی صلاحیت اور معیار کیا ہے۔ اُسے اگر ڈر ہے تو اردن کی شیر دل بری فوج سے ہے باوجود انتہائی کم وسائل کے اس میں لڑنے کی پوری پوری صلاحیت اور حوصلہ موجود ہے ،لہٰذا اسرائیل کی جنگی تیاریوں کا تمام تر مرکز مصر اور اردن کے محاذ پر ہے۔ مصر سے اس لئے خائف ہے کہ وہ طاقت کے لحاظ سے اس کا ہم پلہ ہے۔ چنانچہ اُردن کے حوصلے پست کرنے کے لئے اس نے جارج حبش اور نائف حواتمہ جیسی عیسائی فلسطینی تنظیموں کو حریت پسند تنظیموں میں چھوڑ رکھا ہے۔ حقیقت میں اس طرح کی دیگر تنظیمیں جو اصل میں سامراجی طاقتوں کی ایجنٹ ہیں۔ یہودیوں کے مشن کو پورا کرنے کے لئے سوشلزم کا لبادہ اوڑھ کر ان کی صفوں میں انتشار پیدا کر رہی ہیں۔

عرب میں کمیونسٹ اور سمراجی تنظیموں کا درود:

سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریک آزادی میں کمیونسٹ اور سامراجی تنظیمیں کہاں سے اور کب داخل ہونا شروع وہئیں۔ یہ ایک لمبی بحث ہے۔ صرف اتنا بتا دینا کافی ہے کہ تحریک آزادی جب صرف مظاہروں تک محدود تی تو ان مظاہروں کے دوران اکثر اوقات خونریز تصادم بھی ہو جاتا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ۱۹۳۰؁ میں فلسطینی قوم پرست تحریک میں ایسے عرب باشندوں نے آنا شروع کر دیا جو کمیونسٹ اور بورژوائی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آنے کے بعد تحریک میں مختلف تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ جولائی ۱۹۳۲؁ میں فلسطین میں ان کی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ایک سیاسی پارٹی کی تشکیل کا باعث بنیں جسے استفلال پارٹی کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اس جماعت کا بھی نعرہ وہی تھا جو آج ہمارے یہاں سوشلسٹ اور دیگر بائیں بازور سے تعلق رکھنے والی پارٹیاں لگاتی ہیں۔ جس کا بنیاددی مقصد انگریزوں اور امریکی کومتوں کو سامراج حکومتیں قرار دے کر ان کے خلاف مزید نفرت پھیلا کر کمیونسٹ اور سوشلسٹ، حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دِلانا کہ وہی تمہاری حمایت کا دم بھرتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک اعلان میں جاگیرانہ قیادت پر ناہلی کا الزام لگایا۔ اور سامراج ک خلاف تشدد کے ذریعے تحریک کو اس کے اعلیٰ و ارفع مقاصد حاصل کرنے کو اپنا مقصد قرار دیا۔

۱۹۳۳؁ میں مظاہروں کی نوعیت بدل گئی۔ ان میں یہودیوں کی نسبت برطانیہ کے خلاف زیادہ زہر اگلا گیا۔ اس کے بعد ۱۹۳۹؁ میں تنظیم دو واضح دھاروں میں بٹ گئی۔ ان میں سے ایک کا تعلق دائیں بازو سے تھا۔ جس میں موسیٰ عالمی، احمد شکیری اور دیگر مشہور و معروف لوگ شامل تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ عرب قوم کا پہلا فرض مغربی ملکوں کے ساتھ باہمی احترام و مساوات کی بنیادوں پر اپنے تعلقات استوار کرنا ہے۔ دوسری تنظیم کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ اس تنظیم میں کمیونسٹ یہودی بھی شامل تھے۔ عرب کمیونسٹوں نے یہودیوں سے الگ ہو کر لیگ فار نیشنل لبرٹی کے نام سے ایک نئی جماعت قائم کر لی۔ ان کی نظر میں یہودیت نسلی نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ تھا۔ اور وہ آزاد جمہوری فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد کے خواہاں تھے۔

بعد میں فاشسٹ طرز کی نیم فوجی تنظیمیں معرض وجود میں آئیں۔ ان میں ''نجدہ'' اور ''فتوا'' دو مشہور تنظیمیں شامل تھیں۔ اگرچہ یہ دونوں تنظیمیں مٹ گئیں لیکن اپنے پیچھے ایک ایسا سلسلہ چھوڑ گئیں جس کی کڑیاں آج کل کی تنظیموں سے ملتی ہیں۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہو گا کہ شاہ حسین کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لئے ان تنظیموں نے متعدد بار شاہ حسین کو قتل کرنے کے منصوبے بنائے اور حملے کئے مگر ہر بار وہ ناکام رہے۔ حریت پسندوں سے موجودہ جنگ صدر ناصر کی ''ایک تیر سے دو شکار'' پالیسی کا نتیجہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ حریت پسند اس قوت کے مالک بن گئے ہیں کہ وہ شاہ حسین سے ٹکر لیں۔ ایک طرف تو شاہ حسین کو تحریری طور پر کہا کہ حریت پسندوں کو کچل دو کیونکہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی بھی پالیسی پر ہمیں کام کرنے نہیں دیں گے۔ دوسری طرف حریت پسندوں کی پشت پناہی کی کہ کسی طرح اردن کی حکومت بھی سوشلسٹ عربوں کے زیرنگیں آجائے۔ اس راز کے افشا پر صدر ناصر کے دِل پر دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا جو شاہ حسین نے عرب کانفرنس میں دستاویزی ثبوت کے طور پر مہیا کیا۔

امریکہ اور روس کی مشرقی وسطی میں دلچسپی اور ان کے مسائل کو پیچ در پیچ اُلجھانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے اثر و نفوذ مٹا کر اس خطہ کو اپنی مطلب بر آری کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ روس نہیں چاہتا کہ یہودیوں کا یہاں نام و نشان تک مٹ جائے اور نہ ہی امریکہ اس گمان میں ہے کہ وہ عربوں کو ملیا میٹ کر کے یہودیوں کو اپنے سر چڑھا لے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ اور روس عربوں اور یہودیوں کے درمیان طاقت کا توازن اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں، جس کا بالآخر نتیجہ یہ نکلے گا کہ عرب اور اسرائیل دونوں مٹ جائیں گے۔ اور تاریخ پھر نئے سرے سے وہاں پر اپنے نئے دور کا آغاز کرے گی۔

جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ دنیا کی سیاست پر دو قوتیں چھائی ہوئی ہیں۔ دونوں قوتیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور اندرونی نفاق رکھنے کے باوجود اس امر پر متفق ہیں کہ کوئی تیسری قوت ابھر کر ان کے مد مقابل نہ آنے پائے۔ اس کے لئے ان کے آپس میں کچھ خفیہ معاہدے بھی ہیں جہاں بھی انہیں ایسی قوت کے ابھرنے کا خدشہ در پیش ہوتا ہے۔ وہاں جنگ مسلط کر دی جاتی ہے یا ان کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے تاکہ اس قوت کوپنپنے کا موقع ہی نہ ملے۔ اس وقت انہیں سب سے زیادہ خدشہ چین اور اسلامی ملکوں سے ہے۔ چینی قوت کو ختم کرنے کے لئے ویت نام، کوریا اور کمبوڈیا وغیرہ کی طویل جنگیں دنیا کی نظرووں سے پوشیدہ نہیں۔ ویت نام کو شمالی اور جنوبی ویت نام اور کوریا کو بھی شمالی اور جنوبی کوریا، جرمنی کو مشرقی و مغربی جرمنی میں تقسیم کرنا اور بندر بانٹ کا پس منظر بھی پس ذہنیت ہے۔ اِدھر ترکی کیلئے قبرص، عربوں میں فلسطین، پاک و ہند میں کشمیر ایسے مسائل ہیں جو کبھی پر امن بات چیت اور مناسب ذرائع سے حل نہیں ہو سکتے۔ ان کے لئے لازمی فیصلہ کن جنگوں کی ضرورت ہے۔ اس صورتِ حال سے یہ دونوں قومیں دوسری قوموں کو بلیک میل کر رہی ہیں اور ہر محاذ آزادی پر انہوں نے اپنے اپنے ایجنٹ چھوڑے ہوئے ہیں اور ہر جگہ نام نہاد طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لئے انہوں نے ایک ہی قسم کی قوم کو دو متحارب قوتیں بنا دیا ہے تاکہ یہ قومیں آپس میں لڑتی رہیں اور دنیا میں طاقت کی اجارہ داری ان کی رہے۔

اب بحرِ ہند سے برطانیہ کے جانے کے بعد دونوں قوتیں اس بات کا اندازہ کر رہی ہیں کہ کون یہاں پر مسلط ہو گا۔ سیاسی مبصروں کے خیال کے مطاق دونوں قوتوں میں اس بارے میں خاصی حد تک مفاہمت ہو چکی ہے لیکن در پروہ دونوں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے ہیں اور اپنی اپنی اجارہ داری کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اگر مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہوئی، قوت کے سامنے دیوار کھڑی کرنے کے مقصد کے پیش نظر ہو گی۔ دونوں قوتیں چاہتی ہیں کہ برصغیر پاک و ہند پر چین کے اثرات نہ پڑنے پائیں لیکن پاک چین دوستی ان کے راستے میں حائل ہے۔ اس لئے برصغیر میں اپنا اثر و نفوذ ڈالنے کے دو طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں اور کریں گے۔ ایک تو یہ کہ کسی طرح دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدہ ہو جائے یا مفاہمت کی کوئی اور صورت ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ ان دونوں ملکوں کے اندر خانہ جنگی کا بیج بویا جائے اور اُنہیں کمزور تر کر کے ان پر بتدریج جنگ مسلط کی جائے۔ جنگ کی صورت میں دونوں ملک چارو ناچار ان کی جھولی میں آگریں گے اور پھر ان سے جو چاہیں گے منوا لیں گے۔ اس سلسلے میں حالات و واقعات گواہ ہیں کہ کیا کچھ نہیں کیا جا رہا۔ روس اس سلسلے میں اس مہم کو سر کرنے کے لئے نہایت تیزی کے ساتھ ہات پاؤں مار رہا ہے۔ حال ہی میں افغانستان میں جنگی اہمیت کی بڑی شاہراہ کی تعمیر، جزائر نکوبار اور انڈیمان، سنا پور میں بحری مراعات، بحریۂ قلزم کے دہانے پر واقع سکوٹرا کے بے آباد جزیرے میں بحری ریڈیو سٹیشن اور اسلحہ کے ڈپو کی تعمیر، جنوبی یمن میں روس کے فوجی اڈے کی تعمیر یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اگر روس بحر ہند پر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہو گیا تو امریکہ کو اپنے مفادات کے پیش نظر روس سے مفاہمت کرنا پڑے گی تاکہ چین کی بحریہ کو اس کی حدوں سے تجاوز نہ کرنے دیا جائے، لیکن روس کی یہ کوشش عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ کیونکہ امریکہ کبھی بھی روس کو مکمل طور پر یہا ں مسلط نہیں ہونے دے گا۔ لا محالہ اسے برصغیر کے ملکوں کا سہارا لینا پڑے گا۔

اعلان


ہمارے فاضل دوست جناب چودری محمد زیر سپراؔ نے ہمیں برائے اعلان یہ اطلاع بھیجی ہے کہ وہ اپنی شدید مصروفیات اور مضمون کی اہم تاریخی حیثیت کے سبب سے محدث کے شمارہ جنوری (۱۹۷۱) کے لئے اپنا مضمون (جو حریت پسندوں میں کمیونسٹ تنظیموں کے تعلق کے بارہ میں ہے) نہیں بھیج سکے جس کا وعدہ انہوں نے دسمبر ۱۹۷۰؁ میں شائع شدہ مضمون بعنوان ''مشرقی وسطی کا المیہ'' کے آخر میں کیا تھا۔ اس وعدہ کا ایفا وہ ان شا اللہ جلد ہی کسی فرصت کے وقت میں کریں گے۔ ادارہ ''محدث'' مضمون کے آنے پر قریبی اشاعت میں اسے ہدیہ قارئین کر دے گا۔ ان شا اللہ۔ (ادارہ)