عشرۃ ذی الحجۃ۔۔۔۔ قرانی کے فضائل و احکام

یوں تو اللہ ذوالجلال والاکرام کی رحمت کی بارش ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں جب اللہ ارحم الراحمین کے رحم و کرم کے سمندر سے دیا سیراب نہ ہوتی ہو، مگر بعض ایام، بعض عشرے اور بعض ماہ ایسی خصوصیتیں رکھتے ہیں جو دوسرے دِنوں میں موجود نہیں۔

منجملہ ان کے عشرۂ ذی الحجہ ہے اس میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے بحرِ رحمت کی امواج میں بے انتہا تلاطم پیدا ہو جاتا ہے اور رحمت کی فراوانی خشک وادیوں کو سیراب اور مردہ بیابانوں کو زندہ کر دیتی ہے۔ قارئین کے فائدہ کے لئے قرآن و حدیث سے کچھ عرض کرتا ہوں۔ ممکن ہے کوئی تشنۂ ثواب اس سے فائدہ اُٹھائے اور میرے لئے باعثِ اجر و ثواب بن جائے۔

یہ وہ عشرہ ہے جس کی بزرگی اور فضیلت قرآن اور حدیث سےثابت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی قسم کھائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:۔

﴿وَالفَجرِ‌ ﴿١﴾ وَلَيالٍ عَشرٍ‌ ﴿٢﴾... سورة الفجر

قسم ہے صبح (یوم النحر) کی اور (ذی الحجہ) دس راتوں کی۔

جس چیز کی قسم کھائی جائے وہ مکرم و معظم ہوتی ہے۔ تو عشرہ ذی الحجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مکرم و معظم ہوا۔ لہٰذ ااس میں اللہ تعالیٰ کے فیوض و برکات سے مستفیض ہونا چاہئے، جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿وَيَذكُرُ‌وا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ...﴿٢٨﴾... سورة الالحج

یعنی یاد کریں اللہ تعالیٰ کا نام معلوم دنوں میں۔

معلوم دنوں سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے جیسا کہ بخاری میں ابن عباسؓ سے مروی ہے۔

پس قرآن مجید سے اس عشرہ کی عظمت اور بزرگی ثابت ہوئی اور اس میں کثرتِ ذکر و عبادت کی ترغیب بھی ثابت ہوئی۔

اور فریضہ حج جو ارکانِ خمسہ میں داخل ہے اور بے انتہائ محاسن و فضائل کا حامل ہے۔ یہ بھی اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ بھی اس کی فضیلت پر دال ہے۔

اور قربانی جو حب خلیلؑ کی یادگار اور خالق پر مخلوق کے ایثار اور جاں فشانی کی بے مثال دلیل ہے۔ اسی عشرہ میں کی جاتی ہے۔ یہ بھی اس عشرہ کی فضیلت کی دلیل ہے۔
عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت احادیث سے

پہلی حدیث:۔

بخاری شریف میں ہے:

عن ابن عباس قال قال رسول الله صلی اللہ علیه وسلم ما من أیام ۔۔۔۔ العمل الصالح فیهن أحب الی الله ۔۔۔۔ من هذہ الأیام العشرة، قالوا: یا رسول الله ولا الجهاد في سبیل اللہ؟ قال: ولا الجهاد في سبیل الله إلا رجل خرج بنفسه وما له فلم یرجع من ذلك بشيء (رواہ البخاری)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان دس دنوں کے اعمال صالحہ جتنے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں اتنے اور دِنوں کے نہیں یعنی ان دنوں کے اعمال نماز روزہ، تسبیح، تہلیل، تکبیر اور صدقہ خیرات وغیرہ اللہ عزوجل کو بہت ہی محبوب ہیں لہٰذا ان دنوں میں بندگی و عبادت میں زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔

صحابہ نے عرض کیا کہ جہاد بھی ان دنوں کے اعمال صالحہ کے برابر نہیں ہوتا؟ فرمایا: جہاد بھی برابر نہیں ہو سکتا۔ ہاں وہ مجاہد جو جان مال لے کر جہاد کے لئے نکلے اور پھر کوئی چیز واپس نہ لائے یعنی خود بھی شہید ہو جائے اور مال بھی خرچ ہو جائے۔ ایسا جہاد ان دِنوں کے اعمال صالحہ کے برابر ہو سکتا ہے۔

اس صحیح حدیث میں اس عشرہ کی کتنی بزرگی اور عظمت ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ جو بندہ کی ایک ایک نیکی کو اتنا محبوب رکھتا ہے کہ ایک ایک نیکی پر اس کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ ہزاروں گا تک ثواب دیتا ہے۔ اس عشرہ کی نیکی کو بہت محبوب رکھتا ہے۔ یہ بحرِ رحمت کی موجیں ہیں جو عاجز بندہ کو اسکے بحرِ رحمت س خطِ وافر لینے کے لئے پکار رہی ہیں۔ کاش کہ انسان ایسے وقتوں کی قدر کرے اور کمربستہ ہو کر کچھ کما لے۔ خوش قسمت ہی وہ لوگ جو ایسے وقتوں میں بحرِ رحمت میں غوط لگاتے ہیں۔

دوسری حدیث:

عن ابن عمر قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم ما من أیام أعظم عند الله ولا العمل فیهن أحب الی الله عزوجل من هذہ الأیام یعنی من العشر

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دِس دنوں سے بزرگ و برتر اور کوئی دن نہیں ہیں نہ ان دنوں کے عمل کے برابر کسی اور دنوں کا عمل اللہ کو محبوب ہے۔

تیسری حدیث:

عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی الله علیه وسلم ما من أیام أعظم عند الله سبحانه ولا أحب إلیه العمل فیهن من هذه الأیام العشر فأکثروا فیهن من التهلیل والتکبیر والتحمید (رواہ احمد)

ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر اللہ سبحانہٗ کے نزدیک اور کوئی دن نہیں ہیں اور ان دنوں کے اعمال جیسے اللہ کو پیارے ہیں اور کوئی عمل نہیں۔ لہٰذا ان دِنوں میں لا إلہ إلا اللہ، اللہ أکبر اور الحمد للہ کثرت سے پڑھنا چاہئے۔

چوتھی حدیث:

عن ابی هریرة قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم ما من أیام أحب الی الله ان یتعبد له فیها من عشر ذی الحجة، یعدل صیام كل یوم منها بصیام سنة وقیام كل لیلة منها بقیام لیلة القدر، رواہ الترمذي وابن ماجۃ وقال الترمذي إسنادہ ضعیف

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عشرہ ذی الحجہ کی بندگی باقی ایام کی بندگی سے بہت محبوب ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔ اگرچہ اس حدیث کو امام ترمذی نے ضعیف کہا ہے۔

لیکن مذکورہ بالا صحیح احادیث سے اس کو قوت ملتی ہے نیز فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث بھی مقبول ہے۔

پس حاصل یہ ہے کہ یہ دس دن نعمتِ عظمےٰ اور برکتِ اعلیٰ ہیں۔ لہٰذا ان میں تسبیح، تحمید، تہلیل اور تکبیر، تلاوت قرآن، صوم و صلوٰۃ، صدقہ خیرات اور توہ استغفار وغیرہ کثرت سے کرنا چاہئے۔

محدثین کے نزدیک ضعیف حدیث پر عمل مندرجہ ذیل شرطوں سے جائز ہے:

۱۔ اس کا اصل صحیح حدیث سے ثابت ہو جیسا کہ اس حدیث کا اصل یعنی عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت حدیث بخاری سے ثابت ہے۔

۲۔ ضعف شدید نہ ہو۔

۳۔ متعدد طرق سے مروی ہو۔

۴۔ حرام اور حلال سے متعلق نہ ہو۔

۵۔ اِس پر عمل بطور احتیاط ہو نہ بطور اعتقاد۔ (ادارہ)

پانچویں حدیث:

عن حفصة قالت: أربع لم تکن یدعهن النبي صلی الله علیه وسلم، صیام عاشوراء والعشر وثلثة أیام من كل شهر و ركعتان قبل الفجر (رواہ النسائی)

ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ چار چیزیں ترک نہیں کیا کرتے تھے۔ ایک عاشورا کا روزہ، دوسرا عشرہ ذی الحجہ کے روزے، تیسرا ہر ماہ سے تین دن کے روزے، چوتے صبح کی دو سنتیں۔

اِس حدیث سے ثات ہوا کہ آنحضرت ﷺ عشرہ ذی الحجہ کے روزے ہمیشہ رکھا کرتے تھے۔

چھٹی حدیث:

عن أبي هریرة قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم صوم یوم عرفة یكفر سنتین ماضیة ومستقبلة

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عرفہ کے دن (نویں ذی الحجہ) کا روزہ رکھنا سال گذشتہ اور آسال آئندہ (دو سال کے) گناہوں کا کفارہ ہے۔

صحیح مسلم میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

''صیام یوم عرفة ۔۔۔۔۔ أحتسب علی الله أن یكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده۔''

یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عرفے کے روزے سے پہلے اور پچھلے سال کے گناہ معاف کر دے گا۔

استطراد:

عشرہ ذی الحجہ کی طرح ایام تشریق (ذی الحجہ کی گیارہویں، بارہویں، اور تیرہویں تاریخ) بھی بہت فضیلت رکھتے ہیں۔ ان میں قربانی جیسا پیارا عمل رکھا گیا ہے اور حاجی لوگ جمرے مارتے ہیں اور ان میں کثرتِ ذکر کا حکم قرآن و حدیث میں وارد ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

﴿وَيَذكُرُ‌وا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ...﴿٢٨﴾... سورة الحج

یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر کئی روز تک کرو۔

ایام معدودات سے مراد ایام تشریق ہیں یعنی ماہ ذی الحجہ کی گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو کثرت سے خدا کی یاد کر کے اپنے دامن برکات و فیوض سے بھر لو۔

حدیث میں ہے:۔

۱۔ عن نبیشة الهذلي قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم أیام التشریق أیام أكل و شرب و ذکر الله

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایامِ تشریق کھانے پینے اور ذِکر الٰہی کے دِن ہیں۔ یعنی ان میں ذِکر الٰہی بہت کرنا چاہئے۔

پس حاصل یہ ہے کہ ذی الحجہ کے دس دن اور ایام تشریق خدا کی نعمت عظمیٰ اور برکت علیا ہیں لہٰذا ان میں سے تسبیح، تحمید، تکبیر اور تہلیل اور تلاوتِ قرآن، صوم و صلوٰۃ، صدقہ خیرات اور توبہ استغفار وغیرہ کثرت سے کرنا چاہئے۔

۲۔ قال ابن عباس وکان ابن عمر و أبو هریرة یخرجان إلی السوق في أَیام العشر یکبران ویکبر الناس بتکبیرهما قال وکان عمر یکبر في قبة بمنی فیسمعه أَهل المسجد فیکبرون ویکبر أَهل الأَسواق حتٰی یرتج منیً تکبیرا

ابن عباسؓ صحابہ کا حال بیان کرتے ہیں کہ ابن عمرؓ اور ابو ہریرہؓ عشرہ ذی الحجہ میں اس قدر ذکر و عبادت کرتے کہ بازار جا کر بھی ذکر سے غافل نہ ہوتے اور کاروبار تجارت وغیرہ بھی ان کو غافل نہ کر سکتا۔ بازار میں تکبیریں کہتے اور بازار کے لوگ بھی غافل نہ رہتے وہ بھی ان کے ساتھ تکبیریں کہتے۔

راقم کہتا ہے کہ ایسے لوگوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔

﴿رِ‌جالٌ لا تُلهيهِم تِجـٰرَ‌ةٌ وَلا بَيعٌ عَن ذِكرِ‌ اللَّهِ وَإِقامِ الصَّلو‌ٰةِ....﴿٣٧﴾... سورة النور

یعنی ان کو اللہ کے ذکر نماز و زکوٰۃ سے کوئی چیز غافل نہیں کرتی تھی۔ خرید و فروخت بھی ان کو غافل نہیں کرتی تھی۔

ان لوگوں کی کیا ہی شانِ عالی ہے اور عجیب ہی خدا دوستی ہے اور حضرت عمرؓ منیٰ میں اپنے خیمہ میں اس زور سے تکبیریں کہتے کہ مسجد والے اور بازار والے سنتے اور سب تکبیریں کہتے حتیٰ کہ میدانِ منی تکبیروں کی آوازوں سے گونج اُٹھتا۔ یہ ہے صحابہ کا حال کہ انہوں نے خانہ اور ویرانہ میں خدائی بڑائی کے نعرے لگائے اور زمیں کے چپے چپے کو اس کی بزرگی اور عظمت سے روشناس کرا دیا۔

اس عشرہ کے اعمال صالحہ سے قربانی ایک بے نظیر و بے مثال عمل ہے جو دوسرے ایام میں ہرگز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس کے متعلق بھی کچھ عر کرنا وقت کا تقاضا اور ضروری امر ہے۔

قربانی کی حیثیت اور عظمت اسلام میں بہت ہے اور یہ وہ عبادت ہے جو ہر امت میں مختلف صورتوں میں جاری رہی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلنا مَنسَكًا...﴿٣٤﴾... سورة الحج

یعنی ہم نے ہر امت کے لئے قربانی بنائی۔

اس کی ابتدائ آدمؑ سے شروع ہوئی جیسا کہ قرآن مجید میں ہابیل اور قابیل کے واقعہ سے ظاہر ہے۔

﴿إِذ قَرَّ‌با قُر‌بانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِما وَلَم يُتَقَبَّل مِنَ الءاخَرِ‌ ...﴿٢٧﴾... سورةالمائدة

یعنی جب قربانی دی ان دونوں نے پس ایک (ہابیل) کی مقبول ہوئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی۔ قربانی سے غرض گوشت خوری نہیں۔ اگر گوشت خوری مقصود ہوتا تو پہلی امتوں پر قربانی کا گوشت کھانا حرام نہ ہوتا اور اس کو آسمان سے آکر آگ نہ جلاتی۔ آگ کا آسمان سے آکر ان کی قربانیوں کو جلانا قرآنِ مجید میں صراحۃً مذکور ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿الَّذينَ قالوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَينا أَلّا نُؤمِنَ لِرَ‌سولٍ حَتّىٰ يَأتِيَنا بِقُر‌بانٍ تَأكُلُهُ النّارُ‌ ۗ...﴿١٨٣﴾... سورة آل عمران

یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے عہد کیا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں تاوقتیکہ وہ رسول قربانی دے اور اس کو آسمان سے آگ آکر نہ کھا جائے۔

معلوم ہوا کہ ان کی قربانیوں کو آگ آکر جلایا کرتی تھی اور وہ کھایا نہیں کرتے تھے۔

اسی طرح ہابیل اور قابیل کے قصہ میں جامع البیان میں لکھا ہے:

فقرب هابیل خیر غنمه وقرب الاٰخر أبغض زرعه فجائت نار من السماء وأکلت الشاة وترکت الزرع وکان هذا علامة القبول والرد۔

یعنی ہابیل نے بہتر دنبہ یا بکری قربانی دی اور قابیل نے روی جنس جَو وغیرہ قربانی دیئے۔ آسمان سے آگ آئی۔ ہابیل کی قربانی کو جلا گئی اور قابیل کے جَو چھوڑ گئی اور یہ آگ کا آسمان سے آکر قرانی کو جلانا قربانی کے قبول و عدم قبول کی علامت تھی۔

پس معلوم ہوا کہ قربانی کی غرض گوشت خور ہی نہیں۔ نیز اگر گوشت خوری مقصود ہوتی تو اسماعیل کی قربانی کا حکم نہ ہوتا کیونکہ انسان کا گوشت ہر شریعت میں حرام رہا ہے۔ پس قربانی کی غرض گوشت خوری نہیں بلکہ کوئی اور امرِ عظیم اس کی غرض ہے۔

وہ اس طر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالم دیا کو ایک عجیب دلآویزی اور دلربائی بخشی ہے اور اس کو طرح طرح سے مزین کیا ہے اور گوناں گو نعمتوں سے بھر دیا ہے اور ایسے باغ و بہار خوش دید اور ثمراتِ لذیذ سے سجایا ہے کہ انسان کا دل ان کی دید سے فرحت اور مسرت پاتا ہے اور ثمرات سے شاد کام ہو جاتا ہے۔ ان کی لذت اور شیرینی کو کبھی فراموش نہیں کرتا اور ہمیشہ ان کامتمنی رہتا ہے اور ایسی خو شکل آراستہ پیراستہ عورتیں پیدا کیں جن کی دید سے انسان حواس باختہ اور دل پرداختہ ہو جاتا ہے۔ اور خوب صورت گل عذار دلربا معشوق پیدا کئے جن کے وصال کی تمنا میں انسان اپنی ہستی فنا کر لیتا ہے، اور ایسے محبوب بیٹے بیٹیاں عطا کیں جن کی محبت میں انسان سب کچھ فراموش کر دیتا ہے اور اپنی جان ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ یعقوبؑ باوجود پیغمبر ہونے کے اپنے بیٹے یوسف کے فراق میں نابینے ہو گئے تھے اور سونا چاندی کے خزانوں، طرح طرح کے حیوانوں، رنگا رنگ کھیتی اور مکانوں سے زمین کو ایسا سجایا ہے کہ انسا ان کی محبت میں محو ہو کر رہ گیا ہے۔ کسی نے عالی شان اور خوبصورت عمارت دیکھ کر کیا خوب کہا ہے ؎

اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں ست! ہمیں ست! ہمیں ست!


یعنی اگر روئے زمیں میں کوئی جنت الفردوس ہے تو وہ یہی ہے، یہی ہے، یہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

﴿زُيِّنَ لِلنّاسِ حُبُّ الشَّهَو‌ٰتِ مِنَ النِّساءِ وَالبَنينَ وَالقَنـٰطيرِ‌ المُقَنطَرَ‌ةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ وَالخَيلِ المُسَوَّمَةِ وَالأَنعـٰمِ وَالحَر‌ثِ... ﴿١٤﴾... سورة آل عمران

یعنی لوگ دیا کی محبت میں پھنسے پڑے ہیں، عورتوں، بیٹوں، سونا چاندی کے خزانوں، نشان لگ ہوئے گھوڑوں اور دیگر چارپایوں اور کھیتی باڑی کے دلدادہ ہو رہے ہیں۔

دوسری آیت میں فرمایا:

﴿إِنّا جَعَلنا ما عَلَى الأَر‌ضِ زينَةً لَها لِنَبلُوَهُم أَيُّهُم أَحسَنُ عَمَلًا ﴿٧﴾... سورة الكهف

یعنی ہم نے تمام چیزوں سے زمین کو مزین کیا تاکہ ہم آزمائش کریں کہ کون اچھے عمل کرتا ہے؟

ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پوری زیب و زینت سے آراستہ پیراستہ کیا اور دوسری طرف انسان میں اکل و شرب، سماع و رویت اور لباس کی طلب اور ضرورت پیدا کی جس سے انسان کا ماکولت، مشروبات، مسموعات، ملبوسات اور مرئیات کی طرف رغبت کرنا اور ان کا دلدادہ اور خواہش مند ہونا لازمی امر تا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ساری دنیا شب و روز اس کی طلب اور محبت میں سرگرداں اور حیراں و پریشاں اور مست و مجنوں ہو رہی ہے اور اس کی تحصیل کے لئے بڑے بڑے عظیم مصائب و آلام برداشت کر رہی ہے۔

دوسری طرف انسان کا اپنے اور ساری کائنات کے موجد اور خالق و مالک سے محبت کرنا اور اس کی جستجو میں متغرق ہونا بھی انسان کا فطری امر ہے۔

ایسا خوش قسمت کون ہے جو اس میں کامیابی حاصل کرے اور اس عالم دیدہ کو چھوڑ کر اور اس کی لذات کو پس پشت ڈل کر عالم شنیدہ (آخرت) اور ذاتِ غائب غیر دیدہ پر قطعی یقینی ایمان لائے اور اس پر فدا اور فریفتہ ہو کر اس کی جستجو کرے اور اس کی رضا کے لئے مرغوبات اور لذات کوفدا کر دے۔

ایسا کرنا بداہت کے خلاف ہے جیسا کہ مشہور ہے:

شنیدہ کے بود مانند دیدہ!


یعنی شنیدہ دیدہ کے برابر نہیں ہو سکتا یعنی سی سنائی چیز دیکھی چیز کے برابر نہیں ہوتی۔

بس یہ مومن کا ہی مقام ہے کہ غائب خدا پر جو بظاہر شیدہ اور غائب ہے اور اپنی صنعتوں اور قدرتوں سے دیدہ سے بھی ظاہر ہے، پختہ ایمان لا کر اس عالم دیدہ کو اس پر فدا کرتا ہے اور اس کی جستجو اور رضا حاصل کرنے میں ساری عمر اور پوری ہمت صرف کر کے اعتراف کرتا ہے۔

ما عبدنا حق عبادتك وما عرفنا حق معرفتك۔

یعنی ہم نے تیری کما حقہٗ عبادت نہیں کی اور نہ ہی ہم نے تجھے کما حقہٗ پہچانا ہے۔

اور ایثار و قربانی اور محبت و مودت اور شیدائیت و فدائیت کی وہ بے نظیر مثالیں پیش کیں کہ دیا اس کا نمونہ پیش کرنے سے عاجز ہے۔ حضرت اسماعیلؑ ذبیح کی قربانی اس کا زندہ ثبوت ہے اور صحابہ کا زندہ اور سیرت بین دلیل ہے۔

پس قربانی کی غرض شکم پرستی اور گوشت خوری نہ ہوئی بلکہ مومن کے تعلق باللہ، محبت و ایثار اور شیدائیت و فدائیت کا امتحان ہوا۔

پس اس میں بھی مومنین کے مختلف درجات ہیں جتنی کسی کی محبت اور دوستی زیادہ مضبوط ہو گی اتنا ہی اس کا امتحان اور قربانی سخت ہو گی۔ چنانچہ سیدنا حضرت ابراہیمؑ مقامِ خلت و محبت میں سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ ان کا امتحان بھی سخت ہوا، یعنی ہم سے اللہ تعالیٰ نے حیوان کی قربانی طلب کی اور سیدنا ابراہیمؑ سے لخت جگر (بیٹے) کی قربانی مانگی کیونکہ ان کی خد دوستی اور محبت کے مقابلہ میں دنیا اور اس کی کوئی چیز حقیقت نہ رکھتی تھی۔ قرآن پاک نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔

﴿فَلَمّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعىَ قالَ يـٰبُنَىَّ إِنّى أَر‌ىٰ فِى المَنامِ أَنّى أَذبَحُكَ فَانظُر‌ ماذا تَر‌ىٰ ۚ قالَ يـٰأَبَتِ افعَل ما تُؤمَرُ‌ ۖ سَتَجِدُنى إِن شاءَ اللَّهُ مِنَ الصّـٰبِر‌ينَ ﴿١٠٢﴾فَلَمّا أَسلَما وَتَلَّهُ لِلجَبينِ ﴿١٠٣﴾ وَنـٰدَينـٰهُ أَن يـٰإِبر‌ٰ‌هيمُ ﴿١٠٤﴾ قَد صَدَّقتَ الرُّ‌ءيا ۚ إِنّا كَذ‌ٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ ﴿١٠٥﴾ إِنَّ هـٰذا لَهُوَ البَلـٰؤُا المُبينُ ﴿١٠٦﴾ وَفَدَينـٰهُ بِذِبحٍ عَظيمٍ ﴿١٠٧﴾... سورة الصافات

ابراہیمؑ جب ہجرت کر کے شام پہنچے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے ایک صالح فرزند عنایت فرما۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک حلیم الطبع لڑکے کی بشارت دی تھی جو پوری ہوئی اور جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ان کے ہمراہ کاروبار میں مدد کے لئے آنے جانے لگا تو ابراہیمؑ نے فرمایا کہ: برخوردار میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو (بامرِ الٰہی) ذبح کر رہا ہوں۔ اب تم بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ وہ بولے ابا جان! امر الٰہی بجا لانے میں مشورہ کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو جو امر ہوا ہے بلا تامل پورا کر دیجئے۔ انشا اللہ آپ مجھ کو صابرین سے پائیں گے۔ جب دونوں نے خدا کے حکم کو تسلیم کر لیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا اور ذبح کر دیا تو ہم نے پکارا کہ اے ابراہیم! تو نے خواب کو خوب سچا کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں، یعنی ان کی صدق دلی نیک نیتی اور اخلاص دیکھ کر ان کو نقصان سے بچا لیتے ہیں جیسے یہاں اسماعیل کی جان بھی بچا دی اور امتحان بھی لے لیا اور ان کی بجائے قربانی کیلئے دنبہ بھیج دیا۔

باپ بیٹے کا یہ کٹھن امتحان اور بہت مشکل گھڑی تھی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حل ہو گئی اور یہ ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کا ہی مقام محبت اور درجۂ خلت تھا کہ وہ اس سخت ترین آزمائش میں بھی کامیاب ہو گئے اور قربانی کی غرض کو کامل طور پر پورا کر دکھایا اور محبت اور خدا دوستی کا بے مثال ثبوت دیا۔

اس قربانی میں جس قدر اخلاص، جذبہ محبت اور صدق دلی ہے کسی اور قربانی میں ممکن نہیں، کیوں کہ اس میں کسی قسم کا ذاتی فائدہ نہیں بلکہ بیٹے کو ذبح کرنا ہزارو دنیاوی فواد سے محرومی اور کروڑوں مسرتوں اور خوشیو کے فنا کا باعث ہے۔ ہمیں بھی اسی جذبہ و ولولہ اور محبت و اخلاص سے قربانی کرنی چاہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ فرمایا:۔

﴿لَن يَنالَ اللَّهَ لُحومُها وَلا دِماؤُها وَلـٰكِن يَنالُهُ التَّقوىٰ مِنكُم ۚ كَذ‌ٰلِكَ سَخَّرَ‌ها لَكُم لِتُكَبِّرُ‌وا اللَّهَ عَلىٰ ما هَدىٰكُم ۗ وَبَشِّرِ‌ المُحسِنينَ ﴿٣٧﴾... سورة الحج

یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانیوں کا گوشت اور ان کا خون نہیں بیچتا۔ لیکن اس کے ہاں تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اسی طرح اس نے ان جانوروں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا تاکہ تم ان کو اللہ کی راہ میں قربانی کر کے اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں قربانی کی توفیق دی اور (اے میرے حبیبؐ) اخلاص سے قربانی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔

اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قربانیوں کی کوئی چیز ہمیں نہیں پہنچتی صرف تقویٰ پہنچتا ہے۔ تقویٰ کا معنی ہے خدا کی ناراضگی سے بچنا اور دور رہنا۔ خدا تعالیٰ کی ناراضگی دو چیزوں سے ہوتی ہے۔

۱۔ خدا کا امر ترک کرنے سے جیسے ابلیس علیہ اللعنۃ نے خدا کا امر ترک کیا تو خدا ناراض ہو گیا۔

۲۔ نہی میں یعنی منہیات میں واقع ہونے سے جیسے آدم نہی میں واقع ہوئے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو گئے۔

اس آیت میں تقویٰ سے مراد امر بجا لانا اور اخلاص و محبت سے تابعداری کرنا ہے۔ قربانی سے غرض اللہ تعالیٰ کا ہماری محبت اور تابعداری کی آزمائش کرنا ہے نہ گوشت اور خون۔ سو جس کی اللہ تعالیٰ سے سچی دوستی اور پوری محبت ہو گی وہ خدا کا پورا تابعدار ہو گا۔ قربانی بھی کرے گا او دیگر جملہ امور بھی بجا لائے گا۔

قربانی کا ایک اور فلسفہ:

جس قوم میں جانی مالی قربانی کا جذبہ اور مادہ نہ ہو وہ فاتحِ دنیا اور راہنمائے وقت نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قربانی کی عادت ڈالی۔ فرصت کی کمی مانع ہے ورنہ زیادہ مفصل لکھتا۔

اب قربانی کے بارہ میں کچھ ارشادات نبوی بھی عرض کرتا ہوں۔

۱۔ عن ابن عمر قال: أقام رسول الله صلی اللہ علیه وسلم بالمدینه عشر سنین یضحي (رواہ الترمذی)

ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں اپنی زندگی کے دس سال گزارے ہیں اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔

مرقات شرح مشکوٰۃ میں ہے:

یضحي اي کل سنة فمواظبته دلیل الوجوب

یعی آپ ہر سال قربانی کرتے رہے پس آپ کا ہمیشہ قربانی کانا وجوب کی دلیل ہے۔

دو ضعیف حدیثیں بھی اس بارہ میں آئی ہیں جو مشکوٰۃ وغیرہ میں موجود ہیں۔ وجوب اور سنیت کی بحث کو ہم کسی دوسرے موقعہ کے لئے چھوڑتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں فضیلت قربانی کے فریقین قائل ہیں۔

۲۔ عن انس قال ضحّٰی رسول الله صلی الله علیه وسلم بکبشین أملحین أقرنین ذبحهما بیده وسمی وکبر قال رأیته واضعا قدمه علی صفاحهما ویقول بسم اللہ واللہ أکبر۔

حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دنبے چت کرے، سینگوں والے قربانی کیے۔ آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ مبارک سے ذبح کیا اور بسم اللہ اللہ اکبر کہا اور آنحا لیکر آپ ان کے پہلوئوں پر قدم رکھے ہوئے تھے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور بہت عمدہ اعلیٰ ہونا چاہئے اور اپنے ہات سے ذبح کرنا بہتر ہے۔

۳۔ عن ابن عباس قال بعث رسول الله صلی الله علیه وسلم ستة عشر بدنة مع رجل، الحدیث (مسلم)

ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کے ساتھ ۱۶ اونٹ قربانی کے لئے بھیجے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ایک آدمی کئی قربانیاں کر سکتا ہے اور قربانی کا مکے بھیجنا بھی ثابت ہوا۔

۴۔ اور صحیح مسلم میں آیا ہے کہ آپ نے (حجۃ الوداع کے موقعہ پر) یک صد اونٹ قربانی کیے جس کی تفصیل یوں ہے:

ثم انصرف إلی المنحر فنحر ثلثا وستین بدنة بیده ثم أعطی علیا فنحر ما غبر وأشرکه في هدیه ثم أمر من کل بدنة ببضعة فجعلت في قدر فطبخت فأکلا من لحمها وشربا من مرقھا ،الحدیث

یعنی حجۃ الوداع میں آپ قربانی گاہ میں تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ مبارک سے ۶۳ اونٹ نحر کیے۔ سولہ باقی ماندہ حضرت علی کو دیئے۔ انہوں نے ذبح کئے اور آپ نے علیؓ کو اپنی قربانی میں شریک کر لیا اور ہر قربانی سے تھوڑا تھوڑا گوشت لے کر پکایا۔ پھر آپ اور علی نے کھایا اور شوربا پیا۔

اس حدیث سے کثیر تعداد میں قربانیاں دینا بھی ثابت ہوا اور یہ بھی کہ ہر قربانی سے گوشت تھوڑا تھوڑا کھانا مستحب ہے۔

۵۔ عن زید بن أرقم قال قال أصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم یا رسول الله ما هذه الاضاحي؟ قال سنة أبیکم إبراھیم علیه السلام قالوا: فمالنا فیها یا رسول قال بکل شعرة حسنة قالوا فالصوف یا رسول الله؟ قال بکل شعرة من الصوف حسنة رواہ أحمد وابن ماجۃ

زین ارقم فرماتے ہیں کہ صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے۔ پھر صحابہ نے عرض کیا کہ ہمیں اس میں کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایاَ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ نے عرض کیا۔ پھر کیا دنبہ اونٹ کے بالوں کے عوض بھی ایک نیکی ملے گی۔ فرمایا: ہاں! ان کے ہر بال کے بدلے بھی نیکی ملے گی۔

۶۔ عن عائشة قالت: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر أحب إلی الله من إھراق الدم وإنه لیأتی یوم القیامة بقرونها وأشعارها وأضلافها وإن الدم لیقع من الله بمکان قبل أن یقع بالأرض فطیبوا بها نفسا رواہ الترمذی و ابن ماجہ

حضرت عائشہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کے دن انسان جتنے بھی نیک اعمال کرتا ہے ان سب سے اللہ کو خون کا بہانا یعنی قربانی کرنا زیادہ محبوب ہے اور قربانی قیامت کے دِن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گی اور اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے۔ پس تم اس سے دلوں کو خوش کرو یعنی بڑے ثواب کی امید رکھو۔

قربانی کی شرائط:

۱۔ عن جابر قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم لا تذبحوا إلا مسنة إلا یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضأن رواہ مسلم

یعنی نہ قربانی کرو مگر دو دانت والا۔ کھیر کے دانت جب گرتے ہیں تو سب سے پہلے دو اگلے دانت اُگتے ہیں۔ یعنی مسنہ وہ حیوان ہے جس کے کم از کم دو دانت نکل آئے ہوں۔ ہاں اگر دو دانتا جانور نہ ملے تو بھیڑ کا بچہ یا دنبہ کھیرا کر لو۔ ایسا کیرا جو ابھی دو دانتا نہ ہوا ہو اور جس کی عمر سال کی ہو یا کم از کم نو دس ماہ کا ہو۔

عن علي قال: أمرنا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اأن نستشرف العین والأذن وأن لا نضحي بمقابلة ولا مدابرة ولا شرقاء ولاخرقاء رواہ الترمذي وابو داؤد والنسائي والدارمي وابن ماجۃ إلی قوله والأذن

یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حیوان کی آنکھ کان وغیرہ دیکھ لیا کریں اور یہ کہ ہم نہ قربانی کریں اس جانور کی جس کا کان آگے یا پیچھے سے کٹا ہو یا چیرا ہو یا اس میں گول سوراخ ہو۔

۳۔ عن البراء بن عاذب أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم سئل ماذا یتقي من الضحایا فأشار بیده فقال أربعا العرجاء البین ظلعها والعوراء البین عورھا والمریضة التي البین مرضها والعجفاءالتي لا تنقي رواہ مالک واحمد والترمذي وابو داؤد والنسائي وابن ماجۃ والدارمي

برا بن عاذب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال ہوا کہ کونسا جانور قربانی کے لائق نہیں۔ آپؐ نے فرمایا لنگڑا۔۔۔۔ جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو یعنی چل نہ سکے اور دوسرا کانا۔۔۔۔ جس کا کانا پن ظاہر ہوا۔ تیسرا بیمار۔۔۔۔ جس کی بیماری ظاہر ہو۔ چوتھا دبلا۔۔۔۔ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔

اس قسم کے عیب دار جانور قربانی کرنا جائز نہیں۔ سید الانبیا ﷺ نے اعضب القرن والاذن جانور قربانی کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ اعضب سے مراد نصف یا نصف سے زیادہ کان کٹا یا سینگ ٹوٹا مراد ہے۔

اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانور کا آدھے سے کم سینگ ٹوٹا ہو یا کان کٹا ہو تو پھر گنجائش ہے لیکن یہ حکم کٹے ہوئے کان کا ہے۔ اگر کان چیرا ہو یا سوراخ ہو پھر خواہ کان کے کسی حصے میں بھی ہو۔ ایسا جانور قربانی کرنا شبہ سے خالی نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ بالکل صحیح سالم ہو تاکہ قربانی ایسا بہترین مل شبہ و شک سے بالا رہے۔ تھن مرا یا دم کٹا یا دانت ٹوٹا یا پیٹی ایک طرف جھکی ہو تو حرج نہیں۔

نوٹ:۔ سینگ کی ٹوپی اتر جائے تو جائز نہیں کیونکہ ٹوپی سارے سینگ پر ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ ٹوٹے کے حکم میں ہوگا۔

تتمہ: اب میں بطور تتمہ قربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لئے ایک ضروری ہدایت اور قربانی کے گوشت کے متعلق امت محمدیہ کے لئے خصوصی رعایت کا ذِکر کرتا ہوں۔

عن أم سلمة قالت قال رسول الله صلی الله علیه وسلم إذا دخل العشر وأراد بعضکم أن یضحي فلا یمس من شعره وبشره شیئا وفي روایة فلا یأخذن شعرا ولا یقلمن ظفرا

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہو اور تم میں جو کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ قربانی ذبح کرنے سے پہلے اپنے بال نہ بنوائے اور ایک روایت میں ہے کہ نہ بال کٹوائے اور نہ ناخن ترشوائے۔

قربانی کی غرض گوشت خوری نہ تی اور ہ وہ اس کے لئے ایجاد ہوئی تھی۔ لیکن ارحم الراحمین نے امت مرحومہ کو جہاں اور بہت سے انعامات سے نوازا ہے وہاں گوشت قربانی بھی حلال کر دیا ہے۔ قرآن میں ہے۔

﴿فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ‌ ۚ ...﴿٣٦﴾... سورة الحج

یعنی تم خود بھی قربانی کا گوشت کھائو اور سوال نہ کرنے والے اور سوالی دونوں کو کھلاؤ۔

وآخر دعوٰنا أن الحمد للہ رب العٰلمین والصلوٰة والسلام علی سید المرسلین وعلٰی اٰله وأصحابه وأزواجه وأتباعه وأهل بیته أجمعین۔

تصحیح:


ماہنامہ ''محدث'' جلد ۱، عددا میں صدقۃ الفطر۔۔۔۔ کے مضمون کی تخریج نمبر ۳ (ص ۲۳) کے آخر میں لفظ ''مسلم'' زیادہ لکھا گیا ہے۔ قارئین اسے سہو کتابت سمجھیں اور تصحیح فرما لیں۔ (ادارہ)