جامعہ لاہور الاسلامیہ میں ہونیوالے خطابات کا خلاصہ

مجلس فضلاء جامعہ، تقریب تکمیل صحیح بخاری، ردقادیانیت کورس، دورہ نحو وصرف، قرا ء وعلما ء کا استقبالیہ

جامعہ لاہور الاسلامیہ ایک قدیم وعظیم درسگاہ ہے، جس کے فیوض وبرکات چہار دانگ عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ماہ نامہ محدث بھی جامعہ کی جہود ومساعی کا ایک باب ہے۔ جامعہ کی ان خدمات کی ایک جھلک اوردو ماہ کی سرگرمیاں ہدیۂ قارئین ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ اس مبارک سلسلے اور اس کے فیوض کو تا ابد الآباد قائم رکھے۔آمین

(1) فضلاے جامعہ لاہور الاسلامیہ

کا سالانہ اجتماع2013ء

تحریر:پروفیسرآصف جاوید

ہفتہ ، یکم جون 2013ء کوجامعہ لاہور الاسلامیہ کی مسجد میں 10 بجے صبح فضلاے جامعہ کا اجلاس شروع ہوا،اجلاس کی پہلی نشست کی نقابت واستقبال کے فرائض اُستاذ جامعہ مولانا محمد شفیق مدنی ﷾ نے انجام دیے۔ اُنہوں نے اپنے بہترین تدریسی وانتظامی تجربات سے اپنے ماضی کے زیر تعلیم طلبہ اور حال کے فاضل جامعہ کو مستفید کیا۔ یاد ر ہے کہ مولانا موصوف جامعہ ہذا میں 15برس تک ناظم تعلیمات کے اہم فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔اساتذہ میں مولانا محمد شفیع طاہر فاضل مدینہ یونیورسٹی نے حاضرین کو اُن کی ذمہ داریوں، رابطے کی ضرورت واہمیت اور افادیت پر سیر حاصل معلومات سے نوازا۔ سابقہ طلبہ وسابقہ اساتذہ کی آمد کا سلسلہ جاری وساری تھا، اس دوران نمازِ ظہر سے پہلے تک چند طلبہ کے نمائندہ خطابات ہوئے، جن میں راقم الحروف، محمد سلیمان اور عبد اللّٰہ خطیب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جبکہ سابقہ اساتذہ میں مولانا طاہر محمود، حافظ عبد الستار اور قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہم اللّٰہ تعالٰے بھی اپنے شاگردوں سے ملاقات کے لئے بطور خاص تشریف لائے تھے۔اجلاس کی دوسری اور مرکزی نشست نماز ظہر کے بعد تھی، جس کی نظامت ناظم تعلیمات حافظ حسن مدنی﷾ نے کی۔

مدیرتعلیم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی کا ابتدائی خطاب

جامعہ کے ناظم تعلیمات نے تمہیدی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج بڑی مسرت کا موقع ہے کہ جامعہ کے چار عشروں پر محیط فاضلین اس مجلس میں اپنے مہربان اساتذہ کے ساتھ موجود ہیں۔ میں آپ سب حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ملاقات کی بہترین صورت اساتذہ کرام کے خیالات و افکار سے استفادہ ہے۔ اساتذہ ہی کسی تعلیمی ادارے کی اساس اور محور ہوتے ہیں۔ طلباے علوم دینیہ درحقیقت اُستاد سے کسبِ فیض کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ وہ کسی جگہ، بلڈنگ اور بہتر انتظام وانصرام کی وجہ سےہی نہیں آتے ، بلکہ درحقیقت کسی فاضل شخصیت سے کسبِ فیض کے لئے جمع ہوتے ہیں اور یہ استاد اگر کسی درخت کے نیچے بھی تعلیم وتدریس کا سلسلہ شروع کردے تو اس کے گرد بھی جمع ہوجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ جامعہ ہذا کا بنیادی امتیاز یہی ہے کہ اس میں ملک کے نامور اور فاضل اساتذه ماضی سے آج تک اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، کئی اساتذہ کرام پچھلے تین عشروں سے تواتر سے اپنی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔ اس ادارے کی انتظامیہ کو یہی اعزاز کافی ہے۔ اُنہوں نےکہا کہ اس ادارے کے کئی ایک امتیازات ہیں، اس کی رحمانیہ برانچ میں کلیہ دراساتِ اسلامیہ کی کلاسز ہوتی ہیں جس میں طلبہ کی تعداد 200 کے لگ بھگ ہے جبکہ جامعہ کی دوسری برانچ 'البیت العتیق' کے نام سے کام کررہی ہے۔ جس میں شعبہ حفظ کے ساتھ ساتھ شعبہ علوم دینیہ کی پہلی چار کلاسیں ہوتی ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ہمارے لئے یہ امر بھی باعثِ اعزاز ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں جامعہ ہذا سے درجن سے زائد طلبا کامدینہ یونیورسٹی میں داخلہ ہوا ہے او روہاں ہمارے طلبہ ہر مرحلہ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔حتیٰ کہ شعبان 1434ھ میں جاری ہونے والے سالانہ نتائج میں جامعہ کے فاضل عبد المنان نے مدینہ یونیورسٹی کے اہم ترین کلیہ شریعہ میں پہلی پوزیشن حاصل کرکےجامعہ کا نام روشن کردیا ہے۔ اسی مرحلہ پر جامعہ ہذا کے ہی حافظ محمد زبیر مدنی نے پورے شریعہ کالج میں چھٹی پوزیشن حاصل کی ہے جبکہ جامعہ ہذا کے ہی فاضل حافظ احسان الٰہی ظہیر نے عربی خطابت میں یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہ امر بھی باعث ذکر ہے کہ جامعہ کے چھ طلبہ کو مدینہ یونیورسٹی میں ایم فل کے درجے میں داخلہ کا اعزاز نصیب ہواہے۔

اُنہوں نے کہا کہ جس طرح کوئی انسان بھی معصوم نہیں ہوتا ، اس طرح کوئی ادارہ بھی خامیوں سے پا ک نہیں ہوتا۔ آپ کو دعوت دینے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ادارے سے وابستہ رہیں اور اپنے اساتذہ کرام دعوت وتبلیغ میں رہنمائی اور مثبت مشورے لیتے رہیں، انتظامیہ کو بھی اپنے بہترین مشوروں اور دعاؤں سے مستفید کریں تاکہ ہم طلبہ کو زیادہ سے زیادہ بہترماحول او رمناسب سہولیات فراہم کرسکیں۔

مختصر سی تمہیدی گفتگو کے بعد جناب مدیر التعلیم حافظ حسن مدنی صاحب نے اساتذہ کرام میں ایک ممتازشخصیت کو حاضرین سے دعوتِ خطاب دی۔

نائب شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی کا خطاب

شیخ الحدیث صاحب نے اپنی بات کا آغاز قرآنی آیت سے فرمایا:قرآنِ کریم میں اللّٰہ تعالیٰ نے ﴿انما یخشى الله من عباده العلموء﴾ارشاد فرمایا اور اس علم کا تعریفی کلمات میں ذکر کیا ہے۔ اللّٰہ کا شکر ہے کہ ہمارا شمار بھی اسی گروہ میں ہوتا ہے، لہٰذا ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم جہاں بھی جائیں علم وعمل کی خوشبو بکھیریں۔ سرکاری اداروں میں ہوں یا نیم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں، وہاں علم پھیلانے کی جستجو کریں۔ اُنہوں نےکہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے ہاتھوں مستقبل میں دین کے محافظ تیارہورہے ہیں اور علم والا شخص ایسے ہی ہے، جیسے خوشبو بیچنے والا ہے جو خوشبو بکھیرتاہی رہتا ہے،لہٰذا آپ بھی علم دین پھیلانے میں اپنی صلاحتیں کھپا دیں۔

اُنہوں نےکہا کہ ہمیں خوشی ہےکہ ہمارے طلبا اپنی شکل و صورت سے الاسلام يعلو ولايعلي کا پیکر نظر آتے ہیں، اللّٰہ ان کے باطن کو بھی اس بہتر ظاہر کے مطابق فرما دے۔ ہمیں کسی کے پیچھے نہیں جاناچاہیے بلکہ دوسروں کو اپنے اور دین اسلام کے پیچھے لگانا چاہیئے۔ اُنہوں نےکہا کہ اہل علم دراصل انبیا کے وارث ہوتے ہیں اور انبیاے کرام اپنی وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑتے بلکہ وہ علم چھوڑتے ہیں لہٰذا نماز یں پڑھانا، خطبے دینا اور قوم کی اصلاح کا کام کرنا انبیا کا کام ہے او ریہ بڑا عظیم مشن ہے ۔ یہی مشن ہمارے تعلق اور محبت کی بنیاد ہے،اللّٰہ کے لئے محبت کرنا اور اللّٰہ کے لئے بغض رکھنا سب سے افضل کام ہے ،اتنے سخت موسم میں اپنی مصروفیات سے وقت نکالنا اور سفر کی تکلیف برداشت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ حضرات کو دین اور اس ادارے، علم او راہل علم کے ساتھ محبت ہے۔اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے دین کو دنیوی مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں۔اللّٰہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے مشن کا حق ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

مولانا رمضان سلفی کے ان زرّیں ارشادات کے بعد جناب مدیر التعلیم نے فضلاے جامعہ کی نمائندگی کے لئے جامعہ ہذا سے 1997ء میں تکمیل علم کرنے والے جناب قاری صہیب احمد میرمحمدی کو اپنے خیالات پیش کرنے کی دعوت دی۔

قاری صہیب احمد میرمحمدی﷾

قاری صاحب نے اپنے خطاب میں کہاکہ اللّٰہ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں دین کے فہم وبصیرت سےنوازا ہے او رہمیں خيركم من تعلم القرآن وعلّمه کامصداق بنایا ہے،ا س پر ہمیں اللّٰہ کا شکرادا کرنا چاہیے۔ رسول اللّٰہ ﷺ رات کو اتنا قیام کیا کرتے تھے کہ آپؐ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا، آپؐ سے پوچھا جاتا تو آپؐ فرماتے کہ میں اللّٰہ کاشکرگزار بندہ نہ بنوں؟ اُنہوں نے دین اور اس مشن کے ساتھ وابستہ رہنے کو ہی عزت قرار دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ ''جاہلیت میں ہم ذلیل تھے، اللّٰہ نے اسلام دے کر ہمیں معزز بنایا ہے، اگر ہم اس کے علاوہ عزت تلاش کریں گے تو ذلیل ہوجائیں گے۔''

اُنہوں نے کہا کہ اللّٰہ کا راستہ بہت طویل ہے اور ہماری عمریں بہت قلیل ہیں: فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظراور کوئی شخص تنہا ا س راہ کو طے نہیں کرسکتا ، جب اللّٰہ تعالیٰ کی توفیق خاص ہمارے ساتھ نہ ہو۔ لہٰذا میں اپنے اور آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ ہم اس مشن پر گامزن ہوں اور آخر حیات تک اس پر گامزن رہیں۔ اللّٰہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اس علمی مشن پرصبر واستقامت کے ساتھ قائم رہنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین

اس مختصر اور نمائندہ خطاب کے بعد ڈاکٹر حافظ حسن مدنی نے تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے جامعہ ہذا میں صحیح بخاری کی تدریس فرمانے اور دیگر علوم کا فیض پھیلانے والی شخصیت شیخ الحدیث حافظ ثناء اللّٰہ مدنی ﷾کو ان الفاظ میں دعوت دی کہ میں جس شخصیت کو دعوت دے رہا ہوں، یہاں ہم سب ان کے شاگرد موجود ہیں، اور ان سے تلمذ کی یہ نسبت ہم سب کے لئے باعثِ فخر ہے۔ یہ وہ مایہ ناز شخصیت ہیں جن کا پاکستان بھر کے علماے کرام میں غیر معمولی احترام ومرتبہ پایا جاتا ہے اور جلیل القدر اہل علم ان کو 'حضرۃ الاستاذ' کے مبارک نام سے پکارتے ہیں۔

شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اللّٰہ مدنی ﷾

حافظ صاحب نے فرمایا کہ میری تربیت میں حضرت عبداللّٰہ محدث روپڑی اور حافظ عبد الرحمٰن مدنی کے والد حافظ محمد حسین روپڑی کا بہت حصہ ہے۔ میں نے حافظ محمد اسماعیل روپڑی او رحافظ عبدالقادر روپڑی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اُنہوں نےکہا کہ میں اور مدنی صاحب ، اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ 60 کی دہائی میں جامعہ اہل حدیث چوک دالگراں ، لاہور میں پڑھتے تھے۔جامعہ اہل حدیث دالگراں میں کسی افسر نے ہم سے پوچھا کہ کیا یہ تجارتی ادارہ ہے۔ ہم نے کوئی جواب نہ دیا تو ہمارے استاذ حضرت محدث روپڑی نے فرمایا: آپ نے کیوں نہ کہا: هل ادلكم عليٰ تجارة۔ کہ ہاں یہاں تجارت ہوتی ہے، لیکن دنیا کے بدلے آخرت کی۔اُنہوں نےکہا کہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے منسوب ہونے کو لوگ باعثِ افتخار سمجھتے ہیں اور ہمارے ممدوح اُستاد محدث روپڑی اس ادارہ کے نصاب ساز اورممتحن رہے ہیں او رہم نے جامعہ لاہور الاسلامیہ کا نام دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے نام پر ہی رحمانیہ رکھا تھا۔ اُنہوں نے بتایا کہ 1970ء کومیرے گاؤں سرہالی کلاں میں میرے رفقا:مولانا عبدالسلام کیلانی ، حافظ مدنی صاحب اور میں نےمشورہ کیا تھا کہ ایک علمی مجلّہ نکالنا چاہیے۔مدنی صاحب نے کہا کہ دہلی سے جو 'محدث' نکلتا تھا، اس طرز کا ہونا چاہیے او راُنہوں نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور آج محدث اُردو زبان کےمجلّات میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ مدنی صاحب کے والد محترم محمد حسین روپڑی بڑے پرہیزگار آدمی تھے، وہ مدرسے کا کھانا نہیں کھاتےتھے او رنہ ہی اپنے بچوں کو کھانے دیتےتھے۔ مدنی صاحب چار بھائی تھے اور چاروں ہی سائیکل پر مدرسہ جاتے تھے کہ شام کا سورج گھر میں غروب ہونا چاہیے۔ اُنہوں نےکہا کہ میں کئی سالوں سے عرب ممالک میں حدیث کی بڑی بڑی مجالس میں حدیث نبوی کو سبقاً سبقاً پڑھا رہا ہوں، گذشتہ برس میں نے مسنداحمد کا مدینہ منورہ میں درس دیاجس میں طلبہ علم کے ساتھ نامور اساتذہ اور پروفیسرز بھی شریک تھے ، میں نے موقع کو غنیمت جانا اور حدیث کے بعض تاریخی مقامات کا اُن سے پتا چلایا ۔ایک شخص نےبتلایا کہ اُس نے اُمّ حرام کی قبر دیکھی ہے جو قبرص کے ایئرپورٹ کے پاس ہی ہے۔ ایک شخص نےبتایا کہ باب اللد، اسرائیل میں تل ابیب ایئرپورٹ کےپاس ہی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس جگہ عیسیٰ نے دجال کو قتل کرنا ہے۔

اُنہوں نےکہا کہ میں نے مدنی صاحب او راُن کی اہلیہ کے ساتھ، جو پردے کے پیچھے ہوتی تھیں،بیٹھ کر مولانا وحیدالزمان کی شرح بخاری پر کئی مہینے لگا کر کتاب الجنائز تک کام کیا تھا، مگر پتا نہیں کہ اس کو شائع کیوں نہیں کیا جاتا؟ اُنہوں نے کہا کہ مدنی صاحب نے اپنے اوپر بے انتہا انتظامی بوجھ لاد رکھے ہیں اور ان کے پاس فرصت نہیں ہے، ورنہ اُنہیں بیٹھ کر یہ کام کرنا چاہیے۔ ان کے والد صاحب نے اُنہیں اصول کی متعدد کتابیں زبانی یاد کرائی تھیں۔ مدنی صاحب کو تصنیف وتالیف کے لئے وقت نکالنے کی اشد ضرورت ہے مگر مدنی صاحب کہتے ہیں کہ جب تک آپ پاس نہ بیٹھیں، میں علمی کام نہیں کرسکتا۔

اُنہوں نے اپنا زمانہ طالب علمی، اپنے اساتذہ کا کردار اور جامعہ کا علمی ماحول بیان کیا اوراپنے ساتھی مولانا عبدالسلام کیلانی کے بارے میں فرمایا کہ میں نے ان جیسا کوئی انسان نہیں دیکھا۔مولانا کیلانی بڑے ذہین، نکتہ رس تھے۔ ایک بار مجھ سے مدینہ منورہ میں کسی شخص نے ہمارے استاذ محدث روپڑی کی لیاقت وقابلیت کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے کہا کہ مولانا عبد السلام کیلانی نے ان سے علوم نبوت کو حاصل کیا اور ان کی عالمانہ وجاہت ، اپنے جلیل القدر استاذ کی دینی بصیرت وفراست پر شاہد ہے۔اُنہوں نے اپنے دیگر اساتذہ کا بھی ذکرِ خیر کیا۔

شیخ الجامعہ حافظ عبدالرحمٰن مدنی ﷾

مدنی صاحب نے فرمایا کہ میرے بزرگ ساتھی ، حافظ ثناء اللّٰہ مدنی نے زندگی میں علم پڑھا ہے یا پڑھایا ہے یا اپنے اساتذہ کی خدمت کی ہے۔ مگر میں نے اداروں کی خدمت کی ہے لہٰذا کوشش کے باوجود بھی میرا علم اتنا تازہ نہیں ، جتنا تازہ علم میرے ساتھی کا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اہل حدیث کا دعویٰ ہے کہ ہم کتاب و سنت کے حامل ہیں مگر بریلوی، دیوبندی اور شیعہ سب کا دعویٰ بھی یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت کے حامل ہیں لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سب ا ایک ہی مسلک ہے؟ یا ان میں کچھ فرق بھی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ان کے درمیان اجتہاد اور اتباع کے طریقہ کار کا فرق ہے۔ تابعین کے زمانہ میں حضرت سعید بن مسیّب اور ابراہیم نخعی ﷭ کے رجحان سے اہل حدیث اور اہل رائے کے دو گروہ پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان حدیث و فقہ کی بنیاد پرتقسیم کا مسئلہ نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ امام مالک اورامام بخاری علیہما الرحمۃ کو نامور فقیہ ہونے کےباوجود اہل حدیث میں شامل کیا جاتا ہے اور ابراہیم نخعی کو محدث ہونے کے باوصف اہل رائے میں شمارکیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ما اَنزل الله کا اتباع کرنا اور شریعت پرعمل کرنا ضروری ہے اور فقہ کو ما انزل الله نہیں کہا جاسکتا حتیٰ کہ ہم اجتہادِ صحیح کو بھی ما انزل الله سے تعبیر نہیں کر سکتے۔ اُنہوں نے کہا کہ افسوس ہمارے پڑھے لکھے حضرات بھی اس فرق سے واقف نہیں لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ اگر ملک میں فقہ نافذ نہ کریں گے تو انارکی پھیل جائے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا فقہ کی بجائے ماانزل اللّٰہ کو نافذ کرنے سے سعودی عرب میں انارکی پھیل گئی ہے اور اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کہاں انارکی ہے؟ حالانہ ہر جگہ شریعت کا نفاذ تھا ، کسی خاص فقہ کا نہیں۔ اُنہوں نے کہا طالبان نے امارتِ اسلامیہ افغانستان کے دستور میں حنفیت کو شریعت قرار دیا ہے جبکہ ایران نے جعفریت کو شریعت مانا ہے ، ایسے ہی ہمارےملک میں کسی جدید فقہ کو شریعت کا درجہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ وہ جدید فقہ کسی طور بھی امام شافعی یا مالک، امام احمد یا ابوحنیفہ﷭ کی فقہ سے بہتر نہیں ہوسکتی۔ اُنہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں خیر ہے کیونکہ وہاں کتاب و سنت نافذ ہے۔ شاہ عبدالعزیز کو مصری علما نے کہا تھا کہ ہم آپ کو فقہی قانون تیار کردیتے ہیں، مگر اُنہوں نے جواب دیاکہ مجھے کتاب وسنت کی موجودگی میں ضرورت نہیں ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اجتہاد کا تعلق جج صاحبان کےساتھ ہے، اُنہیں شریعت کا ماہر ہونا چاہیے تاکہ وہ کتاب و سنت کےمطابق فیصلے کرسکیں۔ کتاب وسنت کے ماہر جج وقاضی حضرات کو ایسے لوگوں کے بنائے ہوئے قوانین کا پابند نہیں ہونا چاہئے جو شریعت کی مبادیات سے بھی ناواقف ہیں لیکن رکن اسمبلی ہونے کی بنا پر قانون سازی کرتے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم اپنی جامعہ میں اسلامی شریعت اور اسلامی معیشت کے مضامین میں ایم فل، پی ایچ ڈی کروائیں گے اور عہدِ حاضر کے سودی وعدالتی نظام کو موضوعِ بحث بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی بینکاری کا تصور سُودی بینک کاری سے بھی بدتر ہے کیونکہ عام بینکاری کو عوام نے اسلام سمجھ کر نہیں بلکہ کفر سمجھ کر اپنایا تھا مگر اسلامک بینکنگ کواسلام سمجھ رکھا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ علم دراصل امتیاز اور نکھار کا نام ہے۔ آپ صاحبِ علم نہیں اگر موجودہ فتنوں کو نہیں پہچانتے۔ اُنہوں نے کہا کہ حضرت عمرؓ کے مطابق جو شخص فتنوں کونہیں جانتا، وہ اسلام کو ایک ایک ٹکڑا بنا کر توڑ دے گا۔ اُنہوں نے کہا رسول اللّٰہ ﷺ نے پورے معاشرے میں جاکر دین کا کام کیا ہے۔ ہمیں بھی مساجد ومدارس میں تعلیم وتربیت حاصل کرکے معاشرے میں جاری فتنوں کاسامنا اور مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہی میں اپنے ابناء الجامعہ کو پیغام دینا چاہتا ہوں۔

نمازِ عصر سے نصف گھنٹہ قبل یہ اجلاس دعاے خیر پر اختتام پذیر ہوا اور طلبہ واساتذہ کو پرتکلف ظہرانہ پیش کیا گیا۔ پھر اسی روز بعد نمازِ عصر جامعہ لاہور اسلامیہ (البیت العتیق) میں ہونے والی 'کتاب وسنت کانفرنس' میں فضلاے جامعہ کو بسوں کے ذریعے پہنچایا گیا۔ البیت العتیق میں نمازِ عصر سے اگلے دن نماز فجر تک جاری رہنےوالی اس کتاب وسنت کانفرنس میں مولانا حافظ عبد الغفار مدنی، قاری صہیب احمد میرمحمدی، مولاناحافظ عبد الرحمٰن مدنی، قاری عبد الحفیظ فیصل آبادی، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، مولانا سید سبطین شاہ نقوی،قاری خالد مجاہد اور مولانا عمر صدیق حفظہم اللّٰہ تعالے نے قرآن وسنت کے مختلف پہلؤوں پر تفصیلی خطابات کئے جس میں ہزاروں کی تعداد میں حاضرین نے شرکت کی اور یہ کانفرنس پورے تزک واحتشام سے انعقاد پذیر ہوئی۔ جلسہ ہذا میں نقابت کے فرائض محترم سید علی القاری (مدیر مجلّہ الاحیاء) نے انجام دیے اور جامعہ کے اساتذہ تجوید وقراء ت قاری نعیم الرحمٰن، قاری عارف بشیر اور قاری عبد السلام عزیزی حفظم اللّٰہ کی تلاوتیں بھی جلسہ میں انوارِ قرآنی بکھیرتی رہیں۔جلسہ میں نعتِ رسول ﷺ اور نظم وترانہ کے لئے بھی نامور حضرات کو دعوت دی گئی۔ جلسہ ہذا کے آغاز میں نمازِ مغرب سے قبل جامعہ لاہور اسلامیہ (البیت العتیق) میں مشکوۃ المصابیح کی آخری کلاس کے طلبہ کی اختتام مشکوٰۃ کی تقریب بھی منعقد ہوئی۔ البیت العتیق میں مذکورہ بالا تمام تر پروگرام یہاں کے مدیر التعلیم ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی نے تشکیل دیے اور ان کی ہمہ وقتی نگرانی میں بخیر وخوبی انجام پائے۔

(2) تقریب صحیح بخاری شریف

تحریر: حافظ خضر حیات

جامعہ لاہور الاسلامیہ ( رحمانیہ ) علوم اسلامیہ کی ایک عظیم درسگاہ ہے جس سے ہر سال بہت سے طلبہ علم و عرفان کی مختلف منازل طے کر کے سندِ فراغت حاصل کرتے ہیں۔

امسال بھی تقریبِ ختم بخاری کا انعقاد بڑے تزک واحتشام کے ساتھ ہوا جس میں ملک بھر سے جید علماے کرام اور سامعین عظام نے شرکت کی۔

8 جون بروز ہفتہ ، بعد نمازِ مغرب تقریب کی ابتدا ہوئی۔قاری عارف بشیر کی تلاوتِ کلام مجید کے بعد آٹھویں ؍فائنل سال کے طلبہ صحیح بخاری کی آخری حدیث پر درس لینے کے لیے جامعہ الدعوۃ السلفیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبد اللّٰہ امجد چھتوی حفظہ اللّٰہ و یرعاہ کے سامنے گول دائرے کی شکل میں اسٹیج پر بیٹھے ۔ طالبعلم قاری اظہر نذیر نے شیخ الحدیث اُستاد محترم مولانا رمضان سلفی ﷾ سے لے کر امام بخاری رحمہ اللّٰہ تک اور پھر رسول اللّٰہ ﷺ تک اپنی سند کے ساتھ آخری حدیث کی قراء ت کی اور مولانا چھتوی کے درس کی ابتدا ہوئی جس میں انہوں نے عالمانہ و فاضلانہ گفتگو کرتے ہوئے امام بخاری کی علمی جلالت پر روشنی ڈالی اور صحیح بخاری کا اُمّت ِمسلمہ کے ہاں کیا مقام ہے اس کو واضح کیا اور ساتھ ساتھ دفاع بخاری وصحیح بخاری کے حوالے سے بھی علمی نکات پیش کئے۔ بخاری کی آخری حدیث پر سند و متن ہر دو اعتبار سے محققانہ گفتگو کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ اپنی بات کو سمیٹا۔

اُن کے خطاب کے دوران محقق دوراں مولانا ارشاد الحق اثری﷾ سٹیج پر تشریف فرما تھے، جبکہ جامعہ کے اساتذہ اورلاہور شہر کے علما بڑی تعداد میں ہمہ تن گوش تھے۔اسی دوران مدیر الجامعہ مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی حفظہ اللّٰہ و متعنا بطول حیاتہ بھی تشریف لا چکے تھے۔ اُنہوں نے تقریب میں تشریف لانے والے علما و فضلا کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور پھر صحیح بخاری سے اپنی وابستگی اور شغف کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ اُمت مسلمہ اور خاص کر طالبانِ علوم نبویہ کو کون کون سے چیلنج درپیش ہیں اور ان کا مقابلہ کیونکر کیا جاسکتا ہے۔ اُنہوں نے اس دعائیہ خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ اللّٰہ اُن سے زیادہ سے زیادہ دین کا کام لے لے۔

تقریب کے تیسرے مقرر نامور محقق اور مشہور مصنف کتبِ کثیرہ مولانا ارشاد الحق اثری ﷾ تھے جن کا موضوع امام بخاری اور ان کی صحیح پر کیے گئے اعتراضات کی نقاب کشائی کرنا تھا ۔ اُنہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ منکرین حدیث حدیث کا انکار کیوں کرتے ہیں؟ اُنہوں نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کی حضرت ابو ہریرہ ،امام زہری اور امام بخاری  کو منکرین حدیث اس لیے ہدف تنقید بناتے ہیں کیونکہ علم حدیث میں جس قدر ان ہستیوں کی جہود نمایاں ہیں،کسی اور کی نہیں ۔ حضرت ابوہریرہؓ صحابہ کرام میں روایتِ حدیث کے حوالے سے امتیازی شان رکھتے ہیں جبکہ امام زہری  تابعین میں بلند پایہ مقام کے حامل ہیں اور امام بخاری  کی کتاب'أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ' کے عظیم الشان لقب سے ملقب ہے۔

لاہور کی اس عظیم مادرِ علم میں تقریب بخاری شریف کے موقع پر بڑے مدارس کے شیوخ الحدیث کوخطاب کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ چنانچہ مشہور محقق ومناظراور مفتی مولانا ابو الحسن مبشر احمد ربانی ﷾ نے اس بات پر تفصیلی گفتگو کی کہ کس طرح بعض مذہبی حلقے تقلید کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر احترامِ علما کے نام پر حدیث رسول سے اِعراض اور عملاً اس کی توہین کرتے ہیں۔ حدیثِ رسول ﷺکے ساتھ اس ناروا سلوک کی اُنہوں نے کتب فقہ حنفیہ سے با حوالہ بہت ساری مثالیں بھی پیش کیں۔

رات کے تقریبا گیارہ بج چکے تھے، عِشاء اور عَشاء دونوں میں تاخیر ہورہی تھی لہذا نقیبِ محفل سید علی القاری ﷾ نے کچھ دیر کے لیے تقریب کی کاروائی کو روکا اور شرکاے محفل کو کھانے کی دعوت دیتے ہوئے نمازِ عشا ادا کرنے کا کہا اور بتایا کہ جلد ہی دوبارہ تقریب حسبِ سابق رواں دواں ہو گی۔

شرکاے محفل نے نمازِ عشا محترم جناب قاری حافظ حمزہ مدنی ﷾کی اقتدا میں ادا کی جنہوں نے حجازی لہجے میں تلاوتِ قرآن سے ایک روحانی سماں پیدا کردیا۔

نمازِ عشاء سے فراغت کے بعد ایک دفعہ پھر یہ علمی مجلس سجی اور تلاوتِ کلام پاک کے بعدجامعہ محمدیہ اوکاڑہ کے شیخ الحدیث محترم جناب حافظ عبد الغفار المدنی ﷾کا ناصحانہ خطاب ہوا جس میں اُنہوں نے اپنی رواں بیان کے ذریعے علمی و عوامی ہر دو طریقوں سے اتباعِ قرآن و سنت کی اہمیت کو اُجاگر کیا اور بتایا کہ آج ان دونوں کو چھوڑ کر ہم کس طرح گمراہی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔

اس کے بعد راقم نے جو اِن دنوں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، عربی زبان میں اپنی مادرِ علمی اور اپنے اساتذہ کی خدمت میں کلماتِ شکر وتقدیر پیش کیے اور اس بات کا اعتراف کیا کہ کس طرح جامعہ کے منتظمین اور اساتذہ نے ان تھک محنتیں اور کوششیں کرکے ان کی زندگی بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس بات کا تذکرہ بھی کیا کہ ابناء الجامعہ کس طرح مدینہ منورہ میں بھی مختلف تعلیمی ودعوتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے اور جامعہ کا نام روشن کیے ہوئے ہیں۔

رات ساڑھے بارہ بجے دستار بندی اورتقسیم اسناد کا مرحلہ آیا تو مہمانان سے سندِ فضیلت پانے والوں کو مختلف انعامات واکرامات اور شیلڈز سے نوازا گیا۔

اس کے بعد جامعہ ہذا کے استاذ جناب قاری عبد السلام عزیزی ﷾نے اپنے مخصوص لہجے میں تلاوتِ قرآن پیش کی تو سامعین تسبیح و تہلیل کی صدائیں بلند کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اس علمی محفل کا آخری دور شروع ہوا تو جامعہ ہذا کے شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی ﷾ نے حجیتِ حدیث اور اعتصام بالکتاب والسنہ پر زبردست نکات بیان کیے اور کہا کہ قرآن میں جگہ جگہ احادیث رسول کا حوالہ دیا گیااور ان کی طرف رہنمائی کی گئی ہے اور قرآن اسی بات کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو حجّت ہو لہٰذا منکرین حدیث انکار حدیث کے ساتھ ساتھ انکارِ قرآن کے جرم عظیم کا بھی ارتکاب کرتے ہیں۔انہوں نے اُمت میں اختلاف اور فرقہ واریت کو زہر قاتل قرار دیتے ہوئے قرآن وحدیث کی اساس پر سب کو متحد ہونے کی تلقین کی۔ شیخ محترم کے کلمات ختمہ مسک ثابت ہوئے اور نیک تمناؤں ودعاؤں کے ساتھ علمی مجلس رات گئے برخاست ہوئی۔

(3) ردِّقادیانیت کورس

تحریر:ابوعبداللّٰہ طارق

عقیدہ ختم نبوت اسلام کے اساسی عقائد میں سے ہے۔اللّٰہ عزوجل نے سلسلۂ انبیا کے آخر میں محمد رسول اللّٰہﷺ کو خاتم النّبیین کی حیثیت سے مبعوث فرماکر نبوت کے خوبصورت محل کی تکمیل فرماتے ہوئے بعثت کے اس پاکیزہ سلسلہ کو آپؐ پر ختم کردیا اور وحی کا سلسلہ بھی آپﷺ کی وفات کے ساتھ ہی منقطع ہوگیا اور بلا شبہ ختم الرسُلﷺ کے بعد ہر مدعئ نبوت مفتری اور کذاب و دجال تو ضرور ہے لیکن ہادی صراط ِ مستقیم کبھی نہیں ہوسکتا اور ایسے دجالوں کو ان کے اس انجام سے جس کے وہ مستحق ہیں، دوچار کرنے کے لئے اُسی علمی و عملی کردار کی ضرورت ہے جو جان نثارانِ ختم نبوت؛ صحابہ کرامؓ نے اَسود عنسی اور مسیلمہ کذاب جیسے دجالوں کو نمونۂ عبرت بنانے کے لئے ادا کیا اور ان مبارک ہستیوں نے اس طرح فتنوں کا قلع قمع کرکے لوگوں کے ایمان محفوظ بنائے ۔عوام کو ان گمراہیوں سے بچانے اور تحفظ ختم نبوت کی شمع دلوں میں روشن کرنے کے لئے ہمارے اسلاف ائمہ و علما نے جو عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہیں، اُنہیں آئندہ نسلوں تک پہنچانا علماے کرام کے ذمہ ایک اہم فریضہ ہے، خصوصاً انگریز کے کاشتہ فتنۂ قادیانیت کے ردّ میں اپنے مسلم اکابر کی روایات کو زندہ کرتے ہوئے اس شجرہ خبیثہ کو جڑ سے اُکھیڑنے اور عوام کو اس فتنے سے بچانے کے لئے ایسے نوجوان اہل علم جو علمی و عملی میدان میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں، کی کھیپ تیار کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اسی ذمہ داری کو بجا لاتے ہوئے جامعہ کے مدیر التعلیم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ﷾نے اس سال مدارسِ دینیہ میں سالانہ تعطیلات کے موقع پر جامعہ لاہور الاسلامیہ میں 'ردّ قادیانیت کورس' کے انعقاد کا فیصلہ کیا اور اس کو طلبہ کے لئے مفید تر بنانے کی غرض سے رمضان المبارک سے قبل ختم نبوت کے ماہر علما واسکالرز پر مشتمل ایک مجلس مشاورت منعقد ہوئی جس میں جناب مدیر التعلیم، شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی، اُستاذ العلماء مولانا محمد شفیق مدنی، نائب مدیر التعلیم مولانا حافظ شاکر محمود ، پروفیسر محمد اکرم نسیم ججہ، مناظر اسلام مولانا خاور رشید بٹ ، پروفیسر سمیر ملک ، نو مسلم ماہر قادیانیت (سابق قادیانی) محترم عرفان محمود برق ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ قاری ریاض احمد فاروقی ، مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم شعبہ تبلیغ لاہور مولانا عبدالعزیز ، ماہر قادیانیت محترم جناب قیصر مصطفیٰ اوردیگر احباب نے شرکت فرمائی اور کورس کو بہتر بنانے کے لئے تجاویز وآرا کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات سے بھی آگاہ کیا، جس کو مدنظر رکھتے ہوئےانتظامیہ نے پروگرام کو حتمی شکل دینے کے علاوہ مجلس میں تجویز کردہ ایسی کتب خریدنے کا بھی اہتمام کیا جو کہ عقیدہ ختم نبوت اور ردِّقادیانیت کے موضوع پر طلبہ کے مطالعہ کو وسعت دینے کے لئے از حد ضروری تھیں۔ان حضرات سے دوران مشاورت جہاں اس کورس کی سرپرستی کی گذارش کی گئی وہاں اُن سے اس سلسلہ میں مفید ترین کتب کی نشاندہی اور محاضرات کے اہم موضوعات کی سفارشات کا بھی تحریری تقاضا کیا گیا۔

تحفظ ختم نبوت کے ان مجاہدین نے درج ذیل کتب کی مشترکہ طور پر نشاندہی کی جن کو جامعہ کی لائبریری میں طلبہ کے استفادے کے لئے خرید لیا گیا، قادیانیت کے خلاف نمائندہ کتب کے نام حسب ذیل ہیں:

1. محمدیہ پاکٹ بک مولانا عبد اللّٰہ معمار

2. شہادۃ القرآن مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی

3. حیات مسیح حیات مرزا پروفیسر اکرم نسیم ججہ

4. احتسابِِ قادیانیت 50 جلدیں

5. قادیانیت اپنے آئینے میں صفی الرحمٰن مبارکپوری

6. مرزا قادیانی کی مکمل کتب : روحانی خزائن،تذکرہ، ملفوظات، مکتوبات، مجموعہ اشتہارات، اور سیرۃ المہدی وغیرہ

7. تحفہ قادیانیت 6 جلدیںمولانا یوسف لدھیانوی

8. قادیانی شبہات کے جوابات3 جلدمولانا اللّٰہ وسایا

9. رد قادیانیت کے زریں اُصول مولانا منظور چنیوٹی

10. اسلام اور مرزائیت علامہ احسان الٰہی ظہیر

11. قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ پروفیسر الیاس برنی

12. ثبوت حاضر ہیں محمد متین خالد

13. قادیانیت سے اسلام تک

14. پارلیمنٹ میں قادیانی شکست محمد متین خالد

15. قادیانیت اسلام اور سائنس عرفان محمود برق

16. کامیاب مناظرہ متین خالد

17. قادیانی فتنہ کا تعاقب شاہد حمید

18. رئیس قادیان رفیق دلاوری

19. تاریخ احمدیت دوست محمد شاہد

قادیانیت کی تردید کےلئے محاضرات کے مرکزی عنوان درج ذیل تجویز کئے گئے:

1. مرزا غلام احمد قادیانی کی شخصیت، دعوے، تحریک اور انجام

مِرزا کی تاریخ، اخلاقِ مرزا

تاریخ اہل حدیث در ردِّ مرزائیت

مرزائیت اور جہاد، مرزائیت اور انگریز

مرزائیت اور اقبال،مرزائیت اور پاکستان

مرزائیت اور کشمیر

دورِ حاضر اور قادیانیت

2. قادیانیوں کے عقائد

قادیانی کافر کیوں؟

مرزا کی گستاخیاں

اہل قبلہ کی تکفیر

قادیانی عقائد

3. قادیانیوں کے مسلمانوں سے مسائل اختلاف

مسئلہ حیات ووفات مسیح

امکان نبوت وختم نبوت

مرزا کی حقانیت کے دلائل اور ان کی حقیقت

مرزا کی پیشین گوئیاں

4. مرزا کے دعوے

الہاماتِ مرزا.... کیا مرزا مسیح موعود ہے؟

کیا مرزا مہدی ہے؟...کیا مرزا نہیں ہے؟

کیا مرزا مجدد ہے؟

5. مرزا کے خلاف کتب کا تعارف

مولانا ثناء اللّٰہ امرتسری کی کتب کا تعارف

شہادت القرآن از مولاناابراہیم میر سیالکوٹی

محمدیہ پاکٹ بک اور تعارف

6. مرزا کے حواری و خلفا

مرزائی خلافت اور اس کی حقیقت

مرزائی خلفا کی سیرت و کردار

تعارف... مرزا کے حواری

7. قادیانیوں کے خلاف مشہور مناظرے

مولانا ثناء اللّٰہ امرتسری کے ساتھ آخری فیصلہ

8. فرق

قادیانی اور لاہور گروپ میں کیافرق؟

بہائیت اور مرزائیت کا تقابل

چونکہ دور نحو و صرف اور ختم نبوت کورس دونوں کو دورانِ رمضان ساتھ ساتھ چلانے کا انتظام کیاگیا تھا، اس لئے ردِقادیانیت کورس کے لئے رمضان میں پہلے تین ہفتوں کے دن مختص کئے گئے جن میں روزانہ چار لیکچر ہوتے، تین صبح 8 بجے تا اذانِ ظہر اور ایک نمازِ عصر کے بعد ، تاہم آخری دن پانچ لیکچر ہوئے۔ آخری لیکچر میں سوال وجواب کی نشست بھی ہوتی۔

4؍رمضان المبارک1434ھ بمطابق13 جولائی 2013ء بروز ہفتہ مرزا کی تاریخ اور حالات پر سیالکوٹ سے تشریف لانے والےپروفیسر محمد اکرم نسیم ججہ کے لیکچر سے پروگرام کا آغاز ہوا جس میں مرزائی کتب کے حوالے سے مرزا قادیانی کے خاندانی حالات، مرزا کی پیدائش اور تاریخ پیدائش، اس کا بچپن اور تعلیم، شادی، باپ کی پنشن کی رقم اُڑا کر عیاشی کرنا، اور پھر اس کی پاداش میں گھر سے بھاگ کر سیالکوٹ کچہری میں ملازمت،خاندانی جائداد کی بازیابی کے لئے مقدمہ بازی، دینی کتب کا مطالعہ، اس دور میں ہندوستان کے لوگوں کی مذہبی حالت اور مرزا کی غیر مسلموں کو مذہبی معاملات میں چیلنج اور اشتہاربازیاں، براہین احمدیہ کی تالیف، دوسری شادی، اولاد او رپہلی بیوی کو طلاق، محمدی بیگم سے شادی کی خواہش و کوشش بلکہ جتن، مریدوں سے بیعت لینا، مرزا کو لاحق امراض اور گھریلو حالات سمیت مرزا کی زندگی کے مختلف گوشے مرزائی کتب کے حوالے سے بےنقاب کرتے ہوئے فاتح قادیان مولانا ثناء اللّٰہ امرتسری  کے ساتھ مرزا کے آخری فیصلہ اور پھر اس میں مرزا کی طرف سےتجویز کردہ مرض وبائی ہیضہ کے ساتھ عبرتناک انجام سے دوچار ہوتے ہوئے مرزا قادیانی کی موت کو بیان کیا گیا جو مرزا کے مفتری اور کذاب و دجال ہونے پر کھلی نشانی ہے۔ ان کے بعد دوسرے مدرّس ومحاضر حافظ عطاء الرحمٰن علوی نے تدریسانہ انداز میں، مرزا کے اخلاق و کردار کےعنوان پر لیکچر دیتےہوئے اس کے جھوٹ، وعدہ خلافی، مکاری ودغابازی وغیرہ انتہائی گھٹیا قسم کے خصائل جو کہ مرزا کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھے، مرزائی کتب کے حوالوں سے بیان کیے اور پھر قرآن میں موجود اہل اللّٰہ کی صفات کےساتھ ان کا موازنہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایسے اوصافِ خبیثہ اولیاء الشیطان میں پاتے جاتے ہیں نہ کہ اللّٰہ کے نبی ، ولی ایسے کردار کے حامل ہوتے ہیں۔

دیکھیں مرزا کس طرح لوگوں کا مال بٹورنے کے لئے اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کا نعرہ لگاکر ایسے تین سو دلائل جن کو کوئی توڑ نہیں سکتا، پر مشتمل 50 حصوں میں براہین احمدیہ نامی کتاب لکھنے کا اعلان و وعدہ کرتا اور غیر مسلموں کو چیلنج بھی کرتا ہے او رمسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرتا ہے کہ یہ اسلام کا وکیل ہے۔ اور لوگوں سے اس کی پیشگی قیمت وصول کرلیتا ہے بلکہ فنڈ بھی اکٹھا کرتا ہے لیکن بڑی مشکل سے پانچ حصے لکھ کر بس ہوجاتی ہے جبکہ ان پانچ کا بھی حقیقت سے تعلق نہیں اور جب لوگ رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں جواب ملتا ہے کہ یہ پانچ اصل میں پچاس ہی ہیں کیونکہ پانچ اور پچاس میں فرق صرف ایک صفر کا ہی تو ہے۔

محترم عرفان محمود برق کے لیکچر کا عنوان تھا 'قادیانی عقائد اور ان کا کفر' جسےاُنہوں نے خطیبانہ اور عقیدہ ختم نبوت کی محبت میں ڈوب کر بیان کرنے کے ساتھ اپنے قبول اسلام کی داستان اور اسباب اور قادیانیوں کے مسلمانوں کے متعلق غلیظ نظریات اور نفرت کو بیان کرنے کےساتھ ساتھ قادیانیوں کے طریقہ واردات کو بھی کھول کر بیان کیاکہ وہ کس طرح مسلمانوں کو مرتد بناتے ہیں۔انہوں نے مختلف دلائل سے مرزا کے گھر اور اس کے نام نہاد خلفا میں ہونے والی حرام کاریوں کو بھی واضح کیا۔ نمازِعصر کے بعد حافظ عتیق الرحمٰن علوی نے 'دعاوی مرزا' کے عنوان پر تدریسانہ انداز کو اپناتے ہوئے مرزا کے دعویٰ جات کو تین اَدوار میں تقسیم کرکے بیان کیا۔1878ء میں مضمون نگاری، اشتہار بازی سے مرزا نے شہرت حاصل کی۔البتہ مرزا کے دعاوی کے اعتبار سے پہلا دور1880ء تا 1890ءہے۔ 1880ء میں ملہم ومحدَث ہونے اور پھر اپنے مجدد ہونے کے ساتھ ساتھ مسیح کی طرز پر مامور ہونے اور مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا۔ دوسرا دور 1891ء تا 1900ء ہے۔ 1891ء میں فتح الاسلام، توضیح المرام اور ازالۂ اوہام نامی کتب میں عیسیٰ مسیح کی وفات کا عقیدہ اپناکر ایک نئی بحث چھیڑ دی اور اپنے لئے مسیح موعود اور مہدی معہودہونے کا دعوی کردیا کہ مسیح جن کی آمد کا احادیث میں تذکرہ ہے وہ میرا ہی تذکرہ ہے اور یہ کہ مہدی بھی نہیں ہوگا لیکن بعد ازاں کہنے لگےکہ مسیح اور مہدی دو شخصیات نہیں ہیں بلکہ ایک ہی انسان ہے اور وہ میں ہوں اورجب اعتراض ہوا کہ عیسیٰ کی ماں تو مریم ہے جبکہ مرزا کی ماں کا نام چراغ بی بی ہے تو مرزا نے مریم ہونے کا دعویٰ کردیا اور پھر خود مرزا صاحب کو حمل ہوگیا جو دو سال سے زائد عرصہ رہا اور پیدائش اس طرح ہوئی کہ مریم اندر ہی اندر عیسیٰ بن گیا اور ایک دن کا بچہ یک دم پچاس سال کا مرزا قادیانی بن گیا۔ اسی دوران مسیح و مہدی کے علاوہ مرزا نے اپنے لئے نبی بمعنیٰ محدث کے الفاظ بھی استعمال کرنا شروع کردیئے۔ تیسرا دور 1901ء تا 1908ء ہے۔ 1901ء میں اُمتی نبی اور بروزی نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر صاحبِ شریعت بھی بن بیٹھا حتیٰ کہ خدائی دعوے بھی کر ڈالے۔

11؍رمضان المبارک1434ھ بمطابق ہفتہ 20جولائی کو پروگرام کا آغاز ، مرزا کی پیشین گوئیاں اور الہامات کے عنوان پر محترم جناب قیصر مصطفیٰ کے لیکچر سے ہوا۔ اُنہوں نے کہا کہ مرزا قادیانی کے بقول اس کے صدق و کذب کو جانچنے کے لئے اس کی پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں اور یہ کہ پیش گوئی وہ ہے جو پیش گوئی کرنے والے کی صدق و کذب کی دلیل ہو نہ کہ خود دلیل کی محتاج ہو۔

مرزا کی بیوی حاملہ تھی، موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس نے اپنے ہاں بیٹا پیدا ہونےکی پیش گوئی کردی جو کہ بڑی جلدی بڑھے گا، خیر و برکت کا باعث ہوگا ،پرشکوہ و عظمت ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ تین کو چار کرنے والا ہوگا وغیرہ وغیرہ اور اس سے بہت اُمیدیں وابستہ کرکے بڑی اشتہار بازی اور اعلانات کرنے کے ساتھ ساتھ الہام کا دعویٰ بھی کردیا لیکن لڑکے کی بجائے لڑکی پیداہوگئی۔ پھر طرح طرح کی تاویلات او رحیلے سازیاں کرنے لگا۔ بالآخر جب مرزا کا آخری بیٹا مبارک احمد پیدا ہوا تو مرزا نے اسے اس پیش گوئی کا مصداق قرار دے دیا اور جب وہ بیمار ہوا تو اسے بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن وہ بھی تقریباً 9سال کی عمر میں مرگیا تو مرزا کی ساری اُمیدیں خاک میں مل گئیں اور اس کا کذاب ہونا ایک بار پھر دنیا پر واضح ہوگیا۔

اسی طرح مرزانےاپنے ایک رشتہ دار کی بیٹی محمدی بیگم نامی لڑکی سے خدا کے 'الہام کے مطابق' شادی کی پیش گو ئی کردی اور اس کے لئے بڑےجتن کیے بلکہ مرزا کے الہامات کےمطابق آسمان پر خدا نے یہ شادی مرزا سے کردی تھی لیکن اس لڑکی کی شادی مرزا کی بجائے سلطان احمد نامی ایک آدمی سے ہوگئی تو پھر مرزا کو الہام ہونے لگے کہ اس کا خاوند اڑھائی سال کے عرصے میں مرجائے گا او ریہ لڑکی مرزا کے عقد میں آجائے گی لیکن یہ بستر عیش بھی مرزا کے لئے سج نہ سکا اور شادی کی حسرت دل میں لئے مرزا دنیا سے چل بسا جبکہ وہ عورت مرزا کے بعد بھی لمبا عرصہ زندہ رہی اور صاحبِ اولاد بھی تھی۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ قاری ریاض احمد فاروقی نے'مرزا کی گستاخیاں'کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے مرزائی کتب کے حوالہ جات سے بیان کیا کہ مرزا نے حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللّٰہ عنہا، حضرت عیسیٰ ، رسول کریمﷺ او راللّٰہ تعالیٰ کی گستاخیاں کی ہیں ، حتیٰ کہ خدا ہونے کے دعوے بھی کیے۔مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں: ''قادیانیت اپنے آئینے میں'' از مولاناصفی الرحمٰن مبارکپوری

مجاہد ختم نبوت جناب متین خالد نے'قادیانیوں کی قانونی اور آئینی حیثیت' کے عنوان پر بیان کرتے ہوئے ابتدا میں بعض ایسے واقعات اور حوالہ جات پیش کئے جن سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قادیانیوں کو کافر قرار دینا کیوں ضروری تھا اور پھر کیسی جدوجہد اور پارلیمنٹ میں کس طرح اُن کو کافر قرار دیا گیا اور آئین کی کون کون سی شق کس طرح اُن پر لاگو ہوتی ہیں ، اِسے واضح کرتےہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہ لوگ پاکستانی قانون تسلیم نہیں کرتے اور اِس کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اب بھی آئین کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ اُنہوں نے مدیر محدث اور جامعہ کی انتظامیہ کو بھی توجہ دلائی کہ وہ حکمرانوں تک آواز پہنچا کر اس قانون شکنی کی طرف اُن کی توجہ مبذول کروائیں۔

نمازِ عصر کے بعد مناظر اسلام مولانا خاور رشیدبٹ نے حیات و وفات اور نزولِ مسیح کے موضوع پر بڑی مدلل اور تفصیلی گفتگو فرمائی جس میں قادیانی حضرات کی طرف سے پیش کیے جانے والے شبہات کوایک ایک کرکے وائٹ بورڈ پر لکھتے اور قرآن وحدیث اور خود مرزا کی کتابوں سے ان کے جوابات باحوالہ بیان فرماتے۔ جوابات پر قادیانی سوالات و اعتراضات اور پھر اُن کے جواب الجواب بھی بتاتے۔ لیکچر میں خالص مناظرانہ اورعلمی رنگ ہونے کے باوجود بیان اور سمجھانے کاانداز عام فہم اورتدریسانہ تھا۔

کورس کے آخری دن 27 جولائی کو پروفیسر سمیر ملک صاحب نے ''قادیانی سوالات و اعتراضات او ران کے جوابات''کو قادیانیوں کے ساتھ نیٹ پر ہونے والے اپنے مباحثوں کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے انتہائی دلچسپ بنا دیا۔ اُنہوں نے بیان کیا کہ ایک مرزائی مناظر کہنےلگا کہ یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ آسمان پر چڑھ گیا ہے۔ کہاں ہے عیسیٰ؟ کدھر گیا ہے؟ تو میں نے کہاکہ جدھرحضرت موسیٰ گئےہیں اُدھر ہی حضرت عیسیٰ ۔ تو وہ کہنے لگا کہ بس مسئلہ حل ہوگیا ہے کیونکہ موسیٰ تو فوت ہوچکے ہیں لہٰذا عیسیٰ بھی فوت ہوگئے، تو میں نے کہا کہ مرزا نےروحانی خزائن 8؍69 میں لکھا ہے کہ موسیٰ مرد خُدا آسمان پر گیا اور اسے موت نہیں آئی، تو وہ قادیانی مناظر حوالہ چیک کرنے کے باوجود لاجواب ہوگیا اور میدان سے بھاگ گیا۔

تضاداتِ مرزا کے عنوان پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کےمرکزی مبلغ و راہنما سیداَنیس شاہ صاحب کا خطاب تھا لیکن وہ تشریف نہ لاسکے اور ان کی بجائے عالمی مجلس کے ہی مبلغ مولانا منیراحمد نے بیان فرمایا اور قادیانی مزاج اور طریقہ گفتگو کےمتعلق قیمتی معلومات بہم پہنچائیں۔

اُن کے بعد محترم جناب عرفان محمود برق نے 'قادیانی اور لاہوری گروپ؛ اختلاف اور وجہ اختلاف' کے موضوع پر پُرجوش خطاب فرماتےہوئے واضح کیا کہ لاہوری گروپ کا لیڈر محمد علی لاہوری مرزا کے قریبی ساتھیوں میں سے تھا اور مرزا کے پہلےخلیفہ حکیم نور الدین کی موت تک اُن کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں تھا اور نور دین کے بعد بھی ان کا مذہب اور عقائد میں اختلاف نہیں ہوا تھا بلکہ خلیفہ کے انتخاب کے حوالے سے سیاسی اختلاف ہوا جس میں مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیرالدین محمود صرف ایک ووٹ سے جیت کر خلیفہ بن گیا جبکہ محمد علی ہار گیا اور لاہور منتقل ہوکر اس نے اپنا ایک علیحدہ مرکز اور گروہ بنا لیا۔ پھر اپنی شناخت کے لئے کچھ اختلاف بنالئے گئے اور کچھ بن گئے اور راولپنڈی میں ان کا مشہور مناظرہ بھی ہوا تھا جس میں گھر کے بھیدی محمد علی نے مرزا محمود کے کردار کی حقیقت خوب آشکار کرکےثابت کیا کہ ایسا آدمی خلیفہ بننے کا اہل نہیں ہے۔

قادیانیت کے خلاف درجنوں کتب کے مصنف محترم جناب طاہر عبدالرزاق نے 'قادیانی سازشیں' کے عنوان پر گرج دار لب و لہجہ میں خطاب فرماتے ہوئے صحابہ کرامؓ کی تحفظِ ختم نبوت کےلئے لازوال قربانیوں ، اسود عنسی کو قتل کرنے اور ماضی میں اُمتِ مسلمہ کے جرأت مندانہ کردار کوبیان کرتےہوئے قادیانی فتنہ سے عوام کو بچانے پر زور دیا۔اُنہوں نے کہا کہ سیدنا عمر فاروق نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہما سے اپنی زندگی بھر کے بدلے اُن کے ایک دن اور ایک رات کا عمل کا مطالبہ کیا تھا، اور وہ دونوں صدیقی عمل رسالت مآب کے تحفظ کے حوالےسے ہیں: ہجرت کے ساتھی اور اس دوران رسول کریم کے مدافع اور مسیلمہ کذاب کے خلاف لشکر کشی پر اصرار ... اس سے تحفظ رسالت کے عقیدہ کی اہمیت آشکار ا ہوتی ہے۔

نمازِ عصر کے بعد اس پروگرام کے آخری لیکچر میں مناظر اسلام مولانا خاور رشیدبٹ صاحب نے 'مرزا کی حقانیت کےدلائل اور ان کی حقیقت' کےعنوان پراپنے مخصوص مناظرانہ اور تدریسی و علمی انداز میں قرآن مجید کی آیت ﴿فَقَد لَبِثتُ فيكُم عُمُرً‌ا مِن قَبلِهِ﴾ سے مرزائیوں کے استدلال کو توڑتے ہوئے مرزائی کتب کے حوالوں سےمرزا قادیانی کے بعض واقعاتِ زندگی پیش کیے جو کہ اس کے مجدد و مسیح ومہدی اور نبی کے معیار پر پورا نہ اُترنے کے واضح ثبوت تھے۔

اسی طرح مرزا کی حقانیت کے لئے سنن دارقطنی کے حوالے سے ایک روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نےفرمایا کہ مہدی کی زندگی میں یکم رمضان کو چاند گرہن اور نصف رمضان کو سورج گرہن ہوگا۔ اور مرزا کی زندگی میں ایسے ہوا ہے لیکن یہ روایت کسی طرح بھی ان کی دلیل نہیں بنتی کیونکہ یہ نبی پاک ﷺ کی حدیث نہیں بلکہ یہ تو امام باقر کی طرف منسوب ایک قول ہے اور یہ امام باقر سے بھی ثابت نہیں بلکہ انتہائی ضعیف ہے۔ اس کی سند میں جابر جعفی اور عمرو بن شمر ہیں اور اس میں بھی یکم رمضان اور نصف رمضان کو گرہن لگنےکی بات ہے جبکہ مرزا کی زندگی میں چاند گرہن یکم نہیں بلکہ 13 رمضان اور سورج کو 15 رمضان نہیں بلکہ 28 رمضان المبارک کو گرہن لگاتھا لہٰذا یہ کسی اعتبار سےبھی مرزائیوں کی دلیل نہیں بنتی۔

جامعہ کے سینئر اساتذہ کرام بالخصوص جناب شیخ الحدیث اور مدیر التعلیم، ان محاضرات میں باقاعدگی سے تینوں دن موجود رہے۔ پروگرام کے آخری دن آخری محاضرہ کے بعد اُستاذِ محترم شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی صاحب نےطلبہ کو نصیحت کی کہ علم کے ہتھیار سے مسلح ہوکر اور اس میں مہارت پیداکرکے میدان میں اُتریں اور فتنہ قادیانیت کے خلاف بھرپور انداز میں کام کریں اور حافظ حسن مدنی صاحب نے اپنے اختتامی کلمات میں اس کورس اور کام کی اہمیت اور مقصد کو واضح کرتے ہوئے ماضی میں اسلاف کی خدمات اور کام کی طرف بھی توجہ دلائی کہ ہمیں اپنی اس کھوئی ہوئی میراث کو حاصل کرکے ماضی کے کردار کو پھر سے زندہ کرناہوگا تبھی ان کے حقیقی وارث ہونے پر فخر کرسکیں گے۔ اُنہوں نے طلبہ کو توجہ دلائی کہ مرزا کے خلاف پہلا فتویٰ اہل حدیث تحریک کی مرکزی شخصیت سید نذیر حسین دہلوی نے دیا، اہل حدیث عالم دین مولانا محمد حسین بٹالوی اُن کے خلاف سرگرمِ عمل ہوئے، مرزائیت کے خلاف اہم ترین کتاب شہادۃ القرآن مولانا ابر اہیم میر سیالکوٹی نے یوں لکھی کہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے کہا کہ اس کے بعد اس موضوع پر مزید تصنیف وتحقیق کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ علماے اسلام نے مشترکہ طور مولانا ثناء اللّٰہ امرتسری کو فاتح قادیان کا لقب دیا، اور ان کو مباہلہ کا چیلنج دے کرمرزا مئی 1908ء میں لاہور میں ہیضہ سے مارا گیا، جبکہ مولانا امرتسری اس کے بعد مزید 40 برس دن متین کی خدمت کرتے رہے۔مرزا قادیانی کے طعن وتشنیع کا مرکز علماے اہل حدیث بنے رہے اور اُنہوں نے اس فتنہ کا خوب استیصال کیا۔اُنہوں نے کہا کہ آج بھی بہت سے اہل حدیث علما قادیانیت کی بیخ کنی میں اپنی صلاحیتیں صرف کررہے ہیں ، تاہم ہمیں اپنے اسلاف کی طرح اس سلسلے میں مزید درمزید محنت کی ضرورت ہے ، یہ مسابقت فی الخیر کا میدان ہے اور اس کورس کے شرکاء سے ہم اسی جدوجہد اور علمی جہاد کی توقع کرتے ہیں۔

آخرمیں جامعہ کی طرف سے مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کی وقیع تصنیف' قادیانیت اپنے آئینے میں' اورختم نبوت کے بعض کتابچے طلبہ میں تقسیم کیے گئے تاکہ اُن اس سلسلے میں مطالعہ کا ذوق پیداہو اور طلبہ کو اس کورس سے جو رخ ملاہے، اس سے کام کرنے کے لئے مزید راہیں کھلیں۔ اِن شاء اللّٰہ

تقریب بخاری کے خطابات اور ردّ قادیانیت کورس میں ہونے والے تینوں دنوں کے 15 لیکچرز پر مشتمل سی ڈی جامعہ کے دفتر سے مل سکتی ہے اور محدث کی ویب سائٹ www.kitabosunnat.com پر بھی یہ لیکچرز سنے جاسکتے ہیں۔

'ردّقادیانیت کورس' کے حوالے سے طلبا میں بڑا جوش اور شوق دیکھنے کو ملا۔ طلبا کا کہنا تھا کہ اگر ہم ادھر نہ آتے اور اس کورس میں شرکت نہ کرتے تو شاید ہم قادیانیت کو نہ سمجھ پاتے۔ ان کاکہنا تھا کہ اس کورس کی بدولت نہ صرف ہم کسی قادیانی سے مباحثہ کرسکتے ہیں بلکہ اس کو لاجواب بھی کرسکتے ہیں۔شرکا اساتذہ کے اندازِ تدریس سےبھی بہت متاثر ہوئے اُور ان کی زبانیں اساتذہ کی مدح میں تر نظر آئیں۔

(4) دورۂنحو و صرف

تحریر: حافظ شاکر محمود

عصری تعلیم کےساتھ ساتھ ہمارا قرآن و حدیث کی تعلیمات سے رابطہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہونا از حد ضروری ہے۔ قرآن کا علم ہی وہ ہے جو معاشرے کو درست سمت اور صحیح قالب میں ڈھالتا ہے۔ علوم اسلامیہ میں رسوخ کے لئے عربی زبان کی مہارت از بس ضروری ہےاور عربی کے بہتر فہم کے لئے عربی قواعد نحووصرف کی مہارت ومشق کے بغیر چارہ نہیں۔

اس ضرورت کو محسوس کرتےہوئے جامعہ لاہور الاسلامیہ میں طلبہ کو عربی زبان کے اُصول و مبادی سے واقفیت کے لئے 23 روزہ دورۃ النحو والصرف کا اہتمام کیا گیا کہ رمضان کی بابرکت ساعتوں میں جہاں وہ الٰہی رحمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹیں، وہیں نحو و صرف کے بنیادی مباحث کو بھی سیکھ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طلبا کی فکری رہنمائی اور دورِ حاضر کے فتنوں سے اُنہیں آشنا کرنے کے لئے 'ردّقادیانیت'پر محاضرات کا اہتمام بھی کیا گیا، جس کی تفصیل آپ پڑھ چکے ہیں۔

ملّتِ اسلامیہ میں بیسوں لوگ اسلام کے پردے میں اپنے باطل نظریات کا پرچارکرنے میں سرگرم ہیں، اور یہ لوگ باطل نظریات کے لئے لغوی مباحث کو بنیاد بنا کر غلط استدلال اور عربی عبارات میں تحریف وتاویل کرکے اپنے غلط موقف کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔جس کی وجہ سے عربی گرامر سے ناواقف لوگ ان کے دامِ فریب میں آکر صراطِ مستقیم اور منہج سلف کو چھوڑ کر ان کے باطل نظریات کو اپنا لیتے ہیں، اس لئے ایسے لوگوں کی گرفت اور بھٹکے ہوؤں کی رہنمائی کے لئے ایسے ماہرین کی ضرورت ہےجو مسلمانوں کی صحیح معنوں میں رہنمائی کرسکیں اور فتنوں کا بروقت تعاقب کرسکیں۔

اسی غرض سے یہ مختصرعربی ریفریشرکورس ترتیب دیا گیا جس میں عصری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید طریقہ تدریس اپنایا گیا جس سے اس دورہ کی افادیت میں ہر چند اضافہ ہوا۔

دورۃ النحو کے لئے اسلامک ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ مہنتانوالہ کے نامور اُستاد مولانا مختار احمد صاحب نے دورانِ رمضان جامعہ ہذا میں قیام کیا اور روزانہ صبح 8 تا 11 بجے ، طلبہ کو اپنی مقبول تصنیف 'مختار النحو' جسے دورہ نحو کے نقطہ نظر سے تیار کیا گیاہے، کی تدریس کی۔ نقشوں اور وائٹ بورڈ کے مسلسل استعمال اور سوال وجواب کے ذریعے اُنہوں نے طلبہ کو نحو کے تمام بنیادی مباحث بخوبی ذہن نشین کرائے۔ 11 بجے تا نمازِ ظہر راقم الحروف طلبہ کو علم الصرف کی تعلیم وتربیت دیتا رہا، جس کے لئے بھی مولانا مختار احمد کی ہی علم الصرف پر تصنیف کو پیش نظر رکھا گیا، بعض مقامات پر ضروری ترمیم اور اضافہ جات کے ساتھ یہ تدریس بخوبی جاری رہی۔ نمازِ ظہر تا عصر طلبہ آرام کرتے، جبکہ نمازِ عصر کے فوری بعد جامعہ کے شیخ الحدیث مولانا محمد رمضان سلفی﷾کسی ایک حدیثِ نبوی کی عربی تحلیل وترکیب کراتے۔ شام 5 بجے تا 6:30، دوبارہ مولانا مختار صاحب شرکاے دورہ کو مذاکرہ اور عملی مشق کرواتے۔ یہ سلسلہ اسی طرح مسلسل 22 دن جاری رہا، آخری دن طلبہ کا ٹیسٹ ہوا، جس میں 100 نمبر کا ٹیسٹ علم النحو والصرف کے سوالات پر مشتمل تھاجبکہ25،25 نمبر حفظِ قرآن اورمسنون ادعیہ کے لئے مخصوص تھے۔کامیاب ہونے والے طلبہ میں اسناد اور انعامات تقسیم کئے گئے۔

نظامِ تربیت

اُسوہ رسول ﷺ کو بنیاد بناتے ہوئے شرکاے کورس کے لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی اہتمام کیا گیا تھاجس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے کہ شرکا کے لئے ضروری تھا کہ وہ ایسے تمام اعمال کو بجا لائیں جو اللّٰہ کے قرب و رضا کا ذریعہ ہیں او راس کے لئے اُنہیں ماحول کے ساتھ ساتھ محاسبہ کا ایک نظام دیا گیا تاکہ ہر فرد یہ جان لے کہ اس میں کیا کوتاہی پائی جاتی ہے اور وہ اس کمی کو کیسےپورا کرسکتا ہے۔

صحیح بخاری ومسلم میں فرمانِ نبوی ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا اجر اکیلے نماز پڑھنے سے 27 درجے زیادہ ہے۔ ماہِ رمضان میں طلبہ کی تربیت کےلئے ان کو جامعہ کا ہی شائع شدہ کارڈ فراہم کیا گیا جس میں پنج وقتہ نماز کے علاوہ، اشراق وتہجد اور مسواک وتلاوت ِ کلام مجید کی تفصیلات درج کرکے نمبر جمع کئے جاتے ہیں۔اس کارڈ میں تکبیر تحریمہ میں شرکت کے علاوہ ، رہ جانے والی رکعات کی تفصیل بھی درج کرکے اس کا ٹوٹل حاصل کرلیا جاتا ۔

تلاوتِ کلام الٰہی ایک ایسا مبارک عمل ہے جس کی ترغیب کے بارے میں بیسیوں آیات واحایثِ مبارکہ ملتی ہیں۔روزانہ نمازِ فجر کے بعد نصف گھنٹہ تلاوت وحفظِ قرآن کے لئے مخصوص کیا گیا اور آخر میں مرکزی رزلٹ میں نصف پارہ حفظِ قرآن کا امتحان بھی لیا گیا۔

صبح و شام کے اذکار کی اہمیت کا اندازہ قرآن کریم کی اس آیت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے: ﴿فَاصبِر‌ عَلى ما يَقولونَ وَسَبِّح بِحَمدِ رَ‌بِّكَ قَبلَ طُلوعِ الشَّمسِ وَقَبلَ الغُر‌وبِ ﴿٣٩﴾... سورة ق"شرکاے دورہ کو ادعیہ ماثورہ پر مشتمل 'حصن المسلم' کا ایک ایک کتابچہ دیا گیا اور فائنل امتحان میں ان دعاؤں کے حفظ کے لئے بھی 25 نمبر مختص کئے گئے۔ نیز اذکار صبح وشام پر مشتمل ایک یاد داشتی کارڈ بھی طلبہ کو دیا گیا جس میں 15،15 مسنون اذکار کی ترغیب اور اُن کے الفاظ درج تھے۔ اساتذہ کرام طلبہ کو ان سرگرمیوں کی ترغیب دیتے ، نگرانی کرتے اور ان کا جائزہ اپنے پاس درج کرتے جاتے۔

شرکائے دورہ کے لئے نمازاشراق اور تراویح کی پابندی کا پورا انتظام کیا گیا تھا، جس میں ان کی حاضری باقاعدہ لگائی جاتی تھی، جبکہ تحیۃ المسجد کی بھی اُنہیں ترغیب دی جاتی رہی۔دورہ کی کلاسز نمازِ اشرق سے شروع ہوکرروزانہ افطار کی مبارک دعاؤں پر ختم ہوتیں جس کے درمیان ظہر تا عصر آرام کا وقفہ ہوتا۔غرض تربیتی نظام، حفظِ قرآن وادعیہ مسنونہ، اشراق وتہجد، باجماعت نمازوں کی پابندی اور مسواک وطہارت پر مبنی تھا جس کی بنا پر طلبہ کو قیمتی انعامات سے بھی نوازا گیا۔

تقریب تقسیم انعامات و اسناد

27 شعبان بروز پیر سے جاری دورہ نحو وصرف کا اختتام 21 رمضان المبارک بروز بدھ ہوا۔ 10 بجے طلبہ کا امتحان ہوا، نمازِ ظہر کے بعد انہوں نے مجلس التحقیق الاسلامی کے منصوبوں، مرکزی لائبریری اور کتاب وسنت ویب سائٹ کے دفاتر کا دورہ کیا۔ اسی روزتقریبِ تقسیم اسناد و انعامات نمازِ عصر کے بعدمنعقد ہوئی جس میں طلبا کو اسناد دی گئیں اور ممتاز پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا کو انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ دورہ کے طلبہ سے ڈاکٹر فضل الٰہی ﷾ نے بھی خطاب کیا، جس میں اُنہوں نے دنیا جہاں پر اللّٰہ کی رضا کو فوقیت دینے کے موضوع پر درسِ حدیث دیا۔

تقریبِ اسناد کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام مجید سے کیا گیا، اس کے بعد حمد ِباری تعالیٰ اور نعتِ مقبول کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ تقریب کی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے طلباء کو بھی اظہارِ خیال کاموقع دیا گیا۔مقررین نے اپنے اپنے انداز میں حاضرین مجلس کی ذہنی و فکری رہنمائی کی اور کامیاب کورس کے اختتام پر انتظامیہ کومبارکباد دی اورآئندہ بھی اس طرح کے پروگرام جاری رکھنے کی تاکیدکی۔دورہ کے اساتذہ مولانا مختار احمد(مصنف مختار النحو)، منتظم ومدرس حافظ شاکر محمود نے طلبہ کو قیمتی پند ونصائح کئے۔آخر میں رزلٹ کا اعلان کرنے کےلئے ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ﷾ کو دعوت دی گئی جنہوں نے چند کلمات حاضرین مجلس کے گوش گزار کیے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ دورہ کروانے کا مقصد عربی زبان کے اُصول و قواعد کی تربیت دینا ہے کیونکہ عربی قواعد سے لاعلمی انسان کو کسی بھی مرحلہ پر شرمندگی سے دوچار کرسکتی ہے،ایسا اُستاد نہ تو کامیاب تدریس کرسکتا ہے اور نہ عربی زبان کے مفہوم پر دسترس رکھ سکتا ہے۔اُنہوں نے فضیلتِ علم پر احادیث نبویہ پیش کرتے ہوئے، طلبہ کو خلوص و تقویٰ کی تلقین کی۔ جن طلبہ نے چھٹیوں کے ان دنوں میں اپنی فرصت کو ان قیمتی مقاصد کے لئے قربان کردیا، ان کو مبارک باد دیتے ہوئے اُنہوں نے انہیں شیطانی چالوں سے محتاط رہنے اور توجہ سے حصولِ علم کی ہدایت کی۔اس کے بعد رزلٹ کا اعلان کیا گیا۔جس میں اوّل، دوم اور سوم پوزیشن بالترتیب عمر فاروق، حافظ ذاکر یاسین اور اسد اللّٰہ نے حاصل کی۔ پوزیشن ہولڈر طلبہ کو کتب کے ساتھ ساتھ بالترتیب تین، دو اور ایک ہزار نقد انعام سے بھی نوازا گیا۔اسی طرح تربیتی لحاظ سے بہتر کارکردگی پیش کرنے والوں میں اوّل، دوم اور سوم پوزیشن درجات کے اعلان کے ساتھ مذکورہ بالا مالی انعام اُنہیں بھی دیا گیا۔ اس کے بعد تمام شرکا میں دینی کتب اور خوبصورت اسناد تقسیم کی گئیں۔

طلبا واساتذہ کے تاثرات

جب اساتذہ سے اس دورہ کے حوالہ سے تاثرات لیےگئے تو اُن کے چہرے پر مسکراہٹ رقصاں تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ جس مقصد کے لئے ہم نے یہ دورہ شروع کیا تھا، الحمدللہ ہم نے اس کو بہتر طور پر حاصل کرلیا۔ اساتذہ کا کہنا تھا کہ ہم اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے ان شاء اللّٰہ آئندہ سال بھی اس دورے کو جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ طلبا کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں، وہ جب چاہیں ہم سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ آخر کار طلبا کو پیغام دیتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا کہ اب اس دورہ کو مکمل کرلینے کے بعد گھر کے درودیوار تک محدود نہ ہوں بلکہ عملی میدان میں اُتریں اور دینی علوم کی جستجو اور مروّجہ فتنوں کی سرکوبی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

آخر میں طلبہ سےدورہ کے حوالہ سے تاثرات معلوم کیے گئے توسب کی رائے میں یہ دورہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد دورہ تھا کہ جس کی مثال خال خال ہی نظر آتی ہے۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ یہ دورہ بہت ہی زیادہ کامیاب رہا اور ادھر آکر ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ کورس کے دوران طلبا کی جو اخلاقی تربیت کی گئی وہ قابل تعریف ہے۔ طلبا کا بھرپور مطالبہ تھا کہ ایسے دورے کو لازمی جاری رکھا جائے تاکہ طلبا کو عربی زبان کے بنیادی اُصولوں میں مہارت حاصل ہوسکے۔

(5) قراے جامعہ اور مدینہ یونیورسٹی میں زیرتعلیم طلبہ کودعوتِ افطار

تحریر: حافظ عبد الرحمٰن محمدی

جامعہ لاہور الاسلامیہ لاہور کئی دہائیوں سے ابلاغ دین کے لئے علمی ودعوتی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہے۔ بلا مبالغہ جا معہ دوسرے جامعات کے مقابلے میں نمایاں تر حیثیت کا حامل ہے کیونکہ ملک او ر بیرونِ ملک میں اکثر نامور علماے کرام اور قراے کرام جو خدمتِ دین میں مصروف ہیں وہ اسی علمی دانش گاہ کے فیض یافتہ ہیں اور ان کی دینی خدمات جامعہ کے لئے اہم اعزاز ہے۔

جامعہ لاہور الاسلامیہ اپنے ان فیض یافتگان کے اعزاز و تکریم میں مختلف پروگرامز کا انعقاد کرتا رہتا ہے، ان میں سے ایک خصوصی پروگرام کا اہتمام رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں کیا جاتا ہے جس میں جامعہ کے ان قراء کرام جو ملک بھر کی بڑی بڑی مساجد میں تراویح پڑھا رہے ہیں اور جو طلبہ مدینہ یونیورسٹی میں زیرتعلیم ہیں، ان کو بطورِ خاص مدعو کیا جاتا ہے۔اس طرح کے پروگراموں کا مقصد ابناء الجامعہ سے رابطہ، اُن کی حوصلہ افزائی اور ان کی شفقت بھری تربیت کرنا ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ جامعہ کے ابناء اور فضلا میں تین درجن سے زائد تعداد ایسے قراے کرام کی ہے جو ملک بھر کی مرکزی مساجد میں اپنی خوبصورت آوازوں میں تراویح اور قیام اللیل کی امامت کرتے ہیں۔ ہرسال رمضان سے پہلے کے مہینوں میں بڑی مساجد کے منتظمین کی بڑی تعداد ایسے قرا کی خدمات حاصل کرنے کےلئے جامعہ کھنچی چلی آتی ہے۔ اپنے قرا کی حوصلہ افزائی کے لئے رمضان کے آخری عشرہ میں ہر طاق رات کو پانچ ممتاز قرا کو اپنی مادرِ علمی میں خوبصورت لحن میں دو رکعات نوافل کی امامت کا موقع دیا جاتا ہےاور یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری وساری ہے۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی 18 رمضان المبارک بمطابق 28 جولائی 2013ء بروزاتوار اس مبارک مجلس کا اہتمام پرتکلف دعوتِ افطار کی صورت میں کیا گیا جس میں ملک کے نامور قراے کرام اور علماے عظام نے شرکت کی۔ یہ پروگرام ہر سال جامعہ میں منعقد کیا جاتا ہے لیکن اس سال جامعہ کے ایک سرپرست خاندان کے شدید اصرار و محبت کی وجہ سے یہ پروگرام اُن کی رہائش گاہ پر منتقل کردیا گیا۔ تاکہ بڑی تعداد میں آنے والے علماء و قراء کی خدمت کرکے وہ بھی اپنے نامہ اعمال میں اضافہ کرسکیں او ر روحانی برکات سے مستفید ہوسکیں۔

پروگرام کے مطابق تمام مدعوین افطاری سے 20، 25 منٹ پہلے ہی پہنچ گئے۔اس دورانیئے کو غنیمت جانتے ہوئے اُستاذِ محترم حافظ حسن مدنی﷾ نے حاضرین مجالس کے سامنے پروگرام کے پس منظر اور اس کی اہمیت و افادیت کو بیان کیا۔ اُنہوں نےکہا کہ جامعہ لاہور الاسلامیہ پاکستان میں ایک منفرد ادارہ ہے کہ جس میں سب سے پہلے کلیۃ القرآن کی ابتدا ہوئی تو اب الحمدللہ دوسرے مدارس نے بھی جامعہ لاہور الاسلامیہ کو نمونہ کے طور پر سامنے رکھ کر قرآنی علوم (قرأت و تجوید) پر باقاعدہ کام شروع کردیا ہے۔ جس میں اسی جامعہ کے فارغ التحصیل قراء ہی بطورِ استاذ اس شعبہ کو چلا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر قراء ہماری اس مجلس میں بھی موجود ہیں جو ہمارے لئے خوشی و مسرت کا باعث ہے۔

مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء او ران کے تعلیمی میدان میں اعزازات و امتیازات کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا کہ ہمارے اس جامعہ کے دو ہونہار طلبہ عبدالمنان نے پوری یونیورسٹی میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور دوسرے حافظ زبیر نے چھٹی پوزیشن حاصل کی جبکہ اس یونیورسٹی میں پوری دنیا کے تقریباً 160 ممالک سے 20 ہزار کے لگ بھگ طلبا زیر تعلیم ہیں تو اتنی تعداد میں سے ممتاز پوزیشنیں حاصل کرنا واقعی جامعہ کے لئے ایک اعزاز ہے۔

آخر میں اپنی بات کو سمیٹے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہ تمام باتیں بیان کرنے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ایک بندہ مؤمن اللّٰہ تعالیٰ، ا س کے رسولﷺ اور اس کی کتاب قرآن مجید کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرے تو جب انسان کی یہ حالت و کیفیت ہوجاتی ہے تو اللّٰہ ربّ العزّت اس کو دنیا میں بھی عزت و بلندی سے نوازتے ہیں او رآخرت کی کامیابی بھی انہی کےلئے ہے۔ مذکورہ مثال سے اس با ت کو اچھی طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرے۔

آپﷺ کا فرمان ذی شان ہے:

''دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ آدمی کہ جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی دولت سے نوازا تو وہ دن کے وقت اور رات کی گھڑیوں میں اس کی تلاوت کرتا ہے اور دوسرا وہ آدمی جس کواللّٰہ تعالیٰ نے مال و دولت عطا کیا تو وہ دن رات اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں (دین کی سربلندی کے لئے) خرچ کرتا ہے۔''1

تو ہماری اس مجلس میں الحمدللہ دونوں طرح کے لوگ ہی موجود ہیں کہ جن پر رشک کرنا جائز ہے ۔ قرآن پڑھنے والے بھی او راپنےمال کو راہِ خدا میں خرچ کرنے والے بھی۔

ابھی افطاری میں 12،15 منٹ باقی تھے تو جامعہ کے نائب شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی ﷾ کو دعوتِ خطاب دی گئی تو شیخ صاحب نے اس مختصر وقت کے اندر مختصر مگر جامع گفتگو فرمائی جس میں اُنہوں نے سنّتِ رسولﷺ کی اہمیت و مقام بیان کرتے ہوئے بدعت کا ردّ فرمایا۔ اور کہا کہ ایک بندہ مؤمن کی یہ شان ہونی چاہیے کہ وہ آپﷺ سے منقول فرامین کویاد کرے، خاص طور پر مختلف اوقات میں پڑھی جانے والی دعائیں ضرور یاد کرے۔ ابھی افطاری کے وقت میں بھی آپﷺ سے صحیح سند کے ساتھ مروی دعا کو بھی یاد کرے جس کے الفاظ یہ ہیں: «ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ الله » 2اس کے بعد شرکائے مجلس نے روزہ افطار کیا اورنمازِ مغرب ادا کی، نماز کے بعد پُرتکلف کھانے کا اہتمام تھا، کھانا کھانے کے بعد تمام مدعوین نے مدیر التعلیم سے اجازت چاہی تو اُنہوں نے تمام مدعوین کو بڑے ہی پیار و محبت اور بغل گیر ہوکر قیمتی تحائف دے کر رخصت کیا۔

اس طرح یہ تقریب سعید پایہ تکمیل کو پہنچی۔

شرکاے مجلس کے اسماے گرامی

مدیر التعلیم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، نائب شیخ الحدیث مولانا محمد رمضان سلفی، ڈاکٹر حافظ انس مدنی، ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی اورقاری محمود الحسن بن شیخ الحدیث مولانا عبداللّٰہ بڈھیمالوی کے علاوہ

اساتذہ جامعہ میں مولانا محمد شفیع طاہر، حافظ شاکر محمود ، مولانا مرزا عمران حیدر ، قاری عارف بشیر ، قاری محمد شفیق الرحمٰن،قاری بابربھٹی ،مولانامحمد اصغر

مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبہ میں قاری سلمان محمود، حافظ عبد المنان مدنی، حافظ محمد زبیرمدنی، حافظ حبیب الرحمٰن، فواد بھٹوی، احسان الٰہی ظہیر،عبد الباسط، خضرحیات،محمد ابراہیم، محمد رضوان، قاری یحییٰ خالداور راقم الحروف وغیرہ

قراے کرام میں قاری داؤد منشاوی، قاری نعیم الرحمٰن ،قاری اظہر نذیر ، قاری اکمل شاہین، قاری تنویر خاور ، قاری سلمان سلیم اور دیگر بہت سے افراد

آخر میں اس بات کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگاجو ابھی تک میرے پردہ سماعت پرمحفوظ اور نیا جوش ولولہ پیدا کرتی ہے، وہ یہ کہ واپسی کے موقع پر اُستاذِ محترم مولانا شفیع طاہر نے بڑے ہی رقت آمیز لہجے میں کہا کہ عوام الناس کی علما سے یہ بے لوث محبت و اُلفت دین اسلام اور قرآن وحدیث کی وجہ سے ہے اور یہ محبت نامہ اعمال میں گہرا اثر رکھتی ہے۔ جب میں نے یہ بات سنی تو میرے ذہن میں رسول اکرمﷺ کا یہ فرمان گردش کرنے لگا:

'' ایک صحابی نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا کہ قیامت کب برپا ہوگی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے اس کے لئے تیاری کیا کررکھی ہے تو اس نے کہا اور تو کچھ نہیں لیکن میرا دل اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کی محبت سے بھرپور ہے۔تو آپ ﷺ نے فرمایا «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ»...3

''تو اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ تو نے محبت کی۔ انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم کسی چیز کے ساتھ اتنا خوش نہیں ہوئے جتنا نبیﷺ کے اس فرمان کو سن کر ہوئے ''تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تو نے محبت کی۔ میں نبی اکرم ﷺ سے محبت اور ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہما سے محبت کرتا ہوں اور مجھے اُمید ہے کہ اپنی ان کے ساتھ اس محبت کی وجہ سے میں (قیامت کے روز) ان کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں ہیں۔''

تو علماے کرام کی مجلس میں انسان کے کردار وعمل میں تبدیلی او راُن سے محبت نجات کا باعث بن سکتی ہے۔میری یہ دُعا ہے کہ اللّٰہ ربّ العزّت ان تمام لوگوں کی دین اور علما کے ساتھ پُرخلوص او ربے لوث محبت کو قبول فرما کر ان کےذریعہ نجات بنائے۔ آمین!


حوالہ جات

1. صحیح بخاری: 5025 ؛صحیح مسلم:1894

2. سنن ابو داؤد:2357

3. صحیح بخاری:3688