عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنا ،شریعت میں تبدیلی ہے

خلع کے بارے میں ایک ضروری وضاحت

گذشتہ شمارہ محدث (نمبر361) میں میرا سابقہ مضمون پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ اشکال آسکتا ہے کہ علماے احناف تو خلع کا ذکر بھی کرتے ہیں او راس کا اثبات بھی، پھر ان کی بابت یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ خلع کا انکار کرتے ہیں؟

یہ بات ایک حد تک صحیح ہے کہ وہ ظاہری طور پر خلع کا اقرار کرتے ہیں لیکن وہ اس کو اس طرح ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں جس طرح شریعت نے یہ حق عورت کو دیا ہے۔ اس لئے اُن کا ماننا اقرار کے پردے میں انکار کے مترادف ہے۔ اس کی تشریح حسب ِذیل ہے:

خلع عورت کا وہ حق ہے جو اسے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں دیا گیا ہے۔ مرد تو اپنا حق طلاق ایسے موقعوں پر استعمال کرلیتا ہے جب وہ اپنی بیوی سے ناخوش ہو۔ لیکن اگر عورت کو ایسی ضرورت پیش آجائے کہ وہ خاوند سے گلو خلاصی کرانا چاہے، مثلاً شوہر نامرد ہو، وہ حقوقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا وہ نان نفقہ دینے پر قادر نہ ہو یا قادر تو ہو لیکن دیتا نہ ہو، یا کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو جس کا علم عورت کو شادی کے بعد ہو، یا وہ سخت ظالم و جابر قسم کا ہو جو عورت پر بے جا ظلم و تشدد کرتا ہو، یا شکل و صورت کے اعتبار سے عورت کے لئے ناقابل برداشت اور اس کا اس کے ساتھ نباہ مشکل ہو؛ اس قسم کی تمام صورتوں میں شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر کا دیا ہوا حق مہر اُس کو واپس کرکے اس سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر شوہر عورت کی خواہش او رمطالبے پر اُس کو طلاق دے دے تو ٹھیک ہے، مسئلہ نہایت آسانی سے گھر کے اندر ہی حل ہوجاتا ہے۔

لیکن اگر مرد مذکورہ معقول وجوہات کے باوجود عورت کی خواہش او رمطالبے کو تسلیم نہ کرے، تو پھر عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے اس مسئلے کو حل کیا جائے گا، اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ عورت کا مطالبۂ علیحدگی بالکل جائز ہے تو وہ مرد کو طلاق دینے کا حکم دے گا، اگر وہ پھر بھی طلاق نہ دے تو عدالت یا پنچایت فسخ نکاح کا حکم جاری کرے گی جو مرد کے طلاق کے قائم مقام ہوجائے گا او رعورت عدتِ خلع (ایک حیض) گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ شادی کرنے کی مجاز ہوگی۔یہ ہے خلع کا وہ طریقہ جو قرآن کریم کی آیت :﴿فَإِن خِفتُم أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّهِ...٢٢٩﴾... سورة البقر ة" اور حدیث میں مذکور واقعہ حضرت ثابت بن قیس سے ثابت ہے۔

﴿فَإِن خِفتُم﴾ (پس اگر تم ڈرو...) میں خطاب خاندان کے اولیا(ذمّے داران) معاشرے کے معزز افراد یا حکومت کے افسرانِ مجاز(عدالتی حُکام) سے ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والا نزاع، اُن کی آپس کی بات چیت سے ختم نہ ہوسکے تو تم مداخلت کرکے اس کو حل کرو اور عورت سے فدیہ (حق مہر) لے کر مرد کو دو اور اس سے طلاق دلواؤ، اگر وہ طلاق نہ دے تو تم فسخ نکاح کا آرڈر جاری کرکے اُن کے درمیان علیحدگی کروا دو۔

حدیث سے بھی اسی بات کا اثبات ہوتا ہے، حضرت ثابت بن قیس خوش شکل نہ تھے جب کہ اُن کی بیوی خوبرو تھی، اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں آکر نہایت مناسب الفاظ میں اس بات کو بیان کیا او رکہا کہ میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق کے بارے میں تو اُن کو معتوب نہیں کرتی لیکن ان کے ساتھ رہنے میں مجھے ناشکری کا اندیشہ ہے۔ رسول اللّٰہﷺ نے اس کی بات سن کر صورتِ حال کا اندازہ کرلیا او راس سے پوچھا: کیا تو ثابت بن قیس کو وہ باغ واپس کرنے پر آمادہ ہے جو اس نے تجھے (حق مہر میں) دیا تھا؟ اس نے کہا! ہاں۔ آپ نے ثابت بن قیس کو حکم دیا: اس سے اپنا باغ لے لو اور اس کو طلاق دے دو، چنانچہ اُنہوں نے طلاق دے دی۔ (یہ واقعہ احادیث کی ساری کتابوں میں موجود ہے)

رسول اللّٰہﷺ کا حضرت ثابت کو طلاق کا حکم دینا ایک حاکم کے طور پر تھا اور ظاہر بات ہے کہ خاندانی معاملات و نزاعات میں عدالت یا پنچائیت کی مداخلت ناگزیر ہے، اگر عدالت کو یہ حق نہیں دیا جائے گا یا اُس کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جائے گا تو پھر ان نزاعات کا حل آخر کس طرح نکالا جائے گا؟

ہم نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ علماے احناف عورت کے حقِ خلع کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کے بارے میں ان کا یہ غیر منطقی موقف ہی اس کی بنیاد ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ خاوند اگر عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرتا تو عدالت کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر طلاق کی ڈگری جاری کردے، جیسا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد ہماری عدالتیں اس طرح کے فیصلے کررہی ہیں۔ علماے احناف کہتے ہیں کہ عدالتوں کے یہ فیصلے غلط ہیں اور اس طرح عورت کو طلاق نہیں ہوتی۔

حالانکہ عدالت کا یہ حق قرآنِ کریم کی آیت اور حضرت ثابت بن قیس کے واقعے سے واضح ہے جس کی مختصر تفصیل ابھی گزری اور اس کے بغیر گھریلو نزاعات کا کوئی دوسرا حل ہےہی نہیں۔ اگر آپ اس منطقی اور فطری طریق کونہیں مانتے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ آپ شریعت کے عطا کردہ عورت کےحقِ خلع کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

آپ ذرا تصور کیجئے، ایک عورت خاوند کے رویے سے سخت نالاں ہے اور وہ اس سے ہر صورت خلاصی چاہتی ہے، وہ طلاق کا مطالبہ کرتی ہے، خاوند نےاُس کو جو کچھ (حق مہر وغیرہ) دیا ہے، وہ اُس کو واپس کرنے کی پیش کش کرتی ہے۔ لیکن وہ کسی صورت طلاق دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔ اب بتلائیے کہ اگر طلاق خاوند کی رضا مندی کے بغیرنہیں ہوسکتی جیسا کہ علماے احناف کہتے ہیں، تو عورت کو اس کا حق خلع کون دلائے گا؟ آپ کہتے ہیں ، عدالت مداخلت نہیں کرسکتی، اور خاوند کی رضا مندی کے بغیر علیحدگی ممکن ہی نہیں ہے، تو اس صورت کا حل کیا ہے؟ او رکیا یہ حق خلع کو تسلیم کرنا ہے...؟

یہ تو اللّٰہ کے عطا کردہ حق خلع کا صاف انکار ہے۔ خاوند کی ہٹ دھرمی ہی کا تو علاج عورت کے حق خلع کی صورت میں بتلایا گیا ہے جو صرف عدالت ہی عورت کو دلوا سکتی ہے۔ عدالت کو اگر یہ حق نہیں ہے اور خاوند کسی صورت طلاق دینے کے لئے تیار نہیں ہے تو عورت کو اُس کا یہ حق کس طرح ملے گا جو اللّٰہ نے اسے عطا کیا ہے؟

حقِ خلع کے بارے میں علماے احناف کی تصریحات

اگر کوئی کہے کہ علماے احناف کا یہ موقف نہیں ہوسکتا جو اُن کی طرف منسوب کیا جارہا ہے تو لیجئے انہی کے الفاظ میں ان کا موقف پڑھ لیجئے۔

1. مولانا تقی عثمانی پہلے عنوان قائم کرتے ہیں:''کیا خلع عورت کا حق ہے؟''

مولانا موصوف نے اس بحث کا یہ عنوان مقرر کیا ہے ۔ اس سوالیہ عنوان ہی سے اس امر کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ اُن کے نزدیک عورت کو حق خلع حاصل ہی نہیں ہے۔ پھر فرماتے ہیں:

''ہمارے زمانے میں خلع کے بارے میں ایک مسئلہ عصر حاضر کے متجد دین نے پیدا کردیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام علماے اُمت کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ خلع ایک ایسا معاملہ ہے جس میں تراضئ طرفین ضروری ہے اور کوئی فریق دوسرےکو مجبور نہیں کرسکتا۔لیکن ان متجددین نے یہ دعویٰ کیا کہ خلع عورت کا ایک حق ہے جسےوہ شوہر کی مرضی کے بغیر بھی عدالت سے وصول کرسکتی ہے، یہاں تک کہ پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے عدالتِ عالیہ یعنی سپریم کورٹ نے اس کےمطابق فیصلہ دے دیا اور اب تمام عدالتوں میں اسی فیصلے پر بطورِ قانون عمل ہورہا ہے حالانکہ یہ فیصلہ قرآن وسنت کےدلائل اور جمہور کے متفقہ فیصلے کے خلاف ہے۔''1

تبصرہ: اپنی رائے کو، جو تقلیدی جمود پر مبنی ہے، قرآن و سنت کے دلائل او رجمہور کے متفقہ فیصلے کے مطابق قرار دینا یکسر غلط اور خلافِ واقعہ ہے حالانکہ قرآن و سنت کے مطابق خلع کی اصل صورت وہ ہے جس کی مختصر تفصیل ہم نے پیش کی ہے۔ خلع کی اس صورت کو متجددین کی رائے بتلانا اور قرآن و سنّت کی نصوصِ صریحہ کی بے جا تاویل کرکے ان سے اپنے تقلیدی موقف کا اثبات ایک تحکمانہ انداز اور قرآن و حدیث میں بیان کردہ حق خلع کا صریح انکار ہے۔اَعاذنا الله منه

مضمون طویل ہوگیا ہے، ورنہ ہم ان کی ان تاویلاتِ باطلہ کی حقیقت بھی واضح کرتے جو اُنہوں نے'درس ترمذی'میں بیان کرکے تقلیدی جمود کا ثبوت دیا ہے۔ ضرورت پڑی تو ان شاء اللّٰہ ان پر بھی گفتگو ہوگی۔ بعون الله وتوفيقه

ایک اور حنفی مفسر کا حق خلع کا انکار

2. تفسیر 'روح البیان'کے حنفی مفسر'آیتِ خلع' کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

''خلع میاں بیوی کا آپس کا معاملہ ہے، اس میں عدالت یا تیسرا کوئی شخص مشورہ تو دے سکتا ہے ، جبر نہیں کرسکتا، نہ عدالت کے پاس از خود یہ اختیار ہے کہ وہ شوہر کی رضا مندی کے بغیر عورت کے حق میں یکطرفہ (ون سائیڈ) خلع کا فیصلہ کردے۔اگر عدالت ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ قرآن و حدیث او راجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک ناقابل عمل ہوگا اور اللّٰہ کے نزدیک ناقابل قبول رہے گا۔

جس طرح نکاح کی قبولیت کا صرف شوہر کو یا اس کے بارے میں مقرر کردہ وکیل ہی کو حق حاصل ہے اسی طرح خلع کی پیش کش کو قبول کرکے طلاق دینے کا حق بھی شوہر ہی کو حاصل ہے۔لہٰذا جس طرح بیوی رقم کے بدلے طلاق حاصل کرنےپر راضی ہے اسی طرح شوہر کا بھی رقم قبول کرکے طلاق دینے پر راضی ہونا ضروری ہے۔ جمہور فقہا کا اتفاق ہےکہ خلع باہمی رضا مندی کےساتھ جائز ہے۔''

تبصرہ: ان صاحب نے بھی حنفی طریق خلع کو قرآن و حدیث کا بیان کردہ خلع قرار دینے کی جسارت کی ہے۔ حالانکہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔حنفی طریق خلع دراصل حق خلع کا انکار ہے کیونکہ ان کےنزدیک اس میں دونوں کی رضا مندی ضروری ہے۔ اگر خاوند عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہ کرے تو عورت خلع حاصل کر ہی نہیں سکتی۔ خاوند کی ہٹ دھرمی کا حل قرآن و حدیث میں عدالت کو قرار دیا گیا ہے لیکن حنفی فقہ کہتی ہے کہ عدالت کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں ۔ عدالت اگر مداخلت کرکے عورت کو یہ حق دلائے گی تو عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت خاوند کی ہٹ دھرمی کی صورت میں عدالت سے خلع حاصل کرنے کے بعد عدت گزار کر کسی او رجگہ نکاح کرے گی تواحناف کے نزدیک یہ نکاح عنداللّٰہ ناقابل قبول ہوگا، جب ایسا ہے تو پھر وہ نئے میاں بیوی تو ساری عمر زنا کاری ہی کے مرتکب رہیں گے۔ان کی یہ دیدہ دلیری اور قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے انحراف انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔ تفسیر روح البیان کے مؤلف لکھتے ہیں:

''مسئلہ: عدالت کی طرف سے شوہر کی رضا مندی کے بغیر جو یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کر دی جاتی ہے وہ شرعاً معتبر نہیں۔ اس صورت میں اس عورت کا کسی اور مرد سے نکاح کرنا حرام اور بدکاری ہو گا۔''2

بتلائیے...! یہ حق خلع کا اثبات ہے جو اللّٰہ رسول نے عورت کو دیا ہے یا اس کا صاف انکار ہے۔خاوند کی رضا مندی کےبغیر اگر عورت اپنا یہ حق وصول نہیں کرسکتی، تو پھر خاوند کی ہٹ دھرمی کی صورت میں آخر وہ اپنا یہ حق کیسے وصول کرے گی؟علماے احناف آخر اس کی بھی تو وضاحت فرمائیں۔

پھر اس حنفی طریق خلع پر اجماع کا دعویٰ اور چند سطروں کے بعد ہی اسے جمہور فقہا کا فیصلہ قرار دینا؟ عجیب تضادِ فکر ہے۔ اوّل تو اس کو جمہور فقہا کا متفقہ فیصلہ بتلانا ہی غلط ہے۔ اگر جمہور کی رائے تسلیم کر بھی لی جائے، تو اجماع تو پھر بھی نہ ہوا کیونکہ اکثریت کی رائے کو اجماع تو نہیں کہا جاتا۔

دراصل اپنی بات کو مؤکد کرنےکے لئے یوں ہی اس کو 'جمہور کی رائے' کہہ دیا جاتا ہے یا اس پر 'اجماع' کا دعویٰ کردیا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہو تا۔ اسی لئے امام احمد فرمایا کرتے تھے: "من ادعى الإجماع فهو كاذب"3

''جو کسی مسئلے کی بابت اجماع کادعویٰ کرے، وہ جھوٹا ہے۔''

زیربحث مسئلہ بھی اس کی ایک واضح مثال ہے۔ حنفی طریق خلع نہ جمہور کا متفقہ فیصلہ ہے اور نہ اس پر اجماع ہے۔بھلا جو مسئلہ (حنفی طریق خلع) قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ کے خلاف ہے، اسے جمہور کس طرح اختیار کرسکتے ہیں؟ ...یا اس پر اجماع کس طرح ہوسکتا ہے؟

صاحب'روح البیان' مزید فرماتے ہیں:

''اسلام کی یہ کیسی معتدل تعلیم ہے کہ حتیٰ الوسع نہ کسی کی حق تلفی ہو نہ دل شکنی ہو۔ جیسےباہمی رضا مندی سے عقدِ نکاح کیاگیا تھا، ایسے ہی باہمی رضا مندی سےاسے ختم کردیا جائے۔ یعنی اگرمیاں بیوی کو خطرہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کےحقوق پورے نہیں کرسکتے تو ایسی صورت میں خلع کی اجازت ہے۔''4

سبحان اللّٰہ! کیا خوب فلسفہ تراشا ہے۔ اسلام کی تعلیم میں تو بلا شبہ نہایت اعتدال اور توازن ہے کہ اس نےمرد کو طلاق کا حق دیا ہے جس کے ذریعے سے وہ ناپسندیدہ بیوی سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اور اگر ایسے ہی حالات عورت کو پیش آجائیں اور وہ ناپسندیدہ شوہر سے نجات حاصل کرنا چاہے تو وہ حق خلع کےذریعہ سے نجات حاصل کرسکتی ہے۔ یہ تو یقیناً اعتدال اور توازن کی بات ہے جس میں اسلام دیگر ادیان و مذاہب میں ممتاز ہے۔

لیکن جب آپ مرد کو تو مطلقاً یہ حق دے رہے ہیں کہ وہ جب چاہے عورت کو طلاق دے سکتا ہے۔ کیا طلاق دیتے وقت مرد عورت کی رضا مندی حاصل کرنے کا پابند ہے؟ اور اگر عورت رضامند نہ ہو تو مرد طلاق نہیں دے سکتا۔کیاواقعی آپ کےنزدیک ایسا ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو پھر یہ کہنا: ''جیسےباہمی رضا مندی سے عقدِ نکاح کیا گیا تھا ایسے ہی باہمی رضا مندی سے اسے ختم کردیا جائے۔'' کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟

اور اگر اس عبارت کاتعلق صرف عورت کے حق خلع سے ہے کہ اس میں دونوں کی رضا مندی ضروری ہے تو پھر اعتدال تو نہ رہا۔ عورت کےحقِ طلاق کو تو مقید کردیا خاوند کی رضا مندی کےساتھ، وہ رضا مند نہ ہو تو عورت کےلئے گلو خلاصی کی کوئی صورت ہی نہیں۔ اس کو کون اعتدال کی تعلیم تسلیم کرے گا جس کو آپ اعتدال باور کرا رہے ہیں۔

اعتدال تو اسلام کے بتلائے ہوئےطریقِ خلع ہی میں ہےکہ دونوں ہی (مرد اور عورت) کے لئے یہ راستہ کھلا ہوا ہے کہ مرد علیحدگی چاہتا ہے تو اس کے پاس طلاق کا حق ہے ، عورت علیحدگی چاہتی ہے تو اس کے پاس خلع کا حق ہے ، خاوند اگر اس کا یہ حق تسلیم نہ کرے تو عدالت عورت کو اس کا یہ حق دلوائے گی۔

لیکن اگر آپ مرد کے حقِ طلاق کے لئے تو رضا مندی ضروری قرار نہیں دیتے لیکن عورت کے خلع کے لئے اس کو ضروری قرار دیتے ہیں تو آپ نے اپنے فقہی جمود کا ثبوت تو یقیناً دے دیا، لیکن خدارا اِس کو اسلام کی تعلیم تو قرار نہ دیں۔اسلام تو اس عدم اعتدال اور ایک فریق پر ظلم کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس ظلم کو اپنی فقہ کی طرف منسوب کریں، اسلام کی طرف تو منسوب نہ کریں۔

مولانامفتی محمد شفیع مرحوم کی پراسرار خاموشی

3. یہ بات بھی نہایت دلچسپ ہے کہ مولانا تقی عثمانی کے والدِ گرامی قدر جناب مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم نے قرآن مجید کی اُردو میں نہایت مفصل تفسیر تحریر فرمائی ہے جو آٹھ ضخیم جلدوں میں شائع شدہ ہے، تفسیر'معارف القرآن' اس کا نام ہے۔

اس میں ہر اہم مسئلے پرمفتی صاحب موصوف نے خاصی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ آیتِ خلع میں خلع کے بارے میں سرےسے اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ کوئی بحث نہیں کی بلکہ نہایت پراسرار طریقے سے بالکل خاموشی سے گزر گئے ہیں۔ یہ خاموشی کس بات کی غماز ہے۔ ؏ کچھ تو ہے غالب جس کی پردہ داری ہے!

اصل حقیقت تو اللّٰہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لیکن کچھ نہ کچھ اندازہ قرائن و شواہد سے بھی ہوجاتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس کی وجہ شاید یہی ہوسکتی ہے کہ خلع کی اصل حقیقت جو قرآن وحدیث سے ثابت ہے، وہ حنفی موقف سے متصادم ہے جس کی وضاحت ہم کر آئے ہیں۔ اس کی صراحت ان کے حلقۂ ارادت کے لئے ناقابل قبول ہوتی اور حنفی موقف کے بیان سے ان کے تقلیدی جمود کا اظہار ہوتا، اس لئے اُنہوں نے خاموشی ہی کو بہتر خیال فرمایا۔ غفر اللّٰہ لنا ولہٗ

اور جب تقلیدکے بندھن ڈھیلے ہوجائیں...

تقلیدی جمود کی نیرنگیاں آپ نے ملاحظہ فرمائیں، اب تصویر کا دوسرا رُخ بھی ملاحظہ فرمائیں او روہ یہ کہ جب تقلیدی جمود کی عینک اُتر جاتی ہے تو پھر قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات اصل صورت میں سامنے آجاتی ہیں ۔ جب یہ بندھن ڈھیلے ہوتے ہیں اور تقلیدی عینک اُتر جاتی ہے تو پھر اعترافِ حقیقت کیےبغیر چارہ نہیں ہوتا۔

خلع اور تفویض طلاق کا مضمون مکمل کرلینے کے بعد حسن اتفاق سے اس کی دو مثالیں سامنے آئیں۔ مناسب معلوم ہوا کہ قارئین کرام کو بھی اُن سے آگاہ کردیا جائے تاکہ ہماری مذکورہ گزارشات بھی حق الیقین سے بڑھ کر عین الیقین کا درجہ حاصل کرلیں۔

اُن میں ایک مثال ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج، استاذ الفقہ وا لتفسیر جامعہ کراچی کی ہے جو غالباً حنفی بریلوی ہیں اور دوسری مثال مولانا خالد سیف اللّٰہ رحمانی، فاضل دیو بند، صدر مدرّس دارالعلوم سبیل السلام (حیدر آباد دکن) کی ہے جو حنفی دیوبندی ہیں۔اللّٰہ تعالیٰ نے ان دونوں حضرات کو مسئلہ زیر بحث میں تقلیدی جمود سے نکل کر براہِ راست قرآن و حدیث کی تعلیمات پر غور کرنےکی توفیق عطا فرمائی تو وہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض کردینا حکمِ الٰہی کی خلاف ورزی ہے اور عورت کے حقِ خلع کا انکار قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات سے انحراف ہے۔

لیجئے ! دونوں اَفاضل کے مضامین کی تلخیص ملاحظہ فرمائیں۔ پہلے ڈاکٹر شکیل اوج صاحب کے مضمون کا ضروری حصہ، جو 'معارف' اعظم گڑھ میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان بھی صاحب مضمون ہی کا تجویز کردہ ہے۔ اس کی تلخیص اس لئے کی گئی ہے کہ اس میں وہ دلائل بھی تھے جو ہمارے مضمون میں بیان ہوچکے ہیں، اس لیے تکرار سے بچنے کے لئے ان کو حذف کرناضروری تھا، اسی طرح بعض مفسرین کے اقتباسات بھی حذف کردیے گئے ہیں۔ تاہم ان کے اصل دلائل او راُن کاموقف اگلے صفحات میں ان ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:

(1)تفویضِ طلاق ... ایک اہم عائلی مسئلہ

از ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج5

میاں بیوی کے مابین قائم ہونے والے رشتہ کو نکاح کہا جاتا ہے اور اس رشتے کے ٹوٹ جانے کو طلاق، نکاح میں دو طرفہ رضا مندی ضروری ہوتی ہے مگر طلاق میں دو طرفہ رضا مندی ضروری نہیں ہوتی، گو بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہےکہ طلاق بھی دو طرفہ رضا مندی سے ہی وجود پذیر ہوتی ہے، فقہی اصطلاح میں ایسی طلاق کو 'طلاقِ مبارات' کہتے ہیں۔6

شوہر کی طرف سے دی جانے والی طلاق (جو کہ یک طرفہ ہوتی ہے) کو فقط طلاق کہہ دیتے ہیں، بیوی اگر اپنے شوہر سےعلاحدگی کا مطالبہ کرے اور اس کے مطالبہ پرشوہر اگر اسے چھوڑ دے تو ایسی طلاق کو 'خلع' کہتے ہیں۔اگر خلع کا مطالبہ، عدالت میں دائر کیا جائے جس کے نتیجے میں علاحدگی واقع ہو تو ایسی علاحدگی کو 'فسخ نکاح' کہتے ہیں، مذکورہ صورتوں میں کوئی صورت بھی ایسی نہیں کہ جس میں عورت حق طلاق میں خود مختار نظر آتی ہو۔ عورت کا عدالت میں جاکر طلاق کا مطالبہ کرنا بجائے خود اس امر کی دلیل ہے کہ شریعت نے اسے طلاق دینے یا اسے اپنے اوپر وارد کرنے کے حق سے محروم رکھا ہے۔ طلاق اسے یا تو اُس کا شوہر دے یا پھر ایمرجنسی کے حالات میں حاکم عدالت اپنے شرعی اختیار سے تفریق کرا دے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت وہ واحد مقام ہے کہ جہاں عورت کو 'حق طلاق' استعمال کرنے کی اجازت دی جاسکتی تھی اور اس مقام پر اس کے برسر عدالت اقدامِ خلع کو طلاق کا بدل قرار دیا جاسکتاتھا مگر شریعت نے انصاف کی جگہ پر (اسلامی عدالت میں) بھی طلاق کا حق بہرحال عورت کو نہیں دیا کیوں کہ ﴿وَلِلرِّ‌جالِ عَلَيهِنَّ دَرَ‌جَةٌ﴾

''اور مردوں کو ان پر ایک فضیلت ہے۔''

میں مرد کو ایک گونہ فضیلت برائے ضرورت اسی حق طلاق میں دی گئی ہے، خدا کی طرف سے بخشی گئی یہ 'فضیلت' مردوں کونہیں، شوہروں کو حاصل ہے اور شوہر چونکہ ایک رشتے کا نام ہے اور رشتے کی فضیلت یہی ہے کہ وہ اس حق کو استعمال کرنے کا مجاز بنایا جائے۔ ہمارے خیال میں اگر کوئی شوہر اپنا یہ حق، اپنی زوجہ کو تفویض کرتا ہے تو دراصل وہ اللّٰہ کی شریعت میں تبدیلی کا جرم کرتا ہے۔ شریعت نے اسے یہ حق ہرگز نہیں دیا کہ وہ اپنا یہ حق زوجہ کو تفویض کر دے اور زوجہ جب چاہے یہ حق استعمال کرکے اپنے خاوند سے الگ ہوجائے، اگر یہ عمل شریعت کی رو سے درست ہوتا تو شریعت طلاق کے عمل کو ہی دو طرفہ کردیتی، پھر ایسا کرنے کی صورت میں خلع اور فسخ نکاح کی بھی حاجت نہ رہتی او رطلاق بہت آسان ہوجاتی۔

لیکن افسوس کہ ہماری کتبِ فقہ میں تفویض طلاق کے عنوان سے یہ حق، بیویوں کے حق میں تسلیم کرلیا گیا ہے ۔تفویض کے بعد طلاق کا حق صرف شوہر کے ہاتھ میں نہیں بلکہ بیوی کے ہاتھ میں بھی رہتا ہے۔ اُن دونوں میں سے جو چاہے وہ اسے بغیر کسی رکاوٹ کے استعمال کرسکتا ہے۔

قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی طلاق کا ذکر آیا ہے، اس کی نسبت ہمیشہ مرد کی طرف کی گئی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ طلاق دینے کا اختیار صرف مرد کو حاصل ہے مگر ہمارے بعض دانشوروں کو یہ امر خداوندی پسند نہ آیا یا یوں کہیے کہ ان کی سمجھ میں نہ آیا، اس لئے وہ اس امر کے مخالف ہوگئے او راسے عورتوں پر ظلم سے تعبیر کرنے لگے۔7 ہم سمجھتے ہیں کہ مرد کے حق طلاق پرمعترض ہونے یا اس حق کو عورتوں میں منتقل کرنے 8کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ (نعوذ باللّٰہ) قرآن مجید میں شاید کوئی غلطی ہوگئی ہے جسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

نکاح کے ذریعے میاں بیوی ایک دوسرے کے زوج قرار پاتے ہیں ، اس زوجیت کے رشتے میں مرد نا کح ہوتا ہے اور عورت منکوحہ، ایسا کبھی نہیں ِہوتا کہ عورت نا کح ہو اور مرد منکوحہ، اسی لئے تو ﴿بِيَدِهِ عُقدَةُ النِّكاحِ ﴾ میں گرۂ نکاح کا جس کے ہاتھ میں ہونا بیان ہوا ہے ، وہ مرد ہے نہ کہ عورت۔ اس لئے کہ بيده میں هضمیر مذکر کی ہے، اگر ضمیر مؤنث کی ہوتی تو گرہِ نکاح کو عورت کےہاتھ میں سمجھا جاتا؛ اس طرح عورت ناکح بھی ہوتی اور اس گرہ کو کھولنے کی مجاز بھی مگر شریعت نے ایسا نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام نہیں چاہتا کہ گرہِ نکاح عورت کے ہاتھ میں ہو، جب کہ تفویض طلاق میں گرہ نکاح عورت کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے اور وہ حق طلاق کو خود اپنے ہی خلاف استعمال کرکے اپنے شوہر سے الگ ہوجاتی ہے گویا خود ہی طالقہ ہوتی ہے اور خود ہی مطلقہ بھی، یعنی فاعلہ بھی خود اور مفعولہ بھی خود، یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص خود اپنے آپ سے نکاح کرلے، گویا خود ہی ناکح ہو اور خود ہی منکوحہ ۔ ذرا سوچئے کہ تفویض طلاق کی صورت حال کس قدر مضحکہ خیز ہے، کوئی ہے جو اس پر غور کرے...؟

'عقدہ نکاح' کی نسبت مرد کے تعلق سے ایک آیت پیشتر بھی مذکور ہے، اپنے موقف کی تائید میں اسے بھی پیش کئے دیتا ہوں۔ ارشادِ پاک ہے:

﴿وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّى يَبلُغَ الكِتـبُ أَجَلَهُ...٢٣٥﴾... سورة البقرة

''اور معاہدۂ نکاح کو پختہ نہ کرو جب تک بیوہ عورتوں کی عدت مکمل نہ ہولے۔''

تفویض طلاق کی بابت کچھ حقائق منتخب مفسرین کے حوالہ سے بھی ملاحظہ ہوں:

مفتی احمدیار خاں نعیمی رقم طراز ہیں:

''عورتوں کو طلاق کا حق دینا گویا دیوانہ کے ہاتھ میں تلوار دینا ہے، پھر دن بھر میں پانچ پانچ طلاقیں ہوں گی، دیکھ لو آج امریکہ اور انگلینڈ میں طلاقوں کی کیسی بھرمار ہے کہ وہ لوگ چیخ پڑے ہیں۔''9

مزید فرماتے ہیں:

''طلاق کا حق صرف مرد ہی کو ہے، نہ کہ عورت کو''10

[اس عبارت میں 'صرف' کا لفظ قابل توجہ ہے۔]

اسلام کا قانون خلع

تفویض طلاق کو سمجھنے کے لئے خلع کے قانون کا سمجھنا بہت ضروری ہے ، ہمارےنزدیک خلع کا قانون اپنی فطرت اور اصل میں تفویض طلاق کے قانون کا نقیض ہے۔

علامہ ابن رشد مالکی لکھتے ہیں:

''خلع کا فلسفہ یہ ہے کہ خلع عورت کے اختیار میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ مرد کے اختیار میں طلاق ہے، چنانچہ جب عورت کو مرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہو تو اس کے اختیار میں خلع ہے او رجب مرد کو عورت کی طرف سے تکلیف ہو تو شارع نے اسے طلاق کا اختیار دیا ہے۔''11

سورۃ البقرۃ کی آیت 229 12میں جس صورتِ طلاق کا ذکر ہے، اسے اصطلاحِ شریعت میں خلع کہتے ہیں، طلاق اور خلع میں فرق یہ ہے کہ جب طلاق کا مطالبہ عورت کی طرف سے ہوا ہو اور مرد اس مطالبہ کو پورا کردے تو اسے خلع کہتے ہیں او رجب مرد محض اپنی خواہش سے عورت کو اپنے سے جدا کرنا چاہے تو اسے طلاق کہتے ہیں۔

مذکورہ بالا قرآنی آیت کی تفہیم میں جمیلہ بنتِ عبداللّٰہ اور ثابت بن قیس کا واقعہ ہماری رہنمائی کرتا ہےجو صحیح احادیث میں آیا ہے، اس واقعہ میں مذکورہ عورت کی خواہش پر مذکورہ مرد نے رسول اللّٰہ ﷺ کے کہنے پر طلاق دی ، خلع کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا۔

اس آیت میں ایک چیز قابل توجہ ہے، آیت کے ابتدائی حصے میں : ﴿ وَلا يَحِلُّ لَكُم أَن تَأخُذوا﴾ آیا ہے، اس میں مخاطب کی ضمیر آتی ہے اور مراد شوہر ہیں جبکہ ﴿ فَاِنْ خِفْتُمْ﴾میں بھی یہی ضمیر آئی ہے مگر اس سےشوہر مراد نہیں ہیں بلکہ حکام عدالت یا بحیثیتِ مجموعی مسلمان مراد ہیں۔نحوی حضرات اپنی اصطلاح میں اسے 'انتشار ضمائر' کہتے ہیں اوراسے جائز و روا رکھتے ہیں، قرآن میں اس طرح کی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔

آیت کو بحیثیتِ مجموعی دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں خلع کی دو قسمیں مذکور ہوئی ہیں، قسم اوّل میں اس خلع کا بیان ہے جو گھر کے اندر رہتے ہوئے خوش اُسلوبی سےطےہوجائے اور قسم ثانی میں اس خلع کاجس کے لئے عورت کو قاضی کی عدالت میں جانا پڑے، بہر دو صورت خلع مطالبۂ طلاق کا نام ہے، خواہ وہ شوہر دے یا حاکم عدالت میں ان میں تفریق کرائے، اسی بات کومولانا حافظ صلاح الدین یوسف نے اپنی تفسیر احسن البیان میں یوں لکھا ہے کہ

''خلع بذریعہ طلاق بھی ہوسکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی۔''13

پیر محمد کرم شاہ الازہری نےلکھا ہے:

''...عورت حاکم وقت کے پاس خلع کا مطالبہ کرے او رحاکم پہلے اُن کی مصالحت کی کوشش کرے گا، اگر کامیابی نہ ہو تو خاوند نے عورت کو مہر میں جو کچھ دیا تھا، حاکم اسےلے کر خاوند کو واپس کردے اور اس کے درمیان تفریق کرا دے یہ خلع ہے۔''14

خلاصہ کے طور پر عرض ہے کہ طلاق یعنی زوجین کے مابین جدائی کی جوقسمیں قرآن سے ماخوذ و مستنبط ہیں، ان میں ایک تو طلاق ہے، دوسری خلع اور تیسری فسخ نکاح ہے۔ یہ تینوں قسمیں اپنے حوالوں کے ساتھ اوپر مذکور ہوچکیں اور تینوں کی موجودگی میں تفویض طلاق کا قانون ہماری نظر میں خدائی شریعت میں کسی نقص او رکمی کو تسلیم کرنے کےمترداف ہے۔

[ماہنامہ 'معارف' اعظم گڑھ، دارالمصنّفین، بھارت، جنوری 2007ء صفحات 23تا 34 ملخصاً]

اب دوسرا مضمون ملاحظہ فرمائیں، اس میں فاضل مضمون نگار نے حنفی ہونے کے باوجود حق خلع کے انکار کے لئے احناف جو دلائل پیش کرتے ہیں، اُن کا جواب بھی دیاہے اور اُنہیں نصوصِ قرآن و حدیث کے خلاف قرار دیا ہے۔ اس کا عنوان بھی فاضل مضمون نگار ہی کا تجویز کردہ ہے۔ یہ مضمون اُن کی کتاب 'جدید فقہی مسائل'سےماخوذ ہے...

خُلع میں قاضی او رحَکَم کے اختیارات

خلع کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس میں قاضی اور عدالت کے اختیارات کیاہوں گے؟ کیایہ مکمّل طور پر مرد ہی کے اختیار میں ہے اور اس کی آمادگی اور رضامندی ہی پر طلاق موقوف ہے یااس میں قاضی کو دخیل ہونے کا بھی کچھ حق ہے؟

فقہا کی رائیں

اس سلسلے میں فقہا کی آرامختلف ہیں۔ امام ابوحنیفہ کے یہاں یہ اختیار مکمل طور پر مرد ہی کے ہاتھ میں ہے۔ قاضی خود یا قاضی کی طرف سے مقرر کیے ہوئے حکم بطورِ خود عورت کو طلاق نہیں دے سکتے۔ اس کے برخلاف امام مالک کے نزدیک قاضی زوجین کے حد سے گزرے ہوئے باہمی اختلاف کی صورت میں ایک دو رکنی مصالحتی کمیٹی قائم کرے گا جس میں بہتر ہے کہ ایک مرد کارشتہ دار ہو اور دوسرا عورت کا، دونوں سمجھدار اور شرعی احکام سےواقف ہوں، پھر وہ ان دونوں کے حالات کا جائزہ لیں ۔ اگر مصالحت اور اتفاق کی کوئی صورت نکل آئے تو دونوں میں مصالحت کرا دیں، اور اگر یہ ممکن نہ ہوسکے اور دونوں کی رائے ہو کہ باہم تفریق اور علیحدگی کرا دی جائے تو وہ یہ بھی کرسکتے ہیں؛ اس طرح کہ مرد کا رشتہ دار حکم طلاق دےدے اور عورت کا رشتہ دار حکم مہر معاف کرنے کا یا جومعاوضہ مناسب سمجھے عورت کو اس کی ادائیگی کا پابند کرے اور دونوں میں تفریق ہوجائے۔15

احناف کے دلائل

احناف دراصل اس مسئلہ میں اس عام اُصول پر چلے ہیں کہ طلاق کا اختیار مردوں کے ہاتھ میں ہے اور خلع بھی مال کےعوض میں طلاق ہی ہے، اس لیے مرد کی آمادگی بہرطور ضروری ہوگی۔ اس بنا پر ان کے یہاں حَکمین کی حیثیت زوجین کے وکیل کی ہوتی ہے اور وہ اِنہی حدود میں رہ کر اقدام کرسکتے ہیں جو زوجین نے متعین کردی ہیں۔

دوسرے اُن کا استدلال اس واقعہ سے بھی ہے جسے ابوبکر جصاص رازی نے اپنی 'احکام القرآن' میں اور دوسرے مختلف مصنّفین نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ حضرت علیؓ نے ایک ایسے ہی مقدمہ میں حَکم متعین کیے۔ پھر ان حَکمین سے مخاطب ہوکر ان کی ذمہ داری بتائی کہ اگر ان دونوں کو جمع کرسکو تو جمع کردو اور ان کا ازدواجی رشتہ برقرار رکھو اور اگر تفریق وعلیحدگی مناسب محسوس ہو تو ایک دوسرے کو علیحدہ کردو۔ عورت تو اس پر آمادہ ہوگئی مگر مرد نے علیحدگی پر اپنی عدمِ آمادگی کا اظہار کیا۔ حضرت علیؓ نےمرد پر دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جب تک تم اس عورت کی طرح فیصلہ کی ہر دو صورت پر آمادگی کااظہار نہ کرو، یہاں سے ہٹ نہیں سکتے۔ «كَذَبْتَ وَالله لَا تَنْفَلِت مِنِّي حَتَّى تُقِرَّ كَمَا أَقَرَّت»16تو اس سے استدلال یوں ہے کہ یہاں حضرت علیؓ کا مرد کو تفریق کے لیے آمادہ ہونے پرمجبور کرنا بالکل بے معنیٰ ہوگا، اگر حکم کوبطور خود طلاق دینے کااختیار حاصل ہو اور وہ مرد کی رضا مندی حاصل کرنے کا مکلف نہ ہو۔

امام مالک کے دلائل

امام مالک اور جوفقہا قاضی کی طرف سے مقرر کیے ہوئے حَکمین کو تفریق اور علیحدگی کا مجاز گردانتے ہیں، ان کی دلیل سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود قرآن مجید کی طرف رجوع کریں۔ قرآن کہتا ہے:

﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما فَابعَثوا حَكَمًا مِن أَهلِهِ وَحَكَمًا مِن أَهلِها إِن يُر‌يدا إِصلـحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَينَهُما إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليمًا خَبيرً‌ا ﴿٣٥﴾... سورة النساء

''اگر تم کو ان دونوں کے درمیان شدید اختلاف کا اندیشہ ہے تو ایک ایک حَکم مرد و عورت کے خاندان سےبھیجو۔ اگر وہ دونوں اصلاحِ حال چاہیں گے تو اللّٰہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا۔ اللّٰہ تمام باتوں سے باخبر اور واقف ہے۔''

اس آیت میں متعدد قرائن ایسے ہیں جو امام مالک کے موقف کی تائید کرتے ہیں:

1. اوّل یہ کہ اس آیت کے مخاطب قضاۃ اور حُکام ہیں۔ سعید بن جبیر،ضحاک اکثر مفسرین اور خود ابوبکر جصاص رازی کی یہی رائے ہے اور قرآن کے لب و لہجہ سے بھی اسی کی تاکید ہوتی ہے۔ اب ظاہر ہےکہ قاضی اور حاکم کی حیثیت واعظ اور محض اخلاقی اپیل کرنے والے ناصح کی نہیں ہے بلکہ اس کا منصب یہ ہے کہ جو لوگ وعظ و نصیحت کی زبان سمجھنے پر آمادہ نہ ہوں ،اُن کے لیے قانون اور اختیارات کی تلوار استعمال کی جائے۔لہٰذا اگر قاضی کے مقرر کردہ حَکمین کو قانونی اختیار حاصل نہ ہو تو قرآن کا قاضی کومخاطب بنانا اور قاضی ہی کی طرف سے حَکمین کی تقرّری ایک بے معنی بات ہوجائے گی۔اس لیے قضاۃ اور حکام سے خطاب بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اس مسئلہ میں قاضی کے نمائندہ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہونی چاہیے کہ وہ چاہے تو مصالحت کرا دے یااپنی صوابدید پرعلیحدگی کردے۔

2. دوسرے قاضی کے بھیجے ہوئے ان نمائندوں کے لیے قرآن نے حَکم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حَکم کے معنی خود حکم اور فیصلہ کرنے والے کے ہیں۔اب اگر اس کی حیثیت محض طرفین کےوکیل کی ہو اور وہ ان کے احکام کا پابند ہو تو وہ حکم اور فیصل کہاں باقی رہا۔ اس تعبیر کا تقاضا بھی ہے کہ وہ تفریق اور مصالحت کےمعاملہ میں خود مختار ہوں ۔

3. تیسرے قرآن نے یہاں ﴿إِن يُر‌يدا إِصلـحًا﴾ کہا ہے: ''اگر حَکمین ان دونوں میں مصالحت کرانا چاہیں۔'' یہاں حکمین کی طرف 'ارادہ' اور 'چاہنے' کی نسبت کی گئی ہے اور ایسی بات اسی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو کسی کام کے کرنے اور اس کے خلاف اقدام کرنے کااختیار رکھتا ہے ۔جو شخص کسی کا وکیل ہو وہ ارادہ و اختیار کامالک نہیں ہوتا وہ تو بہر صورت خاص اسی حکم کا پابند ہوتا ہے۔

احادیثِ نبویؐہ

اب آئیے ان احادیث کی طرف جو اس مسئلہ میں قاضی کے مختار ہونے کو بتاتی ہے:

4. امام بخاری نے حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ ثابت بن قیسؓ کی بیوی حضورؐ کی خدمت میں تشریف لائیں اور عرض کیا :اے اللّٰہ کے رسولؐ! مجھے ثابت بن قیسؓ کے دین و اخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن مجھے یہ بات بھی پسند نہیں ہے کہ مسلمان ہوکر کسی کی ناشکری کروں ( أكره الكفر في الاسلام) یعنی ایک طرف ثابتؓ کامیرے ساتھ اچھا سلوک ہے، دوسری طرف میرا اُن کی طرف طبعی رجحان نہیں ہے جس کے باعث میری طرف سے ان کی ناقدری ہوتی ہے۔ اس لیے ہم دونوں میں علیحدگی کرا دی جائے۔ آپؐ نے فرمایا: کیاتم اس کو اس کاباغ لوٹا دوگی۔ اُنہوں نے کہا :'ہاں'.... اب آپؐ نے حضرت ثابتؓ سے فرمایا کہ باغ لے لو اور اس کو طلاق دے د و«اقبل الحديقة وطلِّقها تطليقةً» اور ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ حضورؐ نے اُن کو حکم دیا لہٰذا اُنہوں نے بیوی کو علیحدہ کریا۔ (أمره ففارقها)17

امام بخاری کی ایک اور روایت اور نسائی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نام جمیلہ بنت عبداللّٰہ تھا۔اس حدیث میں واقعہ کا یہ پہلو بہت قابل غور ہے کہ حضورؐ نے حضرت ثابتؓ سے اپیل نہیں کی نہ مشورہ کیا بلکہ دو ٹوک لفظوں میں طلاق دینے کا حکم فرمایا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ قاضی مرد کی رضا مندی اور آمادگی معلوم کرنے کا پابند نہ ہوگا بلکہ حسبِ ضرورت اس کو اپنی صوابدید پر نافذ کرے گا۔ اب اس کےنافذ کرنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ خود مرد اس بات کے لیے تیار ہوجائے اور طلاق دے دے جیسا کہ اس واقعہ میں ہوا، یاپھر قاضی خود علیحدہ کردے۔

آثارِ صحابہؓ

احادیث کے بعد صحابہؓ کے آثار اور معمول پرنظر ڈالیے:

5. اس نوعیت کا ایک واقعہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں پیش آیا۔ ان کے زمانہ میں عقیلؓ بن ابی طالب اور فاطمہؓ بنتِ عتبہ(جو میاں بیوی تھے) کےدرمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ فاطمہؓ نے حضرت عثمان غنیؓ سے شکایت کی ۔ حضرت عثمانؓ نے عبداللّٰہ بن عباسؓ اور معاویہؓ کو بحیثیتِ حَکم بھیجا۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ نے فرمایا: (أفرقن بينهما) ''میں ضرور ان دونوں میں تفریق کردوں گا۔'' اورمعاویہؓ نے کہا کہ میں عبدمناف کے دو بزرگ خانوادوں میں تفریق نہیں کرسکتا (ما كنت لا فرق بَيْنَ شَيْخَيْنِ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَاف) یہاں تک کہ ان دونوں نے باہم خود ہی مصالحت کرلی۔18

یہاں بھی حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ کا بحیثیتِ حکم فرمانا کہ میں ان دونوں کےدرمیان ضرور تفریق کردوں گا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حَکم بحیثیتِ حَکم خود ہی تفریق کےمعاملہ میں مختار ہوتا ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ دونوں ہی حَکم کسی ایک رائے پر متفق ہوجائیں۔

6. اس سلسلہ کا دوسرا واقعہ وہی حضرت علیؓ کے عہد ِخلافت کا واقعہ ہے جس کا مجمل ذکر اس سے پہلے ہوچکا ہے۔ دارقطنی نے محمد بن سیرین کےواسطہ سے صحیح سند سے اس واقعہ کی تفصیل ان الفاظ میں نقل کی ہے کہ ایک شوہر و بیوی اپنے اپنے لوگوں کے ساتھ حضرت علیؓ کی خدمت میں آئے۔ حضرت علیؓ کے حکم سے شوہر و بیوی ہرایک کے لوگوں میں سے ایک ایک حَکم منتخب کیےگئے۔ حضرت علیؓ نے اُن دونوں سےمخاطب ہوکر فرمایا:کیا تم کو اپنے ذمّہ داری معلوم ہے؟ تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ مناسب سمجھو تو دونوں میں علیحدگی کرا دو۔ عورت نے کہا: میں اللّٰہ کی کتاب پر راضی ہوں چاہے اس کا فیصلہ میرے حق میں ہو یامیرے خلاف...!

شوہر نے کہا کہ جہاں تک علیحدگی کی بات ہے تو میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں۔ (أما الفرقة فلا) حضرت علیؓ نے کہا: تم نےجھوٹ کہا، تم بھی جب تک اس عورت کی طرح اقرار نہ کرلو، یہاں سے جا نہیں سکتے۔

اس مقدمہ میں حضرت علیؓ کا حَکمین سے کہنا کہ کیاتم اپنی ذمہ داری سے واقف ہو، تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ اگر تم چاہو تو علیحدگی کرا دو(هَلْ تَدْرِيَانِ مَا عَلَيْكُمَا؟ عَلَيْكُمَا إِنْ رَأَيْتُمَا أَنْ تُفَرِّقَا فَرَّقْتُمَا) 19اس بات کی علامت ہے کہ حَکمین بحیثیتِ حَکم تفریق کا اختیار رکھتے ہیں اوروہ اس کے ذمّہ دار ہیں۔ اگر ان کی حیثیت محض وکیل کی ہوتی تو سوال اس طرح ہوتا ''کیاتمہیں معلوم ہے کہ تم کس بات کے وکیل بنائے گئےہو؟(هل تدريان ما وكلّتما) پھر یہ کہ خلع میں اگر ایک طرفہ مرد کی رضا مندی ضروری ہوتی اور قاضی کو اس سلسلہ میں کوئی اختیار نہ ہوتا تو یہ بات بھی درست نہ ہوتی کہ حضرت علیؓ اس پر طلاق کی آمادگی کے لئے دباؤڈالیں، وہ زیادہ سے زیادہ سفارش اور اپیل ہی کرسکتے تھے۔

ان وجوہ کی بنا پر واقعہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام مالک کی رائے زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے اور یہی رائے اکثر فقہا: اوزاعی، اسحاق، شعبی، نخعی، طاؤس، ابوسلمہ، ابراہیم، مجاہد اور امام شافعی ﷭کی ہے اور صحابہ میں بھی حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ کا یہی مسلک نقل کیا گیا ہے۔

احناف کےدلائل کا تجزیہ

احناف کےدلائل اس مسئلہ میں قابل غور ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ اصل یہ ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں ہے، تسلیم ہے مگر اس سےبھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مقاصدِ نکاح کی حفاظت اور زوجین کی مصلحتوں کی رعایت کےپیش نظر قاضی بھی بہت سی صورتوں میں تفریق کا مختار بن جاتا ہے۔ یہاں بھی زوجین کےبڑھتے ہوئے شدید اور ناقابل حل اختلاف کو پیش نظر رکھ کر جب قاضی کےنمائندے اس نتیجہ پر پہنچ جائیں کہ ان دونوں میں تفریق اور علیحدگی ہوجانی چاہیے تو مقاصدِنکاح کی حفاظت اور دونوں کو اللّٰہ کی حدوں پر قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوگا کہ یہ لگام مرد سے لے لی جائے اور قاضی کی طرف سے مقرر شدہ حَکم از خود تفریق کردیں۔

احناف کا یہ استدلال کہ حضرت علیؓ نے شوہر کو اس کا اقرار کرنے پر مجبور کیوں کیا کہ وہ بھی حکم کے فیصلہ کےمطابق مصالحت اور علیحدگی ہر دو صورت پر آمادہ ہو۔ کیونکہ اگر حکم کو اس کا اختیارہوگا تو شوہر کااقرار کرنا اور انکار کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، بھی دو ٹوک نہیں ہے۔ امام مالک اور ان کے ہم خیال حضرات کےنزدیک حضرت علیؓ کے اس حکم کی حیثیت وہی تھی جو نامرد کو طلاق کا حکم دینے کے سلسلے میں ہے۔

یعنی اگر شوہر نامرد ہو اور عورت نے یہ ثابت کردیاکہ وہ اس سے علیحدگی کی حقدار ہے تو قاضی پہلے خود شوہر سے کہے گا کہ وہ عورت کو طلاق دے دے، مرد اگر اس پر آمادہ ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ خود قاضی اس کی طرف سے عورت کو طلاق دے دے گا۔حضرت علیؓ کامطالبہ یہاں اسی نوعیت کا تھا کہ اگر شوہر خود طلاق دے دے تو بہتر ہے ورنہ پھر قاضی کے نمائندے حکمین خود اس ناخوشگوار فریضہ کو انجام دیں گے۔

ہمارے زمانے میں جہالت او راحکامِ شرع سے بے خبری اور اس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں ظلم و زیادتی اور اختلافات کی روشنی میں اگر اس مسئلہ میں فقہاے مالکیہ کی رائے قبول کرلی جائے تو شاید مناسب ہو۔

یہ چند سطریں اس لئے لکھی گئی ہیں کہ علماے کرام اور اربابِِ افتا اس جزئیہ پر نظرثانی کریں۔ والله هو المستعان و عليه التّكلان

ان اُمور کے علاوہ ہمارے فلاسفہ اسلام نے خلع کی جو روح اور حکمت بتائی ہے وہ بھی اس سے مطابقت رکھتی ہے جو امام مالک کا مسلک ہے۔ چنانچہ حافظ ابن رشد مالکی لکھتے ہیں:

''خلع عورت کے اختیار میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ مرد کے اختیار میں طلاق ہے۔ چنانچہ جب عورت کو مرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہو تو اس کے اختیار میں خلع ہے اور جب مرد کو عورت کی طرف سے تکلیف ہو تو شریعت نے اسے طلاق کا اختیار دیا ہے۔''  20

[جدید فقہی مسائل:حصہ دوم، ص97تا107

طبع حرا پبلی کیشنز، اُردو بازار، لاہور]

عبارت کی تصحیح

'محدث' کے گذشتہ شمارے نمبر361 میں شائع شدہ اس مضمون کی پہلی قسط یعنی 'تفویض طلاق والے' مضمون میں ص66 کی سطر نمبر14 کو اس طرح پڑھیں:

دوسری صورت خیار طلاق کی ہے....

اور سطر نمبر17 اس طرح پڑھیں:

تیسری صورت جو بعض آثارِ صحابہ سے ثابت ہے، یہ ہے ...

قاری حضرات مضمون میں یہ ضروری تصحیحات کرلیں۔ شکریہ ... ادارہ
حوالہ جات

1. درسِ ترمذی:3؍497

2. تفسیر روح البیان: 1؍ 590

3. الاعتصام للشاطبی 1؍274

4. تفسیر 'روح البیان':1؍588، ناشر:جامعۃ البنوریہ العالمیہ، کراچی

5. استاذ الفقہ والتفسیر، شعبہ علوم اسلامی، جامعہ کراچی

6. مجموعہ قوانین اسلام: 2 ؍602، از جسٹس تنزیل الرحمٰن، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد

7. فاضل مقالہ نگار کا اشارہ غلام احمد پرویز جیسے منکرین حدیث کی طرف ہے جو حق طلاق کو صرف مرد کے ساتھ خاص کرنے کو عورت پر ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔(مطالب الفرقان:3؍392تا394، طبع طلوعِ اسلام لاہور 1993ء) (ص۔ی)

8. جیسا کہ علماے احناف اس کے قائل ہیں۔ (ص۔ی)

9. اشرف التفاسیر المعروف بہ تفسیر نعیمی، جلد4؍625، مکتبہ اسلامیہ، مفتی احمد یارخاں روڈ، گجرات

10. تفسیر نعیمی: 2؍ ص568...تفسیرزیر آیت سورۃ البقرۃ:237

11. بدایۃ المجتہد: 2؍68، مطبوعہ مصر 1379ھ

12. ﴿ الطَّلـقُ مَرَّ‌تانِ فَإِمساكٌ بِمَعر‌وفٍ أَو تَسر‌يحٌ بِإِحسـنٍ وَلا يَحِلُّ لَكُم أَن تَأخُذوا مِمّا ءاتَيتُموهُنَّ شَيـًٔا إِلّا أَن يَخافا أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّهِ فَإِن خِفتُم أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّهِ فَلا جُناحَ عَلَيهِما فيمَا افتَدَت بِهِ تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَعتَدوها وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَأُولـئِكَ هُمُ الظّـلِمونَ ﴿٢٢٩﴾... سورة البقرة

13. تفسیر زیر آیت 229

14. ضیاء القرآن، جلد اوّل ص158، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، گنج بخش روڈ لاہور، طبع اوّل 1402ھ

15. احکام القرآن للجصاص: 2؍192؛ الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: 5؍177

16. احکام القرآن للجصاص:2؍239

17. صحیح بخاری:5273،5276

18. الجامع الاحکام القرآن للقرطبی: 5؍176... سورۃ النساء: 35

19. الجامع الاحکام القرآن للقرطبی: 5؍177... سورۃ النساء: 35

20.بدایۃ المجتہد: 2؍ 68