قصبہ پٹی (انڈیا)
اگست 1947ء میں تقسیم ملک کےوقت متحدہ ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع لاہور کےمتعلق قیاس آرائیاں یہی تھیں کہ یہ ساراضلع پاکستان میں شامل ہوگا لیکن ہوا یہ کہ ضلع کی تحصیل قصور کے چار تھانے: کھیم کرن، گھڑیالہ، ولٹوعہ اور پٹی شرقی پنجاب میں شامل کردیے گئے۔ ان تھانوں میں سے 'پٹّی' ایک بڑا با رونق قصبہ تھا،آبادی او رپھیلاؤ کےلحاظ سے بھی وسعت رکھتا تھا، پرانے اور نئے شہر کے دو بڑے بازار کاروباری مراکز تھے۔ اس قصبہ کےقدیمی آباد کار مغلیہ خاندان کے لوگ تھے اس طرح پٹی کو مغلوں کی پٹی بھی کہا جاتا تھا۔
ہمارے فاضل اور محقق دوست مولانامحمد اسحٰق بھٹی نے اپنی تازہ تصنیف 'برصغیر میں اہل حدیث کی سرگذشت' میں پٹی کے ایک دینی مدرسہ محمدیہ کا مختصراً سا ذکر کیا ہے۔ مدرسہ کے اساتذۂ گرامی منزلت مولانا عبدالرحمٰن لکھوی، مولانا ہدایت اللّٰہ ندوی اور مہتمم مولانا محمد علی قصوری تھے۔ بچپن میں ان سطور کے راقم کو ان حضرات کی مجالس اور زیارت کی سعادت حاصل ہے کیونکہ یہ مدرسہ ہمارے ہی محلہ مومن آباد کی وسیع و عریض مسجد میں قائم تھا۔ مدرسہ کے نگران و منتظمین میں مولانا محمد یحییٰ انصاری، اُن کے چھوٹے بھائی میاں محمد عبداللّٰہ انصاری ، میرے والد اور کچھ دیگر صلحا تھے۔
بھٹی صاحب نے دوسرے مدارس کا ذکر نہیں کیا، شاید ان کے علم میں نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تصانیف میں اکثر توجہ دلاتے ہیں کہ ایک شخص کہاں تک معلومات فراہم کرسکتا ہے جبکہ ہمارے اسلاف کی دینی و اصلاحی اور دعوت و ارشاد کی خدمات کا دائرہ کار از حد وسیع ہے، بھٹی صاحب کی اسی ترغیب سے متذکرہ سطور تحریر میں لانے کا داعیہ پیدا ہوا۔
پیارے فاضل دوست جناب ڈاکٹر بہاؤالدین مقیم برطانیہ جو تحریکِ ختم نبوت اور تاریخ اہل حدیث بڑی جانفشانی سے مرتب فرما رہے ہیں، اُنہوں نے بھی فون پرمجھے توجہ دلائی کہ آپ پٹی کے رہنے والے ہیں جو بڑا مردم خیز شہر تھا، اس کے بارے میں کچھ تو لکھیں۔ بہر کیف ڈاکٹر صاحب کا فرمان بھی سرتسلیم خم کرنے کے مترادف تھا، لیکن یہ عاجز تقسیم ملک کے وقت بچپن اور نوعمری میں تھا مگر والدِ گرامی کی علما سے محبت و شغف اور ہمارے غریب خانہ پر اُن کا آنا جانا تقسیم ملک سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ایک عرصہ تک رہا جن کی صحبت و ملاقاتیں میرے لئے متاعِ عزیز ہیں او راس دور کی بھولی بسری یادیں ذہن میں تازہ کرکے سپردِ قلم کردیتا ہوں۔
عرض کیا جارہا تھا کہ مدرسہ محمدیہ کے علاوہ بھی پٹی میں دینی مدارس تھے جن میں سے پرانے شہر کی جامع مسجد اہل حدیث میں قائم مدرسہ اعلیٰ سطح پر تھا جس کی مسند ِتدریس پر حضرت مولانا حافظ محمد حسین روپڑی(مدیراعلیٰ محدث حافظ عبدالرحمٰن مدنی﷾کے والد محترم)، حضرت حافظ حکیم محمد احمد اور خطیبِ مسجد حضرت مولانا عبدالرحمٰن فائز تھے اور اُس کے منتظمین میاں محمد عالم، میاں دین محمد، اُن کے والد میاں مولابخش اور میاں عبدالستار (جوماضی قریب میں سرگودھا میں انتقال کرگئے تھے)،مولانا حکیم عبدالرحمٰن آزاد (تقسیم ملک کے بعد گوجرانوالہ آگئے، مجلس احرار کے قائد اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے رہنماؤں میں سے تھے)، مولانا عبدالعظیم انصاری او رحافظ عبدالرحمٰن پٹوی ثم قصوری کی رہائشیں اور کاروبار اسی مسجد کے نواح میں تھیں۔ تمام اردگرد کا ماحول دینی تھا، اکثریتی آبادی مسلمانوں کی تھی۔منڈی کی جامع مسجداہل حدیث کےخطیب نمونۂ سلف مولانا سیدعبدالرحمٰن شاہ تھے۔
ایک اور مضافاتی بستی میں مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح خطیب تھے جومدرسہ رحمانیہ دہلی سے تحصیل علم کے بعد پٹی آئے، وہ میرے والد کے جگری دوست اور صبح و شام اکل و شرب اوربیٹھنے اُٹھنے میں عام طور پر اکٹھے دیکھے جاتے۔ حافظ صاحب چھوٹی عمر میں والدین کے سایہ سےمحروم ہوگئے تھے، اکیلے بھائی خود ہی تھے۔ ان کی جوان خوبصورتی او ربلند آہنگ تقریروں کا بڑا شہرہ تھا۔ خوش طبعی او رہردل عزیزی کے سبب تمام طبقات میں مقبول و معروف تھے۔ پٹی سے وہ جاذب ِنظر شہر ترن تارن ضلع امرتسر میں چلے گئے اور وہاں کی جامع مسجد اہل حدیث میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ مسجد کے قریبی میدان میں ہر سال سالانہ جلسہ منعقد کرتے جس میں والد صاحب باقاعدگی سے شرکت کرتے، تقسیم ملک سے چند ماہ قبل غالباً مارچ 1947ء کے سالانہ جلسہ پر والد صاحب مجھے بھی ہمراہ لے گئے۔
اب سنیے اس جلسہ کے ایک رات کے اجلاس کی روداد، جس کی صدارت حضرت مولانا ثناء اللّٰہ امرتسری فرما رہے تھے۔ اس دور کے نامی گرامی مقرر مولاناعبداللّٰہ ثانی اپنی مسحور کن آواز میں تقریر کررہے تھے کہ کسی نےمولانا امرتسری کے کان میں آکر عرض کیاکہ جلسہ کے ایک کونے میں حافظ محمد اسماعیل روپڑی او رحافظ عبدالقادر روپڑی کھڑے ہیں جو کسی نزدیکی گاؤں میں تبلیغی پروگرام سے فارغ ہوکر یہاں پہنچ گئے تھے، ان دنوں روپڑی ثنائی نزاع جو علمی نوعیت کا تھا مگر عروج پر تھا اور دونوں طرف کے علما کے باہم مذاکرات و گفتگو میں بعض اوقات تلخیاں بھی پیدا ہوجاتی تھیں۔ ان کشیدہ احوال کے باوجود مولانا امرتسری نے روپڑی برادران کو پیغام بھیجا کہ وہ اسٹیج پر آجائیں چنانچہ دونوں بھائی اسٹیج پر تشریف فرما ہوئے۔ مولانا ثانی کی تقریر کے بعد مولانا امرتسری نے دونوں کی تقریریں کرائیں۔ یاد پڑتا ہےکہ مولانا ثانی کی توحید کے موضوع پر تقریر کو آگے بڑھاتے ہوئے حافظ محمد اسماعیل نے اپنے ممتاز لحن داؤدی اور شیریں بیانی سےخطاب کیا۔ حافظ عبدالقادر نے ختم نبوت کے زیر عنوان دھواں دھار اور ولولہ انگیز تقریر کی جن کے بعد حضرت مولانا امرتسری نے اپنے روایتی حسن اخلاق او رکریمانہ اَقدار کا مظاہرہ فرماتے ہوئے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ اختلافات اپنے مقام پر مگر یہ دونوں بچےمیرے بھتیجے ہیں، اُن کی حوصلہ افزائی او ران سے شفقت و پیار میں میرا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ تو سنت ِنبویؐ ہے۔
موضع پٹی کا تذکرہ ہوتے ہوتے قریب کے دو اسٹیشن چھوڑ کر شہر خوش نما ترن تارن کے ایک شگفتہ اور تاریخی واقعہ کی یاد آگئی جسے اوپر تحریر میں لاچکا ہوں۔ پٹی کے تھانہ کی بلند بانگ محل نما عمارت کے پہلو میں کئی کنال پر مشتمل ایک عظیم الشان دارالعلوم قائم کیا گیا جس میں درسِ نظامی ہائی سکول اور حفظ قرآنِ مجید اور قرات و تجوید کے شعبوں میں تعلیمات کا اجرا کیا گیا۔ اس دارالعلوم کی بنیاد تقسیم ملک سے دو ڈھائی سال پہلے ایک تین روزہ عالی شان کانفرنس کے انعقاد کےموقع پر رکھی گئی جس کی صدارت بھی حضرت مولانا امرتسری نے فرمائی تھی۔
ضرورت کےمطابق بلڈنگ تیار ہوچکی تھی۔ ان سطور کے راقم نے اسی درس گاہ میں ناظرہ قرآنِ مجید اور سکول کی دو جماعتیں پڑھی تھیں۔ کانفرنس میں جن اسلاف اور صالحین کی زیارت کا مجھے شرف حاصل ہوا ان میں مولانا امرتسری، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، حضرت حافظ محمد عبداللّٰہ روپڑی، حافظ محمد حسین روپڑی،مولانا عطاء اللّٰہ حنیف بھوجیانی اور امیر انجمن اہلحدیث پنجاب حضرت سید محمد شریف شاہ گھڑیالوی۔ نوجوان علما کی کثیر تعداد تھی جن میں سے چند معروف مولانا محمد عبداللّٰہ ثانی، مولانا احمد دین گکھڑوی، مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح، حافظ محمد اسماعیل روپڑی، حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا علی محمد صمصام، مولانا امیر الدین بھانبڑی، مولانا حافظ محمد ابراہیم باقی پوری ثم حافظ آبادی، مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف، مولانا نور حسین گرجاکھی او رمولانا عبدالمجید سوہدروی کے اسماے گرامی مجھے یاد ہیں۔ پاکستان میں آکر بھی یہ حضرات آخر دم تک تبلیغ و دعوت کتاب و سنت میں مصروف ہوگئے۔ حافظ عبدالرحمٰن پٹوی ثم قصوری اسٹیج سیکرٹری تھے۔اسٹیج کے دائیں بائیں رضا کاروں میں مولانا عبدالعظیم انصاری، حاجی محمد علی پٹوی ثم وہاڑی، میاں عبدالستار ، صوفی جمال دین پٹوی ثم عبدالحکیم ضلع خانیوال اپنے دیگر ساتھیوں کےہمراہ ڈیوٹیوں پر تھے او رنعروں کی بہاروں سے بھی مجمع میں ایک ولولہ پیدا کررہے تھے۔
اس دارالعلوم کے اصل بانی سید عبدالرحمٰن شاہ او رمیاں محمد عالم تھے۔ افسوس کہ یہ تعلیمی منصوبہ تقسیم ملک کی نذر ہوگیا لیکن ان صالحین کا جذبہ تقسیم ملک کے بعد بھی قائم رہا اور دونوں حضرات مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے، چنانچہ انہی کے تصور اور خاکہ پرمولانا غزنوی، مولانامحمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد حنیف ندوی او رمولانا محمد عطا ء اللّٰہ حنیف جیسے اکابر نے فیصل آباد میں جامعہ سلفیہ کی بنیاد و تاسیس رکھی جس کی تفصیل میں کسی گذشتہ مضمون میں تحریر کرچکاہوں۔
محمدی بیگم کی داستان
اب مزید موضع پٹی کاذکر کرتے ہیں جیسا کہ پیچھے لکھا جاچکا ہے کہ اس تاریخی قصبہ کے آباد کار مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان کے آباؤاجداد میں سے تقسیم ملک کے موقع پر جو نمایاں افراد موجود تھے، وہ تھے: مرزا امان اللّٰہ، مرزا حمیداللّٰہ اور مرزا اسلم بیگ۔ آخر الذکر مرزا اسلم بیگ میرے والد کے دوستوں میں سے تھے۔ وہ قریباً ہر روز عصر کے بعد ہماری دکان پر آجاتے ، چائے کا رواج ان دنوں کم تھا ،البتہ اُنہیں پڑوس کے حکیم عمر دین عطار کی دکان سے والد صاحب شربت پلاتے۔ کئی طرح کی دونوں میں گپ شپ رہتی۔ میں نے دیکھا کہ کئی مرتبہ ان کی بات چیت میں مرزا غلام احمد قادیانی کی محمدی بیگم سے رغبت و ناکامی او رکذب و افترا کی باتیں ہوتیں اور دونوں خوب محظوظ ہوتے۔
مرزا غلام احمد نے پٹی کی رہائشی اور اسی مغل خاندان کی جواں سال بیٹی سے نکاح کے لئے بڑے جتن کئے، الہامات او راشتہارات شائع کئے کہ میرا نکاح اس سے لازمی طور پر ہوگا۔ مرزا نے خاندان کے افراد کے ذریعے کئی قسم کے مالی لالچ بھی دیئے اور نکاح نہ کرنے کی پاداش پر اُن پر عذابِ الٰہی او رمصائب سے دوچار ہونےکے الہامات سے ڈرایا دھمکایا مگر بے سُود!
غرضیکہ مرزاغلام احمد نےمحمدی بیگم کےساتھ نکاح رچانے کے لئے کئی طرح کوششیں اور سازشیں کیں جسے مرزا اسلم بیگ مزے لےلے کر بیان کرتے۔ میرے والد مرحوم بھی علماے کرام سے اس سلسلہ کی سُنی مرزا کی خرافات کا ہنس ہنس کر اظہار کرتے۔مرزا اسلم بیگ نے بتایا کہ مرزا غلام احمد کی ذلّت و رسوائی یوں ہوئی کہ محمدی بیگم کا نکاح میرے ایک عزیز سلطان محمد سےہوگیا لیکن مرزا غلام احمد اس کے باوجود پیش گوئیاں کرتارہا بلکہ یہ دعویٰ کردیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے محمدی بیگم کا نکاح میرے ساتھ خود پڑھا دیا ہے۔ اس پر بعض لوگوں کے اعتراضات کاجواب دیتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ ''اس عورت کانکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھایا گیا ہے۔''
ایک دفعہ مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی نے اپنی تقریر میں مولانا احمد الدین گکھڑوی کے مرزائی مناظر مولوی سلیم کے ساتھ مناظرہ کا احوال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مناظرہ کاموضوع 'نکاحِ مرزا' تھا۔ مولانا احمد دین مرزائی مناظر سے کہنے لگے کہ آپ کےعقیدہ کے مطابق مرزا صاحب کا نکاح آسمان پر اللّٰہ تعالیٰ نے محمدی بیگم سے پڑھایا۔لہٰذا چھوہارے فرشتے کھا گئے، دُلہن پٹی والا لے گیا، آپ لوگوں کےہاتھ کیا آیا جو خواہ مخواہ بحث و مباحثہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ مولانا احمد دین نے حقیقتِ حال واضح کرتےہوئے مزید کہا کہ محمدی بیگم مرزا غلام احمد کی عبرت ناک موت کے بعد نوے برس سے زائد عمر پاکر لاہور میں فوت ہوگئی جس نے وصیت کی تھی کہ کوئی مرزائی میرے جنازے پر نہ آئے۔
مولانا امرتسری کی بلند اخلاقی
چلتے چلتے ایک اور دل آویز واقعہ دماغ میں تازہ ہوگیا، پٹی کی جس کانفرنس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس میں مولانا امرتسری کی صدارت میں رات کے اجلاس میں مولانا احمددین گکھڑوی اور ان کے بعد مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی نے نہایت ایمان افروز او رباطل شکن تقریریں کیں جن کے بعد مولانا امرتسری مائک پر آئے اور دائیں طرف مولانااحمد دین کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بائیں طرف حافظ عبدالقادرروپڑی کو بلا کر اُن کےکندھوں پر ہاتھ رکھا اور سامعین کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ان شاء اللّٰہ میدانِ مناظرہ خالی نہیں رہے گا، کیونکہ یہ دونوں نوجوان علما میرے خلا کو پُر کریں گے ۔پھر دونوں کی زندگیوں کے لئے اور علم و عمل کی فراوانیوں کےلئے دعائیں دیں۔ ؏ خدا رحمت کند ایں عاشقان ِ پاک طینت را !!