حالیہ انتخابات میں جملہ اسلامیانِ پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا مقصد، ہدف اور نعرہ کسی مقبول سیاسی جماعت نے نہیں اپنایااور اگر کسی نے ڈھکے چھپے لفظوں میں اسے پیش بھی کیا تو عوام پاکستان نے اُس کو خاص پذیرائی نہیں بخشی ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر انتخابات سے قبل پاکستان کے نظریہ جو ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے، اُس سے ہی سرے انکار کیا جاتا رہا۔اگر 'الیکشن کمیشن آف پاکستان' کے بعض اہل کاروں نے دستور کی دفعہ 62،63 کی تصدیق کرتے ہوئے اسلام کی بنیادی معلومات پر مبنی سوالات اُمیدواروں سے دریافت کئے تو اُنہیں اس سے روک کر، اُن کی چھان پھٹک کو محض مالی بدعنوانی یا تعلیمی اسناد تک محدود کردیا گیا۔ان حالات میں ایسے ممبران سے کیا توقع کی جائے کہ وہ کتاب وسنت کی روشنی میں قانون سازی کریں گے، جب کہ وہ اسلام کی اساسات سے بھی واقف نہیں۔
نظریہ پاکستان کے بارے میں واضح رہنا چاہئے کہ اگر یہ مسئلہ امر واقعہ میں تحقیق طلب تھا تو بہر حال اب اس کی تحقیق کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قرار داد مقاصد 1949ء اور 1973ء کے متفقہ آئین میں واضح طورپر یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں کتاب وسنّت کو فروغ دیا جائے گا۔ اس دستور کو عوام پاکستان کے منتخب نمائندے منظور کرچکے ہیں، عدالتیں اس کی بناپر فیصلہ کرتی ہیں اور یہ جمہوری اساسات پر ایک مسلمہ بن چکا ہے کہ پاکستان میں اسلام نظام کو قائم کیا جائے گا، اس کے باوجود نامعلوم کیوں، پاکستان کے سیکولر حضرات اپنی رٹ لگائی رکھتے ہیں اور میڈیا ان کی بے تکی ہانک کو اُچھالتا رہا ہے، اب اس طے شدہ قضیہ کو موضوع بنانا لکیر پیٹنے کے ہی مترادف ہے۔اس بنیادی سوال کا فیصلہ قرار داد مقاصد کی آئینی دستاویز بخوبی کردیتی ہے کہ پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟... الیکشن سے قبل کے ایام میں جاری اسی مباحثہ میں درج ذیل دو کالم خصوصی افادیت کے حامل رہے، معلومات میں اضافہ کی خاطر ملاحظہ کیجئے۔ ح م
خدا جانے ہمارے یہ مہربان پاکستان کی نظریاتی اساس کوباربارکیوں مشق ستم بناتے اوران حقائق سے انکارکرتے ہیں جن سے ہماری پوری تاریخ بھری پڑی ہے۔ مقصد نوجوان نسلوں کوکنفیوژ کرنا ہے یا پاکستان کے تصور کو مشکوک بنانا، مجھے علم نہیں لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے جب پڑھے لکھے ڈگری یافتہ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نظریۂ پاکستان نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں او ر نہ ہی کبھی قائداعظم کے منہ سے آئیڈیالوجی کا لفظ نکلا تھا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک اتنا بڑا ملک جو 1947ءمیں دنیاے اسلام کا سب سے بڑا ملک تھااور جو برصغیر کی تقسیم کے نتیجے کے طور پر ظہور پذیر ہوا، وہ کسی نظریئے اور تصور کے بغیر وجود میں آگیا اور پھر عالمی تاریخ کی سب سے بڑی 'ہجرت' کسی نظریئے کے بغیر معرضِ وجود میں آگئی۔ لاکھوں لوگ اپنے صدیوں پرانے گھر، جائیدادیں اور آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑکر بلاوجہ نئے ملک اور اجنبی جگہ پر آ کر آباد ہوگئے۔ کیا کبھی انسانی تاریخ میں ایسا ہوا ہے؟
آگے بڑھنے سے قبل مجھے عرض کرنے دیجئے کہ مسلمان اکثریتی علاقوں پرمشتمل ایک اسلامی ریاست کا قیام ہندوستان کے مسلمانوں کا صدیوں پرانا خواب تھا جس کے شواہد مغلیہ خاندان کے زوال کے بعد ہماری پوری تاریخ میں پھیلے ہوئے ہیں۔اسی نفسیات اورمسلمانوں کے دیرینہ خواب کو سمجھتے ہوئے قائداعظم نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تو اسی روزمعرضِ وجود میں آگیا جس روز ہندوستان کی سرزمین پرپہلے مسلمان نے قدم رکھا۔ پھر کہا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں، میں نے فقط یہ کیاکہ جو بات آپ کے دلوں اور ذہنوں میں تھی، اسے طشت ازبام کردیا یعنی ببانگِ دہل کہہ دیا۔
اگرپاکستان کا تصور نظریاتی نہیں تھا تو پھر وہ اسی دن کیوں معرضِ وجود میں آگیا جس دن ہندوستان میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا؟
سادہ سی بات صرف اتنی ہے کہ ہماری ماڈرن تاریخ میں تصور ِ پاکستان کی بنیاد سرسید احمد خان نے رکھی جب اُنہوں نے 1894ءمیں جالندھر میں تقریرکرتے ہوئے کہاکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ دونوں قومیں (ہندو اور مسلمان) زیادہ عرصے تک اکٹھی نہیں رہ سکیں گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اُن کے درمیان فاصلے بڑھتے جائیں گے۔ مسلمان ہندوؤں سے علیحدہ ہو کر فائدہ میں رہیں گے۔ ہماری تعلیم اس وقت مکمل ہوگی جب ہم خود اس کے مالک ہوں گے اورہمارے سروں پرکلمے کا تاج ہوگا۔ اسی لئے علامہ اقبال نے آل پارٹیزکانفرنس دہلی میں یکم جنوری 1929ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: "میں اس حقیقت کا اعتراف کرتاہوں کہ آج سے نصف صدی قبل سرسید احمد خان نے مسلمانوں کے لئے جو راہ ِ عمل تجویز کی تھی، وہ درست تھی۔ تلخ تجربات کے بعد میں اسی نتیجے پرپہنچا ہوں۔"
ہا ں تو میں عرض کر رہا تھا کہ علامہ اقبال سے لے کر قائداعظم تک ایک ہی قسم کا تصور پیش کیا گیا اور وہی نظریۂ پاکستان ہے۔ وہ تصور کیا تھا؟ مختصر الفاظ میں وہ نظریہ فقط یہ تھا کہ ہندو اورمسلمان ہر لحاظ سے دو مختلف اور الگ الگ قومیں ہیں، اس لئے مسلمانوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ مسلمان اکثریتی علاقوں پر جو جغرافیائی طورپر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایک علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کریں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اقبال اورجناح محض ایک جغرافیائی ملک کا مطالبہ کر رہے تھے؟ سطحی نظر سے بھی مطالعہ کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہے تھے جہاں مسلمان اپنے مذہب، ثقافت، دین اورشریعت کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ گویا اس مطالبے کی بنیاد دو اُصولوں پر تھی۔ اوّل مسلمان ہندوالگ الگ قومیں ہیں، دوم ہمارا مقصد ایک اسلامی ریاست قائم کرنا ہے۔ سادہ الفاظ میں یہی تصور ِ پاکستان تھا اوریہی نظریۂ پاکستان ہے جس کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے خون بہایا، قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، اپنے گھر بار اور بزرگوں کی قبروں کو چھوڑکر ہجرت کی اورماؤں بہنوں کی عصمتیں لٹائیں۔
سیکولر حضرات کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی نظریۂ پاکستان ختم ہوگیا کیونکہ وہ صرف تصور ِ پاکستان کے پہلے حصے کا ذکر کرتے ہیں اور دوسرے حصے سے خوفزدہ ہو کر اسے 'اِگنور' کردیتے ہیں۔ چلئے ہندو مسلم الگ الگ قوموں کا نظریہ قیام پاکستان کے ساتھ ختم ہوگیا لیکن پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا مقصد تو پورا نہیں ہوا۔
یہاں اسلامی ریاست سے مراد مذہبی شخصیات کی اجارہ دار ریاست نہیں اور نہ ہی اسلام میں پاپائیت یا تھیوکریسی کا تصور موجود ہے۔ مسئلہ توفقط اتنا سا ہے کہ سیکولر حضرات اسلامی ریاست اور اسلامی قانون کے تصور سے گھبراتے ہیں۔ وہ دین سے بیزار اوربیگانہ ہیں اور وہ پاکستان میں انہی آزادیوں کا خواب دیکھتے ہیں جومغرب کے جمہوری ممالک میں بہ افراط پائی جاتی ہیں۔اُنہیں مغربی لباس میں ملبوس سگار کے کش لگاتا جناح تو پسند ہے لیکن وہ جناح پسند نہیں جس نے 27جولائی 1944ء کو راولپنڈی میں واضح کر دیا تھا: "پاکستان کے دستور کے متعلق کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ ہمارے پاس 1300 سال سے دستورموجودہے۔"
ایک سوال کے جواب میں قائداعظم نے کہا کہ "پاکستان میں شراب پر یقینا پابندی ہوگی۔" (قائداعظم کے شب و روز موٴلفہ خورشید احمد خان، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد صفحہ نمبر 10)
لطف کی بات ہے کہ آج قائداعظم کا نام استعمال کرنے والی سیاسی جماعتیں غیرشرعی عادات کے شکاراُمیدواروں کو ٹکٹ دے رہی ہیں۔ اسلامی دستور، اسلامی قانون کے لئے قائم ہونے والی ریاست کا تصور یا نظریہ نہ سیکولر حضرات کو گوارہ ہے اور نہ ہی اُن سیاسی قائدین کو جو اسمبلیوں میں اراکین کو اسلامی کردار کی بنا پر نہیں بلکہ دولت کی طاقت پرپہچاننا چاہتی ہیں۔ یہی وہ جمہوریت ہے جس سے اقبال نالاں تھے۔ "اقبال نے جمہوری طرز ِ حکومت پر جو تنقید کی ہے وہ بھی اس لئے کہ غریب اور جاہل عوام کو سرمایہ دار خرید لیتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ وہ جمہوریت کو روحانی اقدار کا پابند کرنا چاہتے تھے۔" (علم کا مسافر ڈاکٹر طالب حسین سیال ص 86)
کالم کا دامن محدود ہے اس لئے اختصار سے کام لینا پڑے گا۔ نظریہ ٴ پاکستان کو سمجھنے کے لئے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے ان فقروں پر غور فرمائیں:"برعظیم پاک و ہند میں ایک اسلامی مملکت قائم کرنے کا مطالبہ بالکل حق بجانب ہے۔ اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم رکھ سکے۔" اقبال کے تصور پاکستان کو سمجھنے کے لئے ان کے خطوط بنام جناح (37،1936ء) کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101 بار واضح کیا کہ پاکستان کے دستور اور قانونی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اُصولوں پر استوار کی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد یہی بات چودہ بار کہی۔ فروری 1948 میں بحیثیت گورنر جنرل انہوں نے امریکی عوام کے نام ریڈیو پیغام میں پاکستان کو 'پریمیر اسلامی ریاست 'قرار دیااور زور دے کر کہا کہ پاکستان کادستور جمہوری ہوگا جس کی بنیاد اسلامی اُصولوں پررکھی جائے گی۔ ملکی قوانین کو اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دینے کے لئے قائداعظم نے ڈاکٹراسد کی سربراہی میں باقاعدہ ایک محکمہ قائم کیا جو قائداعظم کی وفات کے بعد اپنا کام پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکا۔ مختصر یہ کہ اقبال اور جناح کاتصورِ پاکستان ایک اسلامی ریاست کاتصور ہے اور یہی نظریۂپاکستان ہے لیکن سیکولر حضرات کو یہ تصور گوارہ نہیں چنانچہ وہ نظریئے ہی سے انکاری ہیں جبکہ یہ نظریہ ہماری ساری تاریخ میں پھیلا ہوا ہے۔
کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ قائداعظم نے کبھی آئیڈیالوجی کا لفظ ادا نہیں کیا جبکہ صرف 23 مارچ 1940 کی تقریر میں قائداعظم نے یہ لفظ تین بار اد ا کیا، البتہ سیکولر کا لفظ کبھی قائداعظم کے منہ سے نہیں نکلا۔ کچھ روشن خیال قائداعظم پر سیکولرازم کا غلاف چڑھانے کے لئے جسٹس منیر کی کتاب 'جناح ٹوضیا' کا حوالہ دیتے ہیں۔ اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ کاؤس جی، پرویز ہود بھائی اور دوسرے سیکولر دانشور اس کتاب سے جن الفاظ کاحوالہ دیتے ہیں وہ الفاظ جسٹس منیر نے قائداعظم کے منہ میں ڈالے ہیں اور برطانوی نژاد سلینہ کریم اپنی کتاب 'سیکولر جناح' میں تحقیق سے ثابت کرچکی ہے کہ وہ الفاظ قائداعظم کے نہیں، ان کی انگریزی گرامر بھی غلط ہے اور الفاظ بھی جسٹس منیر کے ہیں۔
کچھ حضرات مطالبہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ نظریۂ پاکستان کی وضاحت کرے۔ سپریم کورٹ جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں نظریۂ پاکستان کی وضاحت کرچکی ہے جو پی ایل ڈی 1973 سپریم کورٹ صفحہ 49اور 72،73 پر موجود ہے۔ دو سطریں ملاحظہ فرمایئے: "پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا نظریہ 1949ء کی قرارداد مقاصد میں درج ہے جسے پاکستان کی دستورساز اسمبلی نے منظور کیاہے... مملکت ِ پاکستان اسلامی نظریئے کی بنیاد پروجود میں لائی گئی تھی اور اس نظریئے کی بنیاد پر چلائی جائے گی۔"
تجاہل عارفانہ کی حد دیکھئے کہ نظریہ پاکستان یحییٰ خان کے دورمیں جنرل شیرعلی کی ایجاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد نظریہ پاکستان پر بہت کچھ لکھا گیا۔ جنرل شیرعلی کے وزیر بننے سے دس سال قبل ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب 'آئیڈیالوجی آف پاکستان' چھپ چکی تھی۔ بھائی تجاہل عارفانہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ نظریہ پاکستان ہماری تاریخ کا حصہ ہے یہ ایک روشن حقیقت کی مانند موجود ہے لیکن وہ حضرات جنہیں پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے یا بننے کا خیال گوارہ نہیں، وہ مسلسل اس سے انکار کئے جاتے ہیں اور اپنی تاریخ کی نفی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
(روزنامہ جنگ، لاہور: 19؍اپریل 2013ء )