اسلامی معاشروں میں دعوتِ دین کا منہج اور ترتیب

زیر نظر خطاب میں محدث العصر شیخ البانی ﷫نے اس اہم سوال کا جواب دیا ہے کہ وہ کیا طریقۂ دعوت ہے جو مسلمانوں کو عروج کی طرف گامزن کردے اور وہ کیا راستہ ہے کہ جسے اختیار کرنے پر اﷲ تعالیٰ اُنہیں زمین پر غلبہ عطا کرے گا اور دیگر اُمّتوں کے درمیان جو اُن کا شایانِ شان مقام ہے، اس پر فائز کرے گا؟...اس کے جواب میں اُنہوں نے دعوتی موضوعات کی ترتیب کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعیانِ اسلام کو ایسے اصل الاصول سے اپنی دعوت کا آغاز کرنا چاہئے جو انبیا کی دعوت کا مرکزی نکتہ رہا ہے اور ہر مسلمان پر اوّلین فرض ہے یعنی توحید اور اس پر ایمان کے تقاضے ۔ نیز ہر مسلمان کو اسلامی عقائد کو واضح طور پر سمجھ اور جان لینے کے بعد، حکمرانوں سے پہلےاسلام کی اس حکومت کو اپنی ذات اور خاندان پر قائم کرنا چاہئے۔ اپنی دعوتی ترجیحات کو سیاست و حاکمیت اور غلبہ دین پر قائم کرنا اُسوہ رسل کے خلاف، دینی ترجیحات کے منافی ہے اور یہ مسلمانوں پر تکلیف مالا یطاق بھی ہے۔اُنہوں نے کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ پورا دین اسلام ایک اکائی ہے اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا جاسکتا اور دین کے تمام پہلو اہم ہیں اور وہ اُن کی اہمیت کم نہیں کرنا چاہتے لیکن داعیان کی ترجیحات اور مدعوین کا اوّلین فرض، اُسوۂ نبوی اور دعوتی حکمتِ عملی کے حوالے سے واضح رہنا چاہئے۔ عرب ممالک میں میسّر آزادی اور درپیش حالات کے تناظر میں اُن کا یہ موقف قابل مطالعہ واستفادہ ہے۔ ح م

توحید سب سے پہلے؛ اے داعیانِ اسلام! ... توحیدِ کامل کی دعوت

سوال : فضیلۃ الشیخ!آپ جانتے ہیں کہ اُمّتِ مسلمہ کی دینی حالت،عقیدہ اور اعتقادی مسائل سے لاعلمی اور اپنے مناہج میں اختلاف وافتراق کے اعتبار سے نہایت ابتر ہے اور دنیا بھر میں دعوتِ اسلا م پہنچانے میں اُس عقیدۂ اوّل اور منہج اول سے اکثر غفلت برتی جاتی ہے جس کے ذریعہ اُمّت کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔ یہ الم ناک حالت یقیناً مخلص مسلمانوں کے اندر ایمانی غیرت وحمیّت کو اُبھارتی ہے اور اس کو بدل دینے اور اس خلل کی اصلاح کرنے کی جانب اُنہیں متوجہ کرتی ہے، مگر جیسا کہ فضیلۃ الشیخ آپ جانتے ہیں کہ اپنے میلاناتِ عقیدۂ ومنہج میں اختلاف کی وجہ سے وہ اس اصلاح کے لئے بروے کار لائے جانے والے طریقۂ کار میں اختلاف کا شکار ہیں۔ پھر ان مختلف تحریکوں اور اسلامی گروہی جماعتوں کو بھی آپ جانتے ہیں جو برسوں، دہائیوں سے اُمّت کی اصلاح کا ڈنڈھورا پیٹ تو رہی ہیں، مگر اس کے پیروی کرکے اُن کے لئے آج تک کوئی نجات یا فلاح رقم نہیں ہوسکی، بلکہ اس کے برعکس ان تحریکوں کی وجہ سے فتنے اُبھرے، آفتوں کا نزول ہوا اور عظیم مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے عقیدہ ومنہج میں رسول اﷲﷺ کے حکم اور جو کچھ آپ ﷺ لے کر آئے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔اس بات نے مسلمانوں خصوصاً نوجوانانِ اُمت میں اس صور تحال کے علاج کی کیفیت کے بارے میں ایسا گہرا اثر چھوڑا ہے کہ سب حیران وپریشان ہیں۔ اندریں حالات ایک مسلمان داعی جو منہجِ نبوت کی پابندی اور سبیل المومنین کی اتباع کرتا ہے، فہم صحابہ اور جنہوں نے بطریقۂ احسن اُن کی پیروی کی، اُن کی بجا آوری کرتا ہے، وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس صورتحال کی اصلاح یا اس کے علاج میں شریک ہونے کا عزم کرکے اُس نے ایک عظیم امانت کا بیڑا اُٹھایا ہے۔

آپ کی کیا نصیحت ہے ایسی تحریکوں یا جماعتوں کی پیروکاروں کے لئے؟

اور اس صورتحال کے علاج کے کون سے نفع بخش اور مفید طریقے ہیں؟

اور ایک مسلمان کس طرح بروزِ قیامت اﷲ تعالیٰ کے سامنے بریٔ الذمہ ہوگا؟

جواب ازمحدثِ زماں علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ

انبیاء و رسل ﷩ کے منہج کے مطابق سب سے پہلے توحیدِ ربانی کی خصوصیت سے دعوت دینا اور اس کا اہتمام کرنا واجب ہے۔مسلمانوں کی جوز بوں حالی ابھی سوال میں بیان ہوئی، ہم اس پر مزید بیان کریں گے، وہ یہ کہ

یہ الم ناک صورتحال اس سے بدتر نہیں جو صورتحال جاہلیت میں عرب کی ہوا کرتی تھی کہ جب اُن میں ہمارے نبی محمد رسول ﷺ مبعوث ہوئے۔کیونکہ ہمارے پاس تو رسالت موجود ہے، اور اس کی تکمیل بھی ، اور ایسا گروہ بھی جو حق پر قائم ہے ، جن کے ذریعے ہدایت ملتی ہے، اور یہ طائفہ منصورہ لوگوں کو عقیدہ وعبادت اورسلوک و منہج کے اعتبار سے صحیح اسلام کی طرف بلاتے ہیں ۔

بلاشبہ مسلمانوں کے بہت سے گروہوں کی جو حالت ہے، وہ دورِ جاہلیت کے عرب کی مانند ہے۔اس بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ اُن کا علاج بھی وہی علاج ہے، اور ان کی دوا بھی وہی دواہے۔ چنانچہ جیسے نبی اکرم ﷺ نے اس جاہلیتِ اوّل کا علاج کیا تھا،اسی طرح تمام موجود ہ داعیانِ اسلام کو کلمۂ توحید لا إله إلا اﷲ (اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودنہیں) کے سوےفہم کا علاج کرنا ہوگا، اور اُنہیں چاہئے کہ اپنی اس الم نا ک حالت کا اسی دوا سے علاج کریں۔اس کا معنیٰ بالکل واضح ہے، اگر ہم اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور تدبر کریں:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّهَ كَثيرً‌ا ﴿٢١﴾... سورة الاحزاب

''یقیناتمہارے لئے رسول اﷲﷺمیں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اﷲ تعالیٰ اورقیامت کے دن پر یقین رکھتا اوربکثرت اﷲکو یاد کرتا ہے۔''

سومسلمانوں کی موجود ہ صورتحال کی اصلاح اور ہر زمانے کے لئے بھی رسول اﷲﷺ ہی بہترین نمونہ ہیں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسی چیز سے ابتدا کریں جس سے ہمارے نبیﷺ نے ابتدا کی تھی یعنی سب سے پہلے مسلمانوں کے فاسد عقائد کی اصلاح کرنا، پھر اِس کے بعد اُن کی عبادتوں کی ، اور پھر اُن کے رویوں میں پائے جانی والی خرابیوں کی۔

میری اس ترتیب سے کہ سب سے پہلے اہم ترین چیز سے شروع کرنا چاہئے پھر اس کے بعد جو اہم ہو، پھر جو اس کے بعد، سے مراد یہ نہیں کہ میں ان میں تفریق کرنا چاہتا ہوں ۔ بلکہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ مسلمان اِس کا خصوصی اہتمام کریں۔ یہاں مسلمانوں سے میری مراد بلاشبہ داعیانِ اسلام ہیں۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہوگا کہ میں کہوں کہ مسلمانوں کے علما ، کیونکہ صد افسوس آج 'داعیان' کے اندر ہر مسلمان داخل ہوچکا ہے خواہ وہ علمی طور پر بالکل کنگال ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ اپنے آپ کو داعیانِ اسلام میں شمار کرنے لگتا ہے۔

اگر ہم اس معروف اصول کویاد رکھیں جو صرف علماے کرام ہی نہیں بلکہ ہر عقل مند جانتا ہے :"فاقد الشيء لا یعطیه" (جو کسی چیز کا خود حامل نہیں وہ دوسروں کو نہیں دے سکتا )۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں مسلمانوں پر مشتمل ایک بہت بڑا گروہ ہے، جب دعا ۃ (داعیوں ) کے لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہےتواُن کی طرف لوگوں کی نظریں اُٹھتی ہیں۔ میری اس سے مراد 'تبلیغی جماعت' ہے، باوجود اس کے کہ 'اکثر لوگوں' پر اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے:

﴿ وَلـكِنَّ أَكثَرَ‌ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿١٨٧﴾... سورة الاعراف

''اور اکثر لوگ نہیں جانتے۔''

اُن کے طریقۂ دعوت کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ جن اُمور کا میں نے ابھی ذکر کیا یعنی عقیدہ ، عبادت اور سلوک ،اُن میں سے پہلی یا اہم ترین بات کے اہتمام سے وہ مکمل طور پر اِعراض برتتے ہیں ۔ اس اصلاح سے جس سے نہ صرف رسول اﷲﷺ نے بلکہ تمام انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے آغاز فرمایا، جسے اﷲ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا:

﴿وَلَقَد بَعَثنا فى كُلِّ أُمَّةٍ رَ‌سولًا أَنِ اعبُدُوا اللَّهَ وَاجتَنِبُوا الطّـغوتَ...٣٦﴾... سورة النحل

''ہم نے ہر اُمّت میں ایک رسول بھیجا جس نے یہی دعوت دی کہ ایک اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔''

پس یہ لوگ اس بنیادی دعوت اور ارکانِ اسلام كے اس رکنِ اوّل کی قطعاً پروا نہیں کرتے جیسا کہ اہل علم مسلمان اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ توحید ہی وہ بنیادی اساس ہے جس کی دعوت تمام رسولوں میں سے پہلے رسول حضرت نوح تقریباً ہزار سال دیتے رہے۔ سب جانتے ہیں کہ پچھلی شریعتوں میں ان احکام ِ عبادات ومعاملات کی تفصیل موجود نہ تھی جو ہمارے دین میں معروف ہیں، کیونکہ یہ دین تمام سابقہ شریعتوں اور ادیان کو ختم کرنے والا ہے، اس کے باوجودحضرت نوح اپنی قوم میں پچاس کم ہزار سا ل رہے اور اپنا تمام تروقت اور اہتمام اسی دعوتِ توحید پر صرف فرمایا،لیکن اُن کی قوم نے اُن کی دعوت سے اِعراض برتا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں بیان فرمایا:

﴿وَقالوا لا تَذَرُ‌نَّ ءالِهَتَكُم وَلا تَذَرُ‌نَّ وَدًّا وَلا سُواعًا وَلا يَغوثَ وَيَعوقَ وَنَسرً‌ا ﴿٢٣﴾... سورة  نوح

''اور اُنہوں نے کہا: ہر گز نہ چھوڑنا اپنے معبودات کو ، نہ چھوڑنا وَدّ، سواع ، یغوث، یعوق اور نسرکو۔''

پس یہ دلائل اس بات پر قطعی دلالت کرتے ہیں کہ وہ داعیان کو جو 'صحیح وبرحق اسلام' کی جانب دعوت دینا چاہتے ہیں، اُن کے نزدیک سب سے اہم چیز اور جس کی دعوت کا ہمیشہ اہتمامِ خاص کرنا چاہئے وہ دعوتِ توحید ہے اور یہی معنیٰ ہے اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان کا:

﴿ فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلـهَ إِلَّا اللَّهُ...١٩﴾... سورةمحمد

''جان لو، اس بات کا علم حاصل کرو کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔''

اور یہی تھی سنتِ نبوی ﷺ عملاً و تعلیماً...!!

جہاں تک اُن کے فعل کا تعلق ہے تو اس پر زیادہ ڈھونڈنے یا ریسرچ کی ضرورت نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺکے مکی دور میں آپ ﷺ کے افعال اور دعوت کا غالب حصہ اپنی قوم کو اس بات کی دعوت دینے پر منحصر تھا کہ ایک اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں۔

جہاں تک تعلیم کا معاملہ ہے تو انس بن مالکؓ کی حدیث میں ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں وارد ہے کہ رسول اﷲﷺنے جب معاذ کو یمن روانہ فرمایا تو حکم ارشاد فرمایا :

«فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ الله، فَإِذَا عَرَفُوا الله، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الله قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ، فَإِذَا فَعَلُوا، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الله فَرَضَ عَلَيْهِمْ زَكَاةً مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِذَا أَطَاعُوا بِهَا، فَخُذْ مِنْهُمْ وَتَوَقَّ كَرَائِمَ أَمْوَالِ النَّاسِ»1

'' سب سے پہلے اُنہیں اللّٰہ کی عبادت کی دعوت دینا۔ جب وہ اللّٰہ تعالیٰ کو پہچان لیں (یعنی اسلام قبول کر لیں) تو اُنہیں بتانا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کے لیے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اسے بھی ادا کریں تو اُنہیں بتانا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض قرار دی ہے جو ان کے سرمایہ داروں سے لی جائے گی (جو صاحب نصاب ہوں گے) اور اُنہیں کے فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی۔ جب وہ اسے بھی مان لیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کر۔ البتہ ان کی عمدہ چیزیں (زکوٰۃ کے طور پر لینے سے) پرہیز کرنا۔''2

یہ حدیث لوگوں کو معلوم ہے اور بہت مشہور ہے ۔

چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کو اسی چیز سے ابتدا کرنے کا حکم فرمایا جس سے خود آپ ﷺ نے ابتدا فرمائی تھی اور وہ توحید کی جانب دعوت تھی۔ بلاشبہ وہ مشرکین عرب جو اس بات کو خوب اچھی طرح سے سمجھتے تھے جو اُن کی زبان میں کہا جاتا تھا، اُن میں اور مسلمانوں کی آج کل ایک غالب اکثریت میں بہت فرق ہے جنہیں اس بات کی آج دعوت نہیں دینی پڑتی کہ وہ زبان سے "لا إله إلا اﷲ" کہیں کیونکہ یہ سب تو پہلے ہی اپنے مذاہب ، طریقوں اور عقائد کے اختلافات کے باوجود اس کے قائل ہیں۔ یہ سب کہتے ہیں کہ لا إله إلا اﷲ، لیکن درحقیقت یہ اس بات کے زیادہ ضرورت مند ہیں کہ وہ اس کلمۂ طیبہ کا فہم حاصل کریں۔ یہ ایک بنیادی فرق ہے ان اوّلین عرب میں جنہیں رسول اﷲﷺ نے جب اس بات کی دعوت دی کہ وہ لا إله إلا اﷲ کہیں تو وہ تکبر کرتے تھے جیسا کہ قرآنِ کریم میں صریحاًبیان ہوا۔3

وہ کیوں تکبر کرتے تھے؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کلمے کامعنیٰ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو برابری والا نہ بناؤ اور نہ ہی اس کے سوا کسی کی عبادت کرو، جبکہ وہ اس کے سوا اوروں کی بھی عبادت کرتے تھے۔پس وہ غیر اﷲ کی نذرونیاز، غیر اﷲ سے توسل ، غیر اﷲ کے لئے ذبح اور اﷲ تعالیٰ کے حکم کے سو ا دوسرے احکام پر چلتے یہاں تک کہ وہ غیر اﷲ سے استغاثہ (فریاد) تک کرتے تھے۔

یہ وہ مشہور شرکیہ اور وثنیہ (بت پرستی، قبر پرستی وغیرہ) وسائل ہیں جن میں وہ مبتلا تھے ، اس کے باوجود وہ اس کلمۂ طیبہ لا إله إلا اﷲ کے لوازم کو عربی لغت کے اعتبار سے جانتے تھے کہ ان تمام اُمور کو چھوڑنا پڑے گا، کیونکہ یہ لا إلٰه إلا اﷲ کے معنیٰ کے منافی اُمور ہیں۔

'کلمہ طیبہ کا اقرار کرنے والا مسلمان ہے!' کا صحیح مفہوم

جبکہ آج کے مسلمان جو "لا إله إلا اﷲ" کی گواہی دیتے ہیں وہ اس کے معنیٰ اچھی طرح نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس کا مکمل طور پر برعکس معنیٰ سمجھتے ہیں۔ میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں:

اُن میں سے بعض نے "لا إله إلا اﷲ" کے معنیٰ پر ایک رسالہ تالیف 4کیاتو اس میں لا إله إلا اﷲ کا معنی '' لا ربّ الا اﷲ!!''(اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی ربّ نہیں) کیا۔ یہ تو وہ معنیٰ ہے جس پر مشرکین بھی ایمان رکھتے تھے، اور اسی پروہ گامزن تھے، مگر ان کے اس ایمان نے اُنہیں کوئی فائد ہ نہیں پہنچا یا ، اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمـوتِ وَالأَر‌ضَ لَيَقولُنَّ اللَّهُ٢٥﴾... سورة لقمان

''اور (اے نبیﷺ) اگر آپ اُن سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے تو وہ ضرور بالضرور کہیں گے کہ: اﷲ(ہی) ان کا خالق ہے۔''

پس مشرکین اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے جس کا کوئی شریک نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں اس کی برابری والے اور شریک مقرر کرتے تھے۔ وہ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ رب واحد ہے مگر معبودات بہت سے ہیں۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے اس عقیدہ کو ردّ فرمایا اور اپنے اس فرمان سے اسے اﷲ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنا قرار دیا:

﴿وَالَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ما نَعبُدُهُم إِلّا لِيُقَرِّ‌بونا إِلَى اللَّهِ زُلفى...٣﴾... سورة الزمر

''جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کے سوااور اولیا بنا رکھے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم اُن کی عبادت نہیں کرتے مگر اسی لئے کہ یہ ہمیں اﷲ تعالیٰ سے قربت اور نزدیکی دلا سکیں۔''

مشرکین یہ بات جانتے تھے کہلا إله إلا اﷲ کا اقرار اس بات کا متقاضی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سو ا ہر ایک کی عبادت کو چھوڑنا ہو گا۔ جبکہ آج مسلمانوں کی غالب اکثریت اس کلمۂ طیبہ لا إله إلا اﷲ (اﷲ تعالیٰ کے سو ا کوئی معبود حقیقی نہیں) کی تفسیر'لا رَبّ الا اﷲ!' (اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی ربّ نہیں) کر تی ہے۔ اگر کوئی مسلمان "لا إله إلا اﷲ" کہے مگر وہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کی بھی عبادت کرے تو وہ عقیدۃً مشرک ہی ہے اگر چہ ظاہری اعتبار سے وہ مسلمان ہے ، کیونکہ اس نے کلمے "لا إلٰه إلا اﷲ" کو زبان سے پڑھا ہے تو وہ اس زبانی اقرار کے سبب لفظی اعتبار سے ظاہری مسلمان ہے۔ اسی وجہ سے ہم پر داعیانِ اسلام ہونے کے ناطے،توحید کی دعوت اور جو لا إله إلا اﷲ کے معنی سے جاہل ہے او راس کی عملاً مخالفت کرتا ہے، اس پر حجّت تمام کرنا واجب ہے۔ اُن کا معاملہ مشرکوں سے اس طور پر الگ ہے کہ جو لا إله إلا اﷲکہنے سے ہی انکاری ہے تو وہ مسلمان نہیں نہ ظاہراً نہ باطناً،جبکہ مسلمانوں کی آج یہ بہت کثیر تعداد (جن میں عقائد کا بگاڑ پایا جاتا ہے) ظاہراً مسلمان ہیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان ہے:

«فإذا فعلوا ذٰلك عصموا منّي دماءهم وأموالهم إلا بحقّها وحسابهم علىٰ اﷲ تعالىٰ»5

''اگروہ اس کلمے کو پڑھ لیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال محفوظ کر لیں گے سوائے اسلامی اعتبار سے اُن کی جان ومال لینے کا کوئی حق بنتا ہوا اور ان کے باقی اعمال کا حساب اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ پر ہے۔''

اسی لئے میں ایک بات کرتا ہوں اور ایسی بات میں شاذ ونادر ہی کہتا ہوں کہ کلمے کے غلط فہم کے اعتبار سے مو جودہ دور کے بہت سے مسلمانوں کی حالت جاہلیت کے دور کے عام عربوں سے بھی گئی گزری ہے، کیونکہ مشرکین عرب اس کا فہم تو رکھتے تھے مگر اس پر ایمان نہ لاتے تھے،جبکہ آج مسلمانوں کی غالب اکثریت ایسی بات تو کہتے ہیں(یعنی لا إله إلا اﷲ) لیکن وہ اس کا اعتقاد نہیں رکھتے ۔ کہتے تو ہیں:لا إلٰه إلا اﷲ مگر کماحقہ اس کے معنیٰ پر ایمان نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے میرا یہی اعتقاد ہے کہ حقیقی داعیانِ اسلام پر واجب ہے کہ وہ اس کلمے کے گرد اپنی دعوت کو قائم کریں اور سب سے پہلے اس کے حقیقی معنیٰ اختصارسے بیان کریں پھر اس کلمۂطیبہ کے لوازم کا تفصیلی بیان کریں، کہ عبادات میں اس کی تمام تر صورتوں کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے لئے اخلاص ہو، کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے جب مشرکین کا یہ قول ذکر فرمایا:

﴿وَالَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ما نَعبُدُهُم إِلّا لِيُقَرِّ‌بونا إِلَى اللَّهِ زُلفى...٣﴾... سورة الزمر

''جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کے سوااور اولیا بنا رکھے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اسی لئے کہ یہ ہمیں اﷲ تعالیٰ سے قربت اور نزدیکی دلا سکیں۔''

تو اﷲ تعالیٰ نے ہر عبادت جو غیر اﷲ کے لئے کی جائے، کو کلمۂ طیبہ لا إله إلا اﷲ کا انکار قرار دیا۔اسی لئے میں آج یہ کہتا ہوں: مسلمانوں کی جمعیتیں بنالینے اور اُنہیں جمع کرنے سے مطلقاً کوئی فائدہ نہیں اگرہم اُنہیں گمراہی میں ہی پڑا رہنے دیں اور اس کلمۂ طیبہ کا صحیح فہم اُنہیں بیان نہ کریں۔ محض اس طرح مسلمانوں کوجمع کرلینا اُنہیں اس دنیا تک میں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا چہ جائیکہ آخرت میں کوئی فائدہ پہنچ پائے! ہم نبی کریمﷺ کا یہ فرمان جانتے ہیں:

«من مات وهو یشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ مخلصًا من قلبه حرّم اﷲ بدنه علىٰ النار»6

'' جوفوت ہوا اس حال میں کہ وہ لا إله إلا اﷲکی گواہی دیتا تھا، اپنے دل کے اخلاص کے ساتھ تو اﷲ تعالیٰ نے اس کے بدن کو جہنم کی آگ پر حرام قرار دیا ہے ۔''

اور ایک دوسری روایت ہے میں کہ دخل الجنة 7(جنت میں داخل ہوگا ) ۔ پس جنت میں دخول کی ضمانت دینا ممکن ہے، چاہے اس کے کہنے والے کو جہنم میں کسی بھی قسم کا عذاب ملنے کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ جو کوئی اس کلمے کا صحیح اعتقاد رکھتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ عذاب سے دوچار ہو، اپنے ان گناہوں کی پاداش میں جن کا وہ مرتکب ہوا۔ مگر اس کا آخری ٹھکانہ تو جنّت ہی ہے۔ اس کے برعکس جس نے زبان سے تو اس کلمے کو ادا کیا مگر دل سے صحیح ایمان نہ رکھتا تھاتو اسے یہ آخرت میں کوئی بھی نفع نہ پہنچا سکے گا، البتہ دنیا میں کچھ فائدہ پہنچا دے جیسا کہ اگر مسلمانوں کی قوت و سلطنت ہو تو اُس سے قتال یا اُس کا قتل نہیں کیا جائے گا ۔ لیکن آخرت میں وہ اُسے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے گا، اِلا یہ کہ اس نے اَوّلاً اس کے معنیٰ سمجھ کر پڑھا ہو اور ثانیاً اس معنی کا اعتقاد بھی رکھتا ہو۔ کیونکہ صرف فہم کا ہونا کافی نہیں جب تک اس فہم کا اعتقاد بھی ساتھ نہ ہو ۔

میرے خیال میں اکثر لوگ اس نکتے سے غافل ہیں اور وہ یہ کہ : ایمان کا فہم ہونا کافی نہیں جب تک دونوں اُمور یکجا نہ ہوں تاکہ وہ مؤمن کہلائے ۔ کیونکہ یہود ونصاری میں سے بہت سے اہل کتاب جانتے تھے کہ محمد ﷺ سچّے رسول ہیں، اپنی رسالت اور نبوت کے دعوے میں صادق ہیں، لیکن اس معرفت کے ہوتے ہوئے کہ جس کی گواہی ہمارے رب تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمائی: ﴿ يَعرِ‌فونَهُ كَما يَعرِ‌فونَ أَبناءَهُم...١٤٦﴾... سورة البقرة

''وہ اس (نبی محمد ﷺ) کو ایسے ہی جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کوجانتے ہیں۔''

اس کے باوجود اس اکیلی معرفت نے اُنہیں اﷲ تعالیٰ کے ہاں کوئی فائدہ نہ پہنچایا ، کیوں؟ کیونکہ اُنہوں نے آپ ﷺ کی اس رسالت ونبوت کی تصدیق نہ کی جس کا آپﷺ دعوٰی فرماتے تھے ۔ اسی لئے معرفتِ ایمان سے پہلے ہے مگر اکیلی معرفت کافی نہیں، بلکہ معرفت کے ساتھ ساتھ ایمان و تسلیم لازمی ہے ، کیونکہ مولیٰ کریم عزوجل کا قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے:

﴿ فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلـهَ إِلَّا اللَّهُ وَاستَغفِر‌ لِذَنبِكَ...١٩﴾... سورة محمد

''جان لواور اس بات کا علم حاصل کرو کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو۔''

اس بنا پر جب ایک مسلمان اپنی زبان سے لا إلٰه إلا اﷲ کہتا ہے ، تو اسے چاہیے کہ اس اقرار کے ساتھ اس کلمے کی مختصر پھر تفصیلی معرفت کو بھی شامل کرے۔ جب وہ اسے جان جاتا ہے اور اس کی تصدیق کرکے اس پر ایمان لے آتا ہے تو ایسے شخص پر ہی وہ احادیث صادق آتی ہیں جو ہم نے ابھی بیان کیں۔ جن میں سے رسول اﷲﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ جو میری بیان کردہ بات کی کسی قدر وضاحت کرتا ہے :

«من قال لا إله إلا اﷲ، أنجته یومًا من دهره»8

''جس نے لا إلٰه إلا اﷲ کہا ، وہ اسے کبھی نہ کبھی ضرور فائدہ پہنچا ئے گا۔''

یعنی یہ کلمۂ طیبہ اس کے معنیٰ کی معرفت حاصل کرلینے کے بعد جہنّم میں ہمیشہ رہنے سے نجات کا سبب ہے۔ اسے میں اس لئے دُہراتا ہوں تاکہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے:''یہ کلمہ نجات کا سبب بنے گا...'' اگر اس کا قائل جس بات کا یہ کلمہ متقاضی ہے ،اُنہیں بروئے کا ر لایا اور جو شرائطِ ایمان اس سے لازم آتی ہیں، اعمالِ قلبیہ ہوں یا ظاہری اعمال کے اُنہیں بجا لایا۔9

اگرچہ اس کا قائل اس کے کمال کے تقاضوں جیسے عمل ِ صالح اور برائیوں سے اجتناب پر کاربند نہ بھی ہو سکا ہو لیکن شرکِ اکبرسے محفوظ رہا، تو وہ اﷲ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے ، ہو سکتاہے کہ وہ اپنے گناہوں کے ارتکاب یا بعض واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کے سبب جہنم میں داخل ہو، پھر اسے یہ کلمۂ طیبہ نجات دلائے یا اﷲ تعالیٰ اس سے اپنے فضل وکرم سے درگزر فرما دے۔10

یہ معنیٰ ہے نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث کا جس کا ذکر پہلے گزر چکا:«من قال لا إلٰه إلا اﷲ، نفعته یومًا من دهره» ''جس نے لا إلٰه إلا اﷲ کہا ، وہ اسے کبھی نہ کبھی ضرور فائدہ پہنچا ئے گا۔'' البتہ جو محض زبان سے اسے ادا کرے مگر اس کا معنیٰ نہ سمجھتا ہو، یا پھر معنیٰ تو سمجھتا ہو مگر اس معنی پر ایمان نہ رکھتا ہو، تو ایسے شخص کو اس کا لا إله إلا اﷲ کہنا کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ اس قریب کی دنیاوی زندگی میں اگر وہ حکومتِ اسلامی کے تحت جی رہا ہے تو اسے یہ فائدہ پہنچا سکتا ہے لیکن بعد میں آنے والی دائمی زندگی میں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

اسی لئے ضروری ہے کہ توحید کی دعوت پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھا جائے خواہ مسلمانوں کا کوئی بھی معاشرہ یا گروہ ہو جو حقیقتاً اور جلد از جلد یہ چاہتا ہے ...جیسا کہ تمام جماعتیں یا اکثر جماعتیں یہ دعوٰی کرتی ہیں ...کہ ایسی سر زمین جہاں اﷲ تعالیٰ کا شرعی نظام قائم نہیں، وہاں ایسے اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے ہوں۔ یہ جماعتیں یا یہ تنظیمیں ممکن نہیں کہ اس غایت وہدف کو پاسکیں جسے حاصل کرنے کے لئے یہ سب جمع ہیں اور اسے جلد از جلد حقیقت کا روپ دینے کے لئے کوشاں ہیں اِلاّیہ کہ وہ اس چیز سے ابتدا کریں کہ جس سے رسول ﷺ نے ابتدا فرمائی تھی۔

عقیدے کا اہتمام کرنے کے وجوب کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ باقی شرعی عبادات، سلوک ، معاملات اور اخلاق سے لاپرواہی برتی جائے۔میں دوبارہ متوجہ کروں گا کہ میرا یہ کہنا کہ ''سب سے اہم ترین چیز سے شروع کیا جائے پھر جو اس کے بعد اہم ہو پھر جو اس سے کم تر '' سے مراد یہ نہیں کہ داعیان اپنی دعوت کو محض اس کلمۂ طیبہ اور اس کے معنیٰ کے فہم تک محدود کردیں، جبکہ اﷲ تعالیٰ نے تو اس نعمت کو اپنا دین مکمل کرکے تمام کردیا ہے! بلکہ ان داعیان کو چاہئے کہ اسلام کو بطور ایک ایسی اکائی کے لیں جو ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوتی۔

میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ حقیقی داعیانِ اسلام کو چاہیے کہ اس چیز کا اہتمامِ خاص کریں کہ جو سب سے اہم ترین چیز اسلام لے کر آیا ہے یعنی مسلمانوں کو صحیح عقیدے کا فہم دینا جو کلمۂطیبہ لا إله إلا اﷲ سے ماخوذ ہوتا ہے، اس پر اپنی دعوت کو مستحکم کریں۔

کلمہ طیبہ کے تقاضوں کےمطابق عبادات وعقائد میں توحید

اس خلاصے کے بعد میں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہوں گا کہ ایک مسلمان لاإلٰه إلا اﷲکا معنیٰ فقط یہ نہ سمجھے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود موجود نہیں بلکہ اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ ان عبادات کو سمجھیں جن کے ذریعہ ہم اپنے ربّ کی عبادت کر سکیں،اور اﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی بندے کے لئے ان عبادتوں کو اَدا نہ کریں ۔لازم ہے کہ اس تفصیل کا بیان بھی کلمۂ طیبہ کے اس مختصر معنیٰ کے ساتھ منسلک ہو۔ مناسب ہوگا کہ یہاں میں ایک یا اِس سے زیادہ مثالیں بیان کروں ، کیونکہ اجمالی بیان کافی نہیں۔

میں یہ کہتا ہوں کہ بلا شبہ بہت سے مسلمان جو حقیقی موحدین ہیں اور عبادتوں میں سے کوئی بھی عبادت غیر اﷲ کے لئے ادا تو نہیں کرتے، لیکن ان کا ذہن بھی بہت سے ایسے صحیح افکار وعقائد سے خالی ہوتا ہے جن کا ذکر کتاب و سنت میں موجود ہے۔ پس ان موحدین میں سے بہت سے کئی آیاتِ قرآنی اور بعض احادیثِ مبارکہ پر سے گز ر جاتے ہیں جو کسی بنیادی عقیدے پر مشتمل ہوتی ہیں مگر وہ اس عقیدے سے باخبر اور مطلع ہوئے بغیر اس پر سے گزر جاتے ہیں، حالانکہ یہ اﷲ تعالیٰ پر ایمان کے اِتمام میں سے ہے۔

مثلاًیہ عقیدہ سامنے رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر علوّ و بلندی پر ایمان لانا۔ میں یہ بات اپنے تجربہ کی بنا پر جانتا ہوں کہ ہمارے بہت سے موحدین سلفی بھائی ہمارے ساتھ یہ کہتے کہ اﷲ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور بناتا ویل وتکییف کے اس کا اعتقاد رکھتے ہیں۔لیکن جب ان کے پاس موجودہ دور کے معتزلی یا موجودہ دور کے جہمی، یا ماتریدی یا اشعری آکر اس آیت کے ظاہر کو بنیاد بناکر کوئی شبہ اُن کے دلوں میں ڈالتے ہیں جس کا معنی نہ خود وسوسہ گرجانتاہے اور نہ ہی وسوسے کا شکار، تو وہ اپنے عقیدے کے بارے میں حیران وپریشان ہو جاتا ہے ، اوراس سے بہت دور کی گمراہی میں جا پڑتا ہے ، کیوں؟ کیونکہ اس نے صحیح عقیدے کو جس کا بیان و وضاحت ہمارے ربّ کی کتاب اور ہمارے نبی محمد ﷺ کی حدیث میں پیش کی گئی ہے، ہرسمت سے اچھی طرح حاصل نہیں کیا۔ پس جب موجودہ دور کا کوئی معتزلی یہ کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں: ﴿ءَأَمِنتُم مَن فِى السَّماءِ...١٦﴾... سورة الملك

''کیا تم اس ذات سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان پر ہے۔''

اور تم لوگ یہ کہتے ہو کہ اﷲ تعالیٰ آسمان میں ہے، اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم نے اپنے معبود کو ایک مکان وجہت یعنی آسمان جو اسی کی مخلوق ہے میں متعین کردیا!! چنانچہ وہ یہ شبہ اپنے مخاطب کے دل میں ڈالتا ہے۔

اس مثال سے میری مراد یہ بیان کرنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ عقیدۂ توحید اپنے تمام ترلوازم اور مطالبات کے ساتھ بہت سے ایسے لوگوں تک کے ذہنوں میں بھی واضح نہیں جو خود سلفی عقیدے پر ایمان لائے ہیں۔ ان لوگوں کی تو دورکی بات رہی جو اس قسم کے مسائل میں اشاعرہ، ماتر یدیہ اور جہمیہ کے عقائد کی پیروی کرتے ہیں۔ میں نے یہ مثال اس لئے پیش کی کیونکہ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جیساکہ آج کچھ داعیان جو قرآن و سنت کی جانب دعوت میں ہمارے ہم نوا ہیں، تصور کرتے ہیں۔ یہ معاملہ اس لئے اتنا سہل نہیں جیسا کہ ان میں سے بعض دعوٰی کرتے ہیں کیونکہ اس کا سبب وہی فرق ہے جو پہلے بیان ہوا کہ اوّلین جاہلیت کے حامل مشرکین (جنہیں جب دعوت دی جاتی کہ وہلا إله إلا اﷲکہیں تو وہ انکار کرتے ، کیونکہ وہ اس کلمۂطیبہ کا معنیٰ جانتے تھے) اور موجودہ دور کے اکثرمسلمانوں میں کہ جب یہ کلمہ پڑھتے ہیں تو اس کا صحیح معنیٰ نہیں جانتے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو اﷲ تعالیٰ کی اپنی مخلوقات پر بلندی کے عقیدے کے بارے میں بھی اب پایا جاتا ہے، یہ بھی وضاحت کا متقاضی ہے اور یہی کافی نہیں کہ ایک مسلمان یہ عقیدہ رکھے: ﴿الرَّ‌حمـنُ عَلَى العَر‌شِ استَوى ﴿٥﴾... سورة طه ''وہ رحمٰن ہے جو عرش پر مستوی ہوا ۔''

«ارحموا من في الأرض یرحمکم من في السماء»11

''جو زمین میں ہیں، ان پر مہربانی کرو؛ جو آسمان پر ہے، وہ تم پر رحم فرمائے گا۔''

بنا یہ جانے کہ کلمہ 'فی'(میں) جو اس حدیث میں بیان ہوا ظرفیہ نہیں، اس کی مثال اس 'فی' کی سی ہے جو اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان میں وارد ہوا : ﴿ءَأَمِنتُم مَن فِى السَّماءِ...١٦﴾... سورة الملك

''کیا تم اس ذات سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان پر ہے۔''

کیونکہ'فی'یہاں بمعنی 'علیٰ'(پر ؍کے اوپر) ہے، اور اس کی بہت سی دلیلیں موجود ہیں۔ جن میں سے سابقہ حدیث جو لوگوں کی زبان زد عام ہے اور یہ اپنے مجموعی طرق کے اعتبار سے الحمد ﷲ صحیح حدیث ہے، نبی اکرم ﷺ کے اس قول : «ارحموا من في الأرض» (جو زمین میں ہیں، ان پر رحم کرو) سے حشرات الارض یا کیچوے مراد نہیں جو زمین کے اندر ہوتے ہیں بلکہ اس سے مراد جو علىٰ الأرض زمین پر انسان وحیوان ہیں، اور یہ رسول اﷲﷺ کے اس قول کے مطابق ہے :«یرحمکم من في السماء» ''جو آسمان میں (پر ) ہے۔'' یعنی: علىٰ السماء (آسمان پر ہے)، چنانچہ دعوتِ حق کو قبول کرنے والوں کے لئے اس قسم کی تفصیل جاننا ضروری ہے تاکہ وہ مکمّل طور پر دلیل پر قائم ہوں۔

اس سے واضح تر مثال اس لونڈی کے متعلق مشہور ومعروف حدیث ہے جو بکریاں چرایا کرتی تھی، میں اس حدیث میں سے صرف متعلقہ حصہ بیان کروں گا،جب رسول اﷲﷺ نے اس سے دریافت فرمایا : أین اﷲ؟(اﷲ تعالیٰ کہاں ہے؟) تو اس جواب دیا: في السماء12

''آسمان میں'' یعنی وہ آسمان پر ہے ۔

اگر آج آپ جامعہ ازہر کے بڑے مشائخ سے پوچھیں مثلاً اﷲ تعالیٰ کہاں ہے؟ تو وہ آپ کو جواب دیں گے: ہر جگہ !جبکہ اس لونڈی تک نے یہ جواب دیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ آسمان پر ہے ،اور نبی کریمﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی تھی، کیوں؟ کیونکہ اُس نے فطرت کے مطابق جواب دیا ۔ وہ ایسے ماحول میں رہتی تھی جسے ہم اپنی آج کل کی تعبیر کے مطابق 'سلفی ماحول ' کہہ سکتے ہیں ، جس میں عام تعبیر کے مطابق کوئی برا ماحول اثر انداز نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ مدرسۂ رسول ﷺ سے تعلیم یافتہ تھی۔یہ مدرسہ بعض مردوں اور عورتوں کے لئے خاص نہیں تھا بلکہ یہ تمام لوگوں میں عام تھا جو مردوں اور عورتوں کو شامل تھا اور اپنے تکمیل پر پورے معاشرے کے لئے عام ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بکریاں چرانے والی لونڈی بھی یہ جانتی تھی کیونکہ کسی خراب ماحول کا اس پر اثر نہ ہوا تھا۔ وہ کتاب و سنت میں موجود اس صحیح عقیدے کو جانتی تھی جو آج بہت سے کتاب و سنت کے علم کے دعویداروں کو نہیں معلوم ۔

وہ جانتے ہی نہیں کہ ان کا ربّ کہاں ہے! حالانکہ یہ کتاب و سنت میں مذکورہے۔ میں کہتا ہوں کہ آج اس بیان اور وضاحت میں سے کوئی چیز مسلمانوں کے درمیان موجود نہیں، اگر آپ آج بکریوں کی نگہبانی کرنے والی سے نہیں بلکہ اُمّت اور جماعتوں کی نگہبانی کرنے والوں سے پوچھیں، تو وہ اس کا جواب دینے کے بارے میں حیران وپریشان ہوں گے جیسا کہ آج بہت سے لوگ اس کا جواب دینے میں حیران وپریشان ہوتے ہیں سوائے جس پر اﷲرحم فرمائے!!

صحیح عقیدے کی جانب دعوت عظیم اور جہدِ مسلسل کی متقاضی ہے!

لہٰذا توحید کی جانب دعوت اور اِسے لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا، ہم سے اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم آیات پر سے بنا تفصیل کے نہ گزر جائیں جیسا کہ عہد اوّل میں تھا۔ اولاً تو وہ عربی عبارات کو بآسانی سمجھ لیتے تھے اور ثانیاً وہ اس چیز پر قائم تھے جو صحیح عقیدے کے ہرگز مخالف نہ تھی کیونکہ ان کے یہاں عقیدے کا وہ انحراف اورٹیڑھ پن نہ تھا جو فلسفہ اور علم الکلا م کی پیداوار ہے۔ جبکہ ہماری موجودہ صورتحال اس سے بالکل مختلف ہےجو اوّل دور کے مسلمانوں کی تھی۔ اسی لئے ہم اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ آج صحیح عقیدے کی جانب دعوت دینا اتنا آسان ہے جیساکہ عہدِ اوّل میں تھا ، اس پر مزید روشنی میں ایسی مثال کے ذریعے ڈالتا ہوں جس کے بارے میں کوئی دورائے نہ ہوں گی، ان شاء اﷲ...

عہدِ اوّل میں جو آسانی معروف تھی، وہ یہ کہ ایک صحابی رسول اﷲﷺ سے براہِ راست ایک حدیث سنتا، پھر ایک تابعی وہ حدیث ایک صحابی سے براہِ راست سنتا ... اور اسی طرح ہم ان تین زمانوں یا نسلوں تک چلتے ہیں جن کے راہِ راست پر ہونے کی گواہی دی گئی ہے ، اور ہم پوچھتے ہیں: کیا ان کے یہاں کوئی چیز فن حدیث کے نام سے تھی؟ جواب: نہیں، کیا اُن کے یہاں کوئی چیز جرح وتعدیل کے نام سے موجود تھی؟ جواب : نہیں، جبکہ آج یہ دونوں علوم ایک طالبِ علم کے لئے لازم ہیں ، اور یہ فرضِ کفایہ میں سے ہیں، اور یہ اس لئے کہ آج ایک عالم حدیث کی معرفت حاصل کرسکے کہ آیا وہ صحیح ہے یا ضعیف؟ پس یہ کام اتنا آسان و سہل شمار نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ایک صحابی کے لئے تھا۔ کیونکہ ایک صحابی حدیث کو دوسرے ایسے صحابہ رضی اﷲ عنہم سے حاصل کرلیا کرتا تھاجن کے ایمان کی گواہی اﷲ تعالیٰ نے دی ہے۔جو اُن دنوں آسان تھا ،وہ آج آسان نہیں۔ کیونکہ ان کے ہاں صاف ستھرا علم تھا اور علم حاصل کرنے کے مصادر ثقہ تھے ۔ اسی لئے اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا اہتمام کرنا اسی طرح ضروری ہے جیسا کہ مسلمان ہونے کے ناطے سے آج ہمیں بہت سی ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جن کا سامنا اوّلین مسلمانوں کو نہیں کرنا پڑا تھا، کیونکہ ہمارے یہاں مختلف ناموں کے تحت صحیح عقیدے اور منہج حق سے منحرف اہل بدعت کے اشکالات اور شبہات کے سبب عقیدے کا بہت سا بگاڑ موجود ہے۔

ان مختلف ناموں یا دعوتوں میں سے یہ بھی ہے کہ ہم صرف کتاب وسنّت کی طرف دعوت دیتے ہیں!جیسا کہ علم الکلام کی جانب منسوب لوگ بھی یہی زعم رکھتے اور دعوی کرتے ہیں۔ اس بارے میں صحیح احادیث قابل ذکر ہیں، جن میں سے یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جب ان احادیث میں سے بعض میں غربا (معاشرے میں اجنبی لوگوں) کا ذکر فرمایا ، تو یہ فرمایا:

«للواحد منهم خمسون من الأجر»، قالوا: «منا یا رسول اﷲ أو منهم؟»... قال: «منکم»13

''ان میں کے ایک شخص کا ثواب پچاس کے ثواب کے برابر ہوگا، صحابہ نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ پچاس اُن میں سے یا ہم میں سے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے۔''

یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اُس شدید غربت (اجنبیت ) کا جو دورِ اوّل میں نہ تھی۔بلاشبہ دورِ اوّل میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمانِ صادق کے درمیان تھی، جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سے اَٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیر اﷲ کے لئے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اوّلاً تو اس مسئلے پر متوجہ ہونا ضروری ہے ۔

توحید اور اس کے لوازم سے پہلے اقامتِ دین کی دعوت ... چہ معنی دارد؟

ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کر دوسرے مرحلے میں منتقل ہوجائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ!!

کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوتِ حق ہے ۔ جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں: ہم توعرب ہیں اورقرآنِ مجید ہماری زبان میں نازل ہوا ہے،حالانکہ یادرکھیں کہ آج کے عربوں کا معاملہ عربی زبان سے دوری کے سبب ان عجمیوں سے بالکل برعکس ہوگیا ہے جو عربی سیکھتے ہیں۔ پس اس بات نے اُنہیں اُن کے ربّ کی کتاب اور اُن کے نبیﷺ کی سنت سے دور کر دیا۔ بالفرض ہم عربوں نے صحیح طور پر اسلام کا فہم حاصل اگر کر بھی لیا ہے، تب بھی ہم پر واجب نہیں کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیں، اور لوگوں کو سیاسی تحریکوں سے وابستہ کریں ، اور اُنہیں جس چیز میں مشغول ہونا چاہیے یعنی اسلام کے عقیدے ، عبادت ، معاملات اور سلوک کا فہم حاصل کرنا سے ہٹا کر سیاست میں مشغول رکھیں۔ مجھے یقین نہیں کہ کہیں ایسے لاکھوں کی تعدادمیں لوگ ہوں جنہوں نے اسلام کا صحیح فہم یعنی عقیدے ، عبادت اور سلوک میں حاصل کیا ہو اور اسی پر تربیت پائی ہو۔

تبدیلی یا انقلاب کی بنیاد :منہج تصفیہ و تر بیہ

اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اور انہی دواساسی نکات پر جو تبدیلی و انقلاب کا قاعدہ ہے، ہمیشہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور وہ دو نکات تصفیہ(دین کو غلط باتوں سے پاک کرنا) اور تربیہ (اس پاک شدہ دین پر لوگوں کی تربیت کرنا ) ہیں۔ ان دونوں اُمور کو یکجا کرنا ضروری ہے: تصفیہ اور تربیہ ، کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی طرح کا تصفیہ کا عمل ہوا جو کہ عقیدے میں ہے تو یہ اپنی حد تک واقعی ایک بہت بڑا اور عظیم کارنامہ ہے جو اتنے بڑے اسلامی معاشرے کے ایک حصہ میں رونما ہوا ، لیکن جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے تو اسے بھی مذہبی تنگ نظری سے پاک کر کے سنّتِ صحیحہ کی جانب رجوع کا عمل ہونا چاہئے۔

ہوسکتا ہے ایسے بڑے ؍جید علماے کرام موجود ہوں جو اسلام کا ہر زاویے سے صحیح فہم رکھتے ہوں مگر میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ ایک فرد یا دو، تین یا دس بیس افراد اس تصفیے کے فرض کو ادا کر پائیں۔ تصفیہ کرنا (پاک کرنا ) اسلام کو ہر اس چیز سے جو اُس میں درآئی ہے خواہ وہ عقیدے میں ہو یا عبادت وسلوک میں،محض کچھ افراد کی یہ استطاعت نہیں کہ وہ اسلام سے منسلک ہر غلط چیز کا تصفیہ کرکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اس پر صحیح و سلیم تربیت کر کے سرفراز ہو سکیں۔ اسی لئے تصفیہ وتربیہ کا عمل آج مفقود ہے!!

اسی لئے ان دو اہم باتوں کو یقینی بنانے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو، وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا بُرے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! اولو الامر کی نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کا متبادل ہوسکتا ہے، کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو،(خفیہ) مشاورتوں یا الزامی و تشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے شرعی ضوابط کے تحت بطورِ احسن اپنی بات پہنچا دینے کے ذریعہ ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا اور پہنچا دینے والے کو بریٔ الذمہ کرتا ہے۔

نصیحت و خیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مصروف کریں جو اُنہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد ، عبادت، رویوں، اور معاملات کی تصحیح۔ ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ و تربیہ کے منہج کی تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہوجانے کی اُمید رکھتے ہیں!ہم تو یہ بات نہ سو چتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں ، کیونکہ ایسا ہو جانا تو محال ہے، اس لئے بھی کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ

﴿وَلَو شاءَ رَ‌بُّكَ لَجَعَلَ النّاسَ أُمَّةً وحِدَةً وَلا يَزالونَ مُختَلِفينَ ﴿١١٨﴾... سورة هود

''اگر آپ کا ربّ چاہتا تو تمام انسانوں کی ایک ہی اُمّت بنا دیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے۔''

البتہ ان لوگوں پر ہمارے ربّ تعالیٰ کا یہ فرمان :اختلافات کا شکار رہنا، لاگو نہیں ہو گا، اگر یہ اسلام کا صحیح فہم حاصل کریں اور اس صحیح اسلام پر خود اپنی ، اپنے اہل و عیال اور گردونواح کے لوگوں کی تربیت کریں۔

سیاسی عمل میں کون حصہ لے ؟ ... اور کب؟

آجکل سیاسی عمل یا سرگرمی میں حصّہ لینا ایک مشغلہ بن گیا ہے ! حالانکہ ہم اس کے منکر نہیں مگر ہم بیک وقت ایک شرعی و منطقی تسلسل پہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہم اصلاح وتربیت کے اعتبار سے عقیدے سے شروع کریں، پھر عبادت پھر سلوک وعمل ،پھر اس کے بعد ایک دن آئے گا جب ہم سیاسی مرحلے میں داخل ہوں گے مگر اس کے شرعی مفہوم کے مطابق ۔ کیونکہ سیاست کا معنی ہے : اُمّت کے معاملات کا انتظام کرنا، اُنہیں چلانا۔ پس اُمت کے معاملات کون چلاتا ہے؟ نہ زید ، نہ بکر ، نہ عمرو، اور نہ ہی وہ جو کسی پارٹی کی بنیاد رکھے یا کسی تحریک کی سربراہی کرتا ہو یا کسی جماعت کو چلاتا ہو!! یہ معاملہ تو خاص ولی امر (حکمران) سے تعلق رکھتا ہے ، جس کی مسلمانوں نے بیعت کی ہے ۔یہی ہے وہ جس پر واجب ہے کہ وہ موجودہ سیاسی حالات اور ان سے نمٹنے کی معرفت حاصل کرے۔لیکن اگر مسلمان متحدہ نہ ہوں جیسا کہ ہماری موجودہ حالت ہے تو ہر حاکم اپنی سلطنت کی حدود میں ذمہ دار ہے۔لیکن اگر ہم اپنے آپ کو ان اُمور میں مشغول رکھیں جن کے بارے میں بالفرض ہم مان بھی لیں کہ ہمیں اس کی کماحقہ معرفت حاصل ہوگئی ہے تب بھی ہمیں سیاسی اُمور کی یہ معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی، کیونکہ ہمارے لئے اسے نافذ کرنے کا اِمکان ہی نہیں، کیونکہ ہم اُمت کے اُمور چلانے کے بارے میں فیصلوں کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ تو محض یہ معرفت بیکارہے جس کا کوئی فائدہ ہی نہیں!!

میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں کہ وہ جنگیں جو مسلمانوں کے خلاف بہت سے اسلامی ممالک میں بپا ہیں، کیا اس بات کاکوئی فائدہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے جذبات اُبھاریں اور اُنہیں اس جانب برانگیختہ کریں جبکہ ہم اس جہاد کا کوئی اختیار ہی نہیں رکھتے جس کا انتظام ایک ایسے ذمہ دار امامِ جہاد کے ذمہ ہے جس کی بیعت ہو چکی ہو؟! اس کے بغیر اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ واجب نہیں !لیکن ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کام اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہے۔اسی لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم آپ کواور دوسروں کو جنہیں ہم اپنی دعوت پہنچا رہے ہیں، اس بات میں مشغول رکھیں کہ وہ صحیح اسلام کا فہم حاصل کرکے اس پر صحیح تربیت حاصل کریں۔لیکن اگر ہم محض اُنہیں جذباتی اور ولولہ انگیز باتوں میں مشغول رکھیں گے تو یہ اُنہیں اس بات سے دور کردیں گی کہ وہ اُس دعوت کے فہم میں مضبوطی حاصل کرپائیں جو ہر مکلّف مسلمان پر واجب ہے جیسے عقائد ،عبادت اورعملی رویوں کی تصحیح۔

مزید برآں یہ اُن فرائض عینیہ میں سے ہے جس میںتقصیر کا عذر قابل قبول نہیں، جبکہ جو دوسرے اُمور ہیں ان میں سے تو بعض فرضِ کفایہ ہیں جیساکہ آج کل جو کہا جاتا ہے 'فقہ الواقع'(حالاتِ حاضرہ کا علم ) اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا جو کہ اُن لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اہل حل و عقد ہیں، جن کے لئے یہ ممکن بھی ہے کہ اس معرفت سے وہ عملی استفادہ حاصل کر پائیں۔جہاں تک معاملہ ہے ان لوگوں کا جن کے ہاتھ میں نہ حل ہے، نہ ہی عقد اور وہ لوگوں کو اُن باتوں میں مشغول کر رہے ہیں جو اہم تو ہیں مگر اہم ترین نہیں، تو یہ بات اُنہیں صحیح معرفت سے دور لے جاتی ہے۔

یہ بات تو ہم آج بہت سے اسلامی گروپوں اور جماعتوں کے مناہج میں باقاعدہ ہاتھوں سے چھو کر محسوس کر سکتے ہیں، کہ ہم جانتے ہیں کہ بعض داعیان مخلص نوجوانوں کو... جو اُن کے گرد اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ وہ اُنہیں صحیح عقیدہ، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں اور سمجھائیں ... اس سے پھیر دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ داعیانِ سیاست سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان پارلیمنٹوں میں داخل ہونے کی کو شش کرتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتی ہے ۔اس طرح وہ اُنہیں اس اہم ترین چیز سے پھیر دیتے ہیں اس چیز کی طرف جو اِن موجودہ حالات میں اہم نہیں ہے۔

فی زمانہ ہر مسلمان کی ذمہ داری

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے جو سوال میں پوچھی گئی تھی کہ کیسے ایک مسلمان ان پُر الم حالات میں اپنا کردار ادا کر کے بریٔ الذمہ ہو سکتا ہے ، تو ہم کہتے ہیں : ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق کام کرے، ان میں سے ایک عالم کی جو ذمہ داری ہے، وہ غیر عالم کی نہیں، جیسا کہ میں اس قسم کی صورتحال میں بیان کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی نعمت اپنی کتاب کے ذریعہ مکمل فرمادی ہے اور اسے مسلمانوں کے لئے ایک دستو ر بنادیا ہے ۔ اسی دستور میں سے اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے: ﴿ فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ‌ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٧﴾... سورة الانبياء

''اہل ذکر (علماے کرام) سے سوال کرو اگر تمہیں علم نہ ہو۔''

اﷲ تعالیٰ نے اسلامی معاشرے کو دو اقسام میں تقسیم فرمایا: ایک عالم اور دوسرے غیر عالم، اور اُن میں سے ہر ایک پر وہ واجب قرار دیا جو دوسرے پر واجب نہیں، پس جو علما نہیں، ان کو چاہئے کہ وہ اہل علم سے دریافت کریں، اور علماے کرام پر یہ واجب ہے کہ وہ جس چیز کی بابت دریافت کیا جارہاہے، اُس کا جواب دیں۔اسی بنا پر مخاطب اور حالات بدل جانے سے واجبات بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ آج کے اس دور میں ایک عالم پر واجب ہے کہ وہ بقدرِ استطاعت حق بات کی جانب دعوت دے، اور جو عالم نہیں ہے اسے چاہیے کہ جو بات اس سے یا اس کے زیر کفالت لوگوں جیسے بیوی بچے وغیرہ سے تعلق رکھتی ہے اس کا سوال علماے کرام سے کرے۔ اگر مسلمانوں کے یہ دونوں فریق اپنی استطاعت بھر ذمہ داری نبھاتے رہیں تو یقیناً نجات پاجائیں گے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...٢٨٦﴾. سورة  البقرة

''اﷲ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا ۔''

صد افسوس ہم مسلمان ایک ایسے پُر الم دور سے گزررہے ہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، یہ کہ کفار چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں، جیساکہ رسول اﷲﷺ نے ایک صحیح و معروف حدیث میں اس کی خبر دی:

«يُوشِكُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا». فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ قَالَ: «بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزِعَنَّ الله مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ الله فِى قُلُوبِكُمُ الْوَهَنَ». فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ الله وَمَا الْوَهَنُ؟ قَالَ: «حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الـْمَوْتِ»14

''ایسا وقت آنے ولاا ہے تم پر چاروں طرف سے قومیں ٹوٹ پڑیں گی جیسا کہ کھانے والے ایک دوسرے کو پلیٹ کی طرف دعوت دیتے ہیں، صحابہ نے عرض کی: یا رسول اﷲﷺ!کیا اس زمانے میں ہماری قلّت ِ تعداد کی بنا پر ايسا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا :'' نہیں، تم اس زمانے میں بہت کثیر تعداد میں ہو گے، لیکن تمہاری حیثیت سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے خس خاشاک کی سی ہوگی، اﷲ تعالیٰ تمہارا رعب وہیبت کافروں کے دلوں سے نکال دے گا،اور تمہارے دلوں میں 'وَہن ' ڈال دے گا۔ اُنہوں نے دریافت کیا: یا رسول اﷲﷺ یہ'وہن' کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ''دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت۔''

پس علماے کرام پر جو واجب ہے کہ وہ 'تصیفہ و تربیہ 'کا جہاد کریں، وہ اس طرح کہ مسلمانوں کو صحیح توحید ، صحیح عقائد ، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں، ہر کوئی اپنی طاقت بھر اپنے اس ملک میں جس میں وہ رہتا ہے۔ کیونکہ اپنی اس موجودہ حالت میں کہ وہ منتشر ہیں، نہ ہمیں کوئی ایک ملک جمع کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک صف ، اس حالت میں ہم یہودیوں کے خلاف جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان دشمنوں کے خلاف جو چاروں طرف سے ہم پر یلغار کر رہے ہیں اس قسم کے جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے ، لیکن ہم پر واجب ہے کہ ہر اس قسم کا شرعی وسیلہ اختیار کریں جو ہمارے بس میں ہو، کیونکہ ہمارے پاس مادی قوت تو نہیں ہے،اور اگر ہو بھی تو ہم عملی اعتبار سے متحرک نہیں ہو سکتے۔

نہایت افسوس کی بات ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں ایسی حکومتیں، قیادتیں اور حکام ہیں جن کی سیا ست شرعی تقاضوں پر مبنی نہیں، لیکن باذن اﷲ ہم ان دو عظیم اُمور پر کام کرنے کی استطاعت ضرور رکھتے ہیں جو میں نے ابھی بیان کئے۔ پس جب مسلمان داعیان اس اہم ترین فرض کو لے کر کھڑے ہوں گے، ایسے ملک میں جہاں کی سیاست شرعی سیاست کے موافق اور اس پر مبنی نہیں ، اور اس اساس پر وہ سب جمع ہو جائیں گے، تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اس دن ان پر اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آئے گا: ﴿ وَيَومَئِذٍ يَفرَ‌حُ المُؤمِنونَ ﴿٤﴾ بِنَصرِ‌ اللَّهِ...٥﴾... سورة الروم

''اس دن مؤمنین خوشیاں منائیں گے اﷲ تعالیٰ کی نصرت پر۔''

ہرمسلمان پر واجب ہے کہ وہ حکم الٰہی اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حسبِ استطاعت نافذ کرے۔چنانچہ ہر مسلمان کو لازم ہے کہ وہ بقدرِ استطاعت کام کرے، اﷲ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا۔ صحیح توحید اور صحیح عبادت کے قیام سے لازم نہیں آتا کہ کسی ایسے ملک میں جہاں اﷲ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے، وہاں اسلامی ریاست بھی قائم ہو جائے ، لیکن اللّٰہ کے اپنے ماننے والوں سے تقاضوں میں بھی ترجیحات ہیں، کیونکہ وہ پہلی بات جس میں اﷲ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق حکم ہونا چاہئے وہ اقامتِ توحید ہے اور اس کے علاوہ بھی بے شک کچھ ایسے خاص اُمور ہیں جو بعض زمانوں کی پیداوار ہیں جن سے الگ تھلگ رہنا اختلاط سے بہتر ہے ، یعنی ایک مسلمان معاشرے سے الگ ہو کر اپنے ربّ کی عبادت میں لگا رَہے ، اور خود کو لوگوں کے شر سے بچا ئے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے، اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اگرچہ جو اصل اصول ہے وہ تو یہی ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما کی حدیث میں بیان ہوا :

«الـْمُؤْمِنُ الَّذِى يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الـْمُؤْمِنِ الَّذِى لاَ يُخَالِطُ النَّاسَ وَلاَ يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ»15

''وہ مومن جو لوگوں سے میل ملاپ کرتا ہے اور ان کی جانب سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے، اس مومن سے بہتر ہے جو نہ لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے ملنے والی اذیتوں پر صبرکرتا ہے۔''

پس ایک اسلامی ریاست بلاشبہ ایک وسیلہ ہے اﷲ تعالیٰ کا حکم زمین پرقائم کرنے کا مگر یہ بذاتِ خود کوئی غرض وغایت نہیں۔بہت عجیب بات ہے کہ بعض داعیانِ اسلام اس بات کا اہتمام تو کرتے ہیں جو حقیقتاً ان کے بس میں نہیں، اور اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں جو ان پر واجب ہے اور آسان بھی ! اور وہ اپنے نفس کا مجاہدہ کرناہے جیسا کہ ایک مسلمان داعی کا قول ہے جس قول کی وصیت میں اس داعی اسلام کے پیروکاروں کو اکثر کرتا ہوں:

"أقیموا دولة الإسلام في نفوسکم تقم لکم في أرضکم"

''اپنے دلوں پر اسلامی حکومت قائم کر لو وہ تمہارے لئے تمہاری زمینوں پر بھی قائم کردی جائے گی۔''

اس کے باوجود ہم بہت سے اُن کے پیروکاروں کو پاتے ہیں کہ وہ اس بات کی مخالفت کرتے ہیں، اپنی دعوت کا ایک غا لب حصّہ اﷲ تعالیٰ کو اس کی حاکمیت میں اکیلے ماننے پر زور دینے میں صرف کرتے ہیں، جسے وہ اس مشہور و معروف عبارت سے تعبیر کرتے ہیں: "الحاکمیة ﷲ" (حاکمیت کا حق صرف اﷲ تعالیٰ ہی کے لئے ہے )۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حاکمیتِ اعلی صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے ہی ہے کہ اس میں،اور نہ کسی اور چیز میں اس کا کوئی شریک ہے ۔ لیکن ، اُن میں سے کوئی مذاہبِ اربعہ میں سے کسی مذہب کا مقلد ہوتا ہے اور جب اس کے پاس کوئی بالکل صریح و صحیح سنت آتی ہے تو کہتا ہے کہ یہ میرے مذہب کے خلاف ہے !تو کہاں گیا اﷲ تعالیٰ کا حکم اتباع سنت کے بارے میں؟!

اوران میں سے آپ کسی کو پائیں گے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت صوفیوں کی طریقت پر کررہا ہوگا! تو کہاں گیا اﷲ تعالیٰ کا حکم توحید کے بارے میں ؟! تو وہ دوسروں سے وہ مطالبہ کرتے ہیں جو اپنے آپ سے نہیں کرتے ۔یہ تو بہت آسان کام ہے کہ اپنے عقیدے ، عبادت ، سلوک اور اپنے گھر ، بچوں کی تربیت ، خریدوفروخت میں اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرو جبکہ اس کے برعکس یہ بہت مشکل اور کٹھن ہے کہ تم کسی حاکم کو جبراً کہویا ایسے حاکم کو معزول کرو کہ جو اپنے بہت سے اَحکامات میں اﷲ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ آسان کو چھوڑ کر مشکل راہ کو اپنایا جارہاہے؟!

غرض ایسا رویہ دو میں سے ایک بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یا تو یہ رویہ نتیجہ ہے اس بری تربیت اوربری توجیہ کا ہے، یا پھر یہ خود داعیان اسلام کا اپنا وہ برا عقیدہ ہے جس نے اُنہیں اس بات سے روک اور پھیر کر جس کا اپنانا ان کی استطاعت میں ہے ،اس بات کی طرف مائل کر دیا ہے جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے ۔ آج کے اس دور میں مَیں تمام تردعوتِ دین کا محور تصیفہ وتربیہ کے عمل کو بنا دینے اور صحیح عقیدے وعبادت کی جانب دعوت دینے کے سوا اور کوئی نظریہ نہیں رکھتا۔ ہر کوئی یہ کام اپنی استطاعت بھر انجام دے، اﷲ تعالیٰ کسی جان کو اس کی وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اور تمام تعریفیں اﷲ رب العالمین کے لئے ہیں ۔

اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر!!
(بہ شکریہ 'اصلی اہل سنت. کام')

حوالہ جات

1. صحیح بخاری:1458؛صحیح مسلم:۱۹؛سنن ابوداؤد:۱۵۸۴؛جامع ترمذی:۶۲۵

2. حدیث میں آگے یہ بیان ہوا ہے کہ ''اگر وہ یہ شہادتیں تسلیم کر لیں تو پھر اُنہیں خبر دینا پنج وقتہ نماز کی فرضیت کی، اگر وہ بھی مان لیں تو پھر خبر دینا زکوٰۃ کی فرضیت کے بارے میں ۔'' (مترجم)

3. اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے:

﴿إِنَّهُم كانوا إِذا قيلَ لَهُم لا إِلـهَ إِلَّا اللَّهُ يَستَكبِر‌ونَ ﴿٣٥﴾ وَيَقولونَ أَئِنّا لَتارِ‌كوا ءالِهَتِنا لِشاعِرٍ‌ مَجنونٍ ﴿٣٦﴾... سورة الصافات ''ان مشرکوں سے جب یہ کہا جاتا تھا:لا إله إلا اﷲ (اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ) تو وہ تکبر کیا کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودات کو ایک شاعر ومجنون کے کہنے پر چھوڑ دیں گے۔''

4. یہ صوفی طریقۂ 'شاذلیہ'کے شیخ محمد ہاشمی ہیں جو ملک شام میں تقریباً پچاس سال سے شیخ یا پیر صاحب ہیں۔

5. صحیح بخاری:۲۵؛صحیح مسلم :۲۲

6. موسوعۃ الالبانی فی العقيدة:2؍15،34

7. مسنداحمد:22625، صحيح ابن حبان :1؍430 ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ:2355

8. السلسلۃ الصحیحۃ:۱۹۳۲؛ الحلیۃ الاولياء:۵؍۲۶؛ الطبرانی فی الأوسط:۶۵۳۳

9. جیساکہ بعض علماے کرام کا اجتہاد ہے جس کی کچھ تفصیل ہے جس کا یہ موقع محل نہیں۔

10. یہی وہ عقیدہ سلف صالحین ہے جو ہمارے اور خوارج ومرجئہ کے درمیان حدِ فاصل ہے ۔

11. سنن ابوداود :۲۹۲۱؛ جامع ترمذی:4941؛ سلسلۃ احادیث الصحیحۃ:۹۲۵

12. صحیح مسلم :1199؛سنن ابوداؤد:۹۳۰

13. معجم کبیرازطبرانی :۱۰؍۲۵۵،رقم:۱۰۳۹۲؛ سنن ابوداؤد:۲۳۲۱؛موسوعۃ الالبانی فی العقيدة:2؍21

14. سنن ابوداؤد:4297؛ مسند احمد :8947؛ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:۹۵۸

15. جامع ترمذی:۲۵۰۷؛سنن ابن ماجہ:4168؛سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ:۹۳۹