حاجی شیخ ظہور الٰہی رحمہ اللّٰہ تعالےٰ

تجارت پیشہ اور علمی خاندانوں کے لئے ایک قابلِ اتباع نمونہ

حاجی ظہورالٰہی کےبارے میں یہ مضمون اُن کی وفات کے فوراً بعد 18 سال قبل،جون 1995ء میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس عرصے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں، بہت سے اضافے ناگزیر ہوگئے ہیں، بہت سی نئی معلومات سامنے آئی ہیں، کچھ پہلو مزید وضاحت طلب ہوگئے ہیں، جن توقعات کا اظہار کیا گیا تھا، کچھ پوری اور کچھ نقش برآب ثابت ہوئی ہیں۔ چنانچہ اس مضمون کے آخر میں استدراک کے طور پر مزید معلومات اور تأثرات کا اظہار کیا گیا ہے جس سے مقصود اصلاح اور خیر خواہی کے سوا کچھ نہیں ﴿إِن أُر‌يدُ إِلَّا الإِصلـحَ مَا استَطَعتُ وَما تَوفيقى إِلّا بِاللَّهِ...٨٨﴾ ... سورة هود"( ص ی)

علامہ احسان الٰہی ظہیر کے والد محترم حاجی شیخ ظہور الٰہی صاحب گزشتہ ماہ (جون 1995ء، محرم الحرام 1416ھ) ریاض میں، جہاں وہ اپنے صاحبزادۂ گرامی قدر ڈاکٹر فضل الٰہی ﷾، پروفیسر ریاض یونیورسٹی کے پاس مقیم تھے، فوت ہوگئے اور اُنہیں اپنے بیٹے علامہ احسان الٰہی ظہیر﷫ شہید کے پہلو میں البقیع(مدینہ منورہ) میں سپرد خاک کردیا گیا۔ انا لله وانا الیہ راجعون

بیٹے کے بعد باپ کا بھی البقیع جیسے مقام پر دفن ہونا، جہاں بکثرت صحابہ و تابعین اور جلیل القدر ائمہ و محدثین آسودۂ خواب ہیں، ایمان و عملِ صالح والی زندگی گزارنے کے بعد یقیناً ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ ایک بندۂ صالح کو عباد ِصالحین کا قرب و جوار حاصل ہوجانا، ایک بڑا شرف وفضل ہے۔ بالخصوص بُعد مکانی کے باوجود مسجدِ نبوی کے پہلو میں برزخی زندگی گزارنے کے لئے جگہ کا مل جانا، ایک کرامت سے کم نہیں۔ بلا شبہ:

ایں سعادت بزورِ بازو نیست    تا نہ بخشد خداے بخشندہ

یہ ظاہری حالات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ علامہ شہید اور حاجی صاحب  اُمید ہے کہ والعاقبة للمتقین والے حسن انجام سے فائز المرام ہوئے ہیں۔ برد الله مَضجعهُما وجعل الجنة مثواهما !!

حاجی ظہور الٰہی صاحب مرحوم، عالم دین نہیں تھے۔ کوئی اونچے منصب دار بھی نہیں تھے اور کوئی رئیس کبیر بھی نہیں تھے۔ ایک متوسط تاجر، خوش حال اور کھاتے پیتے، معاشرے کے ایک عام فرد تھے۔متوسط طبقے کے ایسے افراد ہزاروں نہیں، لاکھوں کی تعداد میں ہیں، لیکن حاجی صاحب موصوف میں دو خوبیاں ایسی تھیں جس نے اُنہیں عام تجارت پیشہ افراد سے ممتاز کردیا تھا اور اسی امتیاز کے ساتھ وہ اپنے اللّٰہ کے حضور پہنچ گئے۔ وہ دو خوبیاں ایسی ہیں کہ وہ اگر متوسط طبقے کے تاجروں اور خاندانوں میں عام ہوجائیں تو معاشرے کی کایا پلٹ جائے، بے دینی کے سیلاب کا رُخ مڑ جائے اور بے حیائی کا بڑھتا ہوا طوفان رُک جائے یا کم از کم اس کی شدت میں نمایاں کمی ہوجائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان خوبیوں کو اُجاگر کیا جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی اُنہیں اپنائیں اور بگڑے ہوئے ماحول اور معاشرے کی اصلاح میں حاجی صاحب مرحوم کی طرح اپنا کردار ادا کریں۔

حاجی صاحب  کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کی زندگی قول و عمل کے تضاد سے پاک تھی، جو زبان پر تھا، وہی ول میں اور جو دل میں ہوتا وہی زبان پر ہوتا۔ ایمان و تقویٰ کا وعظ، دوسروں کو ہی نہ کرتے، خود ان کی اپنی زندگی اور اس کے معمولات بھی ایمان و تقویٰ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ احکام و فرائض اسلام کے سختی سے پابند، اخلاص و عمل کا پیکر اور نہایت اکل کھرے انسان تھے۔ہر جگہ اور ہر موقعے پر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے اور رسم و رواج کے بڑھتے ہوئے طوفان پر کُڑھتے ہی نہیں تھے، اس کے خلاف عملی جہاد فرماتے۔ غرض ان کی زندگی، ریا، منافقت اور د وعملی سے پاک تھی۔ دین کی غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر ان کے اندر بھری ہوئی تھی۔ چال میں مومنانہ وقار اورتمکنت تھی اور کردار میں صحابہ جیسی پاکبازی اور سچائی، زبان ذکر الٰہی سے سرشار اور چہرہ نور الٰہی سے منور۔ إذا رؤوا ذکر الله کا پیکر حسین اور حسن سیرت و صورت کا مُرقّع جمیل ....آہ
سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں!

اتباع سنت یا عمل بالحدیث کا جذبہ، جو پہلے اہل حدیث عوام و خواص کا نشان اور شعار تھا، آج کل یہ جذبہ سمٹ سمٹا کرمسجد کی چار دیواری تک محدود ہوگیا ہے۔ مسجد کی حد تک اہلحدیث ، اہلحدیث ہے۔ اتباعِ سنّت،آمین بالجہر، رفع الیدین، مسنون صف بندی اور اسلامی وضع وغیرہ پر عمل ہورہا ہے۔ ان مسائل پر خوب بحثیں ہورہی ہیں، دوسروں سے مناقشات ہورہے ہیں، لیکن مسجد سے باہرنکلنے کے بعد تجارت و کاروبار کے میدان میں، لین دین کے معاملات میں، بندوں کے حقوق و فرائض کی ادائیگی میں اور شادی بیاہ کے مواقع پر کسی اہل حدیث کو یاد نہیں ہے کہ وہ اہلحدیث ہے اور اتباعِ سنت کے تقاضوں کو بروئے کار لانا ہے، جھوٹ، فریب، ظلم وزیاتی سے اجتناب کرنا اور رسم و رواج دنیا سے دامن بچانا ہے۔إلا من شاء الله

حاجی صاحب مرحوم اس لحاظ سے ممتاز تھے کہ وہ اہل حدیث کے امتیازی مسائل میں بھی خوب شدّت سے عمل پیرا تھے، ان کے لئے بحث و مناظرہ میں بھی سرگرم تھے بلکہ مقلدین کے لئے سیفِ بُراں تھے، لیکن اس کے ساتھ ہی زندگی کے دوسرے میدانوں میں احادیث نبویہ کے متبعین کا جو امتیازی کردار ہونا چاہیے، وہ اس کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ ان کی زندگی، دینی غیرت و حمیّت سے عبارت تھی۔ بے حیائی اور بے پردگی پر مبنی رسومات جو اس وقت اہل حدیث میں بھی عام بلکہ روز افزوں ہیں، وہ اُن کے سخت خلاف تھے اور نہایت سختی سے ان پر نکیر فرماتے۔ ان کا بجا طور پر یہ خیال تھا کہ آج کل شادیاں عورتوں کے حسن و جمال، اُن کے لباس اور زیور کی نمائش گاہیں بن گئی ہیں۔ عورتیں اس طرح بن ٹھن کر اور بالکل بے پردہ ہوکر اِن تقریبات میں شرکت کرتی ہیں گویا وہ حسن، لباس اور زیورات کے مقابلے میں جارہی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ شادیوں میں عورتوں کو شریک نہ کیا جائے، ان کی شرکت سے اسلام کی تعلیمات کی مٹی پلید ہورہی ہے اور مسلمان عورتوں میں بے حیائی اور بے حجابی کو فروغ مل رہا ہے جس شخص کو بھی اسلام کا صحیح شعور حاصل ہے اور اُس کی دینی غیرت و حمیت بھی بیدار ہے ، وہ حاجی صاحب مرحوم کے اس موقف سے اختلاف نہیں کرسکتا۔ یقیناً حاجی صاحب کا موقف صحیح تھا، اسلام اور دینی حمیت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے حالات میں عورتوں کی شرکت کو ممنوع یا کم از کم پردےکی پابندی کے ساتھ مشروط کیا جائے۔

حاجی صاحب کی دوسری بڑی خوبی یہ تھی کہ اُنہوں نےایمان و عمل کے اس مومنانہ کردار کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ اسے اپنی اولاد میں بھی منتقل کیا اور اُنہیں دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا۔ آج کل اہل ثروت و جاہ کو تو چھوڑیئے، متوسط گھرانے کے خوش حال لوگ بھی اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے بہرہ ور کرنے کونہایت معیوب گردانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف انہی لوگوں کا کام ہے جو غریب ہیں، مفلس اور نادار ہیں۔ چنانچہ ان کی بڑی اکثریت تو دین سے اور اس کی تعلیمات سے ویسے ہی نابلد ہے لیکن جو افراد دین کا شعور رکھتے ہیں اور اس کے تقاضوں کا کچھ اہتمام کرتے ہیں، وہ دینی اداروں کی سرپرستی تو کرتے ہیں بلکہ دینی مدرسے قائم بھی کرتے ہیں۔ طلباے علوم دینیہ اور علما کی خدمت کو بھی سعادت تصور کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کو دین کے لئے وقف کرنے اور اُنہیں دینی علوم سے بہرہ ور کرنے کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک نہایت ہی خطرناک بیماری ہے۔ جب مسلمان معاشرے میں یہ بیماری نہیں آئی تھی اس وقت مسلمان معاشرے کے شرفاء خوش حال افراد اور خاندانوں میں دینی تعلیم کا چرچا اور اپنی اولاد کو دینی علوم سے آراستہ کرنے کا جذبہ عام تھا۔ اس کے نتیجے میں ایک تو یہ علومِ نبوت و وحی، ایک نسل سے دوسری نسل میں اور ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں منتقل ہوتے رہتے تھے، جس سے یہ علوم فروغ پاتے اور نہایت آسانی سے ان کی نشوونما کا سلسلہ جاری رہتا۔ دوسرا، اس سے اِن علوم کا وقار اور احترام لوگوں کے دلوں میں قائم تھا، کیونکہ معزز گھرانے اِن کامرکز تھے۔ ان کی خاندانی شرافت و نجابت سے اِن علوم کی قدرومنزلت بھی برقرار تھی۔ جیسے آج کل معزز گھرانے انگریزی تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں تو انگریزی تعلیم کی اہمیت اور قدر و منزلت لوگوں کے دلوں میں ہے اور علوم دینیہ کی قرارِ واقعی قدرومنزلت سے، دین کا وقار بھی قائم تھا اور دین پر عمل کا جذبہ بھی عام۔ لیکن جب سے معاشرے کے بظاہر معزز گھرانوں نے دینی علوم سے اپنا رشتہ توڑا ہے ، اس وقت سے ہی دینی علوم کی قدر لوگوں کےدلوں سے کم یا ختم ہوگئی ہے اور اسی حساب سے دین کا وقار بھی مجروح اور متأثر ہوا ہے، اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ علما بھی ، جن کا سارا وقار، دین اور دینی علوم کی وجہ سے ہی ہے ، اپنی اولاد کو مدرسوں میں پڑھانے کی بجائے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھانا یا تجارت ،کاروبار سے انہیں وابستہ کرنا پسند کرتےہیں۔

جب معزز گھرانوں کے بعد، خود علما کے دلوں سے بھی علوم نبوت کا احترام اُٹھ جائے تو اس بات کا رہا سہا وقار بھی کس طرح قائم رہ سکتا ہے؟ چنانچہ دینی علوم کی بے توقیری سے ، دینی علوم کا دائرہ سمٹ اور سکڑ رہا اور معاشرے سے دینی گرفت کمزور ہورہی ہے۔ حالانکہ معزز گھرانوں سے اس کا تعلق منقطع ہوجانے کے بعد، دینی و علمی خاندانوں کی دینی و علمی روایات ہی دینی علوم کے فروغ اور دین کی نشرواشاعت کا ذریعہ تھیں اور ہیں اور کئی نسلوں سے وہ اس میں ممتاز چلے آرہے ہیں۔جیسے غزنوی خاندان ہے جس کی چار نسلوں نے مسلسل دینی علوم کے تحفظ و فروغ اور دینی اقدار و روایات کی سربلندی کا قابل قدر کام کیا ہے۔ آج اس کی بدولت اس خاندان اور اس کے اکابر کا احترام لاکھوں دلوں میں موجود ہے۔ لیکن آج لاکھوں دلوں کی محبت کا مرکز کوئی صاحبِ علم غزنوی نہیں، ان کے دل اظہارِ عقیدت کے لئے بے قرار ہیں لیکن وہ محرابِ علم اُنہیں نظر نہیں آرہی ہے جہاں وہ سجدہ ہائے نیاز بجا لاسکیں۔ لکھوی خاندان ہے جو کئی پشتوں سے علم و عمل کی جامعیت ، دینی علوم کے فروغ و بقا اور دعوت و تبلیغ میں ممتاز چلا آرہا ہے اور اب تک وہ ممتاز ہے۔ اس کے بعض افراد اب سجدہ ٔسہو کرنے لگے ہیں، لیکن اُنہیں سوچنا چاہیے کہ دینی علوم سے وابستگی نے انہیں لاکھوں دلوں میں احترام و محبوبیت کا جو مقام عطا کیا ہوا ہے، اگر ان کی اولاد اس شرف سے محروم رہی تو وہ اس احترام و محبوبیت سے بھی محروم ہی رہے گی۔ دینی علم اور اس کی وجہ سے حاصل ہونے والے احترام کے مقابلے میں دنیا کا یہ چند روزہ متاعِ غرور، نعم البدل ہے یا بئس العوض؟

روپڑی خاندان کے گل ِسرسبد، مجتہد العصر حافظ عبداللّٰہ محدث روپڑی کی علمی خدمات اور ان کے برادر حافظ محمد حسین روپڑی کی تدریسی خدمات، ان کے بھتیجے حافظ عبدالقادر روپڑی کی تبلیغی، دعوتی اور مناظرانہ خدمات اور ان کے برادرِ اکبر حافظ محمد اسماعیل روپڑی کی بے مثال اور سحر انگیز خطابت سے ہزاروں اور لاکھوں لوگ متأثر اور فیض یاب ہوئے ہیں۔ ان کی بدولت اس خاندان کا بھی احترام لاکھوں دلوں میں موجود ہے لیکن آج اس خاندان میں سے بھی صرف حافظ محمد حسین صاحب کے ایک صاحبزادے حافظ عبدالرحمٰن مدنی ﷾ اپنے خاندان کے علم و عمل کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اسی لئے ان کا احترام ان کے اکابر کی طرح لوگوں کے دلوں میں موجود ہے جبکہ محدث روپڑی  جیسی شخصیت کی اولاد سے کوئی واقف بھی نہیں کیونکہ وہ علم و فضل کی اس روایت سے محروم ہے جو اس خاندان کا امتیاز تھا۔ [مزید اضافہ آخر میں نمبر ایک کے تحت]

اسی طرح کیلیانوالہ کا کیلانی خاندان ہے جو تین چار پشتوں سے دینی علوم سے وابستگی اور دینی اقدار و روایات کی پابندی میں ممتاز چلا آرہا ہے۔ آج بھی الحمدللہ یہ خاندان اپنے اکابر کے علم وعمل کی روایات کا حامل اور دین کی سربلندی اور اس کی نشرواشاعت میں کوشاں ہے۔ کثّر الله سوادهم و شکر الله مساعیهم

اس طرح پاک و ہند میں اور متعدد خاندان ہیں جو کئی پشتوں سے علم و عمل اور زہد و تقوےٰ کی روایات کے امین چلے آرہے ہیں اور اس کی وجہ سے دینی حلقوں میں ان کا ایک خاص مقام اور ادب و احترام ہے، استقصا مقصود نہیں ہے۔ صرف بطورِ مثال یہ عرض کیا گیا ہے کہ دینی و علمی روایات کا تسلسل، جو ہمارے سلف کا طُرۂ امتیاز تھا، آج اس گئے گزرے دور میں بھی یہ چیز عزت و احترام کا باعث ہے اور اس سے انقطاع گمنامی اور بے توقیری کا ذریعہ۔ اس لئے آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اللّٰہ نے جن لوگوں کو دین کے فہم و شعور سے نوازا ہے، جو ان پر اللّٰہ کا ایک بڑا حسان ہے کہ «من یرد الله به خیرًا یفقهه في الدین» (حدیثِ نبویﷺ) وہ اپنی اولاد کو دینی علوم کے زیور سے آراستہ کریں۔ اپنے خاندانوں میں دینی و علمی روایات قائم کریں اور پھر انہیں زندہ اور برقرار رکھنے کی سعی کریں ۔جن خاندانوں میں یہ سلسلہ قائم ہے وہ بھی اس روایت کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ اسے مزید مستحکم اور وسیع کریں۔

بہرحال یہ تو مقطع میں ایک سخن گسترانہ بات آگئی۔ گفتگو حاجی ظہور الٰہی صاحب  کی دوسری بڑی خوبی کی ہورہی تھی کہ اُنہوں نے معاشرے کی عام روش کے خلاف ایک متوسط کھاتے پیتے ہونے کے باوصف اپنی اولاد کو دین کے لئے وقف فرمایا۔ اُنہیں مدرسوں میں پڑھایا اور دینی علوم سے اُنہیں آراستہ کیا۔ ان کے اس جذبے اور اخلاص کو اللّٰہ نےقبول فرمایا۔ ان کا بڑا بیٹا مدرسے کی چٹائیوں پربیٹھ کر جب علومِ نبوت سے سرفراز ہوا تو دنیا کے اسٹیج پر علامہ احسان الٰہی ظہیر کی صورت میں نمایاں ہوا۔ زندگی کے اعتبار سے اگرچہ وہ شعلۂ مستعجل ثابت ہوئے اور 42 سال کی عمر میں ہی مظلومانہ شہادت سے ہم کنار ہوکر راہ گراے عالم بقا ہوگئے ، لیکن اپنی شخصیت اور خدمات کی وجہ سے آج بھی وہ نہ صرف لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں بلکہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہیں، زندہ ولولوں اور جذبوں کی علامت ہیں۔ مسلکی غیرت اور حمایت کا ایک عظیم سنبل ہیں، ان کی خطابت کی معرکہ آرائیوں اور دل آویزیوں کی یاد آج بھی لوگوں کو تڑپاتی اور رُلاتی ہے اور ان کی کتابوں نے فرقِ باطلہ کی جس طرح بخیہ دری کی ہے۔ اہل علم اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ غفرالله له ورحمه رحمة واسعة

حاجی صاحب کے دوسرے بیٹے بھی عالم فاضل ہیں۔ ڈاکٹر فضل الٰہی ﷾

زباں پہ بارِ خدا یا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بو سے مری زباں کے لئے

ڈاکٹر صاحب موصوف دینی علوم سے آراستہ ہی نہیں ہیں بلکہ ریاض یونیورسٹی میں دینی علوم کے اُستاذ اور پروفیسر ہیں، جہاں پوری دنیاے اسلام کے نوجوان ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے اور ان سے کسبِ فیض کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاک و ہند کے سلفی حلقوں میں ان کے درس ہوتے ہیں جن سے اُردو دان حضرات مستفید ہوتے ہیں۔ راقم کو ریاض کے قیام کے دوران اُن کے درسوں میں شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ لوگ نہایت ذوق و شوق کے ساتھ ان میں شرکت کرتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب بھی وعظ و نصیحت کا حق خوب خوب ادا کرتے ہیں۔ ان کے اندازِ بیان میں علم و فضل کی فراوانیوں کےساتھ جو سادگی، اخلاص اور تاثیر و برکت ہے، وہ آج کل نہایت کمیاب ہے ۔ راقم نے انہیں نہایت قریب سے جب دیکھا تو اُن کے کردار کی رفعت، علم و عمل کی جامعیت، زہد و تقوےٰ اور ان کی شخصیت کی دل آویزیوں نے بہت متأثر کیا۔ وہ یقیناً عہدِ سلف کی ایک یادگار اور اسلاف کے علم و تقویٰ کی درخشندہ روایات کا ایک بہترین نمونہ ہیں۔ آج کل کے اہل علم و فکر میں اخلاق و کردار کی یہ خوبیاں، یہ تواضع اور فروتنی، یہ ورع و تقوےٰ اور اخلاص و سادگی، جس میں ڈاکٹر صاحب کو ممتاز پایا، عنقا ہیں۔ اہل ریاض کی خوش قسمتی ہے کہ اُنہیں ڈاکٹر فضل الٰہی جیسا دینی رہنما ملا ہوا ہے جو ان کی کشتِ ایمان ہی کو سیراب نہیں کررہا ہے بلکہ انہیں اپنے عمل سے اخلاق و کردار کی رفعتوں سے بھی آشنا اور ہمکنار کررہا ہے۔ بارك الله في علمه و عمله وکثر الله فینا أمثاله

ڈاکٹر صاحب موصوف جس طرح ایک مشفق، فاضل استاذ اور داعئ کبیر ہیں، اسی طرح ایک عظیم مصنف بھی ہیں۔ اب تک ان کی درج ذیل کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ یہ ساری کتابیں عربی میں ہیں:

1. التدابیر الواقیة من الربا في الإسلام:اس میں سُود کے مسئلے پر مفصل بحث اور ان تدابیر کا ذکر ہے جنہیں اختیار کرکے بغیر سُود کے معاشیات کا ڈھانچہ اور بینکنگ کا نظام قائم کیا جاسکتا ہے۔

2. التدابیر الواقیة من الزنا في الفقه الإسلامي: اس میں اسلام کے اُن احکام و ہدایات کا بیان ہے جن سے انسان بدکاری سے بچ سکتا ہے۔

3. حبّ النبيﷺ و علاماته: اس میں نبی ﷺ کے ساتھ محبت کی اہمیت اور اس کی علامات کو بیان کیا گیا ہے۔

4. الحبسة، تعریفها و مشروعیتها و حکمها: احتساب کی تعریف، اس کی مشروعیت و اہمیت اور حکمتیں

5. تاریخ الحسبة في العصر النبوي: عہد نبویﷺ میں احتساب کی تاریخ

6. شبهات حول الأمر بالمعروف و النهي عن المنکر: أمر بالمعروف اور نهی عن المنکر کے مسئلے کی اہمیت اور اس کی بابت پیش کردہ شکوک و شبہات کا ازالہ

7. الحرص على هدایة الناس في ضوء النصوص و سیر الصالحین:لوگوں کی ہدایت کی حرص و خواہش اور ا س کے لئے سعی و کوشش

8.أهمیة صلوة الجماعة في ضوء النصوص وسیر الصالحین: اللین والرفق، داعي إلى الله کی اہم صفت، نرمی اور شفقت وغیرہ متعدد کتب۔

یہ ساری کتابیں اپنے اپنے موضوع پر نہایت اہم اور مفید ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ کتابیں زیر ترتیب یا زیر طبع ہیں۔یہ ڈاکٹر صاحب محترم ﷾ کی شخصیت اور خدمات کا مختصر سا تذکرہ ہے جو وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں، تبلیغ و دعوت کے محاذ پر اور تصنیف و تالیف کے شعبے میں سرانجام دے رہے ہیں۔ تینوں میدانوں یا محاذوں اور شعبوں میں ان کی خدمات نہایت مؤثر، مفید اور بہت وسیع ہیں۔صانه الله عن الشرور والفتن [مزید اضافہ آخر میں نمبر2 کے تحت]

حاجی صاحب کے تیسرے بیٹے، عابد الٰہی بھی دینی علوم کے فاضل اور ریاض یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں اور ریاض میں دینی کتابوں کی نشرواشاعت اور فروخت کا کام کرتے اور دینی معاملات میں سرگرم رہتے ہیں۔ چوتھے بیٹے شکور الٰہی ہیں، جو ان کے ساتھ گوجرانوالہ میں ہی رہتے تھے اور وہیں مقیم ہیں۔ وہ بھی ماشاء اللّٰہ دینی ولولے اور جذبے سے خوب خوب سرشار ہیں۔ اُن کے پانچویں بیٹے محبوب الٰہی حیدر آباد سندھ میں کاروبار کرتے ہیں۔ ان سے راقم کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ وہ بھی اسی سانچے کے ڈھلے ہوئے ہیں جو حاجی صاحب نے اپنے بیٹوں کے لئے تیار کیاتھا اور اسی ٹکسال کے گھڑے ہوئے ہیں جو حاجی صاحب مرحوم نے لگائی تھی، اس لئے وہ اپنے دیگر برادرانِ گرامی سے مختلف کیوں کر ہوسکتے ہیں۔[تازہ اضافہ آخر میں نمبر3 کے تحت]

حاجی صاحب مرحوم کی دوسری نسل

یہاں تک تو تذکرہ تھا، حاجی ظہور الٰہی صاحب کے صاحبزادگان والاتبار کا، اور ان کی خدمات کا جو دین کے مختلف محاذوں پر اُن کے ذریعے سے انجام پارہی ہیں۔ یہ وہ صدقۂ جاریہ ہے جسے اولادِ صالح کی شکل میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ یقیناً یہ صدقات جاریہ حاجی صاحب مرحوم کی مغفرت اور ان کے لئے رفع درجات کا باعث ہوں گے،جیسا کہ حدیث میں ہے ۔

حاجی صاحب کی مساعئ حسنہ اور تعلیم و تربیت کا یہ فیض جو ہم دیکھ رہے ہیں، اُن کی صُلبی اولاد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اب ان کی دوسری نسل یعنی پوتوں میں بھی منتقل ہورہا ہے اور وہ بھی دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور ہوکر دین کے مجاہد اور سپاہی بن رہے ہیں۔ ڈاکٹر فضل الٰہی کے دو بچے ماشاء اللّٰہ باپ دادا کے نقش قدم پرچلتے ہوئے ریاض یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں اور وہاں دینی علوم حاصل کررہے ہیں ان میں سے ایک حافظ قرآن بھی ہے۔

علامہ احسان الٰہی کا صاحبزادہ عزیزم حافظ ابتسام الٰہی ظہیرالولد سّر لابیه کے مصداق نامور باپ کی طرح خطابت کی فطری خوبیوں سے مالا مال، داعیانہ صفات کا حامل اور تبلیغ و دعوت کے جذبے سے سرشار ہے۔ آج سے آٹھ سال قبل، جب کہ ابتسام ابھی نوعمر بھی تھا اور علم کی بلندیوں سے ناآشنا بھی۔ لیکن 30؍اکتوبر 1987ء میں منعقدہ ایک عظیم الشان احتجاجی جلسے میں اس نےجو تقریر کی تھی، ا س پر تبصرہ کرتے ہوئے راقم نے اس وقت لکھا تھا:

''جب علامہ شہید کانوعمر صاحبزادہ ابتسام الٰہی ظہیر اسٹیج پر نمودار ہوا تو عوام کے جذبات کی بے پناہی نے صبر و ضبط کے سارے بند توڑ دیئے۔ ہر آنکھ اشک بار ہوگئی، ہر دل تڑپ اُٹھا اور علامہ مرحوم کی یادوں نے چٹکیاں لینی شروع کردیں۔

صاحبزادے سلمہ اللّٰہ تعالیٰ نے تقریر بھی خوب کی۔ نوعمری اور کم علمی کے باوجود وہ نہایت ولولہ انگیز اور بڑی معقول، جچے تلے الفاظ، جن میں جوش و جذبات کی ہم عنانی بھی تھی، اور ولولوں کی فراوانی بھی، عزم و حوصلہ بھی تھا اور تدبّر و دانش برہانی بھی، سکون اور ٹھہراؤ بھی تھا اور دریا کی سی روانی بھی، بادِصبا کی سُبک خرامی بھی اور طوفان کی سی طغیانی بھی، یوں گویا صاحبزادہ الولد سّر لابيه کا مصداق ثابت ہوا۔ ہر دل سے صداے تحسین بلند ہورہی تھی اور ہر لب مصروفِ دعا تھا کہ بارِالٰہا! اس صاحبزادے کو بھی عالم و خطیب اور دین کا بے باک سپاہی بنا۔''1

الحمدللہ، لوگوں کی دعائیں مقبول ہوئیں اور آج یہ نوعمر ابتسام، نوجوان خطیب کے روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ والد کی شہادت کے بعد اس نوعمر بچے نے از خود اپنے شوق سے قرآن مجید حفظ کیا۔ اپنی تعلیم میں مصروف رہا اور اب وہ (غالباً) انجینئرنگ کے آخری امتحان کے مرحلے میں ہے یا شاید اس سے فارغ ہوگیا ہے۔ ایک ملاقات میں راقم کے استفسار پر اس نے بتلایا کہ اس امتحان کے بعد وہ احادیث کی کتابیں سبقاً پڑھنے کا عزم رکھتا ہے۔ راقم نے بھی تاکید کی کہ یہ علم نہایت ضروری ہے اور اس کے بغیر خطابت میں وہ رنگ اور زور پیدا نہیں ہوگا جو علامہ مرحوم کو ودیعت کیاگیا تھا۔ اس روز کی گفتگو میں ابتسام نے یہ بھی بتلایا کہ میں اپنے سب چھوٹے بھائیوں کو دینی علوم سے آراستہ کرنا چاہتا ہوں اور معتصم الٰہی عنقریب ریاض یونیورسٹی جارہا ہے۔

علاوہ ازیں اس ملاقات میں راقم نے یہ بھی محسوس کیا کہ ابتسام کے مزاج میں تیزی اور بڑائی کی بجائے نرمی اور تواضع ہے، غصے کے بجائے بُردباری ہے۔ ہاؤہو کے مقابلے میں سکون اورٹھہراؤ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جماعتی اختلافات اور دھڑے بندیوں سے بالا رہنے کا عزم و جذبہ بھی۔ علم کے ساتھ یہ ساری خوبیاں اسے ایک عظیم خطیب ، نامور عالم اور داعئ کبیر بنا سکتی ہیں اور یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ وہ اللّٰہ کے فضل و کرم سے اسی صراطِ مستقیم کی طرف گامزن ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ اس کا حامی اور مددگار ہے۔[مزید اضافہ کے لئے آخر میں نمبر4 کے تحت]

اصل مقصد اور حاصل گفتگو

حاجی ظہور الٰہی صاحب کے حوالے سے ان تمام باتوں کی تفصیل سے، اللّٰہ جانتا ہے کسی صلے تمنا یا ستائش کی آرزو نہیں ہے، نہ کسی کی تعریف و توصیف ہی مقصود ہے۔ اصل مقصد صرف اسی پہلو کو اُجاگر کرنا ہے کہ شیخ ظہور الٰہی مرحوم نے تجارت پیشہ ہونے کے باوجود اپنی اولاد کو تجارت میں اپنا معاون اور شریک بنانے کی بجائے اُنہیں دین کا خادم اور سپاہی بنانا پسند کیا تو اللّٰہ نے ان کے اس جذبے اور سعی کو اس طرح قبول فرمایا کہ آج وہ اُمید ہے کہ اللّٰہ کے ہاں بھی سرخرو ہوں گے۔ اور ان کی اولاد اور اب پوتے بھی عزت و احترام کے مقام بلند پر فائز اور عظمت و شہرت سے ہم کنار ہیں۔ ان کے ایثار و اخلاص نے جماعت کو ایک نیا خاندان دیا ہے، جسے پہلے کوئی جانتا بھی نہیں تھا لیکن آج وہ علم و عمل کی روایات کا حامل ہے اور لاکھوں دلوں کی محبت و عقیدت کا مرجع و مرکز، یہ نوجوان ابتسام جہاں بھی جاتا ہے نوجوان اس کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کرتے ہیں، بوڑھے اس کی بلائیں لیتے اور اسے دعائیں دیتے ہیں اور لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنےکے لئے بے تابانہ دوڑتے ہیں۔ عظمت و محبوبیت کا یہ مقام ، جو کسی لکھ پتی، ارب پتی یا اس کے بیٹے کو حاصل نہیں۔ حافظ ظہور الٰہی کے بیٹوں اور پوتوں کو محض اس لئے حاصل ہے کہ وہ دین کی خدمت کررہے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے محاذ پر سرگرم ہیں اور آدم جی اور داؤد جی یا ٹاٹا، برلا بننے کی بجائے اُنہوں نے دین کا سپاہی بننا پسند کیا ہے۔ آج نبیﷺ کے فرمان کے مطابق من کان لله، کان الله له (جو اللّٰہ کا ہوجاتا ہے اللّٰہ بھی اس کا ہوجاتا ہے) اللّٰہ کی مدد ان کے شامل حال ہے۔ اہل تجارت و کاروبار کےلئے اس میں عبرت و موعظت بھی ہے اور قابل تقلید نمونہ بھی ۔ کاش انہیں بھی حاجی ظہور الٰہی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق ارزانی ہو۔2 و یرحم الله عبدًا قال آمينا [مزید اضافہ کے لئے آخر میں نمبر5 کے تحت]

استدراکات

(1) روپڑی خاندان کے عظیم اسلاف کے اخلاف میں سے بتلایا گیا تھا کہ صرف حافظ عبدالرحمٰن مدنی ﷾ (حافظ محمد حسین روپڑی کے صاحبزادے) اپنے خاندان کی علمی روایات کا علم بلند کئے ہوئے ہیں، باقی گم نامی کی نذر ہوگئے کیونکہ وہ علم و عمل کی ان روایات سے وابستہ نہیں رہے جس نے اس خاندان کو عظمت و وقار کا ایک خاص مقام عطا کیا تھا۔ حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب کے چار صاحبزادے ہیں: حافظ حسین ازہر، حافظ حسن مدنی، حافظ انس مدنی اور حافظ حمزہ مدنی۔ چاروں نے باقاعدہ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم حاصل کی ہے اور اسلامی علوم اور دینی اداروں کی خدمت کے ذریعے ماشاء اللّٰہ خاندان کی علمی و دینی روایات کے امین بن گئے ہیں۔ سلّمهم الله تعالىٰ وبارك في علمهم وعملهم

حافظ صاحب موصوف کے چاروں بیٹے علم قدیم و علم جدید کا حسین امتزاج ہیں اور سب نے اہم موضوعات میں پی ایچ ڈی کرکے عصری جامعات سے ڈاکٹریٹ کی اسناد بھی حاصل کرلی ہیں۔ حافظ حسن مدنی، جو پہلے جامعہ لاہور الاسلامیہ(رحمانیہ) میں مدیر التعلیم اور ماہنامہ'محدث'کے مدیر ہی تھے، اب وہ اُس کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں علوم اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حال ہی میں اُنہیں کتاب وسنت کی اشاعت کے عالمی ادارے 'دار السلام انٹرنیشنل' کے زیر اہتمام قائم ہونے والی اہل علم وقلم کی تنظیم 'اہل حدیث رائٹرز فورم' کا صدر مقرر کیا گیا ہے۔محدث میں ان کے مضامین ومقالات کئی برسوں سے شائع ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی، قراءاتِ عشرہ کے نہایت ممتاز قاری ہیں اور جامعہ لاہور الاسلامیہ کی البیت العتیق برانچ کے مدیرالتعلیم ہیں، ہر سال کویت میں رمضان المبارک کے قیام اللیل میں اہل عرب کو اپنی خوب صورت آواز میں مسحور و محظوظ کرتے ہیں، عشرۃ قراءات میں اُن کی آواز میں مکمل قرآن، کویت ومصر میں ریکارڈ ہو چکے ہیں ۔حافظ انس مدنی، مدینہ یونیورسٹی کے فاضل،تفسیر قرآن اورعلم الفرائض (علم وراثت) میں خصوصی مہارت کے حامل ہیں او رجامعہ مذکور میں استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ اُردو زبان میں اہل حدیث کی سب سے بڑی ویب سائٹ 'کتاب وسنت' کے مدیر ہیں۔ اُنہوں نے بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی ہے۔ گویا یہ خانوادۂ علم وعمل...؏ ایں خانہ ہمہ آفتاب است..... کا مصداق ہے۔ كثّر الله أمثالهم فينا

حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب کی چھ بیٹیاں ہیں۔ سب کی سب حافظات اور دینی تعلیم سے آراستہ ہیں، ان میں سے ایک ڈاکٹرحافظہ مریم مدنی نے غالباً درایتِ تفسیری کے نہایت اہم موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی لی ہے۔ مزید دو بیٹیاں بھی ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کر چکی ہیں۔ حافظ صاحب کے داماد بھی علم وتحقیق اور دعوت وخطابت میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں جن میں ڈاکٹر حافظ محمد زبیر، ڈاکٹر خالد حمید، عبد القوی لقمان کیلانی اور حافظ طاہر اسلام عسکری نمایاں ہیں۔یوں اس منزلِ علم و عمل کے حافظ عبدالرحمٰن مدنی پہلے اکیلے ہی راہی تھے، اب اُن کے صاحبزادگان والاتبار اور بیٹیاں واصہار بھی ان کے رازداں اور اس وادئ پرخار کی آبلہ پائی میں اُن کے ہمدم و ہم ساز او ران کے مددگار ہیں۔ حفظہم الله تعالىٰ

برادرم حافظ مدنی صاحب کی اولاد کی تعلیم وتربیت میں اُن کی والدہ محترمہ رضیہ مدنی کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگا۔محترمہ نہایت نیک خاتون ہیں، تین دہائیوں سے خواتین کو قرآن کریم اور حدیثِ نبوی کی تعلیم دینے میں مصروفِ عمل ہیں، آپ سے ہزاروں خواتین تعلیم حاصل کرکے، دین کی اس روشنی کو آگے پھیلا رہی ہیں ۔ آپ صاحبِ تیسیر القرآن مولانا عبد الرحمٰن کیلانی کی دوسری بیٹی ہیں، اور لاہور میں خواتین کے درجنوں تعلیمی مراکز آپ کے زیر نگرانی چل رہے ہیں۔

مولانا محمدحسین روپڑی﷫ کےایک پوتے (حافظ عبدالرحمٰن مدنی﷾ کے بھتیجے) حافظ عبدالحفیظ روپڑی بھی دنیوی علوم سے آراستہ ہونے کے بعد روپڑی خاندان کی علمی و دینی روایات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ کراچی میں اُن کےوالد حافظ عبداللّٰہ حسین روپڑی مرحوم نے جامعہ عمر بن عبدالعزیز کے نام سے ڈیفنس کراچی میں ایک دینی ادارہ قائم فرمایا تھا۔ اب مولانا حافظ عبدالحفیظ ﷾ اِس کے مدیر و منتظم اور والد مرحوم کے لگائے ہوئے پودے کو اپنے خونِ جگر سے سینچ رہے ہیں۔ خود بھی موصوف تحقیقی و علمی ذوق سے بہرہ ور ہیں، علاوہ ازیں علما کے نہایت قدر دان اور ان کے خوانِ علم کی ریزہ چینی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اُن کےساتھ بھی جماعت کی اُمید یں وابستہ ہیں۔ اللّٰہ نے اُن کو مالی وسائل سےبھی نوازا ہے علم کی دولت سے بھی مالامال کیا ہواہے۔نیز اپنے برادران گرامی قدر کا مالی تعاون بھی اُنہیں حاصل ہے، علاوہ ازیں وہ خاندان کےعلم و عمل کی روایات کو آگے بڑھانے کا جذبۂ فراواں بھی رکھتے ہیں۔ وفقہ الله

ابھی حال ہی میں اُنہوں نے دو میدانوں میں نہایت اہم علمی پیش رفت کی ہے، اللّٰہ تعالیٰ اُن کو کامیاب فرمائے۔ایک، اپنے ادارے میں یک سالہ دورۂ تخصص شروع کیا ہے اور دوسرا دارالافتا کے لئے مستند علما کا ایک بورڈ بنا دیا ہے۔

ایک حسرت اور آرزو

جب مولانا محمد حسین روپڑی ﷫ کے صاحبزادگانِ گرامی قدر اور ذی شان پوتوں کا ذکر نوکِ قلم پر آ ہی گیا ہے تو ایک حسرت اور آرزو کا ذکر کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مولانا حسین روپڑی کے دو صاحبزادگان اور بھی ہیں: حافظ عبد الماجد (کراچی) اور حافظ عبد الوحید روپڑی (لاہور) حفظہما اللّٰہ تعالیٰ، یہ دونوں بھی ماشاء اللّٰہ خاندان کے علم وعمل اور دینی اَقدار و روایات کے حامل اور پابند ہیں اور دنیوی وسائل سے بھی خوب خوب مالا مال ہیں۔ وہ ان خداد وسائل فراواں سے دین اور علوم دینیہ کی خدمت اور نشر واشاعت کا نہایت قابل قدر کام سرانجام دے سکتے ہیں لیکن افسوس وہ اس میں کوتاہ دست واقع ہوئے ہیں بلکہ حافظ عبد الوحید روپڑی صاحب تو جو مالی تعاون جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) سے کیا کرتے تھے، بھائیوں کے اختلافات کی وجہ سے انہوں نے مسلسل کئی سالوں سے اس کا سلسلہ موقوف کیا ہوا ہے۔ کاش ایسا نہ ہوتا!! دینی ادارے اللّٰہ کے توکل پر ہی چلتے ہیں اور مذکورہ عدم تعاون کےباوجود جامعہ رحمانیہ حسب ِسابق چل رہا ہے بلکہ شاید اُس وقت سے زیادہ وسیع پیمانے پر چل رہا ہے جب اس کو حافظ عبدالوحید صاحب کی طرف سے زکوٰۃ کی ایک خطیر رقم ملتی تھی او راس کےنظم و انصرام میں وہ خود بھی شریک تھے۔

یہ بات اُن کےلئے قابل غور ہونی چاہیے کہ جائداد اور کاروباری اختلافات کی وجہ سے اُنہوں نے اپنے خاندان کے ایک دینی و علمی ادارے سے، جس کے قیام و بقا میں اُن کا بھی معتدبہ حصہ ہے، عدم تعاون کی پالیسی کو جاری رکھنےکا کوئی معقول جواز ہے؟ حسرت یہی ہے کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔ اخلاص کا تقاضا تو یہ تھا اور ہے کہ وہ اختلافات کےباوجود اس کو اپنا ہی ادارہ سمجھتے ہوئے اس تعاون سے دست کش نہ ہوتے جو وہ سالہا سال سے اس کے ساتھ کرتے چلے آرہے تھے۔ یہ انہی کے خاندان کا جاری کردہ چشمۂ فیض ہے جس سے تشنگانِ علوم نبوت سیراب ہورہے ہیں اور جو اُن کےخاندان کی نیک نامی کا باعث اور عند اللّٰہ سرخ روئی کاذریعہ ہے۔اس حسرت کے ساتھ آرزو یہی ہے کہ حافظ صاحب موصوف اپنے موجودہ رویّے پرنظرثانی فرمائیں اوردونوں کے چھوٹے بھائی حافظ عبدالماجد صاحب (ایم ڈی حفاظ سیم لیس پائپ انڈسٹریز)بھی اس کارِخیر میں بایں طور حصہ لیں کہ وہ خود بھی اپنےمالی وسائل کےمطابق خاندان کی علمی و دینی روایات کو آگےبڑھانےمیں سرگرمی سے حصہ لیں اوردونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کے قریب کرکے اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ جامعہ اور اس کے ملحقہ اداروں کے ساتھ حسب ِسابق غیرمشروط تعاون کریں ۔ اس وقت وہ طوفانوں سےکھیلنے والوں کا ساحل پر بیٹھے نظارہ کررہے ہیں اوربے دینی کے سیلاب کے آگے بند باندھنے والے اور الحاد کےجھکڑوں سےنبرد آزما زبانِ حال سے اُن کی بابت کہہ رہے ہیں ...
؏ کجا دا نند حالِ ما سبک ساران ساحلہا

وفّقهما الله وإیانا لما یحبّ ویرضٰی!

(2) ڈاکٹر فضل الٰہی ﷾ کی بابت جو کچھ عرض کیا گیا تھا، وہ اس وقت ریاض (سعودی عرب) میں تھے، اسی حوالے سے ساری گفتگو ہوئی تھی۔ اس کے بعد موصوف مستقل طور پر پاکستان آگئے اور کئی سال تک اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں بحیثیتِ پروفیسر تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کا زیادہ وقت تصنیف و تالیف میں گزرتا ہے اور ساتھ ساتھ الریاض کی طرح دروس و خطابات کے ذریعے سے تبلیغ ودعوت میں بھی خوب سرگرم ہیں، اللّٰہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے۔

پہلے اُن کی جن کتابوں کی فہرست دی گئی تھی، وہ اس وقت بیشتر عربی میں تھیں، اب خود موصوف نے اُن میں سے متعدد کتابوں کو اُردو کے قالب میں ڈھال دیا ہے اور مزید کئی نئی کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔ یہ سب کتابیں زیورِ طباعت سے آراستہ ہونے کے بعد مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔النور کے نام سے ان کا اپنا ادارہ انہیں شائع کررہا ہے اور یہ کتب مکتبہ قدوسیہ لاہور سے بآسانی دستیاب ہیں۔ڈاکٹر موصوف ﷾ کی کتابیں اُن کے دروس و خطابات کی طرح نہایت علمی و تحقیقی ہیں، احادیث کی تحقیق و تخریج کا خصوصی اہتمام ہے۔یہ کتابیں عوام ہی کے لئے نہیں، خواص (اہل علم) کے لئے بھی نہایت مفید ہیں۔

حاجی ظہور الٰہی مرحوم کا مذکورہ کردار، بیٹے کی زبانی

ڈاکٹر صاحب نے چند دن قبل اپنے والد مرحوم کے اس خصوصی کردار پر مبنی،جس کاذکر راقم نے خصوصی طور پر کیا تھا، اپنے ساتھ بیتا ہوا واقعہ راقم کو سنایا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: جب میں نے بی اے کا امتحان نہایت اعلیٰ نمبروں کےساتھ پاس کرلیا تو والد محترم نےپوچھا: فضل الٰہی! اب کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: میں سی ایس پی کا امتحان دوں گا۔ والد محترم نے کہا: نہیں۔ میرا حکم تو یہ ہے کہ جامعہ محمدیہ میں داخل ہوکر دین کا علم حاصل کرو۔ میں نے انکار کیا اور اُنہوں نے اپنی رائے پر اصرار جاری رکھا۔ لیکن میں انکار ہی کرتا رہا، بالآخر فرمایا: فضل الٰہی! سی ایس پی افسر بن کر تمہیں جتنی تنخواہ ملے گی، وہ میں تمہیں دے دیا کروں گا لیکن تم دین کے عالم ہی بنو۔ لیکن میں پھر بھی آمادہ نہیں ہوا، اور سی ایس پی میں داخلے کے لئے انٹرویو کے لئے لاہور آگیا، اس انٹرویو میں بھی میں نہایت ممتاز نمبروں کے ساتھ پاس ہوگیا اور داخلے کے لئے منتخب کرلیا گیا۔ اس کامیابی کے ساتھ جب میں واپس گھر (گوجرانوالہ) جارہا تھا تو بس میں اللّٰہ نے میرا ذہن یک دم بدل دیا اور میں نے واپس جاکر جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں داخلہ لے لیا۔

میں ڈاکٹر صاحب کی زبانی یہ واقعہ سن کر حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔ حیرانی اسی بات کی تھی کہ اللّٰہ نے حاجی صاحب کے اندر اپنی اولاد کو دین کا خادم بنانے کی کس طرح لگن اور تڑپ پیدا کردی تھی اور خوشی اس بات کی کہ راقم نے ان کے جس کردار کو نمایاں کیا ہے، اس واقعے سے اس کی مزید تائید ہوگئی ہے۔

آج فضل الٰہی صاحب اگر ایک اعلیٰ افسر بنےہوتے تو دنیوی مراعات سے تو یقیناً وہ بہرہ ور ہوتے لیکن گم نامی ان کا مقدر ہوتی۔بے شمار افسرانِ اعلیٰ ہیں لیکن اُن کو کون جانتا ہے؟ لیکن جب اس فضل الٰہی نے والد صاحب کی نیک خواہش کو جامۂ عمل پہناتے ہوئے مدرسے کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین کا علم حاصل کرلیا تو وہ ڈاکٹر فضل الٰہی بن کر علم و عمل کا آفتاب بنا ہوا ہے جس کی ضیا پاشیوں سے عرب و عجم کے بے شمار لوگ اکتسابِ فیض کررہے ہیں، ایک مینارۂ علم ہے جس کی کرنوں سے دنیا کا کوچہ کوچہ، قریہ قریہ، منور ہورہا ہے، علم و عمل کا ایک چشمۂ صافی ہے جس سے علما بھی سیراب ہورہے ہیں اور تشنۂ عمل بھی اپنی جھولیاں بھر رہے ہیں، ورع و تقویٰ کا ایک سنگ میل ہے جس سے گم گشتگان بادیہ ضلالت راہ یاب ہورہے ہیں اور عہدِ سلف کی ایک یاد گار ہے جس کے دیکھنے کو اب آنکھیں ترستیاں ہیں۔ متّعنا الله بطول حياته وبارك في مساعيه و جهوده

مذکورہ مضمون کی تحریر کے وقت ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب کے دونوں بیٹے ریاض یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، اب وہ بھی پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں او رنامور باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علم و عمل کی مشعلیں فروزوں کئے ہوئے ہیں جن سے جہالت اور شرک و بدعت کی تاریکیاں دور اور توحید و سنت کے چراغ روشن ہورہے ہیں۔ سلمهما الله تعالىٰ

(3) حاجی ظہور الٰہی صاحب کے بیٹے محبوب الٰہی صاحب کی بابت عرض کیا گیاتھاکہ راقم اُن کی زیارت و ملاقات کے شرف سے محروم ہے (اور یہ محرومی تاحال قائم ہے) لیکن وہ بھی اسی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جو حاجی صاحب مرحوم نے اپنے بیٹوں کے لئے تیار کیا تھا۔ یہ خیال صحیح ثابت ہوا اور وہ حیدر آباد سے گوجرانوالہ آگئے ہیں اور کاروبار کررہے ہیں۔ جس میں اب اُن کے بیٹے بھی شریک ہیں لیکن الحمدللہ اُنہوں نے بھی حاجی صاحب مرحوم کا بیٹا ہونے کا ثبوت دے دیا ہے (ایسا بیٹا جیسا وہ چاہتے تھے) اور ماشاء اللّٰہ محبوب الٰہی کا ایک بیٹا، فرمان الٰہی، علومِ قرآن و حدیث کے زیور سے آراستہ ہوکر دعوت و تبلیغ کے اسی قافلے کے ہم رکاب ہے جو حاجی صاحب کی مخلصانہ کوششوں سے انہی کے خاندان کے اصحاب علم وفضل پر مشتمل ہے۔ راقم کو اس عزیز (فرمان الٰہی)کی ایک تقریر سننے کا اتفاق ہوا، جسے سن کر بے انتہا خوشی ہوئی، تقریر میں اس جوش وولولے کی فراوانی تو نہ تھی جو ان کے عم محترم علامہ احسان الٰہی ظہیر کی خطابت کا طرۂ امتیاز تھا، لیکن وہ اخلاص، سادگی اور تاثیر یقیناً تھی جو ان کے دوسرے عم گرامی قدر محترم ڈاکٹر فضل الٰہی﷾ کی زبان میں اللّٰہ تعالیٰ نے رکھی ہے۔ سلّمہ الله

حاجی صاحب مرحوم کے ایک بیٹے شکور الٰہی تھے جو اس وقت زندہ تھے جب مضمون لکھا گیا تھا، اب وہ اللّٰہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ غفر الله له ورحمه... ان کی تعلیم کیا تھی؟ راقم اس کی تفصیل سے بے خبر ہے، غالباً والد مرحوم ہی کے ساتھ سٹیلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں رہائش پذیر تھے، راقم کی ان سے ملاقات رہی ہے، توحید و سنت کی غیرت ان کے اندر بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ایمانی غیرت کے اسی پیکر میں ڈھلے ہوئے تھے جو حاجی صاحب نے اپنے بیٹوں کے لئے تیار کیا تھا اور وہ خود بھی اس کا ایک حسین مرقع تھے۔

(4) حاجی صاحب مرحوم پر جب مضمون لکھا گیا تھا، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، انجینئرنگ میں زیر تعلیم تھے اور سبقاً سبقاً احادیث پڑھنے کا اور اپنے چھوٹے بھائیوں کوبھی دینی علوم سے آراستہ کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ بلا شبہ ایسا ہی ہوا اور ماشاء اللّٰہ حافظ ہشام الٰہی اور معتصم الٰہی بھی علوم جدیدہ کے ساتھ علوم دینیہ سے بھی بہرہ ور ہیں، ان کی تقاریر سننے کا تو راقم کو موقعہ نہیں ملا، لیکن جن کو اس کا موقع ملا ہے، اُنہوں نے ان کی تقریری صلاحیتوں کی تعریف کی ہے اور اس کی بابت بہت اچھے تأثرات کا اظہار کیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور ان کو دین اور مسلک کی خدمت کی مزید توفیق سے نوازے۔ البتہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر کی بابت اس وقت ان کی صلاحیتوں اور عزائم کے بارے میں جن اچھے جذبات اور توقعات کا اظہار کیاگیاتھا، افسوس وہ نقش برآب اور ؏.. جو دیکھا خواب تھا، جو سنا افسانہ تھا کی مصداق ثابت ہوئیں۔کاش ایسا نہ ہوتا لیکن ماشاء الله كان وما لم يشأ لم يكن قضا و قدر کے فیصلوں کو کون ٹال سکتا ہے؟ تاہم ہم جیسے جماعت کے بے شمار ہم دردوں اور مسلک کے خادموں کے لئے یہ المیہ نہایت روح فرسا اور اعصاب شکن ہے۔سالہا سال پہلے جب اس کرب ناک المیے کا آغاز نہیں ہوا تھا لیکن حالات و آثار اس طوفان کی نشاندہی کررہے تھے، ان ایام میں ایک دو مرتبہ عزیز گرامی سےملاقات ہوئی، راقم نے ہر مرتبہ اُن کو یہی سمجھایا کہ وہ نوجوانوں کے نرغے میں اور پرستاروں کے جھرمٹ میں پھنس کر کوئی غلط قدم نہ اُٹھائے کہ ؏ موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں!

اُنہوں نے ہر مرتبہ یہی یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہوگا، لیکن جو ہونا تھا، وہ ہوکر ہی رہا۔ پہلے وہ علامہ احسان لٰہی ظہیر کا فرزندِ گرامی تھا، ملت کے مقدر کا ستارہ تھا، ہر اہل حدیث کی آنکھوں کا تارا تھا، ان کے روشن مستقبل کی اُمیدوں کامرکز تھا۔لیکن افسوس اُمیدوں کے یہ شیش محل چکنا چور ہوگئے، تمام حسین خواب بکھر گئے اور تب سے پوری جماعت ایک نہایت کرب ناک اذیت سے دوچار ہے۔ جماعت کے متعدد مخلصین نے اس صورتِ حال کے خاتمے کے لئے مختلف کوششیں کیں لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔ اس میں قصور کس کا ہے؟ یا کس کا زیادہ اور کس کا کم ہے؟ ا س بحث میں پڑے بغیر راقم جماعت کا ایک ادنیٰ کارکن اور مسلک کا ایک خادم ہونے کے ناطے دونوں فریقوں سے مخلصانہ او رہم دردانہ گزارش کرتا ہے کہ وہ اس کو انَا اور وقار کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ جماعت او رمسلک کے وسیع تر مفاد میں مفاہمت اور قربت کا راستہ اختیار کریں، ایثار و قربانی کا راستہ اپنائیں اور من تواضع لله کو شعار بنا کر رفعه الله پر یقین رکھیں۔

عہدہ و منصب، دنیاکی زندگی کی طرح ، فانی اور عارضی چیزیں ہیں، علاوہ ازیں یہ عزت ومرتبت کی پائیدار بنیاد بھی نہیں۔ اصل عزت و احترام وہ ہے جولوگوں کے دلوں میں ہو اور یہ مقام بلند علم و فضل کی فراوانی اور بے لوث خدمت سے حاصل ہوتا ہے۔ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب﷾ (حافظ ابتسام الٰہی کے عم گرامی قدر) ان کےپاس کون سا جماعتی عہدہ ہے؟ لیکن اپنے علم و فضل، رفعتِ کردار او راپنی گراں قدر خدماتِ جلیلہ کی وجہ سے ان کی عظمت مسلّم اور ہراہل حدیث کے دل میں ان کے لئے احترام کے بے پناہ جذبات ہیں۔

حافظ ابتسام الٰہی ظہیر سلّمہ اللّٰہ اب نوجوان تو نہیں، تاہم ابھی جواں ، عزائم جوان ہیں، علم وخطابت کی اچھی صلاحیتوں کے حامل ہیں، وہ اپنے مخصوص حلقۂ یاراں سے نکل کر اب بھی جماعتی دھارے میں شامل ہوجائیں تو عزت و وقار کی وہ بلندیاں ان کی منتظر ہیں جو مخلص او ربے لوث لوگوں کامقدر ہوتی ہیں، اہل حدیث عوام و خواص ان کے لئے دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ عہدہ و منصب سےبے نیاز ہوکر فرزندِ جماعت بن جائیں اور جو جماعت کا ہوجائے تو جماعت بھی بالآخر اس کو سرآنکھوں پر بٹھالیتی ہے او راس کو وہ مقام دینے پرمجبور ہوجاتی ہے جس کا وہ اپنی صلاحیتوں اور خدمات کی بنیاد پر اہل ہوتا ہے۔ وفّقه الله تعالى وإيانا لما يحب و يرضٰى (اضافہ جات رقم کرنے کی تاریخ : 27؍جون 2013ء)

(5) بعض اور اکابر کی تربیت کے اثرات و نتائج: [نوٹ:ذیل کا مختصر مضمون بھی حاجی ظہور الٰہی مرحوم کی وفات پر لکھے گئے مضمون کے تتمہ کے طور پر 1995ء ہی میں تحریر کیاگیا تھا۔ اس میں بھی حاجی صاحب مرحوم کی طرح بعض اکابر کی تربیت و اثرات کا مختصر تذکرہ ہے] پروفیسر حافظ عبداللّٰہ صاحب ، جن کی وفات چند سال قبل ہی ہوئی ہے۔ ان کی زندگی اگرچہ کالج میں لیکچر دیتے ہوئے ہی گزری ہے۔ لیکن دعوت و تبلیغ کا جو جذبہ کوٹ کوٹ کر ان کے اندر بھرا ہوا تھا، وہ اُنہیں ایک پَل آرام سے نہیں بیٹھنے دیتا تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنے تعلیمی میدان میں نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کی جو عمل اور شکل و صورت میں اسلاف کی پیکر اور علم وفکر کے اعتبار سے سلفی مسلک و منہج کی نمائندہ و ترجمان ہے۔ علاوہ ازیں خطباتِ جمعہ اور دیگر عوامی تقاریر کے ذریعے سے عوام کے بھی ایک بہت بڑے طبقے کو متأثر کیا او راُنہیں شرک و بدعت کی تاریکیوں سے نکال کر توحید و سنت کی روشنی عطا کی او رآج وہ الحمدللہ صراطِ مستقیم پر گامزن ہیں۔ اسی طرح اُنہوں نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا بھی خوب خوب اہتمام کیا اور اُنہیں دنیوی علوم کے ساتھ دینی علوم سے بھی آراستہ کیا۔ چنانچہ ان کے دو بیٹے مولانا پروفیسر عبدالرحمٰن مکی﷾ اور پروفیسر حافظ عبدالحنان ﷾ نہ صرف جدید وقدیم علوم کا حسین امتزاج ہیں بلکہ زبردست مبلغ، شعلہ نوا مقرر اور داعئ کبیر ہیں اور اللّٰہ کی توفیق سے مرحوم باپ کے تبلیغی مشن اور دعوتی مقاصد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حافظ صاحب کی ان کوششوں کے نتیجے میں اُن کی وفات سے ان کی مسندِ رُشد و ہدایت اُجڑی نہیں، جیسا کہ بہت سےعلما کے ساتھ یہ حادثہ ٔالیمہ ہوا ہے، بلکہ وہ نہ صرف قائم ہے بلکہ اس کا فیض جاری بلکہ روز افزوں ہے۔

پروفیسرحافظ محمدسعید﷾، جو حافظ عبداللّٰہ صاحب مرحوم کے خواہر زادے اور داماد بھی ہیں، ان ہی کے حُسن تربیت کا شاہکار ہیں۔ ان کے دست و بازو پروفیسر ظفر اقبال بھی حافظ صاحب بہاولپوری کے خوانِ علم کے خوشہ چین او رانہی کے تربیت کدے کے فیض یافتگان میں سے ہیں۔ اُن کی جہد و مساعی کا دائرہ تبلیغ دعوت اور تعلیم و تربیت سے لے کر حرب و ضرب کے میدانوں تک وسیع ہے، یہ سلسلے بھی وسعت پذیر بلکہ عالم گیر ہیں۔

ایسے ہی مولانا حافظ عبدالغفور جہلمی ایک درویش منش عالم تھے۔ اُنہوں نے عمر کے آخری دور میں جہلم میں دعوت و تبلیغ کے علاوہ دینی مدارس و مساجد اور شفا خانوں کی تعمیر کا جو عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا، وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ یہ عمارات اور کارنامے جماعت اہل حدیث کا سرمایۂ افتخار ہیں۔ لیکن حافظ صاحب مرحوم کا بھی دوسرا بڑا عظیم کام یہ ہےکہ وہ سمجھتے تھے کہ ؏ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا... اس لئے اُنہوں نے اپنی اولاد کو بھی دینی علوم سے آراستہ کیا او راپنی مسند علم و عمل کا اُنہیں جانشین بنایا۔ آج الحمدللّٰہ، ان صاحبزادگانِ گرامی قدر کی مساعی، توجہ اور حُسن انتظام سے یہ ادارے مصروفِ عمل ہیں اور مردوں ہی میں علم کی روشنی نہیں پھیلا رہے، بلکہ عورتوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔علاوہ ازیں تصنیف و تالیف کے ذریعے سے بھی مسلک ِسلف کی خدمت اور ا س کی نشرواشاعت کررہے ہیں نیز عوام کی روحانی بیماریوں کے علاج کے ساتھ، ان کی جسمانی تکالیف کا اِزالہ بھی ان کے پروگرام کا ایک حصہ ہے۔ بارك الله لهم وعافاهم
حوالہ جات

1. ہفت روزہ 'تنظیم اہلحدیث' لاہور، 13؍ نومبر1987ء

2. ہفت روزہ 'الاعتصام' لاہور،14جولائی 1995ء