امیرالمؤمنین فاروق اعظم حضرت عمر ؓ کی حق پرستی، انصاف پروری، اجراء حدود الٰہی میں عزیز و بے گانہ کے ساتھ ان کے یکساں برتاؤ کی روشن اور درخشاں حیثیت کو (ان کے فرزند ابو شحمہ) کے متعلق ایک بے بنیاد و بے اصل خود ساختہ واقعہ کے ذریعہ منظر عام پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ کی بےنظیر انصاف پروری اور عدل گستری آپ کے دور خلافت کے طریق کار یہ سب ایسے صحیح اور معتبر تاریخی روایات سے ثابت اور مشہور ہیں کہ ان کے بعد اس قسم کے گھڑے ہوئے قصوں کے ذریعے ان کی انصاف پروری اور دینی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی مطلقاً ضرورت نہیں ہے حضرت ابوشحمہ کے متعلق قصہ داستان گو واعظین،غیر محتاط صوفیاء اور غیر محقق واقعہ نگاروں کی رنگ آمیزیوں کا رہین منت ہے۔ اصل حقیقت کچھ او رہے جو ان کی رنگ آمیزیوں میں گم ہوکر رہ گئی او رحضرت ابوشحمہ کا پاک دامن غلط کاری کےمکروہ و معیوب دھبوں سے داغدار ہوگیا ہمیں افسوس ہے کہ بعض مصنفین نے ایک ایسے واقعہ کو جس کا تعلق برگزیدہ مقدس ہستیوں سے ہے، تاریخ اور اصول روایت کے مطابق چھان بین کئے بغیر شائع کردیا۔
اس واقعہ کے متعلق ماہرین فن اور معتبر مستند مؤرخین کی تصریحات درج کی جاتی ہیں تاکہ ناظرین کو اصل واقعہ معلوم ہوجائے اور یہ حقیقت ان کے ذہن نشین ہوجائے کہ ابوشحمہ کا دامن معصیت کے داغ سے پاک و صاف ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطی المتوفی 911ھ نے اپنی مشہور کتاب اللآلی المصنوعة في الأحادیث الموضوعة میں اس قصہ کو مختصر او رمطول دو طرح سے ذکر کیا ہے۔ مختصر واقعہ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ پچاس کوڑے حضرت عمر ؓ نے اپنے ہاتھ سے مارے اور پچاس کوڑے حضرت علیؓ کے ہاتھ سے۔ علامہ سیوطی نے اس واقعہ کے متعلق اپنا تحقیقی فیصلہ اور تحقیقی ریمارک یوں تحریر فرمایا ہے۔
موضوع وضعه القصاص وفي الإسناد من ھو مجھول۔
''یہ واقعہ سرتاپا بے اصل و بے بنیاد گھڑا ہوا ہے جسے داستان گو واعظین نے بنا اور گھڑ لیا ہے سلسلہ سند میں نامعلوم اشخاص موجود ہیں۔''
اور مطول قصے کے بعد لکھتے ہیں:
موضوع فیه مجاھيل قال الدارقطني حدیث مجاھد من ابن عباس في حدیث أبي شحمة لیس بصحیح وروي من طریق عبدالقدوس ابن الحجاج عن صفوان عن عمر و عبدالقدوس كذاب یضع بینه و بین عمر رجال۔
''یہ گھڑی ہوئی او ربالکل بے سند بات ہے سلسلہ سند میں کئی نامعلوم افراد ہیں۔ دارقطنی کہتے ہیں کہ مجاہد کی وہ حدیث جو ابن عباس سے ابوشحمہ کے بارے میں روایت کی جاتی ہے۔ صحیح نہیں ہے۔ عبدالقدوقس بن حجاج سے بھی یہ قصہ مروی ہے لیکن یہ عبدالقدوس جھوٹا اور کذاب ہے ۔حدیثیں خود اپنی طرف سے بنا بنا کر بیان کرتا ہے او راس کے اوپر راوی صفوان اور عمر کے درمیان سلسلہ سند منقطع ہے۔''
علامہ محمد طاہر تذکرۃ الموضوعات صفحہ 180 میں لکھتے ہیں:
حدیث أبي شحمة ولد عمرؓ و زناه و إقامة عمر علیه الحدود مرتبته بطوله لا یصح بل وضعه القصاص انتھیٰ أوھکذا في الفوائد المجموعة صفحہ 69 للعلامۃ الشوکانی و مجمع (بحار الانوار صفحہ 517ج3)
''ابوشحمہ ابن عمرؓ کا واقعہ زنا۔ ان پر حد جاری کرنا اور اس کی وجہ سے ان کی موت پر یہ پورا قصہ غلط ہے او رگھڑا ہوا ہے۔''
اصل واقعہ: علامہ ابن سعد و علامہ ابن الجوزی وغیرہم کی تصریحات کے مطابق واقعہ اس قدر ہ کہ ابوشحمہ ؓ مصر میں جہاد کی غرض سے تشریف فرما تھے۔ عرب میں نبیذ استعمال کرنے کا عام دستور تھا۔ کھجور یا کشمش شام کو پانی میں بھگو دیتے ۔ صبح تک پانی میٹھا ہوکر شربت بن جاتا۔ صبح کےناشتے یا کھانے کے ساتھ اس شربت کو استعمال کرتے اور اسی طرح صبح کوبھگو دیتے اور شام کو کھانے کے ساتھ یہ شربت پیتے۔ اس شربت کو جس میں نہ کوئی خاص بو پیدا ہوتی اور نہ ذرہ بھر نشہ۔نبیذ کہا جاتا ہے جس کا استعمال باتفاق علماء جائز او رمباح ہے۔ خود آنحضرتﷺ بھی اسے استعمال فرماتے تھے۔ (ابوداؤد صفحہ 166 ج2 بروایت حضرت عائشہؓ) نشہ کا شبہ اور گمان ہوجانے کے بعد جس کی خاص ظاہری علامتیں ہیں نبیذ کا پینا حرام اور ممنوع ہے)
حضرت ابوشحمہؓ جو نہایت متورع او رمتدین شخص تھے۔ سنت نبوی کے مطابق نبیذ استعمال فرماتے۔ ایک دن کاواقعہ ہے کہ اس اطمینان کے بعد کہ نبیذ میں سکر (نشہ) کا اثر نہیں ہے آیا ہے انہوں نے نبیذ استعمال کی کچھ دیر کے بعد انہیں نشہ کا معمولی اثر محسوس ہوا۔ شرعاً انہوں نے کوئی تقصیر نہیں کی تھی اس لیے ملامت یا تعزیر و حد کے مستوجب قطعاً نہ تھے۔ نہ دیانتہً اور قضاً لیکن غلبہ خوف الہٰی اور غایت درع و خشیت الہٰی کی وجہ سے انہوںن اپنے کو قصور وار سمجھا محض اس لیے کہ اس معاملے میں جس غایت درجہ احتیاط او راطمینان کی ضرورت تھی اس سے انہوں نے کام نہ لیا۔بہرکیف وہ حضرت عمرو بن العاص (فاتح مصر)گورنر کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں کہ مجھ پر حد شرعی جاری کیجئے ورنہ دربار خلافت میں رپورٹ کردوں گاکہ عمرو بن العاص حدود الہٰی کے جاری کرنے میں کمزور اور سست ہیں۔ فاروق اعظم کے جلال اور تصلب فی الدین کا نقشہ سامنے آگیا۔ ابوشحمہ پر ان کے اطمینان قلب کے لیے حد جاری کردی لیکن قصر حکومت میں جہاں عام مجمع نہ تھا۔ واقعہ نگاروں نے اس واقعہ کی اطلاع دربار خلافت میں کردی۔ امیرالمؤمنین نے گورنر مصر کو ملامت آمیز خط لکھا کہ میرے بیٹے ابوشحمہ کے ساتھ اجراء حدود الٰہی میں عام مسلمانوں جیسا برتاؤ کیوں نہیں کیا؟ یعنی عبرت کے لیے عام مجمع میں کیوں نہ حد جاری کی گئی؟ پھر جب ابوشحمہ مدینے پہنچے تو خلیفہ وقت نے عام مجمع میں ابوشحمہ کو بے احتیاطی کرنے پر جسمانی سزا دی جیسے باپ بیٹے کو اس کے کسی قصور پر سزا دیا کرتا ہے کچھ دنوں کے بعد ابوشحمہ اتفاق سے بیمار پڑ گئے اور اسی بیماری میں انتقال فرمایا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
یہ ہے اصل واقعہ جس کو داستان گو واعظین نے کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔
علامہ ابن عبدالبر یہ واقعہ اس طرح لکھتے ہیں:
عبدالرحمٰن بن عمر الأوسط ھو أبوشحمة وھو الذي ضربه عمر و بن العاص بمصر في الخمر حمله إلی المدینة فضربه أبوه الوالد ثم مرض ومات بعد شھر ھکذا یرويه معمر عن الزھري عن سالم عن أبيه۔ وأما أھل العراق فیقولون إنه مات تحت سیاط عمرو ذالك غلط وقال الزبیر أقام عليه عمر حد الشرب فمرض و مات۔ (الاستیاب: صفحہ 395 ج2)
علامہ طاہر اس واقعہ کا ذکر اس طرح فرماتے ہیں:
ماروي أن عبدالرحمٰن الأوسط من أولاد عمر ویکنی أبا شحمة غازیا بمصر فشرب نبیذا فجاء ملی ابن العاص وقال أقسم علی الحدود فامتنع فقال أخبر أبي إذا قدمت فضربه الحد في داره فلامه عمر قائلا إلافعلت به ماتفعل بالمسلمین فلما قدم علی ضربه واتفق أن مرض فمات( مجمع بحار الانوار: صفحہ518 ج3)
ٹھیک یہی واقعہ علامہ جلال الدین سیوطی اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ میں لکھتے ہیں|:
''زبیر بن بکار او رابن سعد نے طبقات میں او ران کےعلاوہ دوسرے لوگوں کا بھی قول ہے کہ عبدالرحمٰن الاوسط جن کی کنیت ابوشحمہؓ تھی مصر میں مجاہد اور غازی کی حیثیت سے تھے۔ ایک رات کونبیذ پی لی جس سے کچھ نشہ محسوس کیا، اس وقت عمرو بن العاصؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ مجھ پر حد لگائیے (چونکہ شرعی نقطہ نظر سے حد کے سزاوار نہ تھے اس لیے عمروبن العاصؓ نےاقامت حد سے انکار کیا۔لیکن ابوشحمہ اپنے اوپر حد لگوانے اڑے رہے او رکہا کہ اگر آپ اس سے گریز فرمائیں گے تو میں اپنے باپ حضرت عمرؓ کے پاس آپ کے وہاں پہنچنے پر اس کی شکایت کردوں گا۔ الغرض عمرو بن العاص نے ابوشحمہ کے (اصرار پر) قصر حکومت کے اندر ان پرحد قائم کی جس پر حضرت عمرؓ نے عمروبن العاص کو ملامت آمیز لہجہ میں تحریر فرمایا کہ جس طرح عام مسلمین پرحدیں جاری کی جاتی ہیں اس طرح ابوشحمہ پر بھی حد کیوں نہ قائم کی گئی؟ پھر جب ابو شحمہ واپس (مدینہ) آئے تو خود حضرت عمرؓ نے (تادیبی طور پر) جسمانی سزا دی اس کے بعد اتفاق طور پر عبدالرحمٰن بیمار ہوئے او ریہی علالت ان کی وفات کا باعث بنی۔'' (وہکذا فی فوائد المجموعہ صفحہ 69 وتذکرۃ الموضوعات صفحہ 180 و اسد الغابۃ صفحہ 213 ج3 ۔وآخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین)