نظامِ زکوٰۃ و عُشر اور ٹیکس
...... جائزہ اور تجاویز ........
پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق لائق صد تحسین ہیں۔ جنہوں نے 12 ربیع الاوّل1399ھ کو اسلامی تعزیرات اور نظام زکوٰۃ و عشر اور چند دوسرے اقدامات کےنفاذ کا اعلان کرکے قوم کی ایک دیرینہ آرزو کو پورا کردیا اور جس بات کے لیے اہالیان پاکستان تیس سال سےبے قرار تھے۔ اس مرد مومن نے عملی اقدامات کرکے پوری قوم کی دعائیں حاصل کیں۔
12 ربیع الاوّل سے لے کر دوسرے موضوعات کی طرح زکوٰۃ و عُشر اور ٹیکس بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نےاس کے متعلق تجاویز بھی طلب کی ہیں۔ لہٰذا اس کے متعلق اپنے خیالات قلمبند کرتے ہیں۔
اسلامی نظام معیشت کی بنیادنظام زکوٰۃ اسلامی نظام معیشت کا ایک حصہ ہے اور اس نظام معیشت کی بنیاد اقتصاد پر ہے۔ اقتصاد کے لغوی معنی ہیں کسی کام میں اعتدال او رمیانہ روی اختیار کرنا او رمعاشی لحاظ سے اقتصاد کا معنیٰ یہ ہوتا ہے کہ صرف اس حد تک خرچ کیا جائے جس سے ضرورت پوری ہوسکے۔ اس کی آسان سی مثال یوں سمجھئے کہ اگر ایک آدمی کو نہانے کے لیے ایک بالٹی پانی کافی ہوسکتی ہے تو دو یا تین بالٹی پانی کا استعمال اسراف شرعاً ایک مذموم فعل اور قرآن کی اصطلاح میں ''منکر'' اس بات کو حضور اکرمﷺ نے ان الفاظ میں سمجھایا۔ ارشاد نبویؐ ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَعْدٍ، وَهُوَ يَتَوَضَّأُ، فَقَالَ: «مَا هَذَا السَّرَفُ» فَقَالَ: أَفِي الْوُضُوءِ إِسْرَافٌ، قَالَ: «نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهَرٍ جَارٍ» (احمد بن ماجہ)
''عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ حضرت سعدؓ کے پاس سے گزرے جو وضو کررہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ''اے سعدؓ اتنا زیادہ پانی استعمال کررہے ہو؟'' حضرت سعدؓ نے عرض کیا: کیا وضو کے معاملہ میں بھی اسراف ہے؟ آپؐ نے فرمایا، یقیناً خواہ تم ایک جاری نہر کے کنارے پر بیٹھے ہو۔''
اسی بناء پر ہمیں اسلام نے سادہ طرز زندگی اختیار کرنے کی تلقین کی ہے او رتعیش اور تکلف کی زندگی کو ناپسند فرمایا ہے او راسی بناء پر حضور اکرمﷺ اور خلفائے راشدین نے فرمانروائے ریاست ہونےکے باوجود، سادہ طرز زندگی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں۔جن کی نظیر پیش کرنے سے پوری انسانی تاریخ قاصر ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہم نے مغربی طرز معاشرت کو اپنے اوپر مسلط کر رکھا ہے ، اپنے لباس ،وضع قطع ، طرز رہائش اور تقریبات غرض معاشرے کے ہر شعبہ میں مغرب کی اندھی تقلید کرکے پُرتکلف اور عیش پرستانہ زندگی میں گرفتار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ آج ہمارے ہاں جدید ترین آسائشوں والامکان یاکوٹھی، ڈرائنگ روم میں قیمتی فرنیچر، فریج اور ٹیلیویژن تہذیب کی شرط لازم قرار پاچکی ہیں اور ان چیزوں کے حصول کے لیے جب جائز اور محدود آمدنی ناکافی ثابت ہوتی ہے تو انسان ناجائز ذرائع مثلاً رشوت، چوری، چور بازاری، سمگلنگ وغیرہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے حکام ، وزراء ، سیاسی رہنما او رسماجی کارکن سادہ طرز معاشرت اختیار کرنے کی ملک گیر تحریک چلائیں او راس کی ابتدا اپنے آپ سے کریں۔جب تک ہمارے حکام ، امراء، دینی او رسیاسی رہنما اپنی عام زندگی میں سادگی کو نہیں اپنائیں گے ۔ عوام پُرتکلف زندگی کے اس بارگراں سے نجات نہیں پاسکتے او رنہ ہی حصول زر کے ناجائز ذرائع ختم ہوسکتے ہیں اسی ''ھل من مزید'' کی حرص کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ لوگ جائز حقوق کی ادائیگی میں ہیرا پھیری کرنےکے عادی بن چکے ہیں او راسی وجہ سے ٹیکسوں میں چوری ایک وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ لہٰذا نظام زکوٰۃ کو موثر اور بار آور بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس پہلو پر پوری توجہ دی جائے۔
جب سے نظام زکوٰۃ و عشر کا سرکاری سطح پر چرچا ہوا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنی رقوم بنکوں سے نکلوانا شروع کردی ہیں۔ انہیں یہ ''خطرہ'' ہے کہ اب سود تو شاید ملے گا نہیں الٹا زکوٰۃ پڑ جائے گی۔ لہٰذا یار لوگوں نے رقمیں نکلوا کردھڑا دھڑ زمینیں ، پلاٹ او رمکان خریدنا شروع کردیئے ہیں کہ وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔اس طرح ایک سال کے عرصہ میں زمینوں کی قیمت دُگنی ہوگئی ہے۔ غریبوں کے لیے زمین خریدنا پھر اس پر عمارت بنانا اب ان کے بس کا روگ نہیں رہا اور رہائش کامسئلہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر صورت اختیار کررہا ہے اور اس کی تہہ میں وہی زر پرستی کی ہوش اور زکوٰۃ سے فرار کا جذبہ کارفرما ہے۔
مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کے دور میں ایک ایساوقت بھی آیا جب زکوٰۃ دینے والے کسی مستحق زکوٰۃ کی تلاوش میں پھرتے تھے تو انہیں زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا تو اس کی وجہ محض یہ نہ تھی کہ مسلمانوں کے پاس وافر دولت آگئی تھی یا زکوٰۃ کانظام نافذ تھا بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ ہےکہ ابھی مسلمان پُرتکلف اور عیش پرستانہ زندگی سے ناآشنا تھے۔
لیکن آج اس تعیش نے ہماری قوم کا مزاج اس حد تک بگاڑ کر رکھا دیا ہے کہ اگر حکومت نے معاشی اصلاح کی خاطر شادی بیاہ کی تقریبات اور جہیز پرپابندیاں عائد کیں تو یار لوگوں نے کئی دوسری راہیں تلاش کرلیں۔ حکومت کو دھوکا دیا، ناجائز ذرائع کا استعمال کیا۔ لیکن طرززندگی میں سرموفرق کو برداشت کرنا گورا نہیں کیا۔ لہٰذا معاشی فلاح اور غربت کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ نظام زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ اس بنیادی تبدیلی پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔
اسلامی نظام معیشت کی دوسری بنیادباہمی اخوت، ایثار او رہمدردی ہے لیکن آج ہم نے ان اقدار کو بھی پامال کررکھا ہے۔ ایک طویل دور کے سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے ہمارے اندر خود غرضی، سنگدلی، بخل اور مفاد پرستی جیسی انسانیت سوز صفات پیدا کردی ہیں۔ کچھ ہمیں مغرب کی مادہ پرست ذہنیت ورثہ میں ملی ہے۔ دوسروں کا حق دبانے اور ظلم و استحصال کے رجحان نے ہمارے ذہنوں کو مفلوج کررکھا ہے۔ دوسرے کی تکلیف اور تنگدستی پر ہمارا کبھی دل بھر نہیں آتا جبکہ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں ایثار و مروّت، سخاوت و استغناء اور انفاق فی سبیل اللہ کے فقید المثال واقعات ہمیں بکثرت ملتے ہیں۔ قلب و روح او رذہن و دماغ کے اس انقلاب لانے کے لیے ایک مضبوط روحانی عقیدت کی ضرورت ہے۔ جو خوف خدا اور فکر آخرت سے پیدا ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نظام صلوٰۃ کو نظام زکوٰۃ سے مقدم رکھا ہے۔ بالفاظ دیگر نظام زکوٰۃ کی کامیابی کا دارو مدار نظام صلوٰۃ پر موقوف ہے۔لہٰذا جس قدر ہمارا نظام صلوٰۃ مضبوط و مستحکم ہوگا اسی نسبت سے نظام زکوٰۃ صحیح معنوں میں بارآور ثابت ہوگا۔ سرکاری طور پر دفاتر میں اقامت صلوٰۃ کا اعلان تو ہوچکا ہے تاہم نظام زکوٰۃ کو مؤثر بنانے کے لیے اقامت صلوٰۃ پر توجہ کی مزید ضرورت باقی ہے۔
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ زکوٰۃ ایک دینی فریضہ او رمالی عبادت ہے۔ لہٰذا مسلمان اس کی ادائیگی پوری ایمانداری اور خوش دلی سے کیا کریں گے ہمیں اس سے انکار نہیں او ربلا شبہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔لیکن اس بات کا کیا علاج کہ ہمارے مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ذہنی طور پر سرے سے اس نظام کے ہی مخالف ہیں او رصرف عوام کی بات نہیں بلکہ حکومت میں بھی ایسا طبقہ موجود ہے۔علاوہ ازیں ہمارےمعاشرے میں وہ امراض بھی موجود ہیں جنکی مندرجہ بالا سطور میں نشاندہی کی گئی ہے۔ لہٰذا ہمارے خیال میں حسن ظن کے بجائے احتیاطی تدابیر کو سمجھنا ضروری ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم زکوٰۃ و عُشر آرڈیننس کا جائزہ لیتے ہیں۔ سرسری جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ :
1۔ زیادہ توجہ نظام زکوٰۃ کے انظامی ڈھانچہ کی طرف مبذول کی گئی ہے لیکن مکمل زکوٰۃ کی وصولی کی طرف توجہ کم دی گئی ہے۔ صرف نقدی ، بنک میں جمع شدہ میعادی رقوم اور اجناس کی زکوٰۃ تک اسے محدود رکھا گیا ہے۔
2۔ زکوٰۃ کی وصولی میں نہایت نرم پالیسی اختیار کی گئی ہے۔
3۔ زکوٰۃ کی وصولی کی بیشتر ذمہ داری تو مقامی کمیٹیوں پرہوگی۔ لیکن اس کی تشکیل اور ذمہ داریوں کا محض ایک دھندلاسا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔
4۔ حکومت جو تھوڑی بہت زکوٰۃ وصول کرے گی۔ اسے معذور افراد پر خرچ کیا جائے گا۔رہے حکومت کےٹیکس تو وہ علیٰ حالہ قائم رہیں گے۔ الاّ یہ کہ عُشر کے مقابلہ میں مالیہ ساقط ہوجائے گا او رنقدی اورمیعادی رقوم کی زکوٰۃ ، انکم ٹیکس یا دولت ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دی جائے گی۔
ہم انہیں تنقیحات کی روشنی میں تفصیلات اور تجاویز پیش کریں گے:
زکوٰۃ کےمحاصل یا محل ِنصاب اشیاءزکوٰۃ مندرجہ اشیاء پر عائد ہوتی ہے : (یہ واضح رہے کہ مفروضہ زکوٰۃ کے لیے قرآن کریم میں زکوٰۃ،صدقہ اور انفاق فی سبیل اللہ تینوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں او رالفاظ کے معنی کی تخصیص احادیث سے ہوتی ہے۔
1۔ بچتیں : ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (9؍34)
''اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور ان کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ انہیں دردناک عذاب کی خبر سنادیجئے۔''
عہد نبویؐ میں بچث کی صورت میں صرف سونا چاندی ہی تھے۔ درہم و دینار (نقدی)بھی سونا چاندی کے ہوتے تھے۔ لیکن آج کل بچتوں کی مندرجہ ذیل صورتیں پائی جاتی ہیں۔
(1)۔ نقد رقوم یعنی کاغذی زر (2) سونا چاندی یا اس کے زیورات(3) بنکوں میں جمع شدہ رقوم میعادی اور عندالطلب یا ڈاک خانہ کے سیونگ ڈیپازٹ (4) مشترکہ سرمائے کی کمپنیوں کے حصص (5) نیشنل انویسمنٹ ٹرسٹ یونٹس (6) بیمہ کمپنیوں کو ادا شدہ رقوم (7) مختلف قسم کے سرکاری تمسکات۔
بچتوں پر زکوٰۃ کی شرح ڈھائی فیصد یاربع عشر ہے او ربچث سے مراد وہ بچت ہے جس پرایک سال کاعرصہ گزر چکا ہو ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کااصول یہ ہےکہ جو اموال صاحب مال کے سوا دوسروں کے علم میں نہ آسکے (یعنی اموال باطنہ) ان کی تشخیص صاحب مال خود کرتا ہے اور اس کا حساب براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے۔ اس میں حکومت وقت گرفت نہیں کرسکتی او رجو اموال دوسرے کے علم میں آسکیں وہ اموال ظاہر ہ ہیں۔ یہاں خود تشخیص طریق کار استعمال نہیں ہوگا ۔ ہرطرح کے اموال کی زکوٰۃ اسلامی ریاست وصول کرے گی۔ ساڑھے باون تولہ سے کم چاندی اور ساڑھے سات تولہ سے کم سونا اور تقریباً ایک ہزار سے کم نقدی پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
2۔ زرعی پیداوار: ارشاد باری ہے:
كُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ (6؍142)
''جب یہ چیزیں پھلیں تو ان کے پھل کھاؤ اور جس دن پھل توڑو اور کھیتی کا ٹو تو خدا کا حق اس میں سے ادا کرو۔''
اس خدا کا حق کی تفصیل سنت سے یہ ملتی ہے کہ:
1۔ زرعی پیداوار سے مراد صرف اجناس نہیں بلکہ پھل بھی ہیں۔ خصوصاً ایسے پھلوں پر زکوٰۃ واجب ہے جوسٹور کئے جاسکتے ہیں۔مثلاً بادام، کھجور، منقیٰ وغیرہ او روہ پھل جو جلد خراب ہوجاتے ہیں مثلاً سنگترہ، کیلا ، امرود وغیرہ ان پر زرعی زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
2۔ ہروہ پیداوار جس کی آب پاشی مصنوعی ذراوع سے کرنی پڑے اس پر زکوٰۃ پانچ فیصد یانصف عشر ہے۔
3۔ ہروہ پیداوار جو قدرتی ذرائع سے سیراب ہوسکے خواہ بارش سے ہو یا ندی نالوں سے یا اس کی جڑیں زمین سے پانی کھینچ کر سیراب ہوتی رہیں ان پر زکوٰۃ دس فیصد یا عشر ہے۔
4۔ یہ زکوٰۃ سال بھر میں اتنی بار لی جائے گی جتنیبار فصل تیار ہوگی۔
5۔ پانچ اوسق یا تقریباً 25 من سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ ایکمن بھی بڑھ جائے تو پوری مقدار پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔
3۔ اموال تجارت اور صنعت : ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ (2؍266)
''اےلوگو ایماندارو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو۔''
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ» (ابوداؤد)
''سمرۃ بن جندب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم اموال تجارت سے زکوٰۃ ادا کریں۔''
اموال تجارت کی زکوٰۃ کی تفصیل یوں ہے:
1۔ اس زکوٰۃ کی شرح ، نصاب، شرط زکوٰۃ، بچت کی زکوٰۃ کے مطابق ہے یعنی ایک سال بعد ڈھائی فیصد سے ادائیگی کی جائے گی اور ایک ہزار روپے سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
2۔ اموال تجارت میں دکان کا باردانہ، فرنیچر اور سٹیشنری وغیرہ شامل نہیں ہے۔ صرف وہ سامان محسوب ہوگا جو فروخت کے لیے ہو۔
3۔ زکوٰۃ موجودہ مالیت پر عائد ہوگی۔ مثلاً زیدنے پہلے سال 10ہزار سے کاروبار شروع کیا جواس وقت 14 ہزار کی مالیت کا ہے، تو زکوٰۃ14 ہزار پر ہوگی نہ کہ 10 ہزار پر۔ اسی طرح اگر اسے نقصان ہوگیا اور موجودہ مالیت 7 ہزار ہے تو زکوٰۃ 7 ہزار پر ہوگی نہ کہ 10 ہزار پر اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سرمایہ کے فائدہ پرسال گزرنے کی شرط نہیں ہے۔
4۔ صنعتی پیداوار: عہد نبویؐ میں عرب میں کوئی صنعتی پیداوار نہیں تھی۔ فقہائے کرام نے مندرجہ بالا آیت اور ارشاد نبوی سے صنعتی پیداوار پر زکوٰۃ کا بھی استنباط کیا ہے۔ صنعتی پیداوار کی زکوٰۃ کی تفصیل یہ ہے۔
1۔ فیکٹری یا کارخانہ کی عمارت اور مشینری اموال تجارت سے مستثنیٰ ہے اگرچہ نقدی کا کافی حصہ انہی مدات پرصرف ہوچکا ہو۔
2۔ صنعتی پیداوار کی زکوٰۃ میں اختلاف ہے۔ آیا وہ تجارتی زکوٰۃ ڈھائی فیصد کے حساب سے ہو یا پانچ فیصد کے حساب زرعی زکوٰۃ کے مطابق ہو۔ جو علماء اسے زرعی زکوٰۃ کےمطابق قرار دیتے ہیں۔ ان کے دلائل یہ ہیں کہ فیکٹری کی عمارت او رمشینری بھی بمنزلہ کھیت ہے جس میں سرمایہ کا کثیر حصہ صرف ہوجاتا ہے نیز جس طرح زمین سال میں کئی بار فصل پیدا کرتی ہے اسی طرح فیکٹری بھی پیداوار مہیا کرتی ہے۔ اگر فیکٹری پربھی سال بعد موجودہ مالیت پر زکوٰۃ عائد کی جائے تو فیکٹری میں تو اپنے صرف شدہ سرمایہ کابیسواں حصہ بھی موجود نہ ہوگا ان وجوہات کی بناء پر صنعتی پیداوار کی زکوٰۃ کل مجموعی پیداوار پر ہونا چاہیے او رپانچ فیصد کے حساب سے ہونا چاہیے۔ البتہ اس کی ادائیگی سال بھر بعد کی جاسکتی ہے او ریہی فکر راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
5۔ مویشی : عہد نبویؐ میں مویشیوں میں سے اونٹ، گائے، بھینس او ربھیڑ بکری پربھی ایک سال بعد زکوٰۃ لی جاتی رہی۔ سب مویشیوں کا نصاب الگ الگ ہے تاہم شرح نصاب قریباً قریباً ڈھائی فیصد ہی بنتی ہے۔ ہمارے یہاں اونٹ کی بودوباش کے لیے ماحول سازگار نہیں ۔ صرف بار برداری کے لیے تھوڑی سی تعداد میں پالا جاتا ہے البتہ بھیڑ بکری او رگائے بھینس بکثرت پالے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں اونٹ کی بجائے ہمارے یہاں مرغبانی او رمچھلی فارم نے نسل کشی یا تجارتی نظریہ سے وہی جگہ لے رکھی ہے جو عرب میں اونٹ کی ہے۔لہٰذا ہمارے خیال کےمطابق ان پر زکوٰۃ عائد ہونی چاہیے او راس کا فیصلہ کرنا اسلامی نظریاتی کونسل کا کام ہے۔
6۔ دفینے اور معدنیات : اموال تجارت کے ضمن میں درج شدہ آیت کا اگلا حصہ یہ ہے:
وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ (2؍266)
''اور ان چیزوں سےبھی خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہیں۔''
زمین سےنکلی ہوئی چیزیں سرعی پیداوار بھی ہوسکتی ہے او ردفینے اور معدنیات بھی معدنیات وغیرہ کی تخصیص درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے۔
عن أبي هريرة أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال وفي الرکاز الخمس (متفق علیہ)
''ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رکاز میں پانچواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ '' (بخاری ومسلم)
رکاز سے مراد زمین میں گڑی ہوئی دھاتیں ، معدنیات وعیرہ او رمدفون خزانے ہیں۔ اگر یہ کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں ہوں۔جیسے کسی کی زمین میں سے کوئی خزانہ نکل آیا ہے تو اس پر زکوٰۃ 20 فیصد یا خمس ہوگی اور اگریہ مدفون خزانے معدنیات لوہا، کوئلہ، پتھر، نمک، تیل، گیس وغیرہ کی شکل میں او رحکومت کی تحویل میں ہوں تو کھدائی، صفائی کے اخراجات کے بعد اس کی کل آمدنی قومی ملکیت ہوگی اور یہ بیت المال کی آمدنی ہوگی۔
نوٹ: جو لوگ اپنے زائد سرمایہ سے زمینوں کے پلاٹ اور مکان خریدتے اور فروخت کرتے رہتے ہیں یا مکان تعمیر کرکے بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان پرتجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی ۔ البتہ جو لوگ دکانیں یا مکان تعمیر کرکے انہیں کرایہ پر چڑھا دیتے ہیں تو زکوٰۃ وصول شدہ کرائے کی کل رقم پر ہوگی۔ ذاتی ضرورت کے لیے پلاٹ یا دکان یامکان خریدنے پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔
زکوٰۃ وصول کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے
اسلامی نقطہ نظر سے انفرادی طور پر زکوٰۃ کی ادائیگی کو پسند نہیں کیا گیا ۔ جس طرح نظام صلوٰۃ ایک اجتماعی نظام ہے اسی طرح زکوٰۃ بھی ایک اجتماعی نظام ہے او رایک اسلامی ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرکے اس کے مقررہ مصارف پر خرچ کرے۔ زکوٰۃ کے احکام کا طرز تخاطب یوں ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً (9؍103) ''اے پیغمبر! ان مسلمانوں کے اموال سے زکوٰۃ وصول کیجئے''
اور حضور اکرمﷺ نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو انہیں زکوٰۃ کی وصولی سے متعلقہ احکام بھی لکھوا کر دیئے اور اس کے فلسفہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم (متفق علیہ)
''زکوٰۃ وہاں کے مالداروں سے وصول کی جائے اور وہاں کے فقراء کو لوٹائی جائے گی۔''
چنانچہ حضور اکرمﷺ نے زکوٰۃ کی وصولی کامکمل انتظام کررکھا تھا۔ آپ کے وصال کے بعد کچھ لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی سے منحرف ہوگئے تو حضرت ابوبکر ؓ نےفرمایا:
فإن الزكاة حق المال ، والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لقاتلتهم على منعها (متفق علیہ )
''بےشک زکوٰۃ (اموال میں) مال کا حق ہے ۔ بخدا اگر وہ اونٹ باندھنے کی رسی تک بھی ادا نہ کریں جو وہ رسول اللہ ﷺ کےوقت ادا کرتے تھے تو میں ان سے اس بات جہاد کروں گا۔''
ان ارشادات سے بخوبی واضح ہے کہ حکومت لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرے اور عوام اپنی زکوٰۃ حکومت کو ادا کریں۔ قرآن کریم کے الفاظ ''ي
ؤتون الزكوة'' سے بھی یہی مراد ہے۔
زکوٰۃ کی انفرادی ادائیگی کا جواز اس صورت میں ہے۔ جب نظام زکوٰۃ موجود نہ ہو کیونکہ یہ ایک شرعی عذر ہے جس طرح بعض مجبوریوں یا شرعی عذر کے تحت نماز گھر میں پڑھنا جائز ہے۔ لیکن تاکید یہی ہے کہ فریضہ نماز باجماعت ادا کیا جائے او رجس طرح نفل اور سنت نماز گھر میں پڑھنا بہتر ہے اسی طرح نفلی صدقات کو انفرادی طور پر ادا کرنا بہتر ہے۔ حضور اکرم کےاس ارشاد:
إن في المال حقا سوی الزکوٰة (ترمذی) ''یقیناً مال میں زکوٰۃ کےعلاوہ بھی حق ہے۔''
میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
ان تصریحات کے بعد اب زکوٰۃ و عشر آرڈیننس کے الفاظ پر غور فرمائیے:
''مزارعین کو عُشر رضا کارانہ طور پر جمع کرانا ہوگا یا وہ خود تقسیم کریں گے۔''
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مزارعین کو اپنا مال زکوٰۃ خود تشخیص کرنے کی رعایت کس بناء پر دی گئی ہے۔ جبکہ فصل اموال ظاہر سے ہے او راموال ظاہر کی تشخیص زکوٰۃ دہندہ اور حکومت کے نمائندہ یا عامل کے باہمی مشورہ سے ہوتی ہے۔
انسان فطرتاً حریص واقع ہوا ہے۔لہٰذا یہ احتمال موجود ہے کہ وہ ایسے حیلے بہانے تلاش کرے جس سے اس کی زکوٰۃ میں تخفیف ہوسکے۔ اس لیے حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا تھا:
أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَلاَ يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلاَ يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ» (بخاری)
''حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انکو یہ تحریر لکھ کر دی تھی کہ زکوٰۃ وہ فریضہ ہے جسکو رسول اللہﷺ نے مسلمانوں پر فرض کیا او راللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو اسکا حکم دیا۔ زکوٰۃ کے خوف سے متفرق جانوروں کو جمع نہ کیا جائے او رنہ ہی مجتمع جانوروں کو متفرق کیا جائے''
یہ دونوں صورتیں زکوٰۃ میں تخفیف یا اس کے بچنے کی حیلہ سازیاں ہیں۔ عرب میں یہ دستور تھا کہ ریورڑ کے مالک ان کی نگہداشت اور رہائش کا انتظام تو مشترکہ طور پر کرلیتے تھے جبکہ مال سب کا الگ الگ ہوتا ایسے شرکاء کو خلیط کہتے تھے۔ اب ان حیلہ سازیوں کی مثال یوں سمجھئے کہ زید او ربکر دونوں کے پاس پچاس پچاس بکریاں ہیں اور بکریوں کی شرح زکوٰۃ یہ ہے کہ چالیس بکریوں تک کوئی زکوٰۃ نہیں۔ 40 سے 120 تک زکوٰۃ ایک بکری ہے اور خلطاء کے مشترکہ مال پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔ زید او ربکر خلیط نہیں مگر زکوٰۃ کے وقت اپنا مال لاکر خلیط ظاہر کرتے ہیں تو ان کے مال پر صرف ایک بکری زکوٰۃ عائد ہوگی جبکہ اصولاً دونوں کو ایک ایک بکری زکوٰۃ ادا کرنا چاہیے تھی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ مثلاً زید ک ےپاس 30 بکریاں اور بکر کے پاس 20 اور وہ آپس میں خلیط ہیں اور ان پر ایک بکڑی زکوٰۃ عائد ہوتی ہے لیکن بروقت وہ علیٰحدہ ہوجاتے ہیں اور اپنا مال الگ کرلیتے ہیں تو اس طرح وہ دونوں زکوٰۃ سے بچ جائیں گے۔
لہٰذا اموال ظاہرہ میں ایسی حیلہ سازیوں کی روک تھام کے لیے شریعت خود تشخیص طریق کار کو جائز قرار نہیں دیتی۔
ایسی حیلہ سازیوں کا احتمال اموال باطنہ میں بھی موجود ہے لیکن وہاں مجبوری ہے اور زکوٰۃ دہندہ کا معاملہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے۔ حکومت ایسی تشخیص میں دخل نہیں دے گی۔
اس طرح اموال باطنہ کے متن میں یہ صراحت ہے کہ ''مال کی تشخیص کے بعد زکوٰۃ دہندہ کو زکوٰۃ کی رقم رضا کارانہ طور پر زکوٰۃ فنڈ میں جمع کرانا ہوگی یا اپنے طور پر تقسیم کرنے کا اختیار ہوگا۔''
ہمارے خیال میں تشخیص کا حق تو زکوٰۃ دہندہ کو دیا گیاہے لیکن اس کی ادائیگی کی بہتر صورت یہی ہے کہ وہ زکوٰۃ فنڈ میں ہی جمع کرائے اور حکومت ایسی زکوٰۃ بھی اسی طرح وصول کرے جیسے مالکان زمین سے عُشر وصول کرے گی۔
مقامی کمیٹی کی تشکیل اور ذمہ داریاںیہ تو ظاہر ہے کہ نظام زکوٰۃ مؤثر او ربار آور بنانے کی زیادہ تر ذمہ داری مقامی کمیٹیوں کی ہوگی لہٰذا اس کے ارکان کے انتخاب میں احتیاط اس کے طریق کار اور ذمہ داریوں کی وضاحت ضروری ہے ہمارے خیال میں درج ذیل امور کابالخصوص لحاظ رکھا جانا چاہیے۔
1۔ اس کمیٹی کا مرکز یا دفتر محلہ یا گاؤں کی مسجد ہو۔ کیونکہ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم وغیرہ کے سلسلے میں جس دیانت کی ضرورت ہے۔اس کا منبع یہی مسجد ہے۔مسجد ہی مسلمانوں کا وہ مرکزی مقام ہے جہاں عہد نبوی اور دور صحابہ میں اسلامی زندگی سے متعلق جملہ امور طے پاتے تھے۔ اس سے نظام صلوٰۃ کو بھی تقویت پہنچے گی اور مسجد کو بھی اس کا صحیح مقام حاصل ہوگا جس سے غفلت کی وجہ سےآج ہم گونا گوں پریشانیوں سے دوچار ہیں۔
2۔ مقامی کمیٹی کے اجتماعات ہر جمعہ کو بعد از نماز جمعہ ہوا کریں تاکہ کمیٹی کی کارروائی بسہولت سرانجام پائے او راس کے لیے علیٰحدہ دفتر یا عمارت کی ضرورت پیش نہ آئے کیونکہ ایسی اطلاعات کسی بھی وقت نمازیوں کے ذریعہ بہم پہنچائی جاسکیں گی۔
اسی طرح تحصیل کمیٹیوں کا اجتماع تحصیل کے صدر مقام اور ضلعی کمیٹی کا ضلع کے صدر مقام کی کسی مرکزی مسجد میں ہوا کرے۔
3۔ ارکان کے انتخاب کے متعلق ہماری رائے یہ ہے کہ اس کا ناظم امام مسجد ہونا چاہیے۔ ریکارڈ وغیرہ اسی کے پاس ہو۔ دوسرا رکن پٹواری مال اور تیسرا پٹواری نہر ہونا چاہیے تاکہ عُشر کے مال کی صحیح طور پر تشخیص ہوسکے اور بعض دوسرے امور میں بھی یہ ارکان مفید ثابت ہوں گے۔باقی تین ارکان کا انتخاب بھی مسجد کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردینا چاہیے۔ان ارکان کےانتخاب میں مندرجہ ذیل باتیں ملحوظ رکھی جائیں۔
(الف) وہ کسی مسجد رابطہ رکھتے ہوں ۔
(ب) دیانتدار ہوں ۔
(ج) حلقہ کے باثر افراد سے ہوں اور اتنی اخلاقی جرأت رکھتے ہوں کہ بددیانتی کامقابلہ کرسکیں۔
لہٰذا آرڈیننس کے الفاظ ''مقامی کھاتہ کا انتظام چلانے کے لیے چار سے چھ ارکان کی کمیٹی قائم کی جائے گی۔ جن کا انتخاب مقامی آبادی میں رہنے والے باشندے کریں گے۔'' میں مناسب شرائط کا اضافہ کیا جانا چاہیے۔
4۔ مقامی کمیٹی کا حصہ: ہمارے خیال میں اس کمیٹی کا حلقہ اثر وہی ہونا چاہیے جو ایک نکاح رجسٹرار کا ہے تاکہ از سر نو حلقہ بندی کی ضرورت پیش نہ آئے۔
مقامی کمیٹی کی ذمہ داریاںمقامی کمیٹی کی پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ وصول کرے۔ اس سلسلہ میں شریعت نے مندرجہ ذیل ہدایات دی ہیں:
1۔ عاملین کو خود مال زکوٰۃ کے موقع پر جانا چاہیے: کیونکہ زکوٰۃ کی تشخیص اس مقام پر ہوگی جس جگہ مال زکوٰۃ موجود ہو۔ ارشاد نبوی ہے:
عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یؤخذ صدقات المسلمین علی میاھهم (احمد)
''حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مسلمانوں سے زکوٰۃ ان کے آبپاشی کے مقامات پر وصول کی جائے۔''
یہ حدیث زرعی پیداوار سے متعلق ہے۔ مویشیوں سے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ ہو۔
عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لا جلب ولا جنب ولا تؤخذ صدقا تھم إلا علی دورھم (ابوداؤد)
''حضور اکرمﷺ نے فرمایاکہ نہ تو ....؟؟؟؟ ایک جگہ بیٹھ کر ان کا مال اپنے پاس منگوائے اور نہ مسلمان اپنا مال اصل مقام سے دور لے جائیں۔ بلکہ جہاں پر مال ہو اسی جگہ زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔''
موقعہ پر مال کی تشخیص کا فائدہ یہ ہے کہ فریقین میں سے کسی کو شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی اس اصول کے مطابق مفصل تشخیص کھیتوں میں،پھلوں کے باغ میں، مویشیوں کی چراگاہوں میں، دکانوں کی دکانوں پر اور فیکٹریوں کی فیکٹریوں میں کی جانی چاہیے۔
2۔ زکوٰۃ دہندہ کی سہولت: ادائیگی زکوٰۃ میں زکوٰۃ دہندہ کی سہولت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے اگر وہ کسی چیز کی زکوٰۃ اسی چیز میں سے ادا کرنے میں سہولت سمجھتا ہے ۔مثلاً گندم کی گندم سے، کپڑے کی کپڑے سے یا بکریوں کی بکریوں سے تو عامل کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے اور اگر وہ زکوٰۃ نقدی میں ادا کرنا چاہیں اور اس میں اسے سہولت ہو تو یہ بھی زکوٰۃ دہندہ کی مرضی پر منحصر ہے، عامل زکوٰۃ دہندہ کو اپنی سہولت کی خاطر زکوٰۃ نقدی کی صورت میں ادا کرنے کی نہ ترغیب دے سکتا ہےنہ مجبور کرسکتا ہے۔
3۔ زکوٰۃ کی تشخیص میں میانہ روی: عاملین زکوٰۃ کو (مویشیوں کی زکوٰۃ) کے متعلق یہ ہدایت تھی کہ وہ اعلیٰ مال مت لیں بلکہ اعلیٰ، اوسط اور ادنیٰ درجے کرکے ان میں وسط سے زکوٰۃ وصول کریں۔ اسی طرح اگر مال کی قیمت لگانے کی ضرورت پیش آئے تو معقول نرخ کا استعمال کیا جائے گا۔
4
۔ مراعات: عوامل پیداوار زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔ زرعی اجناس کے سلسلہ میں ہل، بیل، ٹریکٹر وغیرہ، دکانوں کی صورت میں عمارت، فرنیچر، سٹیشنری اور کارخانہ کی صورت میں عمارت کے علاوہ مشینری یہ سب عوامل ہیں۔ پھلوں کی زکوٰۃ کی تشخیص میں کل پیداوار کا 1؍4 سے 1؍3 تک وضع کرکے زکوٰۃ عائد ہوگی۔
مقامی کمیٹی کی دوسری ذمہ داری یہ ہونی چاہئے کہ وہ اپنے علاقہ کے معذور افراد، یتیم، بیوہ او راسی قسم کے دوسرے مستحقین کی فہرستیں تیار کرکے بالائی کمیٹیوں کو مہیا کرے۔نیز یہ پتہ لگائے کہ ان معذور افراد ایسے رشتہ دار جن کے ذمہ ان کی کفالت کی ذمہ داری ہے کیوں عدم توجہی برت رہے ہیں؟
علاوہ ازیں اتفاق حوادث کا شکار ہونے والے افراد، جو امداد یا قرضہ کے حاجت مند ہوں ان کی درخواستوں کی تحقیق و تصدیق کرے جس کے لیے مجوزہ فارم حکومت کو مہیا کرنے چاہیئیں۔
مقامی کمیٹی کی تیسری ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے علاقہ کی معاشی فلاح و بہبود کا خیال رکھے۔ ہمارا ملک چونکہ زرعی ملک ہے اور زکوٰۃ کا ایک معقول حصہ زرعی پیداوار سے حاصل ہوتا ہے لہٰذا اس کمیٹی کے ذریعہ ایسے اقدامات کئے جاسکتے ہیں جن سے مزارع او رمالک کا تعلق خوشگوار ہو۔ فصل زیادہ پیدا ہو۔ اور علیٰ ہذا القیاس زکوٰۃ میں بھی اضافہ ہو۔ ان اغراض کےلیے ہماری رائے میں مندرجہ ذیل اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔
1۔ یہ کمیٹی مقام اور حالت کا لحاظ رکھتے ہوئے کم بٹائی کی کم ا زکم شرع مقرر کردے جو کسانوں کی محنت کا مناسب صلہ بھی ہو اور ان کی ضروریات زندگی کی معقول کفالت بھی کرسکے۔نیز ایسی تمام شرائط خواہ وہ رواجاً قائم ہوں یا زبانی طے شدہ ہوں جن کی بناء پر زمیندار کسانوں کی بیچارگی سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے یا بے گار لیتا ہے ۔ حکومت کےنوٹس میں لانا چاہیے تاکہ وہ قانوناً ممنوع قرار دی جاسکیں۔اس کسان معاشرہ کے ایک باعزت فرد کے طور پر خوشدلی سے کام کرسکے گا او رملکی پیداوار میں اضافہ کا سبب ہوگا۔
2۔ ہمارے ہاں انگریز بہادر کے وقت سے ابھی تک جاگیرداری کا دستور چلا آتا ہے جو انہیں سیاسی وفاداریوں کے عوض عطا کی گئیں تھیں انہیں آباد تو کاشت کاروں نے کیا لیکن خان بہادر حسب خواہش ان سے بٹائی بھی لیتے رہے او رمالک بھی بن بیٹھے اور آج تک مالک چلے آرہے ہیں۔اگر اسلامی قانون وراثت صحیح طریقے سے جاری ہوتا تو بھی یہ کئی حصہ میں بٹ کر جاگیریں نہ رہ جاتیں۔ آج ایسی جاگیروں کے متعلق دو طریقے اختیار کئے جانے چاہیئں۔
(الف) انہیں اس وقت سے لے کر ورثاء میں شرعی قانون وراثت کے مطابق منتقل کردیا جائے او ریہ اگر ممکن نہ ہو تو:
(ب) ان کاشتکاروں کو دے دی جائیں جنہوں نے یہ آباد کیں ۔ کیونکہ شرعی قانون ملکیت یہ ہے کہ جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ملکیت ہوتی ہے اور جس شخص کو بنجر زمین آباد کاری کے لی دی جائے او روہ تین سال تک اسے آباد نہ کرسکے حکومت اس سے وہ زمین بلا معاوضہ لے کر دوسرے آباد کار کو دے سکتی ہے۔
3۔ اسی طرح مرہونہ زمینوں کے جتنے سودی طریقے رائج ہیں ان کا جائزہ لیا جائے اور جو اس وقت تک ناجائز طریقوں سے زیر بار ہیں او رجوکچھ فائدہ راہن اب تک حاصل کرچکا ہے وہ اسلامی طریقہ کےمطابق قرضہ سے وضع کرکے بقایا قرضہ زکوٰۃ فنڈ سے ادا کرکے زمینیں آزاد کروا کر اصل مالکان کو دی جاویں او رقرضہ کی شرائط طے کی جائیں او رجن زمینوں سے راہن قرض سے زیادہ حاصل کرچکا ہے انہیں فوری طور پر اصل کاشت کاروں کی ملکیت میں دینا چاہیے۔
4۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اس کابہت سا قابل کاشت رقبہ بنجر اور بے کار پڑا ہوا ہے ۔ پاکستان کا کل رقبہ 1908کروڑ ایکڑ ہے جس میں دس ہزار کروڑ ایکڑ سے زائد کا سروے ہوچکا ہے اس سروے شدہ زمین میں سے 705 کروڑ ایکڑ رقبہ قابل کاشت قرار دیا گیا ہے لیکن کاشت صرف 408 کروڑ ایکڑ رقبہ پر ہورہی ہے اور 207 کروڑ ایکڑ قابل کاشت رقبہ ابھی تک بنجر اور بے کار پڑا ہے۔ جو کاشت شدہ رقبہ کے نصف سے بھی زائد ہے۔ دوسری طرف یہ صورت حال ہے کہ پاکستان کی جمعیت محنت کا 20 فیصد حصہ بیکار اور بیروزگار ہے۔لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فوری اقدام یہ ہونا چاہیے کہ ایسی زمینوں کو ضرورت مند کاشتکاروں کو آبادکاری او رملکیت کی شرعی شراوط کے مطابق دیدے۔جس سے پیداوار میں اور اسی تناسب سے زکوٰۃ میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے او راس کام کے لیے مقامی کمیٹیاں ابتدائی معلومات بخوبی مہیا کرسکتی ہیں گویا مقامی کمیٹیاں ایک ادارہ ہوں گی جس کے ذمہ پاکستان کو غریب عوام او رکسان کو فائدہ پہنچانے کی بہت سی ذمہ داریاں ہوں گی۔ لہٰذا ان ارکان کو معقول معاوضہ بھی دیا جانا چاہیے اور یہ معاوضہ قرآن کریم کے بیان کردہ مصارف کے مطابق زکوٰۃ فنڈ سے ادا کیا جائے گا۔
زکوٰۃ اور ٹیکسزکوٰۃ و عُشر آرڈیننس کے اعلان کے بعد خصوصاً اس نہج پر سوچا جارہا ہے کہ آیا نفاذ زکوٰۃ کے بعد دوسرے ٹیکوں کے لیے کوئی شرعی جواز ہے؟ اس سوال کا جواب ہم ذرا تفصیل سے دینا چاہتے ہیں۔
زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ دوسرے ٹیکسوں کے بحال رکھنے کے متعلق تین مکاتب فکر ہیں۔ایک گروہ کا خیال ہے کہ زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی ریاست دوسرے ٹیکس بحال رکھ سکتی ہے ۔ بلکہ دوسرے نئے ٹیکس بھی حسب ضرورت عائد کرسکتی ہے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ عہد نبویؐ اور دور خلفائے راشدین میں حکومت کے اخراجات اور ذمہ داریاں بہت محدود تھیں او ریہ اخراجات زکوٰۃ یا بیت المال کے دوسرے ذرائع آمدنی سے پورے ہوجاتے تھے۔ لیکن آج کے دور میں حکومت بہت سی ذمہ داریاں اپنے سر پر لے لیتی ہے۔ اخراجات بھی بہت بڑھ چکے ہیں جو زکوٰۃ یا دوسرے ذرائع آمدنی سے پورے ہونا ناممکن ہیں لہٰذا حکومت کو اپنے انتظامی اخراجات او رمنصوبوں کی تکمیل یا دوسری ضروریات کے لیے ٹیکس لگانے کی ضرورت بھ ہے اور شرعاً اجازت بھی اس کی دلیل میں یہی حدیث پیش کی جاتی ہے:
إن في المال حقاً سوی الزکوٰة (ترمذی) ''یقیناً مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔''
دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ زکوٰۃ کے ساتھ دوسرے ٹیکس تو نہیں لگاوے جاسکتے البتہ اسلامی ریاست زکوٰۃ کی شرح میں اضافہ کرسکتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے جو شرح زکوٰۃ مقرر کی تھی وہ اس دور کی مالی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی تھی۔ لیکن آج کے دور میں شرح ناکافی ثابت ہوگی۔لہٰذا آج ایک اسلامی ریاست کا سربراہ مجلس شوریٰ سے مشورہ کرکے اس شرح میں اضافہ کرسکتا ہے اس مکتب خیال کے لوگ بہت کم ہیں لیکن ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
تیسرے گروہ کا یہ خیال ہے کہ نہ تو زکوٰۃ کی شرح میں اضافہ کرنے کاکوئی شرعی جواز ہے اور نہ ہی دوسرے ٹیکس بحال رکھنے یا مزید ٹیکس عائد کرنے کا۔ رہا اخراجات سےنپٹنے کا معاملہ تو یہ اخراجات شرعی نظام کے نفاذ کے بعد خود بخود اعتدال پر آجائیں گے اور کوئی وجہ نہیں کہ بیت المال کے مؤثر نظام سے ان بڑھتے ہوئے اخراجات پر قابو نہ پایا جاسکے۔
ان مختلف افکار کا تجزیہ کرنے سے مندرجہ ذیل سوال ذہن میں ابھرتے ہیں۔
1۔ ٹیکس کی حقیقت کیا ہے؟
2۔ ٹیکس او رزکوٰۃ میں فرق کیا ہے؟
3۔ آیا شرح زکوٰۃ میں تبدیلی جائز ہے؟
4۔ زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے ٹیکس عائد کرنے کا شرعی جواز ہے؟
5۔ اگر زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے ٹیکس موقوف کردیئے جائیں تو کیا بیت المال کی آمدنی موجودہ بڑھتے ہوئے تقاضوں کی کفیل ہوسکتی ہے؟
ہم انہی سوالات کا تحقیقی جائزہ لینا چاہتے ہیں:
(1) قرونِ اولیٰ میں زکوٰۃ او رٹیکس کی حقیقتعہدنبویؐ اور خلفائے راشدین کے دور میں مسلمانوں سے توزکوٰۃ وصول کی جاتی تھی اور غیر مسلموں سے خراج اور جزیہ ۔ عرب کا ہمسایہ ملک ایران ایک متمدن حکومت تھی۔ایران میں زمینداروں سے جو مالیہ وصول کیا جاتا''اُسے خراگ'' کہتے ہیں ۔ خراج کا لفظ اسی سے معرّب ہے اور خراگ کے علاوہ دوسرے ٹیکسوں کو ''گزیت'' کہتے ہیں۔ جزیۃ کا لفظ اسی سے معرّب ہے۔ گویا غیر مسلموں پر وہی ٹیکس بحال رکھے گئے جو زمانہ کے دستور کے مطابق تھے مگر مسلمانوں سے یہ عام ٹیکس ساقط کردیئے گئے اور اس کے بجائے زکوٰۃ عائد کی گئی۔
ان ٹیکسوں اور زکوٰۃ میں دوسرا فرق یہ تھا کہ زکوٰۃ کانصاب اور شرح ہمیشہ غیر متبدل رہی جبکہ جزیہ اور خراج کی شرح میں تبدیلی ہوتی رہی ہےمثلاً حضور اکرمﷺ کے زمانہ میں جزیہ کی شرح ایک دینار فی کس سالانہ تھی او ررقم ہر بوڑھے ، بچے، عورت ، معذور سب سے بحساب مشترک وصول کی جاتی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے اس میں اصلاح کی، بوڑھے،بچوں، عورتوں او رمعذوروں سے جزیہ ساقط کردیا ۔باقی غیر مسلم معاشرہ کے مالی لحاظ سے تین طبقے مقرر کیے ، جن سے علی الترتیب 4 دینار، 2 دینار اور ایک دینار سالانہ کے حساب سے وصول کیا جاتا تھا۔ اسی طرح قبیلہ بنی تغلب کے عیسائیوں نے مسلمانوں سے یہ درخواست کی کہ ان سے خراج کی بجائے دوگنا عشر لے لیا جائے تو مسلمانوں نے انکی یہ تجویز منظور کرلی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس دور میں زکوٰۃ کو دین کا رکن سمجھا جاتا تھا اور اسکے احکامات غیر متبدل تھے جبکہ جزیہ اور خراج کی شرح میں تغیر و تبدل کیا جاتا تھا۔
تیسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلمانوں سے زکوٰۃ کے علاوہ جو کچھ بھی وصول کیا جائے۔اُسے مکس کہا جاتا ہے ۔ مکس کے معنی المنجد (عربی۔ اُردو) نے ''محصول ٹیکس اور چونگی لکھے ہیں اور ماکس کے معنی ٹیکس وصول کرنے والا۔منتہی الادب (عربی ۔ فارسی) نے اس کے معنی ''باج و خراج گرفتن'' اور مقابیس اللغۃ (عربی۔عربی) میں اس کےمعنی
''کلمة تدل علی جبي مال'' او رجبایۃ کا لفظ محصول اکٹھا کرنے کے لیے محاورتاً استعمال ہوتا ہے۔
مکس کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ دوری نبویؐ میں جب قبیلہ غامدیۃ کی عورت کو زنا کے جرم میں سنگسار کیا گیا تو حضرت خالد بن ولید نے اسے ایک پتھر مارا جس کی وجہ سے خون کے چند چھینٹے حضرت خالد کے منہ پر بھی آپڑے۔ حضرت خالد نے اس عورت کو گالی دی تو حضور اکرمﷺ نے حضرت خالد کومخاطب کرکے فرمایا:
مھلا یا خالد! فوالذي نفسي بیدہ لقد تابت توبة لو تابھا صاحب مکس لغفرله (مسلم)
''اے خالد یہ کیا بات ہوئی۔ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر کوئی ٹیکس وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرے تو معاف کردیا جائے۔''
گویا مکس کا جرم کسی صورت میں زنا سے کم نہیں ہے۔ دوسرے مقام پر آپ نے ارشاد فرمایا:
لا یدخل صاحب مکس في الجنة ''ٹیکس وصول کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔''
اور مشکوٰۃ میں صاحب مکس کا معنی
''أي من یأخذ العشر و یزید علیه شیئا'' یعنی وہ شخص جو عُشر وصول کرتا ہے اور اس سے کچھ زیادہ بھی لیتا ہے ان الفاظ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ عامل یا زکوٰۃ وصول کنندہ زکوٰۃ وصول کرنے کے بعد جو کچھ بطور رشوت لے وہ مکس ہے۔ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وصول کنندہ حکومت عُشر کی شرح میں اضافہ کردے۔ (مثلاً 10فیصد کی بجائے 15 فیصد یا 5 فیصد چاہی یا نہر کی زکوٰۃ ) کے بجائے 7 فیصد وصول کرے) او ریہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت عُشر کے علاوہ کوئی دوسرا ٹیکس بھی عائد کرے۔ تاہم لغت اس تیسرے مفہوم کی تائید کرتی ہے اور یہ بات بھی قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ مکس لفظ ہی دوسری زبان میں جاکر ٹیکس بن گیا ہے۔
ان تصریحات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مکس زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے ٹیکس کانام ہے جو مسلمانوں پر عائد کیا جائے۔پھر اس اضافہ کا نام ہے جو شرح زکوٰۃ میں کیا جاوے او ریہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔
(2) ٹیکس اور زکوٰۃ میں فرقہم پہلے بتلا چکے ہیں کہ ایک مکتب فکر ایسا بھی ہے جو زکوٰۃ اور ٹیکس میں کچھ فرق نہیں کرتا۔ الاّ یہ کہ ایک اسلامی ریاست میں جو ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔ انہی کا نام زکوٰۃ ہے یا جس چیز کو زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔ اس کا موجودہ نام ٹیکس ہے بات حقیقت کے خلاف ہے۔ ان دونوں کے مقاصد ، محاصل ، مصارف ، نتائج اور مزاج میں کسی ایک چیزمیں بھی مماثلت نہیں ہے۔ ان دونوں کے فرق کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔
مقصد کے لحاظ سے فرق : ٹیکس کا مقصد عوام کی آمدنی کا ایک حصہ لے کر اس سے نظام حکومت چلانا۔ رفاہ عامہ کے کام کرنا او راس سے ملکی ضروریات کو پوار کرنا ہوتا ہے جبکہ زکوٰۃ کا بنیادی مقصد تطہیر مال اورتزکیہ نفس ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا (9؍103)
''اے پیغمبرؐ! آپ ان (مسلمانوں کے ) اموال سے زکوٰۃ وصول کرکے ان اموال کو پاک کیجئے اور ان کا تزکیہ نفس کیجئے۔''
اس آیت میں زکوٰۃ کے دو مقصد بیان کئے گئے ہیں ۔ پہلا یہ کہ کمائی میں جو کوتاہیاں او رلغزشیں نادانستہ طور پر ہوجاتی ہیں۔ صدقہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہ کوتاہیاں معاف کردیتے ہیں او ریہ کمائی پاک او رطیب ہوجاتی ہے۔ حضور اکرمﷺ نے ایک موقع پر تاجروں سے مخاطب ہوکر فرمایا:
''اے تاجروں کے گروہ1 سودا بازی میں بہت سی بیہودہ باتیں اور قسمیں شامل ہوجاتی ہیں سو تم خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ صدقہ بھی کیا کرو''
اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ صدقہ کی ادائیگی کی وجہ سے ، مال کی محبت سے پیدا ہونے والی اخلاقی بیماریوں کے جراثیم سے انسان کا دل پاک و صاف ہوجاتا ہے۔
زکوٰۃ پہلی امتوں پر بھی فرض کی گئی تھی۔ ان لوگوں کے اموال زکوٰۃ و خیرات اور نذر و نیاز ایک جگہ جمع کردیئے جاتے ۔ رات کو آسمان سے آگ آتی جو اس مال کو بھسم کردیتی تھی جو اس بات کی دلیل ہوتی کہ ان کی قربانی قبول ہوگئی۔
زکوٰۃ کے ذریعہ غریب عنصر کی پرورش زکوٰۃ کا ضمنی فائدہ ہے۔ مقاصد وہی دو ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں او ریہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے امت محمدیہ کو غنیمت او رزکوٰۃ کے اموال کو معاشی بہبود کے طور پر استعمال کی اجازت دی ہے۔
محاصل کے لحاظ سے فرق: اسلامی نقطہ نظر سے معاشرہ کو معاشی لحاظ سے صرف دو طبقوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
1۔ ایک وہ جن سے زکوٰۃ وصول کی جائے۔ یہ لوگ اہل نصاب یا غنی ہیں۔
2۔ دوسرے وہ جن میں زکوٰۃ تقسیم ہوگی۔ یہ لوگ فقراء و مساکین ہیہں۔
اصول یہ ہے کہ اہل نصاب یا اغنیاء پر زکوٰۃ کا مال خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے صرف لیا جاتا ہے۔ گویا زکوٰۃ کا مال امراء کی جیب سے نکلتا ہے اور غریبوں پر صرف ہوتا ہے اس کے برعکس ٹیکس کی رقوم کا بیشتر حصہ غریبوں کی جیب سے نکلتا ہے ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ 77۔1976ء کے گوشوارہ کے مطابق ہماری حکومت کی مجموعی آمدنی کا 75 فیصد حصہ صرف ٹیکسوں سے وصول ہوا تھا او رباقی 25 فیصد دوسرے ذرائع آمدنی سے اب یہ ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں۔
الف) بلا واسطہ یا براہ راست ٹیکس۔ جیسے انکم ٹیکس،پراپرٹی ، دولت ٹیکس وغیرہ ۔ یہ امراء پر لگائے جاتے ہیں۔ 77۔1976ء کے بجٹ کے مطابق ان ٹیکسوں سے ٹیکس کی محموعی آمدنی کا صرف 12اعشاریہ 3 فیصد آمدنی ہوئی۔
ب) بالواسطہ ٹیکس یہ وہ ٹیکس ہیں جو ادا تو تاجر اور صنعت کار کرتے ہیں۔ لیکن یہ ٹیکس قیمت فروخت میں شامل کرکے ان کا بوجھ صارفین پر ڈال دیتے ہیں۔جیسے سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی وغیرہ۔ جو چینی، سریا ، سیمنٹ، سوتی کپڑا او ردیگر بےشمار اشیاء پر لگائے جاتے ہیں۔ ان ٹیکسوں سے ٹیکس کی کل آمدنی کا 87 اعشاریہ 7 فیصد آمدنی ہوئی۔
ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں صارفین کا بیشتر حصہ غریب طبقہ ہی ہے۔ لہٰذا ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ یہی طبقہ برداشت کرتا ہے۔
مصارف میں فرق: زکوٰۃ سب سے بڑا او راہم مصرف غریب طبقہ کی بنیادی ضروریات کی کفالت ہے جبکہ ٹیکس ملکی ضروریات کو پورا کرنے اور رفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ ہوتے ہیں گویہ چیزیں سب کے لیے مشترکہ ہوتی ہیں۔لیکن عملاً امیر طبقہ ہی ان سے زیادہ مفاد حاصل کرپاتا ہے مثلاً اعلیٰ تعلیم کا حصول یا حصول انصاف جو کسی غریب کے بس کا روگ نہیں۔ اسی طرح اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امیر طبقہ اپنے اثر اور وسائل کی بناء پر ہر چیز سے زیادہ فائدہ اٹھاجاتاہے۔ گویا ٹیکس کی رقم جس کا زیادہ حصہ غریب کی جیب سے نکلا تھا۔ اس سے امیر زیادہ فائدہ اٹھاگیا۔
زکوٰۃ دین اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے او راس کے ذریعہ طبقاتی تقسیم میں بہت حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے جبکہ ٹیکس سرمایہ داری نظام کے دو اہم ارکان۔ سُود اور ٹیکس میں سے ایک رکن ہے۔ جس طرح سود سے بالآخر سرمایہ داری کو فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح ٹیکس کا بار تو غرباء پر زیادہ ہوتا ہے اور فاودہ امیر زیادہ حاصل کرتا ہے۔
مزاج اور نتائج کے لحاظ سے فرق: (1) عام ٹیکس عموماً آمدنی پر لگتے ہیں جس سے دولت جمع کرنے کی ہوس بڑھتی ہے جبکہ زکوٰۃ عموماً بچت پر لگتی ہے جس سے اندوختہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور سرمایہ حرکت میں رہتا ہے۔ جس سے معیشت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
(2) زکوٰۃ بچت پر لگنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں فرو کی ضرورت اور اخراجات کا لحاظ رکھا جاتا ہے جبکہ عام ٹیکس آمدنی پر لگتے ہیں اورفرد کے اخراجات یا کمی بیشی کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ فرض کیجئے زید او ربکر دونوں ایک ایک ہزار روپیہ تنخواہ لیتے ہیں۔ زید ابھی غیر شادی شدہ ہے ، وہ بآسانی چھ سات سو روپے ماہوار پس انداز کرلیتا ہے جبکہ بکر کے پانچ چھ بچے ہیں او ربمشکل گزر بسر کرتا ہے تو ٹیکس ان کے اس امتیاز میں کوئی فرق نہیں کرے گا۔
(3) ٹیکس کو ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ ٹیکس دہندہ کبھی پوری مالیت ظاہر نہیں ہونے دیتے اور ٹیکس وصول کرنے والے بھی رشوت لے کر خود ٹیکس چوری کی راہیں پیدا کردیتے ہیں۔اس ملی بھگت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو متوقع رقم کا نصف بھی حاصل نہیں ہوتا او روہ ٹیکس بڑھانے اور مزید ٹیکس عائد کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے جبکہ زکوٰۃ ایک دینی فریضہ اور مالی عبادت ہے جسے بیشتر مسلمان بخوشی اداکردینے میں ہی سعادت سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اس میں رشوت کا بھی امکان بہت کم ہوتا ہے۔
3۔
شرح زکوٰۃ میں تبدیلیامراء کے اموال میں زکوٰۃ کا حصہ حضور اکرمﷺ نے نہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
والذين في أموالهم حق معلوم للسائل والمحروم (700؍24،25)
''ان امراء کے مالوں میں مانگنے او رنہ مانگنے والے دونوں طرح کے غرباء کا حق ہے۔''
نیز فرمایا:
وآتوا حقه يوم حصاده (6؍142) ''اورفصل کاٹنے کے دن اللہ تعالیٰ کا حق اداکرو۔''
اور حضور اکرمﷺ نے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے:
أَنَّ أَنَسًا، حَدَّثَهُ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَتَبَ لَهُ هَذَا الكِتَابَ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المُسْلِمِينَ، وَالَّتِي أَمَرَ اللَّهُ بِهَا رَسُولَهُ، (بخاری)
''حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے (اپنے دور خلافت میں) یہ تحریر لکھ دی تھی کہ زکوٰۃ وہ دینی فریضہ ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض کیا اور جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا۔''
او رجن چیزوں پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔ قرآن کریم سے اس کےحوالہ جات ہم پیش کرچکے ہیں اور زکوٰۃ کے مصارف بھی رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرما دیئے ہیں۔
خداتعالیٰ کے مقررہ حصہ یا زکوٰۃ کی شرح بھی حضور اکرمﷺ نے اپنی طرف سے تجویز نہیں فرمائی کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کے حق میں کمی بیشی کا امکان رہتا ہے او راس معاملہ میں حضور اکرمﷺ نےاتنی احتیاط ملحوظ رکھا کہ زکوٰۃ کی شرح سے متعلقہ احکام گورنروں کولکھوا کے دیتے تھے جبکہ دوسرے احکامات زبانی بتلانے پر ہی اکتفا کرلیا جاتاتھا جیسا کہ درج بالاحوالہ جات سے واضح ہے۔
عموماً یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اگر شرح زکوٰۃ ہمیشہ کے لیے مقرر ہوتی تو اس کاذکر قرآن کریم میں موجود ہونا تھا۔ ہمارے خیال میں اس اعتراض کی چنداں وقعت نہیں۔ بےشمار ایسے تاکیدی احکام ہیں جن کی تفصیل قرآن پاک میں موجود نہیں اس کے باوجود ان کی تفصیلات کے دوام پر کسی کو اعتراض نہیں ہے مثلاً نماز ہی کو لیجئے جس کا ذکر قرآن کریم میں تقریباً 700بار آیا ہے لیکن اس کی رکعات اور ادائیگی کے طریق کار کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ اس کی تفصیل جو آنحضرتﷺ نے بتلائی وہ بعینہ خدا تعالیٰ کی منشا او رہدایات کے مطابق تھی۔ اپنی مرضی سے نہ تھی او ریہ تفصیل تاقیامت ہے جس پر کبھی اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔بعینہ یہی صورت زکوٰۃ ، روزہ اور حج کے احکامات کی ہے۔
ان تصریحات سے واضح ہوجاتاہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت ، محل نصاب ، مصارف اور شرح سب کچھ خدا تعالیٰ سے ہے۔ جس میں ردّوبدل کا خود آپ کو بھی اختیار نہ تھا۔خلفائے راشدین نے بھی یہی کچھ سمجھا۔ بعد میں بھی آج تک شرح زکوٰۃ میں تبدیلی کی بات سوچنے تک کی کسی کو جسارت نہیں ہوئی تو آج کسی دوسرے کو اختیار کیونکر دیا جاسکتا ہے۔
(4) زکوٰۃ کی موجودگی میں دوسرے ٹیکسوں کاجوازلوگوں کی آمدنی میں غریبوں کا جو حق ہے یا جس سے نظم و نسق حکومت چلایا جاسکتا ہے وہ حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے ذرائع بیت المال میں اتنی گنجائش ہے کہ ہر دور میں اخراجات کے ساتھ متوازن ہوسکیں تو اندریں صورت زکوٰۃ علاوہ دوسرے ٹیکس تو کجا، صدقات و خیرات ، جو محض غریبوں کی خدمت کی غرض سے لئے جاتے ہیں ۔ قانوناً وصول نہیں کئے جاسکتے اسلام نے بغیر حق کے جس طرح کسی مسلمان کا خون حرام قرار دیا ہے بالکل اسی طرح اس کے مال کو بھی حرام قرار دیا ہے کیا حکومت کو بلا وجہ اپنی رعایا کے کسی فرد کے خون بہانے کا حق ہے؟ جس طرح یہ خون بہانا حرام ہے۔ بعینہ اسی طرح اس کے مال میں تصرف کرنا اور اس کی عزت سے کھیلنا بھی حرام ہے۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر آنحضرتﷺ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا اس میں یہ ہدایت واضح طور پر موجود ہے۔
''لوگوں! تمہارے خون، اموال اور عزت و آبرو ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے آج کا (عرفہ کا )دن اور یہ مہینہ(ذی الحجۃ) اور یہ شہر (مکہ) تمہارے لیے باحرمت ہے۔'' (بخاری و مسلم)
''ٹیکس کی حقیقت'' کی تفصیل میں ہم یہ بھی بتلا چکے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست میں ٹیکس غیر مسلم رعایا پر لگایا جاتا ہے اور اسکی شرح میں تبدیلی ممکن ہے۔جبکہ مسلمانوں پر صرف زکوٰۃ عائد ہوتی ہے اور زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے ٹیکس اور ان کی مختلف صورتیں مکس ہیں جو ایک جرم عظیم ہے۔
اور جو لوگ حضور اکرمﷺ کے اس ارشاد:
إن في المال حقا سوی الزکوٰة (ترمذی) ''لوگوں کے مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے۔''
سے حکومت کے لیے دوسرے ٹیکس عائد کرنے کی سند جواز کرتے ہیں تو ہمارے خیال میں یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ اس ارشاد سے تو صرف یہ وضاحت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو فقراء کی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری محض حکومت پر نہ ڈال دینی چاہیے بلکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی اپنے طور پر ملاقات کے ذریعہ ان کی خبرگیری کرتے رہنا چاہیے۔ اس عام حکم سے حکومت کے دوسرے ٹیکسوں کے لیے استدلال کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی جبکہ دوسری طرف ایسے ٹیکسوں کے لیے سخت وعید سنائی گئی ہے۔
اندریں صورت حال ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر حکومت کے پاس وہ کون سا شرعی حق ہے جس کی بناء پر وہ لوگوں سے زکوٰۃ کے علاوہ جبراً کچھ وصول کرے۔ ایک شخص اگر اپنی ذاتی ضروریات کے لیےمکان بنا لیتا ہے تو اس پر پراپراٹی ٹیکس عائد کرنے کی وجہ جواز کیا ہے۔؟
عجیب اتفاق ہے کہ حکومت کو دوران جنگ جنگی اخراجات کے لیے۔ اگر اپیل سے کام نہ چل رہا ہو تو جبری ٹیکس لگانے کا حق دیا گیا ہے (جس کی تفصیل کسی دوسری جگہ بیان کی گئی ہے) مگر وہاں تو حکومتیں اپنا یہ حق استعمال نہیں کرتیں او رملک کےاندر او رباہر سے سودی قرضے لینے شروع کردیتی ہیں او رجہاں یہ حق نہیں وہاں یہ ٹیکس کی شرح بڑھاتی او رمزید ٹیکس عائد کرتی چلی جاتی ہیں||۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگر حکومت کو زکوٰۃ کےعلاوہ دوسرے ٹیکس لگانے یا مزید بڑھانے کی اجازت دی جائے تو عوام کے پاس آخر وہ کون سی قوت ہے جو حکومت کی بدعنوانیوں کا محاسبہ کرسکے اور اسے راہ راست پر لاسکے اور اگر کوئی ایسی جرأت کربیٹھے تو اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔اسی اختیار کی بناء پر حکومت کئی غیر دانش مندانہ اور غیر ترقیاتی منصوبے شروع کردیتی ہے اور اس کا باراگر ٹیکسوں سے پورا نہ ہوسکے تو حکومت نئے نوٹ چھاپ کر اپنے اخراجات پورے کرلیتی ہے۔ جس کا بار عوام پر پڑتا ہے یہ گویا ایک جبری ٹیکس ہے جسے Hidden Tax بھی کہا جاتا ہے گویا اسی شرح کی بناء پر حکومت کی معاشی پالیسیوں میں بے اعتدالی پیدا ہوتی ہے۔
(5) بڑھتے ہوئے اخراجاتشرح زکوٰۃ میں اضافہ یا دوسرے ٹیکس بحال رکھنے یا مزید ٹیکس عائد کرنے کی وجہ یہ بتلائی جاتی ہے کہ آج کل حکومتوں کی ذمہ داریاں اور اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں۔ ہم عرض کریں گے کہ:
1۔ اگر حکومت کے اخراجات بڑھ چکے ہیں تو آمدنی کی مدات بھی بڑھ چکی ہیں۔ کئی محکمے کاروباری طریق پر چل رہے ہیں جن سے معقول آمدنی متوقع ہوتی ہے مثلاً محکمہ ڈاک ، تار، ریلوے، انہار وغیرہ ۔
2۔ بڑھتے ہوئے اخراجات کی بڑی وجہ ہماار موجودہ نظام ہے۔ مثلاً عدلیہ کو لیجئے جہاں ایک فوجداری مقدمہ بھی سالہا سال تک چلتا رہتا ہے اسلامی نظام میں قتل جیسے مقدمہ کے لیے بھی ایک ماہ کا عرصہ درکار ہے۔طریق کار میں اس تخفیف سے عدالتوں میں جہاں اس وقت 100 جج کام کررہے ہیں وہاں پندرہ بیس جج بھی بہت کافی ہوں گے۔ عدلیہ کے اخراجات کئی گنا کم ہوجائیں گے ۔ اسی طرح پولیس کے اخراجات کم ہوں گے۔مدعی اور مدعا علیہ کے جہاں اخراجات او رمحنت کم ہوگی ۔ عدالتوں میں تضیح اوقات سے نجات ملے گی وہاں ٹریفک کا دباؤ بھی کم ہوگا۔ صرف عدلیہ کے نظام میں تبدیلی سے اتنے اخراجات کم ہونے کا انکام ہے تو جب پورا اسلامی معاشرہ رائج ہوجائے گا تو اخراجات میں حیرت انگیز حد تک خود بخود کمی واقع ہوجائے گی۔محکمہ امن و عدل کے سٹاف میں نمایاں کمی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم کم تنخواہ دار افراد کی تنخواہ آسانی سے دوگنا کرسکیں گے۔ جس سے رشوت کا سدّباب ہوگا اور یہ تو ظاہر ہے کہ رشوت کی بناء پر مقدمات کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔
3۔ اخراجات میں تخفیف سے تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک غریب آدمی کے انصاف کا حصول ممکن ہوجائے گا جبکہ آج کل کورٹ فیس جیسے غیر شرعی محاصل انصاف کے حصول میں سنگ گراں بنے ہوئے ہیں۔ کئی محکمے جن کی اسلامی نظام میں گنجائش نہیں خود بخود ختم ہوجائیں گے۔مثلاً خاندان منصوبہ بندی اور فحاشی پھیلانے والے ثقافتی مراکز۔
4۔ حکومت کو جب ٹیکس عائد کرنے کا حق نہ رہے گا تو وہ غیر ترقیاتی منصوبوں اور مسرفانہ اخراجات سے پرہیز کرے گی اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے گی۔حکومت کے انتظامی اخراجات بھی توجہ طلب ہیں۔ لا تعداد محکمہ، وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج۔ ان کے الاؤنسز اور سفری اخراجات کم کرنے سے کافی بچت کی جاسکتی ہے نیز سرکاری افسروں کو سرکاری اشیاء املاک کے بے جا او رمسرفانہ استعمال پر قانونی پابندیاں عائد کرنے سے بھی اخراجات میں خاطر خواہ کمی کی جاسکتی ہے۔
5۔ سکولوں کی عمارتوں کی بجائے مساجد اور اس کے ساتھ ملحقہ کمروں سے کام لے کر تعلیم کے اخراجات میں خاصی کمی کی جاسکتی ہے او ریہی چیز اسلامی نظریات و روایات سے مطابقت رکھتی ہے۔
6۔ایسی سینکڑوں کارپوریشنوں کا جو سفید ہاتھی بنی ہوئی ہیں۔ جائزہ لے کر کروڑوں روپے کی بچت کی جاسکتی ہے۔
7۔ ہر سرکاری افسر کی بھرتی کے وقت اس کے املاک و جائیداد کی فہرست حکومت کو بھیج دینی چاہیے جیسا کہ حضرت عمرؓ کے وقت میں ہوتا تھا اور پھر اس میں ناجائز اضافہ پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔
غرض بڑھتے ہوئے اخراجات ایک بیماری ہے۔ جس کے بےشمار اسباب ہیں ان اسباب کو دور کرکے اس بیماری کا صحیح علاج سوچنا چاہیے نہ کہ اسے بہانہ بنا کر شرح زکوٰۃ میں اضافہ کے''اجتہاد'' یا دوسرے ٹیکسوں کے لیے جواز کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔
ایک اسلامی ریاست کے اخراجات کا انحصار محض زکوٰۃ کی آمدنی پر نہیں بلکہ اس کے اور بھی بہت سے ذرائع ہیں مثلاً:
1۔ سرکاری زمینوں کی فروخت ان کا لگان او رٹھیکے۔
2۔ جنگلات سے حاصل ہونے والی پیداواریں ۔ عمارتی لکڑی ، ایندھن، بیروزہ، کتھہ او رکئی قسم کے تیل۔
3۔ غیر مسلموں کی زمین کا لگان یا خراج۔
4۔ بیرونی ممالک سے درآمد شدہ اشیاء پر محصول۔
5۔ رکاز، قدرتی خزانوں مثلاً معدنیات، تیل، گیس سے حاصل ہونے والی رائلٹی،لیز یا بصورت دیگر انتظامی اخراجات کے بعد باقی سب آمدنی۔
6۔ اموال غنیمت ،غیر مسلموں سے حاصل شدہ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد۔
7۔ لاوارث لوگوں کے اموال او رجائیدادیں۔
8۔ زکوٰۃ جو بیت المال کی آمدنی کا سب سےبڑا ذریعہ ہے او رجسے بیت المال کے دیگر ذرائع آمد و خرچ سے بالکل علیٰحدہ رکھا جاتا ہے۔
لہٰذا اگر اسلامی نظریہ اقتصاد کوملحوظ رکھا جائے تو بیت المال کی آمدنی سے ہر دور میں بڑھتے ہوئے اخراجات بخوبی پورے ہوسکتے ہیں او راس کے لیے ہم تاریخ سے شواہد پیش کرسکتے ہیں۔
حضرت عمر ؓ کے عہد میں اسلامی مملکت عہد نبویؐ سے کئی گنا زیادہ پھیل چکی تھی۔ کئی نئے محکمے وجود میں آچکے تھے۔ محکمہ مال گزاری، محکمہ فوج، محکمہ پولیس، جیل او رڈاک وغیرہ اخراجات بڑھ چکے تھے۔ تقاضے بدل چکے تھے۔ لیکن اسی بیت المال کی آمدنی سے نظم و نسق چلتا رہا۔
مسلمانوں نے تقریباً چھ سو سال بڑی شان و شوکت سے حکومت کی۔مملکت اسلامیہ متمدن ترین سلطنت شمار ہوتی تھی۔ زمانہ کے تقاضے بدل چکے تھے۔ ضروریات او راخراجات میں لگاتار اضافہ ہورہا تھا لیکن کسی حکومت کو شرح زکوٰۃ میں اضافہ کی جرأت نہ ہوئی اور اگر کسی مسلمان بادشاہ نے مسلمانوں پرکوئی نیا ٹیکس عائد کیا بھی تو اُسے جواز کا درجہ کبھی عطا نہ ہوا۔ وہ ظلم و جور ہی سمجھا جاتا رہا۔
ہم نے اپنے ایک سابقہ مضمون میں آج کل کے اخراجات او رآج کے دور میں بیت المال کی متوقع آمدنی کا جائز پیش کیا۔اس تقابل کےلیے اکنامک سروے 77۔1976ء سے اعدادوشمار حاصل کئے اور جہاں یہ اعدادوشمار نہ مل سکے تو دوسرے ذرائع پر انحصار کرکے نہایت محتاط اندازہ سے جائزہ لیا ہے۔ 77۔1976ء کامرکزی مالیاتی بجٹ تو موجود تھا بیت المال کی مجموعی آمدنی کا بجٹ خود تیارکیا۔ تو مُسرت کی انتہا نہ رہی جب یہ معلوم ہواکہ بیت المال کا بجٹ موجودہ بجٹ سے نسبتاً بہتر ثابت ہوا ۔ اس جائزہ کے مطابق زکوٰۃ کی آمدنی مجموعی آمدنی کا 42 فیصد بنتی ہے۔زکوٰۃ کی آمدنی کا نصف محض نادار طبقہ کےلیے مختص قرار دیا گیا ہے جبکہ باقی نصف قرآن کے بیان کردہ مصارف دفاع ، نظم و نسق اور دینی تعلیم کی نشرواشاعت پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے۔میرا یہ مضمون اپریل 1978ء کے ترجمان الحدیث میں شائع ہوا۔جس پر راقم الحروف کو ایک ممتاز شخصیت کی طرف سے مبارکباد بھی پیش کی گئی تھی۔
لہٰذا برنبائے بصیرت یہ کہا جاسکتا ہے اور ہماری یہ تجویز ہے کہ حکومت زکوٰۃ کا نظام پورے کا پورا نافذ کرے۔ ساتھ ہی ساتھ بیت المال کے دوسرے ذرائع آمدنی کو شائع کرکے زکوٰۃ فنڈ کے بجائے بیت المال کی تشکیل کرے او رٹیکسوں کے سرمایہ دارانہ نظام کو بتدریج ختم کرکے اسلامی نظام معیشت کی صحیح مثال پیش کرے۔
آخر میں ہم موجودہ حکومت کا اسلامی نظام کی طرف پیش رفت کے لیے تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں او ردعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس حکومت کو مخلصانہ عزائم میں کامیاب کرے۔ (آمین)
زکوٰۃ و عُشر سے متعلق تجاویز کا خلاصہ1۔ پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بنانے او رنظام زکوٰۃ کو مؤثر او ربار آور بنانےکے لیے ضروری ہے کہ سادہ طرز زندگی کو رواج دیا جائے۔ زرپرستی اور خود غرضی کے رجحان کو کم کرنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کی جائیں۔
2۔ زکوٰۃ جملہ مدّات مثلاً نقدی او راس کی تمام موجودہ صورتیں ، اجناس اور خشک پھل ،اموال تجارت اور صنعت، مویشی اور دفینے وغیرہ سب پر وصول کی جائے نہ کہ صرف نقدی او راجناس پر۔
3۔ خود تشخیصی طریق کار صرف نقدی او رزیورات پر عائد ہوسکتا ہے۔ اجناس یا دوسری ظاہر اشیاء پر نہیں۔
4۔ ہر طرح کی زکوٰۃ خواہ وہ خود تشخیصی ہی کیوں نہ ہو حکومت کو ادا کی جانی چاہیے او رحکومت اسے باقاعدگی سے وصول کرے۔
5۔ مقامی زکوٰۃ کمیٹیوں کا مرکز یا دفتر محلہ یا گاؤں کی مرکزی مسجد ہونا چاہیے او راس کا حلقہ نکاح رجسٹرار کا حلقہ ہو۔اسی طرح تحصیل اور ضلع کمیٹیاں بھی تحصیل یا ضلع کے صدر مقام کی مرکزی مسجد ہونا چاہیے۔ انہی مقامات پر نماز جمعہ کے بعد اجتماع ہوا کریں۔
6۔ ان کمیٹیوں کے ارکان (1)ناظم متعلقہ امام مسجد ہو (2) پٹواری مال اور (3) پٹواری نہر ہو۔ باقی تین منتخب ارکان ایسے ہوں جو مسجد سے رابطہ رکھتے ہوں۔ دیانتدار ہوں او ربددیانتی کا جرأت سے مقابلہ کرسکتے ہوں او ریہ انتخاب اسی مسجد کی منتظمہ کمیٹی کرے تو بہتر ہوگا۔
7۔ ان کمیٹیوں کو زکوٰۃ وصول کرنے کے متعلق ہدایات مہیا کی جائیں۔ زکوٰۃ کی وصولی ان کی اولین ذمہ داری ہے، دوسری ذمہ داری معذور افراد کی فہرستیں تیار کرکے بالائی کمیٹیوں کوبھیجنا او رمعلوم کرنا کہ ان کےمتعلقین اور رشتہ دار اگر صاحب استطاعت ہوں تو ان سے کیوں غافل ہیں۔نیز اتفاقی حوادث کا شکار ہونے والے افراد کے لیے امداد او رقرضہ کی سفارش کریں۔
تیسری ذمہ داری، مزارع او رکسان کے تعلقات کو خوشگوار بنانا۔ ہرہونہ زمینوں کا جائزہ لینا۔ جاگیروں کے انتقالات اور بنجر زمینوں کی آبادکاری کے لیے سفارشات حکومت کوپیش کرنا تاکہ پیداوار بیش از بیش ہو او راسی نسبت سے زکوٰۃ میں اضافہ ہو، نیز ان ارکان کو معاوضہ دیا جانا چاہیے۔
8۔ زکوٰۃ کی جملہ مدات سے وصول کے ساتھ ساتھ بیت المال کے دوسرے ذرائع آمدنی کو بھی بروئے کار لایا جائے او ربتدریج دوسرے تمام ٹیکسوں کو ختم کیا جائے کیونکہ ان کا شرعی جواز تو پایہ ثبوت کونہیں پہنچتا البتہ وعید ضرور آئی ہے۔