ضلع ساہیوال سےمولانا سیف الرحمٰن بی اے لکھتے ہیں:
1۔ نابینا والی حدیث میں: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ» (ترمذی وغیرہ)
اس سے غیر اللہ سے توسل ، استغاثہ او رندائے غیب کا ثبوت ملتا ہے۔ صحیح کیا ہے؟
2۔ ایک اور روایت میں آیا ہے :کہ سواری بھاگ جائے تو یوں پکارے۔
''أعینوني یا عباداللہ'' ''اے خدا کے بندو میری مدد کرو۔''
اس سے بھی پہلے نظریہ کی تائید ہوتی ہے۔
الجواب:
نابینا والی حدیث: اس کا جواب اسی روایت میں پایا جاتا ہے، اپنی بینائی کے لیے حضورﷺ سے درخواست کی تو آپ نے انہیں یہ طریقہ بتایا کہ: وضو کرکے دو گانہ پڑھیئے پھر یوں دعا کیجئے! دعا کے الفاظ بتاتے ہیں کہ: حضورﷺ نے بھی اس نابینا (عثمان بن حنیفؓ) کے لیے دعا فرمائی تبھی تو کہا کہ میں تیرے نبی کو لے کر آپ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ ان کی سفارش قبول فرمائیے!
اُس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیک لوگ موجود ہیں، جاکر ان سے دعا کرائی جاسکتی ہے! ظاہر ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضورﷺ نے دعا کا یہ نرالا طریقہ کیوں تجویز فرمایا؟ تاکہ دعا کرانے والے کاذہن اس وسوسے سے صاف ہوجائے کہ ہم جیسے معمولی یا گنہگار شخص کا خداسے کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ رہنمائی فرمائی کہ نیکوں سے بھی دعا کرائے اور خود بھی گڑ گڑا دعا کیجئے۔آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ یار دوستوں کو دعا کرانا تو یاد رہا لیکن یہ بھول گیا کہ رسول نے یہ بھی بتایا ہے کہ تم بھی خدا سے دعا کرسکتے ہو او ریہ کہ دعا سے پہلے باوضو دوگانہ بھی پڑھنا چاہیے! اصل میں یہ لوگ خدا سے سستی قبولیت کے متمنی ہیں او رساتھ ہی چاہتے ہیں کہ شخصیت پرستی کا جو روگ ان کو لگ گیا ہے اس کی تسکین کےبھی کچھ سامان ہوتے رہیں۔
باقی رہی ندائے غیب کی بات؟ سو یہاں غیب تھا ہی نہیں کیونکہ حضورﷺ کے پاس بیٹھ کر حضورﷺ کے سکھائے ہوئے کلمات دہرا رہے تھے۔ یہاں عیب کہاں؟
بہرحال دعا کے سلسلے میں یہ یاد رہے کہ اصل دعا وہ ہے جو خود کی جائے، اس سے خدا سے تعلق اور ربط قائم رہتا ہے اور اس کی شرم بھی، دوسرے سے دعا کرانا ایک آخری چارہ کار ہے اور صرف وقتی۔ آخری چارہ کار اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان خدا سے ناامید او راپنی ذات کے سلسلے میں بدظن نہ ہوجائے اور اس سے کٹ کر سداغیروں کے آستان پرٹھوکریں نہ کھاتا پھرے، دعا خدا سے ہمکلامی کی ایک تقریب مہیا کرتی ہے۔ اس لیے اعلان فرمایا کہ:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (پ2۔ بقرہ ع23)
''اور جب میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں (کہ وہ کہاں ہے،اسے کیسے پکاریں) تو (سن لو) میں قریب ہی ہوں، جب کوئی مجھ سے درخواست کرتا ہے تو پکارنے کی دعا اور پکار قبول کرلیتا ہوں۔''
لوگ خواہ مخواہ کے چکروں میں پڑے ہیں او رمحض شخصیت پرستی کے جذبات کی تسکین کے لیے، ورنہ دینے والا جب براہ راست تمہیں بات کرنے کی دعوت دیتا ہے تو پھر دوسرے دروازوں پر جا جا کر دستک دینے کا کیا فائدہ؟ الاّ یہ کہ خود دعا کرکرکے تھک گیا ہو او ربات سمجھ میں نہ آرہی ہو کہ مجھ سے کیا خطا ہوئی کہ قبولیت میں دیر ہورہی ہے۔گویا کہ دعا کرانے سے پہلے اپنے اپ کے جائزہ لینے کی بھی صورت پیدا ہوجاتی ہے، اگر محسوس ہو کہ فلاں کوتاہی ہورہی ہے تو اسے چھوڑ کر پھر دعا کیجئے! البتہ اس وقت دوسرے کے پاس جاسکتے ہو! جب محسوس کریں کہ پتہ نہیں چل رہا کہ کیا خطا ہوئی ہے، ظاہر ہے کہ جو نیک لوگ ہیں، وہ تمہیں بھی اصلاح حال کی تلقین کریں گے اور دعا بھی کریں گے۔ حضورﷺ نے دوگانہ پڑھا کر دعا کرنے کا جو سبق دیا ہے وہ اس امر کا غماز ہے کہ پہلے آپ اللہ سے اپنا تعلق بحال کریں، پھر دعا کریں۔ چونکہ لوگ شارٹ کٹ چاہتے ہیں اور بدی بردوشت خدا سے نیک توقعات رکھتے ہیں، اس لیے اس کی طرف منہ کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔
اَعِینُوني یَا عِبَاد اللہ: اس مضمون کی روایات متعدد ہیں او رعموماً بیکار ہیں ، منقطع ہیں یا ان میں ضعیف راوی ہیں، آپ نے جو روایت پیش کی ہے اس کا راوی یزید بن علی ہے جو عقبہ رقاشی سے روایت کرتا ہے اور وہ عقبہ سے تقریباً 63 سال بعد پیدا ہوا ہے ۔ دوسری روایت جو ابن مسعود سے ہے، اس کی سند میں معروف بن حسان ہے یہ مجہول بھی ہے اور منکر الحدیث بھی، اس لیے بیکار ہے، دوسرا راوی جس سے معروف روایت کرتا ہے وہ سعید بن ابی عروبۃ ہے جو مختلط بھی ہے اور مدلس بھی۔ یعنی بعد میں اس کے حواس ٹھیک نہیں رہے تھے او رجس سے روایت کرتا تھا، بعض اوقات اس کا نام نہیں لیتا تھا بلکہ اس سے اگلے راوی کا نام لے لیتا تھا، اس طرح بات اندھیرے میں رہ جاتی تھی کہ جس کا نام نہیں لیا خدا جانے وہ کیسا راوی تھا۔ اس لیے جب وہ ''عن فلان'' (فلاں سے) کرکے روایت بیان کرتے ہیں تو ان کی روایت محدثین قبول نہیں کرتے او رسعید بن ابی عروبۃ جس سے روایت کرتے ہیں، وہ ''قتادہ'' ہے لیکن یہ بھی مدلس ہے۔
اس لیے اس روایت کے ضعف کے کئی ایک اسباب یکجا جمع ہوگئے ہیں۔اب سوچئے کہ بھلا ایسی روایت کو کوئی کیا کرے؟
فرض کیجئے! یہ حدیث صحیح ہے تو اس کے وہ معنی نہیں جو اوہام پرست بناتے ہیں، کیونکہ علامہ ہیثمی نے مجموع الزوائد میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جنگلوں میں اللہ کے کچھ فرشتے رہتے ہیں، اس لیے اگر کوئی رکاوٹ اور مانع پیش آجائے تو اعینونی یا عباداللہ کہہ کر پکارا کرو۔(وقال رجال ثقات)
فرشتے گو ہمیں نظر نہیں آتے تاہم وہاں ہوتے ہیں اور سنتے اور دیکھتے ہیں اس لیے حضور ﷺکے ارشاد کے مطابق ان سےکہہ سکتے ہیں کہ : اس وقت میری مدد کرو۔جیساکہ اور کسی موجود شخص سے ایسے موقعہ پر کوئی کہہ سکتا ہے۔لیکن صفرا کے مارے کو ہر شے زرد دکھائ دیتی ہے اس لیے جو غیروں کے آستان پر ہاتھ پھیلانے میں لطف محسوس کرتے ہیں ، انہیں ہر چیز میں ''غیر اللہ'' کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی اپیلیں ہی محسوس ہوتی ہیں۔ خدا خیر کرے۔
ویرانوں کی دنیا میں عموماً |خدا ہی یاد پڑتا ہے ، کافروں کو بھی خدا یاد آجاتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ اس عالم میں جب اس کو گم شدہ سواری واپس مل جاتی ہے تو خوشی سےجھوم کر وہ خدا کے حضور شکرانہ پیش کرتے ہوئے کہہ بیٹھتا ہے کہ میں تیرا رب اور تو میرا بندہ، تو خدا اس پربہت خوش ہوجاتا ہے ، کیونکہ زبان کی لغزش کی بات او رہے۔بہرحال دل میں تو ان کے اللہ ہی تھا۔ مگر ان بت پرستوں کو ایسے عالم میں بھی ''خدا'' نہیں، دوسرے ہی یاد رہتے ہیں او رانہی کو پکارنے کے لیے حیلے تلاش کرتے رہتے ہیں|۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگ عموماً جب خدا کے قابل نہیں رہتے تو ان کو خدا کے باغی لوگ ہی شکار کرلیتے ہیں کیونکہ خدا جن کے سامنے نہیں ہوتا، وہ دل ہتھیلی پررکھ کر باہر نکل آتے ہیں، چونکہ ان کو غیر اللہ میں جذب ہونے کا چسکا پہلے پڑ چکا ہوتا ہے اس لیے جب کوئی شکاری ان پر اپنے مخصوص انداز کے جال پھیلا دیتا ہے تو فوراً اس میں پھنس جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سوشلزم قسم کی تحریکوں میں انہی لوگوں کی اکثریت رہی ہے۔ خود پاکستان میں پیپلزپارٹی جیسی بدنام پارٹی کو بھی انہی نادانوں کی اکثریت نے ہی کندھا دیاہے او رابھی تک انہی کا سواد اعظم ہی ان کے نام کی ''جے'' پکار رہا ہے۔ جولوگ خدا کے بجائے ''دوسروں'' کے تصورات میں دھت رہتے ہیں، ہم نےدیکھا ہے کہ:
باطل کو سہارے ہمیشہ انہی لوگوں نے مہیا کیے ہیں، شکاری پیرون نے جب شکار کیا ہے تو انہی لوگوں کا کیا ہے، جب رسول پاک ﷺ کے محاذ سے ''اللہ اکبر'' کی صدائیں بلند ہوتی تھیں تو ''اعلُ ہبل'' ہبل کی جے کا نعرہ بتوں کے انہی پجاریوں نےلگا یا تھا۔ جب ''بندہ حنیف'' خدا کے نام پر قربانی دیتا ہے تو دیوتا دیوی گھوڑے شاہ اور لسوڑی شاہ کے نام پر نذرانے انہی لوگوں نے پیش کیے ہیں۔ ایسے لوگ عموماً خود اعتماد کے جوہر سے محروم ہوتے ہیں، وہ خدا کا سہار اچھوڑ کر، دنیا ک اہرسہارا لے کر چلنے پر مجبور ہوتے ہیں او رمسجدوں کو چھوڑ کر قبرستانوں کو زیادہ آباد رکھتے ہیں اور یہ لوگ اس بات میں ذرہ بھر شرم محسوس نہیں کرتے کہ یہ زندہ جوان، زندہ خدا کو چھوڑ کر شہر خاموشاں کے بےبس، بے جان اور بیکس افراد کے سہارے مانگتے ہیں او ران کی اپنی دعاؤں کے سہارے مہیا کرنے کے بجائے مردوں سے کہتے ہیں کہ تم ہی ہمارا سہارا بنو او رتم ہی ہمیں سہارے مہیا کرو او رتم ہی ہماری بگڑی بناؤ، لوگ زندہ ہوکر اہل قبور سے ''المدد المدد'' کہتے ہوئے ان کو کبھی شرم نہیں آتی۔ ما قدروا اللہ حق قدرہ۔
اس پر لطف یہ کہ: جب تک اہل قبور بزرگ زندہ رہے، اس وق تک انہوں نے کبھی بھی ان کی نہ سنی، ان کو پتھر مارے گئے ان کو روحانی بزرگوں کا منکر بتاتے رہے، سنا ہے حضرت شیخ پیر عبدالقادر جیلانی گانے باجے کے مخالف تھے، چنانچہ ایک دفعہ انہوں نے حکم دیا کہ وہ سب توڑ پھوڑ دیئے جائیں، چنانچہ اس پر انہی طبلچیوں نے ان کے خلاف جلوس نکالا تھا، آج ان کے نام پر سب سے زیادہ قول بھی یہی کرتے ہیں۔ گیارہویں بھی دیتے ہیں اور طبلے کے تھاپ پر قوالی بھی ۔ کیا ہی کہنے!
الغرض! اس قسم کی روایات بالکل بے اصل ہیں اور یہ تنکے ان ڈوبتے ہوئے لوگوں کا سہارا ہیں جو چاہتے ہیں کہ کسی طرح پیشانی کے سجدون کا مزہ بدلے، وہ کہتے ہیں کہ زبان پر ہر وقت اللہ ہی اللہ! اب یا غوث اعظم کا نعرہ لگا کر کچھ تو ذائقہ ہی بدلیے! بس یہ لوگ اپنی زبان کا ذائقہ اور مزہ بدلتے بدلتے ہی مرجاتے ہیں، جب خدا کے حضور پیش ہوں گے تو ہاتھ خالی ہوں گے بلکہ بوجھل! اللہ ہوش دے۔ آمین
نظام مصطفیؐ کی تکمیل، اتمام توحید اور اعلاء کلمۃ اللہ کے سلسلے میں جب کبھی ہم نے کوئی کوشش کی ہے، انہی لوگوں نے ہمیشہ ہمارے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔اگر اس ذہن کے حضرات مخالفت نہ کرتے تو حضرت شاہ شہید اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہوتے اور آج نئے سرے سے ہمیں محنت نہ کرنا پڑتی ۔کاش! اب ہی ہوش کرلیں!
2۔ وضو کے بغیر تلاوت کرنا او رقرآن کو ہاتھ لگانا
ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ:
وضو کے بغیر قرآن پڑھنا او راسے ہاتھ لگانا کیسا ہے، جائز یا نہ؟
الجواب:
زبانی تلاوت: وضو ہو تو افض او ربہتر ہے کیونکہ قرآن ایک معنوی نور ہے (قد جاء کم من اللہ کتب و نور مبین) او رحدیث (بے وضو ہونا) ایک معنوی کثافت ہے۔اس لیے مناسب یہی ہے کہ قاری او رقرآن میں کچھ مناسبت ہونی چاہیے، طہارت جہاں ظاہری پاکیزگی کی ایک شکل ہے وہاں ایک باطنی جلا، روشنی اور نور بھی ہے، جو قیامت کے دن انہی آنکھوں سے دیکھا جاسکے گا۔
فإنھم یأتون غرا محجلین من الوضوء (ابن ماجہ) وفي رواية: إن أمتي یأتون یوم القیامة غرا محجلین من آثار الوضوء (بخاری و مسلم)
اس طبعی مناسبت کے علاوہ ایک نفسیاتی داعیہ بھی ہے کہ جو قرآن حکیم سے انس رکھتا ہے، اس کا جی بھی یہی چاہتا ہے کہ پاک صاف ہوکر اس کو زبان پر لاوے، لیکن ان قدرتی دواعی کے باوجود زبانی تلاوت کے لیے ''وضو'' کی خواہش اور آرزو کے ہوتے بھی اس کی قید ضروری نہیں قرار دی گئی کیونکہ جن کو قرآن سے تعلق خاطر ہے اور جو اناء اللیل وانا النھار اس کی تلاوت سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کے لیے اس کی پابندی تکلیف کا باعث ہوسکتی ہے اور وہ اس کی وجہ سے ''خیر کثیر'' کے اکتساب سے محروم ہوسکتے ہیں۔
واحتج بأن القراءة مطلوبة والاستکثار منھا مطلوب والحدث یکثر فلوكرھت لفات خیر کثیر (فتح الباری1؍143)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آدھی رات کو نیند سے اُٹھ کر وضو سے پہلے ، سورہ آل عمران کی دس آیات تلاوت فرمائیں۔
استیقط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجلس یمسح النوم عن وجھه بیدہ ثم قرأ العشر الآیات الخواتم من سورة العمران ثم قام إلی شن معلقة فتوضأ منھا فأحسن وضوء ہ ثم قام یصلي (بخاری باب قراۃ القرآن بعد الحدیث وغیرہ: ج1 ص30)
بعض ائمہ کا یہ کہنا کہ حضورﷺ کی نیند ناقض وضو نہیں اس لیے یہاں بے وضو کی بات نہیں ہوسکتی، محل نظر ہے، نیند نہ سہی تاہم یہ بات بعید نہیں کہ ان اوقات میں وضو کے منافی کوئی بات ہوگئی ہو، جیسا کہ عموماً ہوجاتاہے۔ نیند کا آپ کے لیے ناقض وضو نہ ہونے کے صرف یہ معنی ہیں کہ اگرناقض وضو کوئی بات ہوجائے تو نیند کے باوجود حضور کو اس کا پتہ چل جاتا ہے۔
ولا یلزم من کون نومه لا ینقض وضوء ہ أن لا یقع منه حدث وھونا ئم نعم خصوصیة أنه إن وقع شعر به بخلاف غیرہ (فتح الباری:ج1 ص144)
نیند کے علاوہ بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضف کے بغیر قرآن کی آیات تلاوت فرمائی تھیں: آپ نے پیشاب کیا اور وضو سے پہلے کچھ آیات کی تلاوت کی۔
وعن أبي سلام قال : حدثني من رأى النبي - صلى الله عليه وسلم - بال ثم تلا آيات من القرآن - قال هشيم : آيا من القرآن - قبل أن يمس ماء .
رواه أحمد ، ورجاله ثقات . (وأحمد قال الهیثمي: والیومیری: رجاله ثقات المطالب العالیة ج1 ص28 بزوائد المسانید الثمانیة مع التعلیق عليه)
بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تعامل بھی یہی رہا ہے مثلاً حضرت عمر بن الخطاب، ابن عمر، ابن عباس، ابن مسعود، سلمان فارسی، ابوہریرہ و ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
خَرَجَ عُمَرُ مِنَ الْخَلَاءِ فَقَرَأَ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، فَقِيلَ لَهُ: أَتَقْرَأُ وَقَدْ أَحْدَثْتَ؟ قَالَ: «أَفَيَقْرَأُ ذَلِكَ مُسَيْلِمَةُ؟» (مصنف عبدالرزاق ج1 ص239 و ابن ابی شیبۃ ج1ص104)
عن سعيد بن جبير قال سمعت بن عمر وبن عباس قالا إنا لنقرأ أجزاءنا من القرآن بعد الحدث ما نمس ماء (عبدالرزاق ج1ص338)
وفي رواية کانا يقرآن أجزائھما من القرآن بعد ما یخرجان من الخلاء قبل أن یتوضأ (ابن ابی شیبۃ ج1 ص103)
عن عبدالله أنه كان معه رجل قیال ثم جآء فقال له ابن مسعود اقرئه (ابن ابی شیبۃ ج1 ص104)
عن علقمة والأسود: أن سلمان قرأ علیھما بعد الحدث (ابن ابی شیبۃ ج1 ص103)
وفي رواية: قال دخلنا على سلمان فقرأ علينا آيات من القرآن وهو على غير وضوء(عبدالرزاق ج1 ص340)
حضرت سلمان نے فرمایا کہ : لا يمسه إلا المطهرون سے مراد آسمان کے فرشتے ہیں ، یعنی اس آیت کا تعلق ہم سے نہیں ہے۔
قال أتينا سلمان الفارسي فخرج علينا من كنيف له فقلنا له لو توضأت يا أبا عبد الله ثم قرأت علينا سورة كذا وكذا فقال إنما قال الله { في كتاب مكنون لا يمسه إلا المطهرون } وهو الذكر الذي في السماء لا يمسه إلا الملائكة ثم قرأ علينا من القرآن ما شئنا(عبدالرزاق ج1 ص141)
عن أبي إياس معاوية بن قرة أن أبا موسى الأشعري كان يقرأ على غير وضوء (ایضاً ج1 ص339)
عن سعید بن المسیب أن أباهريرة كان یخرج من المخرج ثم یحدر السورة (ابن ابی شیبۃ ج1 ص103)
ہاں اگر انسان جنبی ہو تو پھر زبان بھی وہ تلاوت نہیں کرسکتا۔
عن علي كان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا يحجزہ من القرآن شيء ليس الجنابة (مسنداحمد، ابوداؤد وغیرہ وفیہ ابن سلمۃ ومدار ہ علیہ)
کہ حضورﷺ کو جنابت کے سوا قراء ت سے اور کوئی چیز نہیں روکتی تھی۔
عن علي قال: رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توضأ ثم قرأ شیئا من القرآن ثم قال هكذا لمن لیس یجنب فأما الجنب فلا ولا أیم أخرجه أبويعلی وقال الهیثمي: رجال موثقون (نیل الاوطار:ج1 ص197)
عن عبداللہ بن رواحة: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نھی أن یقرأ أحدنا القرآن وھو جنب ( رواہ الدارقطنی وقال اسنادہ صالح ج1 ص44)
حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓ سے بھی موقوفاً یہی منقول ہے ۔ گو ان روایات میں کلام کیا گیا ہے مگر جدا جدا کرکے مجموعی لحاظ سے قابل احتجاج ہیں۔ حضرت امام ترمذی کا حضرت علیؓ والی روایت (لا یحجزہ)کو ''حسن صحیح'' کہنا غالباً اسی نقطہ نظر سے ہے، محدثین نے تصریح کی ہے کہ تعدد طرق کے بعد علی الانفراد روایات کا ضعف مضر نہیں ہوتا۔
قال النووي: یعمل بالحدیث الضعیف إذاروي من طرق مفرد اتھا ضعیفة فإنه يقوي بعضھا بعضا و یصیر الحدیث حسنا و یحتج به (التحفۃ المرضیۃ)
بے وضو قرآن کو چھونا جائز نہیں ہے: ہاں قرآن حکیم کو اگر چھونا ہو توبے وضو نہیں چھونا چاہیے! حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عمرو بن حزم انصاری کو جو مکتوب گرامی بھیجا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ: وضو کے بغیر قرآن کو کوئی ہاتھ نہ لگائے۔
عن عبداللہ بن أبي بکر بن حزم: أن في الکتب الذي کتبه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعمرو بن حزم أن لا یمس القرآن إلا طاھر (رواہ مالک ص185 و عبدالرزاق ج1 ص342 والدارقطنی ج1 ص45)
اس روایت میں دو امور توجہ طلب ہیں، ایک یہ کہ بعض روایات میں''عن ابیہ عن جدہ'' آیا ہے ۔ عن جدہ (دادا) سے مراد اگر محمد بن عمر بن حزم ہیں تو پھر متصل ثابت ہوتی ہے لیکن بعض روایت کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ عمرو بن حزم مراد ہیں۔
لکن قوله: كان فیما أحد علیه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقتضي أنه عمرو بن حزم لأنه الذي کتب له الکتب (زیلعی ج1 ص197)
او رجن روایات ہیں عن ابیہ عن جدہ کے بجائے صرف عن ابیہ آیا ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوجاتی ہے۔
دوسرا امر یہ ہے کہ : عمرو بن حزم کے نام جو مکتوب گرامی ارسال کیا گیاتھا ، راوی اس کا حوالہ تو دیتا ہے لیکن اس کی روایت نہیں کرتا یعنی یہ نہیں کہتا کہ مجھے عمرو بن حزم نے بتایا ہے کہ الخ۔
وأحادیث عمرو بن حزم اختلف الناس في وجوب العمل بھا لأنھا مصحفة (بدایۃ المجتہد:ج1 ص42)
محدثین کی زبان میں اسے ''وجادہ'' کہتے ہیں یعنی ایک شے سے جو ملی ہے جس نے اس کو لکھا ہے، اگر راوی اس کے کط کو پہچانتا ہے اور خود بھی ثقہ ہے تو وہ اب یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے یہ چیز ملی ہے، لیکن اس کے باوجود بہت سے ائمہ اس کو منقطع روایت (درمیان سے کڑی غائب) قرار دیتے ہیں۔ مگرکہتے ہیں اس میں شائبہ اتصال کا بھی ہے۔
قال ابن الصلاح: وھو من باب المنقطع والمرسل غیر أنه أخذ شربا من الاتصال لقوله وجدت بحظ فلان (مقدمہ ص 69 النوع :24)
اس شائبہ اتصال کی بنا پر اب یہ بات تقریباً طے ہوگئی ہے کہ اب یہ قابل قبول ہے۔بشرطیکہ کتاب کا وہ نسخہ محفوظ ملے ، خط پہچانا جاتا ہو او ربیان کرنے والا ثقہ ہو اور وہ یہ کہے کہ میں نے فلاں کےہاتھ کا لکھا ہوا یہ پایا ہے۔
قال النووي :وقطع البعض بوجوب العمل بها عند حصول الثقة به، قال: "وهذا هو الصحيح الذي لا يتجه في هذه الأزمان غيره (قواعد التحدیث:ص189)
خطیب بغدادی نے متعدد ایسے صحیفوں کا ذکر کیا ہے جو صحابہ اور ائمہ حدیث کے ہاں متداول ہیں، مثلاً صحیفہ حضرت عمر جو ابن عمر کے پاس تھا|۔ صحیفہ حضرت سفیان ثوری، وائل کے والد داؤد کا مجموعہ، صحیفہ جابر، صحیفہ عمرو بن شعیب وغیرہ ملاحظہ ہو۔ (کفایہ صفحہ 354 تا355)
بالخصوص عمرو بن حزم کے نام کے اس صحیفے کے متعلق تو اب باور کیا جاتا ہے کہ وہ قابل استناد اور حجت ہے۔
وَرَأَيْتُ ابْنَ الْمُفَوَّزِ يُصَحِّحُهَا إِذَا رَوَتْهَا الثِّقَاتُ ; لِأَنَّهَا كِتَابُ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ (بدایۃ المجتہد: ص42)
قال الشوکاني: وَكِتَابُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ تَلَقَّاهُ النَّاسُ بِالْقَبُولِ، قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ إنَّهُ أَشْبَهَ الْمُتَوَاتِرَ لِتَلَقِّي النَّاسِ لَهُ بِالْقَبُولِ، وَقَالَ يَعْقُوب بْنُ سُفْيَانَ: لَا أَعْلَمُ كِتَابًا أَصَحَّ مِنْ هَذَا الْكِتَابِ، فَإِنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَالتَّابِعِينَ يَرْجِعُونَ إلَيْهِ وَيَدَعُونَ رَأْيَهُمْ. وَقَالَ الْحَاكِمُ: قَدْ شَهِدَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالزُّهْرِيُّ لِهَذَا الْكِتَابِ بِالصِّحَّةِ (نیل الاوطار ج1 ص180 باب ایجاب الوضوء للصلوٰۃ والطواف ومس المصحف)
اس کے علاوہ اس روایت کی تائید دوسری روایات سے بھی ہوتی ہے جو مجموعی لحاظ سے مؤثر حیثیت رکھتی ہیں۔
حضرت ابن عمر (دارقطنی، طبرانی) عثمان بن ابی العاص (طبرانی) توبان (الوھم والایھام لابن القطان عن منتخب علی بن عبدالعزیز) او رحکیم بن حزام (مستدرک حاکم) نے بھی یہ روایت بیان کی ہے (زیلعی ج1ص196 تا199)
بہرحال یہ روایت قابل احتجاج ہے او رہر پہلو سے قابل استناد ہے کہ حضورﷺ نے بے وضو کے لیے قرآن حکیم کو چھونے او رہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دی۔ہاں بچے اس سے مستثنیٰ ہیں:
ورخص مالك للصبیان في مس الصحف علی غیر طھر لأنھم غیر مکلفین (بدایۃ المجتہد ج1 ص42)
(3) ایک ہی وقت میں انبیاء کی کثیر تعداد ۔وقودھا الناس والحجارۃ
کراچی سے خسروی صاحب لکھتے ہیں کہ:
(1) حضرت ابوعبیدہؓ سے مروی ہے کہ :بنی اسرائیل نے ایک دن کے شروع حصہ میں 43۔انبیاء کو اور اسی دن کے آخری حصے میں 170۔ایسے لوگوں کو جو اچھائی کی نصیحت کرتے او ربُرائی سے روکتے تھے قتل کردیا تھا۔ اشکال یہ ہے کہ: اگرچہ بیک وقت ایک سے زیادہ انبیاء کی موجودگی کی مثالیں موجود ہیں لیکن ایک ہی محدود خطے میں 43۔ انبیاء کی بعثت قرین قیاس نہیں ہے۔
(2) دوسری بات یہ کہ: اتقوا النار التي وقودها الناس والحجارة میں جس ''نار'' (دوزخ) کا ذکرہے وہ ذوی العقول اور ذوی الحیات کےلیے ہوسکتی ہے ، پھر ''الحجارۃ'' کو اس میں جھونکنے سے کیا فائدہ؟
اسی طرح النار ، الکافرین کے لیے ہے، جس کو دہکانے کے لیے الناس والحجارۃ کو بطور ایندھن ڈالا جائے گا۔ سوال یہ کہ وہ الناس کون لوگ ہوں گے جنہیں بطور وقود پہلے ڈالا جائے گا او رپھر الکافرین کو اس میں ڈالا جائے گا۔ (مختصراً)
الجواب:
(1) 43 ۔ انبیاء کی بیک وقت بعثت: قرآن حمید سے معلوم ہوتا ہے کہ : کہ ہر امت او رقوم کے لیے ایک نبی مبعوث ہوا ہے۔
اُمۃ: امت سے مراد ایسی ایک جماعت ہے جو ایک قدر مشترک رکھتی ہو۔ وہ خونی رشتہ ہو یا مذہبی یکسانیت ، وہ جغرافیائی یگانگت ہو یا عصری وحدت۔ تقریباً یہی کیفیت ''قوم'' کی ہے۔
عربی انساب کے مختلف طبقات ہیں اور ان میں سے ہر طبقہ ''امت اور قوم'' کہلاتا ہے وہ طبقات یہ ہیں:
1۔ ......؟؟: نسب بعید کو کہتے ہیں: گویا کہ یہ تمام قبائل کا جدامجد ہے(2) دوسرے نمبر پر قبیلہ ہے۔ اس سے آگے مزید شاخیں نکلتی ہیں جیسے ربیعہ اور مصر جوقبیلہ نزار۔ وہ معد اور یہ عدنان سے نکلے ہیں (3) تیسرے نمبر پر عمارہ ہے ، اس میں قبیلہ کی نسبتیں منقسم ہوتی ہیں ، اس کی جمع عمائر ہے (4) چوتھے نمبر پر بطن ہے ، یہ وہ ہے جس میں عمارہ کی انساب کی تقسیم ہوتی ہے جیسے بنی عبدمناف او ربنی مخزوم (5) پانچویں نمبر پر فخذ ہے۔ اس مین بطن کے انساب پھر شاخ در شاخ ہوجاتے ہیں(6) چھٹ نمبر پر فصیلہ ہے ، اس میں بطن کے نسب پھر تقسیم ہوجاتے ہیں۔ ان طبقات کی مزید تفصیل امام سویدی کی سبائک الذہب میں ملاحظہ فرمائیں۔
شاخ در شاخ یہ سب سلسلے ایک ایک امت اور ایک ایک قوم کہلاتے ہیں۔اس لیے اس امر کا قوی امکان ہے کہ ان میں سے ایک ایک امت اور قوم (طبقہ) میں نبی مبعوث کیے گئے ہوں۔ چونکہ یہ حلقے کافی محدود تھے۔ تقریباً تقریباً ان سب کا دائرہ بھی کنعان (فلسطین) کی سرزمین ہی سے تھی ، اب ان حالات میں ایک منظم سازش کے تحت ایک دن میں ان کو اپنے اپنے مقام پر شہید کردینا عین قرین قیاس بن جاتا ہے۔
بنی اسرائیل : بنو اسرائیل کو جب کلدانی گرفتار کرکے لے گئے تھے ، اس وقت سے ''بنی اسرائیل'' اور ''یہودی'' ہم معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے وہ حضرت یعقوب کی اولاد کا نام بنی اسرائیل تھا او راس کا پھیلاؤ بہت وسیع تھا مگر اس کے باوجود ان میں ''رابطہ'' ایک دوسرے سے قائم رہتا تھا۔ یہ ایک تاریخی حقائق ہیں۔
ان تینوں باتوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو پھر اشکال کے لیے گنجائش نہیں رہتی ، نبی ہر امت او رقوم میں مبعوث ہووے ، وہ امت او رقوم ایک محدود جماعت ہوسکتی ہے ، ایک ملک کو اگر ان تبلیغی دائروں میں تقسیم کرکے انبیاء مبعوث کیے جائیں تو وہ 43 سے بھی کہیں زیادہ ایک ملک میں ہوسکتے ہیں۔
چونکہ ان میں باہمی ربط موجود تھا ، او ریہ لوگ انبیاء کے سلسلے میں حد درجہ نافرمان اور سرکش بھی واقع ہوئے تھے۔ اگر اس خیال سے لوگوں نے باہم بیٹھ کر یہ سازش کی ہو کہ ایک ہی دن میں ان انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو ختم کردیا جائے تاکہ ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی مدد کو نہ پہنچ سکے تو ناممکن نہیں ہے اور نہ خلاف قیاس یہ بات معلوم ہوتی ہے۔ الغرض علاقہ کنعان (فلسطین) کا ، اس میں بنی اسرائیل کے چھوٹے چھوٹے ذیلی حلقے ، ان چھوٹے حلقوں میں انبیاء کی بعثت ، ان طبقات کی اپنی پنی جگہ پر انبیاء کی مخالفت ، یہ سب باتیں اتنی وزنی ہیں کہ ان کی موجودگی میں یہ کہنا بالکل قرین قیاس ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی اتنی بڑی تعداد کو ایک ہی دن میں شہید کردیا گیا۔ بعض روایات میں شہید انبیاء کی تعداد تین سو بتائی گئی ہے (ابن مسعودؓ۔ مسند احمد) لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعداد دوسرے شہید صلحاء کو ملا کر ہے ، انبیاء کا نام تغلیباً لیا گیا ہے۔
2۔ وقودها الناس والحجارة: مغالطٰہ کا اصل سبب اعدت للکافرین کا جملہ بن رہا ہے کہ جہنم کو دہکانے کے لیے پہلے (1) الناس اور (2) الحجارہ ڈالے جائیں گے ، پھر اس میں الکافرین (کافر لوگ) ڈالے جائیں گے۔حالانکہ بات یہ نہیں ہے۔ اعدت للکافرین، وقودھا الناس والحجارۃ پر تفریع نہیں ہے بلکہ دونوں الگ الگ جملے ہیں ،مفسرین نے لکھا ہے کہ : اعدت للکافرین جملہ مستأنفہ ہے۔ جلالین میں ہے۔
أعدت ھیئت للکافرین بعذبوت بھا جملة مستأنفة (تفسیر جلالین)
اصل میں یہاں پربتایا جارہا ہے کہ : جہنم کی تخلیق اصالۃً منکرین حق (کفار) کیلئے کی گئی ہے دوسرے گنہگار مسلمانوں کے لیے بالتبع اورتادیباً ہے۔
الناس او رالحجارۃ کو دوزخ کا ایندھن کہا گیا ہے ، الناس سے مراد کفار ہیں اور حجارہ سے مراد وہ بت ہیں جن کو وہ پوجتے تھے۔ قرآن حکیم میں ہے:
إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ (پ17۔ الانبیاء ع7)
''بیشک تم (خود) اور جو کچھ تم اللہ کے سوا پوجتے رہے ہو(سب) جہنم کا ایندھن ہیں۔''
الناس (کافر لوگ)تو اس لیے کہ وہ مشرک او رکافر تھے ، او رالحجارۃ (اصنام) اس لیے کہ کفار کی حسرت اور ندامت میں اضافہ ہو کہ : جن کو مشکل کشا اور سفارشی سمجھ کر پکارتے اور پوجتے رہے وہ اس قدر بے بس چیز تھی جو آج دوزخ میں ہمارے ساتھ جل رہی ہے۔ ان کو آگ کا ایندھن کہنا ایک محاورہ ہے ۔ مراد اس سے ان کا مستحق سزا ہونا ہے یہ نہیں کہ ان کے ذریعے دوزخ کی آگ دہکائی جائے گی ورنہ شاید بجُھ جاتی۔
پتھر کے بت واقعی غیر ذی حیات او رغیر ذوی العقول جنس ہے ، یہاں ان کو آگ میں جھونکنے سے غرض ان کو دُکھ پہنچانا نہیں کیونکہ اس میں ان کا کوئی قصور ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس سے غرض کفار پران کی حماقت اور بتوں کی بے بسی واضح کرکے ان کو جسمانی عذاب کے ساتھ ذہنی کرب میں مبتلا کرنا ہے۔ اعاذنا اللہ من کرب الدنیا والاخرۃ۔ واللہ اعلم۔