تقاضا کُجا التجا بھی نہیں
بایں پردہ داری چھپا بھی نہیں مگر وہ دکھائی دیا بھی نہیں
یہ اعجاز ہے میرے محبوب کا جدا بھی ہے او روہ جدا بھی نہیں
اگر تم نہیں دردِ دل آشنا تو پھر دردِ دل کی دوا بھی نہیں
ابھی سے تم اتنے تڑپنے لگے ابھی قصہ غم کہا بھی نہیں
کچھ اس طرح دل نے پکارا انہیں کہ اب دھڑکنوں میں صدا بھی نہیں
تمہیں نے یہ بخشی ہیں ویرانیاں کوئی دل میں اب مُدعا بھی نہیں
زمانے نے وہ کچھ دکھایا ہمیں کسی نے جواب تک سنا بھی نہیں
وفا کے ہیں وہ مدعی آج کل کہ جن میں تمیز جفا بھی نہیں
ابھی سے تم احساں جتانے لگے ابھی دل پہ نشتر لگا بھی نہیں
پڑھا جو علیم بذات الصدور تقاضا کُجا التجا بھی نہیں
وہ منزل ہے نزدیک عاجز کہاں پرائے کُجا اقربا بھی نہیں