یہ زندگی تری، تجھے شرم و حیا نہیں
مقصود ِ زیست سے جو بشر آشنا نہیں وہ نام کا بشر ہے مگر کام کا نہیں
انسان معاملات میں جوبھی کھرا نہیں وہ لاکھ پارسا ہو مگر پارسا نہیں
جو اپنی مشکلات بھی خود حل نہ کرسکے وہ کوئی ہو کسی کا بھی مشکل کُشا نہیں
مکروفریب، بادہ و ساغر، سرود و رقص یہ زندگی تری، تجھے شرم و حیات نہیں
لایا ہے کون اُن کو عدم سے وجود سے جو لوگ کہہ رہے ہیں وجود خدا نہیں
اللہ کا کرم ہے کہ اللہ کے سوا یہ سرکسی کے سامنے اب تک جھکا نہیں
مست مے نشاط جو رہتا ہو رات دن اک راہ زن ہے قوم کا وہ راہنما نہیں
گھبرا نہ اے مریض، خدا پرنگاہ رکھ ایسا کوئی مرض نہیں جس کی دوا نہیں
دُکھ ہو، کہ سُکھ تو مرضی مولا پر سرجھکا مومن نہیں جو پیکر صبر و رضا نہیں
اُس سے کسی بھی فائدے کی آس رکھ نہ تُو سینے میں جس کے دل تو ہے خوف خدا نہیں
تو سامنے رہےمرے میں سامنے ترے اس کے سوا کوئی بھی مرا مُدعا نہیں
وہ جارہا ہے محفل دنیا سے دوستو عاجز کو رنگ محفل دُنیا جچا نہیں