شعائر اللہ کا لفظ متعدد احادیث میں موجود ہے۔ البتہ قرآن پاک میں اس کا ذکر چار مقامات میں ہے۔
مقام اوّل: إن الصفا والمروة من شعائر الله۔ الایۃ ''بے شک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں'' اس آیت میں صفا اور مروہ کو شعائر اللہ کی فہرست میں شمار کیا اور حکم دیا کہ حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والے ان کےدرمیان بھی سعی کریں اس لیے کہ ان کے درمیان دوڑنا دراصل حضرت ہاجرہ علیہ السلام کی یاد کو تازہ رکھنا ہے جبکہ وہ اپنے دودھ پیتے بچے کے لیے پانی کی تلاش میں ان کے درمیان تیز تیز چلی تھیں۔
مقام ثانی:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ ۔ الایۃ ''مؤمنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بے حرمتی نہ کرنا۔'' تفسیر خازن میں ہے: وشعائر الله أعلام دينه أصلها من الإشعار وهو الإعلام واحدتها شعيرة وكل ما كان معلماً لقربات يتقرب به إلى الله من صلاة ودعاء وذبيحة فهو شعيرة فالمطاف والموقف والنحر كلها شعائر لله ''شعائر اللہ سے مراد دین اسلام کے علامات ہیں اس کا اصل لفظ (اشعار) علامت لگانے کے معنی میں مستعمل ہے۔ شعائر کا واحد شعیرۃ ہے ہر وہ چیز جو تقرب الہٰی کی علامات کی حامل ہے ۔ جیسے نماز، دعا، اللہ کے راستے میں جانور ذبح کرنا شعائر اللہ کہلاتے ہیں اور (مشاعر الحج) اگرچہ ظاہراً حواس کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے لیکن اس سے مراد بھی حج کے مقامات ہیں اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مطاف وقوف اور منحر (قربان گاہ) سب شعائر اللہ ہیں۔''
معلوم ہواکہ شعائر اللہ کا اجلال و احترام ضروری ہے۔ ان کی تعظیم میں کوتاہی کرنا یا غیر شعائر اللہ کو شعائر اللہ کی حیثیت دے کر قابل تعظیم سمجھنا شعائر اللہ کے ساتھ استخفاف کے مترادف ہے۔ شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ میں رقم طراز ہیں:
کان أهل الجاھلیة یقصدون مواضع معظمة بزعمم یزورونها و یتبرکون بھا وفیه من التحریف والفساد ما لا یخفیٰ فسدّ النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الفساد لئلاّ یلتحق غیرالشعائر بالشعائر ولئلاّ یصیر ذریعة لعباده غیر الله والحق عندي أن القبر و محل عبادة ولي من أولیاء الله والطور كل ذالك سواء في النهي۔
''زمانہ جاہلیت کے لوگ اپنی عقیدت کے پیش نظر بعض مقامات کو قابل تعظیم سمجھتے تھے ان کی زیارت کےلیے جاتے اور انہیں متبرک سمجھتے لیکن ان کا یہ فعل دین ابراہیمی میں تحریف اور فاسد ہونے کی نشاندہی کرتا تھا۔ لہٰذا اس فاسدانہ فعل کو آنحضرتﷺ نے بند فرما دیا تاکہ غیر شعائر اللہ کو شعائر اللہ کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے غیر اللہ کی عبادت کا باعث نہ بنے۔سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی قبر کسی ولی اللہ کی عبادت کرنے کامقام اور کوہ طور کو متبرک سمجھ کر وہاں جانا بالکل ممنوع ہے۔''
شاہ ولی اللہ کی عبارت صاف پتہ دے رہی ہے کہ کسی مقام کو از خود کچھ عظمت حاصل نہیں اگر اللہ پاک نے کسی مقام کو عظمت عطا فرمائی ہے اور اس کو شعائر اللہ کے لقب سے نوازا ہے اور اس کی تعظیم کا حکم دیاہے تو دراصل وہاں بھی اللہ پاک کی عظمت کا ہی اعتراف ہے اگراس کی تعظیم کا حکم من جانب اللہ نہ ہوتا تو ہم کبھی اس کی تعظیم بجانہ لاتے۔ ظاہر ہے کہ کوہ طور کے ساتھ بھی ایک عظیم الشان تاریخی واقعہ وابستہ ہے لیکن جب آنحضرتﷺ نے وہاں جانے سے روک دیا ہے تو پھر اس کو شعائر اللہ کی فہرست سے خارج سمجھا جائے گا۔زاد المعاد میں ہے: لا یجوز ابقاء مواضع الشرك والطواغیت (صفحہ249ج2) ''یعنی شرک کے اڈوں ، بت خانوں کا باقی رکھنا ناجائز ہے۔''
تیسرا مقام: ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ ''اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جوخدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو (فعل) دلوں کی پرہیز گاری میں سے ہے۔'' اس آیت سےقبل آیت پر غور کیجئے جس کا مضمون یہ ہے کہ صرف ایک خدا کے ہوکر رہو اس کے ساتھ شریک نہ بناؤ اور جو شخص کسی کو خدا کے ساتھ شریک بنائے گا تو اس کو یوں سمجھئے جیسے کہ وہ آسمان سے گر پڑے پھر اس کو پرندے اُچک لے جائیں یا اس کو ہوا کسی دور جگہ پھینک دے ۔ سیاق و سباق پر غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنا بہت آسان ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کے ساتھ جو شخص غیر شعائر اللہ کی تعظیم کررہا ہے وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا رہا ہے اور مشرک کا مال بالکل واضح اور ظاہر ہے ۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے: قال ابن عمر أعظم الشعائر البیت ''عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں: شعائر میں سب سے بڑا شعیرہ بیت اللہ ہے۔''
شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ میں رقم طراز ہیں۔ قرآن پاک ،نماز ،محمد ﷺ ،بیت اللہ ،احرام باندھنے کے لیےنہانا اور احرام کی دور کعتیں پڑھنا بآواز بلندلبیک کہنا ،قربانی کے اونٹوں کا اشعار کرنا، آب زمزم، مدینہ منورہ میں آبادی رکھنا، مسجد نبوی کی زیارت، عام مسجدیں، نماز کے انتظار میں بیٹھنا، اذان کے کلمات کہنا، مسجد اقصیٰ، عرفات، مزدلفہ، منیٰ، قربانیاں وغیرہ شعائر اللہ میں داخل ہیں۔ تفصیلاً ان کے اسرار و رموز سے پردہ کشائی کے لیے (جن کی وجہ سے ان کو شعائر اللہ کی فہرست میں شمار کیا ہے) حجۃ اللہ کا مطالعہ کیجئے۔
چوتھامقام: وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۔ الایۃ ''اور قربانی کےاونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لیے شعائر خدا مقرر کیا ہے ان میں تمہارے لیے فائدے ہیں۔'' قربانی کے جانور شعائر اللہ میں داخل ہیں لہٰذا ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے انہیں آب و دانہ ڈالنے میں بخل سے کام نہ لیا جائے۔محبت اور پیار کے ساتھ ان کی خدمت کی جائے کہ موٹے تاسے معلوم ہوں۔قربانی کے جانوروں کے علاوہ دوسرا کوئی جانور قابل تعظیم نہیں ہے۔اگرچہ تمام جانوروں کی خدمت کرنا اور انہیں آب و دانہ ڈالنا باعث ثواب ہے۔
البتہ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کے مطالبہ پر اللہ کے حکم سے جس اونٹنی کا معجزہ ظاہر فرمایا ۔ چونکہ وہ اونٹنی اٰیتہ من آیات اللہ تھی اس لیے اس کی تعظیم کا حکم دیا گیا اور یہ کہ اسے کچھ ایذا نہ دی جائے اس کے ساتھ خاص ہے۔ حدیث میں ثابت ہے کہ ایک عورت کو اس لیے عذاب ہورہا تھا کہ اس نے بلّی کوباندھ رکھا تھا وہ نہ تو اس کی خوراک کا انتطام کرتی اور نہ ہی اُسے چھوڑتی ۔یہاں تک کہ بلّی بھوک پیاس کو برداشت نہ کرسکی اور مرگئی اور ایک فاحشہ عورت کو اللہ پاک نے معاف فرما دیا کہ اس نے پیاسے کتے کے لیے پانی فراہم کیا اور اس کو مرنے سے بچایا۔ یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ وہ کتے کو اس حالت میں دیکھ کر نہ صرف یہ کہ آبدیدہ ہوئی اور اس پر رقب طاری ہوئی بلکہ اس کی طبیعت میں انقلاب آگیا اور اس نے گناہ کی زندگی سے تائب ہوکر پاک بازی کی زندگی گزارنے کا عہد کرلیا۔
(غیر شعائر اللہ کی تعظیم) پاکستان میں حقیقی اولیاء اللہ اور مصنوعی اولیاء اللہ کی بے شمار قبروں کو غیر شرعی نام (مزارات) سے موسوم کیا جارہا ہے۔ ان کی تعظیم و تکریم میں اس قدر غلو نظر آرہا ہےکہ ایک سچے مسلمان کی آنکھیں غیرت اور شرم سے جھک جاتی ہیں اور وہ اپنی بے بسی پر چند آنسوؤں کے قطرے بہانے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرزمین ایک خدا کی نہیں بلکہ اس میں ہزاروں سے تجاوز نفع نقصان کے مالک اولاد دینے والے خدا موجود ہیں جیسا کہ خالص ہندو آبادی کے وقت یہ ملک دیوتاؤں اور دیویوں کا ملک کہلاتا تھا۔ صرف نام بدلنے سے حقیقت میں تبدیلی ممکن نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان (معاذ اللہ) مزارات کے ارد گرد کے درختوں اور مکڑیوں کو بھی قابل تعظیم سمجھا جاتاہے اور حرم مکہ،حرم مدینہ کے درختوں کی طرح ان درختوں کو بھی احتراماً استعمال میں لانا گناہ سمجھا جاتا ہے پھر وہاں روشنی اور خوبصورتی کےلیے رنگ برنگ کے قمقمے آویزاں کئے جاتے ہیں۔ مزارات کی دیواروں کاحجراسود کی طرح بوسہ لیا جاتاہے۔ خوشبو دار معطر عرقوں سے غسل دیا جاتا ہے اور بڑے اہتمام کے ساتھ عرس منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔نذر و نیاز تحائف و ہدایا جانوروں کپڑوں نقدی کی صورت میں لاکھوں سے متجاوز ہوتے ہیں اور بعض عرسوں میں تو بحد نظر انسانوں کا ہجوم ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کا نقشہ پیش کررہا ہوتا ہے۔العیاذ باللہ۔ رب ذوالجلال والاکرام کی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بس اسی کی تعظیم کریں یا جن چیزوں کو اسنے قابل تعظیم گردانا ہے اور شعائر اللہ کے لقب سے نوازا ہے۔ اس کی تعظیم بجا لائیں کیا محرم الحرام میں (تعزیہ،شبیہ قبر حضرت حسینؓ) ذوالجناح، گھوڑا وغیرہ بھی شعائر اللہ میں داخل ہیں؟ اگر نہیں تو ان شرکیہ افعال سے باز رہنا چاہیے حقیقت یہ ہے کہ شیطان اپنی پوری قوتوں کو انسانوں کے گمراہ کرنے میں صرف کررہا ہے اور انہیں نئی نئی بدعات اور مشرکانہ اعمال و رسوم کے ایجاد کرنے اور پھر ان کو دین اسلام کی صورت بخش رہا ہے۔ لہٰذا اہل توحید کا فرض ہے کہ وہ بیدار ہوں اور اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں۔ خاموش تماشائی نہ بنے رہیں، بلکہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور مخلوق خدا جو خالق حقیقی سے باغی ہوچکی ہے اسے اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرائیں شاید وہ ضلالت و گمراہی کے دلدل سے باہر نکل آئیں اور ان کا دامن اسلام کی لازوال دولت سے بھر جائے۔
موجودہ حکومت: پاکستان میں اس وقت جو حکومت برسراقتدار ہے بحمداللہ وہ یہاں کتاب و سنت کی حکمرانی کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن بڑے ادب و احترام کے ساتھ ہم واشگاف الفاظ سے ان کی خدمت میں اس حقیقت کے اظہار میں کچھ جھجک محسوس نہیںکرتے کہ اسلام نظام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ معاشرہ میں اسلامی روح کارفرما ہو۔ حدود الٰہیہ کا نفاذ ہو، عبادات،معاملات، معاشیات ، اقتصادیات، سیاسیات اوراخلاقیات کا اسلامی چارٹ تیا رکیا جائے اوراس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی پابندی کرائی جائے وہاں اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ مشرکانہ نظریات کی اشاعت پر قدغن عائد کی جائے، بدعات ، خرافات جنہوں نے اسلام کے تابناک چہرے کو گہنا دیا ہے ان کے ازالہ کا حکم دیا جائے۔ غیر اللہ کی پرستش کے اڈوں کو بند کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ یہ ملک جو اسلام کے نام پرحاصل کیا گیاتھا اس میں توحید کے نغمات گونجنے لگیں۔
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ جہاں معمور ہوگا نغمہ توحید سے
شرک معاف نہیں ہوتا : کیا یہ حقیقت نہیں کہ جو چیزیں شعائر اللہ نہیں ہیں انہیں دیدہ دلیری شوخ چشمی سے شعائر اللہ کی فہرست میں شامل کرنا پھرنہ صرف یہ کہ ان کی تعظیم کرنا بلکہ ان کی عبادات کرنا کیا شرک نہیں ہے جبکہ ہم کھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ شعائر اللہ کی عبادت کرنا شرک ہے۔ صر ف ان کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے ان کی عبادت کا حکم نہیں دیا گیا صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔ اس وضاحت کے بعد کتاب و سنت میں کوئ جزئی ایسی موجود نہیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ مزارت،مشاہد و غیرہ شعائر اللہ ہیں یعنی شرعاً ہم پابند نہیں ہیں کہ ان کی تعظیم کریں وہاں اعتکاف بیٹھیں، عبادت کریں، چادریں چڑھائیں ان کاطواف کریں۔ وہاں عرس کی محفلوں کا انعقاد کریں تو جب ان کی تعظیم والے امور جائز نہیں تو ان کے سامنے پیشانی رگڑنا ان کے تصرفات کا نظریہ رکھتے ہوئے ان سے استمداد کرنا ،حوائج کا مطالبہ کرنا شرک نہیں ہے؟ اور کیا ان ناپاک جراثیم سے پاکستان جیسے اسلامی مملکت کو پاک کرنا ضروری نہیں ہے؟ علامہ اقبال کے دو شعر ملاحظہ ہوں اور اسرار و رموز میں فرماتے ہیں ؎
رشتہ آئیں حق زنجیر پا است
پاس فرمان جناب مصطفیٰ است
ورنہ گرد تربتش گردیدے!!
سجدہ برخاک او پا شیدے
وہ فرماتے ہیں کہ اگر قانون خداوندی مجھے پابہ زنجیر نہ کرتا اور مجھے جناب مصطفیﷺ کے فرمان کا پاس نہ ہوتا تو میں حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ کی قبر کا طواف کرتا اور سجدہ کرتا۔ علامہ اقبال کے اشعار ان لوگوں کے لیے کھلا چیلنج ہیں جوان کے افکار کی اشاعت میں کوشاں ہیں اور انہیں معمار پاکستان کے لقب سے نوازتے ہیں کہ کس طرح وہ اپنے دامن کو شرک کی آلودگیوں سے بچاتے ہوئے کتاب و سنت کا سہارا لیتے ہیں۔اگرچہ ان کے دل میں حضرت فاطمۃ الزہراءؓ کا احترام موجزن ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مزار پر پہنچ کر نہ صرف یہ کہ ان کی خدمت میں گلہائے عقیدت کا نذرانہ پیش کریں بلکہ مستی کے عالم میں ان کی قبر کا طواف کرنا چاہتے ہیں لیکن جب وہ شریعت حقہ کےتقاضوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں اور اس میں سرمو انحراف کو گناہ عظیم سمجھتے ہین اور محبت، مستی، جذب کے غیر شرعی تقاضوں کے اتمام سے رُک جاتے ہیں اور ببانگ دہل اس کا اعلان کرتے ہیں۔ فھل من معبّر !