اسلامی تعزیرات ........ نفاذ سے گریز کیوں؟

کچے پکے سیاست دانوں او رکچھ مذہبی رہنما بھی اپنے بیانات میں اس بات کا برملا اظہار کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ فی الحال اسلامی تعزیرات کو نافذ نہ کیا جائے۔ عبوری حکومت نےجب کوڑوں کی سزا کا آغاز کیاتو ملک میں ایک شور برپا ہوگیا۔ایک دہائی اور پکار تھی ۔ غریب مارے گئے! سرمایہ دار بچ گئے جب تک معاشرے کے حالات سازگار نہیں ہوجاتے، ملک سے غربت کاخاتمہ نہیں ہوجاتا۔ اس وقت تک اسلامی سزاؤں کانفاذ نہیں ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی لمبی لمبی تقریروں میں وہی سیاست دان اس بات کو بھی دہراتے چلے جاتے ہیں کہ ''نظام مصطفیٰؐ'' نافذ کرو۔ اس میں کوئی جھگڑا نہیں۔ پاکستان کامطلب کیا؟ لا إله إلا اللہ..... یہ سب مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا نعرہ ہے، مگر جب اس نعرہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی صورت سامنےآتی ہے تو طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے اسے سبوتاژ کیا جاتا ہے۔اسلامی نظام کے کُلی نفاذ میں کچھ امور وضاحت طلب ہوسکتے ہیں۔مگر فی الفور اسلامی تعزیرات کے نفاذ سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔بلکہ معاشرے کی اصلاح صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اسلامی تعزیرات کو مارشل لاء کے ایک ضابطہ کے تحت نافذ کردیا جائے۔ او راس میں کسی قسم کی کوئی نرمی (مداہنت) نہ اختیار کی جائے۔

غربت ایک بہانہ ہے یا حقیقت! یہ کہنا کہ ہمارے معاشرے کی حالت ٹھیک نہیں یا غربت کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا، اس لیے کسی چور کا ہاتھ نہیں کاٹنا چاہیے۔ محل نظر ہے۔یہ ایک یقینی بات ہے کہ پاکستان میں کوئی آدمی بھوک سے دم نہیں توڑتا اور نہ انتہائی غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر چوری کرتا ہے ۔ ہمارا معاشرہ عادی مجرموں ، پیشہ ور چوروں اور ڈاکوؤں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ ہرچور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ ہر چوری کے کیس کی مکمل تفتیش ہو۔ جہاں کہیں ایسا ثبوت مل جائے کہ کسی شخص نے فاقہ کشی سے مجبور ہوکر کھانے پینے کاکچھ سامان چرا لیا ہے اور واقعی اس کےبچےبھوک سے بلک رہے تھے یا اس کے اہل و عیال تین چار دن سےفاقہ کشی کررہے تھے تووہ چوری کے علاوہ کر بھی کیاسکتا ہے۔ تو کون کہتا ہے کہ اس آدمی کا ہاتھ کاٹ دو ۔ حضرت عمرؓ کی مثال تاریخ میں موجود ہے کہ ایسے ہی ایک موقع پر آپؓ نے چوری کے جرم میں ہاتھ نہیں کاٹا بلکہ اس چور کے پڑوس کی مذمت کی کہ اس نے حق ہمسائیگی ادا نہیں کیا اور آنحضرتؐ کے اس فرمان پر عمل نہیں کیا۔

''لیس المؤمن الذي یشبع وجارہ إلی جانبه جائع''

(وہ ہرگز مومن نہیں ہے جو خود پیٹ بھر کرکھاتا ہے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا سوتا ہے۔)

فاقہ کشی یا غریب اور مفلس عوام بنکوں کو کبھی نہیں لوٹتے۔ یہاں دن دیہاڑے بنک لوٹ لئے جاتے ہیں۔لاکھوں کروڑوں روپے کی دوکانیں رات کو محض اس لیےنہیں توڑی جاتی ہیں کہ وہ لٹیرے، غریب، قلاش اور فاقہ کش ہیں۔ بلکہ یہ پیشہ ور چوروں کے کرتوت ہیں او ران کے سرپرست بڑے بڑے سرمایہ دار او رجاگیردار ہیں۔کہیں پولیس خود، جوکہ شہریوں کے جان ومال کی محافظ ہے، اس میں ملوث ہوتی ہے۔ دیہات میں خصوصاً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہاں وڈیروں اور جاگیرداروں کی آپس میں ٹھنی رہتی ہے اپنے چودہراہٹ قائم رکھنے کے لیے وہ اپنے مزارعین اور نوکروں چاکروں کو چوری کی ترغیب دیتے ہیں۔ خود رسہ گیروں کا رول ادا کرتے ہیں۔منشا صرف یہ ہوتا ہے کہ آس پاس کے دیہات کے لوگ اُن کے دست نگر رہیں۔ اگر کبھی کسی غریب آدمی کوجائز شکایت بھی ہو تو وہ تھانے دار کے پاس اس زمیندار یاوڈیرے کی وساطت کے بغیر جاتے ہوئے بھی خوف کھاتا ہے، رپٹ درج کرانی مقصود ہو یا پرچہ درج کرنا ہو، جب تک اس علاقہ کا چودھری اس کی سفارش نہیں کردیتا ۔تھانے دار صاحب اس کے کام آنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بعض علاقوں میں ابھی تک چوری کو بہادری کانشانہ سمجھا جاتا ہے ۔ جب تک خاندان کانوجوان چوری کے ذریعے کسی کابیل، گائے یا گھوڑا نہیں کھول لیتا وہ جوان تصور نہیں کیاجاتا۔ اور جب تک کسی لڑکی کو اغوا نہ کرلے ، شادی کے قابل نہیں گردانا جاتا۔ ان حالات میں بتائیے کہ کس طرح یہ کہا جاسکتا ہےکہ پاکستان میں غربت کی بنا پر چوریاں ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہاں ہاتھ کاٹنے کی سزا نافذ نہیں ہونی چاہیے اگر معاشرے کوسنوارنے کی شرط پر ان تعزیرات کے نفاذ کو ہم آئندہ پر ٹالتے رہے تو یہ آپ دیکھیں گے کہ ایک ہزارسال میں بھی یہ معاشرہ درست نہ ہوسکے گا۔ کیا محمد عربیﷺ نے اپنے معاشرے میں ان تعزیرات کو نافذ نہ کیا تھا۔

آنحضرتﷺ کے زمانے کےحالات کا تقاضا یہ ہوسکتا تھا کہ ابھی معاشرہ پوری طرح تیار نہیں۔ غربت و افلاس کا خاتمہ پوری طرح نہیں ہوپایا۔ لوگوں کے دل و دماغ میں زمانہ جاہلیت کے جرائم کے نقوش اس قدر پختہ ہیں کہ ابھی ان کے لیے یہ سزائیں نافذ کرنا پیش از وقت ہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے معاشرے کی ان جعلی معذرتوں کی ان معنوں میں پروا نہیں کی۔ جن کاواسطہ یہ سیاستدان دےرہے ہیں ۔ممکن تھاکہ رسول کریمﷺ فرما دیتے کہ میں تو صرف معاشرےکی اصلاح کے لیے آیا ہوں۔ میرے بعد جب معاشرے کے حالات صحیح معنوں میں سازگار ہوجائیں گے تو ان سزاؤں کو نافذ کردیاجائے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ رسول اکرمﷺ نےمحض تئیس سالوں میں دین کوعملی جامہ پہنا دیا۔ او رہم پاکستان میں 30 سالوں سے معاشرے کو سنوارنے کاکام ہی کررہے ہیں ۔ سبحان اللہ! بخاری و مسلم میں ہےکہ جب بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اور ثبوت فراہم ہوگیا تو عورت نے اقرار جرم کرلیا۔ رسول اکرمﷺ نے قرآن کا حکم نافذ کرتے ہوئے اس عورت کا بایاں ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرما دیا۔ بڑے بڑے صحابہ کریمؓ اس سزا کے نفاذ پرمتحیر تھے۔ آپس میں مشورے بھی ہوئے کہ رسول اکرمﷺ سے درخواست کی جائے کہ عورت کا ہاتھ نہ کاٹا جائے ۔ کوئی جرمانہ کردیاجائے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ جو آنحضرتؐ کے چہیتے تھے۔ ان کو اس کام پر مامور کیا گیا۔ اس لیےکہ کسی دوسرے صحابی کو آنحضرتؐ کے پاس سفارش لے جانے کی جرأت نہ تھی۔ حضرت اسامہؓ نوجوان تھے ۔ بڑے بوڑھوں کی باتوں میں آگئے۔ رسول اکرمﷺ کے پاس حاضر ہوگئے۔ صحابہؓ کی آرزو پیش کی۔ رسول اکرمﷺ نے جونہی حضرت اسامہؓ کی زبان سے قرآن مجید کی مقررہ کردہ حد کو بدل دینے کی بات سنی۔ چہرہ انور متغیر ہوگیا۔ غصہ کے عالم میں فرمایا۔اے اسامہ أتشفع في حد من حدود اللہ۔ وأیم اللہ لو کانت فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت یدھا۔ ''(تم اللہ کی مقرر کردہ حدوں میں سفارش لے کر آئے ہو۔ خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔)''

گویاپیغمبرؐ کوبھی سزا تبدیل کرنے کا حق نہیں۔ اگرحالات کی بات درست ہے تو رسول اکرمﷺ اس صنف نازک پر ضرور رحم فرماتے یا قرآن میں چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا کے نازل ہونے کے بعد پہلا واقعہ سمجھ کر درگزر فرما دیتے۔لیکن صحیح اسلامی سپرٹ یہی ہے کہ جب جرم ثابت ہوجائے ، عدالت کے دروازے کھٹکھٹا دیئے جائیں۔مجرم اعتراف جرم کرلے۔ اس وقت کسی انسان حتیٰ کہ پیغمبر وقت کو بھی اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود میں کوئی ترمیم کرسکیں یا اس میں اپنی رائے سے کمی بیشی کردے۔ قرآن حکیم واشگاف الفاظ میں کہتا ہے۔

''وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ '' (سورۃ مائہ:38)

''اور چور مرد ہو یا عورت ! دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ اللہ کی طرف سے اس جرم کی سزا ہے۔ جو اس سے سرزد ہوا۔''

مجبوروں کا ہاتھ : ہاں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر کوئی انسان حالات سے مجبور ہوکر غربت و افلاس کے ہاتھوں یا فاقہ کشی سے تنگ آکر ایسی چھوٹی موٹی چوری کا مرتکب ہو۔ جس سے اس کا منشا ہی پیٹ کی دوزخ میں ایندھن ڈالنا ہوتو اسے ہرگز ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جائے گی۔ جج صاحبان خود چوری کے پس منظر او رپیش منظر سے واقف ہونے کے بعد ایسے آدمی کی سزا معاف کرسکتے ہیں کہ اسلام اس قسم کے ظلم کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن جہاں عادی مجرموں ، پیشہ ور چوروں ،جیب کتروں اور رسہ گیروں کا ثبوت فراہم ہوجائے۔ تو ان کے ہاتھ کاٹنے میں ذرہ بھر دیرنہیں کرتا۔ رائج الوقت قانون کی بے بسی میں اکثر یہی ہوتا ہے کہاگر کوئی مجرم عین رنگے ہاتھوں پکڑا بھی جائے تو رائج الوقت قانون کےتقاضے کچھ ایسے بےہنگم ہیں کہ وہ اس مجرم کو پیشہ ور بناکر چھوڑتے ہیں۔ ایف آئی آر درج ہوتی ہے ۔پولیس حکام تفتیش کے لیے ریمانڈ لیتے ہیں۔ اگرمقدمہ عدالت کے پاس چلا بھی جائے تو دو تین سال محض جیل کی قیدی اس انسان کو مجرم بنانے کے لیے کافی ہوتی ہے اگر اس کے بعد وہ بری بھی ہوجائے تو متوازن زندگی بسر کرنا اس کے بس کی بات نہیں رہتی۔ دوسری طرف اگر وہ واقعۃً مجرم ہے تو پھر اس کو خواہ مخواہ دو تین سال عدالتوں کے چکر اور جیل کی چار دیواری میں رکھنا بھی ایک ناانصافی ہے انگریزی کا مشہور مقولہ ہے۔Justice Delayed is no Justic (انصاف میں تاخیر انصاف کی نفی ہے) اس لحاظ سے صرف اسلامی سزا او راسلامی طریق انصاف ہی وہ قاعدہ ہے کہ جس سے بے گناہ کو تو جلد چھٹکارا مل جاتاہے۔ لیکن ایک گنہگار یا مجرم جلد سے جلد اپنے کیفر کردار کو پہنچ جاتا ہے۔ یہ بات باقی انسانوں کے لیے بھی تازیانہ عبرت ثابت ہوتی ہے۔

رجم : حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت زیدؓ بن کالد جہنی سے روایت ہے ۔ دو اعرابی آنحضرتﷺ کے ہاں آئے۔ایک نےکہا۔ میرا بیٹا اس آدمی کی بیوی سے زنا میں ملوث ہوگیا ہے۔ جس سے اس نے 100بکریاں او رایک لونڈی لے کر اسے رہا کردیا۔ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیں۔ آپ ؐ نے فرمایا۔بکریاں او رلونڈی تجھے ہی ملیں گی۔ تیرے بیٹے کے لیے 100 کوڑے او رایک سال کی جلاوطنی۔ پھر آپؐ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص کو فرمایا۔ اے انیس، جاکر اس کی بیوی سے پوچھو۔ اگر وہ جرم کا اعتراف کرے تو اُسے رجم کردے۔بدوکی بیوی نے اعتراف کیا اور رجم کردی گئی۔(بخاری، مسلم، ابودؤد، ترمذی، نسائی)

ہم ان ہمدردوں سے پوچھتے ہیں کہ جو لوگ معاشرے کی اصلاح کا بہانہ بنا کر اسلامی تعزیرات کے نفاذ کو ملتوی رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے دل اسلام کی حقانیت سے خالی تو نہیں ہیں۔اسلام پورے کا پورا ہی نافذ ہوسکتاہے۔اگر آدھا حصہ آج نافذ کیاجائے اور آدھا آنے والے کل پر چھوڑ دیاجائے تو اسلام کبھی اپنی اصلی اور حقیقی شکل میں نافذ نہیں ہوسکتا۔اسلام میں آدھا تیتر اور آدھا بیٹر والی بات نہیں ہے بلکہ !

دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا ..... سراسر موم ہو یاسنگ ہوجا

اللہ کاارشاد ہے:

''يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ''

(اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو)

اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اسلام کے بطور مکمل نظام حیات کے قبول کیا جائے۔ ایسانہ ہوکہ یہود و نصاریٰ کی طرح ہمیں بھی یہ وارننگ دی جائے۔

''أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ'' (بقرہ:48)

(کیا تم کتاب کے بعص حصوں پرایمان لائے ہو او ربعض کاانکار کرتے ہو۔ پس ایسے(منافقوں) کی سوائے اس کے اور کیا سزا ہوسکتی ہے کہ انہیں اس دنیا کی زندگی میں ذلیل اور رسوا کیاجائے اور یوم آخرت میں ان کے لیے اس سے بھی سخت ترین عذاب ہوگا۔)

خوئے بدرا بہانہ بسیار: اگر حقیقت حال کاجائزہ لیاجائے تو یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ مسلمان آج یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر (حذوالنعل)گامزن ہیں۔نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی حد تک تو ہم کتاب اللہ کو مان رہے ہیں۔ مگر جہاں تک زکوٰۃ، عشر کے اجتماعی نظام کے نفاذ کا تعلق ہے۔ اس کے لیے ہم آسانی سے تیار نیہں۔ سُود کی لعنت بھی اس بہانے جاری ہے کہ بین الاقوامی تجارت میں بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے ۔ چین میں اندرون چین سُود کا لین دین سرے سے غائب ہے۔ 80 کروڑ انسان نہ جانے کس طرح سُود کے بغیر معاشرے میں زندہ ہیں اور ایک ہم ہیں کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایں وآں کرکے اس قبیح جرم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ جس نے معاشرے کاخون چوس لیا ہے۔ یہی حال شراب خانماں خراب کا ہے۔

اعلان تو کردیا کہ اس ملک میں شراب حرام ہے مگر شراب کی سمگلنگ ابھی تک جاری ہے۔ نہ اعلان کرنے والے مخلص تھے اورنہ پینے والوں پراس کا کوئی اثر ہوا۔ اس لیےکہ قانوناً جس چیز کو ممنوع کیا گیا۔ اس کے لیے تعزیر نافذ نہیں۔ اگر دوچار شرابیوں کو 40 یا 80 کوڑے سرعام لگا دیئے جائیں تو دو دن میں شراب بند ہوسکتی ہے۔ اس کی ابتدا سب سے پہلے معزول وزیراعظم سے ہونی چاہیے جس نے جلسہ عام میں ہزاروں انسانوں کے سامنے واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا تھا ''کہ ہاں تھوڑی سی پیتا ہوں (جلسہ عام لاہور)'' شراب پیتا ہوں۔ لوگوں کا خون نہیں پیتا۔ (فیصل آباد)بعد میں واقعات نےثابت کردیا کہ شراب کہ ساتھ بندوں کاخون بھی پیتے ہیں۔زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کےسلسلے کی اعانتیں اپنے ہی اکاؤنٹ میں جمع کراتے ہیں او رقومی خزانہ سے اپنی جماعت اور ذاتی اغراض کے لیےذاتی مفاد بھی حاصل کرتے ہیں۔لاکھوں اور کروڑوں کے حساب سے۔

کیا اسلامی سزائیں ظالمانہ ہیں؟: معاشرے کی اصلاح کی صرف ایک صورت ہوسکتی ہے کہ اسلامی تعزیرات کو جلد سے جلد نافذ کیا جائے۔زنا ہمارےمعاشرے میں اس قدر رواج پاگیا ہے کہ دن دہاڑے عصمت و عفت کے دامن تار تار ہورہے ہیں۔مگر ظالم او رمجرم اس معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں۔ وہ ضمانت پر رہا ہوکر مقدمات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔بے گناہ مجرم اور مجرم باعزت شہری قرار پاتے ہیں۔ اسلامی سزاؤں کےہ بارے میں ایک عام تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ سزائیں وحشت ناک ہیں ہم اس مہذب دور میں ان پرکیسےعمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ مہذب دنیا کے رہنے والے آج خود اس مصیبت میں گرفتار ہیں کہ جرائم کاقلع قمع کیسے ہو؟ اگر یورپ کی روشن خیالی، تعلیم اور تہذیب و شائستگی سے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے اُن سے پیار و محبت سے جرائم ختم ہوسکتے تو یورپ کے سارے ممالک میں کوئی مجرم نظر نہ آتا اور کوئی جرم ان ممالک میں دیکھنے کونہ ملتا۔مگر یورپ میں جرائم کی برھتی ہوئی تعداد سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ صرف تہذیب و شائستگی کا دامن تھام لینے سے جرائم کا قلع قمع نہیں ہوسکتا۔ بلکہ ہمیشہ سخت تعزیرات ہی سے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے اور ہوگی۔

رسول اکرمﷺ کے زمانہ میں ہی زنا کے جو بھی واقعات رونما ہوئے۔ جرم ثابت ہونے پر آنحضرتؐ نے قرآن کے فرمان کے مطابق زنا کی حد جاری کی۔قبیلہ غامدیہ (جو بنو جہینہ کی شاخ ہے) کی عورت نے جب کھلے طور پر جرم کا اعتراف رسول اکرمﷺ کے سامنے کیا۔ تو آپؐ نے بچے کی پیدائش تک عورت کوانتظار کرنے کا حکم دیا۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد وہ ندامت کی ماری پھر آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے کہا جاؤ بچے کو دودھ پلاؤ۔ دودھ چھڑانے کے بعد آنا۔ دودھ چھڑانے کے بعد حاضر ہوئی اور عرض کیا۔ مجھ پر حد جاری کی جائے۔ آپؐ نے بچےکو پرورش کے لیے ایک شخص کےحوالے کیا اور عورت کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ رجم سے وہ عورت فوت ہوگئی۔ تو آپؐ نے خود اس کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ خالد بن ولید نے غامدیہ کا ذکربُرائی سے کیا تو آپؐ نے فرمایا: ''مهلاً یا خالد! والذي نفسي بیدہ لقد تابت توبة لوتابھا صاحب مکس لغفرله'' (خالد صبر کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ظالمانہ ٹیکس وصول کرنے والا بھی وہ توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا) (مسلم)

عمران بن حصینؓ کی روایت ہے کہ جب حضرت رسول اکرمﷺ نے غامدیہ کا جنازہ پڑھنے کی تیاری کی تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ آپؐ زانیہ کی نماز جنازہ پڑھیں گے ۔ آپؐ نے فرمایا: اے عمرؓ!'' لقدتابت توبة لو قسمت بین أھل المدینة لو سعتهم '' (مسلم)( اس نے ایسی تو بہ کی کہ اگراہل مدینہ پر تقسیم کردی جائے تو سب کے لیےکافی ہوگی۔)

دوسرا مشہور واقعہ ماعز بن مالک اسلمی کا ہے۔ماعز قبیلہ اسلم کا ایک یتیم لڑکا تھا۔ جس نے ہزال بن نعیم کےہاں پرورش پائی تھی۔ یہاں وہ ایک آزاد کردہ لونڈی سے زنا کربیٹھا۔ حضرت ہزال نے کہا۔ جاکر نبی کریمﷺ کو اپنے گناہ کی خبر دے۔ شاید وہ تیرے لیے دعائے مغفرت فرمائیں۔ اس نےجاکر مسجدنبوی میں اقرار گناہ کیا او رکہا مجھے پاک کردیجئے۔ آپؐ نےمنہ ایک طرف کرلیا اور فرمایا: ''ویحك ارجع فاستغفر اللہ و تب إلیه'' (جا اور جاکر اللہ سے توبہ و استغفار کر۔)

ماعز نے پھر دوسری دفعہ سامنے ہوکر اعتراف کیا۔ آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا۔ اس نے تیسری بار اقرار کیا۔ آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اسے متنبہ کیا کہ اگر چوتھی بار تو نے اقرار کیا تو رسول کریمؐ حد جاری کردیں گے۔ماعز نے پھر اعتراف گناہ کرلیا۔ اب رسول کریمؐ نے مختلف سوالات کے ذریعہ یہ جانچا کہ یہ شخص پاگل تو نہیں۔جب ثابت ہوگیا ۔پاگل نہیں تو آپؐ نے اُسے رجم کرنے کا حکم دے دیا۔ آنحضرتﷺ نے ماعز کی نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت بریدہؓ کی روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نےفرمایا:

''استغفر والماعز بن مالك لقد تاب توبةلو قسمت بین أمة لو سعتهم''

(ماعز بن مالک کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ اس نےایسی توبہ کی ہے کہ پوری اُمت پر تقسیم کردی جائے تو سب کے لیےکافی ہوگی۔)

ان دو واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے اعتراف جرم جو چار شہادتوں کا درجہ رکھتا ہے ۔ معترف پر شریعت کی حد نافذ کی۔ اس میں کسی کی نرمی اختیارنہ فرمائیں۔ یہی قرآن کا منشا ہے۔سورۃ النور میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ'' (النور:....)

(زانیہ اور زانی میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو اور اللہ کے دین میں کسی قسم کی نرمی اختیار نہ کرو۔اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور مؤمنین کا ایک گروہ ان کےعذاب کا مشاہدہ کرے۔)

اس آیت کے تجزیے سے تین احکامات صاف اور واضح ہوکر سامنے آتے ہیں۔ آیت میں فوجداری قانون کے لیےبھی ''دین اللہ'' کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔معلوم ہواکہ صرف نماز ، روزہ او رحج و زکوٰۃ ہی دین نہیں ہیں۔ مملکت کا قانون بھی دین ہے۔دین کو قائم کرنےکا مطلب صرف نماز ہی قائم کرنے نہیں ہے۔ بلکہ اللہ کاقانون اور نظام شریعت قائم کرنا بھی دین ہے ۔جہاں یہ چیز قائم نہ ہو وہاں نماز اگر قائم ہو بھی تو گویا ادھورا دین قائم ہوا۔جہاںاس کو رد کرکے دوسرا کوئی قانون اختیار کیاجائے وہاں کچھ او رنہیں خود دین اللہ کورد کردیاگیا۔

''مَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ هم الظلمون هم الفسقون ''

(جو لوگ اللہ حکم کےمطابق فیصلے نہیں کرتے۔ وہ لوگ کافر ہیں وہ ظالم ہیں وہ فاسق ہیں )

جو لوگ اسلامی تعزیرات کے نفاذ سے الرجک ہیں۔ سُود، شراب، جُوا،زنا اور دوسری لعنتوں کو معاشرے سے ختم کرنا نہیں چاہتے۔ عوام کو صرف نماز روزے کی چھٹی دے کر نظام مصطفیٰؐ کے نافذ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ اللہ، قرآن، رسول اکرمؐ اور عوام سے انصاف نہیں کرتے۔ بقول قرآن!

''في قلوبهم مرض فزادهم الله مرضا''

(ان کےدلوں میں منافقت کی بیماری ہے او راللہ ان کی بیماری کے بڑھنے کے اسباب انہیں مہیا کرتے رہتے ہیں)

اور اللہ کا فیصلہ منافقون کے بارے میں بہت واضح ہے۔إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ۔

قرآن نے ایسے منافقوں کے انجام سے بھی خبردار کیا ہے۔ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا

ثابت ہوا کہ اسلامی تعزیرات سے گریز ایک بہت بڑی منافقت ہے جولیڈر اس قسم کے بیان دے رہے ہیں کہ ابھی معاشرہ کی حالت ٹھیک نہیں۔ وہ پاکستانی عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ اسلام سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ محض کرسی کی خاطر اسلام اسلام کی رٹ لگا رہے ہیں۔!

رُخ پرنقاب مصلحتوں کے پڑے ہوئے

لب پرزمانہ سازی کی مہریں لگی ہوئیں!

جیسے زبان و دل میں کوئی ربطہ ہی نہیں۔اس منافقت کے ہاتھوں آج ہم دنیامیں ذلیل و رسوا ہیں۔

آیت سے دوسری بات یہ ابھر کر سامنے آجاتی ہے کہ اللہ کی مقرر کردہ حدود میں یا اس کی متعین کی ہوئی سزاؤں میں کسی قسم کی نرمی یا مجرم کے لیے رحم اور شفقت کا کوئی جذبہ سزا نافذ کرنے میں مزاحم نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ نے جوسزا تجویز فرمائی ہے او رجس قدر فرمائی ہے کسی اور سزا کے اسے بدل نہیں دینا چاہیے ۔ کوڑوں کی بجائے کوئی اور سزا دینا اگر رحم اور شفقت کی بنا پر ہو تو معصیت ہے اور اگر اس خیال کی بنا پر ہو کہ کوڑوں کی سزا ایک وحشیانہ سزا ہے تو یہ قطعی کفر ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔ خدا کو خدا بھی مانا او راس کو معاذ اللہ وحشی بھی کہنا صرف انہی لوگوں کے لیےممکن ہے جوذلیل ترین قسم کے منافق ہیں۔

شفقت یا معصیت : رسول اکرمﷺ کی ایک حدیث ہے۔آپؐ نے بڑی وضاحت سے فرمایا: '' یؤتیٰ بوال نقص من الخدسوطاً فیقال له لم فعلت ذالك فیقول رحمة لعبادك فیقال له أنت أرحم مني فیؤمر به إلی النار و یؤتی بمن زاد سوطاً فیقال له لم فعلت ذلك؟ فیقول لینتھو عن معاصیك فیقول أنت أحکم بهم مني؟ فیؤمر به إلی النار۔''

(قیامت کے دن ایک حاکم لایاجائے گا ۔جس نے اللہ کی مقرر کردہ حد ، سزا، میں سے ایک کوڑا کم کردیا تھا۔ پوچھا جائے گا کہ یہ حرکت تو نے کیوں کی؟ وہ کہے گا؟ تیرے بندوں پر رحم کرتے ہوئے۔ ارشاد ہوگا: اچھا تو تُو مجھ سے زیادہ ان پرمہربان تھا؟ پھر حکم ہوگا۔اے لے جاکر دوزخ میں ڈال آؤ۔ ایک دوسرا حاکم لایا جائےگا ۔ جس نےمقرر حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کیا ہوگا۔پوچھاجائے گا ۔ تم نے یہ حرکت کیوں کی؟ وہ کہے گا۔ اس لیےکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں۔ ارشاد ہوگا اچھا تو ان کےمعاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا؟ پھر حکم ہوگا اسے جاکر دوزخ میں ڈال آؤ) (تفسیرکبیر:جلد6 ص225)

اس حدیث کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ وہ کس طرح ایسی جسارت کرتے ہیں کہ اسلامی سزاؤں کےنفاذ میں انہیں وحشت و بربریت نظر آتی ہے۔ معاشرہ ٹھیک نہیں۔ایسے لیڈروں کو عقل کےناخن لینے چاہیئں۔

آیت سے تیسری بات یہ واضح ہوئی کہ شریعت کی سزا علی الاعلان چوراہے یا Public Place (میدان)میں دینی چاہیے کہ مجرم ذلیل و خوار ہو اور عوام الناس کو عبرت حاصل ہو ۔ چو رکےہاتھ کاٹنے پربھی فرمایا۔ جزاء بما كسبا نكالا من الله۔

(ان کے کئےکااللہ کی طرف سے بدلہ او رجرم کو روکنے والی سزا)

یہاں بھی فرمایا کہ زانی کو سرعام لوگوں کے سامنے کوڑے لگاؤ۔ اسلامی قانون میں سزا کے چار مقصد ہیں۔ اوّل یہ کہ مجرم سے اس کی زیادتی کا بدلہ لیا جائے او راس کو بُرائی کا مزہ چکھایا جائے۔ دوم یہ کہ اسےاعادہ جرم سے باز رکھا جائے۔ سوم یہ کہ اس کی سزا کو معاشرے میں عبرت بنا دیا جائے تاکہ معاشرے میں جودوسرے لوگ بُرے میلانات رکھنے والے ہوں ان کے دماغ کاآپریشن ہوجائے اور وہ اس طرح کے کسی جرم کی جرأت نہ کرسکیں۔ چہارم یہ کہ اس دنیا میں شرعی سزا کے نفاذ سے آخرت میں اس گناہ کے بارے میں بازپرس نہ ہوگی۔آخرت میں وہ اس سزا سے بری الذمہ قرار دے دیاجائے گا۔

یہ اسلامی تعزیرات کی حکمت ہے۔جس کی وجہ سے سعودی عرب میں جرائم کی شرح کم مگر امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور خود ساختہ مہذب ملک میں زیادہ ہے۔

صحابہؓ کرام او رہم : ایک طرف اسلامی نظام کے نفاذ کا دعویٰ اور دوسری طرف اسلامی سزاؤں کے نفاذ سے گریز کرنے والے لیڈروں سے کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا تعزیرات کے یہ احکامات صرف رسول اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے معاشرے کے لیے شروع ہوئے تھے؟ کوڑوں او رہاتھ کاٹنے کی سزائیں صرف صحابہ کرامؓ اور صحابیات کے لیےمخصوص تھیں۔ او رہم صحابہ کرامؓ کی نسبت اس قدر زیادہ مہذب، شائستہ اورقابل عزت و نیک ٹھہرے ہیں۔ کہ ہمیں یہ سزائیں وحشت و بربریت نظر آئیں۔ عہد نبوی میں اگر بنو مخزوم کی عورت کا ہاتھ کٹ سکتا ہے ۔ بنوجہینہ کی عورت کو رجم اور ماعز بن مالک اسلمی کو سنگسار کیا جاسکتا ہے ۔ حضرت عمرؓ کے بیٹے کی پشت پر کوڑے برس سکتے ہیں تو اس دور میں کون ایسا صاحب عزوجاہ ہے۔جو ان سے مستثنیٰ قرار دیاجاسکتاہے۔پس چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے ہمارامطالبہ ہے کہ وہ فی الفور عدالتوں کو ایسے جرائم پر اسلامی تعزیرات کے نفاذ کا حکم دے دیں۔

قانون شہادت قابل عمل ہے: اسلام کے قانون شہادت پر بڑے اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ او راسے ناممکن العمل گردانا جاتا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ چونکہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ دروغ گوئی اور رشوت کے ذریعے جھوٹی شہادت دینےکا رواج بہت زیادہ ہے لہٰذا ہم اسلام کے معیار انصاف پر پورے نہیں اتر سکیں گے۔ یہ خدشات محض مفروضوں پر مبنی ہیں۔ یہ تسلیم کہ کچھ لوگ جھوٹی شہادتوں کاکاروبار چمکائیں گے ۔ مگر اس کامطلب یہ نہیں کہ ہمیں اسلامی عدل و انصاف کا آغاز ہی نہیں کرنا چاہیے۔ اب بھی بہت سے بےگناہ جھوٹی شہادتوں کی بنیاد پرتختہ دار پرلٹکا دیئے جاتے ہیں او رمجرم اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر انصاف کی آنکھ سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ جس وجہ سےبہت سے لوگوں کا جھوٹ اور دروغ گوئی میں حوصلہ بڑھتا ہے۔اس لیے کہ جھوٹی گواہی پرکوئی سزا نہیں ہے۔ اگر ہم اسلام کی تعزیرات نافذ کردیں تو ہمیں یقین ہے کہ یہ سلسلہ بھی بند ہوجائے گا اس لیے کہ جھوٹی گواہی ثابت ہونے پر جھوٹے گواہ کو بھی حد قذف کی سزا دیجائے گی۔ اسی قسم کے دیگر واقعات میں بھی جھوٹے گواہوں کو 80 کوروں (حد قذف)کی سزا دی گئی تو معاشرہ آئندہ ایسے لوگوں سے پاک ہوجائے گا۔

سورہ نور میں ہے:

''وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا'' (24: 4)

(جو لوگ پاک دامنہ عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں پھر چار گواہ پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ انہیں80 کوڑے لگاؤ اورجب تک توبہ کرکے راہ راست پر نہ آجائیں کبھی ان کی گواہی معتبر نہ جانو۔)

تعزیرات کےنفاذ کا آغاز کیجئے: ایک لمحے کے لیےچار گواہوں کی شہادت سے صرف نظر کرلیجئے۔لیکن خدارا مجھے سمجھائیےکہ ان مقدمات پر ہمارا ردعمل کیا ہے۔ جہاں کسی شہادت یا ثبوت کی ضرورت نہیں۔ماضی قریب کی اخباروں میں قتل کے دو تین مشہو رمقدمات ہر قاری کی نظر سے گزرے ہوں گے۔ان کی بھیانک تفصیلات ہمارے سامنےآرہی ہیں۔مثلاً سمن اباد کے ایک متمول احمدداد خان کے اکلوتے لخت جگر ''اعجاز احمد عرف پپو'' کو صرف 40 ہزارروپے کے مطالبے کی بناپر انتہائی سفاکی سے گلا گھونٹ کر مار دیا گیا۔ قاتل گرفتار ہوچکے ہیں۔ خود قالتوں نے (نثار احمد، افراق احمد، رب نواز، بقراحمد) اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔اب جبکہ جرم کا اعتراف عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے ہوچکا ہے تو ان مجرموں کو مزید کچھ عرصے کے لیے جیل میں رکھنے کا کیاجواز ہے۔؟یہاں کسی شہادت کی ضرورت نہیں۔ ایسے خونخوار قاتلوں کوجلد سے جلد سرعام پھانسی دینی چاہیے تاکہ شریعت کا نفاذ پورا ہوسکے۔ اور شہریوں میں جان و مال کے تحفظ کااحساس پیدا ہو۔

دوسرامشہور کیس عارف والا (ضلع ساہیوال) کےقریب ایک دیہات میں رات کےوقت سوتے میں گیارہ افراد کو جلا دینے کا ہے۔ ان افراد میں معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ قاتل گرفتار ہوچکا ہے ۔ واردات کی تفصیلات اس نے خود بتائی ہیں۔جرم کااعتراف بھی کرلیا ہے۔ اب ایسے مقدمات میں کسی شہادت کی گنجائش باقی ہے؟ جو مقدمات شہادت طلب ہیں ان پر بغیر شہادت کےسزا نہ دی جائے۔ شریعت کا تقاضا وہاں ہرصورت پورا کیاجائے۔ مگر جہاں جرم اس قدر واضح اور نمایاں ہو اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ہی نہ ہو۔ وہاں خواہ مخواہ شک کا فائدہ(Benefit of Doubt) دینے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی؟ ہمارےمعاشرے میں رائج الوقت قانون (1935ء کا انڈیا ایکٹ ) کے مطابق پہلے ملزموں کے خلاف چالان عدالت میں پیش ہوں گے۔ پھر سال ڈیڑھ سال مقدمات کی کارروائی جاری رہے گی ۔مجرم جیل میں سڑتا رہے گا۔ یہ بلاوجہ اس پر ظلم ہے۔اگر رہابھی ہوگیا تو عادی مجرم بن کر جیل سے باہر آئے گا۔ اگر اسے پھانسی کی سزا بھی سنا دی جائے تو دو تین سال اس کاجیل میں رہنا کس کھاتے میں ڈالا جائے گا ؟ اس دور ان فریقین اپنی زمینیں بیچ بیچ کر بھی وکیلوں کی فیس اداکرتے رہیں گے حتیٰ کہ دونوں گھرانے دیوالیہ ہوجائیں گے۔ اس سے کہیں زیادہ بہتر یہ نہیں کہ مجرم کوزیادہ سے زیادہ سات دنوں میں باعزت بری کردیا جائے یاجرم ثابت ہونے پر تختہ دار پر کھینچ دیاجائے۔ جیسا کہ شاہ فیصل مرحوم کے کیس میں سعودی عرب میں ہوا۔

قاتل او رمجرم ہمدردی کے مستحق: ہماری بدبختی کی یہ انتہا ہے کہ ہم قاتلوں او رمجرموں کو تو اپنی مروت اور شفقت کا مستحق سمجھتے ہیں۔مگر جس خاندان کے ساتھ ظلم ہوا اس کے ساتھ ہمیں کوئی ہمدردی نہیں پھر یہ کہاں لکھا ہے کہ جہاں شہادتیں پوری نہ ہوں، وہاں بھی قرآن کی حد جاری کردی جائے؟ ایک آسان فہم بات یہ ہے کہ جہاں تین گواہ موجود ہیں۔ مگر ایک گواہ موجود نہیں۔ وہاں شریعت قرآنی حدود کو نافذ کرنے کا حق نہیں دیتی یا اگر چار شہادتیں بھی موجود ہوں مگرحالات اور قرائن سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ واقعہ حقیقت کے خلاف ہے، جرم کے ثبوت کے لیے شہادتیں ناکافی ہیں، یا شک کی بنیاد پرموجود ہے تو وہاں شک کافائدہ ہرحال میں مجرم کو ملے گا۔

اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ حجت قاطعہ ہے کہ مغیرؓ بن شعبہ (بصرہ کے گورنر) اور ابوبکرہ کے تعلقات آپس میں کشیدہ تھے۔ دونوں کے مکان ایک دورے کے سامنے تھے۔ایک روز ہوا کہ زور سے دونوں مکانوں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ ابوبکرہ اپنی کھڑکی بند کرنے کے لیے اُٹھے تو ان کی نگاہ حضرت مغیرہؓ کے کمرے میں جاپڑی۔ انہوں نے حضرت مغیرہؓ کو مباشرت میں مشغول دیکھا۔ اپنے تین دوست (نافع بن کلاہ۔ زیاد۔ شبل بن معبد) جو اُن کے پاس موجود تھے۔ انہیں گواہ ٹھہرالیا۔ دوستوں نے پوچھا یہ عورت کون ہے؟ ابوبکرہ نے کہا۔ اُم جمیل! مقدمہ حضرت عمرؓ کی عدالت میں پہنچا۔ حضرت عمرؓ نے مغیرہ کو معطل کرکے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو بصرے کا گورنر مقرر کردیا اور ملزم کو گواہوں سمیت طلب کیا۔ پیشی پر ابوبکرہ اور دو گواہوں نے کہا۔ ہم نے مغیرہ کو اُم جمیل کے ساتھ بالفعل مباشرت کرتے دیکھا ہے۔ مگر زیاد نے کہا۔ عورت صاف نظر نہیں آئی تھی اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ اُم جمیل تھی۔ حضرت مغیرہ نے جرح سے یہ ثابت کردیا کہ جس رخ سے یہ دیکھ رہے تھے۔ وہاں سے عورت کو صاف دیکھنا ممکن نہیں۔ دوسری بات انہوں نے یہ ثابت کی کہ ان کی بیوی او راُم جمیل شکل و صورت میں بہت زیادہ ملتی جلتی ہیں۔ قرائن سے صاف طور پر یہ واضح تھا کہ حضرت عمرؓ کے دور حکومت میں ایک گورنر خود اپنے سرکاری مکان میں اپنی بیوی کی موجودگی میں ایک غیر عورت کو گھر بلا کر دن دہاڑے کیسےزنا کرسکتا تھا؟ حضرت عمرؓ نے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے بعد حضرت مغیرہ کو بری کردیا۔ اس لحاظ سے اسلام کے انصاف کامعیار یہ ہے کہ گواہوں کی شہادتوں میں اگر معمولی سا بھی سقم موجود ہو تو شریعت کی حد نافذ نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ یہاں ایک مسلمان کی جان کامعاملہ ہے۔محض معمولی سزا کا معاملہ نہیں۔ ان واقعات سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر تعزیرات سخت ہیں تو قانون شہادت بھی سخت ترین ہے۔جہاں جرم کے ثابت ہوجانے پر اسلام مجرموں کو کسی قسم کی رو رعایت دینے کےلیے تیار نہیں۔ اس لیے کہ اسلام کو مجرموں سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ مظلوموں(Aggrieved) کی داد رسی اس کا منشا ہے۔ ولکم فی القصاص حیوٰۃ اولی الالباب۔ (اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔)

قرآن کا یہ روح پرور پیغام ہی انسانوں کےزخموں پرمرہم رکھ سکتا ہے ۔مجرموں سے ہمدردی کرنے والامعاشرہ سسکتے اور تڑپتے مظلوموں کے زخموں پر او رزیادہ نمک پاشی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ان گزارشات کی روشنی میں ہم چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صاحب سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے چیدہ چیدہ کیسوں سے شریعت کی سزاؤں کے فوری نفاذ کا حکم جاری کیا جائے۔ تاکہ پُرامن پُرسکون معاشرہ وجود میں آسکے۔ مزید مہلت سے حالات دن بدن خراب ہوجائیں گے اور خدا نہ کرے ہم کسی ایسی منزل تک جا پہنچیں۔ جہاں سے واپس آنا ہمارے لیے مشکل ہو۔عوام الناس سے ہماری درخواست ہے کہ آئیے ہم سب مل کر قرآن کے دامن سے چمٹ جائیں اور محمد عربی ﷺ کی شریعت مطہرہ پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہوں اور مداہنت و منافقت چھوڑ کر نظام مصطفیٰ کو اس کی صحیح مکمل صورت میں نافذ کرنےکامطالبہ کریں۔ فاضل عدلیہ سے ہماری استدعا ہے کہ وہ جلد سے جلد ایسا اہتمام کریں جس سے غیراسلامی قوانین ختم ہوسکیں کہ اب انہیں اس ذمہ داری کا سزاوار بنا دیاگیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انہیں بھی خدا کےسامنے جوابدہ ہونا پڑے۔


حاشیہ

اگر واقعی یہ معقول معذرت ہے تو دوسری سزائیں دی جارہی ہیں اس کے لیے کیا وجہ جواز رہ جائے گی۔

شریعت میں چور کا ہاتھ کاٹنا شرعی شرائط کےساتھ ہے۔ نظام تعزیرات نافذ کرنے کی صورت میں ایسے چور کا ہاتھ کاٹنا جائز ہی نہ ہوگا۔

معاشرے کی اصلاح خود انہی قوانین کے نفاذ پرہے۔ تعزیرات او رحدود اللہ معطل رہیں اور انتظار کیا جائے کہ معاشرہ پہلے اس قابل ہوجائے۔ سیاست دانوں کی عجیب منطق ہے۔ اصل بات وہی ہےجوفاضل مضمون نگار نے کہی ہے کہ یہ جرائم بھوک و ننگ جیسے اضطرار کا نتیجہ نہیں ہیں۔ بلکہ اخلاقی ابتری کا نتیجہ ہیں۔

تاریخی طور پر جائز لیں تو شاید رسول کریمﷺ اور صحابہؓ کا دور غربت کی بھی مثال ہی ہوگا۔ لیکن غربت کی بناء پر کوئی چوری بھی اس دور کی ایک نادر صورت ہی ہے۔جس کی بنا پر چور کو حد سرقہ نہ لگائی گئی تھی۔