عن أبي ھریرة رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعوض الناس یوم القیامة ثلث عرضات فأما عرضتان فجد ال و معاذ یرواأما العرضة الثالثة قعند ذٰلك تطیرالصحف في الأیدي فأخذ بیمینه وأخذ بشماله (رواہ أحمد و ترمذي وفیه انقطاع)
تین پیشیاں: ''رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، قیامت کے دن لوگوں کو تین بار پیش ہونا پڑے گا۔سو پہلی دو پیشیوں میں''لے دے'' ہوگی اور ''معذرتیں'' رہی تیسری پیشی، تو اس موقع پر اعمال نامے اُڑ کر لوگوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے ، کچھ تو اپنے داہنے ہاتھ میں لیں گے اور کچھ بائیں ہاتھ میں۔''
جدال: یعنی لے دے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بولیں گے کہ جناب! آپ کے پیامبر ہمارے پاس پہنچے ہی نہیں تھے، ہمیں کیسے معلوم ہوتا کہ آپ کس بات سے خوش ہوتے ہیں اور کس سے ناراض۔ یا یہ کہیں گے کہ:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق..... آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
معاذیر: جب انکوائری مکمل ہوگی او ران پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ خدا کے حضور وہ اب چھپ نہیں سکے تو پھر ہاتھ جوڑیں گے، منتوں سے کہیں گے، الہٰی! معاف کردے، غلطی ہوئی یا یہ کہ میں تو اس کے حق میں نہیں تھا، فلاں شخص کے بہکانے پربہک گیا، یہ ہوگیا وہ ہوگیا، یعنی حیلے بہانے تراشیں گے۔ ع
خوئے بدرا بہانہ بسیار
الصحف : اب اعمال نامے ہرشخص کے ہاتھ میں تھما دیئے جائیں گے ، نیک لوگوں کے داہنے ہاتھ میں ، بُروں کو بائیں ہاتھ میں۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شاطر لوگ وہاں بھی شرم نہیں کریں گے، چاہیں گے کہ کسی طرح خدا کو بھی طرح دے جائیں۔ کیونکہ جو خبث جڑ پکڑ جاتاہےوہ میدان محشر تک ساتھ چلتا ہے، اس لئے وہاں جاکر اور فاش اور ننگے ہوں گے ، چونکہ موقع پر پکڑے جائیں گے۔اس لیےکوئیبات بھی نہیں بنا سکیں گے۔بہرحال جو لوگ یہاں پر اپنی عادت اور خصلت نہیں بدلیں گے وہ اپنے خلاف خود ہی ایک اور گواہ ہمراہ لے جاکر قیامت میں اپنی گرفتاری کا سامان کریں گے۔سوچ لیجئے! آج آپ کہاں کھڑے ہیں اور آپ کے شب و روز کیسے ہیں اور کل ان کا انجام کیاہوگا؟
ان تین مرحلوں میں کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا: عن عائشة رضی اللہ تعالیٰ عنها.... فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وأما في ثلثة مواطن فلا یذکر أحد أحدا، عند المیزان حتی یحلم أیخف میزانه أم یثقل و عندالکتاب حین یقال ھاؤم اقرؤا کتابیه وعند الصراط إذا وضع بین ظهري جھنم (ابوداد)
''حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہےکہ حضورﷺ کا ارشاد ہےکہ : تین جگہ پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔ جب ترازو راست کی جائے گی یہاں تک کہ اسےمعلوم ہوجائے کہ ترازو ہلکی رہی یا بھاری (دوسری) جب اعمال نامے ملیں گے (او ران سے کہا جائے گا)اپنا اعمال نامہ پڑھیئے! یہاں تک کہ وہ جاپڑے ان کے داہنے ہاتھ میں یا پشت کی طرف سے بائیں ہاتھ ، اور (تیسرا ) اس وقت جب پُل صراط کو جہنم پر لگایاجائے گا۔''
یعنی باز پرس اور احتساب کے ان مرحلوں میں کوئی یارکام آئے گا نہ رشتہ دار ، کوئی وکیل ملے گا نہ اور کوئی مددگار! بس جس کے سر پر پڑے گی وہی بھگتے گا۔ روئے گا تو کوئی آنسو پونچھنے والا بھی دکھائی نہیں دے گا، تڑپے گا تو کوئی بھی دلاسا نہیں دے گا۔
باقی رہی شفاعت! سو وہ بھی خدا ہی فیصلہ کرے گا کہ اس کی کہاں گنجائش ہے او رکہاں نہیں؟ من ذاالذي يشفع عنده إلابإذنه (پ3۔بقرہ) شفاعت کےمعنی اصل میں مجرموں کی حمایت نہیں بلکہ ان کی بعض کوتاہیوں کے سلسلے میں فرد جرم کے ساتھ ممکن معذرتوں کو نتھی کرکے پیش کرنا ہے کہ:
الہٰی! ان پر ہمدردانہ غور فرما کر ان سے درگزر فرما۔ اس پر حق تعالیٰ ان کو بتا دیں گے کہ وہ اس قابل ہیں یانہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرحلہ وہ بھی آئے گا جب باپ کے سلسلے میں حضرت خلیل اللہ کی اور بعض نام نہاد مسلموں کے بارے میں نبی عربی ﷺ کی شفاعت بھی قبول نہیں کی جائے گی۔
2۔ عن أبي ھریرة رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لتؤدن الحقوق إلی اھلها یوم القیٰمةحتٰي یقاد للشاة الجلحاء من الشاة القرنا ء(مسلم)
''فرمایا قیامت میں حق داروں کے حقوق بہرحال ادا کیے جائیں گے ۔ یہاں تک کہ بے سینگ بکری کا سینگ والی بکری سے قصاص لیاجائے گا۔ ایک بے زبان او رایک بے خبر جانور سےمتعلق بھی کچھ حقوق ہوں گے تووہ رائیگاں نہیں جائیں گے،ایسی بات نہیں ہوگی کہ جس کا بس چلے وہ جو چاہے کرے۔ اُس سے کوئی باز پرس بھی نہ کرسکے، اگر ایک مظلوم او ربے بس فریاد بھی کرے تو اس کی بھی نہ سنی جائے،دیکھئے ! بکری ایک بے زبان ، بے ہوش اور غیر مکلف جانور ہے لیکن اگراس کے دوش پر کسی کے حقوق کابوجھ ہے تو اسے بھی یونہی نہیں جانے دیا جائے گا۔کیونکہ اس میں ایک حد تک ''احساس ذات'' تو ہے ہی او راسکے لیے سب کچھ کر گزرنے کا داعیہ بھی ، بس اسی حد تک اس سے انتقام بھی لیا جاسکے گا۔جیسے دنیا میں ہوتا ہے کہ اگر وہ زچ کرے ، کسی کے کھیت میں جا پڑے تو یہ کوئی نہیں کہتا کہ وہ تو غیرمکلف ہے۔اسے کچھ نہ کہو! الغرض آخرت ایک ایسا یوم حساب ہے کہ جہاں ذرہ ذرہ کا حساب ہوگا اور ہر ایک شخص اپنی آنکھوں سے رائی برابر نیکی او ربدی کے اثرات کا مشاہدہ کرسکے گا۔ اس لیے بیہوشی سے کچھ نہیں ہوگا اور نہ یہ غفلت وہاں کوئی وجہ معذرت تصور کی جائے گی۔ الحاج نواب سرنظامت جنگ بہادر مرحوم نے اپنے ایک مضمون میں کیا خوب کہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
گذشتہ بیس برس سے میں قرآن کاخاص مطالعہ کررہا ہوں اور اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ اس کی تعلیمات کےمتعلق میرا کیا خیال ہے تو میں کہوں گا۔
''زندگی کے تمام اعمال میں ایمان او رعمل صالح پر اصرار، قرآن انسان کو اس کے خالق کا واسطہ دے کراس امر پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات و اعمال کا بیدارچشم دربان بن جائے او راپنے کو تزکیہ روح میں مصروف رکھے، جہاد رکھے کیونکہ اس کی ہر جنبش اس کی روح پراثر انداز ہوتی ہے۔ خیر سے خیر اور شر سے شر پیدا ہوتا ہے اور خیروشر اپنی جز آپ ہے۔'' (رہنمائے قرآن ترجمہ)
3۔ عن أبي هریرةرضی اللہ عنه أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال أتدرون ما المفلس؟ قالوا المفلس فینامن لادرھم له ولامتاع، فقال المفلس من أمتي من یؤتی یوم القیٰمة بصلوٰة و صیام و زکوٰةو یأتی قد شتم ھذا وقذف ھذا و أکل مال ھذا وسفك دم ھذا وضرب ھذا فیعطیٰ ھذا من حسناته وھذا من حسناته فإن خفیت حسناته قبل أن یقضیٰ ما علیه أخذ من خطایاھم فطرحت علیه ثم طرح في النار (مسلم)
اصل قلاش اور نادار : حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے: کیاجانتے ہو ،مفلس (نادار) کسے کہتے ہیں ؟ ہم نے کہا۔ ہم تو اسے مفلس کہتے ہیں، جس کی جیب خالی ہو۔ فرمایا: (نہیں، یہ نہیں! اصل میں) میری اُمت کامفلس وہ ہےجو قیامت میں نماز، روزہ، اور زکوٰۃ لے کر آئے گا اور ساتھ ہی اس نے کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی،کسی کا مال کھایا ہوگا۔ کسی کو قتل کیا ہوگا اور کسی کو مارپیٹا ہوگا۔ (غرض اس کے ذمے کچھ زیادتیاں ہوں گی)اب اس کی نیکیاں لے کر حقداروں میں بانٹ دی جائیں گی۔ اگر نیکیاں ختم ہوگئیں اور واجبات اس کے ذمے ابھی باقی رہے تو حقداروں کے گناہ بقدر ضرورت لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے۔پھر اسے لاد کر جہنم میں چلتا کیا جائے گا۔''
اس احتساب کا دائرہ کتنا وسیع ہوگا او رکس قدر ہمہ گیر ہوگا، زبان اس کے بیان سے قاصر ہے اس کی دہشت سے آنکھیں پھٹی پھٹی ہوں گی ۔ دل فگاراور احساسات زخمی ہوں گے، ''نہ پائے فن نہ جائے ماندن'' کا سماں طاری ہوگا۔ کوئی چاہے کہ فدیہ دے کر چھوٹ جائے تو اس کی بھی کوئی ممکن صورت نہ رہے گی۔کیونکہ فدیہ نام کی کوئی چیز بھی اس کے قبضے میں نہیں ہوگی۔ الا یہ کہ وہ ذات کریم خود ہی مائل بہ کرم ہوجائے۔ اس لیے فرمایا کہ اس کی کچھ فکر ہے تو ابھی سے اس کی کچھ فکر کرلیجئے! کل اس کاوقت نہیں ہوگا۔
4۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔من کانت له مظلمة لأ خیه من عرضه أوشیء فلیتحلله منه الیوم قبل أن لایکون دینار ولادرھم۔(بخاری عن ابوہریرۃ)
''فرمایا: جس کے ذمے اس کے بھائی کا کوئی حق ہے، اس کاتعلق اس کے وقار سے ہو یا کسی اور شے سے، تو اسے آج اس سے معاف کرالینا چاہیے۔ اس (دن) سے پہلے جب دینار ہوں گے نہ درہم۔ (نہ پائی نہ پیسہ)''
5۔ عن ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا تزول قدما ابن اٰدم یوم القیمٰة حتی یسأل عن خمس عن عمرہ فیما أفناہ و عن شبابه فیما أبلاہ و عن ماله من أین اکتسبه وفیما أنفقه وماذا عمل فیما علم۔ (مشکوٰۃ)
''جب تک پانچ چیزوں کےسلسلے میں باز پرس مکمل نہ ہوگی اس وقت تک ابن آدم کو اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیاجائے گا(1) اس کی عمر کی بابت کہ کہاں کھوئی (2) او راس کی جوانی کی بابت کہ کن باتوں میں گنوائی (3) مال و دولت کی بابت کہ کہاں سے کمایا (4) او رپھر اسےکہاں خرچ کیا(5) او ریہ کہ جتنا علم پایا اس پر کتنا عمل کیا؟''
الغرض زندگی کے جتنے بھی مختلف احوال و ظروف ہیں سب کی بابت باز پُرس ہوگی ، وہ اقتدار ہو یا کاروبار، گھر بار ہو یا آرپار، راتیں ہوں یا دن، صحت ہو یا بیماری، خوشحالی ہو یا تنگدستی، اپنوں کا کوئی معاملہ ہو یا غیروں کا، دوستی کی کوئی بات ہو یا دشمنی کی، انسانوں کے متعلق ہو یا حیوانوں سے۔ بہرحال سب سے متعلق حساب کتاب ہوگا۔ قبر میں بھی اور حشر میں بھی۔ اس سے کسی کے لیے کوئی آشنا نہ ہوگا، نیک کا نہ بد کا، اب آپ اپنا جائزہ لےکر دیکھ لیجئے، ا س باز پرس کے آپ کس قدر متحمل ہیں او رجب خدائی چیکنگ شروع ہوتی ہے تو کیا بنے گا؟