ٹھہرو! ٹھہرو! حساب! حساب !

1۔ ﴿اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ (1) مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ (2) لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ(پارہ17، سورہ الانبیاء ع1)﴾

''لوگوں کے حساب (کا وقت)قریب آگیا۔ اس پربھی وہ غفلت میں، پرے منہ کئے ہوئے (چلے جارہے ہیں)ان کے پاس ان کے رب کی طرف سےجوبھی نیا حکم آتا ہے۔ بس اسےہنسی (مخول) کرتے ہوئے سنتے ہیں (اور) ان کے دل (میں کہ مطلق)متوجہ نہیں۔ اور یہ ظالم چپکے چپکے سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ (شخص) ہے ہی کیا۔ تم ہی جیسا ایک انسان (ہی) ہے۔ تو کیاتم دیدہ دانستہ جادو (کی باتیں سننے کو) آتے ہو۔؟''

غفلت کے مارے او ریوم حساب: موت اور قیامت ، دو ایسے لمحات ہیں ، جن میں حساب کتاب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ویسے تو ہر پیش آنے والی شئے قریب تصور کی جاتی ہے۔لیکن موت تو ایک ایسی گھڑی ہے جو بس آنے کو ہے او راسے ہرایک انسان محسوس بھی کرتا ہے۔ اس کے باوجود حالت ہے جیسےکچھ بھی نہیں ہونے والا، حساب نہ کتاب۔ یہ غفلت اوربے ہوشی کی انتہا ہے او ریہ وہ کیفیت ہے جس میں ہزاروں مہلک خطرات مضمر ہوتے ہیں۔

قرآن حکیم کو یہ شکوہ ہے کہ حساب کتاب کی گھڑی سر پر کھڑی ہے۔مگر ان منکروں اور رنگیلوں کو دیکھئے کہ وہ اپنے اللوں تللوں میں یوں لگے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں ہے۔ ان کو اپنے کرتوتوں کی فکر ہے نہ اس سلسلے کے احتساب کی۔

جب کسی طرف سے کوئی خطرہ درپیش ہو تو انسان خواہکسی حال میں ہو او رکہیں ہو۔ اس کی نگاہ بہرحال اسی طرف لگی رہتی ہے۔بار بارنگاہیں اسی طرف کو اٹھتی ہیں۔ کھٹکا ہوتا ہے کہ کل نہیں پڑتی۔اگر کوئی شخص اس کے بجائے منہ ہی دوسری طرف کرلیتا ہے او رپھر اس اعراض او ربے پرواہی کے ساتھ ساتھ دل بھی اس کے احساس سے خالی ہورہتا ہے تو پھر یہی کہا جائے گا کہ پس ان کے دن بُرے آئے۔ قرآن حکیم کاارشاد ہے، کہ ان معصیت کوش غافلوں کا بھی یہی عالم ہےوَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ۔

بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہےکہ مجرم ایک ایسے ماحول میں ہوتا ہے کہ ہوش میں آنے والی کوئی بھی بات اس کے کانوں میں نہیں پڑتی ہے اس لیے وہ مست الست ہورہتا ہے لیکن غضب تویہ ہے کہ خطرے کا الارم بھی ہورہا ہو۔ گھنٹی بھی بج رہی ہو۔ جھنجھوڑ جھنجوڑ کر اس کوجگانے والے جگانے کی کوشش کررہے ہوں۔ مگر یار ہے کہ نہیں سنتا۔ آنکھ نہیں کھولتا ، کروٹ نہیں لیتا، کان نہیں کرتا،اگر کرتا ہے تو صرف اتنا کہ آپ کو دیکھ کر ہنس دیتا ہے۔ یوں جیسے کسی نے اس سے دل لگی کی ہو یا یہ سمجھا ہو کہ یہ کوئی پاگل ہے جو پاگلوں جیسی بڑیں ہانک رہا ہے۔ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ

اب آپ ایسے شخص کی شقاوت، بدنصیبی او رمحرومی کا خود ہی انداز کرلیجئے کہ بالآخر وہ کس انجام سے دوچار ہونے والا ہے اور کل کیا اس کا حشر ہونے والا ہے۔ یقین کیجئے، یہی کیفیت اس بدنصیب قوم کی ہے جس سے آج داعیان حق کو پالا پڑگیا ہے۔ یہ بے ہوش، یہ بدمست، یہ رنگیلے شاہ، یہ مسخرے ، یہ منکر او راپنے ماسویٰ ساری دنیا کو پاگل ، احمق اور نادان سمجھنےوالے یہ سفہاء اور مست سارے لوگ حق او راہل حق کوباتیں بنا کر اپنی موت اور آخرت کو ہی بوجھل بنا رہے ہیں ۔ کسی کا کیا بگاڑ رہے ہیں لیکن ابھی ان کو اسکا ہوش نہیں ہے۔ جب ان کوہوش آیا،ہوش ہی جاتے رہیں گے۔

ان ازلی بدنصیبوں کی شقاوت کی انتہا یہ دیکھئے کہ داعیان حق کے پیہم اصرار کے باوجود اگر کوئی بات ان کے کانوں میں پڑ بھی گئی ہے۔ تو اب اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے الٹا اس کی راہ روکنے کے لیے سازشوں میں لگ جاتے ہیں۔ سب سے بڑا جو تیر وہ چلا سکتے ہیں، وہ بات پر غور نہیں کریں گے۔ وہ بات کرنے والے کیذات کوموضوع بحث بنا لیں گے۔ یہ ایسا وہ ویسا، اس کے باوجود بھی کام نہ چلا تو پھر یہ کہہ کر چل دیں گے کہ جناب! بات وات کچھ نہیں۔ یہ ان کے الفاظ کی شعبدہ گری ہے۔ لفظوں کی ساحری اور جادوبیانی ہے۔ ایک عقلمند کو یہ بات زیب دیتی کہ کسی کے صرف لفظوں کے ہیر پھیر سے اپنے مستقل مؤقف اور ڈگر کو بدل ڈالا جائے۔هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ

خدا کا واسطہ دے کر ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا آج ہم اسی سٹیج پرنہیں کھڑے، کیا آج ہم اسی دو رسےنہیں گزر رہے، کیا آج ہم کو ایسے ہی کوڑھیوں سے واسطہ نہیں پڑ گیا؟ اس کے بعد آپ خود ہی غور فرمالیں کہ اگر اس قوم کی اب بھی یہی کیفیت رہی تو کل اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ان نادانوں کو دنیا میں جو بھگتان بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس قوم کے ذہین افراد، قائدوں اور منتخب روزگار نمائندوں کے کردار اور اس کے انجام کی جو تفصیل آپ کے سامنے آرہی ہے۔ اس سے اس قوم کی عمومی ذہنیت،عملی پستی اور بدمستی کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جہاں اس قوم کے خواص کا یہ حال ہے۔ اس کے عوام کا خدا جانے کیا حال ہوگا یہ احتساب جو اب قوم کو درپیش ہے، اس احتساب کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جو آخرت میں ہونے والا ہے۔

ع جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا

وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ (25) وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ (26) يَا لَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ (27) مَا أَغْنَى عَنِّي مَالِيَهْ (28) هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ (29) خُذُوهُ فَغُلُّوهُ (30) ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ (31) ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ(پ29۔الحاقہ ع1)

''اور جس کانامہ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں دیاجائے ۔ وہ کہے گا ۔ اے کاش! مجھے میرا نامہ (اعمال) ملا ہی نہ ہوتا اور مجھے خبر ہی نہ ہوتی کہ میرا حساب کیا ہے! اے کاش! مرنے سے(میری ہستی کا )خاتمہ ہوگیا ہوتا۔ میرا مال میرے (کچھ بھی) کام نہ آیا۔مجھ سے میری بادشاہت لُٹ گئی (پھر ہم اس کی بابت حکم دیں گے) کہ اس کو پکڑو او راس کے گلے میں طوق ڈالو۔ پھر (کشاں کشاں لے جاکر ) اس کو جہنم میں دھکیل دو۔ پھر زنحیر سے جس کی ناپ گزوں میں ستر گز ہوگی۔ اس کو خوب جکڑ دو۔''

یہ وہ جماعت ہے جس پربے لاگ احتساب کے بعد فردجرم عائد کردی گئی ہے او ران کو اب نامہ اعمال پڑھنے کو دیا جارہا ہے۔ تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرلیں۔ چنانچہ پڑھ کر ان کی چیخ نکلے گی۔ہائے ربا! یہ بات تھی۔مجھے نامہ اعمال کا ہے کو دیکھایا، الہٰی! اب تو مجھے موت ہی آجاتی۔ اب تو ایک ایک کرکے سارے سہارے میرا ساتھ چھوڑے جارہے ہیں۔جاگیریں اور ملیں ، دھن اور دولت سب نے آنکھیں پھیر لیں۔ انہی کے سہارے اپنی خدائی کے تخت بچھائے تھے۔ وہ اب بالکل بیکارہورہے ہیں۔ تخت و تاج، فوج و سپاہ، پارٹی او رجان چھڑکنے والے عوام سب غائب ہیں۔ وہ صدارت، یہ امارت، وہ وزارت او یہ حکومت خدا جانے کہاں جا چھپی ہیں۔ع

کس نمی پر سدکہ بھیّا کون ہو

یہ چیخ و پکار ہورہی ہوگی ۔ ادھر سے آواز آئے گی۔

اسے پکڑو! اس کے گلے میں طوق ڈال کر اسےگھسیٹو اور گھسیٹتے گھسیٹتے اس مردار کولےکر جہنم کے گہرے گڑھے میں پھینک دو۔ دیکھئے! ادھر اُدھر کھسکنے نہ پائے، آہنی زنجیروں میں اسےجکڑ کر وہاں باندھ دو۔

احتساب کا مرحلہ انتہائی حوصلہ شکن مرحلہ ہے۔اس کی سان پر جسے ڈال دیا گیا، بس رہ گیا ۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کا یہ محدود احتساب کیا رنگ لا رہا ہے۔کل تک جس کے اشارہ پر ملک کی فضائیں رقصاں رہتی تھیں جس کانام سنتے ہی دنیا جہاں کی ہر چیز پر سکتہ طاری ہوجاتا تھا جس کی خواہش کے سامنے ملک کاذرہ ذرہ آپ کودم بخود نظر آتا تھا جس کے سپاہ تھی، فوج تھی،پولیس تھی، دھن تھا، دولت تھی، خزانہ تھا،جاگیر تھی،زور بیان تھا، سیاسی طاقت تھی۔ جو اس حد تک مخمور تھاکہ اپنے جہاں کا آپ خدا لہلاتا تھا۔ جب اس پر افتاد پڑی ، گرفت ہوئی ان کے عالم بدمستی میں جب خدا کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آئی تو آپ نے دیکھ لیا کہ،

فوج کام نہ آئی نہ سپاہ ، وزارت نے کوئی سہارا دیا نہ صدارت نے۔ سیاسی کروفر جاتی رہی۔ حکومت کا ڈھول پول رہا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قرآن نے اپنے بیان میں شاید کسی جابر بے خدا اور مست لست حکمران کاذکر کیا ہے او ران کے پس دیوار زنداں چلے جانے کی کوئی تصویر کھینچی ہے۔ قارئین آیت کو سامنے رکھیں او رعہد حاضر کے حکمران ٹولے کی تصویر زندان، احتساب اور مآل کو بھی اس کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش فرمائیں تو بے ساختہ بول اٹھیں گے کہ شاید یہ کہانی ساری انہی کی زبانی ہے۔ فاعتبروا يا أولى الأبصار۔

وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا (13) اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا۔ (پ15۔ بنی اسرائیل ع2)

''او رہم نے ہر انسان کی قسمت (عمل) اس کے گلے کا ہار کررکھا ہے او راس کے لیے قیامت کے دن ہم ایک نوشتہ نکالیں گے۔جسے وہ کھلا ہوا پائے گا (اس سے کہا جائے گا کہ) اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے، آج تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو کافی ہے۔''

اور پڑھ کر چلّا اُٹھیں گے کہ :يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا(پ15۔ الکہف ع6)

''ہائے ہماری کم بختی۔ اس رجسٹر کو کیا ہوگیا ہے۔نہ کوئی چھوٹا گناہ چھوڑتا ہے نہ بڑا، سب جمع کررکھا ہے او رجو ان لوگوں نے کیا تھا (وہ سب اس میں) موجود پائیں گے۔''

اسے انسان کی شومئ قسمت قرار دیا گیا ہے کہ اس نے جتنا او رجیساکچھ بُرا بھلا کیا ۔ وہ یہاں نہیں رہ جائے گا وہ کچا چٹھا قبر اور حشر تک بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا اور بالکل اسی طرح جس طرح کہاوت مشہور ہے کہ ''میں تو چھوڑتا ہوں کمبل نہیں چھوڑتا''زندگی کا ایک ایک لمحہ او رحیات مستعار کی ایک ایک گھڑی کا حساب ہوگا، بے لاگ ہوگا، بھرپور ہوگا، جامع ہوگا، کم نہ بیش، بالکل منصفانہ ہوگا۔ پھر اسے یہ کچا چٹھا پڑھنے کو دیا جائے گا کہ وہ پڑھ کر دیکھ لے کہ اسے کہیں یہ شکوہ تو نہیں کہ !

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا

کیونکہ آج کل سی آئی ڈی کچھ ایسے کام بھی کرلیاکرتی ہے کہ معزز شہریوں کا ناطقہ بند کرنے کے لیےجھوٹے الزامات کی ایک فہرست تیار کرتی رہتی ہے ۔ لیکن وہاں آدمی کوئی دم تحریر بھی تھا، جیسی بے اطمینانی کا جواب بھی ساتھ ہی ہوگا کہ یہاں صرف ''آدمی کوئی اور دم تحریر والی '' بات بلکہ وہاں تم خود تھے۔ تم خود اس کے گواہ ہو۔
الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ(پ23۔ یٰسین ع4)

''آج ہم ان کے مونہوں پرمہر لگا دیں گے او رجیسے کرتوت یہ لوگ کیا کرتے تھے ، ان کے ہاتھ ہم کو بتا دیں گے او ران کے پاؤں (بھی) گواہی دے ڈالیں گے (بلکہ ایک ایک رونگٹا ٹیپ ریکارڈ کی طرح بول اٹھے گا)''

حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ(پ24۔ حم السجدہ ع3)

''یہاں تک کہ (جب سب)دوزخ پر آجماع ہوں گے۔جیسے جیسے عمل یہ لوگ کرتے رہے تھے۔ ان کے کان اور ان کی آنکھیں او ران کے (گوشت) پوست ان کےمقابلے میں گواہی دیں گے۔''

آخر اعتراف جرم کے سوا چارہ نہیں رہے گا۔ تو بول اُٹھیں گے۔ الہٰی! غلطی ہوئی۔

فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا(پ24۔ المؤمن ع2)

''تو (اب) ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔''

بہرحال دنیا احتساب کا آخری دن نہیں ہے۔ بلکہ ابتدائی ہے او ربالکل ابتدائی ۔پورا او رمنصفانہ کل ہوگا۔ اس دن کے لیے آج ہی سوچ لیجئے۔ کل سوچنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ بہرحال احتساب ہوگا اور شدید ہوگا۔وہاں سب کے پردے چاک ہوں گے اور سب کے سب فاش ہوکر رہیں گے۔ ھل من مدکر۔

وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ( پ23۔الصفٰت ع2)

''(ہاں!) ان کو ٹھہراؤ! ان کا احتساب کرنا ہے۔''

سوال ہوگا کہ جناب! دنیا میں جو حق اور ناحق ایک دوسرے کاہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ اب کیوں نہیں کرتے؟

مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ (پ23۔ الصفٰت ع2)

''اب ایک دوسرے کی مدد تو کجا رہی۔ ایک دوسرے کو کوسیں گے کہ تو نے ہی میرا بیڑا غرق کیا۔''

وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (27) قَالُوا إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ (28) قَالُوا بَلْ لَمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (29) وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طَاغِينَ (ايضاً)

''اور ایک دوسرے کی طرف منہ کرکے پوچھا پاچھی کریں گے۔ایک فریق (دوسرے فریق سے) کہے گا کہ تم ہی ہم پر پل پل کرآئے (اور بہکاتے) تھے ۔ وہ جواب دیں گے (کہ نہیں)بلکہ تم خود ہی بے ایمان تھے اورتم پر ہمارا کچھ زور تو تھا نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ تو (خود ہی فطرتاً) سرکش تھے۔''

یہ صورت دیکھ کر کہیں گے کہ ہائے! اتنی دور ہوتے کہ ایک دوسرے کا منہ ہی دیکھتے۔

حَتَّى إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ(پ25۔ زخرف ع4)

فرمایا: اب اس لے دے سے کیا بنے گا۔ تم دونوں ذلیل تھے۔ اور مل کر ہی جوتے کھاؤ''

وَلَنْ يَنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ(ایضاً)

جوبُرے لیڈروں، گمراہ حکمرانوں او ربدکردار ساتھیوں کا آج ساتھ دے رہے ہیں، سوچ لیں یہ یاری کل بھی جاری رہے گی اور بڑی مہنگی پڑےگی۔ مزہ تو جب ہے کہ اس وقت بھی آہ نہ نکلے۔ لیکن وہاں جو حال ہوگا، بہت ہی عجیب ہوگا۔ ایک دوسرے پر لعنتیں کریں گے اور کہیں گے۔الہٰی! انہوں نے ہمارا بیڑاغرق کیا تھا۔ آج ان کو دوگنا عذاب میں مبتلا کر جواب ملے گا ! درخواست منظور! پر دونوں کے لیے۔

كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَعَنَتْ أُخْتَهَا حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لِأُولَاهُمْ رَبَّنَا هَؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ(پ۔ اعراف ع4)

''جب ایک گروہ دزخ میں جائے گا تو اپنے رفیق گروپ پرلعنت کرے گا ۔ یہاں تک کہ جب سب کے سب دوزخ میں جمع ہوجائیں گے تو ان میں سے پہلی جماعت پچھلی جماعت کے خلاف بددعا کرے گی۔ اے ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ اس لیے ان کو دوہرا عذاب دے۔اللہ  فرمائے گا (ٹھیک ہے پر) سب کے لیےدگنا ہوگا۔''

عوام کو چاہیے ، بلکہ ہرخاص و عام کے لیےمقام غور ہے کہ وہ سوچیں کہ وہ کیا کررہے ہیں۔کس کے پیچھے دوڑ رہے ہیں او روہ کہاں لے جاکر تمہیں کھڑا کریں گے۔ اگر اب آپ نے غور نہ کیا تو کل کچھ نہ ہوگا۔