بدن بے حِس، نظر معدُوم، محروم تکلُّم ہے
بنائے دشمنی دنیا میں انداز تحلم ہے ہر اک جھگڑے کا حل اے دوست تفہیم و تفہم ہے
اجل آتے ہی کیا تجھ کو ہوا اےرُستم دنیا بدن بے حس،نظر معدوم،محروم تکلم ہے
ترے حُسن توجہ سے یہ صحن گلشن عالم ترنم ہی ترنم ہے تبسم ہی تبسم ہے
مسافر کس طرح اے ناخدا منزل پہ پہنچے گا شکستہ ہے سفیہ، موج دریا میں تلاطم ہے
ترے باغی بھی دنیا میں تجہی سے رزق پاتے ہیں یہ تیرا ہی تحمل ہے یہ تیرا ہی ترحّم ہے
صلہ دیتا ہے خود اللہ جس کا دونوں عالم میں فقط قرآن و سنت کی وہ تعلیم و تعلّم ہے
تو اپنا گوہر مقصود ہرگز پا نہیں سکتا رہ عشرت میں جب تیری متاع زندگی گُم ہے
ارے غافل خدا کا ذکر تو بھی صبح دم کرلے ہر اک طائر خدا کی حمد میں محو ترنم ہے
وہی ہے کامیاب زندگی دُنیا میں اے عاجز مصیبت میں ہمیشہ جن کے ہونٹوں پر تبسم ہے