کسی فرمانروا یا عظیم لیڈر کی وفات پر
سرکاری طور پر سوگ منانا شرعاً ناجائز ہے
ہم اگرچہ انگریز کی غلامی کی زنجیر سے جسمانی طور پر رُبع صدی سےزائد عرصہ سے نجات حاصل کرچکے ہیں تاہم ہمارے اذہان ابھی تک اس کی تقلیدمیں گرفتار ہیں۔ ہمارے ارباب حل و عقد اور مسند اقتدار پرمتمکن حضرات تو ہر معاملہ میں برطانوی سامراج کے قوانین ، رسم و رواج اور دیگر معاملات میں ان کی تقلید اور ان کےوضع کردے قوانین کی روشنی میں اپنی روزمّرہ زندگی کے معمولات کو اپنانا اپنے لیےموجب صد افتخار سمجھتے ہیں اور کامیابی کا باعث تصور کرتے ہیں او ران کے خلاف طرز حکومت میں اپنی ذلت او رناکامی محسوس کرتے ہیں۔
ان رسومات اور رواجات میں سے ایک رسم سوگ ہے یعنی کسی کی وفات پر رنج و غم او رحُزن و ملال کا اظہار کرنا، بدقسمتی سے ہمارے اسلامی ملک پاکستان میں بھی غیر اسلامی یورپین ممالک کی طرح یہ رواج پڑا ہواہے کہ جب ملک کا فرمانروا یا کوئی عظیم لیڈر داعی اجل کو لبیک کہتا ہے تو گورنمنٹ کے تمام دفاتر اور تعلیمی ادارے فوراً بند کردیئے جاتے ہیں اورملک کا پرچم سرنگوں کیاجاتا ہے اور سرکاری دفاتر میں تعطیلات کی جاتی ہیں اوربعض لیڈروں کے لیے تو ہر سال جب ان کی تاریخ وفات کادن آتا ہے تو اس روز سرکاری طور پر تعطیل کی جاتی ہے اور اظہار غم کیاجاتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت حسین ؓ کی شہادت کاواقعہ 9اور 10 محرم کی تعطیل کرکے ماتم اور اظہار غم کیاجاتا ہے ۔ اسی طرح بانی پاکستان کی تاریخ وفات پر ہر سال سرکاری طور پر تعطیل عام کرکےسوگ او رغم کااظہار کیاجاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی نکتہ نگاہ سے حکومت کا یہ فعل مستحسن ہے یاغیرپسندیدہ ہے؟ پاکستان کی عمر تیس سال سے تجاوز کرچکی ہے۔لیکن افسوس ! اب تک ہمارے کسی حکمران نے یا کسی صدارت کے عہد پر فائز ہونے والے شخص نے اس طرف توجہ منعطف نہیں کی کہ کیا کسی لیڈر یاقائد کی موت پر سوگ منانے اور رنج و غم کا اظہار کرنے کی خاطر ملک کاپرچم سرنگوں کرنا او رسرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں تعطیل کرنا اسلام کی نگاہ میں جائز ہے؟ اسی طرح علماءے کرام نے دیگر بے شمار موضوعات پر تقریروں اور تحریروں کے انبار لگا دیئے او راسلام کی نشرواشاعت کی خاطر اپنی دلکش نگارشات اور شعلہ نوا خطابات سے قوم کو لاتعداد اور ان گنت بُرائیوں سے روکنے اور ہٹانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اسی طرح جب کسی صدر یا وزیراعظم نے اپنی لن ترانیاں الاپنا شروع کردیں اور قوم کو پرکاہ کے برابر بھی تصور نہ کیا او راسلام سے انحراف کے لیے نت نئی نئی تدابیر سوچنے لگا اور مسلمان قوم کو اسلامی مساوات کے خوش کن نعرے سے مسحور کرنے لگا تو علمائے حق سروں پر کفن باندھ کرمردانہ وار میدان جہاد میں کود پڑے اور اس وقت تک ان کی غیرت ایمانی کا خون جوش مارتا رہا۔ جب تک یہ اسلام کےٹھگ اور دغا باز کرسی اقتدار سے گھسیٹ کر جیل کی تنگ و تاریک کوٹھری میں منتقل نہیں کردیئے گئے۔
مگر آج تک کسی عالم دین او رکسی نوجوان مبلغ کاذہن اس طرف متوجہ نہیں ہوا کہ اس اسلامی ملک میں بڑے بڑے لیڈروں او رحکام کی وفات پر سرکاری طور پر دفاتر اور تعلیمی اداروں میں تعطیل اور ملک کاپرچم سرنگوں کرنے کی رسم ، جب سے پاکستان منصہ شہور پرآیا ہے، اس وقت تک تاہنوز جاری ہے۔ کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟ کیا حضرت حمزہؓ کی شہادت ایک معمولی سانحہ تھا ؟ کیا بیرمعونہ میں ستر حفاظ کی شہادت کادلفگار واقعہ قابل تعزیت نہ تھا؟ کیا آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات پرصحابہ کرامؓ نے سرکاری طور پر سوگ منایاتھا؟ کیا سید الانبیاءﷺ کی رحلت سے بڑھ کر کوئی المیہ اور روح فرسا واقعہ ہوسکتا ہے؟ کیا اس المیہ پر صحابہ کرامؓ نے سرکاری کاروبار معطل کردیئے تھے؟
میں سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی خدمت اقدس میں ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔جنہوں نے اس مسئلہ کو نوک قلم پر لاکر تمام مسلمان فرمانرواؤں او رحکام کو اس پر غور و فکر کرنے اور اس غیر اسلامی رسم کوترک کرنے کی تلقین کی ہے اور ملک کا پرچم سرنگوں کرنے اور سرکاری دفاتر کو اظہار غم کے طور پر بند کرنے کو ناجائز قرار دیاہے۔ یادرہے کہ آپ سعودی عرب میں نہایت ممتاز اور اعلیٰ شخصیت تصور کیےجاتے ہیں۔ آپ بیک وقت ادارہ بحوث علمیہ، دارالافتاء او رادارہ دعوت و ارشاد کے رئیس عام اور نگران اعلیٰ ہیں۔ آپ کا یہ فتویٰ ''اخبار العالم الاسلامی'' عدد نمبر 561 باب 7 صفر 13987ھ میں شائع ہوا ہے۔ اُردو دان مسلمانوں کی بھلائی او رحکمرانوں کی خیرخواہی کے پیش نظر اس فتویٰ کو اُردو میں منتقل کیا جاتا ہے۔ وذکر فان الذکریٰ تنفع المؤمنین۔ (سیف الرحمٰن الراجي رحمة ربه والغفران)
الحمدللہ والصلوٰةوالسلام علیٰ رسول اللہ وعلیٰ آله و أصحابه ومن اھتدیٰ بھداہ۔اما بعد! موجودہ دور میں اکثراسلامی ممالک میں یہ رسم پڑ چکی ہے کہ جب کوئی بادشاہ یا کوئی بڑا لیدر فوت ہوجاتا ہے تو اس کا سوگ منانے کے سلسلے میں حکومت تین دن کے لیے یاا س سے کم و بیش ایام کے لیے سرکاری طور پرتمام دفاتر بند کرنےکا اعلان کرتی ہے اور یہ بھی اعلان کیاجاتا ہےکہ ملک کا پرچم اتنے ایام تک سرنگوں رہے گا۔
یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ یہ کام شریعت محمدی کے خلاف ہے۔ اس میں دشمنان اسلام کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ حالانکہ آنحضرتﷺ سے کئی صحیح حدیثوں میں مذکور ہے کہ آپؐ نے سوگ منانے سے منع فرمایا۔ ہاں البتہ بیوی اپنے خاوند کا چار ماہ دس ایام تک سوگ منائے۔ اسی طرح عورت کو اپنے خویش و اقارب کی وفات پر زیادہ سے زیادہ تین ایام تک سوگ منانے کی اجازت فرمائی۔ اس کے ماسوا شرعاً سب کچھ ممنوع ہے ۔(یعنی سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے بند کرنا او رملک کاپرچم سرنگوں کرنا وغیرہ سب کچھ ممنوع ہے) اور شریعت میں ایسا کوئی حکم نہیں ملتا جس کی رو سے کسی بادشاہ یا کسی لیڈر کی موت پر (مذکورےبالا اقسام کا ) سوگ منانا جائز ہو، حالانکہ آپؐ کی مبارک زندگی میں آپؐ کا فرزند ارجمند حضرت ابراہیم ؑ او رآپؑ کی تین صاحبزادیاں اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوئیں۔ ان کےعلاوہ اور بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام نے بابرکت حیات میں ہیدنیا سےانتقال کیا اور آپؐ کے عہد مسعود میں جنگ موتہ میں حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت جعفرؓ بن ابی طالب او رحضرت عبداللہؓ بن رواحہ نے یکے بعد دیگر جام شہادت نوش کیا۔ آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ جو اشرف المخلوقات او رافضل الانبیاء او راولاد آدم ؑ میں سب کے سردار تھے۔ اس عالم کون و مکان سے رحلت فرماگئے۔ آپؐ کی رحلت کے صدمے او رالمیے کے سامنے تمام المناک واقعات ہیچ تھے لیکن صحابہ کرامؓ نے (ہمارے زمانے کا) سوگ نہیں منایا۔ پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ دنیا سے سدھار گئے لیکن کسی نے سوگ نہیں منایا۔ پھر حضرت عمرؓ شہیدکئے گئے اور حضرت عثمانؓ او رحضرت علیؓ نے بھی شہادت پائی۔ یہ لوگ انبیاء علیہم السلام اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد سب سے افضل تھے ۔ اسی طرح تمام صحابہ کرامؓ یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہوئے۔لیکن تابعین میں سے کسی نے ان پر (مذکور بالا اقسام) کا سوگ نہیں منایا۔ اسی طرح تابعین میں سے اسلام او رہدایت کے ائمہ اور علماء او ران کے بعد آنے والے اہل علم لوگ جیسے سعید بن مسیب، علی بن حسین، زین العابدین اور ان کے صاحبزادے محمد بن علی، عمر بن عبدالعزیز، زہری، امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف،امام محمد، امام مالک بن انس، اوزاعی، ثوری، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اوراسحاق بن راہویہ وغیرہ رحم اللہ اجمعین ۔ پرمسلمانوں نے ایساسوگ نہیں منایا۔ اگریہ کام کار خیر ہوتا تو سلف صالحین اس کام کو سب سے پہلے کرتے اور خیر اوربھلائی سلف صالحین کی تابعداری میں ہے اور ان کی مخالفت میں سوائے بُرائی کے کچھ نہیں۔
جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ آنحضرتﷺ کی سنت اس کی مؤید ہے ہمارےسلف صالحین نے ایسا سوگ نہیں کیا۔ ہاں البتہ بیوی نے (شریعت کے حکم کے مطابق اپنے خاوند پر چارماہ دس دن تک سوگ کیا)یہی بات درست او رحق ہے اور آج کل جو لوگ بادشاہوں او رلیڈروں پر سوگ مناتے ہیں(یعنی سرکاری کاروبارمعطل کیاجاتا اور ملک کاپرچم سرنگوں کیا جاتا ہے وغیرہ، یہ (تمام امور)شریعت مطہرہ کے خلاف ہیں۔مزید برآں اس میں کئی قسم قباحتیں اور خرابیاں ہیں (یعنی سرکاری دفاتر کی بندش سے حکومت کے کئی امور تشنہ تکمیل رہ جاتے ہیں جس سے حکومت کو مالی خسارہ ہوتا اور بچوں کا تعلیمی نقصان ہوتا ہے) او رکئی مفاد اور مصلحتوں سےمحرومی ہوتی ہے۔ سب سے بڑی یہ ہےکہ اس میں دشمنان اسلام (یہود او رنصاریٰ وغیرہ) کی مشابہت پائی جاتی ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کے قائدین او ربڑے بڑے حکام کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسےلوگوں کی رسم بد کو ترک کریں اور سلف صالحین کے طریقہ کو اپنائیں او راہل علم کے ذمے یہ واجب ہے کہ لوگوں کو اس غلطی سے متنبہ کریں اور خبردار کریں، کیونکہ علمائے کرام کے ذمے نصیحت کرنا واجب ہے نیز نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا مسلمان کے لیےضروری ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے لیے اپنی کتاب کےلیے، اپنے رسولوں کے لیے او رمسلمانوں کے اماموں کی خاطر نصیحت اور خیرخواہی کو لازم قرار دیا ہے اس لیے مجھے یہ مختصر تحریرقلمبند کرنےکی ضرورت پیش آئی۔
میں بارگاہ ایزدی میں التجا کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے قائدین او رعوام الناس کو ہر ایسے کام کرنے کی توفیق بخشے جو اسکی رضا اور خوشنودی کا باعث ہو او راحکام شریعت پرقائم رہنے کی توفیق بخشے اور اس کی خلاف ورزی سے بچنے کی توفیق سے نوازے، ہمارے دلوں کی اصلاح فرماوے اور ہمارے تمام اعمال درست فرمائے۔ وہ دعائیں سننے والا او رجلد قبول کرنے والا ہے۔
وصلی اللہ علیہ وآله وسلم علی نبینا محمد وآله و أصحابه۔