شادی بیاہ کی تقریبات کے ضمن میں ایک اصلاحی تحریک کا جائزہ
9۔آخری علت یہ ہے کہ سرور و خوشی اور فرحت و تزویج کے مواقع پر دعوت طعام کرنا انبیاء علیہم السلام کا شیوہ او ران کی سنت رہی ہے۔ چنانچہ بادشاہ حبشہ نجاشی کے کلام سے مستفاد ہوتا ہے، جسے طبری نے سیر میں اس طرح نقل کیا ہے:
''
فَرُوِيَ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بَعَثَ عَمْرَو بْنَ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيَّ إِلَى النَّجَاشِيِّ لِيَخْطُبَهَا عَلَيْهِ فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ وَأَصْدَقَهَا عَنْهُ أَرْبَعَمِائَةِ دِينَارًا وَبَعَثَ بِهَا إِلَيْهِ مَعَ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ وَرُوِيَ " بْنِ حَسَنَةَ "، وَرُوِيَ أَنَّ النَّجَاشِيَّ أَرْسَلَ إِلَيْهَا جَارِيَتَهُ أَبَرْهَةَ فَقَالَتْ: إِنَّ الْمَلِكَ يَقُولُ لَكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَتَبَ إِلَيَّ أَنْ أُزَوِّجَكَ وَأَنَّهَا أَرْسَلَتْ إِلَى خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ فَوَكَّلَتْهُ وَأَعْطَتْ أَبَرْهَةَ سُوَارَيْنِ وَخَاتَمَ فِضَّةٍ سُرُورًا بِمَا بَشَّرَتْهَا بِهِ فَلَمَّا كَانَ الْعَشِيُّ أَمَرَ النَّجَاشِيُّ جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَمَنْ هُنَاكَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَحَضَرُوا فَخَطَبَ النَّجَاشِيُّ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ السَّلَامِ الْمُؤْمِنِ الْمُهَيْمِنِ الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَرْسَلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ، أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَجَبْتُ إِلَى مَا دَعَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَقَدْ أَصْدَقْتُهَا أَرْبَعَمِائَةٍ دِينَارٍ ذَهَبًا ثُمَّ صَبَّ الدَّنَانِيرَ بَيْنَ يَدَيِ الْقَوْمِ فَتَكَلَّمَ خَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ أَحْمَدُهُ وَأَسْتَعِينُهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَرْسَلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَجَبْتُ إِلَى مَا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَزَوَّجْتُهُ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ أَبِي سَيْفَانَ فَبَارَكَ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَدَفَعَ الدَّنَانِيرَ إِلَى خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ فَقَبَضَهَا ثُمَّ أَرَادُوا أَنْ يَقُومُوا فَقَالَ اجْلِسُوا فَإِنَّ سُنَّةَ الْأَنْبِيَاءِ إِذَا تَزَوَّجُوا أَنْ يُؤْكَلَ طَعَامٌ عَلَى التَّزْوِيجِ فَدَعَا بِطَعَامٍ فَأَكَلُوا ثُمَّ تَفَرَّقُوا''
1''
مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عمرو بن امیہ ضمریؓ کو نجاشیؓ کے ہاں بھیجا تاکہ وہ آپؐ سے اُم حبیبہؓ کا خطبہ نکاح پڑھیں۔ لہٰذا انہوں نے آپؐ سے اُم حبیبہ بنت ابی سفیان کی شادی کردی۔ اور آپؐ کی طرف سے انہیں چار سو دینار مہر ادا کردیا۔ پھر انہیں آپؐ کے ہاں شرجیل بن حسنہ کے ساتھ روانہ کردیا۔ یہ بھی مروی ہے کہ نجاشیؓ نے اُم حبیبہؓ کے پاس اپنی لونڈی ''ابرہ'' کو بھیجا، اس نے آن کرکہا کہ نجاشی بادشاہ کا فرمان ہے، رسول اللہ ﷺ نے مجھے لکھا ہےکہ میں آپؐ کی اُن سے شادی کردوں۔ لہٰذا انہوں (ام حبیبہؓ) نے خالد بن سعید بن عاصؓ کی طرف پیغام بھیج کر انہیں اپنی وکیل مقرر کرلیا، او رنبی کریمﷺ کے ساتھ اپنے نکاح کی خوشخبری سن کر خوشی میں ''ابرہ'' کو دو کنگن او رایک چاندی کی انگوٹھی بھی ہبہ کردی۔ جب شام ہوئی تو نجاشیؓ نے جعفر بن ابی طالبؓ اور وہاں کے سب مسلمانوں کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا۔ جب وہ سب حاضر ہوگئے تو نجاشیؓ نے خطبہ پڑھتے ہوئے کہا : ''تمام حمد و ستائش اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو مقدس شہنشاہ ہے، امن و سلامتی دینے والا ، اور غالب نگہبان وہی ہے۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کو ئی بھی کسی قسم کی عبادت کا حق دار نہیں، اور یقیناً حضرت محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت او ردین حق دے کر مبعوث فرمایا ہے تاکہ وہ اسے باقی تمام ادیان پر مشرکین کی کراہت کے باوجود، غالب و فائق بنا دے۔''
اس حمد و صلوٰۃ کے بعد کہا : ''میں نے یہ سب نبی کریم ﷺ کے فرمان کو قبول کرتے ہوئے کیا ہے او رانہیں (اُم االمؤمنین حضرت اُم حبیبہؓ کو) چار سو سنہری دینار بطو رمہر بھی دیتا ہوں اس کے بعد لوگوں کے سامنے وہ دینار نکال کر رکھ دیئے۔ پھر خالد بن سعیدؓ نے بھی وہی خطبہ مسنونہ پڑھا، اور کہا کہ : ''میں نے نبی کریم ﷺ کے فرمان کو قبول کرتے ہوئے آپؐ سے اُم حبیبہ بنت ابی سفیان کا نکاح کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کی اس شادی کو مبارک بنائے۔'' اور خالد بن سعیدؓ نے وہ چار سو دینار بھی وصول کرلیے۔ اس کے بعد لوگوں نے واپس جانا چاہا تو انہیں بیٹھے رہنے کا حکم دیا گیا او رکہا گیا کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی یہ سنت ہے کہ شادی پر کھانا کھلایا جائے، لہٰذا کھانا منگوایا گیا اور سب لوگ کھانا کھا کر منتشر ہوگئے۔''
اب ذیل میں سنت نبویؐ اور خیر القرون میں اس دعوت کے موجود ہونے کا ثبوت مختصراً پیش کیا جات اہے۔ چنانچہ ماثو و منقول ہے کہ جب حضرت علی ؓ کا نکاح حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کےساتھ ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ چار پانچ مُد غذا اور اونٹ ذبیحہ کرکے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے ولیمہ کا اہتمام کریں۔ چنانچہ حضرت بلالؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں اس دعوت کا انتظام کیا۔ پھر صحابہؓ تھوڑی تھوڑی تعداد میں جمع ہوکر آتے اور اس میں سے کھانا کھاتے تھے۔ جب تمام صحابہؓ دعوت سے فارغ ہوچکے او رکھانا بچ رہا تو رسول اللہﷺ نے حضرت بلالؓ کو اسے اٹھا کر ازواج مطہراتؓ کے لیے لے جانے کا حکم دیا............. الخ
مندرجہ بالا واقعہ کو مولانا کرامت علی دہلوی نے (جو مولانا عبدالحئ لکھنوی اور مولانا محمد اسحاق دہلوی کے تلامذہ میں سے گزرے ہیں) اپنی مشہور تصنیف ''السیرة الأحمدیة'' میں اس طرح بیان کیا ہے:
''قاضی عیاض بطریق حافظ الآجری عن محمد بن الحسین روایت کرتے ہیں:
''أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أمر بلالا بقصعة من أربعة أمداد أو خمسة و بذبح جزور لو لیمتھا قال و أتیته بذٰلك فطعن في رأسھا ثم أدخل الناس رفقة رفقة یأ کلون منھا حتیٰ فرغوا و بقي منھا فضلة فبرك فیھا و أمر بحملھا إلیٰ أزواجه وقال کلن و أطعمن من شئتن۔ الخ''2
''نبی ﷺ نےحضرت بلالؓ کو برتن میں چار پانچ مُد لانے کو فرمایا اور ولیمہ کے لیے اونٹ ذبح کرنے کا حکم دیا۔ جب حضرت بلالؓ وہ برتن لےکر حاضر ہوئے تو آپؐ نے اس کے درمیان میں سے اسے ہلایا، اور لوگوں کو جماعتوں کی صورت میں داخل ہونے کی دعوت دی، وہ آتے گئے او رکھاکر فارغ ہوگئے تو بچے ہونے کھانے میں آپؐ نے برکت کی دعاء کی ، اور اسے اپنی ازواج مطہراتؓ کی طرف لے جانے کا حکم دیا۔ نیز فرمایا کہ وہ خود بھی اس سے کھائیں، اور جسے چاہیں کھلا بھی سکتی ہیں۔''
اس واقعہ سے متعلق ایک روایت طبرانی میں بھی موجود ہے ، جو اس طرح ہے:
''ثم دعا بلالا ، فقال : " يا بلال إني زوجت ابنتي ابن عمي ، وأنا أحب أن يكون من سنة أمتي ، إطعام الطعام عند النكاح ، فأت الغنم فخذ شاة وأربعة أمداد أو خمسة ، فاجعل لي قصعة لعلي أجمع عليها المهاجرين والأنصار ، فإذا فرغت منها فآذني بها " ، فانطلق ففعل ما أمره ، ثم أتاه بقصعة فوضعها بين يديه ، فطعن رسول الله صلى الله عليه وسلم في رأسها ، ثم قال : " أدخل علي الناس زفة زفة ولا تغادرن زفة إلى غيرها " - يعني إذا فرغت زفة لم تعد ثانية - فجعل الناس يردون ، كلما فرغت زفة وردت أخرى ، حتى فرغ الناس ، ثم عمد النبي صلى الله عليه وسلم إلى ما فضل منها ، فتفل فيه وبارك وقال : " يابلال احملها إلى أمهاتك ، وقل لهن : كلن وأطعمن من غشيكن ''3
یعنی '' آپؐ نے حضرت بلالؓ کو بلایا اور فرمایا: ''اے بلالؓ، میں نے اپنی لخت جگر کی اپنے چچا زاد سے شادی کردی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ نکاح کے وقت کھاناکھلانا میری اُمت کے لیے ایک سنت بن جائے۔ لہٰذا آپ چار مُد کھانا او رایک بکری کا گوشت ایک برتن میں ڈال کر لائیے، تاکہ میں انصارؓ اور مہاجرینؓ کو دعوت دے سکوں او راس کام سے فارغ ہوکر مجھے اطلاع دے دینا۔'' حضرت بلالؓ نے آپؐ کے حکم کے مطابق کھانا بنایا او رکھانے کا برتن آپؐ کے سامنے لاکر رکھ دیا۔ نبی کریمﷺ نے برتن کے وسط میں ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ لوگوں کو جماعت درجماعت داخل ہونے کو کہیں او ران میں سے کسی کو بھی خالی نہ جانے دیں۔ لوگ کھانے کے لیے آرہے تھے ، جب ایک جماعت کھا کر فارغ ہوجاتی تو دوسری جماعت آجاتی۔ حتیٰ کہ سب لوگ کھانا کھا کر فارغ ہوگئے۔ پھر آپؐ نے بقیہ کھانے میں اپنا لعاب ڈالا اور برکت کی دعاء کی ۔ پھر حضرت بلالؓ سے کہا کہ اسے امہات المؤمنینؓ کے پاس لے جائیں او رانہیں کہیں کہ وہ خود بھی کھائی اور جو ان کے پاس آئے اسے بھی کھلائیں۔''
اگرچہ بقول علامہ ہیثمی طبرانی کی مندرجہ بالا روایت کی اسناد میں ایک راوی یحییٰ بن یعلی متروک ہے۔4 لیکن بعض دوسری روایات کی موجودگی اس امر کو تقویت دیتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بوقت تزویج حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا ، دعوت طعام کے اہتمام کا حکم دیا تھا۔ حافظ الآجری، قاضی عیاض اور مولانا کرامت علی دہلوی رحمہم اللہ وغیرہ نے اس دعوت طعام کو ''حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے ولیمہ (ولیمتھا)'' سے موسوم کیا ہے او رطبرانی نے اس طعام عند النکاح کو امت محمدیؐ کی سنت قرار دیا ہے، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔
مو لانا کرامت علی دہلوی یہاں تک فرماتے ہیں کہ:
''مہمانی عروسی و ولیمہ جناب سرور کائنات ﷺ سے بتقریب نکاح حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے ماثور و منقول ہے۔ چنانچہ اس پر تعامل و تعارف سلف و صالحین سے قرناً بعد قرن چلا آرہا ہے۔ الخ''5
اسی رطح مولانا سید میاں نذیر حسین دہلوی فرماتے ہیں:
''......... او ردعوت والی دلہن کی دعوت مادبہ میں بھی داخل ہے او ردعوت مادبہ کی دو نوع ہے۔ اگر خاص دعوت اہل برات مرد مان ناکح کی طرف کی ہوگی تو وہ نقری میں داخل ہے، اور اگر وہ دعوت عام ہے تو جلفی میں داخل ہے۔6 او ریہ اسامی دعوت کے قرون ثلٰثہ وقدماء مجتہدین، اعلام و محدثین کرام سے منقول اور نامزد ہوئے ہیں۔ الخ''7
ان تمام ٹھوس دلائل کی بنیاد پر متقدمین و متأخرین میں سے اکثر و بیشتر اصحاب شریعت و ماہران سیر و تعامل قرون ثلٰثہ و واقفین موارد کلام عرب اس دعوت کی اباحت بلکہ اس کے استحباب کے قائل رہے ہیں۔ چنانچہ مولانا محمد اسحاق دہلوی نہایت صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں:
''وانچہ مروج است کہ بعد نکاح والیان عروس بمرد مان برات طعام میدھند آنہم بطریق ضیافت جائز است۔''8
یعنی ''یہ چیز جو کہ مروج ہے کہ نکاح کے بعد دلہن کے گھر والے برات کے لوگوں کو کھانا دیتے ہیں، تو ایسا کرنا مہمانداری کے طور پر جائز ہے۔''
شیخ حسین بن محسن الانصاری الخزرجی السعدی الیمانی ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں:
''والقول بأن الطعام المتخذ من جھة الزوجة أو من جھة أھلھا حرام بدعة أو مکروہ قول باطل لا معول عليه بل ھو مخالف لعموم الأحادیث الدالة علیٰ وجوب الإجابة إلیٰ عموم الدعوة۔ الخ''9
''اور یہ قول کہ وہ کھانا، جو زوجہ یا ا س کے گھر والوں کی جانب سے ہو، حرام بدعت یا مکروہ ہے، تو یہ قول باطل اور غیر معقول ہے۔ بلکہ ان احادیث بدعت یا مکروہ ہے، تو یہ قول باطل اور غیر معقول ہے۔ بلکہ ان احادیث سے عموم کے خلاف ہے جو دعوت کے عموم اجابت کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں۔''
اور مولانا سید میاں محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں:
''........... فی الجملہ دعوت دلہن کے مکان پر کھانا مباح ہے او رمنع و مکروہ نہیں بلکہ واجب ہے ان کے نزدیک کہ جو ''فلیجب'' میں امر وجوبی کہتے ہیں۔ علی الاطلاق تو امر ''فلیجب'' سے اجابت دعوت دلہن کے والی کی واجب ہوگی او رنازک اس کا عاصی اور گنہگار ہوگا۔ کما في الصحیح البخاري: ''من ترك الدعوة فقد عصی اللہ و رسوله عن أبي ھریرة وھٰکذا في صحیح مسلم و غیرہ.......... یہ محدث اور بدعت نہیں.......... کما لا یخفیٰ علیٰ ماھر تعامل السلف من الصحابة و التابعین وعلیٰ واقف لغات العرب۔ الخ'' 10 اور :
''........... جو دعوت ، والی دلہن حسب مقدرت بلا قرض و بغیر مشقت برضاء و رغبت،دولہا کے برات کی کریں تو مصیب ہوں گے او راجابت اس دعوت ک بموجب ضیافت اور دعوت روایت صحیح مسلم کے مباح او رمستحب بلا نکیر ہوگی او رجن کے نزدیک ''فلیجب'' سے امروجوب کے واسطے ہے تو واجب ہوگی۔ جاء الحق و ذہق الباطل، پھر جو کوئی نادان از راہ جہالت کے اس دعوت کو حرام جانے تو وہ احکام شرعیہ سے جاہل ہے، اس کے حق میں اعراض عن الجاہلین پڑھنا چاہیے۔ واللہ أعلم'' 11
جن دلائل کو ہم نے اوپر پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا، وہ الحمدللہ تمام ہوچکے اور ثابت ہوچکا کہ اگر والی دلہن بطریق شکریہ سبکدوشی فریضہ تزویج، بقصد سرور و ایتلاف و مواخات برادری و موالات اسلامی بلا فرض دو دوام اور بدون تفاخر و نام آوری اور بغیر زیاء و مباہات ، اقرباء و احباب کی دعوت و ضیافت کرے تو ایسا کرنا مشروع و مباح بلکہ مستحب ہے۔
ذیل میں علامہ ابن قدامہ المقدسی کی ایک فیصلہ کن عبارت نقل کرتے ہوئےزیر نظر مموون ختم کرتا ہوں:
''پس اگریہ مان بھی لیا جائے کہ اس دعوت طعام کا شریعت میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہے، لہٰذا اس کے اہتمام کرنے والے شخص کے لیے کوئی فضیلت و نیکی نہیں ہے، پھر بھی چونکہ یہ دعوت بہ سبب حادث سرو رہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اور اپنے بھائی بہنوں، دوست احباب اور اعزاء و اقرباء کے اطعام کاارادہ کرے تو اس کے لیے وہ بہرحال اجر کا مستحق ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔''12
وآخرد عوانا أن الحمدللہ رب العٰلمین والصلوٰة والسلام علی رسوله الکریم
حوالہ جات
1. طبري و أخرجه صاحب الصفوةو کذا في المرقاة نقلا عن المواهب۔
2. السیرة الأحمدیة للشیخ کرامت علی الدہلوي و ذکرہ الخفاجي في شرحه علیٰ شفاء القاضي عیاض
3. رواہ الطبرانی
4. مجمع الزوائد و منبع الفوائد للهیثمی ج9 ص207۔209
5. سیرة الأحمدیة
6. فتح الباری ج9 ص242
7. فتاوی نذیریہ ج2 ص348
8. مسائل اربعین
9. فتاویٰ نذیریہ ج2 ص341
10. ایضاً ج2 ص348
11. فتاویٰ نذیریہ ج2 ص348
12. المغنی ج7 ص12