بینکوں کے شراکتی کھاتے

عبدالغفار صاحب ، لیاقت کالونی حیدر آباد (سندھ) سے لکھتے ہیں:
''کچھ عرصہ پہلے ہمارے ملک میں سودی نطام بینکوں میں رائج تھا۔ اس سودی نظام کو تبدیل کیا گیا او راس نظام کی جگہ بلا سودی نظام یعنی نفع و نقصان کے شراکتی کھاتہ نے لے لی ہے۔ اب آپ اس بات کی وضاحت کردیں کہ اس سودی او ربلا سودی بینکاری میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ یعنی نفع و نقصان شراکتی کھاتہ بھی سود کی ایک شکل ہے یا یہ ایک سُود سے پاک نظام ہے؟ اس بات کی وضاحت قرآن و حدیث کی روشنی میں کیجئے، مہربانی ہوگی۔ والسلام''

جواب :
اس سوال کے جواب میں ہم چند حقائق بیان کردیتے ہیں۔ جس سے ہر شخص از خود یہ نتیجہ نکال سکے گا کہ بینکوں سے سُود ختم ہوا ہے یا ابھی صرف اس نے ایک نیا بھیس ہی بدلا ہے؟ اس سلسلہ میں صدر مملکت کے اعلان کے نتیجہ میں:
(1) یکم جنوری 1981ء کو بینکوں میں شراکتی کھاتےکھولے گئے اور بتلایا گیا کہ ان کھاتوں میں نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر سرمایہ کاری کی جائے گی تاہم ہر شخص اس معاملہ میں آزاد تھا کہ وہ اپنا حساب بچت کھاتوں میں کھولے یا میعادی کھاتوں میں یا شراکتی کھاتوں میں ۔ گویا بینکوں میں بیک وقت سودی کاروبار بھی جاری تھا اور شراکتی بھی۔

(2) پھر چار سال بعد یکم جنوری 1985ء کو تمام بینکوں کے لیے لازم قرار دیا گیا تھا کہ وہ فیڈرل حکومت، صوبائی حکومتوں، قومیائے ہوئے یا سرکاری تجارتی اداروں کو تمام سرمایہ صرف انہی بنیادوں پر مہیا کریں گے جو سٹیٹ بینک نے سود کے متبادل راستہ کے طورپر منظور کی ہیں۔

(3) یکم اپریل 1985ء کو یہ شرائط تمام غیر سرکاری یا نجی تجارتی اداروں او رعام افراد کے لیے بھی لازم قرار دی گئیں۔

(4) یکم جولائی 1985ء کو یہ اعلان کیا گیا کہ بینک کوئی بھی امانت ، یعنی خواہ بچت کھاتوں سے تعلق رکھتی ہو یا میعادی کھاتوں سے، سود کی شرائط پر نہیں رکھ سکیں گے۔ اس طرح گویا ہر نئے کھاتہ کھولنے والے کے اس اختیار کو ختم کردیا گیا کہ وہ چاہے تو سودی کھاتوں میں حساب رکھے اور چاہے تو شراکتی کھاتوں میں۔ اس طرح گویا بینکوں کو سود سے پاک کردیا گیا۔

پھر بینکوں کی طرف سے کچھ ایسے اقدامات بھی کئے گئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سود کو فی الواقعہ ''بینک بدر'' کردیا گیا ہے۔ مثلاً :
(الف) بینکوں کے کاغذات میں باقاعدہ ، اشیاء کی خرید و فروخت کے اندراجات کااہتمام کیا گیا۔
(ب) بینک پہلے ایک مقررہ شرح پر رقوم لوگوں سے لیتے تھے۔ مگر اب 6ماہ بعد باقاعدہ شرح منافع کا اعلان کیا جاتاہے۔
(ج) بینکوں کی یہ شرح منافع بھی الگ الگ ہوتی ہے۔ مثلاً اگر حبیب بینک 4؍1۔8فیصد شرح منافع کا اعلان کرتا ہے تو کوئی دوسرا بینک 4؍3۔7 فیصد کا اعلان کرتا ہے۔

ان تمام اقدامات او راعلانات سے ایک عام شخص یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہے کہ بینکوں میں اب سودی کاروبار نہیں رہا۔ مگر ہمیں افسوس ہے کہ ابھی یہ منزل بہت دور ہے۔ آج کے دور میں بینک فی الواقعہ ایک مفید ادارہ ہے۔ جو بعض ایسے مفید کام بھی کرتا ہے جس میں سود کا شائبہ تک نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ کام معمولی کمیشن یا فیس کی بنیاد پر کرتا ہے۔ مثلاً ترسیل زر۔ خواہ وہ بینک ڈرافٹ کی شکل میں ہو یا ٹیلیگراف ٹرانسفر کی شکل میں یا میل ٹرانسفر کی شکل میں یا مسافر چیک یا امانتوں کے لیے لاکرز کا اہتمام وغیرہ وغیرہ۔ مگر بینکوں کا اصل کام سرمایہ کاری ہے او رہر بینک کا نصف سے زیادہ سرمایہ اسی کام میں لگا رہتا ہے۔ کیونکہ یہی کام زیادہ منافع بخش ہوتا ہے۔ بینک ایک طرف سے کم شرح سود مثلاً 8فیصد پر لوگوں سے بچتیں وصول کرتے اور دوسری طرف زیادہ شرح سود مثلاً 14فیصد پر صنعت کاروں، تاجروں او رزمینداروں وغیرہ کو سرمایہ فراہم کرتے ہیں او راس طرح 6 فیصد گویا اپنے محنتانہ کے طور پر وصول کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں بینکوں کو چالو کھاتوں کی رقوم سے بھی معقول منافع ہوجاتا ہے۔ جبکہ ایسے کھاتہ داروں کو وہ کچھ ادا نہیں کرتے بلکہ اگر چالو کھاتے میں رقم ۔؍200 سے کم ہو تو ۔؍10 ششماہی محنتانہ کے طور پر وصول کرتے ہیں۔

لیکن اسلام نے سود کے بجائے تجارت کی راہ دکھلائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بَا...﴿٢٧٥﴾...سورۃ البقرۃ
''اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔''

اب تجارت کی عام شکلیں یہ ہیں:
(1) ایک شخص مثلاً زید اپنے ہی پیسہ سے اپنا کاروبار چلاتا ہے۔ اس صورت میں سرمایہ کاری کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔

(2) زید کاروبار کرنا جانتا ہے لیکن ا س کے پاس سرمایہ نہیں۔ سرمایہ کوئی دوسرا فریق لگاتا ہے ۔ جسے شرعی اصطلاح میں ''رب المال'' کہتے ہیں۔ اس طرح کا کاروبار ''مضاربت'' یا ''مقاربت'' کہلاتا ہے۔ اور زید کی حیثیت ''مضارب'' کی ہے ۔ اسے ''مدیون '' یا ''اجیر'' بھی کہہ سکتے ہیں۔

(3) زید اپنا کاروبار کررہا ہے ۔ لیکن اسے اس کاروبار میں اپنے سرمایہ کے علاوہ مزید سرمایہ بھی درکار ہے۔ لہٰذا وہ مزید یہ کسی دوسرے فریق سے حاصل کرتا ہے یا اسے بھی ساتھ ملا لیتا ہے اور وہ مل کر کاروبار کرتے ہیں۔ یہ صورت ''شراکت'' یا''مشارکت'' یا ''شرکت'' کہلاتی ہے اور ان میں سے ہر کوئی ''شریک'' کہلاتا ہے۔ گویا تجارت کی دوسری اور تیسری شکل یعنی مضاربت یا مشارکت کی صورت میں سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جس کے لیے بسا اوقات بینکوں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ ہمارے مرکزی بینک یا سٹیٹ بینک آف پاکستان نے سود کے متبادل راستہ یعنی مقاربت اور شراکت، کےلیے وہ کون سی بنیادیں فراہم کی ہیں، جن کے مطابق بینک حکومت او ردوسرے تجارتی اداروں کو سرمایہ فراہم کررہے ہیں:

شرح سُود او رمارک اَپ :
مرکزی بینک نے شرح سود کے بجائے سب سے بڑی بنیاد جو فراہم کی ہے۔ وہ ''مارک اَپ'' کی اصطلاحی ہے۔ شرح سود اور ''مارک اَپ'' کا تقابلی جائزہ یہ ہے کہ:
(الف) شرح سود تو بینک مقرر کرتا ہے۔ لیکن ''مارک اَپ'' مضارب اور رب المال یا زید اور بینک کے باہمی سمجھوتہ سے طے پاتی ہے۔
(ب) شرح سود فی صد سالانہ ہوتی ہے، جبکہ ''مارک اَپ'' فی ہزار یومیہ کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ مثلاً آج کل بینک اپنے پرانے قرضداروں سے 16 فیصد یا 15 فیصد کے حساب سے سود وصول نہیں کرتے، بلکہ 43 پیسے فی یوم فی ہزار کے حساب سے ''مارک اَپ'' یا منافع وصول کررہے ہیں او ریہ 1527 فیصد شرح سود بنتی ہے۔
(ج) شرح سود ہو یا مارک اَپ، دونوں ابتداء ہی میں طے کرلی جاتی ہیں۔

جبکہ سود او راسلامی نظریہ تجارت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ:
(1) مضاربت کی صورت میں اگر نقصان ہوجائے، تو نقصان سرمایہ دار یا رب المال پر پڑتا ہے او رمضارب کی محنت ضائع جاتی ہے۔ گویا السام سرمایہ کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا، کہ نقصان کی صورت میں مضارب بھی نقصان میں شریک ہو۔ اس کے لیے اتنا ہی نقصان کافی ہے کہ اس کی محنت ضائع ہوگئی۔
(2) شراکت کی شکل میں اگر نقصان ہوجائے تو جو نسبت آپس میں منافع کی طے پائی تھی۔ اسی نسبت سے فریقین نقصان میں بھی شریک ہوں گے۔

اب ہم چند مثالوں سے یہ بات واضح کریں گے کہ آیا مرکزی بینک کی فراہم کی ہوئی بنیادیں اسلامی نظریہ تجارت کے تقاضے پورے کرتی ہیں یا یہ سود ہی کی بدلی ہوئی شکلیں ہیں؟

مضاربت :
فرض کیجئے کہ زید کو کپڑے کی تجارت کے لیے بیس ہزار روپے چھ ماہ کے لیے درکار ہیں او روہ اس غرض کے لیے اپنے بینکر کے پاس جاتا ہے۔ اب بینک اور زید کے درمیان اس کاروبار او راس کے متوقع منافع پر تبادلہ خیال ہوتا ہے، اور ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس سے بیش فیصد منافع ہوگا اور منافع 2،3 کی نسبت سے طے پاتا ہے یعنی زید یا مقارب کو 5؍2 منافع ہوگا او ربینک یا رب المال کو 5؍3۔ اس طرح بیس ہزار پر پانچ ہزار روپے منافع میں سے دو ہزار زید کے اور تین ہزار بینک کےہوں گے (یہ بات یاد رکھئے کہ بینک کو اگر مروجہ شرح سود سے کم منافع نظر آتا ہو تو وہ ایسا معاہدہ ہرگز نہیں کرے گا) اب اس منافع کو ''مارک اَپ'' کی شکل میں ڈھالا جائے گا جو تقریباً وہی 43 پیسے فی دن فی ہزار بنتی ہے۔ جب یہ سمجھوتہ طے پاجائے گا تو بینک زید سے 20 ہزار روپےکا مال خریدے گا (جو زید پہلے بازار سے خود خریدے گا۔ پھر بینک کے ہاتھ فروخت کرے گا) پھر اسی وقت یا ا س سے ایک آدھ دن بعد وہ مال بینک مقررہ مدت تک کے لیے ، مارک اپ ساتھ شامل کرکے (یعنی بمعہ منافع ) زید یا مضارب کے ہاتھ فروخت کردے گا۔ بعد ازاں زید مقررہ مدت کے اندر اندر بالاقساط اصل بمعہ مارک اپ کے بینک کو واپس ادا کردے گا۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر زید مقررہ مدت کے اندر اندر اصل بمعہ مارک اپ ادا نہ کرے یا نہ کرسکے تو پھر کیا صورت ہوگی؟ ایسی صورت سے نپٹنے کے لیے بینک مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کرتا ہے:
(1) بینک صرف اس شخص کو قرضہ دینا منظور کرتا ہے جس کی اس بینک سے پہلے سے ڈیلنگ ہو اور وہ اس کی نظروں میں قابل اعتماد ہو۔
(2) ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ زید ہے تو فی الواقعہ قابل اعتماد، مگر کسی اتفاقی حادثہ کی وجہ سے وہ بروقت رقم بینک کو ادا نہیں کرسکا تو اس کا حل مرکزی بینک نے یہ سوچا ہے کہ وہ 210 دن کا زائد مارک اپ بھی قیمت میں شامل کردیتا ہے ۔ اب اگر زید مقرر میعاد کے اندر اصل زر بمعہ منفع واپس کردیتا ہے تو یہ 210 دن (سات ماہ) کا مارک اپ رعایت کے نام پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ اگر زید چھ ماہ کے بجائے آٹھ ماہ میں کل رقم ادا کرپاتا ہے تو اس کو پانچ ماہ یا 150 دن کا مارک اپ بطور رعایت چھوڑا جائے گا۔ اس طرح کاغذی اور قانونی کارروائی بھی پوری کردی جاتی ہے او ربینک ایسے خطرہ سےبھی محفوظ رہتا ہے۔
(3) اور آخری صورت یہ ہے کہ زید، ان مزید 210 دنوں تک بھی کل رقم ادا نہیں کرسکا (اور ایسی صورت شاذ ہی ہوسکتی ہے) تو اندریں صورت بینک مزید مار ک اپ لگانے کا مجاز نہیں ہوگا۔ بالفاظ دیگر سود اب لا متناہی عرصہ کے لیے بڑھتا نہیں چلا جائے گا۔ اب بقایا رقم جو زید کے ذمہ رہ گئی ہے، بینک اس کے لیے زید کو مزید مدت بلا سود کی اجازت بھی دے سکتا ہے۔ چاہے تو اس معاملہ کو بینک ٹربیونل میں بھی لے جاسکتا ہے او رچاہے تو اسے ڈوبا ہوا قرضہ قرار دے کر بینک کے منافع سے بطور نقصان وضع بھی کرسکتا ہے۔ لیکن کسی اتفاقی حادثہ کی بنا پر کسی قابل اعتماد انسان کا بقایا قرضہ معاف کردینا غالبا ً بینک کے کسی قانون میں نہیں ہے۔

مارک ڈاؤن :
سود کو ''بینک بدر'' کرنے کے لیے جس طرح مرکزی بینک نے ''مارک اپ'' کی اصطلاح ایجاد کی ہے۔ اسی طرح متی کاٹا یا ........ کی جگہ ''مارک ڈاؤن کی اصطلاح وضع کی گئی ہے جس کی ضرورت ''تجارتی ہنڈیوں'' یا پرامیسری نوٹ یا دیگر سرکاری وثائق کی صورت میں پیش آتی ہے۔ یہ تجارتی ہنڈیاں کیاچیز ہیں؟ بس انہیں ایک لحاظ سے پوسٹ ڈیٹ چیک ہی سمجھ لیجئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پوسٹ ڈیٹ چیک ایک عام آدمی دوسرے عام آدمی کے نام لکھتا ہے ، جبکہ ایسی ہنڈیاں اور وثائق بینک یا قابل اعتماد اداروں کی طرف سے جاری کئے جاتے ہیں، جن کے کیس نہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اب مسئلہ صرف دو تین ماہ کی مدت کا رہ جاتا ہے ۔ پہلے بینک ایسی ہنڈیوں وغیرہ کو فوری طور پر بدیں صورت کیش کردیتے تھے کہ مقررہ شرح سود کے مطابق مدت کے لحاظ سے کٹوتی کرلیا کرتے تھے، مگر اب کٹوتی یا شرح سود کی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ مارک ڈاؤن کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔

جائداد یا مشینری وغیرہ کی خرید و فروخت :
فرض کیجئے کہ وہی زید، جو بینک کے نزدیک قابل اعتماد آدمی ہے، مشینری کی خرید کے لیے بینک سے پچاس ہزار روپے قرضہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ اب بینک یہ کرے گا کہ اس رقم کے عوض مشینری خود زید سے خرید لے گا۔ اس پر متوقع منافع کا اندازہ کرے ''مارک اپ'' لگا کر زید سے یہ ''مارک اپ'' بطور کرایہ ہر ماہ وصول کرتا رہے گا اور اگر زید مقرر مدت کے اندر اصل زر بمعہ مارک اپ بالاقساط ادا نہیں کرسکا، تو بینک کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ مشینری کو فروخت کرکےاپنا سب کچھ کھرا کرے، باقی جو کچھ بچے گا وہ زید کا ہوگا۔ بینک کو مشینری کے حصول،اخراجات حصول، حصول کے دوران تلفی کا خطرہ اس کی نگہداشت اور وقت سے پہلے ناکارہ ہونے کی چنداں فکر نہیں ہوتی، وہ ایسے تمام خطرات کی ذمہ داری زید پر ڈال دیتا ہے اور خود کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لیتا۔ اب آپ خود یکھ لیجئے کہ مضاربت کی اس شکل کو اسلامی نظریہ بیع سے کس قدر تعلق ہے؟ یہ شکل تو خالص رہن کی ہے۔

اسی طرح اگر زید کوئی بھی جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ خریدنا چاہتا ہے تو اس کی بعینہ ایسی ہی صورت ہوگی۔

شراکت:
فرض کیجئے کہ زیدبینک کو اپنے کاروبار میں شریک بنانا چاہتا ہے، بینک کو زید کی مالی حیثیت کا بھی انداز ہے او را س کے قابل اعتماد ہونے کا بھی، تو اب بینک اس کاروبار کے فروغ کا جائزہ لے گا او راگلے پانچ سال کے متوقع منافع کا اندازہ بھی لگائے گا۔ اگر یہ اندازہ موجودہ شرح سود سے کچھ زیادہ ہوگا تو بینک کاروبار میں شراکت پر آمادگی کا اظہار کر دے گا او رہر تین ماہ کے لیے ایک عبوری شرح منافع طے کرکے یہ منافع بینک زید سے ساتھ کے ساتھ وصول کرتا رہے گا۔ سال بعد حساب کرنے پر اگر منافع عبوری منافع سے زائد نکلے تو بینک یہ مزید منفع لے بھی سکتا ہے۔ اس زائد منافع سے ریزرو فنڈ بھی قائم کرسکتا ہے او رچاہے تو از راہ احسان یہ زائد منافع چھوڑ بھی سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ حقیقی منافع عبوری منافع سے کم نکلے تو بینکوں کی حالیہ ترمیم کے مطابق :
(1) بینک عبوری شرح منافع کے حساب سے اپنا حصہ پورا وصول کرے گا۔ پھر جو کچھ منافع بچ رہ ےگا، وہ زید کا ہوگا۔
(2) اور اگر یہ حقیقی منافع سے بھی کم ہو تو سب کچھ بینک لے لے گا اور زید کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔

اب آپ خود دیکھ لیجئے کہ اس جام نَو میں وہی پرانی شراب ہی نہیں پیش کی جارہی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ چند ایک امور میں سود کو ختم کرنے کی صحیح سمت بھی اختیار کی گئی ہے ۔ مثلاً ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن یا دوسرے بینکوں کی کرایہ میں شراکت کی بنیاد پر سرمایہ کی فراہمی، یا مثلاً جو ملازم اپنےپراویڈنٹ فنڈ پر سود لینا گوارا نہیں کرتا، اسے بوقت ضرورت اس کے جمع شدہ پراویڈنٹ کا 80 فیصد تک بطور قرض حسنہ مل جاتا ہے، جسے وہ بعد میں بالاقساط اپنی تنخواہ میں سے وضع کرواتا رہتا ہے۔ مگر یہ چند باتیں مستثنیات میں شمار ہوں گی۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ آیا بینکوں میں فی الواقعہ سود کے بجائے تجارتی بنیادوں پر کام شروع ہوچکا ہے، تو ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے۔

بینکوں سے سود کے خاتمہ کی اس سست رفتاری (بلکہ حقیقتاً ناکامی) کی وجہ یہ بتلائی جاتی ہے کہ بینکوں میں موجودہ سودی نظام کئی صدیوں سے اپنے ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا اس مقام پر پہنچا ہے۔ اب اگر ہم پوری خلوص نیت سے سود کو ختم کرنا چاہیں بھی تو یہ چند سالوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔ آغاز سفر اگر ہوچکا ہے تو کسی نہ کسی وقت صحیح منزل بھی سامنے آہی جائے گی۔

ہمارے خیال میں یہ جواب درست نہیں، وجہ یہ ہے کہ ہمارے بینک اپنے بنیادی ڈھانچہ کے لحاظ سے مالیاتی توسط کےادارے ہیں، تجارتی ادارے نہیں ہیں۔ وہ اپنا حق المحنت سود یا یقینی منافع کی شکل میں وصول کرتے ہیں، لیکن کاروباری خطرات کی ذمہ داری کسی قیمت پر لینا گوارا نہیں کرتے۔ اور یہی بات سود اور تجارت کا بنیادی فرق ہے۔ لہٰذا جب تک بینک ذہنی طورپر اس بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی گوارا نہ کریں گے، سود کے خاتمہ کے لیے جو تجاویز بھی سامنے لائیں گے یا جو کچھ بھی اقدامات کریں گے، سود اپنی نئی نئی شکلوں میں جلوہ گری کرتا رہے گا۔ ہمیں نہ حکومت کے اعلانات سے کچھ بدظنی ہے ، نہ ہی ہم مرکزی بینک کی فراہم کردہ بنیادوں کو نیت کے فتور پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ بلکہ ہمارے خیال کے مطابق اصل خرابی یہ ہے کہ جب تک بینک مالیاتی ایجنٹ کے بجائے شریک یا مضارب کی صحیح صحیح شکل میں سامنے نہیں آئیں گے او رہر طرح کے کاروباری نفع و نقصان کی ذمہ داریوں کو قبول نہیں کریں گے، بنکوں سے سُود کا خاتمہ ناممکن ہوگا۔