تاریخ وہابیت
صفحہ 147 تا 162
تاریخ وہابیت حقائق کے آئینے میں
تحقیق شرط لازم ہے:
اصطلاحاً ''وہابی' نام رکھنا، نسبت و اعتقاد کے لحاظ سے اسی طرح غلط ہے جس طرح شیخ محمد اور ان کے متبعین کی طرف منسوب نظریات غلط تھے اور ان لوگوں نے اس سے براءت ظاہر کی ہے۔ سلفی عقیدے کے متلاشی دین اسلام کے دونوں سرچشموں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کا مقصد زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، اس لیے یہ لقب ان لوگوں کے لیے ناگوار خاطر نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھےا ہیں کہ جس لقب سے انہیں ملقب کیا گیاہے، وہ محض ایک بہتان ہے جو بحث و مناظرے میں ثابت نہیں رہ سکتا۔ یہ لوگ اس روشن راہ کے راہی ہیں جس پر سیدنا رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو چھوڑا جس کی رات بھی دن کی طرح ہے، ہلاک ہونے والا ہی اس راہ سے بہکے گا، یہ راہ آپﷺ کے قول و فعل اور تقریر سے صحت و سند پر اطمینان کے بعد اختیار کی گئی ہے۔
یہ عمران بن رضوان ہیں، جو بیرون جزیرہ کے مسلمان اور اپنے شہر ........ لنجہ...... کے علماء میں سے ہیں۔ جب انہیں یہ دعوت پہنچی اور اس کی سچائی پر انہیں یقین ہوگیا تو ایک قصیدے میں اس کی مدح سرائی جس میں ذیل کا شعر بھی آیا ہے:1
إن کان تابع أحمد متوھبا
فأنا المقر بأنني وھابي
''اگر احمد مصطفیﷺ کی پیروی کرنے والا وہابی ہے تو مجھے اپنے وہابی ہونے کا اعتراف ہے۔''
اور یہ شعر انہوں نے صرف اس لیے کہا ہے کہ ''وہابی'' کا لقب بقول عالم عراق محمد بہجت اثری دشمنان اسلام کی خواہش پر رکھا گیا ہے۔ اسلام کے دشمنوں کا خیال تھا کہ عالم اسلام ایک بے جان ڈھانچہ ہوگیا ہے، یقیناً سامراجی طاقتیں اس کی سرزمین ، خزانوں، کانوں اور دیگر قدرتی وسائل پر قابض ہوجائیں گی، پس اس نئی دعوت کو جس کی گونج وسط جزیرہ نما عرب سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی او رانہیں ہلاکتوں سے بچانے کے لیے اٹھی تھی، ایک فرقے کی شکل میں پیش کیا گیا تاکہ فرقوں کی تعداد میں ایک اور اضافہ ہوجائے۔ اسی لیے اسے ''وہابیت'' کا لقب دیا گیا او رشہرت یافتہ ذرائع ابلاغ نے اس لقب کی اشاعت کی جس سے یہ لقب لوگوں میں زبان زد عام ہوگیا۔ حکومت عثمانیہ کو بھی یہ لقب بھلا لگا، چنانچہ اس نے اسے درویشوں اور شاہی خاندان کی درگاہوں اور خانقاہوں کے دستر خوان پر پلنے والوں کی زبان پر چالو کردیا اور اس پر شبہات ڈالنے اور اس کی صورت مسخ کرنے میں بڑھ چڑھ کر کام کیا، بالخصوص اُس وقت جب اس کی اہمیت بڑھ گئی اور اس کی بنیاد پر جزیرہ نمائے عرب میں مضبوط عربی اسلامی حکومت قائم ہوگئی۔2
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کے آخر میں دو خطوط کا تذکرہ کردوں:
ایک شیخ محمد بن عبدالوہاب کا اہل قصیم کے نام خط اور دوسرا وہ خط جو شیخ سلیمان بن عبدالوہاب نے علمائے مجمعہ میں سے تین کے نام بھیجا تھا، مگر یہاں بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان دونوں خطوں کی تاریخ واضح نہیں ہے۔
اس خط میں شیخ محمد سلفی دعوت کے سلسلے میں اپنا منہج واضح کرتے ہیں۔ جب میں شعبان 1407ھ میں موریتانیا گیا تو وہاں کے بعض علماء نے افادہ عام کے لیے ان دونوں خطوں کا اضافہ کرنے کی درخواست کی تاکہ پڑھنے والے خود اپنی بصیرت کی روشنی میں حقیقت حال جان لیں اور صحیح نتیجے تک پہنچ سکیں۔
چنانچہ ان دونوں خطوں کو میں نے اس کتاب کا ضمیمہ بنا دیاہے۔ میرا مقصد صرف اصلاح ہے۔اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ میں اسی سے توفیق کا طالب ہوں۔
ضمیمہ:
شیخ محمد کے خطوط کے مطالعے سے پہلے یہاں شیخ کے ایک خط کی وضاحت ضروری ہے تاکہ قارئین کرام پر اصل حقیقت روشن ہوجائے۔ یہ خط اہل قصیم کے نام ہے۔ ان لوگوں نے شیخ محمد سے ان کا عقیدہ دریافت کیا تھا تو اس استفسار کے جواب میں شیخ نے یہ مکتوب ارسال کیا۔ اسے اہل قصیم نے مقامی علمائے کرام کی خدمت میں ان کی رائے جاننے کے لیے پیش کردیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مقامی علمائے کرام شیخ محمد کی دعوت کی تائید کردیں گے تو وہ اسے قبول کرلیں گے، بصورت دیگر کنارہ کش رہیں گے۔
چنانچہ علمائے کرام نے شیخ کے خط کا بڑی احتیاط اور باریک بینی سے مطالعہ کیا اور شیخ محمد کی نسبت اعلان کردیا کہ وہ راہ صواب پر ہیں۔ اس جانچ پرکھ اور تحقیق و تفتیش کے بعد اہل قصیم نے شیخ کی دعوت حق قبول کرلی۔ راہ حق کے مسافروں کا یہی طریقہ ہونا چاہیے۔ یہی شان اور ذمے داری علمائے کرام کی بھی ہے کہ وہ معاملے کو علم و بصیرت اور دلیل و برہان کی روشنی میں دیکھیں او رملامت گر کی ملامت سے بے خوف ہوکر سچائی کا اعلان کردیں۔
اب شیخ کے مکتب گرامی کا مطالعہ فرمائیے۔ شیخ کے دوسرے خطوط بھی اسی طرح کے ہیں جو استفسار کرنے والوں کے جواب میں لکھے گئے۔ جس نے جب کبھی اپنے شک و شبے کا اظہار کیا اور شیخ سے سوال کرکے راہ حق جاننی چاہی تو شیخ نے فوراً جواب باصواب مرحمت فرمایا جس کے نتیجے میں لوگوں پر حقیقت حل کھل گئی اور انہوں نے شیخ کی دعوت قبول کرلی۔ انہوں نے شیخ کے ہاں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو یا ان معتبر مآخذ کے منافی ہو جن پر امت اسلامیہ کی بڑی شخصیات اعتقاد رکھتی ہیں۔
شیخ کا اہل قصیم کے نام خط :
جب اہل قصیم نے شیخ سے ان کے عقیدے کے بارے میں دریافت کیا تو تحریر فرمایا:3
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
میں اللہ کو، میرے پاس جو فرشتے حاضر ہیں انہیں اور آپ لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں وہی اعتقاد رکھتا ہوں جو فرقہ ناجیہ اہل سنت والجماعت عقیدہ رکھتا ہے، یعنی اللہ پر،اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر اُٹھنے پر او راچھی یا بُری تقدیر پر ایمان رکھتا ہوں او رایمان باللہ ہی میں سے ان تمام صفات پر بغیر حک و اضافہ، ایمان لانا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو اپنی کتاب میں یا اپنے رسولﷺ کی زبان پر متصف کیا ہے۔میرا عقیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جیسی کوئی چیز نہیں۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ جن صفات سے اس نے اپنے آپ کو متصف کیا، ان میں سے کسی کا انکار نہیں کرتا، نہ اس کے کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے تبدیل کرتا ہوں۔ اس کے ناموں اور آیات میں کج روی نہیں کرتا۔ اس کی کیفیت بیان کرتا ہوں نہ اس کی صفات مخلوق کی صفات جیسی قرار دیتا ہوں کیونکہ وہ بلند و بالا ہے۔ اس کا کوئی ہم نام ہے، نہ کوئی ہمسر ہے او رنہ کوئی اس کا شریک ہے۔ مخلوق پر اسے قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللہ سبحان و تعالیٰ خود اپنے آپ کو غیر سے زیادہ جانتا ہے۔ اپنی بات میں سب سے زیادہ سچا ہے اور اس کی بات سب سے زیادہ بہتر ہے، اس کی ذات عالی ان تمام صفات سے پاکیزہ ہے جن سے کیفیت بیان کرنے والے او رتشبیہ دینے والے مخالفین اسے متصف کرتے ہیں، اس نے ان صفات سے بھی خود کو منزہ قرار دیاہے جن کا ردّوبدل اور حک و اضافہ کرنے والے منکرین انکار کرتے ہیں، اس کا ارشاد ہے:
﴿سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿١٨٠﴾ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ﴿١٨١﴾...سورۃ الصف
''
پاک ہے آپ کا رب، جو بہت بڑی عزت والا ہے، ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں او رپیغمبروں پر سلامتی ہے۔''
4اور فرقہ ناجیہ ''نجات پانے والا گروہ'' اللہ تعالیٰ کے افعال کے بارے میں قدریہ اور جبریہ کے مابین معتدل ہے اور اللہ کی وعید کے بارے میں وہ لوگ فرقہ مرجئہ و جہمیہ کے مابین معتدل ہیں او راصحاب رسول اللہ ﷺ کے بارے میں شیعہ اور خوارج کے مابین معتدل ہیں۔ میں اعتقاد رکھتا ہوں کہ قرآن اللہ کا نازل کردہ کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔ اسی سے اس کی ابتدا ہوئی اور اسی کی طرف وہ لوٹ جائے گا، اللہ تعالیٰ نے حقیقتاً اس کے ذریعے سے کلام کیا او راپنے بندے، اپنے رسول، اس کی وحی کے امین، اس کے اور اس کے بندوں کے درمیان اپنے سفیر، ہمارے نبی محمدﷺ پر اسے نازل فرمایا اور اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے اسے کر گزرنے والا ہے۔ اس کے چاہے بغیر کوئی چیز نہیں ہوسکتی او رکوئی چیز اس کی مشیت سے خارج نہیں ہوسکتی۔ دنیا میں کوئی چیز اس کی تقدیر سے باہر نہیں ہے، نہ اس کی تدبیر کے بغیر پیدا ہوتی ہے۔ کسی کو متعین تقدیر سے مفر نہیں۔ لوح مکتوب میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا او رموت کے بعد پیش آنے والی ہر اس چیز پر یقین رکھتا ہوں جس کی خبر نبی ﷺ نے دی ہے۔ قبر کی آزمائش اور اس کی نعمتوں پر ، اجسام میں رُوحیں لوٹانے پر ایمان رکھتا ہوں او رلوگ رب العالمین کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے بدن، بغیر ختنہ کھڑے ہوں گے۔ آفتاب ان سے قریب ہوگا ترازو قائم کی جائے گی اور اس سے بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا جن کے ترازو کا پلڑا بھاری ہوگا وہ تو نجات پانے والے ہوں گے اور جن کے ترازو کا پلڑا ہلکا ہوگیا، یہی ہیں وہ جنہوں نے اپنا نقصان آپ کرلیا او رہمیشہ کے لیے واصل جہنم ہوئے۔ دفاتر پھیلا دیئے جائیں گے ، کوئی اپنا نامہ اعمال اپنے داہنے ہاتھ میں لے گا او رکوئی اپنے بائیں ہاتھ میں لے گا، ان سب باتوں پر میرا ایمان ہے۔
میدان محشر میں ہمارے نبیﷺ کے حوص پر میرا یقین ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ اس کے ساغر آسمان کے ستاروں کی تعداد میں ہوں گے ، جو اس حوض سے ایک بار پانی پی لے گا اس کے بعد کبھی پیاس نہیں محسوس کرے گا، میرا اس بات پر ایمان ہے کہ پل صراط جہنم کے کنارے پر رکھا جاچکا ہے ، لوگ اس سے اپنے اپنے اعمال کی حیثیت کے مطابق گزریں گے۔ میں نبیﷺ کی شفاعت پر ایمان رکھتا ہوں اور اس بات پر بھی کہ آپ سب سے پہلے شفاعت کرنے والے ہوں گے اور سب سے پہلے آپﷺ ہی کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ صرف اہل بدعت اور گمراہ لوگ نبی ﷺ کی شفاعت کے منکر ہیں لیکن شفاعت اللہ کی اجازت اور رضا مندی کے بعد ہی ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ...﴿
٢٨﴾...سورۃ الانبیاء
''
وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کریں گے بجز اُن کے جن سے اللہ خوش ہو۔''
5اور ارشاد ہے:
﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ...﴿
٢٥٥﴾...سورۃ البقرۃ
''
کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے۔''
6نیز ارشاد فرمایا:
﴿وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّـهُ لِمَن يَشَاءُ وَيَرْضَىٰ ﴿٢٦﴾...سورۃ النجم
''
او رکتنےہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش ذرابھی کام آنے والی نہیں، مگریہ او ربات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لیے چاہے اجازت عطا کردے۔''
7اللہ تعالیٰ توحید ہی سےراضی ہوگا او راہل توحید ہی کو اہل توحید کی سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔ رہے مشرکین تو شفاعت میں ان کا کوئی حصہ نہیں جیساکہ ارشاد ربانی ہے:
﴿فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ ﴿٤٨﴾...سورۃ المدثر
''
انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش کوئی نفع نہ دے گی۔''
8میرا اس بات پر ایمان ہے کہ جنت اور جہنم مخلوق ہیں۔ دونوں اس وقت موجود ہیں اور دونوں فنا نہیں ہوں گے۔اہل ایمان قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اُسی طرح اپانی نگاہوں سے دیکھیں گے جس طرح چودھویں رات کا چاند دیکھتے ہیں ، اس کی دید سے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔
میں ایمان رکھتاہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ سارے نبیوں او رپیغمبروں پر مہر ہیں۔ کسی بندے کا ایمان، جب تک وہ آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان نہ لائے اور آپﷺؐ کی نبوت کی گواہی نہ دے ، صحیح نہ ہوگا۔ آپﷺ کی امت میں سب سے افضل ابوبکر صدیق، پھر عمر فاروق، پھر عثمان ذوالنورین، پھر علی مرتضیٰ، پھر باقی عشرہ مبشرہ، پھر اہل بدر، پھر درخت والے اصحاب بیعت رضوان ، پھر باقی صحابہ ؓ ہیں۔
میں اصحاب رسولﷺ سے محبت کرتا ہوں، ان کی خوبیاں دل میں یاد رکھتا ہوں او رزبان سے چرچا کرتا ہوں، انہیں راضی کرتا ہوں اور ... رضی اللہ عنہم..... کہتا ہوں او ران کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں، ان کی بُرائی کرنے سے باز رہتا ہوں، ان کے مابین جو نزاع ہوا، اس پر خاموشی اختیار کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾...سورۃ الحشر
''
اور جو ان کے بعد آئے، وہ دُعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں بخش دے او رہمارے ان بھائیوں کوبھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کےلیے کینہ نہ پیدا ہونے دے، اے ہمارے رب! بے شک تو نہایت شفیق او رمہربان ہے۔''
9اس ارشاد باری پر عمل کرتے ہوئے میں صحابہ کرام ؓ کی فضیلت کو مانتا ہوں۔ہر بُرائی سے پاک امہات المؤمنین کےحق میں ''.....
رضی اللہ عنہن..... '' کہتا ہوں، اولیاء کی کرامت و کشف کا معترف ہوں لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حق کے مستحق نہیں ہیں۔ جس چیز پر صرف اللہ تعالیٰ قادر ہے، وہ ان سے نہیں مانگی جائے گی، بجز اس کے جس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے گواہی دی ہے۔ میں مسلمانوں میں سے کسی اور کے لیے جنت و جہنم کی گواہی نہیں دیتا لیکن نیکو کار کے لیے رحمت کا امیدوار ہوں او رگناہ گار پر عذاب سے خائف ہوں۔ میں مسلمانوں میں سے کسی گناہ کے مرتکب کو کافر نہیں کہتا، نہ اسے دائرہ اسلام سے خارج مانتاہوں، ہر نیک و بد امام کے ساتھ جہاد کو جاری سمجھتا ہوں، ان کے پیچھے نماز باجماعت مباح جانتا ہوں اور جہاد محمدﷺ کی بعثت سے لے کر اس امت کے آخری فرد کی دجال سے جنگ کرنے تک باقی ہے۔ کسی ظالم کا ظلم اسے منسوخ کرے گا نہ کسی انصاف پر ست کا انصاف۔ نیک و بد ائمہ مسلمین کی اطاعت واجب سمجھتا ہوں جب تک وہ اللہ کی معصیت کا حکم نہ دیں اور جسے خلیفہ مقرر کردیا گیا او رلوگ اس سے متفق اور راضی ہوگئے یا بزور طاقت ان پر غالب ہوکر خلیفہ بن گیا،اس کی اطاعت واجب ہے، اس کے خلاف بغاوت کرنا حرام ہے۔ اہل بدعت سے قطع تعلق اور جدائی مناسب سمجھتا ہوں یہاں تک کہ وہ توبہ کرلیں، انہیں مسلمان مانتا ہوں او ران کا باطن اللہ کے حوالے کرتاہوں۔ میں اسلام میں ہر نئی ایجاد کردہ چیز کو بدعت مانتاہوں۔ اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ایمان زبان کے قول، اعضاء و جوارح کے عمل اور دل کی تصدیق کو کہتے ہیں۔ ایمان اطاعت و فرماں برداری سے بڑھتا ہے اور نافرمانی سے گھٹتا ہے۔ اس کے ستر سے کچھ زیادہ شعبے ہیں۔ سب سے بلند شعبہ
''لا إلٰه إلا اللہ'' کی گواہی دینا ہے او رسب سے نچلا راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کا شریعت محمدیہ کے تقاضے کے مطابق قائل ہوں۔
یہی میرا مختصر عقیدہ ہے جسے پریشان حالی میں تحریر کردیاہے تاکہ آپ لوگوں کو میرے خیالات سے آگاہی ہوجائے اور جو کچھ میں کہتا ہوں، اس پر اللہ میرا کارساز ہے۔
آپ لوگوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہونی چاہیے کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ لوگوں کو سلیمان بن سحیم کا خط پہنچا ہے او رآپ کے ہاں بعض کم علم اشخاص نے اسے درست سمجھ لیا ہے او راس کی تصدیق کی ہے جبکہ اللہ جانتا ہے کہ اس شخص نے مجھ پر ایسی باتوں کا الزام لگایا ہے جو میری زبان تو کجا میرے وہم و گمان سے بھی نہیں گزریں، جیسے : ان کا یہ کہنا کہ میں مذاہب اربعہ کی کتابوں کو منسوخ قرار دیتا ہوں او رکہتا ہوں کہ لوگ چھ سو سال سے کسی مذہب پر نہیں ہیں او راجتہاد کا دعویٰ کرتا ہوں، تقلید کی مجھے ضرورت نہیں او رکہتا ہوں کہ علماء کا اختلاف مصیبت ہے اور جو بزرگوں کا وسیلہ پکڑے، اس ےکافر کہتا ہوں، بوصیری کو اس کے ''یا اکرم الخلق!'' کہنے کی وجہ سے کافر گردانتا ہوں، میں کہتا ہوں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کا قبہ ڈھانا میرے بس میں ہوتا تو میں اسے ڈھا دیتا اور میں قبر نبیﷺ کی زیارت کو حرام کہتا ہوں اور والدین وغیرہ کی قبر کی زیارت کا منکر ہوں۔ جو غیر اللہ کی قسم کھائے اسے کافر کہتا ہوں، ابن فارض او رابن عربی کو کافر گردانتا ہوں۔ ''دلائل الخیرات'' اور ''روض الریاحین'' جیسی کتابیں جلا دیتا ہوں او رآخر الذکر کتاب کو ''روض الشیاطین'' کے عنوان سے موسوم کرتا ہوں۔ ان تمام مسائل کے بارے میں میرا جواب یہ ہے کہ میں کہتا ہوں :
سُبْحَانَكَ هَـٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ''
یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔'' ان سے پہلے لوگوں نے محمدﷺ پر بہتان لگایا تھا کہ آپﷺ عیسیٰ بن مریم علیہم السلام اور بزرگون کو گالی دیتے ہیں، ان لوگوں کے او راُن لوگوں کے دل الزام لگانے اور جھوٹ بولنے میں یکساں ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
﴿إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ...﴿
١٠٥﴾...سورۃ النحل
''
جھوٹ تو وہی لوگ گھڑتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں ہوتا۔''
10یہی لوگ جھوٹے ہیں۔کذابوں نے رسالت مآبﷺ پر بہتان لگایا کہ آپؐ کہتے ہیں:
فرشتے ، عیسیٰ او رعزیر جہنم میں ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ﴿١٠١﴾...سورۃ الانبیاء
''
بے شک جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے ہی نیکی او ربھلائی مقدر ہوچکی ہے وہ سب جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔''
11رہ گئے دوسرے مسائل تو بے شک میں یہ ضرور کہتا ہوں: انسان جب تک
''لا إلٰه إلا اللہ'' کے معنی سمجھ نہ لے کامل طور پر مسلمان نہیں ہوسکتا جو میرے پاس آئے گا، میں اسے اس سے معنی سمجھا دوں گا۔ جب نذر سے غیر اللہ کے تقرب کی نیت ہو تو نذر ماننے والے اور نذرانہ قبول کرنے والے دونوں کو کافر کہتا ہوں۔ او ریہ کہ غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا کفر ہے او روہ ذبیحہ حرام ہے۔ یہ مسائل یقیناً برحق ہیں۔ میں ان کا قائل ہوں او رمیرے پاس ان پر کلام اللہ اور کلام رسول اللہ ﷺ او رجن علماء کی اتباع کی جاتی ہے، جیسے ائمہ اربعہ، ان کے اقوال سے دلائل موجود ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ آسانی فرمائے گا، ان شاء اللہ ان سب کا تفصیلی جواب ایک مستقل رسالے کی شکل میں لکھوں گا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کو سمجھیں اور غور کریں:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ...﴿
٦﴾...سورۃ الحجرات
''
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو۔''
12مصباح الظلام کے مصنف نے سلیمان بن عبدالوہاب کی طرف منسوب اپنے بھائی کے ردّ پر اعتراض کے بعد کہا: اللہ کا احسان ہے کہ اس کتاب کا مسّودہ تیار کرتے ہوئے سلیمان کے ایک ایسے خط کا پتہ چلا جس سے انہوں نے اپنے پہلے مذہب سے توبہ کرنے کی خوش خبری دی ہے اور اعتراف کیا ہے کہ حقیقت توحید و ایمان ان پر ظاہر ہوگئی اور جو گمراہی و سرکشی پہلے سرزد ہوچکی ہے، اس پر وہ نادم ہیں۔
اس خط کا مضمون یہ ہے :
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سلیمان بن عبدالوہاب کا برادران حمد بن محمدتویجری او راحمد و محمد اولاد عثمان بن شبانہ کے نام خط۔13
السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ و بعد! اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ ہم پر اور تم پر اللہ نے اپنے دین او رسول اللہ ﷺ کے ذریعے بھیجی ہوئی شریعت کی معرفت کا جو احسان کیااو راس کے ذریعے اندھے پن سے نکال کر بصیرت عطا فرمائی اور گمراہی سے نجات دلائی، یہ ساری باتیں تمہیں یاد دلاتا ہوں۔ ہمارے پاس درعیہ آجانے کے بعد تمہاری معرفت حق، اس پر تمہاری مسّرت اور اللہ رب العزّت کی حمد و ثنا جس نے تمہیں بچایا، یہ امور بھی تمہیں یاد دلاتا ہوں، الحمد للہ! جو بھی ہمارے ہاں آتا ہے ، تمہاری تعریف کرتا ہے، اس پر اللہ کا شکر ہے۔ تمہیں دو خط بطور یاددہانی لکھ چکا ہوں۔ میرے بھائیو! حق کی مخالفت ، شیطان کے راستے کی پیروی او رراہ ہدایت کی اتباع سے روکنے کی جو کوشش ہم سے سرزد ہوئی تھی، وہ تمہیں معلوم ہے۔ اب یاد رکھو! ہماری زندگی کا تھوڑا حصہ باقی ہے، گنتی کے گنے چنے دن ہیں، سانس گنے جارہے ہیں۔ گمراہی کے لیے جو کچھ ہم نے کیا تھا، ضرورت ہے کہ اب اس سے سیادہ ہدایت کے لیے کام کریں، وہ بھی صرف اللہ وحدہ لا شریک کی رضا کے لیے ، نہ کہ ا س کے ماسوا ک ےلیے ، شاید اللہ تعالیٰ ہمارے اگلے پچھلے گناہ مٹا دیں۔ جہاد فی سبیل اللہ ےکی عظمت جو ہاتھ زبان، دل اور مال سے ہوتا ہے ، اس سے گناہوں کا جو کفارہ ہوتا ہے، وہ تم سے مخفی نہیں او رجس کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو ہدایت دے دے اس کا اجر تم جانتے ہو، اس وقت جتنا کار خیر تم کرتے ہو، اس سے زیادہ کرنا اور اللہ کے لیے سچائی کے ساتھ کھڑے ہونا، حق کو بطور حق لوگوں سے بیان کرنا او رپہلے تم جس ضلالت و گمراہی پر تھے، اسے صراحت سے بیان کرنا مطلوب ہے۔
اے میرے بھائیو! اللہ سے ڈرو، اللہ کا خوف کرو، اگر ہم ویرانوں میں نکل جائیں، اللہ کے آگے گڑگڑائیں، اس کے سامنے دست دعا بلند کریں اور لوگ ہمیں پاگل ٹھہرائیں تو یہ بھی ہمارے لیے کم ہے کیونکہ ہمارا گناہ اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
تم اپنی جگہ پر دین و دنیا کے سردار ہو، شیوخ قبائل سے زیادہ باعزت ہو او رسارے عوام تمہارے پیروکار ہیں، اس پر اللہ کا شکر ادا کرو۔ ممنوعات شریعت میں سے کسی چیز کا ارتکاب نہ کرو۔ تم جانتے ہو کہ فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ادا کرنے والوں کو ناپسندیدہ امور ضرور پیش آتے ہیں۔میں ا س پر تمہیں صبر کی نصیحت کرتا ہوں جس طرح اللہ کے نیک بندے لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کی، اللہ ہی کے لیے محبت کرنے او راللہ ہی کے لیے بغض رکھنے سے بڑھ کر کوئی حق نہیں، اللہ کے لیے دوستی کرو اور اللہ ہی کے لیے دشمنی کرو۔
اس راہ میں تمہیں کچھ شیطانی خیالات پیش آئیں گے، مثلاً : یہ کہ بعض لوگ خود کو اس دین کی طرف منسوب کریں او ر شیطان آپ کے دل میں ڈالے کہ یہ سچا نہیں ہے بلکہ دنیا کا خواہش مند ہے، حالانکہ یہ ایسی بات ہے جس سے صرف اللہ تعالیٰ باخبر ہے، لہٰذا جب کسی کا ظاہر اچھا ہو تو اسے تسلیم کرو اور اس سے دوستی رکھو۔ جب کسی کا ظاہر بُرا ہو او روہ دین سے پیٹھ پھیر رہا ہو تو اس سے دشمنی رکھو اور اس سے نفرت کرو، اگرچہ وہ تمہارا بڑا محبوب ہی ہو۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بلا شرکت غیرے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اپنی رحمت سے ہمارے لیے ایک رسولﷺ بھیجا جس نے ہمیں ہمارے اصل مقصد سے روشناس کرایا او رہمیں اللہ تعالیٰ کا راستہ بتایا۔ سب سے بڑی بات جس سے اس نے ہمیں منع کیا، وہ اللہ کےساتھ شرک کرنا او راللہ والوں سے دشمنی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حق بیان کرنے اور باطل ظاہر کرنے کا حکم دیا۔ جو شخص پکڑے، وہ تمہارا بھائی ہے، اگرچہ وہ بہت بڑا دشمن ہی ہو اور صراط مستقیم سے پیٹھ پھیرے، وہ تمہارا دشمن ہے، چاہے وہ تمہارا بیٹا یا بھائی ہو۔
الحمدللہ! مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کچھ میں نے تم لوگوں سے کہا ہے، اسے تم جانتے ہو، پھر بھی یہ بات تمہیں از سر نو یاد دلائی ہے، اس لیے اب اسے مکمل طور پر بیان کرنے سے جس میں کوئی التباس نہ ہو، تمہارے پاس کوئی عذر نہیں۔ وہاں تمہاری مجلسوں میں ہم نے اور تم نے پہلے جو کچھ کہا، اسے برابر یاد رکھنا، باطل کا ساتھ دینا او رحق کا بھرپور ساتھ دینے سے زیادہ کوئی برحق نہیں ، نہ اس سے تمہیں کوئی عذر مانع ہے کیونکہ آج دین و دنیا دونوں ........الحمدللہ......... اس سے متفق ہیں۔ ذرا یاد کرو، پہلے تم دنیاوی معاملات میں کس قدر خوف زدہ تھے۔ طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا تھے، ظالموں اور فاسقوں کی زیادتیاں سہہ رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے دین کے ذریعے یہ ساری مصیبت دور فرمائی اور تمہیں سیادت و قیادت کا رتبہ عطا فرمایا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دین کا احسان اور عالی قدر شیخ الاسلام کی دعوت حق کا اثر ہے۔ ایک مسئلے پر غور کرو جس سے ہم ناواقف ہیں کہ اس اسلامی دعوت کے پھیلنے سے قبل فاسد عقائد والے بدوؤں پر اسلامی احکام کا اطلاق کیا جاتا تھا جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ صحابہ نے مرتد ہوجانے والے بدوؤں سے جنگ کی، حالانکہ ان میں اکثرت ان میں اکثر اسلام کے نام لیوا تھے بلکہ بعض اسلام کے ارکان بھی بجا لاتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ جو قرآن کے ایک حرف کوبھی جھٹلائے گا، اسے کافرکہا جائے گا، اگرچہ وہ عابد و پارسا ہی ہو۔ اور جو دین یا دین کی کسی چیز کا مذاق اڑائے، وہ کافر ہے اور جو کسی متفق علیہ حکم کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ اس کے علاوہ اسلام سے خارج کرنے والے دیگر احکام جو سب بدوؤں میں اکٹھے موجود تھے، اس کے باوجود ہم ان پر اپنے سے پہلے لوگوں کی تقلید کرتے ہوئے بلا دلیل اسلام کا حکم لگاتے تھے۔
میرے بھائیو! غور کرو او راس اصل کو یاد رکھو تو تمہیں اس سے کہیں زیادہ رہبری کی رو شنی ملے گی۔ میں نے بات لمبی کردی کیونکہ مجھے یقین ہے کہ جن باتوں کی تنبیہ کی ہے، اس میں سے کسی پربھی تم شک نہیں کرو گے۔میری اس سلسلے میں اپنے لیے اور تمہارے لیے خصوصی نصیح8ت یہ ہے کہ رات دن اللہ کے سامنے گڑگڑانے کو اپنی عادت بنا لو کہ وہ تمہیں نفس کی برائیوں اور اعمال کی خرابیوں سے بچائے۔ صراط مستقیم کی ہدایت دے جس پر اس کے انبیاء ، پیغمبر اور نیک بندے گامزن تھے او رگمراہ کن فتنوں سے تمہیں محفوظ رکھے۔ حق واضح اور روشن ہے او رحق کے بعد گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ سے ڈرو، اسے یاد رکھو، جو لوگ تمہارے علاقے میں ہیں وہ خیر و شر میں تمہارے تابع ہیں، جو کچھ میں نے تم سے بیان کیا ہے اگر اسے کرتے رہے تو تمہیں کوئی بُرا نہیں کہہ سکے گا او رتم بڑے لوگوں کی طرح پریشان حال لوگوں کے لیے مشعل راہ بن جاؤ گے، اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں سب کو راہ راست پر چلائے۔
شیخ، ان کی آل و اولاد او رہمارے اہل خانہ سب .......الحمد للہ...... اچھے او راور تمہیں اسلام عرض کررہے ہیں۔ اپنے عزیزوں کو ہمارا اسلام پہنچا دو۔ والسلام و صلی اللہ علی محمد وآله و صحبه
اے اللہ! خط لکھنے والے، اس کے والدین، اس کی ذریت، خط پڑھ کر کاتب کے لیے مغفرت کی دعا کرنے والے او رجملہ مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔
پھر مؤلف مصباح الظلام نے بیان کیا ہے کہ شیخ سلیمان بن عبدالوہاب نے جنہیں خط لکھا، انہوں نے موصوف کو بڑا اچھا جواب دیا۔ مناسب ہے کہ اس کا تذکرہ کیا جائے، پھر اس کے بعد جواب کی تکمیل کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ 173 تا 186
شاہ عبدالعزیز کا اصلاحی کردار :
سقوط خلافت اسلامیہ عثمانیہ کے بعد 1343ھ میں شاہ عبدالعزیز مکہ میں داخل ہوئے۔ جب مدینہ او رجدہ کے علاقے ان کی قیادت میں نئی حکومت کے حدود میں آگئے تو ان کے خلاف کئی غیرملکی آوازیں اٹھیں او رانہوں نے ان پر کئی باتوں کی تہمت لگائی جن سے وہ برّی ہیں۔ کسی نے کہاکہ وہ وہابی مذہب کے ماننے والے ہیں جوپانچواں مذہب ہے۔ انہوں نے حرمین شریفین کا تقدس پامال کیا، مسجد نبوی پر بم برسائے اور عزتیں لوٹیں۔ وہ نبی ﷺ سے محبت نہیں رکھتے، آپ ﷺ پر درود نہیں بھیجتے۔ اس کے علاوہ دیگر کذب بیانیاں بھی کیں جو پہلے دہرائی جاچکی ہیں۔ اسی دوران علمائے اہل حدیث کاایک گروپ آیا جس نے حج کیا، مسجد نبوی کی زیارت کی او ران الزامات کو یکسر غلط پایا جو ان پر لگائے جارہے تھے اور ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیاجارہا تھا۔ یہ لوگ اپنے اطمینان کے بعد ہندوستان واپس آگئے تاکہ اتہامات کی تردید کریں او رآنکھوں دیکھی حقیقت حال بیان کریں۔ انہوں نے لکھنؤ اور دلّی کانفرنس کی تردید کے دو کانفرنسیں منعقد کیں۔ اخباروں نے ، جن میں اخبار اہل حدیث، اخبار محمدی او رروزنامہ زمیندار پیش پیش تھے، شاہ عبدالعزیز کی حقیقی کارگزاری بیان کی۔ انہوں نے حرمین شریفین میں جواصلاحات کیں او رحجاج کے آرام و راحت او رامن و سکون کے لیے جو اقدامات کیے، ان کی تفصیلات شائع کیں۔ مزید برآں ان کے عقیدے کی سلامتی او راللہ کے دین کے لیے ان کی غیرت و حمیت کے جذبات کا حال لکھا۔ شاہ عبدالعزیز جس عقیدے پر مضبوطی سے قائم تھے۔ اس کی وضاحت کے لیے انہوں نے خطوط بھی لکھے او رہر سال حجاج کے وفود کے روبرو اپنےفکر و عمل کے احوال بھی بیان کرتے رہے۔
(1) اس دوران انہوں نے یکم ذی الحجہ 1347ھ بمطابق 11 مئی 1929ء ک ومکہ میں شاہی محل میں ''یہ ہمارا عقیدہ ہے'' کے زیر عنوان ایک جامع تقریر کی۔ اس میں انہوں نے وضاحت سے کہا: لوگ ہمارا نام ''وہابی'' رکھتے ہیں او رہمارے مذہب کو پانچواں مذہب ٹھہرا کر ''وہابی'' کہتے ہیں، حالانکہ یہ ایک فاش غلطی ہے جو جھوٹے پروپیگنڈے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کی اشاعت خود غرض لوگ کیا کرتے تھے۔ ہم کسی نئے مذہب یا نئے عقیدے کے ماننے والے نہیں۔ او رمحمد بن عبدالوہاب کوئی نیا مذہب لے کر نہیں آئے، بلکہ ہمارا عقیدہ سلف صالحین ہی کا عقیدہ ہے ، ٹھیک وہی عقیدہ ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں آیا ہے او رجس پر سلف صالحین کاربند تھے۔
ہم ائمہ اربعہ کااحترام کرتے ہیں ،امام مالک، شافعی، احمد اور ابوحنیفہ رحمہم اللہ کے مابین ہم کوئی تفریق نہیں کرتے، یہ سب ہماری نظر میں محترم و معظم ہیں۔ ہم فقہ میں مذہب حنبلی کو اختیار کرتے ہیں۔
یہ وہ عقیدہ ہے جس کی دعوت دینے کے لیے شیخ محمد بن عبدالوہاب اٹھے اور یہی ہمارا بھی عقیدہ ہے۔ یہ عقیدہ اللہ عزوجل کی توحید پر مبنی ہے۔ ہر قسم کی آمیزش سے پاک ہے۔ ہر بدعت سے منزہ ہے۔ یہی وہ عقیدہ توحید ہے جس کی ہم دعوت دیتے ہیں او ریہی عقیدہ ہمیں آزمائش و مصائب سے نجات دے گا۔
رہی وہ تجدید جس کی بعض لوگ وکالت کرتے ہیں او رمسلمانوں کو فریب دیتے ہیں کہ اس تجدید میں ہمارے دکھوں کا علاج موجود ہے، میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ یہ تجدید دنیاوی او راخروی دونوں لحاظ سے ہر سعادت سے خالی ہے۔
یقیناً مسلمان جب تک کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی پابندی کرتے رہیں گے بھلائی میں رہیں گے۔ خالص کلمہ توحید کے بغیر ہم سعادت دارین حاصل نہیں کرسکتے۔
ہمیں وہ تجدید ہرگز نہیں چاہیے جو ہمارا عقیدہ او ردین ضائع کردے۔ ہمیں اللہ عزوجل کی رضا چاہیے او رجو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عمل کرے گا، اللہ اس کے لیےکافی ہے۔ وہ اس کا مددگار ہوگا۔ مسلمانوں کو ماڈرن بننے کی ضرورت نہیں۔ انہیں صرف سلف صالحین کے منہج کی طرف واپسی کی ضرورت ہے۔ جو چیز کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں آئی، اس پر مسلمانوں نے عمل نہیں کیا تو وہ گناہوں کی کیچڑ میں غرق ہوگئے۔ اللہ جل شانہ نے انہیں ذلیل و خوار کیا۔ وہ ذلت و رسوائی کی اس حد کو پہنچ گئے جس پر آج آپ انہیں دیکھ رہے ہیں، اگر وہ کتاب اللہ او رسنت رسول اللہ ﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تو جن آزمائشوں اور گناہوں میں آج مبتلا ہیں، وہ انہیں لاحق نہ ہوتے ، نہ وہ اپنی عزت و سربلندی کو ضائع کرپاتے۔
میرے پاس بے سروسامانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں اسی حالت میں نکلا، میرے پاس افرادی قوت بھی نہیں تھی۔ دشمن میرے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے لیکن اللہ کے فضل اور اس کی قوت سے مجھے غلبہ حاصل ہوا اور یہ سارا ملک فتح ہوگیا۔
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج مسلمان مختلف مذاہب میں بٹ گئے ہیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ غیر مسلم پردیسی ہماری مصیبت کا سبب ہیں۔ سب کچھ ہمارا کیا دھرا ہے۔ اپنی مصیبتوں کا سبب ہم خود ہیں، غور فرمائیے ! ایک غیر مسلم پردیسی کسی ایسے ملک میں جاتاہے جہاں کروڑوں مسلمان ہوتے ہیں او روہ تنہا اپنے کام میں لگا رہتا ہے تو کیا ایسا تن تنہا شخص لاکھوں کروڑوں افراد پر اثرا انداز ہوسکتا ہے جب تک کہ مقامی لوگوں میں سے کچھ لوگ اپنے افکار و کردار سےاس سے تعاون نہ کریں؟
نہیں، ہرگز نہیں، غیروں کے یہی معاونین ہماری مصیبتوں اور آزمائشوں کا سبب ہیں۔ ایسے مددگار ہی دراصل اللہ کے اور خود اپنے نفس کے دشمن ہیں، لہٰذا قابل ملامت وہ کروڑوں مسلمان ہیں ، نہ کہ غیر مسلم پردیسی۔ کوئی تخریب کار ایک مضبوط محکم عمارت میں تخریب کاری کی جتنی چاہے کوش کرلے جب تک عمارت میں شگاف نہ پڑے اور کدال گھسنے کی راہ ہموار نہ ہو، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ اگر وہ متفق و متحد او ریک جان رہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ ان کی صفوں میں سوراخ کردے او ران کا کلمہ منتشر کردے۔
اس ملک میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلامی جزیرہ نمائے عرب کو نقصان پہنچانے، اندر ہی اندر اس پر ضرب لگانے اور ہمیں تکلیف دینے کے لیے غیر مسلم تارکین وطن کی مدد کرتے ہیں، لیکن ان شاء اللہ جب تک ہماری نبض چل رہی ہے، ان کی یہ مذموم خواہش پوری نہیں ہوگی۔
مسلمان متفق ہوجائیں، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کریں، اس طرح وہ یقیناً کامیاب اور بعافیت رہیں گے۔ پس مسلمانوں کو چاہیے کہ آگے بڑھیں، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی محمدﷺ کی سنت میں جو کچھ آیاہے، اس پر عمل کرنے اور توحید خالص کی دعوت دینے کے لیے آپس میں متحد ہوجائیں تو میں بھی ان کی طرف قدم بڑھاؤں گا اور جو کام وہ کریں گے اور جو تحریرک لے کر وہ اٹھیں گے ، میں ان کےدوش و بدوش رہ کر ان کا ساتھ دوں گا۔
اللہ کی قسم! مجھے حکومت پسند نہیں۔ یہ اچانک میرے ہاتھ آگئی ہے۔ میں صرف رضائے الٰہی کا آرزو مند ہوں اور توحید کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔ مسلمان اسے مضبوطی سے پکڑنے کا عہد کریں اور متحد ہوجائیں۔ یوں میں ایک بادشاہ، لیڈریا ایک امیر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک خدام کی حیثیت سے ان کے شانہ بہ شانہ چلوں گا۔14
(2) 23 محرم 1348ھ بمطابق یکم جولائی 1929ء کو ایک تقریر میں انہوں نے فرمایا:
آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ بعض لوگ راہ ہدایت سے الگ ہوگئے ہیں، صراط مستقیم سے ہٹ گئے ہیں او ران چالوں کی وجہ سے جو بعض مدعیان اسلام چلتےہیں او راسلامی غیرت کا اعلان اور اظہار کرتے ہیں، شیطان کے پھندے میں پڑگئے ہیں۔ اللہ گواہ ہے کہ دین ان سے اور ان کی کارستانیوں سے بری ہے۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور برابر کہتا رہوں گا کہ جتنا خطرہ مجھے بعض مسلمانوں سے لاحق ہے، اتنا غیر مسلم تارکین وطن سے نہیں کیونکہ ان کا معاملہ عیاں ہے، ان سے بچنا ممکن ہے، ان کےحملوں کو روکنے، ان کی چال بازیوں کا ناکام بنانے کے لیے تیاری ممکن ہے، یہ لوگ اسلام کے نام پر ہم سے جنگ کرنےکی طاقت نہیں رکھتے، رہے بعض مسلمان تو یہ لوگ اب تک نجد او راہل نجد کے خلاف اسلام اور مسلمانوں کے نام پر چالیں چلتے ہیں اور اسلام کا نام لے کر اپنے مسلمان بھائیوں سے جنگ کرتے ہیں۔
حکومت عثمانیہ بحیثیت اسلامی حکومت لوگوں سے زیادہ قریب تھی۔ اس نے ہم سے اسلام اور مسلمانوں کے نام پر کئی شدید جنگیں کیں۔ ہر طرف سے ہمارا محاصرہ کرلیا۔ مدحت پاشا نے قطیف او راحساء کی جانب سے ہم سے جنگ کی، حجاز او ریمن کی طرف سے لشکر جرار کی چڑھائی کرادی، شمالی جانب سے عثمانی لشکر چڑھ آیا، ہمیں نیست و نابود کرنےاور اندر خانہ مارنے کے لیے ہر جانب سے محاصرہ کرلیا گیا۔ کیسی کیسی جھوٹی باتیں گھڑی گئیں، غلط باتوں کی کیسی دھول اڑائی گئی۔ دعوت حس کو تحریک وہابیت کانام دیا گیا۔ اسے نیا مذہب بتایا گیا۔ امام محمد بن عبدالوہاب پر تہمت لگائی گئی کہ وہ تحریک وہابیت کی ایک نئی بدعت لے کر آئے ہیں اور وہابیوں سے جنگ کرنا فرض ہے، پھر خوبصورت الفاظ سے کانوں کو دھوکے دیئے گئے۔ ہم سے جنگ کی گئی۔ بھولے بھالے او رکم عقل عوام کو ہمارے خلاف بہکایا گیا۔ وہ دھوکا کھاگئے اور حکومت کی باتوں میں آکر ہم سے دشمنی کرنےلگے۔ لیکن ان تمام باتوں کی باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح و نصرت عطا فرمائی۔ اس دور میں اوروں نے بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا، ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا او ردین ہی کے نام پر ہمیں ختم کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان پر کامیابی عطا فرمائی اور اپنے کلمے کو بلند و بالا رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے قوت توحید سے جو دلوں میں ہے اور طاقت ایمان سے جو سینوں میں ہے، ہماری مدد فرمائی۔
دانائے قلوب اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ توحید نے صرف ہماری ہڈیوں اور جسموں ہی پر قبضہ نہیں کیا بلکہ ہارے دلوں اور اعضاء و جوارح پر بھی اس کا قبضہ اور غلبہ ہوگیا ہے۔ ہم نے توحید کو شخصی مقاصد پورا کرنے او رمال غنیمت کے حصول کا آلہ کار نہیں بنایا بلکہ ہم اسے مضبوط عقیدے اور قوی ایمان کےساتھ تھامے ہوئے ہیں تاکہ اللہ ہی کا کلمہ بلند رکھا جائے۔15
یہ ہماری حقیر سی کوشش ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے التجا ہے کہ وہ اس عمل کو اپنی ذات کریم کے لیے خالص بنائے اور اس کے ذریعے طالبان علم و معرفت کو ہمیشہ نفع پہنچائے۔
والحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ وسلم علیٰ سیدنا و نبینا محمد وعلیٰ آله وصحبه أجمعین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس نوشت
احمد کامران (ریسرچ فیلو دارالسلام لاہور)
اب تک جو معروضات کی گئی ہیں، اُن کے مطالعے کے بعد درج ذیل حقائق پر پھر توجہ فرمایے اور اس پورے معاملے پر حتمی نظر ڈالیے۔
زندگی رب ذوالجلال کی بہت بڑی نعمت ہے او رنہایت عظیم الشان مقاصد کے لیے دی گئی ہے۔ جن لوگوں نے اس زندگی کو خودغرضی، ہیرا پھیری، الزام و دشنام، عیش و عشرت اور جسم و جنس کے مطالبوں پر ضائع کیا، وہ تاریخ کے کباڑ خانے میں پھینک دیے گئے....... اس کے برعکس وہ لوگ جو زندگی کو اللہ رب العزت کی امانت سمجھتے تھے، وہ ہر عیش سے منہ موڑ کر اور ہر صعوبت برداشت کرکے آخر دم تک مقاصد حسنہ کے لیے کام کرتے رہے او رتاریخ کے ایوان میں شہیدوں کی طرح سرخرو ہوکر لازوال ہوگئے۔ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب ایسے ہی منفرد انسانوں میںسے تھے۔وہ احیائے دین ہی کے لیے جیئے۔ اسمی اور رسمی مسلمانوں کو سچا اور کھرا مسلمان بنانے کے لیے دن رات جدوجہد کرتے رہے۔ طرح طرح کی مصیبتیں جھیلتے رہے او راسی مقدس جدوجہد میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمة و اسعة۔
شیخ موصوف بارہویں صدی ہجری میں منظر عام پر آئے۔ اس وقت امت مسلمہ کے فکر وعمل کا کیاحال تھا؟ یہ ایک دل دوز داستان ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے رب العزت کی بندگی فراموش کردی تھی۔ عقلوں پر نیند طاری تھی، ظنون و اوہام کی پیروی کی جارہی تھی، ذلت و مسکنت چھائی ہوئی تھی۔ہندوستان کے بے شمار مسلمانوں کی پیشانیاں قبروں اور آستانوں پر جھکی ہوئی تھیں۔ مصر میں بدوی و رفاعی، عراق میں سیدنا علی المرتضیٰ، حضرت حسین رضی اللہ عنہما ،امام ابوحنیفہ اور شیخ عبدالقادر جیلانی، یمن میں ابن علون، مکہ مکرمہ او رطائف میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ خاص طور پر اہل نجد اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ لوگوں کا بہت بڑا طبقہ صدیوں سے مشرکانہ عقیدوں کی زندگی بسر کرتا چلا آرہا تھا۔ جبیلہ میں حضرت زید بن خطاب ؓ کی قبر اور وادئ غیرہ میں حضرت ضرار بن ازورؓ کا قُبہ شرک و بدعت کے اعمال کا گڑھ بن گیاتھا۔ علاقہ بلیدة الفداء میں ایک پرانا درخت تھا، اس کے بارے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ یہ لوگوں کو اولاد عطا کرتا ہے۔ اس فاسد عقیدے کی وجہ سے بے شمار عورتیں آتی تھیں اور اس درخت سے چمٹی رہتی تھیں۔ درعیہ میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منسوب قبروں پر جاہلانہ عقیدت کے مظاہر عام تھے۔ اسی علاقے کے قریب ایک غار تھا، یہاں لوگ شرمناک افعال انجام دیتے تھے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر بھی شرک و بدعت کے افعال سے محفوظ نہیں تھے۔ مسجد نبوی میں عین رسول اللہ ﷺ کے مرقد کے قریب مشرکانہ صدائیں بلند کی جاتی تھیں اور غیر اللہ کے وسیلوں سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ ایک موقع پر شیخ محمد مسجد نبوی میں موجود تھے۔لوگ استغاثہ و استعانت کی صداؤں میں گم تھے اورعجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ اسی لمحے تدریس حدیث کے جلیل القدر معلم محمد حیات سندی جو شیخ محمد کے اتالیق بھی تھے، وہاں آگئے۔ شیخ نے جاہلانہ حرکتیں کرنے والوں کی طرف اُنگشت نمائی کی اور پوچھا: ان لوگوں کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ موصوف نے معاً سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی:
﴿إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٣٩﴾...سورۃ الاعراف
''یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ باطل ہے اور نیست و نابود ہوکر رہے گا۔''16
مذہبی حالت کے علاوہ عرب کی سیاسی اور سماجی حالت بھی خراب تھی۔ عثمانی ترکوں کی حکمرانی کا سکہ چل رہا تھا، نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ خانہ جنگی عام تھی۔ فقر و فاقہ مسلط تھا۔ ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے رقوم آتی تھیں او رمزاروں کے مجاوروں او رمتولیوں میں بانٹی جاتی تھیں۔ لوگوں کی گزر بسر مزاروں ، قبروں اور آستانوں کی مجاوری ، گداگری اور لوٹ کھسوٹ پر موقوف تھی۔ یہ حالات دیکھا کر شیخ کا حساس دل تڑپ اٹھا او روہ لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کی دعوت کا پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کی دعوت کا خلاصہ یہ ہے: (1) عقیدہ و عمل کی بنیاد صرف قر|آن وسنت کی تعلیمات پر رکھی جائے۔ (2) نماز، روزہ، حج اور ادائے زکاة کا التزام کیا جائے۔ (3) اللہ تعالیٰ کی تمام صفات صرف اسی کی ذات عالی سے وابستہ ہیں، ان میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ (4) ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے، پس اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہ مانگا جائے۔ (5) پختہ قبریں اور مقبرے نہ بنائے جائیں۔ (6) شراب، تمباکو، جوا، جادو، ریشم اور سونا نہایت سختی سے ممنوع ہے۔
شیخ کا جذبہ حق پرستی بڑا پُرجوش تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی دعوت ہر مسلمان کے رگ و ریشے میں نفوذ کرجائے اور برگ و بار لائے۔ انہوں نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ ان کے والد جناب عبدالوہاب اپنے نور نظر کی حق پرستی اور علمی وجاہتوں سے اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے خود نماز پڑھانی موقوف کردی او راپنے داعی الی اللہ بیٹے کو آگے بڑھاکر امامت کے مُصلے پر کھڑا کردیا۔ شیخ نے اپنے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور عیینہ کے رہنے والوں کے علاوہ دور و نزدیک کے تمام اکابر و اصاغر کو اصل دین کی طرف رجوع کی دعوت دی۔ موصوف کا خیال تھا کہ بااثر حکام کی مدد حاصل کیے بغیر دعوت کا کام آگے نہیں بڑھے گا، چنانچہ انہوں نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو قبول حق کی دعوت دی تو اس نے خوش سے قبول کرلی لیکن ملال کی بات یہ ہے کہ وہ اس عظیم دعوت پر استقامت نہ دکھا سکا۔ شیخ نے عثمان بن معمر کو اپنی رفاقت میں رکھ کر نماز باجماعت کا اہتمام کیا جو پہلے اس علاقے میں مفقود تھا۔ نماز نہ پڑھنے والوں او رجماعت کا التزام نہ کرنے والوں کے لیے سزائیں تجویز کیں۔ شرک و بدعت کے اڈوں کا صفیا کردیا۔ جن درختوں کی پوجا کی جاتی تھی وہ کٹوا دیئے او رجن قبروں اور قبوں کو ملجا و ماویٰ سمجھا جاتاتھا، انہیں ڈھا دیا۔ یہ کوئی انوکھا اقدام نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ نے بھی بہت سے دینی مصالح کی بناء پر وہ درخت کٹوا دیا تھا جس کی چھاؤں میں جناب رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعت رضوان ہوئی تھی۔ پکی قبروں اور قبوں کو مسمار کرنے کے بارے میں علامہ ابن حجر ہیثمی اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر میں فرماتے ہیں: وتجب المبادرة لھد مھاوھدم القباب التي علی القبور إذھي أضر من مسجد الضرار یعنی ''قبروں اور ان پر بنے ہوئے قبوں کو فوراً مسمار کردینا چاہیے ، اس لیے کہ یہ ''مسجد ضرار'' سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔'' واضح رہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب زیارت قبور کے خلاف نہیں تھے۔ وہ ان مشرکانہ رسوم او رخرافات کے خلاف تھے جو قبروں اور آستانوں پر روا رکھی جاتی تھیں۔ اسی موقع پر آپ نے تبلیغی رسالے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مرتے دم تک جاری رہا۔
عیینہ میں اصلاح عقیدہ و عمل کا کام آہستہ آہستہ پھیلتا جارہا تھا کہ ایک دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک لڑکی کسی کمزور لمحے میں جوانی کی بھول کا شکار ہوگئی۔ یہ لڑکی شادی شدہ تھی۔ اپنے گناہ پر بہت نادم ہوئی۔ شیخ کی خدمت میں پہنچی۔ سارا ماجرا سنایا اور سبیل نجات کی خواہش ظاہر کی۔ شیخ اس لڑکی کی روداد سن کر سناٹے میں آگئے۔ انہوں نے اس المیے کے تمام پہلوؤں کی چھان پھٹک کی او راس بدقسمت لڑکی پر بار بار جرح کرتے رہے۔ وہ ہٹ کی پکی تھی، ٹلی نہیں۔ رہ رہ کر اقرار گناہ کرتی رہی،چنانچہ شیخ نے سنگساری کا فیصلہ سنا دیا اور عثمان بن معمر نے مسلمانوں کی ایک جماعت کےساتھ اس لڑکی کو سنگسار کردیا۔
لڑکی کے سنگسار ہوجانے کی خبر سارے نجد میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔اس زمانے میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا۔ جس نے سنا دم بخود رہ گیا۔ خاص طورپر وہ مالدار لوگ بہت گھبرائے جو زر خرید عیاشیوں سے رتجگے کرتے تھے۔ اللہ اللہ ! رب العزت کےاحکام کی تعمیل میں کس قدر برکتیں اور خیر کثیر چھپی ہوئی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ان حکموں میں چھپی ہوئی زبردست حکمتیں اور فیوض و برکات بھی عیاں نہیں ہوتے۔ اس کااندازہ اسی سنگساری کے واقعے سے لگائیے کہ جونہی یہ واقعہ رونما ہوا سابقہ حالت یکسر بدل گئی اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت گھر گھر پھیل گئی ۔ پہلے کوئی شیخ کی بات پر توجہ نہیں دیتاتھا، اب سبھی شیخ کی طرف متوجہ ہوگئے اور ہر جگہ انہی کی تحریک کاچرچا ہونے لگا۔
ہوتے ہوتے یہ خبر حکام بالا کو پہنچی۔احساء و قطیف کا حاکم اعلیٰ سلیمان بن محمد عزیز حمیدی بدمعاش اور عیاش آدمی تھا۔ اسے یہ خبر سن کر بڑاغصہ آیا۔ اس نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو فوراً لکھا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ہاں ایک مطوع شرعی فیصلے لاگو کررہا ہے ۔ اسے فوراً قتل کردو ورنہ ہم تمہیں جو سالانہ بارہ سو دینار اور دیگر امداد بھیجتے ہیں، وہ بند کردی جائے گی۔ عثمان بن معمر یہ حکم نامہ پاکر سراسیمہ ہوگیا۔ اسے اپنے منصب او ردرہم و دینرا چھن جانے کا خطرہ لاحق ہوا تو اس نے شیخ محمد کو عیینہ سے باہر نکل جانے کا حکم دے دیا۔
جو لوگ اللہ رب العزّت کو اپنا دل دے دیتے ہیں، ان کےلیے اپنے وطن کے مالوفات بھی کوئی کشش نہیں رکھتے۔ وہ جہاں جاتے ہیں، نیکی کے بیج بوتے ہیں او راعمال صالحہ کی فصلیں تیار کرنے لگتے ہیں۔ شیخ نےجلا وطنی کا حکم صبر اور سکون سے سنا۔ وہ بڑی بے بسی اور تہی دامنی کی حالت میں عیینہ سےنکلے۔ درعیہ کا قصد کیا۔ بے آب و گیاہ صحرا کی وسعتیں تھیں، شدید گرمی تھی، کڑی دھوپ پڑ رہی تھی اور شیخ تن بہ تقدیر پیدل چلے جارہے تھے۔؎؎
لیے جاتے ہے کہیں ایک توقع غالب
جادہ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو
پیچھے پیچھے عثمان بن معمر کا فرستادہ سپاہی فرید انطفیری گھوڑے پرسوار چلا آتاتھا۔ اس نے ویرانے میں شیخ کو قتل کرنےکے لیےہاتھ اٹھانا چاہا مگر اللہ کی ایسی زبردست نصرت آئی کہ وہ اس مذموم ارادے سے خود ہی ڈر گیا اور الٹے پاؤں عیینہ بھاگ گیا۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب درعیہ پہنچے ۔ امیر درعیہ محمد بن سعود اور ان کےبھائیوں نے شیخ کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ موصوف نے محمد بن سعود کو بھی دعوت حق کی ترغیب دی جو اس نیک بخت انسان نے قبول کرلی۔ یوں شیخ محمد بن عبدالوہاب او رخاندان سعود میں باطل عقائد کے خاتمے او راللہ کے دین کے نفاذ کے لیے ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ'' کا معاہدہ طے پاگیا۔ اس کی برکت سے وہ عظیم الشان انقلاب ظہور میں آیا کہ خاندان سعود کو اللہ تعالیٰ نے پورے ملک کی فرمانروائی عطا کردی۔ اور سارے جزیرہ نمائے عرب سے شرک و بدعت اور مکروہات و خرافات کا خاتمہ ہوگیا۔ آج وہاں توحید کے زبردست حسنات و برکات کا کھلے عام مشاہدہ ہورہا ہے۔ الحمدللہ! دنیابھر میں کہیں اتنا امن و استحکام او رعدل و انصاف موجود نہیں جتنا سعودی عرب میں ہے۔ یہ سب کچھ شرک و بدعت کے خاتمے اور دین قیم کے نفاذ کا فیضان ہے۔
کسی دعوے یا دعوت کی سچائی پرکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے داعی کا عمل دیکھا جائے اور یہ جانچا جائے کہ وہ دنیاوی شان و شوکت ، مال و زر،اونچے عہدے اور نفسانی مطلوبات و مرغوبات کا دل دادہ تو نہیں ہے؟ اگر وہ ان چیزوں سے دور ہے تو یقیناً سچا ہے۔ اس کسوٹی پر شیخ محمد کو پرکھا جائے تو وہ کامل معنوں میں سچے، کھرے، مخلص، بےلوث او رمثالی مسلمان نظر آتے ہیں۔ بے داغ صداقت کی وجہ سے تمام اہل نجد شیخ محمد کے فدائی بن گئے تھے او رشیخ کے کیریکٹر کی بلندی اور دعوت کی سچائی کی بدولت سارا نجد شیخ کی زندگی ہی میں خاندان سعود کے زیر نگیں آگیاتھا۔ امیر محمد بن سعود اور ان کے جانشین امیر عبدالعزیز شیخ کی راہوں میں آنکھیں بچھاتے تھے او ران سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ مگر شیخ نے اپنے اس عالی رتبے سے کبھی کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ دعوت الی اللہ ہی کے فروغ کی دھن میں سرگرم عمل رہے۔ کسی اونچے منصب، عیش و راحت یا دنیاوی مال و دولت کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ انہوں نے اپنی اولاد کو بھی اعلیٰ درجے کی دینی تعلیم و تربیت دی او ردنیاوی جاہ و حشم اور مال و زر کی طمع سے دور رکھا۔ اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ آج بھی ان کی اولاد و احفاد سعودی عرب میں عظیم دینی خدمات انجام دے رہی ہے او رکسی دنیاوی منصب یا منفعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ شیخ کی اولاد سعودی عرب میں ''آل شیخ'' کے نام سے معروف ہے اور انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں جب بھی دعوت حق کا ظہور ہواہے، اس کا واسطہ تین طرح کے لوگوں سے پڑا ہے: (1) وہ لوگ جنہوں نےد عوت قبول کرلی۔ (2) وہ لوگ جنہوں نےقبول نہیں کی او رچُپ چاپ اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔ (3) اور تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے نہ صرف دعوت قبول نہیں کی بلکہ وہ داعی اور دعوت کے دشمن بن گئے اور آخر دم تک دعوت حق کا چراغ بجھانے کی مذموم کوشش کرتے رہے........ ہر داعی حق کی طرح شیخ محمد بن عبدالوہاب پر بھی یہی ماجرا گزرا۔ انہوں نے کوئی نئی چیز پیش نہیں کی۔ ان کی ساری دعوت، تمنا اور تڑپ صرف یہ تھی کہ مسلمان فضول باتیں ترک کردیں۔ قرآن و سنت کی طرف پلٹ آئیں اور سچے عملی مسلمان بن جائیں۔ بنابریں بارہویں صدی ہجری کی اتنی سچی، اتنی پاکیزہ اور اس قدر دل رُبا انقلابی دعوت کو دوسری صدی ہجری کی خارجی وہابیت سے منسوب کرنا حق و صداقت کی آخری توہین اور عہد جدید کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔
فرنگی سامراج، ترکی او رمصری مدتوں شیخ پر رکیک حملےکرتے رہے۔ ان کی کمک پر مامور یا مجبور علماء مزاروں کی آمدنی سے مالا مال پیر فقیر، ان کے مرید اور متوسلین بھی کم و بیش ڈھائی سو سال سےالزام و دشنام کے تیر برساتے آرہے ہیں۔ اگر ایک انسان کا قاتل پوری انسانیت کا قاتل ہے تو شیخ محمد کی دعوت حق پر جھوٹے الزامات لگانے او رسچائی کا خون کرنے والوں کو کیاکہاجائے گا؟ ؎
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
حوالہ جات1.موصوف ایران میں شہر ''
لنجہ'' کے علماء و معززین میں سے تھے۔
2.دیکھیے
محمد بن عبدالوہاب داعیة التوحید والتجدید في العصر الحدیث ''عصر حاضر میں توحید و تجدید کے داعی محمد بن عبدالوہاب، ص:16۔17
3.یہ خط شیخ محمد بن عبدالوہاب کے شخصی خطوط کی خصوصی قسم میں شائع کیا گیاہے، جو ڈاکٹر محمد بلتاجی، ڈاکٹر سید حجاب او رشیخ عبدالعزیز رومی کی تالیف ہے او ریہ پہلا خط ہے جو
الدرر السنیة 1؍28۔31 سے منقول ہے۔
4.الصافات 37 : 180، 181
5.الأنبیاء 21 : 28
6.البقرہ 2: 255
7.النجم 53 : 26
8.المدثر 74 : 48
9.الحشر 59 : 10
10.النحل 16 :105
11.الأنبیاء 21 :101
12.الحجرات 49 : 6
13.دیکھیے
شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمٰن کی مصباح الظلام ، ص : 104۔108
14.دیکھیے
المصحف والسیف جمع مجد الدین القابسی، ص :55، 56
15.دیکھیے المصحف والسیف، ص : 58، 59
16.الاعراف 7 : 139